حضرت (چھوٹی آپا) سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 20؍جنوری2025ء)
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے 2013ء نمبر1 میں مکرمہ امۃالوحید خان صاحبہ کے قلم سے حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ (المعروف چھوٹی آپا) کا ذکرخیر ذاتی مشاہدات کے حوالے سے شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ حضرت چھوٹی آپا جان صاحبہ کو اپنی زیرنگرانی خدمتِ دین کرنے والی ممبرات کا بہت خیال رہتا تھا۔ اُن کی چھوٹی سے چھوٹی خوشی اور غمی میں جس حد تک ممکن ہوتا ازراہِ شفقت ضرور شرکت کرتیں۔ آتے جاتے، اُٹھتے بیٹھتے قیمتی نصائح فرماتیں۔ ایک مرتبہ ہم کچھ لڑکیاں آپ کے ہمراہ موجود تھیں کہ آپ نے ہمیں مخاطب ہوکر فرمایا: بچیو! کل کو تم نے شادیوں کے بعد مختلف ممالک میں پھیلنا ہے۔ آج جو یہاں سیکھ رہی ہو، وہاں کی جماعتوں میں جاکر اس پر عمل بھی کرنا۔ اُس وقت تو ہم سب ایک دوسرے کو دیکھ کر شرما گئیں لیکن آج سوچتی ہوں کہ یہ کتنی قیمتی نصیحت تھی۔ آج وہ سب دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق خدمت دین بجا لا رہی ہیں۔
صد سالہ جوبلی کے موقع پر لجنہ اِماءاللہ مرکزیہ کو اپنا مجلّہ شائع کرنے اور سکارف بنوانے کی توفیق ملی تو بیرونی ممالک یا پاکستان کی مختلف مجالس سے آنے والی ممبرات کو یہ تاریخی اشیاء حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتیں کہ اب میرے پاس بچیاں آتی ہیں اور پنجاہ سالہ جوبلی پہ شائع ہونے والے مجلّہ کی فرمائش کرتی ہیں جو کہ اب نایاب ہے اس لیے یہ قیمتی سرمایہ اپنی آئندہ نسلوں کے لیے ضرور خریدیں۔
حضرت سیّدہ چھوٹی آپا جان صاحبہ کی زندگی کا بیشتر حصہ دین کی خدمت میں وقف نظر آتا ہے۔ جب ایم ٹی اے کے لیے ’المائدہ‘ پروگرام شروع کرنا تھا تو انچارج صاحبہ کی خواہش تھی کہ اس سلسلہ کا آغاز حضرت سیّدہ چھوٹی آپا جان صاحبہ کے ساتھ ہو۔ آپ ان دنوں گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے بآسانی سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی تھیں جبکہ کچن دفتر کی پہلی منزل پہ تھا۔ جب آپ کی خدمت میں اس خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے اپنی تکلیف کے باوجود بنفسِ نفیس شرکت کرکے اس پروگرام کا افتتاح کیا۔ آپ نے جماعتی کاموں کو اپنی ہرمصروفیت اور تکلیف پر ہمیشہ ترجیح دی۔
حضرت سیّدہ چھوٹی آپا جان صاحبہ اور آپ کی اکلوتی بیٹی مکرمہ صاحبزادی امۃالمتین بیگم صاحبہ کے پاس ہم بیٹھی تھیں کہ اس دوران ملازم دونوں کے لیے سودا (سبزی وغیرہ) بازار سے لایا اور چیزوں کے ساتھ دونوں کی بقایا رقم اکٹھی واپس کی۔ دونوں نے الگ الگ خریداری کی لِسٹ دی ہوئی تھی۔ اپنی اپنی اشیاء لے کر باجی متین چھوٹی آپا جان صاحبہ سے رقم کا حساب کرنے لگیں اور غالباً ایک روپے سے بھی کم رقم تھی جس کو کلیئر کرنے میں کچھ وقت لگا۔ جب معاملہ کلیئر ہو گیا اور تمام رقم کی وضاحت ہوگئی تو بعد میں مَیں نے باجی متین سے پوچھا کہ آپ چند پیسوں کی خاطر چھوٹی آپا سے حساب کر رہی تھیں تو سمجھانے کے بعد ایک پنجابی محاورہ بولا جس کا مطلب یہ ہے کہ روپے پیسے کے حساب میں چاہے اپنی ماں ہی کیوں نہ ہو، معاملات صاف رکھنے چاہئیں۔ اُس وقت تو بات آئی گئی ہوگئی لیکن شادی کے بعد جب گھرکی ذمہ داری کاندھوں پہ پڑی تو اِس اصول پر میں نے جس حد تک ہو سکا عمل کیا اور نتیجۃً اس معاملے میں اپنی زندگی کو سہل پایا۔
حضرت سیّدہ نے ایک بات کی نہ صرف نصیحت فرمائی بلکہ اس پہ عمل بھی کروایا کہ لڑکیاں جب بھی دفتر آئیں تو اتنی دیر پہلے گھر کے لیے روانہ ہو جائیں کہ مغرب سے قبل اپنے گھر پہنچ جائیں۔ لیکن بعض اوقات تربیتی کلاس، گیمز یا دیگر پروگرامز کے لیے اگر رات گئے تک رُکنا پڑتا تو تاکیدی ہدایت تھی کہ ڈرائیور کے ساتھ ایک مرد اور کسی بڑی عمر کی خاتون کی موجودگی میں لڑکیوں کو گھر میں پہنچا کر آئیں اور ڈرائیور کو بھی اس بات کی ہدایت تھی کہ جب تک لڑکی گھر کے اندر نہ داخل ہو جائے اُس وقت تک واپس نہیں آنا۔