حضرت میاں محمد خان صا حب کپور تھلویؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جنوری 2009ء میں حضرت میاں محمد خانصاحب کپورتھلویؓ کے بارہ میں ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ آپؓ کے بارہ میں ایک مضمون قبل ازیں 2؍جنوری 1998ء کے ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے اسی کالم کی زینت بن چکا ہے۔
حضرت میاں محمد خانصاحبؓ کپور تھلہ کی پاکیزہ جماعت کے پاک ممبر تھے۔ حضرت مسیح موعود ؑ کے فدائی، عاشق اور نہایت مخلص رفیق تھے۔ حضور کے دعویٰ بیعت سے قبل ہی حضور کی صداقت میں ایک یقین رکھتے تھے۔ 1888ء میں بشیر اول کی وفات پر مخالفین نے شور مچایا لیکن آپ ذرا بھی متزلزل نہیں ہوئے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’میاں محمد خان صاحب بھی بہت پرانے مخلصین میں سے تھے… خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہی شخص ہے جس نے مجھے شکست دی ہے اور وہ میاں محمد خان صاحب ہیں۔ بشیر اول کے فوت ہونے پر لوگوں نے حضرت صاحب کو بہت سے خطوط لکھے۔ مولوی صاحب نے لکھا کہ اگر اس وقت میرا اپنا بیٹا مرجاتا تو میں کچھ پرواہ نہ کرتا مگر بشیر اول فوت نہ ہوتا اور لوگ اس ابتلا سے بچ رہتے اور ساتھ ہی لکھا کہ اگر اس قسم کا کوئی اور خط بھی آیا ہو تو اس سے آگاہ فرماویں۔ اس پر حضرت صاحب نے مولوی صاحب کو دو خط بھیجے جن میں سے ایک میاں محمد خان صاحب کا تھا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ اگر میرا ہزار بیٹا ہوتا اور وہ میرے سامنے قتل کر دیا جاتا تو مجھے اس کا افسوس نہ ہوتا ہاں بشیر کی وفات سے لوگوں کو ابتلا نہ آتا۔ مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں یہ خط پڑھ کر سخت ہی شرمندہ ہوا‘‘۔
جب حضور نے دعویٰ ماموریت فرمایا تو آپ بھی کپورتھلہ کے دیگر احباب کے ساتھ لدھیانہ حاضر ہوئے اور بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپ کا اخلاص، اطاعت اور سیرت، جماعت کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔ حضرت اقدس نے ازالہ اوہام میں آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’حبی فی اللہ میاں محمد خان صاحب ریاست کپورتھلہ میں نوکرہیں۔ نہایت درجہ کے غریب طبع، صاف باطن، دقیق فہم، حق پسند ہیں اور جس قدر انہیں میری نسبت عقیدت وارادت و محبت و نیک ظن ہے، مَیں اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ مجھے ان کی نسبت یہ تردد نہیں کہ ان کے اس درجۂ ارادت میں کبھی کچھ ظن پیدا ہو بلکہ یہ اندیشہ ہے کہ حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے۔ وہ سچے وفادار اور جاں نثار اور مستقیم الاحوال ہیں۔ خدا ان کے ساتھ ہو۔ ان کا نوجوان بھائی سردار علی خاں بھی میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہے۔ یہ لڑکا بھی اپنے بھائی کی طرح بہت سعید و رشید ہے۔ خدا تعالیٰ ان کا محافظ ہو۔‘‘
حضرت اقدس کے ساتھ تعلق میں فدایانہ رنگ رکھتے تھے اس لئے قادیان کی روزانہ خبر چاہتے تھے۔ ایک بار حضرت منشی اروڑے خان صاحب سے کہنے لگے منشی جی! یا تو اب ہم کفن پہن لیتے ہیں اور قادیان میں چل بیٹھتے ہیں یا کچھ ڈاک کا انتظام کرو۔ قادیان کی ڈاک نہیں آتی تو سخت تکلیف ہوتی ہے۔ اس پر باہم مشورہ کیا گیا ایک دوست نے کہا اونٹ خریدو جو صبح جاوے اور شام کو واپس آئے۔ اس پر اونٹ منگوائے گئے اور ان کی دوڑیں بھی دیکھی گئیں مگر برسات کی دقت کی وجہ سے یہ فیصلہ ہوا کہ یہ انتظام ٹھیک نہیں۔ پھر یہ تجویز ہوئی کہ کسی آدمی کو قادیان بھیج دیا جائے جو روزانہ خط لکھا کرے۔ اس پر حضرت منشی فیاض علی صاحب یکے از 313 نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ چنانچہ وہ قادیان چلے گئے۔ ان کے گھر والے حضرت محمد خان صاحب کے گھر پر آرہے۔ جب تک وہ لوگ مہمان رہے آپ اپنے مکان کے اندرنہیں گئے دروازہ سے بات کر لیتے تھے۔ مگر یہ طریق بھی زیادہ دیر نہ چل سکا اور حضرت منشی صاحب واپس آگئے۔ آپ نے فرمایا تکلیف بھی بڑھ گئی مگر میرا مقصد بھی پورا نہ ہوا۔‘‘
آپ کی اولاد بھی اخلاص و فدائیت میں آپ ہی کے نقش قدم پر تھی۔ آپ کی یکم جنوری 1904ء کو وفات ہوئی۔ مارچ 1956ء میں حضرت مصلح موعود نے اپنے صاحبزادے محترم مرزا اظہر احمد صاحب کا نکاح حضرت میاں محمد خان صاحب کے بیٹے کی نواسی کے ساتھ پڑھا جس میں فرمایا: ’’خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود ؑ کے پرانے صحابی تھے اور آپ سلسلہ سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ جب وہ یکم جنوری 1904ء کو فوت ہوئے تو دوسرے دن حضرت مسیح موعودؑ مسجد میں صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے اور فرمایا آج مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے‘‘۔ حاضرین مجلس نے کہا کہ حضور کے اہل خانہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ پھر یہ الہام کس شخص کے متعلق ہے؟ آپؑ نے فرمایا خان محمد خان صاحب کپورتھلوی کل فوت ہوگئے ہیں اور یہ الہام مجھے انہی کے متعلق ہوا ہے۔ گویا خدا تعالیٰ نے الہام میں انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا ہے۔ پھر ان کے متعلق یہ الہام بھی ہوا کہ’’اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا‘‘۔ بہرحال ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ کاحضرت مسیح موعود ؑ سے تعزیت کرنا اور یہ کہنا کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ روحانی رنگ میں اہل بیت میں ہی شامل تھے۔… کس طرح ایک زمانہ میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی زبان سے ایک پیشگوئی فرمائی اور پھر اسے پورا کیا۔ 1904ء میں ایک شخص کے متعلق اس نے الہاماً فرمایا کہ وہ اہل بیت میں سے ہے۔ … اور اس طرح صرف روحانی طور پر ہی نہیں جسمانی طور پر بھی وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے اہل بیت میں شامل ہوجائیں گے‘‘۔