حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کی قابل تقلید مالی قربانیاں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم اگست 2005ء میں حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ آف مالیرکوٹلہ کی مالی قربانیوں سے متعلق ایک مضمون (مرتبہ:محمد جاوید صاحب) شامل اشاعت ہے۔
٭ جب حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ مالیرکوٹلہ تشریف لے گئے تو آپؓ سے تحصیل علم کی خاطر کئی ایک آپؓ کے شاگرد بھی وہاں جمع ہوگئے اور قادیان کی طرح باقاعدہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سب کے قیام و طعام کا انتظام حضرت نواب محمد علی خانصاحبؓ کی طرف سے تھا۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ہم سب شاگردوں کی مالیرکوٹلہ میں ہر طرح خاطر تواضع ہوتی تھی اور بہترین کھانے ہمارے لئے تیار ہوتے تھے۔ ایسی مرغن غذاؤں کے عادی نہ ہونے کی وجہ سے ہماری خواہش ہوتی تھی کہ بعض اوقات دال وغیرہ ملے اور ہم بعض دفعہ باورچیوں سے کھانا تبدیل کر لیتے تھے۔

Hazrat Nawab Muhammd Ali Khan Sahib

٭ حضرت نواب صاحبؓ کی تجویز کے مطابق ایک کونسل ٹرسٹیاں ان افراد پر مشتمل مقرر کی گئی جو مدرسہ تعلیم الاسلام کو کم از کم ساٹھ روپیہ سالانہ مدددیں، مدرسہ کے لئے چندہ وصول کریں یا مدرسہ کی علمی مدد کریں۔ چنانچہ اکیس اشخاص کونسل ٹرسٹیاں کے ممبر ہوئے۔ 29دسمبر 1900ء کو بیت السلام قادیان میں بصدارت حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ ٹرسٹیاں کے اجلاس میں حضرت نواب صاحبؓ کو صدر منتخب کیا گیا۔ اس وقت جبکہ ساٹھ روپے سالانہ امداد دینے والے بھی معدودے چند تھے، حضرت نواب صاحب نے ایک ہزار روپیہ سالانہ چندہ دینے کی پیشکش کی۔
مدرسہ کا انتظام سہل امر نہ تھا۔ اخراجات کو پورا کرنے کے لئے احباب کو بار بار یاددہانی کرائی جاتی تھی۔ خود نواب صاحب حددرجہ فیاضی سے ہر قسم کی کمی کو ذاتی طور پر پورا کرتے تھے اور وظائف جاری کررکھے تھے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے 16؍ اکتوبر 1903ء کے اشتہار میں فرمایا: ان دنوں میں ہمارا یہ مدرسہ بڑی مشکلات میں پڑا ہوا ہے اور باوجود یکہ محبی عزیزی اخویم نواب اخویم محمد علی خان رئیس مالیر کوٹلہ نے اپنے پاس سے 80روپیہ ماہوار دے کر اس مدرسہ کی امداد کی مگر پھر بھی استادوں کی تنخواہیں ماہ بماہ ادا نہیں ہوسکتیں۔ صدہا روپیہ قرضہ سر پر رہتا ہے۔
حضرت نواب صاحبؓ نے ایک یہ تجویز پیش کی کہ جو احباب کسی عذر سے مدرسہ میں اپنے بچوں کو نہ بھیج سکتے ہوں وہ اُسی قدر نقد روپیہ مدرسہ تعلیم الاسلام میں دیدیا کریں جو کہ اُن کے اپنے بچوں کی فیس میں دینا لازم ہوسکتا ہو۔ نیز وعدہ فرمایا کہ میں اپنے تینوں بچوں کی فیس مدرسہ میں داخل کر دیا کروں گا۔ چنانچہ اس دن سے حضرت نواب ممدوح مبلغ 9روپیہ ماہوار بطور فیس مدرسہ ہذا میں داخل فرماتے رہے۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں کہ… اگر بعض پُرجوش مردانِ دین کی ہمت اور اعانت سے کوئی کتاب تالیف ہو کر شائع ہوتو بباعث کم توجہی اور غفلتِ زمانہ کے وہ کتاب بجز چند نسخوں کے زیادہ فروخت نہیں ہوتے اور اکثر نسخے اس کے یا تو سالہاسال صندوقوں میں بند رہتے ہیں یا لِلہ مفت تقسیم کئے جاتے ہیں۔ پُرجوش مردان دین سے مراد اس جگہ اخویم حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب بھیروی ہیں جنہوں نے گویا اپنا تمام مال اسی راہ میں لٹا دیا ہے۔ اور بعد ان کے میرے دلی دوست حکیم فضل دین صاحب اور نواب محمد علی خان صاحب کوٹلہ مالیر اور درجہ بدرجہ تمام وہ مخلص دوست ہیں جو اس راہ میں فدا ہو رہے ہیں۔
٭ حضرت نواب صاحبؓ نے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کو اپنے پاس ملازم رکھا ہوا تھا۔ ان کو پانچ روپے سے پچاس روپے تک ترقی دی۔ لیکن حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے حضرت نواب صاحبؓ سے کہا کہ صرف چند بچوں کو پڑھانے کی مشغولیت سے حافظ صاحب کی قابلیت ضائع جارہی ہے، سلسلہ ان سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے، آپ انہیں سلسلہ کے سپرد کردیں۔ نواب صاحب نے فوراً ان کا مشاہرہ پچاس سے نوے روپے کر دیا تاکہ صدر انجمن آپ کو لے تو مشاہرہ نوے روپے سے شروع کرے۔
٭ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے حضرت نواب صاحبؓ کی وفات پر رقم فرمایا کہ مرحوم علمی مذاق کے انسان تھے۔ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی دینی کتابیں ہمیشہ منگواتے رہتے اور بہت سی کتابیں انہوں نے مرکزی لائبریری کو بھی عطا کیں چنانچہ بڑی انسائیکلوپیڈیا 25جلد والی جو اس وقت لائبریری میں موجود ہے مرحوم کی ہی عطا کردہ ہے۔ نیز کسی نہ کسی عالم کو ہمیشہ تنخواہ دے کر اپنے پاس رکھتے اور دینی کتب سنتے رہتے تھے۔
٭ حضرت نواب عبد اللہ خانصاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت والد صاحب ہماری تعلیم و تربیت کا ہرطرح سے خیال رکھتے تھے۔ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ کو کافی مشاہرہ پر رکھا جنہوں نے ہمیں قاعدہ یسرنا القرآن اور بعد میں قرآن مجید ناظرہ پڑھایا۔ اسی سلسلہ میں آپؓ نے ان کو ان کا مکان بنا کر دیا۔
٭ ’’الحکم‘‘ کو سلسلہ کا سب سے پہلا اخبار ہونے کا فخر حاصل ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اسے اور ’’البدر‘‘ کو سلسلہ کے دو بازو قرار دیتے تھے۔ حضرت نواب صاحبؓ نے اخبار ’’الحکم‘‘ کی ایک سو روپیہ سالانہ امداد مقرر کی تھی۔ اس حوالہ سے حضرت عرفانی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں: میں نے مکان بنانے کا ارادہ کیا۔ حضرت نواب صاحبؓ سے بے تکلفی تھی اور مجھ سے انہیں خاص محبت تھی۔ میں نے کہا نواب صاحب! زمین لے لی ہے۔ مکان کا نقشہ بنا دیجئے۔ فرمایا نقشہ کیلئے اول یہ معلوم ہو کہ کیا بنانا ہے۔ دوم کس قدر روپیہ خرچ کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ دفتر کیلئے ایک بڑا کمرہ، دو چھوٹے حجرے اور رہنے کے لئے ایک کمرہ بڑا اور دو کوٹھڑیاں، باورچی خانہ اور غسل خانہ۔ اور روپیہ میرے پاس تو ہے نہیں۔ آپؓ نے دو سال کا چندہ الحکم کا دینا ہے۔ ایک سال کا پیشگی دیدیں۔ یہ تین سو ہوتا ہے۔
آپؓ ہنسے اور فرمایا کہ نقشہ بھی مَیں بنا دوں اور بنوا بھی دوں۔ میں نے کہا بنوانے کے لئے تو آسانی ہے۔ آپ کا مستقل عملہ تعمیر ہے اور اب وہ تقریباً بیکار ہے، بس اس رقم میں دونوں کام ہوجائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے خاموشی سے مستریوں اور معمار کو حکم دیدیا۔ اس طرح پر الحکم کے دفتر کی تعمیر شروع ہوئی۔ مگر پھر الحکم میں تحریک سے کتابوں کی فروخت وغیرہ سے روپیہ آتا رہا اور چودہ سو میں وہ حصہ مکمل ہوگیا۔
نواب صاحبؓ نے جب صدر انجمن کا کام لیا تو میں اسسٹنٹ سیکرٹری تھا۔ میں صدر انجمن سے کچھ نہ لیتا تھا اور کبھی نہیں لیا۔ تب نواب صاحب میری ضروریات کا لحاظ کر کے کبھی کچھ روپیہ دیدیا کرتے تھے۔ جب نواب صاحب سکندر آباد آئے۔ میں اس وقت فارغ البال تھا اور مجھے اپنے محسن کی مالی خدمت کا موقعہ ملا مگر نواب صاحب نے وہ رقم واپس کر دی۔
٭ دارالضعفاء کے لئے حضرت نواب صاحبؓ نے 22 مکانوں کے لئے ایک وسیع قطعہ زمین بہشتی مقبرہ کے قریب عطا فرمایا۔
٭ اخبار ’’الفضل‘‘ کی اعانت کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تحریک کی وہ مکرمی خان محمد علی خاں صاحب ہیں۔ آپ نے کچھ روپیہ نقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دی۔ پس وہ بھی اس رَوکے پیدا کرنے میں جو اللہ تعالیٰ نے ’’الفضل‘‘ کے ذریعہ چلائی حصہ دار ہیں۔ اور سابقون الاولون میں سے ہونے کے سبب سے اس امر کے اہل ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے اس قسم کے کام لے۔
٭ فتنہ ملکانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے چندہ کا اعلان کیا اور سب سے پہلے حضرت نواب صاحبؓ کے برادر نسبتی اور ماموں زاد بھائی جنرل اوصاف علی خاں صاحب کے پانصد روپیہ کے چیک کا حضور نے اعلان فرمایا۔ دس ہزار کے وعدے لکھے گئے جن میں حضرت نواب صاحبؓ کا وعدہ سب سے زیادہ تھا یعنی ایک ہزار روپیہ۔ علاوہ ازیں دو صد روپیہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا اور پانصد مکرم نواب خاں محمد عبد اللہ خاں صاحبؓ کا اور ایک صد روپیہ سیدہ بوزینب بیگم صاحبہ کا تھا۔ اس کے علاوہ نواب صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کی تعمیل میں علاقہ ملکانہ کا دورہ کیا اور اپنے اور اپنے رفقاء کے کئی ہزار روپے کے اخراجات خود برداشت کئے۔
٭ باوجود گوناگوں مالی تفکرات کے حضرت نواب صاحب نے تحریک جدید کے لئے پہلے دس سالوں میں قریباً ساڑھے تین ہزار روپیہ ادا کیا ۔ آپ کے اہل و عیال کا چندہ اس کے علاوہ تھا۔
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے وصال تک نواب صاحبؓ کی طرف سے یہ التزام رہا کہ اعلیٰ درجہ کا کھانا دونوں وقت آپ کی خدمت میں نواب صاحب کے ہاں سے آتا رہا۔ کب شروع ہوا اس بارہ میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ اندازاً 1904ء کا آخریا 07ء کا شروع ہوگا کیونکہ جب میں حضرت خلیفہ اولؓ سے پڑھا کرتی تھی تو کھانا آیا کرتا تھا۔
٭ حضرت نواب صاحبؓ کی غرباء پروری کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحبؓ فرماتے ہیں: جس زمانہ میں آپؓ نے قادیان کی رہائش اختیار کی، اس کی حالت بالکل معمولی سی تھی اور مہاجرین کی حالت بہت خراب تھی۔ ان کا بیشتر حصہ دو دو تین تین روپے ماہوار پر گزارا کرتا تھا۔ حضرت نواب صاحب کا قادیان آنا ان کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ ہر شادی بیاہ پر بری کا جوڑا آپ کی طرف سے جاتا۔ احباب میں سے ایک کثیر تعداد کی آپ مالی اعانت کرتے رہتے تھے اور پھر اس اعانت کا ذکر کسی سے نہ کرتے تھے۔ ہمیں بھی جو کچھ پتہ لگا ہے بالعموم خطوط وغیرہ سے اتفاقیہ طور پر یا ان احباب کے ذکر کرنے سے معلوم ہوا ہے۔ میاں محمد عبد اللہ خاں صاحب پٹھان (جو کچھ عرصہ ملازم رہے تھے ان) کو مکان بنوانے میں امداددی تھی۔ بہت سے نادار طلباء کی امداد کرتے رہے تھے۔
٭ صدر انجمن احمدیہ مالی حالت کی وجہ سے باتنخواہ مربی نہ رکھ سکتی تھی۔ حضرت نواب صاحب نے اپنے خرچ پرپہلا باتنخواہ مربی رکھا جس کے ذاتی اخراجات کے آپؓ خود کفیل ہوتے تھے اور انہیں بسااوقات پانچ پانچ چھ چھ صد روپیہ کی اکٹھی امداد کر دیا کرتے تھے۔
٭ حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے آپؓ کو 9جنوری 1892ء کو تحریر فرمایا:’’مبلغ 281 روپیہ مرسلہ آں محب کل کی ڈاک میں مجھ کو مل گئے۔ جس وقت آپ کا روپیہ پہنچا ہے، مجھ کو اتفاقاً نہایت ضرورت در پیش تھی۔ موقعہ پر آنے کی وجہ سے میں جانتاہوں کہ خداوند کریم و قادر اس خدمت للّہی کا آپ کو بہت اجر دے گا۔
آج مجھ کو صبح کی نماز کے وقت بہت تضرع اور ابتہال سے آپ کے لئے دعا کرنے کا وقت ملا۔ یقین ہے کہ خدائے تعالیٰ اس کو قبول کرے۔
٭ توسیع مکان کے تعلق میں حضرت مسیح موعودؑ تحریر فرماتے ہیں: محبی عزیزی اخویم نواب صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ! مبلغ دو سو روپے کے نصف نوٹ آج کی تاریخ میں آگئے۔
٭ حضرت اقدسؑ نے 21جولائی 1898ء کو تحریر فرمایا: ’’عنایت نامہ معہ مبلغ دو صد روپیہ مجھ کو ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر ایک مرض اور غم سے نجات بخشے۔‘‘
٭ ایک اَور خط میں حضورؑ نے آپؓ کی طرف سے تین صد روپیہ ملنے کا ذکر فرمایا ہے۔
٭ حضرت اقدس 9نومبر 1899ء کو نواب صاحب کو تحریر فرماتے ہیں: ’’محبی عزیزی اخویم نواب محمد علی خاں صاحب سلمہ! پانچ سو روپے کا نوٹ اور باقی روپیہ یعنی 75 پہنچ گئے۔ دو جو نصیبین میں برفاقت مرزا خدا بخش صاحب بھیجے جائیں گے ان کے لئے پانچ سو روپے کی ضرورت ہوگی‘‘۔
٭ حضرت مسیح موعودؑ نے منارۃالمسیح کی تعمیر کے لئے ایک سو دو مخلصین کے اسماء درج فرمائے ہیں کہ جن کے اخلاص سے حضورؑ نے اس کارخیر میں کم از کم سو روپیہ دینے کی توقع ظاہر کی اور بعض دے چکے تھے۔ اس فہرست میں پہلا نمبر حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کا اور دوسرے نمبر پر نواب محمد علی خاں صاحبؓ رئیس مالیر کوٹلہ کا نام درج ہے۔
٭ مقدمہ کرم دین کے دوران آتما رام مجسٹریٹ کی نیت نیک نہ تھی اور وہ حضرت اقدس کو سزا قید دینے پر آمادہ تھا۔ چنانچہ 8؍اکتوبر 1904ء کو اس نے حضرت اقدس کو پانصد روپیہ جرمانہ اور حضرت حکیم مولوی فضل دین صاحب کو دو صد روپیہ جرمانہ عدم ادائیگی صورت میں چھ ماہ قید کا فیصلہ سنایا۔ اُس کا منصوبہ یہ تھا کہ جرمانہ فوراً ادا نہ ہوسکے گا اور قید کی سزا دی جاسکے گی لیکن یہ سات صد روپیہ فوراً ادا کر دیا گیا جس سے اس کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ نواب صاحبؓ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ مجسٹریٹ کی نیت اچھی نہیں ہے۔ اور آپؓ نے احتیاطاً نو صد روپیہ ایک روزپیشتر اپنے ایک آدمی کے ہاتھ گورداسپور بھیج دیا اور یہی رقم ان جرمانوں کی ادائیگی میں کام آئی۔
٭ مکرم میاں محمد عبداللہ خاں صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ بسا اوقات سلسلہ کے کسی کام کے لئے روپیہ درکار ہوتا تو حضرت اقدس مسیح موعود خود تحریک کر کے نواب صاحب سے روپیہ منگوا لیتے تھے۔ ایک دفعہ حضورؑ نے حضرت اماں جانؓ کے کنگن غالباً مالیر کوٹلہ بھیجے کہ انہیں رہن رکھ کر پانصد روپیہ بھیج دیں۔ آپؓ نے کنگن بھی واپس بھیج دئیے اور پانصد روپیہ بھی حضورؑ کی خدمت میں بھیج دیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں