حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ
حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہؓ کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کا ذکر خیر روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3 و 6؍اکتوبر 1998ء میں ایک تفصیلی مضمون مکرم سید قمر سلیمان احمد صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے جس میں تحریر شدہ اضافی واقعات و حالات ذیل میں پیش کئے جاتے ہیں۔
صوفیاء کا ایک خاندان مغل بادشاہ شاہجہاں کے زمانہ میں بخارا سے ہجرت کرکے ہندوستان وارد ہوا۔ اس خاندان میں مشہور صوفی حضرت خواجہ محمد ناصر عندلیب پیدا ہوئے جنہوں نے نوجوانی میں ہی دنیوی جاہ و حشمت ترک کرکے دلّی کے قریب ایک قصبے میں گوشہ نشینی اختیار کرلی اور سخت ریاضتیں کیں۔ آخر ایک روز بذریعہ کشف آپ کو ولایت عطا کی گئی اور ایک بزرگ نے یہ خبر دی کہ ’’ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی۔ اس کی ابتداء تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود پر ہوگا‘‘۔ آپ نے یہ خوشخبری پاکر سب سے پہلے اپنے تیرہ سالہ بیٹے حضرت خواجہ میر درد کی بیعت لی اور اس کے ساتھ ہی صوفیاء کے ایک نئے طریق ’’طریق محمدیہ‘‘ کی بنیاد ڈالی۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ حضرت خواجہ میر درد کے نواسے اور حضرت میر ناصر امیر صاحب کے صاحبزادے تھے۔ آپؓ کی والدہ کا نام روشن آراء بیگم تھا۔ اس خاندان کو 1857ء کے غدر میں میں دلّی سے انتہائی کسمپرسی کے عالم میں پانی پت کی طرف ہجرت کرنا پڑی تھی اور ایسے میں آپؓ کی والدہ نے صرف قرآن کریم کا وہ نسخہ اٹھانے پر ہی اکتفا کیا جو اُن کے مرحوم خاوند کی نشانی تھی۔اڑہائی سال کے یہ خاندان واپس دلّی آیا تو آپؓ کی والدہ محترمہ نے حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کو اپنے چھوٹے بھائی کے پاس ضلع گورداسپور کے ایک مقام مادھوپور بھجوادیا جہاں آپؓ نے ابتدائی تعلیم پائی۔ سولہ سال کی عمر میں آپؓ کی شادی سادات خاندان میں ہوگئی۔ آپؓ کی اہلیہ محترمہ سیدہ بیگم صاحبہ بہت شریف النفس اور خاوند کی خدمتگذار خاتون تھیں۔ 1865ء میں آپؓ کے ہاں ایک بیٹی نے جنم لیا جس کا نام نصرت جہاں رکھا گیا۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ 1866ء میں محکمہ نہر میں اوورسیئر ملازم ہوگئے۔ اس دوران قواعد کے تحت آپ سے ایک سو روپے کی ضمانت طلب کی گئی لیکن آپؓ نے یہ کہہ کر رقم کی ادائیگی سے معذرت کردی کہ اپنے مشاہرہ میں بچت کرکے آپؓ اتنی رقم مہیا نہیں کرسکتے۔ آپؓ کے ساتھیوں نے آپکو سمجھایا کہ اس طرح جواب دینے سے ملازمت جانے کا اندیشہ ہے اور پھر اس محکمہ میں لوگ ناجائز ذرائع سے ہزاروں روپے کما رہے ہیں۔ لیکن آپؓ نے ناجائز آمد کو حرام سمجھا اور اِس سے دُور رہے۔ جب انگریز افسران نے آپ کے جواب پر تحقیق کی تو وہ اتنے متاثر ہوئے کہ آپؓ کے لئے قاعدہ میں استثناء کردیا اور اس طرح اس آزمائش میں خدا تعالیٰ نے آپؓ کو کامیاب فرمایا۔… اور پھر یہی ملازمت آپؓ کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے قریب لانے کا باعث بنی۔
چونکہ آپؓ کا تبادلہ مختلف جگہوں پر ہوتا رہتا تھا چنانچہ جب آپؓ قادیان کے قریب ایک گاؤں تتلہ میں نہر کھدوانے کے لئے متعیّن ہوئے تو آپؓ کے تعلقات حضرت اقدسؑ کے بڑے بھائی حضرت مرزا غلام قادر صاحب سے اپنے ماموں کی وساطت سے قائم ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد آپؓ کی اہلیہ کچھ بیمار ہوئیں تو حضرت مرزا غلام قادر صاحب نے آپؓ کو اپنی اہلیہ کو قادیان لے جانے اور اپنے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب سے علاج کروانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ آپؓ اس وقت پہلی دفعہ قادیان آئے۔ اور بعد میں حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی وفات کے بعد حضرت مرزا غلام قادر صاحب نے آپؓ کو قادیان آکر اُن کی حویلی میں قیام کرنے کی دعوت دی۔ اُن دنوں حضرت مرزا غلام قادر صاحب ملازمت کے سلسلہ میں وہاں نہیں رہتے تھے اور حضرت مسیح موعودؑ بالکل الگ تھلگ زندگی بسر کر رہے تھے اس لئے حویلی کا ایک بڑا حصہ بالکل خالی پڑا تھا۔ اُس وقت حضرت اماں جان کی عمر 13 سال کے قریب تھی۔ اُن دنوں بھی حضرت میر صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ تعلقات نہ ہونے کے باوجود بھی آپؑ کی نیکی اور تقویٰ سے از حد متاثر تھے۔
حضرت میر صاحبؓ اُن ایام میں مسلمانوں کی حالت زار پر سخت پریشان تھے اور اس معاملہ میں فوراً ہر خدمت کے لئے تیار ہو جایا کرتے تھے۔ آپ نے پہلے مولانا عبداللہ غزنوی صاحب کی بیعت کی ہوئی تھی۔ اور جب انجمن حمایت اسلام کا آغاز ہوا تو آپ اسکے پُرجوش رکن بن گئے اور پھر ایک جلسہ عام میں اپنی مشہور نظم ؎
پھولوں کی گر طلب ہو تو پانی چمن کو دے
جنّت کی گر طلب ہے تو زَر انجمن کو دے
پڑھی اور انجمن کو بہت سا چندہ وصول کروایا۔
انہی دنوں ’’براہین احمدیہ‘‘ شائع ہوئی اور جب حضرت میر صاحبؓ نے اس کا مطالعہ کیا تو حضرت اقدسؑ کی بزرگی آپؓ پر اور بھی آشکار ہوئی۔ آپؓ نے حضورؑ کی خدمت میں دعا کی درخواست کی جس میں ایک امر یہ بھی تھا کہ ’’دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے‘‘۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی پہلی شادی اپنی ایک رشتہ دار حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی تھی لیکن آپؑ کے اپنی اہلیہ سے خیالات نہ ملنے کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات کم ہوتے چلے گئے چنانچہ پھر اکثر اوقات آپؑ تنہا ہی رہا کرتے تھے۔ انہی دنوں آپؑ کو الہاماً دوسری شادی کی بار بار خبر بھی دی گئی۔ چنانچہ آپؑ نے اپنا پیغام حضرت میر صاحبؓ کے ہاں بھجوایا۔ پہلے تو حضورؑ اور حضرت اماں جانؓ کی عمروں کے تفاوت کو دیکھ کر حضرت میر صاحبؓ کو انقباض پیدا ہوا لیکن پھر حضورؑ کے تقویٰ کے خیال سے پیغام قبول کرلیا گیا اور یوں 1884ء میں حضرت اماں جان کا نکاح حضرت مسیح موعودؑ سے دہلی میں مولوی نذیر حسین صاحب نے پڑھا۔
حضرت میر صاحبؓ نے 1892ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر قبول احمدیت کی توفیق پائی اور پھر قادیان کے ہی ہو رہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے حضرت صاحب کے اکثر معجزات بچشم خود دیکھے ہیں۔ زلزلہ کے وقت سخت اندیشہ ہوا کہ خدا جانے محمد اسماعیل کا کیا ہوا۔ زلزلہ میں کہیں کسی مکان کے تلے دب کر مر گیا ہو۔ حضرت صاحب نے فرمایا مرا نہیں۔ مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’ڈاکٹر محمد اسماعیل‘‘۔ وہ ڈاکٹر ہوگا۔ محمد اسحاق کو دو دفعہ طاعون ہوا۔ آپؑ کی دعا سے اچھا ہوا اور آپؑ نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ یہ مرے گا نہیں‘‘۔
حضرت میر صاحبؓ قادیان تشریف لاکر متفرق کاموں کی نگرانی کرتے رہے جن میں لنگر خانے کا انتظام، سلسلہ کی عمارات کی تعمیر اور حضورؑ کے باغ میں پودوں اور پھلدار درختوں کی دیکھ بھال شامل ہیں۔ 1898ء میں جب تعلیم الاسلام سکول کا آغاز ہوا تو آپؓ اُس کے پہلے ناظم مقرر ہوئے۔ آپؓ چونکہ دُوررس تھے اور حضورؑ کی قادیان کی ترقی کے بارے میں پیشگوئیوں پر کامل ایمان رکھتے تھے اس لئے آپؓ نے ڈھابوں میں بھرتی ڈلوانی شروع کی جو اُس وقت بہت سستی پڑ جاتی تھی۔ بعض لوگوں نے اسے سلسلہ کے پیسے کا ضیاع جانا اور حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں عرض کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا ’’میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہئے‘‘۔ چنانچہ بعد میں اندازہ ہوا کہ ڈھاب بھرنے سے نہایت قیمتی زمین حاصل ہوگئی ہے۔
1906ء میں حضرت میر صاحبؓ نے اپنی نگرانی میں مسجد مبارک کی توسیع کروائی۔ یہاں بھی کھڑکیوں وغیرہ کے رکھوانے کے بارے میں جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا تو حضرت اقدسؑ نے فرمایا ’’جو کھڑکی وغیرہ میر صاحب نے جہاں رکھ دی ہے، وہیں رہنے دی جائے‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ جب کبھی سفر پر تشریف لے جاتے تو حضرت میر صاحبؓ کو گھر کی حفاظت کے لئے قادیان میں چھوڑ جاتے لیکن آخری عمر میں آپؓ کو بھی ہمراہ لے جانے لگے چنانچہ حضورؑ کے آخری سفر لاہور کے موقع پر آپؓ بھی ہمراہ تھے۔
خلافتِ اولیٰ کے دور میں حضرت میر صاحبؓ نے غرباء اور یتامیٰ کا مناسب بندوبست کرنے کے بارے میں ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی اور پھر جگہ جگہ تحریک کرکے چندہ اکٹھا کیا اور مسجد نور، نور ہسپتال، دارالضعفاء وغیرہ کی تعمیر اور اسی قسم کے دیگر کام سرانجام دیئے۔
حضرت میر صاحبؓ کی وضع قطع نہایت سادہ تھی اور آپؓ کسی کام کو بھی عار نہ سمجھتے تھے۔ آپؓ نے احباب کو تجارت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے قادیان میں ایک چھوٹی سی دوکان بھی کھولی تھی اور ایک مجلس بھی بنائی تھی جس میں کلواجمیعاً ہوا کرتا تھا۔ اس مجلس میں غرباء بھی شامل تھے اور سارے ایک ہی جگہ بیٹھ کر نہایت محبت سے کھانا کھایا کرتے تھے۔ آپؓ ان بھائیوں کو لے کر بیماروں کی عیادت کرنے بھی جایا کرتے اور بعض اوقات جمعہ کے روز بعض مجبور بھائیوں کے میلے کپڑے بھی دھو آتے تھے۔
حضرت اقدسؑ نے آپؓ کے بارے میں فرمایا:- ’’نہایت یکرنگ اور صاف باطن اور خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہیں اور اللہ اور رسول کی اتباع کو سب چیز سے مقدم سمجھتے ہیں‘‘۔
حضرت میر صاحبؓ نماز باجماعت کے بہت پابند تھے۔ حتّٰی کہ آخری عمر میں جب چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا، تو بھی باقاعدگی سے مسجد تشریف لایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی خواہش تھی کہ قادیان میں قرآن کریم کی تعلیم کے لئے ایک ادارہ ’’دارالقرآن‘‘ قائم ہو۔ اگرچہ انجمن موجود تھی لیکن حضورؓ کی خواہش تھی کہ یہ کام میر صاحبؓ کی زیر نگرانی انجام پائے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی وفات پر جب جماعت ایک عظیم فتنہ کا شکار ہوئی تو حضرت میر صاحبؓ نے دور دراز کے احباب کو صحیح صورتحال سے مطلع فرمانے کے لئے مدراس کا سفر کیا اور اس فتنہ کے تدارک کے لئے حضور علیہ السلام کی کتب کی اشاعت پر بہت زور دیا۔
حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ 19؍ستمبر 1924ء کو وفات پاگئے۔ حضرت مصلح موعودؓ اُن دنوں لندن تشریف لے گئے ہوئے تھے چنانچہ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین عمل میں آئی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے لندن میں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔