حضرت میاں الٰہی بخش صاحبؓ مالیر کوٹلہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اپریل 2007سے حضرت میاں الٰہی بخش صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ کا مختصر ذکر خیرشامل اشاعت ہے۔
حضرت میاں الٰہی بخش صاحب آف مالیر کوٹلہ فوج میں ملازم رہ چکے تھے اور حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ سے بطور اعانت ماہوار وظیفہ پاتے تھے۔ آخری عمر میں حج کی سعادت حاصل کی۔ واپسی پر قادیان آئے تو یہاں بیمار ہوگئے۔ حضرت مسیح موعودؑ آپؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے۔
حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ فرماتے ہیں: ایک شخص ضیعف العمر اپنی موت سے چند روز پہلے اپنے وطن مالیر کوٹلہ جانے کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا اب تم ضیعف ہوگئے اور بیمار بھی ہو مت جاؤ، زندگی کا اعتبار نہیں۔ اُس نے کہا تُو خدا کا سچا نبی ہے … میں تجھ پر ایمان لایا ہوں اور صدق سے تجھے خدا کا نبی مانا ہے۔ میں تیری نافرمانی اور حکم عدولی کو کفر سمجھتا ہوں۔ باربار یہ کہتا تھا اور دایاں ہاتھ اٹھا کے اور انگلی سے آپؑ کی طرف اشارہ کر کے بڑے جوش سے کہتا تھا اور آپ اس کی باتوں کو سن کر ہنستے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ بس اب آرام کرو اور یہیں رہو، جانے کا نام مت لو، اس کی آنکھوں سے پانی جاری تھا یہ کہتا ہوا مہمان خانہ کو لَوٹا کہ اللہ کے نبی کا فرمانا بچشم منظور ہے۔
حضورؑ نے حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ کے نام ایک مکتوب میں فرمایا: ’’آج میں میاں الٰہی بخش صاحب کو خود ملا تھا وہ بہت مضطرب تھے کہ کس طرح مجھ کو کوٹلہ میں پہنچایا جاوے اور کہتے تھے کہ کوٹلہ میں میری پنشن مقرر ہے، جولائی سے واجب الوصول ہوئی۔ میں نے اُن کے بیش اصرار پر تجویز کی تھی کہ ان کو ڈولی پر سوار کر کے اور ساتھ ایک آدمی کر کے پہنچایا جاوے۔ مگر پھر معلوم ہوا کہ ایسا سخت بیمار جس کی زندگی کا اعتبار نہیں وہ بموجب قانون ریل والوں کے ریل میں سوار نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اس وقت میں نے ڈاکٹر محمد اسماعیل خانصاحبؓ کو ان کی طرف بھیجا ہے تا ملائمت سے ان کو سمجھاویں کہ ایسی بے اعتبار حالت میں ریل پر وہ سوار نہیں ہوسکتے اور بالفعل دو روپیہ ان کو بھیج دیے ہیں کہ اپنی ضروریات کیلئے خرچ کریں اور اگر میرے رو برو واقعہ وفات کا ان کو پیش آگیا تو میں انشاء اللہ القدیر اس قبرستان میں ان کو دفن کراؤں گا‘‘۔
اس خط لکھنے کے پانچ دن بعد یعنی 9 ؍اپریل 1906ء کو آپ بعمر اسّی سال وفات پاگئے۔ حضورؑ نے جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے آپؓ دوسرے شخص تھے۔ آپؓ بڑے دیندار آدمی تھے اور اپنا مال و جان سب اللہ کی راہ میں قربان کر چکے تھے۔