حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی عظیم شخصیت کا اعتراف

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍اگست 2010ء میں مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب کا مرسلہ ایک مضمون شائع ہوا ہے

پروفیسر پرویز پروازی صاحب

جس میں دو دانشوروں جناب احسان دانش اور جناب اقبال اخوند کے خودنوشتوں میں حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کے بارے میں پیش کردہ اظہار خیال کو نقل کیا گیا ہے۔
جناب احسان دانش ’’جہان دگر‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جہاں تک ملک کی عظمت کا سوال ہے چوہدری ظفراللہ خان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ عالمی عدالت کے معروف جج رہ چکے ہیں اور آج بھی ایک بلند منصب پر ہیں اور پاکستا نی کہلاتے ہیں۔
انہوں نے میری کتاب جہان دانش پڑھ کر مجھے اپنے ہاں چائے پر مدعو کیا۔ میں عبدالرشید تبسم کی معیت میں ان کے یہاں گیا اور اس طویل ملاقات میں انہیں میں نے پاکستان کا خیر خواہ پایا اور انسانیت کا اعلیٰ مربی۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’تحدیث نعمت‘‘ عنایت فرمائی جو مہینوں میری مطالعے کی میز پر رہی۔ اتفاق سے شیخ اعجاز صاحب بھی وہیں موجود تھے۔ میں ایک زمانہ سے انہیں علمی شخصیت سمجھتا ہوں۔ وہ فراخ دل۔ فراخ نظر اورفراخ حوصلہ انسان ہیں۔ … میں نے اجازت چاہی اور چوہدری صاحب بنگلے کے دروازے تک ساتھ آئے۔

حضرت چودھری محمد ظفراللہ خان صاحبؓ

تین چار روز گزرے ہوں گے کہ میں ایک مذاکرے میں انجینئرنگ یونیورسٹی گیا ہوا تھا۔ رات کو واپس آیا تو معلوم ہوا کہ چوہدری ظفراللہ صاحب تشریف لائے تھے وہ ایک کتاب دے گئے۔ کتاب کا نام ہے ’’میری والدہ‘‘ جو انہوں نے اپنی والدہ کے متعلق لکھی تھی۔ کیا بتاؤں کس قدر افسوس ہوا اور ایسا محسوس ہوا کہ جیسے محبوب کواڑوں پر دستک دے کر گزر جائے اورہاتھ کے نشان روشنی اور خوشبو دیتے رہیں۔ ایسے مخلص بزرگ اب کہاں؟ ‘‘
پاکستان کے نامور سفارت کار جناب اقبال اخوند کی خود نوشت انگریزی میں چھپی ہے۔ وہ 1961ء و 1962ء میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفارت کے رکن تھے۔ اتفاق سے یہی وہ زمانہ ہے جب چوہدری صاحب یو این کی جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ وہ خودنوشت Memories of a By stander یعنی ’’خاموش تماشائی کی یادداشتیں‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’چوہدری ظفراللہ خاں، (جو پرنس علی خاں کے بعد، یو این میں پاکستان کے مستقل نمائندے بن کر آگئے تھے) جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہو گئے اور اس عہدہ کے اعزاز میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ انہوں نے اس عہدہ کی شہرت کو چار چاند لگا دئے جو ان سے قبل کوئی نہیں کر سکتا تھا یعنی اسمبلی کے اجلاسوں کا عین وقت پر شروع کر دینا۔ ان کا طریق بڑا جرأتمندانہ اور سادہ تھا۔ وہ عین ساڑھے دس بجے ، سٹیج پر آتے، اپنی کرسی پر متمکن ہوتے اور صدارتی ہتھوڑا میز پر مارتے۔ شروع شروع میں مندوبین بڑے بے مزہ ہوئے مگر رفتہ رفتہ عادی ہو گئے۔ چنانچہ ایک اجلاس بھی ایسا نہ ہوا جو وقت پر شروع نہ ہوا ہو۔ حتیٰ کہ وہ اجلاس بھی عین وقت پر شروع ہو گیا جس میں الجیریا کو لمبی تگ و دو کے بعد آخر کار یو این اسمبلی کا رُکن بننا اور اپنی جگہ سنبھالنا تھی۔ مصیبت یہ تھی کہ الجیریا کا وفد ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ چوہدری ظفراللہ خاں نے اپنے دستور کے مطابق صدارتی ہتھوڑا میز پر مار ااور اجلاس کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ اتنے میں اسمبلی کا چیف آف پروٹوکول الجیریا کے وفد کے ساتھ ہانپتا کانپتا ہال میں داخل ہوا۔‘‘
’’سلامتی کونسل میں کشمیر کا سوال اٹھایا گیا تو انڈیا کے نمائندہ مسٹر کرشنامینن نے اپنے مخصوص انداز میں پانچ گھنٹے تک تقریر کی اور حسب معمول ادھر ادھر کی ہانکتے رہے کہ ’’پاکستان میں بنیادی جمہوریت رائج ہے مگر ہمارے ہاں جمہوریت بنیادی ہے‘‘۔ وغیرہ قسم کی باتیں۔ کشمیر کے بارہ میں انہوں نے کہا کہ جموں اور کشمیر انڈیا کا حصہ بن چکا ہے کیونکہ مہاراجہ کے الحاق کرلینے کے بعد ریاست میں کئی بار انتخابات ہو چکے ہیں اور اس بات کی تصدیق کی جا چکی ہے اس لئے پاکستان کے موقف میں کوئی جان نہیں ہے۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ انڈیا نے یو این سی آئی پی (یعنی یونائیٹڈ نیشنز کمیشن فارانڈیا اینڈ پاکستان) کے ریزولیوشنز کے خلاف موقف اختیار کیا۔ ظفراللہ خاں نے نہ صرف اس سے (کرشنامینن) سے ایک گھنٹہ زیادہ تقریر کی بلکہ قانونی لحاظ سے انڈیا کے موقف کے پرخچے اڑا کر رکھ دئے۔‘‘
’’1947ء سے 1952ء کے دَور میں وزیر خارجہ چوہدری ظفراللہ خاں نے فلسطین کے قضیہ کے علاوہ ایریٹیریا سے لے کر الجیریا تک مسلمانوں کے مسائل کو بڑی خوبی سے یو این او میں پیش کیا تھا اس کی وجہ سے پاکستان کی شہرت عربوں کے موقف کے سب سے بڑے اور سب سے زبردست حامی کی تھی۔‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں