حضرت میاں ﷲ رکھا صاحب ؓ آف ترگڑی

روزنامہ الفضل ربوہ 22فروری 2012ء میں مکرم کرنل (ر) میاں عبدالعزیز صاحب نے اپنے دادا حضرت میاں اللہ رکھا صاحب ؓ کے حالاتِ زندگی رقم کئے ہیں۔
حضرت میاں اللہ رکھا صاحبؓ 1875ء میں ضلع گوجرانوالہ کے گاؤں ترگڑی میں پیداہوئے جہاں آپ کے بزرگ ضلع امرتسر سے آکر آباد ہوئے تھے ۔ بہت چھوٹی عمر میں ہی والدین کے سایہ سے محروم ہو گئے اور بچپن بہت تلخ گزرا۔ جوانی میں بہت شہزور تھے اور کلائی پکڑنے، کبڈی ، کُشتی اور سہاگہ اٹھانے میں آپ کا کوئی ثانی علاقہ بھر میں نہیں تھا ۔ قریباً پچیس سال کی عمر میں 1901-1902ء میں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی سعادت نصیب ہوئی اور ساتھ ہی حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی سے دوستی بھی ہوگئی۔ اس دوستی کے نتیجہ میں آپؓ کا ایمان بھی مضبوط ہوا اور تبلیغ میں آسانی بھی ہوگئی۔ آپؓ کی تبلیغ سے گاؤں کے دو تین گھر جلد ہی احمدی ہوگئے۔ پھر ان احمدیوں نے مسجد بنانے کے لئے گاؤں سے باہر ایک جگہ خریدی۔ مگر جونہی بنیاد کی کھدائی شروع ہوئی تو سخت مخالفت کا آغاز ہوگیا۔ پہلے گدھوں کو وہاں باندھ کر گندگی ڈال دی گئی اور پھر ایک ہجوم لاٹھیاں لے کر وہاں پہنچا اور تعمیر روکنے کا حکم دیا۔ حضرت میاں اللہ رکھا صاحبؓ بھی تیار تھے۔ قریباً دو گھنٹے مقابلہ ہوا اور آپؓ نے کئی مخالفین کو جب زخمی کردیا تو وہ چلے گئے اور پھر مسجد آرام سے مکمل ہوگئی۔
مسجد کی تعمیر رُکوانے کے لئے جو مخالفین آئے اُن میں حضرت میاں صاحبؓ کے قریبی دوست مولوی نور محمد صاحب بھی شامل تھے۔ بعدازاں آپؓ اُن کو کسی بہانے سے لاہور اور وہاں سے قادیان لے گئے۔ قادیان میں اُن کی ملاقات حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی سے کروائی گئی تو انہوں نے بھی بیعت کرلی۔ وہ بھی ایک مضبوط اور بہادر آدمی تھے۔ چنانچہ اُن کے قبول احمدیت سے گاؤں میں جماعت مضبوط ہوگئی۔
حضرت میاں اللہ رکھا صاحبؓ بہت پُرجوش داعی الی اللہ تھے۔ ٹھیکیداری کرتے تھے۔ روزانہ شام کو کئی مزدور آپؓ کے گھر اُجرت لینے آیا کرتے تھے۔ آپؓ اُن کو بٹھاکر پہلے حضرت مسیح موعودؑ کی کسی کتاب کا درس دیا کرتے تھے اور پھر سب کو ادائیگی کی جاتی اور ہر ٹھیکہ کے دوران دو چار بیعتیں ہو جایا کرتی تھیں ۔
حضرت میاں صاحبؓ والدین کی کم سنی میں وفات کی وجہ سے سکول تو نہ جاسکے لیکن حصول علم کا شوق انتہا کا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ذہن رسا عطا فرمایا تھا۔ لہٰذا سلسلہ کے اخبار اور کتب پڑھنا سیکھ لیا۔ پنجابی صوفیا کا بہت سا کلام آپؓ کو زبانی یاد تھا۔ سفر میں الفضل اخبار ساتھ رکھتے اور دوسروں کے سامنے پڑھتے تھے۔ اس وجہ سے کبھی جھگڑا بھی ہوجاتا لیکن سعید روحیں احمدیت کی آغوش میں آجاتیں۔
حضرت مولوی راجیکی صاحبؓ نے اپنے دوست حضرت میاں اللہ رکھا صاحبؓ کا ذکر حیات ِقدسی میں بھی کیا ہے۔ اُن کے بیٹے مولانابرکات احمد صاحب راجیکی کئی سال آپؓ کے پاس لاہور میں رہے۔ حضرت مولوی صاحب بھی جب سلسلہ کے کاموں کی وجہ سے کسی ایسے شہر میں جاتے جہاں حضرت میاں صاحبؓ نے ٹھیکہ لیا ہوتا تو ان کے پاس ہی قیا م فرمایا کرتے تھے۔ اسی طرح ایک دفعہ سیالکوٹ میں تشریف لائے تو حضرت میاں اللہ رکھا صاحبؓ کی اہلیہ محترمہ نے اُن سے گِلہ کیا کہ آپ اتنے بڑے دعا گو اور مولانا سمجھے جاتے ہیں لیکن ہمارا کوئی بچہ نہیں بچتا اور چند دن سے زیادہ زندہ نہیں رہتا۔ اس پر حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے اُن کے سر پہ ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اﷲ تمہیں ایک بیٹا دے گا جو نیک صالح، لمبی عمر پانے والا ہوگا۔ اس واقعہ کے بعد محترم میاں عبدالحفیظ صاحب پیدا ہوئے جن کے ذریعہ وہ باتیں پوری ہوئیں۔ اگرچہ پھر تین مزید بچے بھی پیدا ہوئے لیکن زندہ نہ رہے۔
حضرت مولوی غلام رسول صاحبؓ راجیکی کئی مناظروں میں حضرت میاں صاحبؓ کو باوجود آپ کے اَن پڑھ ہونے کے اپنے ہمراہ لے جایا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ بعض اوقات فساد ہو جاتا ہے اور ایسے وقت میں میاں اللہ رکھا بعض اوقات اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر میری حفاظت کرتا ہے اور صورت حال چاہے کتنی بھی خطرناک ہو جائے یہ پیچھے نہیں ہٹتا۔
خلافتِ ثانیہ کے موقع پر جماعت پر ایک ابتلاء آیا۔ حضرت میاں اللہ رکھا صاحبؓ کے چونکہ مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب سے ذاتی تعلقات تھے اس وجہ سے آپؓ کی طبیعت ان کی طرف مائل تھی لیکن ایک بے چینی بھی تھی جو کسی طرح کم نہیں ہوتی تھی۔ آخر آپؓ نے گڑِگڑِا کر دعا کی تو خواب دیکھا کہ آپؓ مذکورہ دونوں حضرات کے ہمراہ احمدیہ بلڈنگس کی طرف پیدل جارہے ہیں۔ آپؓ نے دیکھا کہ اُن دونوں کی قمیض ناف سے نیچے کٹی ہوئی ہے جس سے آپؓ پریشان ہوئے اور اس کی وجہ پوچھنے ہی والے تھے کہ وہ دونوں بائیں طرف ایک گلی میں مڑ گئے۔ آپؓ نے کہا کہ یہ گلی تو آگے سے بند ہے اور ہمیں تو سیدھا جانا ہے۔ اس پر دونوں نے کہا کہ آپ کو نہیں پتہ ہم ٹھیک راستے پر جارہے ہیں۔ یہ خواب دیکھ کر اگلی ہی صبح آپؓ نے قادیان جاکر حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کرلی۔
حضرت میاں صاحب نے 1933ء میں لاہور کا محلہ محمد نگر بسایا تھا۔ پھر آپؓ کی تحریک پر پارٹیشن کے بعد لاہور کی پہلی احمدیہ مسجد بھی محمد نگر میں بن گئی۔ آپؓ نے 75سال کی عمر میں اس مسجد کی تعمیر میں بھرپور حصّہ لیا۔ آپؓ اس مسجد کے ڈیزائنر بھی تھے معمار بھی اور مزدور بھی۔
محمد نگر ایک زمانے میں احمدیوں کا محلہ بھی کہلاتا تھا۔ 1953ء میں یہاں احمدیوں کے 36 گھرانے آباد تھے اور فسادات کے دوران غیر احمدی نوجوانوں نے بھی احمدی گھروں کے باہر پہرے دئیے۔
حضرت میاں اللہ رکھا صاحب کی وفات1960ء میں ہوئی اور محمد نگر میں ہی دفن ہوئے۔ احمدیوں کے علاوہ غیرازجماعت لوگوں نے بھی آپ کا جناز ہ پڑھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں