حضرت مولوی فرزند علی خانصاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 25و 26؍اپریل 2001ء میں حضرت مولوی فرزند علی خانصاحب کے خود بیان کردہ واقعات ایک پرانی اشاعت سے منقول ہیں جنہیں آپ کے نواسے مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نے قلمبند کیا تھا۔
حضرت مولوی فرزند علی خانصاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں 20؍اکتوبر 1876ء کو پیدا ہوا۔ ابتدائی نو سال ضلع جالندھر کے ایک گاؤں صریحؔ میں گزرے۔ یہیں پانچویں تک تعلیم حاصل کی۔ پھر جالندھر شہر میں مقیم رہا اور انگریزی، فارسی اور عربی کی تعلیم پائی۔ میرے والد صاحب بچوں کے معاملہ میں بہت سخت تھے۔ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے مجھ پر سختی زیادہ ہی ہوتی جس کا فائدہ بعد میں محسوس ہوا۔ چھ سال کی عمر میں انہوں نے مجھے نماز سکھانی شروع کی اور نماز کی تاکید بھی فرماتے۔ شروع ہی سے وہ شرک کو سختی سے ردّ کرنے والے تھے۔
1890ء میں انٹرنس کرکے مَیں سرکاری ملازم ہوگیا۔ قریباً ڈیڑ ھ سال بعد جب میری تبدیلی کلکتہ میں انسپکٹر جنرل آف آرڈیننس کے دفتر میں ہوئی تو وہاں دو تین انگریزوں کے علاوہ باقی سب بنگالی ہندو تھے۔ اُن کے لئے مَیں برداشت سے باہر تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے انگریز افسر حسن سلوک کرتے رہے اور مَیں ترقی کے آخری درجہ تک پہنچ گیا پھر میری تبدیلی فیروزپور قلعہ میں بطور ہیڈکلرک کردی گئی۔ اُس وقت مسلمانوں کو عموماً ملازمت نہیں دی جاتی تھی۔ میری کوشش سے اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور کئی مسلمان کلرک بھرتی کئے گئے۔اگرچہ اس وجہ سے بے شمار شکایتیں بھی ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی۔ 1924ء میں مجھے ترقی دے کر راولپنڈی بھیج دیا گیا۔ اپنی ملازمت کے دوران مجھے بہت سے غرباء کی خاص خدمت کی توفیق بھی عطا ہوئی۔
1902ء کے بعد مجھے انجمن حمایت اسلام کیلئے بھرپور کام کرنے کا موقع ملا۔ اسی سال میرے والدین نے احمدیت قبول کرلی۔ 1907ء میں جب مَیں فیروزپور میں تھا تو مجھے بھی احساس ہوتا تھا کہ مَیں جلد یا بدیر احمدی ہوجاؤں گا۔ جہاں جہاں اختلاف تھا وہاں تحقیق مجھے احمدیت کے زیادہ قریب کردیتی صرف وفات مسیح والا مسئلہ حل نہیں ہورہا تھا۔ میرے ماموں خانصاحب برکت علی صاحب ؓ نے میرے نام رسالہ ریویو بھی جاری کروادیا۔ خاندان میں کئی بار طویل بحث مباحثہ بھی ہوا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ ایک بار ایسی ہی مجلس ہورہی تھی کہ والد صاحب نے سورۃالمائدہ کی آیت میرے سامنے رکھ دی۔ مَیں نے اُس آیت کے بارہ میں مولوی ابراہیم سیالکوٹی صاحب سے پوچھا لیکن وہ کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے سکے اور اس طرح یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔
1907ء میں جلسہ سالانہ پر مجھے احمدی دوستوں نے قادیان لے جانے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی سے مَیں تیار نہ ہوا۔ 1908ء میں ایک مجلس میں ایک غیرازجماعت نے جو حضورؑ کو ذاتی طور پر جانتے تھے، حضورؑ کے ذاتی اوصاف کے متعلق ذاتی شہادت دی جس سے مجھے بہت تسلّی ہوئی اور دسمبر میں مَیں جلسہ سالانہ قادیان میں بھی شامل ہوا۔ جلسہ میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل کی دو تقاریر سنیں جن کی روشنی میں واپس آکر مَیں نے فیروزپور میں مسلمانوں کی فلاح کے لئے یہ کام شروع کیا کہ متموّل مسلمانوں سے چندہ جمع کرکے غریب مسلمانوں کو تعلیمی اخراجات مہیا کئے گئے۔ انجمن بہت کامیاب رہی اور مجھے سیکرٹری بنادیا گیا۔ بعد میں احمدیت قبول کرنے پر مَیں نے استعفیٰ پیش کیا لیکن انجمن کی مجلس عاملہ نے جس میں 35 دیگر افراد تھے، باوجود احمدی ہونے کے مجھ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا چنانچہ مزید کئی ماہ تک مَیں انجمن کا کام کرتا رہا پھر تین ماہ کی چھٹی لے کر قرآن کریم پڑھنے قادیان چلا گیا۔
اس سے قبل 1909ء میں جماعت احمدیہ فیروزپور نے ایک جلسہ کیا جس میں غیراحمدی ہونے کے باوجود مَیں بطور داعی شامل ہوا۔ اس پر غیراحمدی سخت برہم ہوئے اور انہوں نے بھی ایک جلسہ کیا اور مجھے بطور داعی اُس میں بھی شامل کرلیا۔ چند روز بعد میری صدارت میں ہونے والے احمدیوں کے ایک جلسہ کے دوران مَیں نے یکم اگست 1909ء کو احمدیت قبول کرنے کا اعلان کردیا۔ اس پر جماعت کو بہت خوشی ہوئی اور یہ اطلاع بذریعہ تار حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کو دی گئی۔ مَیں اُس وقت حقّہ پیا کرتا تھا۔ جلسہ کے بعد چند دوست حقّہ پینے لگے تو مجھے یہ علم ہونے پر کہ حضرت مسیح موعودؑ نے حقّہ حرام تو نہیں ٹھہرایا لیکن ناپسند فرمایا ہے، مَیں نے اُسی وقت حقّہ ترک کردیا۔
قبولِ احمدیت سے اگلی صبح تہجد کے وقت میری آنکھ کھل گئی تو نفس اور ضمیر کے درمیان یہ کشمکش شروع ہوگئی کہ ضمیر کا تقاضا تھا کہ بیعت کے بعد اب تہجد بھی پڑھو۔ نفس کہتا تھا کہ بے شک یہ مستحسن ہے لیکن فرض نہیں … آخر ضمیر غالب آگیا کہ آج تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں جگا دیا ہے اس لئے نفل ضرور پڑھنے چاہئیں۔ مَیں نے یہ واقعہ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی خدمت میں لکھا تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’آپ انشاء اللہ روحانی لحاظ سے بہت ترقی کریں گے‘‘۔
میرے احمدی ہونے پر مخالفین نے کئی جلسے کئے۔ ایک جلسہ میرے مکان کے باہر بھی ہوا لیکن مَیں نے حضورؓ کی اس نصیحت پر کہ ’’دعوت الی اللہ کیا کریں لیکن مناظروں سے حتی الوسع بچیں‘‘ جلسوں کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ تاہم مجھے دو مناظرے کرنے پڑے ایک غیرمبائعین کے ساتھ 1920ء میں اور ایک مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ۔ دونوں میں خدا تعالیٰ نے احمدیوں کو شاندار فتح عطا فرمائی۔ مخالفین کی ایک شکایت پر میرے خلاف محکمانہ انکوائری بھی کروائی گئی جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ یہ شکایت مذہبی تعصب کا نتیجہ ہے۔
بیعت کرنے کے بعد جب مَیں پہلی بار قادیان گیا تو میری موجودگی میں ایک دوست نے حضورؓ سے عرض کیا کہ خانصاحب قرآن شریف پڑھنا چاہتے ہیں اس لئے کسی عالم کو اِن کے ساتھ بھیج دیا جائے۔ حضورؓ نے فرمایا کہ اگر عالم بھیجا جائے تو اُس کی حیثیت خادمانہ ہوگی ، اُس سے یہ کیا فیض حاصل کرسکیں گے۔ چنانچہ مَیں چھٹی لے کر قادیان چلا گیا۔ ابھی حضورؓ نے ایک پارہ بھی مکمل نہیں کروایا تھا کہ گھوڑے سے گرنے کا حادثہ پیش آگیا۔ پھر بقیہ قرآن مجھے حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحبؓ اور حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے پڑھایا۔ حضرت مرزا صاحبؓ سے تفسیر پڑھ کر میرے دل میں یہ بات گڑ گئی کہ آئندہ آپ ہی خلیفہ ہوں گے۔
میری دو شادیاں ہوئیں۔ 1913ء میں مجھے اپنے والد صاحب کے ہمراہ حج بیت اللہ کی توفیق بھی ملی۔ 1928ء میں ریٹائرڈ ہونے پر حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مجھے بطور امام مسجد فضل لندن مقرر فرمایا۔ انگلستان سے 1933ء میں واپس قادیان پہنچا تو ناظر امور عامہ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ 1936ء میں ناظر بیت المال مقرر ہوا اور مئی 1946ء کو ناظر اعلیٰ مقرر ہوا۔ مئی 1946ء میں ہی مجھ پر فالج کا حملہ ہوا لیکن حضورؓ کے ارشاد پر میری صدر انجمن کی ملازمت جاری رہی۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے لاہور اور پھر پشاور میں مقیم رہا۔ دسمبر 1949ء میں حضورؓ کے ارشاد پر ربوہ آکر ناظر بیت المال کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ربوہ میں 26؍نومبر 1954ء کو فالج کا دوبارہ حملہ ہوا جس کی وجہ سے معذوری کی سی حالت پیدا ہوگئی۔
………………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍جون 2001ء میں حضرت مولوی فرزند علی خانصاحبؓ کے نواسے مکرم شیخ ناصر احمد خالد صاحب اپنے نانا کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ اپنے انگلستان کے قیام کے دوران مسلمانوں کے حقوق کے لئے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ گول میز کانفرنسوں کے دوران اس قدر فعال تھے کہ اُس وقت کی کئی تصاویر میں آپ بھی وفد کے اراکین کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ آپ لندن روٹری کلب کے ممبر تھے اور چیدہ چیدہ ممبران پارلیمینٹ سے بھی آپ کے قریبی تعلقات تھے۔ ایک دفعہ غلام رسول مہرؔ نے تحریر کیا : ’’خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب امام مسجد فضل نے لندن میں بیٹھ کر ہندوستان کی آزادی کے لئے بہت کام کیا ہے۔‘‘
مشہور مؤرخ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی بھی آپ کے بہت مداح تھے۔ وہ لندن میں اپنے زمانہ طالبعلمی کے دوران مسجد فضل بھی جایا کرتے تھے جسے وہ پٹنی ماسک کے نام سے اپنی تحریر میں یاد کرتے تھے۔
آپ ایک کامیاب ناظر بیت المال تھے۔ انجمن کی مالی حالت کے باعث کارکنوں کو پہلے وقت پر گزارہ الاؤنس نہ مل سکتا تھا۔ جب حالات بہتر ہوگئے تو ہر مہینہ کی یکم کو رقم ملنے لگی۔ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحبؓ فرماتے تھے کہ اب جب یکم کو تنخواہ مل جاتی ہے تو مَیں ہاتھ اٹھاکر خان صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں۔