حضرت چوہدری غلام حیدر صاحبؓ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29؍اکتوبر 2008ء میں مکرم مغفور احمد منیب صاحب مربی سلسلہ نے اپنے نانا حضرت چودھری غلام حیدر صاحبؓ کا ذکر خیر ایک مختصر مضمون میں کیا ہے۔
حضرت چوہدری غلام حیدر صاحبؓ حضرت چوہدری مولا بخش صاحبؓ کے ہاں 1895ء میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ یہ جٹ خاندان قادیان کے نواحی گاؤں تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور میں مقیم تھا۔ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ کی تبلیغ سے یہاں کے متعدد افراد نے قبول احمدیت کی توفیق پائی اور پھر سارا گاؤں احمدی ہوگیا۔ قریباً ایک سو سال پہلے حضرت چودھری صاحبؓ کے خاندان کے کئی لوگ ہجرت کرکے سندھ میں آبسے اور ضلع حیدرآباد میں گاؤں کوٹ احمدیاں آباد کیا جہاں 1932ء میں باقاعدہ جماعت قائم ہوئی۔یہ سندھ کی پہلی باقاعدہ جماعت تھی۔ پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایت پر کوٹ احمدیاں کے شمال میں بشیرآباد تک کی زرعی اراضی احمدی احباب اور جماعت نے خریدی اسی طرح نوکوٹ نبی سرروڈ کنری کے ساتھ زمینیں خریدی گئیں۔ ان معاملات میں چوہدری صاحب اور آپ کے بھائیوں کا بھرپور تعاون اور راہنمائی آنے والوں کو حاصل رہی۔ یہ چاروں بھائی ذہین باہمت تھے اور مہمان نوازی کا خاص جذبہ رکھتے تھے۔
حضرت چوہدری غلام حیدر صاحبؓ نے شوق سے تعلیم حاصل کی اور دیہی بینکوں کی کوآپریٹو سوسائٹی میں انسپکٹر مقرر ہوگئے جس کا احمدی آبادکاروں کو بے حد فائدہ ہوا اور سندھی اور انگریز افسران کے ساتھ رابطہ کا موقع ملا۔ حضرت خلیفہ ثانیؓ جب سندھ کے دورہ پر تشریف لے گئے تو حضورؓ نے کوٹ احمدیاں کی سرزمین کو بھی برکت بخشی۔
حضرت چوہدری غلام حیدر صاحب کی دو بیویاں تھیں۔ جن سے چار بیٹیاں اور چار بیٹے ہوئے۔ بڑے بیٹے مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب کو وقف جدید میں ابتدائی انسپکٹر کے طور پر خدمت کا موقع ملا۔ دوسرے بیٹے مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ساجد (والد مکرم فرید احمد صاحب نوید مربی سلسلہ) پرنسپل طبیہ کالج ربوہ رہے۔ ایک بیٹے مکرم چوہدری منور احمد خالد صاحب (واقف زندگی) سندھ میں تحریک جدید کی زرعی اراضی کے مینیجر رہے۔ دیگر بیٹوں اور بیٹیوں کی اولاد میں بھی کئی واقفین زندگی اور مربیان سلسلہ اس وقت خدمت دین میں مصروف ہیں۔
حضرت چوہدری غلام حیدر صاحبؓ کی وفات 1941ء میں کوٹ احمدیاں میں ہوئی۔ گو آپ کی بیوہ محترمہ کریم بی بی صاحبہ آپؓ کے 20 سال بعد جمال پور میں فوت ہوئیں لیکن دونوں کے امانتی جنازے ایک ہی روز ربوہ لائے گئے اور دونوں ایک دوسرے کے پہلو میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔