حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 7؍اکتوبر2024ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے2013ء نمبر1 میں مکرمہ بدرجری اللہ صاحبہ کے قلم سے حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی سیرت شامل اشاعت ہے۔

حضرت میرمحمداسحٰق صاحبؓ 8؍ستمبر1890ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے جہاں آپؓ کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ سرکاری ملازم تھے۔ آپؓ کی ہمشیرہ حضرت اماں جانؓ نے آپؓ کو دودھ پلایا۔ اس طرح آپؓ حضرت مسیح موعودؑ کی مبشر اولاد کے نہ صرف ماموں تھے بلکہ رضاعی بھائی بھی تھے۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے1894ء سے مستقل سکونت قادیان میں اختیار کی اور آپؓ کا قیام حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں دارالمسیح میں رہا۔ چنانچہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ خود فرماتے ہیں کہ بچپن سے اٹھارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعوؑد کے روزوشب کے حالات مشاہدہ میں آئے اوراب تک ذہن میں محفوظ ہیں۔ آپؑ کے گورداسپور، بٹالہ، لاہور، سیالکوٹ اور دہلی کے سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل رہا۔ آخری بیماری کی ابتدا سے وصال تک حضورؑ کے پاس رہا۔ حضورؑ نے متعدد مرتبہ مجھ سے لوگوں کے خطوط کے جوابات لکھوائے۔ حقیقۃالوحی کا مسودہ مختلف جگہ سے فرماتے گئے اور مَیں لکھتا گیا۔ روزانہ سیر میں آپؑ کے ساتھ جاتا اور جانے کے اہتمام مثلاً قضائے حاجت، وضو کا انصرام اور ہاتھ میں رکھنے کی چھڑی تلاش کرکے دینے سے سینکڑوں دفعہ مشرف ہوا۔ آپؑ کی کتابوں میں بیسیوں جگہ میرا ذکر ہے۔ آپؑ کے بہت سے نشانوں کا عینی گواہ ہوں اور بہت سے نشانوں کا مورد بھی ہوں۔ جن دنوں حضورؑ باہر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے دونوں وقت میں بھی شریک ہوتا تھا۔ بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضورؑ نے مغرب وعشاء اندر عورتوں کو جماعت سے پڑھائیں اور میں آپؑ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا۔ عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں۔ غالباً میں پیدائشی احمدی ہوں۔ نہایت چھوٹی عمر سے اب تک حضورؑ کے دعاوی پر ایمان ہے۔ آپؑ کے وصال کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو دل سے سچا خلیفہ تسلیم کیا۔ اُن سے بچپن سے نہایت بےتکلّفی اور محبت و پیار کا تعلق تھا۔ اُن کی وفات پر سچے دل سے صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحبؓ کو خلیفۂ ثانی سمجھتا ہوں۔ 1910ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ 1912ء میں صدرانجمن احمدیہ قادیان کی ملازمت میں داخل ہوا۔

حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے نام کی وجۂ تسمیہ یہ بنی کہ ایک دفعہ دلّی کے مشہور اہل حدیث عالم مولوی نذیرحسین صاحب حضرت میر ناصر نوابؓ سے ملنے لدھیانہ آئے تو میر صاحبؓ نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کوجو ابھی چھوٹے تھے ان سے ملایا۔ مولوی نذیر حسین صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ شعر پڑھا ؎
برائے کردن تنبیہ فساق
دوبارہ آمد اسماعیل و اسحٰق
یعنی فاسقوں کو تنبیہ کرنے کے لیے اسماعیل اور اسحٰق نے دوبارہ جنم لیا ہے۔
حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کو حدیث سے عشق تھا۔ درسِ حدیث دیتے تو سماں بندھ جاتا۔ آپؓ پر رقت طاری ہوجاتی اور اس محبت اور وارفتگی سے آنحضور ﷺ کا ذکر کرتے کہ حاضرین کو تیرہ سو سال قبل کے زمانہ میں واپس لے جاتے۔ آپؓ فرماتے ہیں ’’مجھے خدا کی بزرگ کتاب قرآن مجید کے بعد حضور رسول مقبول ﷺ کی احادیث سے عشق ہے اور سرور کائنات ﷺ کا کلام میرے لیے بطور غذا کے ہے کہ جس طرح روزانہ اچھی غذا ملنے کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اسی طرح بغیر سید کونین ﷺ کے کلام کے ایک دو ورقہ پڑھنے کے میری طبیعت بےچین رہتی ہے۔ جب کبھی میری طبیعت گھبراتی ہے تو بجائے اس کے کہ میں باہر سیر کے لیے کسی باغ کی طرف نکل جاؤں، میں بخاری یا حدیث کی کوئی اَور کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں اور مجھے اپنے پیارے آقاؐ کے کلام کو پڑھ کر خدا کی قسم وہی تفریح حاصل ہوتی ہے جو ایک غمزدہ گھر میں بند رہنے والے کو کسی خوشبودار پھولوں والے باغ میں سیر کرکے ہو سکتی ہے اور میری تو یہ حالت ہے کہ ؎
باغ احمدؐ سے ہم نے پھل کھایا
میرا بستاں کلام احمدؐ ہے‘‘

حضرت میر صاحبؓ واقف زندگی تھے۔ جامعہ احمدیہ میں استاد اور لنگرخانہ کے نگران کی حیثیت سے آپؓ کی خدمات بہت نمایاں ہیں۔ آپؓ جلسہ سالانہ کے بھی نگران ہوا کرتے تھے۔ ایک بار جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ افتتاحی تقریر کے لیے تشریف لائے تو حضورؓ نے محسوس فرمایا کہ جلسہ گاہ حاضرین کی گنجائش سے چھوٹی تعمیر کی گئی ہے۔ حضورؓ نے اس پر اظہار ناپسندیدگی فرمایا تو میر صاحبؓ نے راتوں رات خدام اکٹھے کرکے جلسہ گاہ کو وسیع کردیا۔ اگلے روز جب حضورؓ تقریر کے لیے تشریف لائے تو بہت حیران ہوئے اور اظہار خوشنودی بھی فرمایا۔ اس طرح میر صاحبؓ نے جہاں اطاعتِ امام کی شاندار مثال قائم کی وہاں اعلیٰ ہمتی کا سبق بھی دیا۔
1937ء میں آپؓ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈماسٹر بنائے گئے تو آپؓ نے ایسا عمدہ انتظام شروع کیا کہ مدرسہ جلد ہی ایک نہایت عمدہ ادارے کی حیثیت اختیار کرگیا۔ صبح اسمبلی کے چند منٹ بعد گیٹ بند کروادیتے۔ جو طلبہ دیر سے آتے ان کے لیے صحن میں ایک دائرہ کھنچوادیا جس میں کچھ دیر انہیں کھڑا رکھتے۔ اس دائرے کا نام ’دائرۃ الکسالیٰ‘ یا ’سست طلبہ کا دائرہ‘ رکھا۔ چنانچہ طلبہ اس دائرے میں کھڑے ہونے سے بچنے کے لیے وقت پر آنا شروع ہوگئے۔ سبق نہ یاد کرکے آنے والوں کے لیے چھٹی کے بعد ایک کلاس بٹھا دی جاتی جسے ’تنبیہ الغافلین‘ یعنی ’غافلوں کے لیے وارننگ‘ کا نام دیا۔ غرض مختلف ذرائع سے طلبہ میں بیداری پیدا کردی۔
لنگرخانہ کے نگران ہونے کی حیثیت سے مہمانوں کا بہت خیال رکھتے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات قادیان میں مخالفین احمدیت کے جلسوں کے موقع پر غیرازجماعت احباب کو گھومتا دیکھتے تو ان کو اپنے ہمراہ لنگرخانے میں لے آتے اورکھانا کھلاتے۔
حضرت حافظ معین الدین صاحبؓ نابینا تھے اور لنگرخانے سے کھانا کھاتے تھے۔ ایک دفعہ انہیں کسی نے دال کا پیالہ دیا جو نہایت پتلی تھی۔ وہ ایک اچھی حس مزاح رکھنے والے تھے چنانچہ پیالہ پکڑ کر حضرت میرصاحبؓ کے پاس گئے اور فرمایا کہ ’’میر صاحب ایک فتویٰ درکار ہے۔‘‘ میر صاحبؓ نے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ تو انہوں نے پیالہ دکھا کر پوچھا کہ ’’کیا اس طرح کی دال سے وضو ہو سکتا ہے؟‘‘ میرصاحبؓ نے ان سے پیالہ لے لیا کہ’’میں ذرا غور کرکے بتاتا ہوں‘‘ پھر وہ پیالہ دیگ میں الٹا کر گوشت کا پیالہ حضرت حافظ صاحبؓ کو پیش کیا اور کہا کہ ’’آپؓ کے فتویٰ کا یہ جواب ہے۔‘‘

حضرت میر صاحبؓ نے قادیان میں غریب و یتیم بچوں اور دوسرے محتاجوں اور معذوروں کے لیے یکم مئی1926ء سے دارالشیوخ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ آپؓ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعہ ان بچوں کے اخراجات وغیرہ مہیا کرکے انہیں تعلیم دلاتے اور اپنے عزیزوں کی طرح ان کی دیکھ بھال کرتے۔ نابینا بچوں کو قرآن مجید حفظ کرانے کا انتظام کرتے تھے۔ یہاں پرورش پانے والے متعدد بچے مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی اسکول میں پڑھے۔
حکیم عبداللطیف صاحب شاہد کا بیان ہے کہ میری دارالشیوخ میں تین سال تک بطور مہتمم تقرری کے زمانہ میں بیسیوں طالب علم بغرض تعلیم آئے۔ مجھے یاد نہیں کہ آپؓ نے کسی کے داخلہ میں لیت و لعل فرمایا ہو۔ داخلہ کے بعد آپؓ نہ صرف اس کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے بلکہ اس کو بیکار بھی نہ رہنے دیتے۔ جو طلب علم کی خواہش کرتا تو اسے ہائی اسکول یا مدرسہ احمدیہ میں داخل فرمادیتے اور اگر کوئی درزی وغیرہ کا کام سیکھنا چاہتا تو اسے انچارج درزی خانہ مرزا مہتاب بیگ صاحب کے سپرد کر دیتے۔
منشی محمد یٰسین صاحب سابق محرر بیان کرتے ہیں کہ دارالشیوخ میں 175 کے قریب افراد کے کھانے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی تھی۔ ایک دفعہ قاضی نور محمد صاحب ہیڈکلرک نے عرض کیا کہ دارالشیوخ پر دو ہزار قرض ہوگیا ہے۔ فرمایا کہ کل عصر کے بعد تانگہ لانا اور میرے ہمراہ چلنا۔ دوسرے دن مَیں تانگہ لایا۔ ہم دونوں سوار ہوگئے۔ راستے میں حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ ملے اور مصافحہ کیا تو فرمایا: ماموں جان آپ کو بخار ہے۔ میر صاحبؓ فرمانے لگے ہاں کچھ بخار تو ہے مگر دارالشیوخ پر کچھ قرضہ ہوگیا ہے اس کے لیے چندہ کرنے کو جارہا ہوں۔ انہوں نے پچاس روپے جیب سے نکال کر دیے۔ فرمایا ‘بوہنی‘ (ابتدا) تو اچھی ہوگئی۔ غرض محلّہ دارالرحمت پہنچے۔ مغرب کی نماز کے بعد تحریک کی گئی۔ اہل محلہ نے کافی چندہ دیا اور کچھ غلّہ بھی دیا۔ پھر روزانہ کسی نئے محلہ میں گئے۔ ایک ہفتہ کے اندر اڑھائی ہزار روپیہ چندہ جمع ہوگیا۔ غلّہ اس کے علاوہ تھا۔
حافظ عبدالعزیز صاحب مؤذن مسجد اقصیٰ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ ایک معزز احمدی حضورؓ سے ملاقات کو قادیان تشریف لائے۔ حضرت میر صاحبؓ نے فوراً دکان سے ان کے لیے لسّی اور ناشتہ کا انتظام کیا اور ان کو ساتھ لے کر دارالشیوخ میں تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ جماعت کے یتیم اور مسکین بچے ہیں۔ یہ میرا باغ ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر لگایا ہے۔ اس کی آبیاری میں آپ بھی حصہ لیں۔ وہ دوست آپؓ کی باتوں سے اس قدرمتاثر ہوئے کہ مبلغ پانچ سو کی رقم پیش کردی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 1943ء میں فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں جہاں ہماری جماعت مشترکہ طور پر یتامیٰ ومساکین کی خبرگیری میں ناکام رہی ہے وہاں میر محمد اسحٰق صاحبؓ نے اس میں کامیابی حاصل کرلی اور انہوں نے سو ڈیڑھ سو ایسے غرباء اور یتامیٰ و مساکین کو جن کے کھانے پینے اور لباس اور رہائش وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں تھا اپنی نگرانی میں رکھ کر ایسے رنگ میں ان کی تربیت اور تعلیم کا کام کیا جو نہایت قابل تعریف ہے۔ میر صاحب نے جن جن مشکلا ت میں یہ کام کیا ان کو کسی صورت میں بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ وہ مشکلات یقیناً ایسی ہیں جو اُن کے کام کی اہمیت کو اَور بھی بڑھا دیتی ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں انہوں نے اتنے سال کام کر کے جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا کردی ہے … یتیم کی خدمت اور ان کا صحیح رنگ میں تعلیم وتربیت اتنا اہم کام ہے کہ کوئی جماعت جو زندہ رہنا چاہتی ہے وہ کسی صورت میں بھی اس کو نظرانداز نہیں کر سکتی۔‘‘
حضرت میر صاحبؓ دارالشیوخ میں رہنے والے بچوں سے نہایت شفقت کا سلوک فرماتے اور کوشش کرتے کہ انہیں اپنے ماں باپ کی محرومی کا احساس کم سے کم ہو۔ عید کے موقع پر ان بچوں میں عیدی تقسیم کرنے کے لیے نئے سکّے منگواتے۔ ایک دفعہ ایک بچے نے فیس جمع کروانی تھی اور اس کے پاس رقم نہیں تھی۔ آپؓ مدرسہ کے انچارج بھی تھے۔ بچے باری باری جاکر فیس جمع کرواتے تھے۔ جب وہ بچہ قریب آیا تو میرصاحبؓ نے چپکے سے اُسے فیس پکڑا دی۔
ایک دفعہ سب پکنک پر گئے جہاں بھنے ہوئے چنوں میں شکر ڈلوا کر سب کو پیش کی۔ ایک نابینا دوست جو راستے میں گندے پانی میں گرگئے تھے وہ علیحدہ کھڑے تھے۔ جب میرصاحبؓ نے انہیں دیکھا تو پلیٹ پکڑ کر ان کے پاس گئے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے لگے۔ یہ ادائیں آپؓ نے اپنے مطاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی سیکھی تھیں جب حضرت اقدس علیہ السلام ایک پیالے میں کھانا ڈال کر اپنے ایک غریب صحابی حضرت میاں نظام الدین صاحبؓ کے ساتھ ہی بیٹھ کر اکٹھے کھانے لگے تھے۔ دراصل جب وہ دوسرے آنے والوں کو جگہ دیتے دیتے اگلی صف سے پیچھے ہٹتے ہٹتے جوتیوں میں جابیٹھے تھے اور یہ چیز چشم بصیرت رکھنے والے آقاؑ نے بخوبی محسوس کرلی تھی۔ حضرت میاں نظام الدین صاحب اپنی اس خوش نصیبی پر ہمیشہ خدا تعالیٰ کے شکرگزار بنے رہے۔
حضرت میر صاحبؓ عظیم الشان مقرر تھے۔ تقریر بہت علمی اور منطقی ہوتی جس سے مخالف مشکل میں گرفتار ہو جاتا۔ ایک مناظرے میں ہندو مقرر نے اپنی تقریر سنسکرت زبان میں شروع کردی۔ ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ ہم پریشان تھے کہ اس کا کیا جواب دیں گے لیکن میرصاحبؓ اطمینان سے بیٹھے رہے۔ جب آپؓ کی باری آئی توآپؓ نے عربی میں تقریر شروع کردی۔ مخالفین نے اعتراض کیا کہ ہمیں تو سمجھ نہیں آرہی۔ آپؓ نے فرمایا کہ ہمیں بھی نہیں آئی تھی۔ چنانچہ وہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ تقاریر اردو میں ہوں گی۔
آپؓ کی عمر صرف 28سال تھی جب ہندوستان کے ایک مشہور پادری مناظر جوالا سنگھ کو آپؓ نے شکست دی۔ آپؓ جلسوں اور مناظروں میں طلبہ کو ساتھ لے جاتے تاکہ ان کی تربیت ہوتی رہے اور بہت حوصلہ افزائی فرماتے۔ چنانچہ آپؓ کے شاگردوں میں اعلیٰ درجہ کے مقرر پیدا ہوئے۔
آپؓ نے کئی کتب تحریر فرمائیں۔ عام طور پر منطقی اندازِ تحریر ہوتا اور بڑے بڑے مسائل کو آسان اور سادہ انداز میں سمجھانے کا خاص ملکہ آ پؓ کوحاصل تھا۔ طلبہ کو تعلیم بھی اس طرز پر دیتے تھے کہ طلبہ میں سبق سے دلچسپی پیدا ہوجاتی اور مشکل مسائل کوسادہ زبان میں سمجھا دیتے۔
حضرت میر صاحبؓ سادہ لباس پہنتے اور نہایت سادگی سے رہتے۔ ایک دفعہ اپنے کپڑے مرمت کے لیے دیے تو درزی نے کہا کہ پیوند لگائے بغیر ان کی مرمّت نہیں ہوسکتی۔ آپؓ نے فرمایا کہ بےشک پیوند لگا دو۔ آنحضور ﷺ بھی پیوند لگے کپڑے زیب تن فرمالیتے تھے۔
حضرت مسیح موعودؑ کو آپؓ کے بارے میں کئی الہامات اور رؤیا ہوئے۔ بچپن میں ایک دفعہ آپؓ بہت بیمار ہوئے اور حضورعلیہ السلام نے دعا کی تو الہام ہوا: سَلَامٌ قف قَوْلًامِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍٍ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمائی۔ آپؓ کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا الہام ’’خدا اس کو پنج بار ہلاکت سے بچائے گا‘‘ بھی میرے بارے میں ہے۔
آپؓ کی شادی بھی حضورؑ کے ایک رؤیا کے نتیجہ میں ہوئی۔ حضورؑ نے دیکھا کہ آپؓ کی شادی حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ (مؤلف قاعدہ یسرناالقرآن) کی صاحبزادی صالحہ بیگم سے ہو رہی ہے۔ چنانچہ ابھی آپؓ دونوں چھوٹے ہی تھے کہ اس رؤیا کی بنا پر نکاح کر دیا گیا۔ آپؓ کی شادی کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے ایک نظم بھی تحریرفرمائی ؎
میاں اسحٰق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو
ہر اک منہ سے یہی آواز آتی ہے مبارک ہو
دعا کرتا ہوں میں بھی ہاتھ اٹھا کرحق تعالیٰ سے
کہ اپنی خاص رحمت سے وہ اس شادی میں برکت دے



خداتعالیٰ نے آپؓ کو چار بیٹیاں اور تین بیٹے (محترم میر داؤد احمد صاحب، محترم میر مسعود احمد صاحب اور محترم میر محمود احمد صاحب) دیے۔
آخری عمر میں آپؓ بیمار رہنے لگے تھے۔ علاج سے عارضی افاقہ ہوتا۔ بیماری میں بھی کام میں مصروف رہتے۔ بالآخر 16؍مارچ 1944ءکو اچانک بےہوش ہو کر گرگئے۔ اگلے روز نبض کمزور ہونے لگی تو حافظ قدرت اللہ صاحبؓ نے سورۃ یٰسین سنانی شروع کی۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے ’’سَلَامٌ قف قَوْلًامِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍٍ‘‘ تو وفات ہوگئی۔ عجیب اتفاق ہے کہ آپؓ کی صحت کے بارہ میں حضرت مسیح موعودؑ کو یہی آیت الہام ہوئی تھی اور اسی آیت پر آپؓ کا بابرکت انجام ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آپؓ کی وفات پر فرمایا: ’’میر محمد اسحٰق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیرمعمولی وجود تھے۔ درحقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو اُن کو۔ رات دن قرآن وحدیث لوگوں کو پڑھانا ان کا مشغلہ تھا۔‘‘