حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر
1946ء میں حضرت مولانا نذیر احمد صاحب مبشر کی مغربی افریقہ سے کامیاب واپسی پر آپ کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے بھی شرکت فرمائی۔ اس تقریب میں حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب وکیل التبشیر نے حضرت مولانا صاحب کی غانا میں دینی مساعی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب اپنے والدین کے اکلوتے بچے تھے لیکن آپ کی والدہ نے آپ کو صرف اڑھائی ماہ کی عمر میں خدمتِ دین کے لئے وقف کردیا تھا۔ آپ نے قادیان میں اپنے اخراجات پر دینی تعلیم حاصل کی اور پھر غیرمشروط طور پر خود کو غانا میں خدمتِ دین کے لئے پیش کردیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کی درخواست کو یہ کہہ کر منظور فرمایا کہ ’’ جو لوگ شرطیں پیش کرتے ہیں ، کام کم کرتے ہیں‘‘۔ چنانچہ آپ 2؍فروری 1936ء کو غانا روانہ ہوئے اوروہاں ایک لمبے عرصہ تک خدمت کی توفیق پائی۔
ابتدا میں آپ کا معمول تھا کہ نماز عصر تک جماعتی خدمت میں وقت صرف کرتے اور پھر مغرب سے پہلے تک کچھ وقت کے لئے تجارت کرتے اورنہ صرف اپنا مالی بوجھ خود برداشت کرتے رہے بلکہ 1937ء میں جب حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کو سیرالیون میں مشن کھولنے کا ارشاد ملا تو ان کے ابتدائی اخراجات بھی تجارت کرکے آپ نے خود ادا کئے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک جنگ کی وجہ سے تجارت بند نہ ہوگئی۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مئی 1997ء میں حضرت مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی سیرت پر ایک مضمون آپکی بھانجی مکرمہ نبیلہ رفیق صاحبہ کے قلم سے شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ حضرت مولوی صاحب کے ہر فعل سے رضائے الٰہی حاصل کرنے کی تڑپ ملتی تھی۔ آخری عمر تک باوجود کمزوری کے روزے رکھتے اور نماز تہجد ادا کرتے رہے۔ قبولیت دعا کے بے شمار نشان آپ کی زندگی میں ظاہر ہوئے۔ آپ نے بارہا اپنی والدہ سے کہا کہ فلاں معاملہ میں میں خدا کے آگے جھک گیا اور اس وقت تک سر نہ اٹھایا جب تک یقین نہ ہوگیا یا اللہ میاں نے یقین نہ دلادیا کہ تمہاری بات قبول ہوگئی ہے۔
دعوت الی اللہ کا جنون تھا ۔ افریقہ میں قیام کے دوران کئی کئی دن آپ نے درختوں کی جڑیں ابال کر کھائیں یا بے ذائقہ صحرائی پودے ابال کر کھاتے رہے اور متعدد خطرناک اور دشوار گزار سفر کرکے دور دراز مقامات پر اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔ اس دوران کئی جان لیوا خطرات سے واسطہ پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو معجزانہ طور پر محفوظ رکھا۔
حضرت مولوی صاحب میں حد سے زیادہ سادگی، انکساری اور غریب مزاجی تھی۔ لباس اور جوتے سادہ اور پیوند لگے ہوتے اور جب تک یہ اشیاء پیوند لگنے کے قابل رہتیں، آپ کے زیر استعمال رہتیں۔… جو لوگ آپ کو دعا کے لئے کہتے آپ ان کے لئے بہت توجہ سے دعا مانگتے۔ تقریب چھوٹی ہوتی یا بڑی، دعوت کسی امیر نے دی ہوتی یا غریب نے کبھی بھی نہ ٹھکراتے۔ موروثی جائیداد کی تقسیم شروع کی تو پہلے اپنی بہنوں کا حصہ ان کے حوالہ کیا۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ میرا بیٹا شدید ملیریا کا شکار ہوگیا اور بخار تھا کہ اترنے کا نام نہ لیتا تھا۔ چنانچہ چھٹے دن ہم اسے لے کر ربوہ میں حضرت مولوی صاحب کے پاس آگئے اور حال عرض کیا۔ آپ نے اسی وقت دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی رات سے بچے کا بخار ٹوٹ گیا اور وہ روبہ صحت ہوگیا۔
۔ …٭ …٭…٭…۔
حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کی وفات پر جماعت احمدیہ غانا کی طرف سے جو قرارداد تعزیت پیش کی گئی وہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍دسمبر 1997ء میں شامل اشاعت ہے۔ قرارداد میں حضرت مولانا کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریر ہے کہ اگرچہ آپ کی امارت کے دور میں غانا اقتصادی لحاظ سے بڑی مشکل صورتحال سے دوچار تھا تاہم آپ کی محنت، ہمت، اعلیٰ منصوبہ بندی اور خداداد فراست کے نتیجہ میں جماعت کو غیرمعمولی ترقیات نصیب ہوئیں۔ غانا میں بہت سے احمدیہ سکولز قائم کئے گئے اور حکومت نے جماعت کو ایک تعلیمی یونٹ کے طور پر تسلیم کرلیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلم جماعت کو اس حیثیت میں تسلیم کیا گیا۔
آپ کے دور میں غانا کے دوردراز علاقوں میں پہلی مرتبہ احمدیت کا پیغام پہنچا اور بڑی بڑی جماعتیں قائم ہوئیں۔ اس ابتدائی دور میں آپ نے غانا میں احمدیہ پریس کے قیام کی منصوبہ بندی شروع کی۔ آپ کے دور میں سالٹ پانڈ کی احمدیہ مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا جو گنبدوں اور میناروں والی ملک کی پہلی مسجد تھی اور اس کی افتتاحی تقریبات میں غانا کے بانی صدر ڈاکٹر کوامے نکرومہ بھی تشریف لائے۔اسی طرح احمدیہ سینئر سیکنڈری سکول کماسی کا آغاز بھی آپ کے دور میں ہوا جس کی افتتاحی تقریب میں بھی ڈاکٹر نکرومہ نے شرکت کی اور اس سکول سے فارغ التحصیل طلبہ آج بڑے بڑے عہدوں اور وزارتوں پر فائز ہیں۔ سرکاری سطح پر صدر مملکت سمیت کئی اہم شخصیات کے آپ سے ذاتی تعلقات تھے چنانچہ وہ بلا تردد جماعتی تقریبات میں شامل ہوتے تھے۔ آپ کے دور میں ہی غانا سے جامعہ احمدیہ ربوہ کے لئے طلبہ بھجوانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
حضرت مولانا کے ایک صاحبزادے محترم ڈاکٹر نصیر احمد مبشر صاحب کو بھی مجلس نصرت جہاں کے تحت بطور میڈیکل ڈاکٹر کافی عرصہ خدمت کا موقعہ ملا ہے۔
حضرت مولانا بہت دعاگو انسان تھے اور آپ کی دعاؤں سے بارہا جماعت کے کئی مشکل مسائل حل ہوئے۔