حضرت چودھری محمد خان صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍مئی 2011ء میں مکرم نصیر احمد وڑائچ صاحب کے قلم سے اُن کے والد حضرت چودھری محمد خان صاحبؓ آف شیخ پوروڑائچاں ضلع گجرات کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
ضلع گجرات کے ایک گاؤں شیخ پوروڑائچاں میں ایک بزرگ میاں میراں بخش صاحب پرائمری ٹیچر تھے اور نہایت اعلیٰ درجہ کے حکیم بھی تھے۔ اُن کے ایک بیٹے ڈاکٹر محمد علی صاحب بسلسلہ کاروبار افریقہ گئے اور ممباسہ میں قیام کے دوران انہوں نے اپنے والد محترم کو خط لکھا کہ قادیان میں غلام احمد نامی شخص نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے، آپ وہاں جاکر اُن سے ملیں اور صورتحال سے مجھے اطلاع دیں ۔ لیکن میرا بخش صاحب نے نہ صرف قادیان کا قصد نہ کیا بلکہ بیٹے کے خط کا جواب بھی نہ دیا۔ چند ماہ بعد بیٹے نے دوسرا خط لکھا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کرلی ہے، آپ بھی قادیان جاکر حضورؑ سے ملاقات کریں ۔ اس کے بعد میاں میرابخش صاحب قادیان گئے اور حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت سے مشرّف ہوکر واپس آئے۔ آپؓ نے بتایا کہ جب مَیں قادیان پہنچا تو مجلس لگی ہوئی تھی۔ حضورؑ لوگوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔ ہر جواب کے ساتھ میری تسکین ہوتی جارہی تھی اور آخر مَیں نے دل میں احمدیت کی سچائی کو محسوس کرلیا لیکن خیال آیا کہ حضورؑ اپنی آنکھیں نہیں کھول سکتے اور خدا کا رسول نابینا نہیں ہوسکتا۔ جونہی میرے دل میں یہ خیال اُٹھا اُسی وقت حضورؑ نے پوری آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا۔ حضورؑ کی آنکھیں اتنی موٹی اور خوبصورت تھیں کہ مَیں اپنی سوچ پر دل میں سخت شرمندہ ہوا اور بیعت کرلی۔ پھر تین دن وہاں رہا اور واپس گاؤں آکر بیٹے کو تفصیل لکھ دی اور دوسری طرف اپنے دوستوں میں تبلیغ شروع کردی۔
حضرت میاں میرا بخش صاحبؓ کے دوستوں میں چودھری محمد خان صاحب نمبردار بھی شامل تھے جو اپنے علاقہ میں نہایت بارسوخ شخص تھے اور اپنے پانچ بھائیوں میں بڑے ہونے اور خاندانی مصروفیات کی وجہ سے دنیاداری میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اس لئے طبعاً مخالفت کی طرف رجحان تھا۔ 1905ء میں آپ نے گاؤں میں احمدیوں سے ایک مناظرہ کروایا جس کا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ لیکن اس کے چند روز بعد آپ کو راستہ میں حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ اور اُن کے بیٹے حضرت ڈاکٹر محمد علی صاحبؓ مل گئے اور انہوں نے نہایت محبت اور لجاجت سے اپنے تعلقات کا واسطہ دیتے ہوئے کچھ باتیں پیش کیں اور حدیث اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ کا ذکر کیا۔ دل پر ان باتوں نے اور احمدیوں کے انداز نے ایسا اثر کیا کہ آپ اُنہی مولانا صاحب کے پاس پہنچے جنہوں نے احمدیوں سے مناظرہ کیا تھا۔ جب آپ نے احمدیوں کے دلائل اُن کے سامنے رکھے تو وہ سخت ناراض ہوئے۔ آپ واپس آگئے تو معلوم ہوا کہ دو دیگر افراد بھی بیعت کے لئے قادیان جانے والے ہیں ۔ چنانچہ آپ بھی اُن کے ہمراہ چلے گئے۔ ارادہ یہ تھا کہ زیارت کرلیں گے مگر بیعت نہیں کریں گے۔ جب یہ قافلہ امرتسر پہنچا تو چند مخالفین نے اِن کو بتایا کہ فنانشل کمشنر قادیان گیا ہے تاکہ مرزا صاحب کو گرفتار کرکے لے آئے اس لئے آپ لوگ یہیں انتظار کرلیں اور بے سُود قادیان نہ جائیں ۔ چنانچہ آپ نے چند گھنٹے انتظار کیا لیکن پھر بٹالہ روانہ ہوگئے۔ بٹالہ سے قادیان کے لئے یکّہ حاصل کیا۔ یکّہ بان احمدی نہیں تھا۔ اُس نے بھی تصدیق کی کہ فنانشل کمشنر قادیان گئے ہیں لیکن مزید کہا کہ یہ خبر غلط ہے کہ وہ مرزا صاحب جیسی ہستی کو ہتھکڑی پہناسکے کیونکہ اُن کی غلامی تو بڑے بڑے عقلمند اور فاضل اپنے لئے باعث فخر خیال کرتے ہیں ۔
جب آپ قادیان پہنچے اور مسجد مبارک میں گئے تو وہاں بعض بزرگان سے ملاقات ہوئی جنہوں نے آپ کے اعتراضات کے تسلّی بخش جواب دیئے۔ پھر ہم نے حضورؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر ہم اندر گئے تو حضورؑ نواڑ کے پلنگ پر تشریف فرما تھے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک کھٹولے پر بیٹھے تھے۔ مَیں نے السلام علیکم عرض کیا اور اپنی حیثیت کا خیال کرکے نیچے بیٹھنا چاہا تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ نیچے نہ بیٹھیں ، میرے پاس بیٹھیں ۔ اس پر حضورؑ نے فرمایا کہ نہیں ، میرے پاس بیٹھیں ۔ لیکن مَیں اپنی کم حیثیتی کی وجہ سے حضورؑ کے فرمان کی اطاعت نہ کرسکا۔ جس پر دوبارہ حضورؑ نے ارشاد فرمایا۔ مجھے کچھ ہچکچاہٹ تھی کہ مفتی صاحب نے فرمایا بیٹھ جائیں ، کوئی حرج نہیں ، اب حضور کا ارشاد ہے۔ چنانچہ مَیں حضورؑکے قریب بیٹھ گیا۔
حضرت چودھری صاحبؓ حلفاً بیان فرماتے ہیں کہ پہلے تعارف ہوا تو مجھے وہ تمام نشانیاں روشن نظر آنے لگیں جو بیان کی جاتی تھیں ۔ گندم گوں رنگ، سیدھے بال کشادہ پیشانی، بولتے وقت ہاتھ سینوں کے ساتھ دبانا …چنانچہ مَیں نے بیعت قبول فرمانے کی درخواست کی۔ حضورؑ نے چار پانچ دن ٹھہرنے کا ارشاد فرمایا۔ مَیں نے دوبارہ عرض کیا تو حضورؑ نے اپنا ارشاد دہرایا۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور خبر نہیں کہ کل ہی دَم نکل جائے۔ اس پر حضورؑ نے بیعت لی۔ یہ 1905ء کا سال تھا۔ اس کے بعد شیخ پور میں کثرت سے بیعتیں ہوئیں اور ایک مضبوط جماعت قائم ہوگئی۔
حضرت چودھری صاحبؓ کی مالی قربانی کا ذکر یوں آتا ہے کہ آپ کبھی گِن کر چندہ نہیں دیتے تھے بلکہ چاندی کے روپوں کی دو تین مٹھیاں بھر کر سیکرٹری مال کو دے دیتے۔
حضرت چودھری صاحبؓ اندازاً 1877ء میں پیدا ہوئے تھے۔ اور آپؓ نے فروری 1942ء میں بعمر 65 سال وفات پائی۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے آٹھ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں