خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 31؍جولائی 2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر بارشوں کی طرح جو افضال ہو رہے ہیں آج کے دن ان کا ذکر ہوتا ہے۔ میرے سامنے تو ایک بڑا پلندہ ہے لیکن وہ بھی چند واقعات ہی ہیں، ان باتوںکے خلاصے ہیں جو اس سال میں اللہ تعا لیٰ کے جماعت احمدیہ پر فضل ہوئے اور شاید ان میں سے بھی چند ایک ہی مَیں بیان کر سکوں گا۔

نئے ممالک میں تبلیغ اور جماعت کا نفوذ

 خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک دنیا کے 198ممالک میں احمدیت کا پودا لگ چکا ہے۔ 1984ء کے آرڈیننس کے بعد 26سالوں میں جب کہ مخالفین نے جماعت کو نابود کرنے کے لئے پورا زور لگایا اور اب تک لگاتے چلے جا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے 107نئے ممالک جماعت احمدیہ کو عطا فرمائے ہیں۔

  دورانِ سال تین نئے ممالک ترکمانستان(Turkmenistan)، ڈومینیکا(Dominica) اور

فیرو آئی لینڈز(Faroe Islands) میں احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔

ترکمانستان(Turkmenistan)

 ترکمانستان ، یہ ملک چاروں طرف سے افغانستان، ایران، ازبکستان(Uzbekistan) اور قازقستان (Kazakhistan) اور کیسپیئن سی(Caspian Sea)   کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ اسلامی ملک ہے، یہاںآٹھویں صدی میں صحابہ کرام کے ذریعے سے اسلام پہنچا تھا۔  ترکمانستان کے بہت سے قبائل اپنے آپ کو صحابہ کی نسل سمجھتے ہیں۔ بہر حال یہاں جماعت احمدیہ کا اس سال نفوذ ہوا ہے۔ یہاں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی پہلی کوشش حضرت مولوی ظہور حسین صاحب کے ذریعہ ہوئی تھی اور 1925ء میں آپ وہاں گئے تھے۔ لیکن ترکمانستان کی پہلی پوسٹ پر ہی آپ کو روسی فوج نے پکڑ لیا اور قید کر کے تاشقند بھجوا دیا تھا اور وہاں اسیر رہے تھے۔ اب اللہ کے فضل سے ہمارے ایک ڈاکٹر عبد العلیم صاحب جو وہاں کام کرتے ہیں ان کے ذریعہ سے یہ پیغام  (دوبارہ )پہنچا ہے۔ اور ایک نوجوان جو بشکیک یونیورسٹی کے گریجوایٹ ہیں وہ یہاں آئے تھے اور انہوں نے بیعت کی تھی۔ یہ پہلی بیعت تھی۔ بعد میں ان کی فیملی بھی احمدیت میں داخل ہوگئی۔ اب اللہ کے فضل سے وہاں  جماعت کی تعداد دس ہے۔

ڈومینیکا(Dominica)

 ڈومینیکا ویسٹ انڈیز کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ کل آبادی بہتر(72) ہزار سے زائد ہے۔ٹرینیڈاڈ کے ذریعہ یہاں نفوذ ہوا۔ ہمارے مبلغ انچارج ابراہیم بن یعقوب صاحب جو وہاں امیر بھی ہیں، انہوں نے اور ان کے نیشنل سیکرٹری نے ملک کا دورہ کیا اور اس کے بعد پھر لٹریچر تقسیم ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک خاندان  احمدی مسلمان ہو گیا۔ یہ خاتون تھیں، اسلام میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ انہوں نے رابطہ کیا۔ جب انہیں لٹریچر دیا گیا تو ان کے خاوند نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر اور لٹریچر پڑھ کر احمدیت میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

فیروآئی لینڈز(Faroe Islands)

 فیرو آئی لینڈز براعظم یورپ کا ملک ہے۔ ناروے اور آئس لینڈ کے درمیان سمندر میں واقع ہے۔ یہ جزیرہ ہے۔ اس کا رقبہ 1399مربع کلو میٹر ہے اور آبادی 48,760ہے۔ چھوٹا سا ملک ہے۔ امسال جرمنی کے جلسے پر بھی اس ملک کے نمائندے آئے تھے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں بھی ایک دوست محمد یاسین طرابلسی صاحب اپنی اہلیہ اور دو بچوں سمیت بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے۔

نومبائعین سے رابطے

 دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے 42ممالک میں وفود بھیج کر احمدیت میں نئے شامل ہونے والوں سے رابطے کئے گئے۔ پرانے لوگوں سے رابطے زندہ کئے گئے۔ تعلیمی اور تربیتی پروگرام منائے گئے۔ ان ممالک میں پیرو ہے، فرنچ گیانا ہے، مارٹینیک ہے، گوادولوپ ہے، سینٹ مارٹن ہے، ڈومینیکن ریپبلک، الجزائر ،تیونس اورمختلف جگہوں، ایشیا ، ساؤتھ امریکہ اور افریقہ کے بعض ممالک شامل ہیں۔ پیرو (Peru)میں اللہ کے فضل سے رابطہ بھی بحال ہوا اور دو بیعتیں بھی ہوئیں۔

نئی جماعتوں کا قیام

 خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 516ہے۔ اور 516جماعتوں کے علاوہ 742مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔

  نئے مقامات پر جماعت کے نفوذ اور نئی جماعتوں کے قیام میں سیرالیون سرِ فہرست ہے۔یہاں امسال 125نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ دوسرے نمبر پر نائیجیریا (Nigeria)ہے۔ 43مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ تیسرے نمبر پر برکینا فاسو ہے جہاں 42مقامات پر نئی جماعتیں بنی ہیں۔ کانگو میں 38، مالی میں 35،بینن میں 29 نئی جماعتیں بنی ہیں۔ آئیوری کوسٹ میں 28، نائیجیر(Niger)میں 27، غانا اور انڈیا میں 14،14، یوگنڈا میں 12، کینیا اور سینگال میں 11،11، اور گیمبیا میں 9 نئیجماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ مڈگاسکر میں 7اور روانڈا میں 6نئی جماعتیں بنی ہیں۔ اسی طرح ایسے مزید 25ممالک ہیں جن میں کسی میں ایک کسی میں دو اور کسی میں تین نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔

نئی جماعتوں کے قیام کے ایمان افروز واقعات

 نئی جماعتوں کے قائم ہونے کے واقعات میں سے چند پیش کرتا ہوں۔

ایک گاؤں Goiun میں جس کے امام الصلوۃ کا نام یمبادی(Yambadi) ہے،  جب ہمارے مبلغ مکرم درابو الحسن صاحب تبلیغ کے سلسلے میں ان کے گاؤں پہنچے اور امام الصلوۃ سے تبلیغ کی اجازت چاہی تو امام نے کہا کہ آج مَیں اتنا خوش ہوں کہ آپ آئے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مَیں آپ کو اجازت دوں۔ پہلے مَیں آپ کو بتا دوں کہ مَیں کچھ عرصہ قبل تک احمدیت کا شدید مخالف تھا اور جماعت احمدیہ کا نام کسی کی زبان سے نہیں سننا چاہتا تھا حتی کہ اگر کوئی احمدی مل جاتا تو مَیں راستہ تبدیل کر لیتا کہ احمدی کا چہرہ میرے سامنے نہ آئے اور لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ پڑھتا۔ یہ میری نفرت کی انتہا تھی۔ آخر کار مجھے حضرت امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک کتاب عربی زبان میں ملی۔ مَیں نے اس کو پڑھنا شروع کیا۔ اس کتاب میں لکھا تھا کہ امام مہدی؈ فرماتے ہیں کہ جو مقام مجھے ملا ہے درود شریف کی برکت سے ملا ہے۔ مَیں نے اپنے محبوب پر اتنا درود بھیجا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس برگزیدہ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوا اور آپ سے تمام برکتیں حاصل کیں۔ اس کتاب نے میری نفرت کو محبت میں تبدیل کر دیا کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ساری برکتوں کا موجب ٹھہراتا ہے وہ کیونکر جھوٹا ہو سکتا ہے۔ اُس دن سے مَیں تلاش کر رہا تھا کہ کوئی احمدی ملے تواس سے گلے ملوں۔ میری تسلی اسی دن ہو گئی تھی اور مَیں احمدیت میں اسی دن سے داخل ہو گیا تھا اور آج خدا تعالیٰ نے آپ کو تبلیغ کے سلسلے میں بھیج دیا۔ آپ کو کھلی چھٹی ہے۔جہاں چاہتے ہیں جائیں اور تبلیغ کریں۔ اور اسی وقت پانچ ہزار فرانک نکال کر چندہ بھی دیا۔

 پھر کانگو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ کِکْوَت  شہر سے بارہ کلو میٹر دور گاؤں ، لامبا(Lamba) اور ککوئی(Kakoyi) کے دو سُنّی مسلمان جماعت کا تعارف حاصل کرنے احمدیہ مشن ہاؤس آئے۔ککوئی سے جو دوست آئے ان کا نام امیسی فومو(Amisi Fomo) ہے اور یہ گاؤں کے تیس سُنّی مسلمانوں کے امام تھے۔ جماعت کے معلّم انس موسو صاحب سے گفتگو کے دوران انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ جماعت ایک نبی کو مانتی ہے جو مسیح موعود بھی ہے اور پھر آپ کے بعد خلافت بھی جاری ہے؟۔ معلم صاحب نے انہیں سورۃ نور کی آیت استخلاف مع ترجمہ سنائی تو اس امام نے کہا کہ جب قرآنِ کریم میں اس قدر واضح نظامِ خلافت کا ذکر ہے تو مَیں احمدی ہوتا ہوں اور اسی وقت انہوں نے بیعت کر لی۔

 ایک گاؤں (Comoe N’goua) جو ریجنل ہیڈ کوارٹر اونگرو سے تقریباً 90کلو میٹر ہے۔ وہاں ایک سکول ٹیچرآمانی ابراہیم ہیں۔ انہوں نے فلاسفی کی تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کو اپنے علمِ فلاسفی اور Logicپر بڑا فخر ہے کہ مجھے دلائل میں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ وہ سکول ٹیچر کہتے ہیں کہ ایک دن ایک مشنری ہمارے گاؤں میں آیا اور تبلیغ شروع کر دی اور بڑے دلائل کے ساتھ باتیں کرتا تھا۔ لوگوں نے مجھے بتایا تو مَیں نے بڑے فخر سے کہا کہ وہ میرے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ لیکن گفتگو کے بعد کچھ دیر میں ہیمَیں سمجھ گیا کہ اس احمدی مشنری کے دلائل کے سامنے مَیں نہیں ٹھہر سکتا تو میرا رویہ آہستہ آہستہ دھیما پڑتا گیا اور میری کوئی دلیل کام نہ آئی اور بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گیا۔ تو یہ سعید فطرت لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس طرح رہنمائی فرماتا ہے۔

مختلف ممالک میں جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر

ناروے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجد بیت النصر کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔ آخری فنشنگ ہو رہی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ جلد مکمل ہو جائے گی۔ آئر لینڈ میں پہلی مسجد کی تعمیر کے لئے زمین کا قطعہ خرید لیا گیا ہے۔اس کی کارروائی مکمل ہو گئی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ہی اس کی بنیاد رکھی جائے گی۔ پرتگال میں مسجد کے حصول کے لئے  کافی سالوں سے کوشش ہو رہی ہے اور امید ہے اس سال کامیابی ہو جائے گی۔ایکوٹوریل گنی (Ecotourial Guinea) میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی پہلی مسجد کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ کوموروز آئی لینڈ (Comoros Island)میں جماعت ماریشس نے پہلی مسجد کی تعمیر کے لئے زمین کی خرید کی کارروائی مکمل کر لی ہے۔ اسی طرح روانڈا (Rawanda)وغیرہ میں قطعات لے لئے گئے ہیں` انشاء اللہ جلد تعمیر شروع ہو جائے گی۔

  جماعت کو دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے حضور جو مساجد پیش کرنے کی توفیق ملی ان کی مجموعی تعداد 294 ہے۔ جن میں سے 115مساجد نئی تعمیر ہوئی ہیں اور179مساجد بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔امریکہ میں لاس اینجلس  کی مسجدبیت الحمید اور جماعتی سینٹر کی از سرِ نو تعمیر ہوئی ہے۔ اس میںلجنہ ہال بنا ہے جس میں 300سے زائد خواتین کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ کینیڈا میں جلسہ گاہ ’حدیقۂ احمد‘ میں موجودہ عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کے لئے قانونی اجازت مل چکی ہے۔ جرمنی میں بھی مساجد تعمیر ہورہی ہیں۔ ہندوستان میں دورانِ سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے 13مساجد کا اضافہ ہوا ہے۔ نیپال میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں چار مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی ایسے حالات ہیں جہاں نام نہاد علماء لوگوں کو اکساتے رہتے ہیں۔ حملے کرتے رہتے ہیں اورہماری مساجد کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔ اسی طرح انڈونیشیا میں تین مساجد اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعمیر ہوئیں ۔ یہاں بھی جماعتی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔ مساجد کوبھی نقصان پہنچایا گیا۔ غانا میں 14نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ غانا میں مساجد کی تعداد 418ہو چکی ہے۔ نائیجیریا میں اس سال 9مساجد کی تعمیر ہوئی ہے اور 30اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنی بنائی عطا ہوئی ہیں۔ یہاںجماعت کی مساجد کی تعداد 943ہے۔ سیرالیون میں 67مساجد کا اضافہ ہوا ہے، 17تعمیر ہوئی ہیں اور 50بنی بنائی ملی ہیں۔ لائبیریا میں ایک مسجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ اورگیمبیا میں تین مساجد کی۔ گنی بساؤ میں 4کا اضافہ ہوا۔ آئیوری کوسٹ میں تین نئی مساجد تعمیر ہوئیں۔ کینیا میں 6مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی۔ ا ور تنزانیہ میں 2نئی مساجدکی۔ اللہ کے فضل سے ہر جگہ ان ملکوں میں مساجد کی تعداد 50،60،70سے زائد ہے۔ بلکہ بعض جگہ 100،200سے بھی زائد ہے۔ یوگنڈا میں دورانِ سال 6مساجد کی تعمیر ہوئی۔ برکینا فاسو میں امسال 27مساجد کا اضافہ ہوا۔ 9تعمیر ہوئیں اور 18بنی بنائی ملیں۔ یعنی جب امام اپنی مسجدوں سمیت جماعت احمدیہ میںآ جاتے ہیں۔ کنشاسا میں امسال تین مساجد کی تعمیر ہوئی۔ بینن میں 10نئی مساجد کی تعمیر ہوئی۔ ٹوگو میں ایک مسجد کا اضافہ ہوا۔ نائیجیر میں 4مساجد تعمیر ہوئیںاور 7بنی بنائی ملیں۔ کیمرون میں اس سال جماعت کی دوسری مسجدتعمیر ہوئی ہے۔ اور اسی طرح یورپ میں بیلجیئم میں ایک قطعہ زمین لیا گیا ہے، انشاء اللہ وہاں بھی مسجد کی تعمیر جلدی شروع ہو جائے گی۔ جو انشاء اللہبیلجیئم میں پہلی باقاعدہ مسجد ہو گی۔

مساجد کی تعمیر میں مخالفت اور اللہ تعالیٰ کی تائیدونصرت کے واقعات

 مساجد کی تعمیر میں مخالفت بھی ہوتی ہے۔رکاوٹیں بھی پڑتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔ چند ایک پیش کرتا ہوں۔

  بو(Bo)ریجن کے گاؤں سان(Sahn) میں جب احمدیت کا پودا لگا تو غیر احمدیوں نے شدید مخالفت کی۔ چنانچہ اس مخالفت کے نتیجے میں احمدیوں نے علیحدہ مسجد بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنی مدد آپ کے تحت مسجد کی تعمیر شروع کی۔ تعمیر کے دوران بھی غیر احمدیوں نے پورا زور لگایا کہ احمدی مسجد نہ بنائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور پیرا ماؤنٹ چیف جو کہ اسی گاؤں کا ہی ہے اور جس نے بیعت بھی کی ہوئی ہے، نے بھی بڑی مدد کی۔ احمدی ایک چھوٹی سی مسجد بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

 مالی کے ریجن جیجنی(Dideni)کے لوکل معلم عبدالقادرکانتے لکھتے ہیں کہ تین باتوں پر جماعت کے مخالف شخص’ نیامانی کولی بالی‘ ( Nimani Coulibaly)نے اعلان کیا کہ اگر احمدی مسجد کی تعمیر شروع کریں گے تو مَیں ان میں سے کسی احمدی آدمی کو قتل کردوں گا خواہ مجھے جیل جانا پڑے۔ خدا کے فضل سے ہم نے ماہِ اپریل میں مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا اور وہ شخص جس نے احمدی کو قتل کرنے کا اعلان کیا تھا،پولیس نے  سنگِ بنیاد سے تین دن قبل اسے بینک میں کسی غلط کام کرنے کی وجہ سے گرفتار کر لیا۔ جیل سے رہا ہو کر یہ شخص مشن ہاؤس میں آیا اور بہت نادم تھا۔اس نے جماعت سے اپنے کئے کی معافی مانگی اور کہا آپ لوگ سچے ہیں۔

 وسیم ظفر صاحب آبنگرو( آئیوری کوسٹ) کے مبلغ ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ بندوکو (Bondoukou)  شہر میں شہر کی اتھارٹیز نے جماعت کو آٹھ ہزار چالیس (8040)مربع میٹر زمین دی تھی۔ حکومت کی طرف سے تمام پیپرز مکمل ہونے کے بعد تعمیر کا اجازت نامہ مل گیا۔ لیکن ایک روایتی چیف جو اس شہر کا ہیڈ چیف ہے اس نے زمینی موقع کے لحاظ سے مخالفت شروع کر دی اور کہا زمین اس کی ہے۔ حالانکہ اس کے پاس کوئی کاغذ نہیں تھا کہ وہ ثابت کرے کہ زمین اس کی ہے۔ چیف کے ذہن میں تھا کہ یہ عرب آئے ہیں جو میری زمین پر قبضہ کر کے اپنی تعمیرات کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے پروگرام بنایا کہ ایک وفد جا کر خود چیف سے ملے اور بات کرے کیونکہ تمام اتھارٹیز بھی اس کے سامنے بے بس تھیں۔ چیف سے ملاقات کر کے جماعت کا تعارف، جماعت کی سوشل خدمات ،ہیومینیٹی فرسٹ کا تعارف کروایا گیا تو چیف بڑا حیران ہوا کہ مجھے اس کے برخلاف بتایا گیا تھا کہ یہ ہمارے شہر پر قبضہ کر کے اس میں فتنہ و فساد کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی کاروبار کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت کی خدمت کو دیکھتے ہوئے مَیں کہتا ہوں کہ اگر میرے گھر کی بھی آپ کو ضرورت ہے تو حاضر ہے۔ چنانچہ وہ زمین ہمیں مل گئی۔

تبلیغی مراکز کا قیام

  اللہ تعالیٰ کے فضل سے دورانِ سال ہمارے تبلیغی مراکز ،مشن ہاؤسزمیں 87کا اضافہ ہوا ہے۔ اب تک گزشتہ سالوں کو شامل کر کے 102ممالک میں تبلیغی مراکز کی کل تعداد دو ہزار دو سو چار(2204) ہو چکی ہے۔

 برکینا فاسو سرِ فہرست ہے جہاں چودہ نئے مشن ہاؤس تعمیر ہوئے ہیں۔ آئیوری کوسٹ میں گیارہ ۔ دوسرے نمبر پر ہے۔ سیرالیون دس۔ تیسرے نمبر پرہے۔ غانا میں تین کا اضافہ ہوا۔ مڈغاسکر میں چھ۔کینیا، کانگو، برازیل میں پانچ پانچ۔ بنگلہ دیش میں چار۔ نیپال،بھوٹان اور قازقستان میں دودو۔ انڈونیشیامیں چھ۔ امریکہ میں تین۔ یوکے میں بھی تین مراکز کااضافہ ہوا ہے۔ ایسٹ لنڈن میں، نارتھ ایسٹ لنڈن میں ایک عمارت چار لاکھ پچانوے ہزار پاؤنڈ کی خریدی گئی ۔وُولور ہیمپٹن(Wolverhampton) میں 93ہز ارپاؤنڈ کی لاگت سے ایک چرچ کی عمارت خریدی گئی جس کو جماعتی ضرورت کے مطابق Furnish کیا گیا ہے۔ ایسٹ لنڈن میں ایک پراپرٹی تین لاکھ ترپن ہزار پاؤنڈ کی خریدی گئی۔ یہ بھی مشن ہاؤس ہے۔ گوئٹے مالا میں ایک مشن ہاؤس کا قیام ہوا۔

 ان ممالک میں جہاں پہلی دفعہ ہمارے سینٹر قائم ہوئے ہیں، مشن ہاؤس قائم ہوئے ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ تاجکستان(Tajikistan)، ایکواڈور(Ecuador)کے شہر کیتھ۔ اور ہیٹی (Haiti)میں، کوسووو (Kosovo)میں۔

احمدیہ پرنٹنگ پریسز

 اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو جو پرنٹنگ پریس لگانے کی توفیق ملی ہے یہ بھی اشاعتِ اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعثت کے مقاصد میں سے تھا۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان، ہندوستان سمیت دنیا کے گیارہ ممالک میں جماعت کے اپنے پریس ہیں۔ آٹھ افریقی ممالک میںہیں۔ ایک یہاں یوکے کا رقیم پریس ہے۔ گھانا کا پریس پہلے تو کافی کمزور تھا لیکن ماشاء اللہ اب بڑی ترقی کر گیا ہے۔ بلکہ وہاں ان کا شاید ایک ڈیلی نیوز پیپر بھی شائع ہوتا ہے۔ آئیوری کوسٹمیں پریس ہے، نائیجیریا میںہے۔ ان ممالک میں پریس کام کر رہے ہیں۔

تراجم قرآن کریم

گزشتہ سال کُل مطبوعہ تراجم قرآن کریم کی تعداد 69تھی۔ دورانِ سال مزید ایک ترجمہ شائع ہو کر یہ تعداد 70ہو گئی ہے۔ نیا شائع ہونے والا ترجمہ قرآن گنی بساؤ میں استعمال ہونے والی زبان پرچگیز کریول (Kriol) میں ہے۔ اس ترجمہ کی تکمیل میں نو سال کی محنت شامل ہے۔ نفا ماراگسامالا صاحب نے یہ ترجمہ کیا ہے اور ان کے ساتھ ان کی ٹیم نے اس کی پروف ریڈنگ وغیرہ کی۔ یوروبا کے ترجمہ کی نظر ثانی کی ضرورت تھی۔ وہ بھی اب کیا گیا ہے۔ تین زبانوں برمی( میانمار) اور جاوا نیز اور مائورے میں ترجمہ قرآن جزوی طور پر کروائے گئے ہیں جو چھپ چکے ہیں اور بقیہ حصوں پر کام ہو رہا ہے۔ نیز اس سال عبرانی زبان میں پہلی تین سورتوں( سورۃ فاتحہ، سورۃ بقرۃ اور آل عمران) کا ترجمہ طبع ہوا ہے۔ یہ ترجمہ کبابیر سے موسیٰ اسعدعودہ صاحب نے کیا ہے۔

 اس طرح ان تین زبانوں کے علاوہ جوپہلے بیان کی ہیں پندرہ زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ ہو چکا ہے جس کی ٹائپ سیٹنگ وغیرہ کا کام ہو رہا ہے۔

اشاعت لٹریچر

 اسی طرح کافی لٹریچر ہے جوجماعت نے شائع کیاہے۔ فولڈرز ہیں، لٹریچر ہے، کتب ہیں جن کے ترجمے ہوئے ہیں۔55ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق دورانِ سال 568مختلف کتب، پمفلٹس اور فولڈرز وغیرہ 38زبانوں میں طبع ہوئے جن کی تعداد 38لاکھ 30ہزار602 ہے۔

 زبانیں جن میں لٹریچر شائع ہوا، عربی، اردو، انگریزی، فرنچ، ہندی، پنجابی ، تامل، چینی، ڈینش، سنہالہ، تلگو، پرتگیزی، میڈنکا، فولا،وولف ، جرمن، ہاؤسا، یوروبا، بنگلہ، بوسنین، سپینش،فارسی، سواحیلی،ملیالم، عبرانی، سویڈش۔

  اسی طرح قرآنِ کریم کے وہ ترجمے ری پرنٹ ہو رہے ہیں جن کی جلدیں ختم ہو گئیں تھیں۔

روحانی خزائن کے کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن کا جومکمل سیٹ ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شائع ہو گیا ہے اور یہاں کے بک سٹال پر موجود بھی ہے۔ یہ میرے سامنے بھی کتابیں پڑی ہیں۔

 اس سال دیگر اہم کتب جو ہیں ان میں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے عربی زبان میں

 نجم الہدیٰ، منن الرحمن،اور حقیقۃ الوحی شائع ہوئی ہیں۔ الاستفتاء کا اُردو ترجمہ بھی طبع ہوا ہے۔ منہاج الطالبین، تحریکِ جدید ایک الٰہی تحریک جلد نمبر 2، سیرت المہدی جلد اول اور دوئم ، تاریخ احمدیت کی جلد نمبر19 ، خطباتِ ناصر جلد نمبر5، 6 ، 10۔الوصیت اڑیہ اور کنڑ زبان میں پہلی بار شائع ہوئی ہیں۔ سیرت خاتم النبیین جو ایک بہت اہم کتا ب ہے۔ ہادی علی چودھری صاحب نے اس کو مرتب کیا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جو جلد اوّل اور دوئم لکھی تھی اسی بنیاد پر ان کے کچھ نوٹس تھے، ان کوپھر آگے پھیلایا ہے اور یہ ایک بڑا اچھا اضافہ ہے۔ اور وہ چھپ کے تیار ہو گئی ہے۔ سٹور میں availableہے۔

 اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا تعارف انگریزی زبان میں شائع ہوا ہے۔ اسی طرح مختلف کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ نور فاؤنڈیشن کی طرف سے بھی احادیث کی کچھ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اور نظارتِ اشاعت کی طرف سے بھی۔ شرح بخاری جلد نمبر 5( یہ نور فاؤنڈیشن لکھا ہوا ہے، میرا خیال ہے یہ نظارتِ اشاعت کر رہی تھی۔ نظارتِ اشاعت نے کیا ہے ناں؟)اچھا صحیح مسلم جلد نمبر 7,6,5 یہ نور فاؤنڈیشن نے شائع کی ہیں۔ انوار العلوم کی جلد نمبر 21,20 فضلِ عمر فاؤنڈیشن نے کی۔ اسی طرح تحریکِ جدید ایک الٰہی تحریک۔

اور اسی طرح اور مختلف کتابیں ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب جو مختلف زبانوں میں دورانِ سال طبع ہوئی ہیں ان میں ’حقیقۃ الوحی‘ کا عربی ترجمہ ہوا ہے۔ ’الاستفتاء ‘کے عربی حصہ کا اُردو ترجمہ ہوا ہے۔ ’پیغامِ صلح ‘کا فرنچ ترجمہ ہوا ہے۔ ’الوصیت ‘اڑیہ اور کنّٹر اور سویڈش میں۔’ سچائی کا اظہار‘ انگریزی اور سواحیلی میں۔ ’برکات الدعا‘ سواحیلی میں۔’ دافع البلاء‘ سواحیلی میں۔’ ضرورت الامام‘ بوسنین میں۔’مسیح ہندوستان میں‘ بوسنین میں۔’ تحفۃ الندوہ‘ انگریزی میں۔’ گناہ سے نجات کیونکر ممکن ہے‘ بوسنین میں۔’ نزول المسیح‘ کا عربی زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے نظر ثانی ہو رہی ہے۔ ’تریاق القلوب‘ عربی زبان میں۔’ لیکچر لدھیانہ‘ رشین زبان میں۔ ’لیکچر لاہور‘ رشین زبان میں۔ ’الوصیۃ‘ رشین زبان میں۔

اسی طرح مثلاً ’براہینِ احمدیہ‘ کا کافی عرصے سے انگریزی زبان میں ترجمہ ہو رہا ہے ، مکمل نہیں ہوا۔

 ’فتح اسلام‘، ’سبز اشتہار‘سواحیلی اور سپینش میں۔’ توضیح مرام‘ انڈونیشین میں۔ ’ازالہ اوہام‘ انگریزی اور انڈونیشین میں۔ ’آسمانی فیصلہ ‘انڈونیشین اورسواحیلی میں۔’ آئینہ کمالاتِ اسلام‘ عربی حصہ کا اُردو ترجمہ کمپوز ہو رہا ہے۔ ’برکات الدعاء‘ جرمن، ہندی، انڈونیشین میں۔ ’حجۃ الاسلام ‘سواحیلی میں۔ ’شہادۃ القرآن‘ ، ’تحفۃ بغداد‘ ، ’حمامۃ البشریٰ‘ انڈونیشین۔ اور کرغیز اور سواحیلی وغیرہ مختلف زبانوں میں بہت ساری کتب کے ترجمے ہو رہے ہیں ۔ یہ تقریباً 49کتب ہیں جن کے ترجمے ہو رہے ہیں۔

  اس سال پہلی دفعہ بوسنین زبان میں منتخب آیات قرآن کریم ، منتخب احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تراجم شائع ہوئے ہیں۔ تھائی زبان میں منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہلی بار شائع ہوئی ہیں۔ چودہ زبانوں میں اس کی آڈیو سی ڈیز(Audio CD’s) تیار ہو گئی ہیں۔ بوسنین، رومانین، جرمنی، مینڈے ، سپینش، تھائی، انگریزی، بنگلہ، ازبک، سواحیلی، کیکامبا، میڈنکا، جولا، بیتے۔

اور منتخب آیات قرآنِ کریم گیارہ زبانوں میں۔ منتخب احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سات زبانوں میں ، منتخب اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سات زبانوں میں  اور کئی زبانوں میں ان کی آڈیو سی ڈیز بھی ہیں۔

 تفسیر کبیر کا عربی ترجمہ آٹھ جلدوں میں طبع ہو گیا ہواتھا۔ اس سال نویں جلد بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے آ گئی ہے۔ سٹور پرavailableہے ۔ اور اسی طرح مختلف زبانوں میں کافی کتب آ گئی ہیں۔

ریویوآف ریلیجنز

ریویو آف ریلیجنز  وہ رسالہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں شروع ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے بھی اپنی خلافت کے آغاز میں اس کے بارے میں تحریک کی تھی اس کی جو خریداری ہے وہ بڑھنی چاہئے۔ لیکن کچھ توجہ پیدا ہو کے پھر کم ہو گئی اور اب بھی بہت کم تعداد میں یہ رسالہ لیا جاتا ہے۔ اس طرف توجہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور جماعتوں کو چاہئے کہ اس طرف توجہ دیں اور اس کی خریداری میں اضافہ کریں۔ امریکہ میں مثلاً صرف ایک سو اٹھارہ خریدار ہیں۔ کینیڈا کے باقاعدہ خریدار صرف پانچ ہیں۔ امریکہ کینیڈا کی طرف سے تو کم از کم پانچ سو اور ہزار خریدار ہونے چاہئیں۔ اسی طرح اور بھی ممالک جہاں انگریزی پڑھی جاتی ہے ان کو چاہئے کہ اس کی تعداد بڑھائیں۔ افریقہ میں دوہزار کی تعداد میں یہ شائع ہوتا ہے اور چار سو پچانوے(495) خریدار ہیں۔ افریقن ممالک کے لئے غانا سے ہی شائع ہوتا ہے۔ ان کو چاہئے کہ وہاں خریداری بڑھائیں۔ نائیجیریا سے بھی شائع ہو رہا ہے۔ یہ انڈیا سے بھی دوہزار چار سو (2400)کی تعداد میں شائع ہوتا ہے اورصرف نو سو تیرہ (913)خریدار ہیں۔یہاں یو کے میں رقیم پریس سے شائع ہوتا ہے، لیکن خریدار یہاں بہت کم، صرف 33  ہیں۔ان کو بھی چاہئے کہ اپنی خریداری بڑھائیں۔

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی اہمیت کے پیشِ نظر ایک زمانے میںاس کی خریداری کی طرف توجہ دلائی تھی ۔ گو کہ مختلف ذرائع سے اب بھی جماعتی لٹریچر پہنچتا ہے لیکن ریویو آف ریلیجنز کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں شروع ہوا تھا اور آپ کی خواہش تھی کہ اس کی خریداری بڑھے۔اس لئے جماعت کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اب تک اس رسالے کے شائع کرنے کے لئے مستقل سرمائے کا انتظام کافی نہیں۔ اگر خدانخواستہ یہ رسالہ کم توجہی اس جماعت سے بند ہو گیا تو یہ واقعہ سلسلے کے لئے ایک ماتم ہو گا۔ اس لئے میں پورے زور کے ساتھ اپنی جماعت کے مخلص جواں مردوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس رسالے کی اعانت اور مالی امداد میں جہاں تک ان سے ممکن ہو اپنی ہمت دکھلاویں‘‘۔

 فرمایا کہ ’’جو کوئی میری موجودگی اور میری زندگی میں میرے منشاء کے مطابق میرے اغراض میں مدد دے گا، امید رکھتا ہوں کہ وہ قیامت میں بھی میرے ساتھ ہو گا‘‘۔ (الحکم جلد نمبر7نمبر 32 صفحہ 19)

 آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اس رسالے کی اعانت کے لئے اس جماعت میں دس ہزار خریدار اردو یا انگریزی کا پیدا ہو جائے تو رسالہ خاطر خواہ چل نکلے گا۔ اور ابھی تک وہ تعداد حاصل نہیں ہو رہی۔ اور کیونکہ انٹر نیٹ پر آنا شروع ہو گیا ہے اس لئے لوگ اس طرف مزید عدمِ توجہ کر رہے ہیں۔ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے باوجود یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش ہے اس لئے اس رسالے کی خریداری بڑھنی چاہئے۔ انشاء اللہ۔

نمائشیں۔ بکسٹالز

 امسال 626نمائشوں کے ذریعے 21لاکھ99 ہزار790 افراد تک اسلام کا پیغام پہنچایا گیا۔    اس کے بعض واقعات بیان کرتا ہوں۔

 جاپان سے مبلغ انچارج جاپان اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ چونکہ امسال کے بک فیئر کا تھیم (theme)سعودی عرب تھا اس لئے سعودی عرب کے بہت سے لوگ روزانہ یہاں آتے رہے۔ اور جب انہیں حضرت مسیح موعودؑ کے قصیدے کے اشعار سنائے جاتے اور اَلۡقَصَائِدُ الْاَحْمَدِیہ تحفے کے طور پر پیش کی جاتی تو غیر معمولی خراجِ تحسین پیش کرتے۔ اسی طرح رسالہ التقویٰ، حضرت مسیح موعود کا پیغام حضور کے الفاظ میں اور اہلِ عرب کے لئے جماعت احمدیہ کی خدمات سے متعلق لٹریچر انہیں پیش کیا جاتا۔ بک فیئر کے دوران جاپان میں متعین سعودی عرب کے سفیر سے ملاقات کر کے درثمین عربی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کتاب اسلام اور عصرِ حاضر کے مسائل پیش کی گئی۔ اور یہ کتب پیش کرتے وقت تعارف کے طور پر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دو عربی اشعار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں زبانی بھی سنائے گئے۔ انہوں نے فوری طور پر اپنی جیب سے عینک نکال کر درثمین عربی کے اشعار دیکھنے شروع کئے کہ اتنے میں قریب کھڑے ہوئے ان کے سیکرٹری تیزی سے ان کے پاس آئے اور ان کو کتابیں لینے سے منع کیا۔ لیکن سفیر صاحب نے جو عربی درثمین ملاحظہ کر رہے تھے بے ساختہ فرمایا کہ’’ لَا لَا، ھٰذَا جَمِیۡلٌ جَیِِّدٌ‘‘ ۔ نہیں نہیں،یہ بہت خوبصورت اور عمدہ کلام ہے۔ اور یہ کہتے ہوئے دونوں کتابیں لے لیں۔

                جاپان سے ہی رپورٹ ہے کہ بک سٹال کے تیسرے دن ہمارے ایک داعی الی اللہ ایک جاپانی کو قرآن کریم کا تعارف کروا کر قائل کر رہے تھے کہ اسے پڑھیں اور خریدیں۔ اس جاپانی دوست نے پوچھا کہ اس کی قیمت کتنی ہے؟۔ عصمت اللہ صاحب نے جواب دیا کہ عام بک سٹورز پر پانچ ہزار ہے (وہاں کی جاپانی کرنسی میں)، لیکن ہم نے دو ہزار مقرر کی ہے۔ وہ جاپانی کہنے لگا کہ یہ بہت زیادہ ہے۔ اگر بیس ین (yen)ہو تو مَیں سوچ سکتا ہوں کہ خریدوں۔ یہی جاپانی ڈیڑھ دو گھنٹے بعد واپس آیا اور کہنے لگا عصمت اللہ صاحب کدھر ہیں؟ اس طرح میری ان سے بات ہوئی تھی۔ اور مَیں نے بڑی غلطی کی ہے جو قرآن کریم جیسی کتاب کے بارے میں ایسے کہا۔مَیں اپنی گستاخی پر معافی مانگتا ہوں اور دو ہزار ین(yen) میں اسے خرید رہا ہوں۔ جب عصمت اللہ صاحب آئیں تو انہیں ضرور بتا دیں۔ پھر بک سٹالز کے بارے میں اس طرح کے اَور بہت سارے تبصرے ہیں ۔

اخبارات کے ذریعہ تبلیغ

اخبارات میں بھی جماعت کی خبریں اور آرٹیکلز وغیرہ شائع ہوتے رہے ہیں۔ مجموعی طور پر 521 اخبارات  نے 761جماعتی مضامین آرٹیکلز اور خبریں وغیرہ شائع کیں۔ ان اخبارات کے قارئین کی تعداد قریباً 23 کروڑ44 لاکھ50 ہزار بنتی ہے۔

چینی ڈیسک

 قرآن کریم کا چینی زبان میں ترجمہ پہلی مرتبہ 1990میں شائع ہوا تھا۔ اب دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کا پروگرام ہے۔ چین میں بعض لائبریریوں کو جماعتی لٹریچر بھجوایا گیا۔ ان کی طرف سے شکریہ کے خطوط آئے۔ چین میں مختلف لوگوں سے خط و کتابت کے ذریعے روابط قائم ہو رہے ہیں اور وہ جماعت کے قریب آ رہے ہیں۔ چینی ڈیسک کی طرف سے منتخب آیات ، منتخب احادیث اور منتخب تحریرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آڈیو ریکارڈ کر کے سی ڈی تیار کی گئی ہے اور تبلیغ کا کام ہو رہا ہے۔

بنگلہ ڈیسک

 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عربی کتاب حمامۃ البشریٰ کے بنگلہ ترجمہ کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ اور امسال اس پر نظر ثانی کر کے بنگلہ دیش بھجوایا جائے گا۔ دعوۃ الامیر کا بھی ترجمہ مکمل ہو گیا ہے۔ بنگالی میں ایک Live پروگرام ایم ٹی اے پر جاری ہے جس کے بیس پروگرام ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف کتابوں کے ترجمے، خطبات کے ترجمے اور مختلف کام بنگلہ ڈیسک کر رہا ہے۔

فرنچ ڈیسک

 مختلف ممالک میں فرنچ زبان میں جن کتب و پمفلٹ کے ترجمے کئے جا رہے ہیں فرنچ ڈیسک اس کے ترجمے پر نظر ثانی کرتا ہے۔ ان کتب کی آخری شکل میں شائع ہونے سے پہلے کی تیاری فرنچ ڈیسک کے سپرد ہے۔    دو کتب ،پیغامِ صلح  اور Message of love & Brotherhood for Africa  کے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ باقی مختلف کتابوں کے ترجمے دیکھے جا رہے ہیں۔ اور دوسرے خطبات وغیرہ کا ترجمہ ہو رہا ہے۔

ٹرکش ڈیسک

اس ڈیسک کے تحت ٹرکش ترجمہ قرآن کریم کی نظر ثانی کا کام جاری ہے، اور اب تک بیس پاروں کی نظر ثانی  ہو چکی ہے۔ اسی طرح ان کے سولہ پروگرام ایم ٹی اے پر ریکارڈ کئے گئے۔ خطبات وغیرہ کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔

انڈیا ڈیسک

 ہندوستان میں مرکزقادیان اور دیگر ملک بھر کی جماعتوں سے مختلف امور کے بارہ میںجو خط و کتابت ہے وہ اس کے ذریعہ سے آتی ہے۔ اور اللہ کے فضل سے وہاں کام کافی وسعت اختیار کر گیا ہے۔ مالی لحاظ سے بھی  جو جماعتی لازمی چندہ جات ہیں ان میں بھی اور وقفِ جدید اور تحریکِ جدید میں بھی جماعت بھارت جو ہے ان کے قدم کافی ترقی کی طرف جا رہے ہیں۔

رشین ڈیسک

 یہ ڈیسک نومبر 2009ء سے باقاعدہ قائم ہے۔ اس ڈیسک کے تحت بھی مختلف کام ہو رہے ہیں ۔ خطبات کے ترجمے ہو رہے ہیں، اور جو ترجمے خطبات کے کئے جا رہے ہیں وہ اب تک جتنے رشین احمدی ہیں  سب سنتے ہیں اور مجھے بھی خط لکھتے ہیں۔مثلاً قازقستان سے عبد لن تلکَت صاحب ایک خط میںلکھتے ہیں کہ میرا خاندان 1999ء سے احمدیت کی آغوش میں ہے۔ انہوں نے مجھے لکھا کہ آپ کے خطبات (جب سے یہLive جاری ہوئے ہیں) مشن ہاؤس جا کر سنتے رہے، اور میرے اہلِ خانہ نے سوچا اور فیصلہ کیا کہ کپڑوں کے بغیر تو جیا جا سکتا ہے مگر اب ڈش انٹینا کے بغیر زندگی گزارنا بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ الحمد للہ ہمیں ڈش انٹینا لگانے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔ اگرچہ کچھ قرض لینا پڑا مگر اب یہ ممکن ہو گیا ہے کہ چوبیس گھنٹے ایم ٹی اے دیکھ سکتے ہیں۔ اور ہمارا ایمان ہے کہ آج کے زمانے میں ایم ٹی اے وہ سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر اسلام کے اصل نور تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دے کر بھیجا ہے۔ وہاں کے قازقستان سے ہمارے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جب سے خطبات کے  لائیو ترجمہ کا سلسلہ شروع ہوا ہے، جمعہ کے دن اکثر لوگ وہاں آ جاتے ہیں اور انہوں نے وہاں آنا، جمعہ سننا اور خطبہ سننا اپنے معمولات میں شامل کر لیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ سب سے بڑھ کر قابلِ ذکرہماری نابینا بزرگ خاتون ہیںجن کا نام روزہ آپا ہے۔ جو اس سے قبل بوجہ کمزوری نظر اور کرایہ بس مہینے میں صرف ایک بار جمعہ پر آتی تھیں۔ اب ہر جمعہ کو صبح گھر سے اپنی سفید چھڑی لے کر نکلتی ہیں اور جمعہ سے قبل مشن ہاؤس آ جاتی ہیں تا کہ وہ خطبہ سن سکیں۔ اور سارہ ہفتہ بلڈنگ میں رہنے والی دوسری بوڑھی عورتوں کو خطبہ کے بارہ میں بتاتی رہتی ہیں۔ جس جگہ وہ رہتی ہیں وہاں لوگوں کو بتاتی رہتی ہیں ۔ بوڑھی عورتوں کو تو یہی کام ہوتا ہے ناں ، وہاں بھی یہی رواج ہے۔ بلکہ انہوں نے مجھے بھی خط لکھا تھا کہ پہلے اپنی گلی میں، اپنے فلیٹ کی جو بلڈنگ تھی اس کے باہر ہم اکٹھے ہوتے تھے۔ لوگ دنیاداری کی باتیں کرتے تھے، حالاتِ حاضرہ پر تبصرے کرتے تھے کیا ہو رہا ہے، کیا نہیں۔ اب مَیںجمعہ والے دن خطبہ جمعہ سن کے جب آتی ہوں ، تو میرے ہمسائے جوغیر احمدی مسلمان ہیں وہ سب اکٹھے ہو جاتے ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ آج خطبہ میں تمہیں کیا کہا گیا؟ تمہارے خلیفہ نے کیا کہا؟ اس پر پھر تبصرہ ہوتا ہے اور یہی باتیں ہوتی ہیں۔

 اسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ ایک اور بزرگ خاتون جو ذاتی طور پر ڈش کے بہت مخالف تھیں جب سے

  رشین ترجمہایم ٹی اے پر آنا   شروع ہوا ہے، انہوں نے اپنے گھر میں بھی ایک ڈش لگوا لیا ہے۔

               آذر بائیجانی احمدی ماہر صاحب جو ماسکو میں رہتے ہیں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے تو اس بات پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوںکہ نئے سال کے آغاز سے ہم آپ کے خطبات جمعہ کا رشین ترجمہ سن سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ آپ کے خطبات کی سمجھ آنے لگی ہے۔ آپ کے خطبات کو سن سن کر ان سوالات کے جوابات خود بخود ملتے جا رہے ہیں جو اکثر ہمارے ذہنوں میں پیدا ہوتے تھے۔ پردیس میں رہتے ہوئے انسان کو زیادہ سمجھ آنے والی زبان میں کسی کی ہدایت اور رہنمائی کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آذر بائیجانی ہیں، ماسکو میں رہتے ہیں۔

               پھرلکھتے ہیں کہ ہم آپ کے خطبات جو رشین زبان میںہیں ان کے شدت سے منتظر رہتے ہیں۔ الحمدللہ کہ اب یہ نشریات جاری ہو گئی ہیں۔ چند خطبات رشین ترجمہ کے ساتھ ہم سن چکے ہیں۔ ان خطبات نے ہمیں بہت متاثر کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی ہماری روزمرہ زندگی میں شدید کمی تھی۔ آپ نے ان خطبات میں جن موضوعات پر بات کی ہے اُن کا ہمارے دین و مذہب اور روزمرہ زندگی سے براہِ راست  تعلق ہے۔ جن مسائل کا آپ نے خطبہ میں ذکر کیا ان سے ہماری اپنی فیملی دوچار ہے۔ مثال کے طور پر ایک بات ہمیں بہت پسند آئی جو آپ نے شادی بیاہ کے موقع پر فضول خرچی سے منع کیا ہے۔ موجودہ دور میں اقتصادی بحران نے ہمیں بری طرح متاثر کیا ہوا ہے۔ اس لحاظ سے آپ کی یہ نصیحت بہت ہی پر حکمت اور قابلِ عمل ہے۔ آپ کے خطبات گھرانوں اور اہلِ خانہ کو جوڑ کر رکھنے والے ہیں۔ اب ہم باقاعدگی سے آپ کا خطبہ جمعہ سنتے ہیں۔ اور دورانِ ہفتہ اگلے خطبہ سے قبل کئی بار سن لیتے ہیں۔

عربک ڈیسک

عربک ڈیسک کے تحت گزشتہ سال تک جو کتب اور پمفلٹس عربی زبان میں شائع ہوئی تھیں ان کی تعداد تقریباً 76ہے۔ اور حقیقۃ الوحی کا جو ترجمہ اس سال جو شائع کیا گیاہے وہ مجید عامر صاحب نے کیاہے ۔   عربوں کی طرف سے جن کو انہوں نے پڑھنے اور نظرِ ثانی کے لئے بھیجا تھا، بڑا پسند کیا گیا ہے۔ تذکرۃ الشہادتین  اور الہدیٰ والتبصرۃ لمن یریٰ۔ یہ  ترجمے بھی آخری مراحل میں ہیں ۔ اور حضرت مسیح موعود  علیہ السلام اور خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی مختلف مزید 9 کتب کے ترجمے ہو رہے ہیں۔

ایم ٹی اے اَلْعَرَبِیَّہ کے نیک اثرات

ایم ٹی اے کے ذریعے عربوں میں جو جماعت کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اس کے بعض واقعات ہیں، بعض واقعات تو بڑے لمبے ہیں ان کو اس وقت بیان کرنا مشکل ہو گا ۔

 مکرم ہشام عبد الجواد صاحب مصر سے لکھتے ہیں کہ احمدی ہونے سے قبل دین سے غفلت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اب احمدیت کے ذریعے اسلام کی حلاوت نصیب ہوئی ہے۔ قبل ازیں بھی قرآن کریم تو پڑھتا تھا لیکن اس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پھر لکھتے ہیں کہ جب ایک دوست نے احمدیت کے بارے میں بتایا تو شروع میں مَیں نے اس کی بہت مخالفت کی اور سنے سنائے اعتراضات کئے۔وہ چونکہ نو احمدی تھے اس لئے بعض اعتراضات کا جواب نہ دے سکے۔ لیکن مَیں دیکھتا تھا کہ نماز بھی پہلے کی طرح ہی پڑھتے ہیں اور قرآن اور قبلہ بھی وہی ہے۔ دوسری طرف ایک روز مصری اخبار میں جماعت احمدیہ پر کفر کا فتویٰ چھپا ، وہ دیکھا۔ اس پر مَیں نے قرآن و حدیث کی روشنی میں حق اور باطل کو پرکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ حضرت مسیح موعود؈ کی کتب اور حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر کو پڑھا۔ اس پر یوں لگا جیسے مَیں پہلے ہی احمدی تھا۔ لیکن امام مہدی کو نہیں پہچانتا تھا۔ اس پر مجھے بہت رونا آیا جس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ میرے والد صاحب تک امام مہدی کاپیغام نہ پہنچا اور وہ بغیر بیعت کے فوت ہو گئے۔ دوسرے یہ کہ مَیں امام الزمان کو پہلے کیوں نہ پہچان سکا؟ جب مَیں انشراح صدر کے بعد احمدی ہو گیا تو خیال آیا کہ اگر چہ مجھے احمدیت کی صداقت کے بارے میں کوئی شک نہیں پھر بھی مجھے استخارہ کرنا چاہئے۔اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح اشارے ہوئے۔ احمدی ہونے کے بعد اسلامی تعلیم پر پوری طرح کاربند ہو گیا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ میری نظر میں کوئی اَور خوبصورت اور محبوب نہ رہا۔

               لطافی نصیرہ صاحبہ فرانس سے لکھتی ہیں کہ میرے میاں ٹی وی کے چینل گھما رہے تھے کہ اچانکMTA  مل گیا جس پر پروگرام الحوار المباشر چل رہا تھا جس میں پُر نور چہرے والے لوگ بیٹھے تھے۔ ان کی تمام تفاسیر عقل اور منطق کے بالکل مطابق تھیں۔ اس کے بعد اسے باقاعدگی سے دیکھنا شروع کیا اور معلوم ہوا کہ مسیح موعود آ چکے ہیں۔ جس سے دل کو اطمینان ہوا۔ ہم حقیقت کی تلاش میں تھے لیکن وہ غلط اور خرافاتی تفاسیر دل کو بھاتی نہ تھیں جن میں لاکھوں عام مسلمان بھٹک رہے ہیں۔ جیسے جنّ، دجّال اور مسیح کا آسمان سے نزول اور جادو وغیرہ۔ لیکن آپ کی تفاسیر سن کر تمام شکوک دور ہو گئے۔ میری والدہ بھی میرے بچپن سے بیماربھائی کی شفا کے لئے پیروں فقیروں کے ہاں چکر لگایا کرتی تھیں اور ان کو کہا جاتا کہ اس پر جادو کیا گیا ہے۔ ایم ٹی اے دیکھنے کے بعد افسوس ہوا کہ اتنی عمر احمدیت کے بغیر ہی ضائع ہو گئی۔ اور پھر آخر بیعت کر لی۔

 مکرم رائد الاظہا رصاحب لکھتے ہیں کہ مَیں بچپن ہی سے نیک فطرت کی وجہ سے دین کا پابند رہا اور مسجد باقاعدگی سے جاتا رہا۔ اور چودہ سال کی عمر تک میری یہی حالت رہی اور اس کے بعد میں بالکل بدل گیا۔نماز وغیرہ کی پابندی نہ رہی۔ کبھی کبھار مسجد میں چلا جاتا۔ یہی حال گاؤں کے اکثر نوجوانوں کا ہے کیونکہ لوگ نماز صرف عادت کے طور پر پڑھتے ہیں۔ 1996ء تک میری یہی حالت رہی یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے گاؤں کے امام مسجد مکرم محمد حسن فضیل صاحب سے میرا تعارف کرایا اور میں نے ان سے ملنا شروع کر دیا۔  وہ صاحب قرآن کریم پر غور و تدبر اور خدا تعالیٰ کی تقدیس اور انبیاء کی عصمت اور قرآنِ کریم کے حدیث پر حَکَم ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اور ایسی روایات کو ردّ کرنے کی تلقین کرتے تھے جو قرآن مخالف ہوں خواہ وہ صحیح بخاری میں ہی کیوں نہ درج ہوں۔ 2007ء میں ایک دن ٹی وی کے آگے بیٹھا مختلف چینل چیک کر رہا تھا کہ اچانک مجھے ایم ٹی اے العربیہ مل گیا۔ مَیں نے بڑے شوق سے باقاعدگی سے اسے دیکھنا شروع کیا اور بالکل وہی مضامین جن پر ہم آپس میں بحث کیا کرتے تھے اس میں مل گئے، گویا ہمیں اپنی گمشدہ متاع مل گئی۔ ہم باقاعدگی سے یہ پروگرام دیکھنے لگے، اور اس کے بعد مَیں نے اور لوگوں کو بھی اس چینل کا تعارف کرایا اور بات پھیلتے پھیلتے گاؤں کے مولوی تک جا پہنچی۔ اس نے لوگوں کو متنبہ کرنا شروع کیا کہ یہ ایک گمراہ فرقہ ہے اس کے پروگرام نہیں دیکھنے چاہئیں اور ان افکار کے پھیلانے والوں کو اس گناہِ عظیم سے توبہ کرنی چاہئے۔ لیکن ہم نے اپنا کام جاری رکھا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے 4ا؍پریل 2009ء کوہم سب دوستوں کو بیعت کا شرف عطا فرمایا۔

 عبدالحلیم البربری صاحب مصر سے لکھتے ہیں کہ اے اس زمانے کے اصحابِ کہف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارو! ہمیں آپ کے ذریعہ حقیقی اسلام کی سمجھ آئی ہے۔ خدا کی قسم ہم مردہ تھے اور اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کے ہاتھ پر ہمیں زندہ کر دیا۔ مجھے آپ سے بہت محبت ہے کیونکہ ہمیںآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظمت آپ کے ذریعہ معلوم ہوئی ہے۔ حقیقی اسلام جو محبت اور الفت کا دین ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا ہے۔ حقیقی اسلام وہ نہیں جو مسخ شدہ صورت میں جبرو اکراہ اور انتہا پسندی کے دین کو پیش کیا جاتا ہے۔

 علی ہاشم زرداد صاحب لکھتے ہیں کہ ہم مردہ تھے آپ نے ہمیں زندہ کیا اور ہمارے اندر روح پھونکی اور قرآن کریم کی فضاؤں میں اڑنے والے پرندے بنا دیا۔ اس پر مَیں آپ کا بہت مشکور ہوں ۔یہ دراصل قرآنِ کریم کا معجزہ ہے جو آپ کی وجہ سے ظہور پذیر ہوا۔ جو آپ کا انکار کرتا ہے وہ متکبر اور اندھا اور ظالم ہے۔

 کمال المصری صاحب نے لکھا ہے کہ میں سنی ہوں لیکن معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی محبت کیونکر میرے دل میں پیدا کر دی ہے ۔آپ کی باتوں میں مجھے وہ کچھ مل گیا جس کی مجھے تلاش تھی۔ خاص طور پر جس عمدگی سے آپ نے قرآن کریم اور سیرۃ النبیؐ  کو پیش کیا ہے وہ غیر معمولی ہے، یہ وہ جو  اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر  پروگرام میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ وہ ان ہی لوگوں کو لکھ رہے ہیں۔

 ہانی طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ مکرمہ نور ابو یوسف صاحبہ لکھتی ہیں: مَیں نے جماعت کی صداقت جاننے کے لئے استخارہ کیا۔پھر سوچا کہ قرآن کریم کھولتی ہوں اور سب سے پہلے جس آیت پر نظر پڑی تو وہی میری رہنمائی کا باعث ہو گی۔چنانچہ پہلی دفعہ قرآنِ کریم کھولا تو سورۃ حج کی یہ آیت سامنے آئی، یعنی انہیں قولِ طیب اور صراط حمید کی طرف ہدایت دی گئی ، اس پر میرا جسم کانپ گیا اور یقین ہو گیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام ہے۔ دوسری دفعہ قرآن کھولا تو جو آیت سامنے آئی اس کا مطلب تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ جو دن رات اللہ تعالیٰ کا ذکر اور عبادت کرتے ہیں اس بار بھی پہلے جیسا ہی احساس تھا۔ تیسری دفعہ قرآن کھولا تو آیت سامنے آئی کہ لوگوں کا یومِ حساب قریب آ گیا ہے لیکن وہ اب تک غفلت کی حالت میں ہیں اور جب بھی ان کے سامنے کوئی نیا پیغام آتا ہے تو اس کے ساتھ لاپرواہی کا معاملہ کرتے ہیں۔ میں نے جماعت کے بارے میں بہت تحقیق کی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں بھی پڑھی ہیں۔ اب اطمینانِ قلب حاصل ہونے کے بعد بیعت کر رہی ہوں۔

               کاش کہ پاکستان کے مولویوںکو ،علماء کو بھی اس بات کی سمجھ آ جائے۔

 اعجاز کریم صاحب الجزائر سے مجھے لکھتے ہیں کہ آپ کو خط لکھتے ہوئے میرے جو جذبات ہیں ان کا الفاظ میں اظہار کرنا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ مَیں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اپنی زندگی میں کبھی خدا کے خلیفہ سے ہمکلام ہو سکوں گا۔ مسخ شدہ اسلامی تعلیم اور قرآنِ کریم کی غلط تفاسیر سے بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ علماء کی تشریحات سن کر سوچتا تھا کہ کیا یہ خدا کا کلام ہو سکتا ہے؟ یہاں تک کہ اردن کے ایک احمدی دوست کے ذریعہ احمدیت اور بانی ٔ سلسلہ کی تحریرات سے آگاہی ہوئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تفسیر پڑھنے سے قبل نوافل پڑھ کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ

 راہِ راست کی طرف رہنمائی فرمائے۔ جیسے جیسے پڑھتا گیا سینہ کھلتا گیااور اس کلام کی ہیبت سے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے بلکہ یہ الٰہی وحی ہے۔ جب بیعت کا فیصلہ کیا تو پہلے استخارہ کیا اس پر خواب میں دیکھا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ رات کو شہر سے گزر رہا ہوں۔ ایک نور ہمارے ساتھ چل رہا ہے اور اسی دوران فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس پر حضرت امام مہدی؈ کا فون نمبر آ رہا ہے۔ مَیں نے  دل میںفیصلہ کیا کہ مَیں ان کو واپس کال کرتا ہوں۔ اگر انہوں نے فون کا جواب نہ دیا تو وہ سچے نبی ہوں گے ورنہ نہیں۔کیونکہ میرا خیال تھا کہ نبی فون کا جواب نہیں دیا کرتے۔ چنانچہ مَیں نے فون کیا، دیر تک گھنٹی بجتی رہی لیکن انہوں نے فون نہ اٹھایا۔ اس کے بعد آپ؈ نے میرے سامنے پُر ہیبت تجلی فرمائی۔ مَیں نے قرآنِ کریم اور اَعُوْذُ بِاللّٰہ پڑھنا شروع کر دیا۔ تا کہ شیطان کہیں مجھ پر مہدی کا معاملہ مشتبہ نہ کر دے۔ اس کے بعد شدتِ خوف سے جاگ اٹھا۔ یہ نمازِ فجر کا وقت تھا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ خواب سچی ہے اور پھر بیعت کر لی۔

محمد عبدالمجید صاحب مصر سے لکھتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ہوں اور ہاتھ میں ایک چپو ہے اور بے مقصد و منزل گھوم رہا ہوں جبکہ سمندر میں طغیانی ہے اور کشتی ڈوبنے کے قریب ہے۔ تب مَیں نے اللہ تعالیٰ کی آواز سنی کہ یہ لو موسیٰ کا عصا اور سمندر پر مارو۔ جس پر ایک عصا ہاتھ آ گیا جو کسی قدر ٹیڑھا تھا مَیں نے اسے آسمان سے لیا اور سمندر پر مارا۔ جس پر کشتی ایک خوبصورت اور بلند مقام پر ٹھہر گئی جو خوبصورت عمارتوں والا ایک شہر ہے۔ اس میں سارے لوگ خوش شکل اور خوش و خرم تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ جماعت احمدیہ کا شہر ہے۔ مَیں نے سمجھا کہ اس طرف اشارہ ہے کہ مجھے بیعت کر لینی چاہئے۔ چنانچہ مجھے بیعت کی توفیق ملی۔

  مکرم اسحاق احمد القدومی صاحب اردن سے لکھتے ہیں کہ جب ایم۔ٹی۔اے نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر عیسائیوں کے چینل پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینا شروع کیاتو ان کے یہ اعتراضات سن کر بہت رنج ہوا۔ اسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگِ خندق کے روز اپنے گھوڑے پر سوار ہیں۔ پھر ایک منادی کی آواز آتی ہے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد مَیں نے بہت سی تلواروں کو حضورؐ پر حملہ آور ہوتے دیکھا ۔ حضور ؐ اپنے دفاع کے لئے تلوار اٹھاتے ہیں۔مَیں بھی تلوار اٹھاتا ہوں اور حضور کی تلوار کے پیچھے رکھتا ہوں۔ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سی تلواریں مع میری تلوار کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے ساتھ رکھ دی جاتی ہیں۔ اس پر مَیں اونچی آواز میں کہتا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے یہ تلواریں کس کی ہیں؟ تو مجھے آواز آتی ہے کہ یہ جماعت احمدیہ اسلامیہ کی تلواریں ہیں۔

اللہ تعالیٰ بعض دفعہ اَور ذریعوں سے بھی خود راستے کھولتا ہے، غیروں کو ہی مخالفین کو بھی ذریعہ بنا دیتا ہے۔ ڈاکٹر میاسہ صاحبہ سعودیہ سے لکھتی ہیں کہ میں احمدیت کے بارے میں کچھ نہ جانتی تھی۔ ایک دن اچانک بغیر کسی مقصد کے پال ٹاک پر احمدیوں کے چَیٹ روم (chat room)میں گئی جہاں مجھے ایسے امور کا پتہ چلا جن کے بارے میں مجھے کچھ علم نہ تھا۔ مَیں حیرت زدہ ہو کر اس روم سے نکل گئی اور بغیر کسی قصد اور ارادے کے ایک دوسرے روم میں چلی گئی۔ یہاں بولنے والا شخص کہہ رہا تھا کہ ابھی ہمارے رُوم میں ایک احمدی داخل ہوا تھا ۔یہ لوگ کافر اور ملحد ہیں۔ اتنا کہہ کروہ کسی اور موضوع پر باتیں کرنے لگا۔ مَیں نے اس رُوم میں احمدیوں کے بارے میں پوچھا لیکن کسی نے جواب نہ دیا۔مَیں اس رُوم سے بھی نکل گئی اور کسی اور رُوم میں داخل ہو گئی۔ میرے داخل ہوتے ہی ایک شخص نے ایک قصیدہ کا لنک(Link) لکھ کر بھیجا تا کہ جو اس قصیدہ کو سننا چاہے اس لِنک کے ذریعے سن سکتا ہے۔ یہ قصیدہ ایک غیر احمدی شاعر کا تھا جس کا مطلع یہ تھا کہ

 عَرَفْتُ طَرِیْقِیْ اِلٰی صَدِیْقِیْ

لِنَقْفُوْ دَرْبَ الْھُدَی الْا َحْمَدِی

کہ مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ درست راستہ کون سا ہے اس لئے اے میرے دوست! میری طرف آ جا تا کہ ہم ہدایت کے احمدی راستے پر گامزن ہو جائیں۔

میں نے کبھی کسی قصیدے میں احمدیہ یا احمدی کا لفظ نہیں پڑھا تھا۔ جب یہ قصیدہ سنا تو سمجھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے نام پیغام ہے اور یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کیونکہ مَیں اس سلسلے میں تحقیق کر رہی تھی۔ اور یہ میرے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی تھی۔لہٰذا میں نے فوراً بیعت کر لی۔

فراس العبادی صاحب ابوظہبی سے لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جس قدر کتابیں مجھے مہیا ہو سکیں ،ان کے مطالعے سے نیز ایم۔ٹی۔ اے کے پروگرام الحوار المباشر کو باقاعدگی سے دیکھنے سے مجھے جماعتی عقائد پر اطلاع ہوئی۔ شروع میں تو جہالت اور گزشتہ خیالات کی وجہ سے میں نے فوراً منفی ردّ عمل ظاہر کیا۔ لیکن جب قرآنی آیات و احادیث اور خدائی سنت کا بغور مطالعہ کیا تو میرا دل مطمئن ہو گیا۔ اب میرے سامنے دو راستے ہو گئے۔ یا تو مَیں مسلسل حضرت عیسیٰ بن مریم کے آسمان سے نزول کا انتظار کئے جاؤں اور اس سے قبل دجال کا انتظار جس کی بعض ایسی صفات بیان کی گئی ہیں جو صرف خدا تعالیٰ کو زیبا ہیں جیسے احیائے موتیٰ وغیرہ اور پھر جنّ بھوتوں کے قصے اور قرآنِ کریم میں ناسخ و منسوخ کے عقیدے سے چمٹا رہوں ۔یا پھر حضرت احمد؈ کو مسیح موعود اور امام مہدی مان لوں جنہوں نے اسلام کو خرافات سے پاک فرمایا ہے اور اسلام کے حسین چہرے کو نکھار کر پیش فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی دفاع فرمایا ہے۔ بہر حال مَیں نے خدا تعالیٰ سے مدد چاہی اور بہت دعا کی کہ وہ میری رہنمائی فرمائے اورحق اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے۔ چنانچہ مَیں نے جماعت احمدیہ اور حضرت احمد علیہ السلام کی طرف ایک دلی میلان محسوس کیا۔(  مجھے لکھ رہے ہیں کہ)  حضور!مَیں نے قانون پڑھا ہوا ہے۔ جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار سنے تو میرا جسم کانپنے لگا اور آنکھوں سے آنسو امڈ آئے، اور میں نے زور سے کہا کہ ایسے شعر کوئی مفتری نہیں کہہ سکتا۔ ایک مفتری کے سینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر ایک عجمی کا اتنی قوی اورفصیح و بلیغ عربی زبان کا استعمال کرنا بغیر خدائی تائید کے نا ممکن ہے۔خدا تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے ہدایت عطا فرمائی۔

مکرم لطیف مصطفی حریری صاحب شام سے لکھتے ہیں کہ مَیں ایک سادہ انسان ہوں۔پڑھ لکھ نہیں سکتا اور نہ ہی میرے پاس کوئی وسائل ہیں۔ گزشتہ چار ماہ میں مَیں نے بہت سی خوابیں دیکھی ہیںکہ میری روح قبض کی جارہی ہے۔ آخری خواب میں میں نے دیکھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم طرطوس شہر میں تشریف لائے ہیں اور ہمارے گھر کے ہی ایک کمرے میں تشریف فرما ہیں جس کا اصل میں ایک ہی دروازہ ہے۔ لیکن مجھے خواب میں اس کے دو دروازے نظر آئے ، ایک مغرب کی طرف اور دوسرا قبلے کی طرف۔میرے والد صاحب اس دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ رسول اللہ کو سلام کرو۔ میں نے سلام عرض کیا ۔ جب میں نے مصافحہ کیا تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا میرے دل میں داخل ہوا اور اطمینانِ قلب نصیب ہوا۔ میں نے نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں موجود ہیں۔ احمدیت قبول کرنے کے بارے میں مَیں نے استخارے کے بعد جس میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگی تھی کہ اے خدا! میں ایک سادہ اَن پڑھ انسان ہوں مجھے حق دکھا تو خدا تعالیٰ نے میرے عمل مجھے دکھائے جو اچھے نہیں تھے کیونکہ میں نماز کا بھی پابند نہیں تھا۔ اس کے بعد مَیں نے اپنے آپ کو اپنی والدہ کے ساتھ قبرستان میں دیکھا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام میری روح قبض کرنے آئے ہیں اور انہوں نے میری گردن پر ٹھوکر ماری ہے جس سے میری گردن پر ایک مہر کا سا نشان پڑ گیا ہے۔ اس کے بعد میں وہاں سے چل پڑا حتی کہ مَیں نے ایک نوجوان کو دیکھا اور میں نے اسے تعجب سے کہا کہ میری گردن پر امام مہدی کی مہر لگی ہوئی ہے۔ اس نے کہا کہ یہ نشان میری گردن پر بھی ہے اور یہ بیعت کی مہر ہے۔

ایم ٹی اے انٹر نیشنل

               ایم ٹی اے انٹر نیشنل میں اس وقت مینجمنٹ بورڈ کے ماتحت چودہ ڈیپارٹمنٹ کام کر رہے ہیں جن میں کل 122 مرد اور63 خواتین ہیں جو اللہ کے فضل سے چوبیس گھنٹے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اور ان میں سے اکثریت والنٹیئرز کی ہے۔یہ تو آپ پہلے ہی سن چکے ہیں کہ اس دفعہ ایم ٹی اے العربیۃ بھی کچھ وقت کے لئے جلسے کی کارروائی علیحدہ نشر کر رہا ہے۔

                ایم ٹی اے پر جو نئے پروگرام شروع ہوئے ہیں ان میں اردو میں راہِ ھدیٰ اور تاریخی حقائق، انگریزی میں Faith matters اور Real Talk، بنگلہ میں شوتیرشندھانے(Shotter Shondhane)۔ڈچ زبان میں گفتگو کا پروگرام ہے۔ عربی زبان میں کبابیر سے سبیل الھدٰی، براہِ راست ہفتہ وار پروگرام ہے۔ اور ان پروگراموں کا اللہ کے فضل سے بڑا فائدہ ہو رہا ہے کیونکہ یہ لائیو پروگرام ہیں۔ سوال جواب بھی ہوتے ہیں اور ان کے ذریعے سے کافی بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔

ایم ٹی اے کے ذریعہ سے بیعتیں

                امیر صاحب امریکہ بیان کرتے ہیں کہ ڈیٹرائٹ امریکہ میں ایک عرب خاتون اور ان کی والدہ نے

 ایم ٹی اے العربیہ کمپیوٹر پر دیکھا اور جماعت کے پیغام سے بہت متاثر ہوئیں۔مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ پروگرام کہاں سے ٹیلی کاسٹ ہو رہا ہے اور کیسے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح اس پروگرام کے ذریعے ان کی احمدیت میں دلچسپی بڑھتی گئی اور انہوں نے احمدیت قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب انٹر نیشنل بیعت کا پروگرام دکھایا جا رہا تھا تو انہوں نے جوشِ جذبات میں اپنے ویڈیو مانیٹر پر ہاتھ رکھ کر بیعت کر لی اور جماعت میں شامل ہو گئیں۔ بعد میں انہوں نے ڈیٹرائٹ جماعت سے رابطہ کیا ۔

               امسال جماعت احمدیہ بینن کو مختلف مقامات پر بالخصوص نومبائع جماعتوں میں ایم ٹی اے لگانے کی توفیق ملی۔ اس بارے میں مختلف جگہوں سے بڑے ہی دلچسپ جذبات دیکھنے کو ملے۔ناصر احمد محمود لکھتے ہیں کہ  کپانگ پاڈے(KpangPade) جماعت میں خاکسار اور ملک ریحان احمد مبلغ سلسلہ ایم ٹی اے لگانے گئے تو انسٹال کرنے پر اس جماعت کے ایک بزرگ عبداللطیف صاحب نے ہمیں بٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور میرا بڑے پیارے انداز میں شکریہ ادا کرنے کے بعد روپڑے اور کہنے لگے کہ میری عمر اس وقت پینسٹھ سال سے زائد ہے، نمعلوم کس وقت بلاوا آ جائے۔جب سے امام مہدی علیہ السلام کو قبول کیا ہے میرے دل میں یہی کسک اور تڑپ رہی کہ کاش میری زندگی میں امام مہدی اور ان کا خلیفہ میرے گھر میں بھی آئیں۔ آج مَیں اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوش قسمت محسوس کر رہا ہوں۔میری تمام مرادیں مجھے مل گئیں۔ امام مہدی بھی نظر آ گئے اور خلیفۃ المسیح بھی نظر آ گئے۔مَیں حضور کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

               باسا ریجن سے ہمارے مبلغ مجیب صاحب لکھتے ہیںکہ انہوں نے ایم ٹی اے لگانے کے بعد دو جماعتوں ’اکباری‘ اور’ اپاپا اِیبوُ‘ کا دورہ کیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگ خوشی خوشی ایم ٹی اے کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اور پوچھا کہ کچھ سمجھ بھی لگتی ہے کہ نہیں۔ تو کہنے لگے کہ نہ تو ہمیں فرنچ آتی ہے نہ ان کی زبان۔جب معلم آتا ہے تو ہمیں کچھ بتا جاتا ہے۔ اور ہم تو حضور کی بچوں کے ساتھ اور بڑوں کے ساتھ کلاس دیکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضور ہمارے اندر موجود ہیں۔ اب تو ہمارے بچے بھی ویسے ہی کپڑے پہننے لگے ہیں جس طرح اس کلاس میں بچے بچیاں پورے تن بدن ڈھانک کر بیٹھتی ہیں۔

               ایک افغانی خاتون سے ایک احمدی فیملی کا رابطہ ہوا ۔ جب انہیں علم ہوا کہ جن سے تعارف ہوا ہے وہ احمدی ہیں تو اس افغانی خاتون نے اللہ کا شکر ادا کیا اور کہا کہ میں ایک لمبے عرصے سے ایم ٹی اے دیکھ رہی ہوں اور یہ جو بزرگ آتے ہیں ان کی بہت مدّاح ہوں کہ بڑے پیارے انداز سے وہ بچوں کو باتیں بتاتے ہیں اور اسلام سکھاتے ہیں۔ جب ان کا پروگرام آتا ہے تو میں بچوں کو ٹی۔وی کے سامنے بٹھا دیتی ہوں کیونکہ اس سے بہتر تربیت کا اور کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں۔ اب یہ فیملی احمدیت کے کافی قریب آ گئی ہے۔

دیگر ٹی وی اور ریڈیو پروگرامز

                ایم ٹی اے کے علاوہ اس سال 1308 ٹی وی پروگراموں کے ذریعہ 1441 گھنٹے اور 30 منٹ وقت ملا اور 10 کروڑ سے زائد افراد تک اس ذریعہ سے پیغام پہنچا۔

               اور ریڈیو میں مختلف ممالک کے ملکی ریڈیو سٹیشنز پر 3303 گھنٹے پر مشتمل 4164 پروگرام نشر ہوئے۔جن کے ذریعے ایک محتاط اندازے کے مطابق سات کروڑ سے زائد افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔

                افریقن ممالک میں ریڈیو کے ذریعے سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ برکینا فاسو میں جماعت کا جو ریڈیو اسلامک ہے اس سے دو ملین آبادی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اسی طرح مالی میں بھی1200 گھنٹوں پر مشتمل پروگرام ریڈیو چینلز پر نشر ہوئے۔ سیرالیون میں روزانہ آٹھ گھنٹے کی نشریات ہوتی ہیں۔ غانا میں جماعت کے پروگراموں کو کافی کوریج ملتی ہے۔263 گھنٹوں پر مشتمل 375 پروگرام نشر ہوئے۔ نائیجیریا میں112 گھنٹوں پر مشتمل205 پروگرام نشر ہوئے ۔ اسی طرح ٹی۔وی پر276 گھنٹوں پر مشتمل 374پروگرام نشر ہوئے۔ گیمبیا میں بھی میڈیا کافی کوریج دے رہا ہے ۔  اور اسی طرح مختلف ممالک ہیںگنی بساؤ، بینن ، آئیوری کوسٹ ، نائیجر، یوگنڈا، ٹوگو، مڈغاسکر، کانگو برازویل، کانگو کنشاسا، گیانا ، جزائر فجی، سرینام، نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، ہندوستان ۔ اور ہندوستان میں چنائی کے علاقے میں جو پروگرام ہو رہے ہیں وہاں ان کا تامل بولنے والوں پر بڑا اچھا اثر ہوا ہے۔

               ریڈیو سن کربھی قبولیت احمدیت کے یا دوسرے دلچسپ واقعات سامنے آئے ہیں۔ جماعت کے ریڈیو پروگرام بے حد مقبول ہیں۔ بینن میں جو ڈاسا ریجن ہے وہاں انہوںنے پہلی بار تبلیغی اور تربیتی پروگرام اور میرے خطبات سنانے شروع کئے۔ ریڈیو کے مالک سے جب پہلا کنٹریکٹ ختم ہوا تو وہ ہمارے ریجنل مبلغ مجیب احمد منیر صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جب تک آپ معاہدہ نہیں کرتے تب تک کے لئے آپ اپنی کیسٹس ہمیں دے دیں ہم مفت ان کو نشر کرتے رہیں گے۔ جس طرح آپ کی جماعت انسان کے اخلاق کو تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس طرح کوئی اور جماعت نہیں۔ اس لئے ہم معاہدے کے علاوہ بھی آپ لوگوں کی کیسٹس چلائیں گے۔

               بینن کے شمال میں 615 کلو میٹر دور ایک شہر داسا پیانکو ہے جہاں کا ریڈیو اس سارے علاقے کو کور کرتا ہے۔ وہاں کے مبلغ مظفر احمد ظفر صاحب ہر جمعہ کے دن میرا خطبہ نشر کرواتے ہیں۔ تبلیغی پروگرام بھی کرتے ہیں ۔  وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن ایک غیر احمدی مُلّاں نے ریڈیو سے وقت لے کر ہمارے خلاف زہر اگلا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کئے ۔ دورانِ پروگرام ہی اس شہر کے بادشاہ نے چیف نے ریڈیو والوں کو فون کیا کہ ہم جماعتِ احمدیہ کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتے۔ احمدی تو اپنے پروگراموں میں اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں جبکہ مُلّاں فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے اس کو بند کیا جائے۔ اس پر ریڈیو والوں کو اس مُلّاں کا پروگرام بند کرنا پڑا اور پھر وہ وفد بن کر جماعت کے پاس معافی مانگنے آئے۔

               بینن کے ریجن پوبے (Pobe)کے ریڈیو پر جماعت احمدیہ کا ہفتہ وار ، تبلیغی تربیتی پروگرام چلتا ہے۔ لوکل مشنری یحییٰ صاحب یہ پروگرام کرتے ہیں۔ چند دن پہلے ہی ایک پروگرام قرآنِ کریم اور بائبل کے حوالوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اور ان کے نبی ہونے اور خدا کا بیٹا نہ ہونے پر ہوا۔ ایک پادری نے ریڈیو والوں کو فون پر دھمکیاں دینی شروع کر دیں کہ یہ پروگرام بند کریں۔ عیسائیت کی ساری عمارت زمین پر آ گری ہے۔ اسے بند کریں ورنہ ریڈیو کو نقصان پہنچائیں گے۔ ریڈیو کے مالک پر اس قدر پریشر تھا کہ ہمارا پروگرام جو ایک گھنٹے کا تھا درمیان میں بند کروا دیا گیا ۔جس پر ہمارے ریجنل مبلغ قیصر محمود طاہر نے ریڈیو والوں سے اس پادری کا فون نمبر لے کر رابطہ کرنا چاہا تو پادری صاحب نے بات سننے سے انکار کر دیا۔ جب ہم نے ریڈیو کے ڈائریکٹر کو ساری تفصیل بتائی کہ ہم نے جو بھی بات کی ہے قرآنِ کریم اور ان کی مقدس کتاب بائبل سے کی ہے اور اپنا تو کچھ بھی بیان نہیں کیا۔ تو ڈائریکٹر صاحب نے ساری بات سمجھ کر اس پادری صاحب سے خود رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا۔ پادری کے رویّہ اور جماعت احمدیہ کی سچائی کا اس ڈائریکٹر پر  اتنا اچھا اثرہوا کہ انہوں نے ہماری اسی قیمت میں وقت ایک گھنٹہ سے بڑھا کر دو گھنٹہ کر دیا۔ بلکہ ڈیڑھ گھنٹے کا پروگرام فری بھی چلایا۔ اور اللہ کے فضل سے پہلے سے بڑھ کر تبلیغ کا موقع مل گیا۔

احمدیہ انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز

                 احمدیہ انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف آرکیٹیکٹس اینڈ انجینئرز بھی اللہ کے فضل سے بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔ ان کے والنٹیئرز، نوجوان، ینگ لڑکے بھی، سٹوڈنٹس بھی اور           انجینئرز وغیرہ بھی، افریقن ممالک میں جا کر پانی کے پمپ لگانے اور سولر انرجی کے پینل وغیرہ لگا نے کا کافی کام کر رہے ہیں۔ اور بڑے سستے یہ سارے کام کر رہے ہیں۔ بڑی ریسرچ کر کے چیزیں تلاش کرتے ہیں پھر جا کر لگاتے ہیں۔ اور اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے غانا ، بینن، نائیجر، مالی، گیمبیا، سیرالیون اور برکینا فاسو میں160 مقامات پر بجلی فراہم کی جا چکی ہے، اور سولر سسٹم لگایا جا چکا ہے۔ برکینا فاسو اور بینن میں مزید پچیس پچیس سولر سسٹم بھجوا دئیے گئے ہیں۔ اگست میں ہمارے انجینئرز کی ٹیم وہاں جا کر ان کو انسٹال کر دے گی۔ اور جہاں جہاں بجلی مہیا کی گئی ہے وہاں اللہ کے فضل سے لوگ ایم ٹی اے سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اس کے علاوہ1500 سولر لینٹرنس چھ ملکوں میں بھجوائی گئی ہیں ۔

                صاف پانی مہیا کرنے کا کام بھی ایسوسی ایشن کر رہی ہے اور افریقہ کے مختلف ممالک کے دورے کر کے واٹر پمپ لگائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اب تک کل 485 ہینڈ پمپ لگائے جا چکے ہیں جن میں بینن میں 65

برکینا فاسو میں 189، غانا میں 34، آئیوری کوسٹ میں 51، نائیجر میں 60، گیمبیا میں22، مالی میں64 پمپ لگائے جا چکے ہیں اور اللہ کے فضل سے لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔

                اور اس کے علاوہ مشن ہاؤسز کی تعمیر اور نقشے اورجو مختلف کام ہیں وہ بھی آرکیٹکٹ ایسوسی ایشن کر رہی ہے۔ اور کچھ ماڈل ویلیج بنانے کا بھی ان کا پروگرام ہے جن کی تعمیر ابھی شروع ہو جائے گی  انشاء اللہ۔ پہلا جو ماڈل ویلیج ہے وہ برکینا فاسو میں مہدی آباد کے نام سے ایک گاؤں بنایا جا رہا ہے۔ اس میں پینے کا پانی ہر گھر میں ٹونٹی کے ذریعے سے ا ور بجلی کی فراہمی سولر پاور کے ذریعے سے مہیا کی جائے گی۔ اسی طرح اس میںجو 400 افراد کی آبادی ہے اسے 26 ہزار لیٹر کا پانی اور سولرسٹریٹ لائٹس وغیرہ  بھی اس گاؤں میں مہیا کی جائیں گی۔ زراعت کے لئے پانی فراہم کیا جائے گاجس سے وہپھل اور سبزیاں لگائیں گے اور اس کے لئے ڈیزائننگ اور پلاننگ مکمل ہو گئی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس سال ایک گاؤں کایہ منصوبہ بھی مکمل ہو جائے گا ۔ اور ایک ایک کر کے پھر انشاء اللہ یہ سہولیات باقی کچھ ملکوں میں بھی مہیا کی جائیں گی۔

ہیومینٹی فرسٹ (Humanity First)

               Humanity Firstجو کہ گذشتہ16 سال سے خدمتِ انسانیت میں مصروف ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے35 ممالک میں کام کر رہی ہے جن میں افریقہ کے 8 ممالک ہیں اور اسی طرح اَور مختلف ممالک ہیں جہاں بعض ہنگامی حالات کے علاوہ بھی ان کے یہ کام چل رہے ہیں۔ مثلاً لائبیریا میں انہوں نے کساوا پروسیسنگ پلانٹ لگایا ہے جس سے غریب کسانوں کو مفت کساوا  وغیرہ پیسنے کی سہولت مہیا ہے۔ بیچنے کے بعد کمائی کرتے ہیں۔  انجینئر ایسوسی ایشن جو پمپ لگا رہی ہے اس میں بھی یہ کچھ حصہ ڈالتے ہیں اور ان کو مالی مدد دیتے ہیں۔ ان کی رپورٹ کے مطابق،  ان کے ذریعے سے جو پمپ لگائے گئے ہیں اور مدد کی گئی ہے اس میں1.67 ملین یعنی سولہ لاکھ ستّر ہزار لوگوں کو پینے کا پانی مہیا کیا گیا ہے۔ میڈیکل کیمپس لگائے ہیں اور51 ہزار 140لوگوں کو طبی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ 21,498 طلباء کو تعلیمی وظائف دئیے گئے۔ یتامیٰ کی پرورش کا انتظام بھی یہ لوگ کر رہے ہیں۔ بینن میں یتامیٰ کی ایک عمارت تعمیر کی جارہی ہے۔31ہزار افراد کو لمبے وقت کے لئے روزانہ کی بنیاد پر خوراک مہیا کی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیش، فجی، ویسٹ سمووا، سولومن آئی لینڈ، فلپائن، یوگنڈا، کینیا، پولینڈ، برکینا فاسو، نائیجر وغیرہ میں متاثرہ لوگوں کو ضروریات مہیا کی جا رہی ہیں۔ غزہ فلسطین میں بھی جنگ کے بعد بحالی کے لئے ہیومینٹی فرسٹ نے یو این او کے تحت کام کرنے والی تنظیموں کے ذریعے مدد کی۔ ہیٹی میں زلزلے سے متاثرین کی مدد کی گئی۔ اور قریباً23 ہزار400 مریضوں اور زخمیوں کا علاج کیا گیا۔169 ڈاکٹرز اور دیگر کارکنان کی گیارہ ٹیموں نے کام کیا۔ پانی کپڑے اور کھانے کی چیزیں تقسیم کی گئیں۔ سات یتیم خانوں اور ایک سکول کی ضروریات پوری کی گئیں۔ نادار، ضرورتمندوں اور یتیموں کی امداد بھی کی جاتی ہے۔ ہسپتالوں کے ذریعے سے افریقہ کے غریب ممالک میں چودہ ہزار سے زائد مریضوں کا ان کے علاقے میں پہنچ کر علاج کیا گیا۔ ادویات تقسیم کی گئیں۔ ہندوستان میں بھی ہماری ڈسپنسریز کام کر رہی ہیں، ان کو وہاں دوائیں مہیا کی گئیں۔ ہندوستان میں 4 کروڑ 4 لاکھ83 ہزار روپے کی رقم غرباء اور ضرورتمند احباب پرخرچ کی گئی، دوائیاں تقسیم کی گئیں۔ ماریشس اور یوکے (UK)کے خدام نے بھی خدمتِ خلق کا کام کیا۔ UK کے خدمتِ خلق کے پروگرام کے تحت ایک لاکھ چونسٹھ ہزار پاؤنڈ کے فنڈ مہیا کئے گئے اور اس کے تحت مختلف چیریٹیز کو دیا گیا۔

               امیر صاحب برکینا فاسو بیان کرتے ہیں کہ اس سال اب تک آئی کیمپوں میں ہم نے دو سو چھیالیس مریضوں کے موتیا کے مفت آپریشن کئے۔ اور اب تک1423 مریضوں کے مفت آپریشن کر چکے ہیں۔

               افریقہ کے مختلف ممالک میں قیدیوں سے رابطہ کر کے ان کی خبر گیری کی جا رہی ہے۔

مجلس نصرت جہاں

                مجلس نصرت جہاں اس وقت افریقہ کے12 ممالک میں ہے ۔ اس کے تحت 39 ہسپتال اور کلینک کام کر رہے ہیں۔ جن میں ہمارے 41 ڈاکٹر خدمت میں مصروف ہیں۔ اس کے علاوہ 12 ممالک میں ہمارے656 ہائر سیکنڈری سکول، جونئیر سیکنڈری سکول اور پرائمری سکول کام کر رہے ہیں۔ داسا،  بینن میں کرایہ کی ایک عمارت میں نیا ہسپتال کھولا گیا ہے۔ پاراکو میں ہسپتال کا افتتاح ہوا۔

               اسی طرح ہمارے ہسپتال جو کام کر رہے ہیں ان کی بعض رپورٹس ہیں۔ ڈاکٹر خاور احمد منصور صاحب پاراکو( بینن) سے کہتے ہیں کہ اگست 2009ء کے مہینے میں ایک آدمی آیا چودہ سال قبل اس کے مثانے میں تکلیف ہوئی تھی اور اس کا پیشاب بند ہو گیا تھا۔ اس وقت اس نے ہر جگہ علاج کروایا۔ ڈاکٹرز نے بس یہی ایک حل نکالا کہ مثانے کے اوپر پیٹ میں ایک مصنوعی نالی لگا دی جائے جو پیٹ سے ہر وقت لٹکی رہے۔ چنانچہ اس نے اس طرح چودہ سال گزار دئیے ،وہ آیا تھاکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے ہسپتال میں خدا تعالیٰ نے بڑی شفا رکھی ہے۔ کہتے ہیں اس کی کہانی سن کر اور اس سوچ کے تحت کہ خدا کے اس بندے کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ہسپتال سے علاج کروانے کا خیال آخر ایسے ہی نہیں آیا اس میں خدا تعالیٰ کی کوئی خاص حکمت ہو گی اور شایدخدا تعالیٰ کوئی معجزہ ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے ڈاکٹر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی پاک سوچ کے ساتھ یہ کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سوچ کر آخر اس کیس کو لینے کا فیصلہ کیا اور دعا اور صدقے سے اس کے مثانے کا آپریشن کیا تو بہت complicationsسامنے آئیں۔مگر واقعتاً اس وقت خدا تعالیٰ کی کوئی خاص تائید و نصرت میرے ساتھ تھی کہ آپریشن کے دوران مثانے کی چودہ سال بند اور نا ممکن نالیاں ایک ایک کر کے کھلتی گئیں اور بالآخر اس کے تمام ٹشوز نے کام کرنا شروع کر دیا اور جو external نالی پیٹ میں لگائی گئی تھی اس کو ختم کیا اور چودہ سال کے بعد دوبارہ پیٹ کے اندر خدا تعالیٰ کے تخلیقی نظام سے منسلک کیا گیا تو اس کے مثانے کی صورتِ حال  نارمل بن گئی ۔ اس مریض کے لئے بھی یہ بات ایک معجزہ سے کم نہیں تھی۔

                اسی طرح کینیا کے علاقہ شیانڈہ کے ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک مریضہ جس کا گھٹنا سوجا ہوا تھا اور کئی سالوں کی بیماری سے ٹانگ اکٹھی ہو گئی تھی اور کسی علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ اس کا خاوند نیروبی میں ایک بڑا پولیس افسر ہے۔ اس نے کافی کوشش کی۔ آخر تنگ آ کر اسے لاعلاج قرار دے دیا گیا اور ایک کمرے میں چھوڑ دیا گیا۔ اسے کسی ذریعے سے ہمارے ہسپتال کا پتہ چلا۔ گھر والوں نے سوچا کہ چلو یہاں بھی ٹرائی(Try) کر لیتے ہیں۔ جب ہم نے علاج کیا تو پانچ دن میں وہ چلنے کے قابل ہو گئی۔ پھر ایک ماہ علاج چلتا رہا اور آہستہ آہستہ اس کی ٹانگ قریباً سیدھی ہو گئی۔ اب جب لوگ اسے چلتا دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ ہمارے ہسپتال میں اعجازی شفا کے نمونے کا ایک چلتا پھرتا اشتہار بن گئی ہے اور اس علاقے سے کثرت سے مریض ہمارے ہسپتال میں آ رہے ہیں۔

               اسی طرح ربوہ میں بھی طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ، فضلِ عمر ہسپتال بڑی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

تحریکِ وقفِ نو

               تحریکِ وقفِ نو، اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال2ہزار139 واقفین نو کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ واقفین کی کل تعداد41 ہزار220 ہو گئی ہے۔ اور 87 ممالک سے واقفین شامل ہیں۔ لڑکوں کی تعداد 26 ہزار67 ہے اور لڑکیوں کی تعداد 15ہزار153 ہے۔ پاکستان کے واقفینِ نو کی مجموعی تعداد 24 ہزار309 ہے۔ بیرونِ پاکستان16 ہزار911 ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک 98 واقفین اپنی تعلیم مکمل کر کے اپنی خدمات جماعت کوپیش کر چکے ہیں اور مصروفِ عمل ہیں۔ واقفینِ نو میں بھی سب سے زیادہ پاکستان میں ،ربوہ میں ہیں۔

 احمدیہ ویب سائٹ

                ایک احمدیہ ویب سائٹ ہے اس میں بھی مختلف زبانوں میں کافی لٹریچر موجود ہے۔

پریس اینڈ پبلیکیشن

 پریس اینڈ پبلیکیشن کا شعبہ ہے، اس کے تحت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا کام ہو رہا ہے۔

نو مبائعین سے رابطہ

 نو مبائعین سے رابطہ ایک بہت اہم کام ہے۔ ایک رابطہ جو ٹوٹ گیا تھا اس کو نئے سرے سے بحال کیا گیا ہے۔ اور اس میں ہمیشہ کی طرح غانا سرِ فہرست ہے ۔ انہوں نے دورانِ سال ساٹھ ہزار مزید نو مبائعین سے رابطہ بحال کیا ہے۔ اور گزشہ پانچ سالوں میں اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے8 لاکھ78 ہزار800 نومبائعین سے رابطہ بحال کر چکے ہیں۔ دوسرے نمبر پر نائیجیریا ہے انہوں نے امسال 34 ہزار نو مبائعین سے رابطہ بحال کیا ہے اس طرح اب تک یہ کل5 لاکھ21 ہزار نو مبائعین سے رابطہ بحال کر چکے ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے ختم ہوچکا تھا۔ بورکینا فاسو ہے، انہوںنے اس سال16 ہزار600 نو مبائعین سے رابطہ زندہ کیا ہے۔ اور اب تک 2لاکھ 19 ہزار سے رابطہ بحال کر چکے ہیں۔ آئیوری کوسٹ نے 11ہزار نو مبائعین سے رابطہ کیا ہے۔ ان چار سالوںمیں47 ہزار نو مبائعین سے رابطہ کر چکے ہیں۔ سیرالیون نے اس سال 165 گاؤں کے 65ہزار نومبائعین سے رابطہ کیا ہے اور ان کو نظام میں شامل کیا ہے، اس طرح ایک لاکھ ایک ہزارآٹھ سو نو(101809) نومبائعین سے رابطہ کر چکے ہیں۔ ہندوستان میں جو دورانِ سال رابطے ہوئے ہیں وہ ایک ہزار811ہیں۔ اور اب تک 79 ہزار 712 نو مبائعین سے رابطے بحال ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیش نے اللہ کے فضل سے ایک ہزار پانچ سو (1500)سے زائد نو مبائعین سے اپنا رابطہ زندہ کیا ہے۔ کینیا نے 10 ہزار نو مبائعین سے رابطہ بحال کیا ہے۔ اور 42 ہزار نو مبائعین سے رابطہ قائم کر چکے ہیں۔ کینیا نے ایتھوپیا میں وفود بھیج کر965 نو مبائعین سے رابطہ قائم کیا ہے، صومالیہ میں بھی 456 نو مبائعین سے رابطہ کیا گیا ہے۔ یوگنڈا میں اس سال 30 مقامات پر4 ہزار سے زائد نو مبائعین سے رابطہ قائم کیا گیا ہے۔ بینن نے 265 دیہات کے 24 ہزار 700 نو مبائعین سے رابطہ قائم کیا۔ لائبیریا نے دورانِ سال مزید 750 نو مبائعین سے رابطہ قائم کیا وہاں پر پہلے بھی بیعتیں تھوڑی تھیں۔ مالی نے3 ہزار3 سو نو مبائعین سے رابطہ قائم کیا۔

نئی بیعتوں کی تعداد

 اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال اب تک بیعتوں کی کل تعداد 4 لاکھ58 ہزار 760 ہے۔119ممالک سے407 قومیں احمدیت میں شامل ہوئی ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ کل عالمی بیعت میں ان کی نمائندگی ہو گی ۔

 جماعت نائیجیریا کو اس سال ایک لاکھ41 ہزار بیعتوں کی توفیق ملی۔43 نئی جماعتیں بنی ہیں۔ 72مقامات پر پہلی بار احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ جماعت احمدیہ غانا کو47 ہزار سے زائد بیعتوں کی توفیق ملی ہے۔ 10 مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ 14 مقامات پر جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ مالی میں 94 ہزار بیعتیں ہوئی ہیں۔101 نئے مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا ہے۔ 35 نئی جماعتیں بنی ہیں۔ برکینا فاسو میں23 ہزار 265  لوگ دورانِ سال احمدیت میں داخل ہوئے۔79 مقامات پر احمدیت کا نفوذ ہوا۔ اور 42 نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ آئیوری کوسٹ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دورانِ سال10 ہزار700 بیعتیں ہوئیں۔ اور28 مقامات پر پہلی بار احمدیت کا نفوذ ہوا۔ سینیگال کو اس سال35 ہزار سے اوپر بیعتوں کی توفیق ملی۔ جماعت احمدیہ بینن کو اس سال21 ہزار سے زائد بیعتوں کی توفیق ملی۔ جماعت نائیجر کو امسال 15 ہزار سے زائد بیعتوں کی توفیق ملی۔ یوگنڈا کو اس سال5 ہزار سے زائد بیعتوں کی توفیق ملی۔ یہاں 16 نئے مقامات پر جماعت کا نفوذ ہوا ہے ۔ کینیا کو اس سال 3ہزار793 بیعتوں اور صومالیہ کو 140 کے حصول کی توفیق ملی۔ ایتھوپیا میں111بیعتیں ہوئیں۔ اس سال سیرالیون کو 31 ہزار 600 بیعتوں کی توفیق ملی۔ اور 125 نئی جماعتیں بنی ہیں۔ کانگو برازویل کو دورانِ سال 10 ہزار نئی بیعتیں حاصل ہوئیں۔ ہندوستان میں اس سال2 ہزار895 بیعتیں ہوئیں۔ اور پندرہ ائمہ مساجد اور ایک مفتی صاحب نے بھی احمدیت قبول کی۔ اور اللہ کے فضل سے ایمان اور اخلاص سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اب یہ تمام ممالک جو ہیں جہاں بیعتیں ہو رہی ہیں، ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ نو مبائعین سے رابطے کے ساتھ ساتھ، جن سے پچھلے رابطے قائم کر رہے ہیں ان کو رابطوں میں مضبوط تر کرنا ہے۔ اور ایک لمحے کے لئے بھی ان سے نظریں نہیں اٹھانیں۔

بیعتوں کے دوران بعض واقعات

امیر صاحب بینن لکھتے ہیں کہ لاہور کی دو مساجد میں ہونے والی شہادتوں کو جماعت احمدیہ بینن میں جہاں جہاں ایم۔ٹی۔ اے کی سہولت موجود تھی، عوام نے دیکھا اور بعض جگہوں پر احمدی تو احمدی، غیر احمدی عیسائی بھی رو رہے تھے۔ پوبے(Pobe) ریجن کے مبلغ سلسلہ قیصر محمود طاہر بتاتے ہیں کہ اس سے اگلے دن ان کے ریجنل صدران کی میٹنگ تھی۔ اس دن تمام جماعتوں کے صدران نے کہا کہ ہمیں بتائیں ہم اپنے ان بھائیوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ ان سب کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اور بعض نومبائعین نے تو جذبات میں آ کر کہا کہ ہمیں بھی انتقام لینا چاہئے۔ جس پر ان کومیرا بتایا  اور ارشادات سنائے گئے کہ حضور نے صبر اور دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے۔یہی ہمارا انتقام ہے۔ انہی دنوں ایک عیسائی آدیچے کادیو صاحب جو کچھ عرصے سے ہمارے لوکل معلم کے زیرِ تبلیغ چلے آ رہے تھے۔ تمام دلائل سننے کے بعد بھی ماننے کو نہیں آتے تھے جب انہوں نے اس واقعہ کو ٹی وی پر دیکھا اور پھر میرا خطبہ سنا کہ ہم نے صبر کرنا ہے اور دعائیں کرنی ہیں تو بے اختیار اس نے کہا یہ کام ایک سچی جماعت کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا اور اسی لمحے اس نے بیعت کر لی۔

 بینن کے شمال مشرق کے ایک شہر باسیلہ میں ہمارے لوکل مشنری آلیو حسینی صاحب وہاں کے ریجنل ریڈیو پر ہفتہ وار تبلیغ کرتے ہیں۔28؍ جون 2010ء کو تبلیغ جاری تھی کہ فون آنے شروع ہوئے کہ امام صاحب آپ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ ہمارے علاقے میں قحط سالی ہے اور فصلیں سڑ گئی ہیں، جل رہی ہیں، اب تو جانور بھی بھوکے رہنے لگے ہیں۔ آپ لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں تو دعا کر کے بارش کیوں نہیں برسوا لیتے۔ آلیو صاحب بیان کرتے ہیں کہ ریڈیو پر تبلیغ کے دوران مَیں نے اعلان کیا کہ قحط سالی عوام کی شامتِ اعمال سے ہوتی ہے اور قرآنِ کریم میں لکھا ہے کہ جو لوگ خدائے رب العالمین سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں وہ ان پر بارش برساتا ہے۔ تو میں عوام کو اس طرف بلاتا ہوں کہ آؤ سارے مل کر اپنی اپنی جگہ استغفار کریں اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور بارش کے نزول کے لئے دعا کریں۔ چنانچہ ریڈیو پر ہی مَیں نے دعائے مغفرت اور دعائے استسقاء کی اور بارش برسنے کے لئے دعا مانگی۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی ۔ موسلا دھار بارش ہوئی اور جل تھل ہو گیا۔ اس رحمتِ خداوندی کے ظہور کے بعد اس علاقے میں بفضلہ تعالیٰ سات سو بیعتیں ہوئیں۔

 ضیاء اللہ ظفر صاحب مربی سلسلہ لونسر(Lunsar)( سیرالیون) بیان کرتے ہیں کہ جلسہ سیرالیون کے بعد ایک گاؤں میں تبلیغ کے لئے گئے تو وہاں جلسے میں شامل ہونے والے دوست سلیمان کمارانے جب بیعت کی تو خاکسار نے استفسار کیا کہ آپ نے ایسی کیا بات دیکھی جس کی بنا پر آپ احمدیت قبول کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں اس بار جب جلسے میں شامل ہوا تو میں نے وہاں ایسی باتیں دیکھیں جو دنیا کے میلوں ٹھیلوں میں نہیں پائی جاتیں۔ اتنے سارے لوگ صبح نمازِ تہجد ادا کرتے ہیں۔ جلسے کا انتظام غیر معمولی تھا۔ اتنے سب افراد کو وافر کھانا دینا، پانی مہیا کرنا، بہترین رہائش مہیا کرنا، علاوہ ازیں اتنے تمام لوگوں کا پورے سکون سے بیٹھ کر سارے پروگرام کو سننا ایسے امور تھے جنہوں نے میرا دل کھینچ لیا اور میں بیعت کئے بنا نہیں رہ سکا۔

 ناصر محمود صاحب کینیا سے لکھتے ہیں کہKifyonzo نامی گاؤں میں کافی عرصے سے ایک چھوٹی سی جماعت قائم ہے، اس جگہ پر دورانِ سال ایک تبلیغی میٹنگ رکھی گئی۔ یہ علاقہ کافی دور واقع ہے۔ جب یہاں تبلیغی جلسے کرنے کا پروگرام بنا تو وہ شدید بارشوں کے دن تھے اور اس دن بھی رات سے مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ صبح جب ہم مشن ہاؤس سے اس جگہ کے لئے نکلے تو خاکسار اور وفد میں موجود احباب کو تشویش لاحق تھی کہ شاید آج جلسہ نہ ہو سکے مگر طے یہی پایا کہ اللہ کی راہ میں نکل رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ خود مدد فرمائے گا۔ سارا راستہ شدید بارش جاری رہی جس کی وجہ سے راستہ میں شدید پھسلن اور کیچڑ تھا۔ خاکسار کے ساتھ موجود بعض احباب جنہوں نے پہلے راستہ نہیں دیکھا تھا  انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ اس راستہ میں تو عام حالات میں سفر کرنا ممکن نہیں ہے کجا یہ کہ یہاں شدید بارش ہے۔ بہر حال ہم وہاں منزل تک پہنچ گئے اور خوشی یہ ہوئی کہ لوگ وہاں موجود تھے جن کو دیکھ کر ان کوبھی حیرت ہوئی اور خوشی بھی ہوئی۔ حیرت اس بات کی کہ عام حالات اور دنوں میں بھی اس قدر لوگ تبلیغی جلسوں میں حاضر نہیں ہوتے لیکن اس قدر شدید خراب موسم میں بھی موجود تھے۔ اور خوشی اس بات کی کہ سب آج وقت کے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام سننے کے لئے موجود ہیںتو وہاں اس طرح جذبہ سے لوگ آئے۔

رؤیا صادقہ کے ذریعے قبولِ احمدیت کے واقعات

 رؤیائے صادقہ کے ذریعہ قبول احمدیت کے کچھ واقعات بیان کر دیتا ہوں ۔

 امیر صاحب بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ درابو الحسن معلم رِدگو لکھتے ہیں کہ خاکسار جب ایک گاؤں وروکوں میں تبلیغ کے لئے گیا تو رات کو تبلیغ کی۔تمام اختلافی مسائل کے بعد ان کو جماعت کا نظام بتانے لگا اور خلیفہ وقت کا بتایا تو امام وانی سعیدو صاحب نے مجھے روک کر کہا کہ آپ نے خلیفہ کا لفظ بولا ہے ۔مَیں آپ کو اپنا ایک خواب سنانا چاہتا ہوں جو کہ آج تعبیر ہو کر میرے سامنے آیا ہے۔ یہ خواب کافی عرصہ پہلے دیکھا تھا لیکن مَیں نے کسی کو نہیں سنایا۔ جب آپ نے لفظ خلیفہ بولا تو مجھے اپنی خواب یاد آ گئی۔ خواب میں دیکھا کہ خلیفہ وقت آئے ہیں اور ہم گاؤں کے تمام لوگ سوئے ہوئے ہیں۔ اور خلیفہ وقت کھڑے ہیں اور لوگوں کو اٹھا رہے ہیں اور میں نیند سے اسی حالت میں بیدار ہو جاتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ ہمارا گاؤں بہت دور جنگل میں ہے جہاں کوئی بھی تبلیغ کے لئے نہیں آتا۔ صرف آپ ہی ہیں جو آئے ہیں۔ معلم صاحب نے ان کو بتایا کہ اس وقت دنیا میں خلیفۂ وقت کی  یہ نعمت صرف جماعتِ احمدیہ کے پاس ہے۔ ایک خلیفہ ہے جو دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف بلا رہا ہے۔ وہ کھڑے ہیں اور آپ سوئے ہوئے لوگوں کو جگا رہے ہیں۔ الحمدللہ اس خواب کی بدولت امام صاحب سمیت دو سو پچیس افراد جماعت میں شامل ہوئے۔

               امیر صاحب بورکینا فاسو لکھتے ہیں کہ لیو(Leo) ریجن کے ایک دوست بارے عثمان صاحب نے بیان کیا کہ میں احمدیت کا شدید مخالف تھا اور جب لوگ احمدیت کے خلاف تبلیغ کرتے تو مجھے اچھا لگتا تھا۔ جب ریڈیو اسلامک احمدیہ لیو (Leo)شروع ہوا تو مَیں اپنی نفرت کی وجہ سے ریڈیو نہ سنتا تھا اور جب ایک دن پتہ چلا کہ ریڈیو کا انٹینا گر گیا تو لوگوں نے کہنا شروع کیا ،دیکھا جھوٹ تھا اس لئے ان کے ریڈیو کا انٹینا گر گیا ہے۔ وہاں بڑا طوفان آیا تھا۔ ایک دن میں سویا ہوا تھا تو خواب میں ایک آدمی بالکل سفید لباس میں نظر آیا۔مَیں نے پوچھا کہ تم کون ہو ؟تو اس نے بتایا کہ وہ خدا تعالیٰ کا فرشتہ ہے۔ پھر اس فرشتے نے کہا کہ لوگ جو کہہ رہے ہیں کہ احمدیہ ریڈیو کا انٹینا جھوٹا ہونے کی وجہ سے گرا ہے یہ غلط بات ہے۔خدا تعالیٰ بہت جلد اس سے بہتر انٹینا لے آئے گا۔ لوگوں کی باتوں کو چھوڑو۔  یہ لوگ منافق ہیں ۔سچائی صرف احمدیت ہی میں ہے۔ پھر مَیں نے اس فرشتے سے پوچھا کہ میں سچائی کو کس طرح جان سکتا ہوں۔ اس فرشتے نے کہا کہ صرف ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پکڑ لو۔ پھر میں بیدار ہو گیا۔ اس خواب کے بعد احمدیت کی سچائی میں کوئی شک باقی نہ رہ گیا۔ اس خواب کے بعد ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ریڈیو پراحمدیت کا پیغام سنا اور اس میں بار بار ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ذکر آ رہا تھا ۔دراصل یہ خطبہ کا ترجمہ نشر ہو رہا تھا جو اس نے سنا۔ چنانچہ اس کے بعد بارے عثمان صاحب آئے اور اپنے تمام سوالوں کا جواب پا کر بہت خوش ہوئے۔ اور پھر مجھے بھی انہوں نے ٹی۔وی پر دیکھا اور کہا کہ بس میں آپ کے ساتھ ہوں اور بیعت کرتا ہوں۔ دعا کریں کہ جب میں اگلی دفعہ آؤں تو میرا پورا گاؤں احمدیت میں داخل ہو چکا ہو۔

               بینن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ نومبر 2009ء میں ہمارے لوکل مشنری حسینی آلیو صاحب باسیلہ ریجن کے گاؤں واقے(Wake) میں تبلیغ کی غرض سے گئے۔ تبلیغ جاری تھی کہ ایک آدمی محمد نامی صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ٹھہرو میں تمہیںاپنی خواب بتاتا ہوں جو چند دن ہوئے میں نے دیکھا ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا مجمع ہے۔ خوبصورت سٹیج ہے اور ایک روحانی ماحول ہے اور ہر لمحہ ربّ کی باتیں ہو رہی ہیں۔یہ بڑا مجمع افریقیوں کا ہے لیکن چند ایک White، سفید فام آدمی بھی ہیں۔ اور تم جو باتیں کر رہے ہو ایسی ہی باتیںوہاں بھی بار بار آکر لوگ کرتے ہیں۔یہ لوگ خدا کی حقیقت بتاتے ہیں اور اصل مذہب کی پہچان کروا رہے ہیں۔ خواب سنانے کے بعد کہنے لگے کے باتیں تو تمہاری ویسی ہی ہیں مگر نظارہ وہ نہیں ہے جو میں نے دیکھا ہے۔ اس پر ہمارے لوکل مشنری نے ان سے کہا کہ بیس پچیس دن کے بعد 18دسمبر 2009ء کو ہمارا جلسہ ہے، وہ آ کر اٹینڈ (Attend) کرو۔ چنانچہ اس کے پروگرام میں وہ آ کر شامل ہوئے اور پہلا ہی دن گزراتھا کہ شام کو بڑے جذباتی ہو کر آئے اور روتے ہوئے بیعت کرکے احمدیت میں داخل ہو گئے کہ یہی نظارہ مَیں نے دیکھا تھا اور دو سو تیس مزید بیعتیں بھی اس گاؤںسے ملیں۔

               مالی (Mali)میںکولنجیا سے پندرہ کلو میٹر دور ایک گاؤں فلالا کونی سے ایک شخص ڈومبیاعبدو دومبیا  صاحب مشن ہاؤس آئے اور ا نہوںنے بتایا کہ مَیں احمدیوں کو اچھا نہیں سمجھتا تھا لیکن کل رات مَیں نے خواب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں آئے ہیں اور آپ نے فرمایا احمدی سچے ہیں اور میری آنکھ کھل گئی۔ اس لئے مَیں آپ کے پاس آیا ہوں اور اپنی فیملی سمیت اکتیس افراد کے ساتھ احمدیت میں داخل ہوتا ہوں۔ اور تمام چندہ جات میں شامل ہونے کا وعدہ کرتا ہوں۔

               کرغزستان کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ نو احمدی تنچ تک(Tinchtik) صاحب جب  زیرِ تبلیغ تھے اور گاہے بگاہے مشن ہاؤس تشریف لایا کرتے تھے تو بیعت سے قبل انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ عرصے سے جماعت احمدیہ کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا تھا لیکن تا حال بیعت کے لئے شرح صدر نہیں تھی۔ انہی ایام میں ایک رات خاکسار نے خواب دیکھا کہ چھت پر ایک کالی شبیہ نظر آتی ہے۔ اس وقت میں فوراً سورۃ فاتحہ اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا ورد کرتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے خواب میں ایک سفید ورق دکھایا جاتا ہے جس کے اوپر عربی میں کچھ لائنیں لکھی ہوئی ہیں۔ ان کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ اس کے فوراً بعد دیکھتا ہوں کہ بائیں طرف اوپر کونے میں رشین میں لکھا ہوا تھا کہ’ اسلام حقیقی دین‘ اور اونچی آواز آ رہی تھی کہ احمدیت حقیقی اسلام۔ اس خواب کے بعد میرا دل مطمئن ہو گیا اور میں نے فوراً بیعت کر لی۔

               مراکش کے ایک دوست نے خواب دیکھا کہ بہت سے لوگ مسجد کی طرف جا رہے ہیں۔مَیں بہت پریشان تھا کہ مَیں کس مسجد کی طرف جاؤں۔ تب کسی نے کہا کہ دائیں ہاتھ والی مسجد میں جاؤ۔ اس وقت تمام مساجد میں خطبہ ہو رہا تھا لیکن اس مسجد میں جو امام خطبہ دے رہے تھے ان کی داڑھی سفید تھی اور سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ جب ان کا خطبہ شروع ہوا تو دوسرے مولویوں کا خطبہ بند ہو گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس خواب کا ان کے دل و دماغ پر بڑا اثر تھا۔ کچھ دنوں کے بعد میں نے پھر خواب دیکھا کہ میں مسجد سے باہر آیا ہوں۔ لوگ قطاروں میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور اسی طرح آخر پر ایک شخص بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے اچانک ایم ٹی اے دیکھا تو جماعت احمدیہ کے بارے میں پتہ چلا۔ جب خلیفۃ المسیح الخامس کو دیکھا تو پہچان لیا۔ یہ تو وہی تھے جو خطبہ ارشاد فرما رہے تھے اور دوسرے خواب میں بیعت لے رہے تھے ۔یہ دیکھ کر مَیں نے بیعت کر لی۔

نواحمدیوں کے اخلاص اور ثبات قدم کے واقعات

               جب بھی جماعت میں وسعت پیدا ہوتی ہے، تبلیغ زیادہ ہوتی ہے، بیعتیں زیادہ ہوتی ہیں تو مخالفین کی مخالفتیں بھی زیادہ ہوجاتی ہیں۔ اور ان کی کوششیں ہوتی ہیں کہ نومبائعین کو خاص طور پر لالچ سے، ڈرا دھمکا کر احمدیت سے دور ہٹایا جائے۔ تو اس بارے میں بھی چند ایک واقعات ہیں۔

               بورکینا فاسو کے تنکوڈوگو ریجن کے گاؤں گانزورگو کے چیف نے ہمارے مبلغین کو تبلیغ کی دعوت دی۔ پروگرام کے مطابق 22اپریل 2010ء کو ہمارا وفد تبلیغ کے لئے پہنچا۔وہاں پہنچنے سے قبل ہی گاؤں کے مرد، عورتیں، بچے سب مسجد میں جمع ہو چکے تھے اور مسجد بھر چکی تھی۔ تبلیغ شروع ہوئی جو قریباً ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہی۔ سوال و جواب کے اختتام پر گاؤں کے چیف نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہم ریڈیو سن کر قریبی جماعت سے آپ کے متعلق معلومات لے کر پہلے ہی مطمئن ہو چکے تھے۔صرف آپ کی آمد کا انتظار تھا۔ تمام گاؤں آپ کے ساتھ ہے اور اس گاؤں میں اگر کوئی تبلیغی و تربیتی پروگرام ہو گا تو صرف جماعتِ احمدیہ ہی اس پروگرام کو کرنے کی مجاز ہوگی۔ چونکہ ہم نے شہر کے علماء کو یہاں آنے کی دعوت دی تا کہ وہ ہماری اور ہمارے بچوں کی تربیت کا انتظام کریں مگر وہ نہیں آئے۔ اُن لوگوں کے پاس ہم خود بھی گئے لیکن پھر بھی وہ اس کام کے لئے نہیں آئے۔ جبکہ جماعت احمدیہ کو ہم نے صرف پیغام بھجوایا ہے اور آپ لوگ تکلیف دہ سفر کر کے پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے لئے صرف یہی دلیل کافی ہے کہ ہمارے ایک پیغام پر آپ ہمارے پاس پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے معلمین ان کو سمجھاتے اور مزید تحقیق کرنے کو کہتے مگر وہ یہی کہتے رہے کہ آپ کیوں خوف کرتے ہیں کہ ہم پھسل جائیں گے؟ ہرگز نہیں۔ ہمیں کوئی احمدیت سے دور نہیں کر سکتا۔ اب صرف احمدیت ہی اس گاؤں میں جگہ لے گی۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد جب سارا گاؤں احمدیت کی آغوش میں آ چکا تو ہمارے مبلغین نے دوبارہ 25جون کو دورہ کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس گاؤں میں گئے تو چیف نے بتایا کہ ہماری تبلیغ کے بعد غیر احمدی مُلّاں تین مرتبہ اس گاؤں میں آ چکے ہیں اور احمدیت سے دور رہنے کا کہہ چکے ہیں لیکن ہمارا ان سے یہی سوال رہا ہے کہ آپ اُس وقت کہاں تھے جب ہمیں آپ کی ضرورت تھی۔ ہم نے دل سے احمدیت قبول کر لی ہے، اب ہمیں کیوں بہکانے کے لئے آ گئے ہو۔ اس نے کہا کہ ہم نے دل سے احمدیت قبول کیا ہے۔ آپ فکر نہ کریں۔ جتنے مرضی گروپ آئیں آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گے۔ احمدیت کی وجہ سے ہم ہر قسم کے نقصان کے لئے تیار ہیں۔ خواہ یہ آگیں لگائیں، گردنیں کاٹیں، جانور ذبح کر دیں، کھیت جلا دیں پھر بھی ہم احمدیت سے دور نہیں ہٹیں گے۔ یہ ایمان ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر ان لوگوں میں پیدا ہوا ہے جو جنگلوں میں رہنے والے ہیں۔

               مبلغِ سلسلہ رومانیہ لکھتے ہیں کہ اس سال جنوری 2010ء میں رومانیہ میں ایک دوست فلورین اندیریا صاحب نے بیعت کی ہے۔ انہوں نے بیعت کرنے کے بعد سب سے پہلے خاکسار سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تصویر مانگی۔ اس نے تصویر اپنے سینہ سے لگائی اور پھر اس کو اپنی دکان پر ایک نمایاں جگہ پر آویزاں کر رکھا ہے۔ لوگوں کے دریافت کرنے پر بتاتا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے اور یہ ہمارے خلیفہ ہیں۔

               احمد جبرئیل سعید صاحب بیان کرتے ہیں کہ اوورسیز کا علاقہ نو مبائعین کا علاقہ ہے یہاں پہلے جلسے کے انعقاد کا پروگرام بنایا گیا تھا۔ مانکاراگو(Mankarago) کا غیر احمدی چیف اس علاقے میں بد قسمتی سے محمد حسین بٹالوی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ہر جگہ پہنچ کر لوگوں کو ہمارے جلسہ میں شرکت سے منع کرتا رہا۔ اس علاقے میں کوبورے ہمارا ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس چیف امام کو بہت بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تو اس کی تمام تر کوششوں کے باوجود جلسے کی حاضری سولہ سو پچاس رہی۔ دوسرے یہ کہ اس کے اپنے چیف نے بھی جلسے میں شمولیت کے لئے پیغام بھجوایا اور اس کے ساتھ وفد بھجوایا بلکہ جماعت کو اپنے علاقہ منکاراگو (Mankarago)میں تبلیغ کرنے کی بھی درخواست کی۔ یہی نہیں بلکہ منکاراگو سے چند ایک نئے احمدیوں نے بھی جلسے میں شرکت کی۔ ان میں سے ایک شخص نے جلسہ میں مائیک پکڑ کر اعلان کیا کہ جو بھی ہو ،مَیں اور میری فیملی احمدیت پر ہی مریں گے۔ اس پر ہر طرف سے نعرہ تکبیر بلند ہونے لگے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقے میں ہم مسجد کا سنگِ بنیاد رکھ چکے ہیں۔

               معلّم غفار صاحب بیان کرتے ہیں کہ بینن کی بوزون جماعت کے قائد مجلس کے بڑے بھائی جو کہ مشرک تھے اور احمدیت کے مخالف تھے پہلے اپنے بھائی کو جادو ٹونے کے ذریعے ڈراتے رہے اور جب وہ بیمار ہوئے تو ان کو مر جانے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ اس پر جماعت نے بہت دعائیں کی اور قائد صاحب ٹھیک ہو گئے۔ ان کی صحت ہونے پر ان کے مشرک بھائی نے ایک اور شوشہ چھوڑا کہ میرا بھائی مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔ ان کو سمجھایا گیا کہ ہماری جماعت کی یہ تعلیم نہیں۔ لیکن وہ نہ مانے۔آخر گاؤں کے صاحبِ اثر احمدی احباب نے اس کے گھر جا کر یہ کہا کہ ہم احمدی اب مل کر یہ دعا کریں گے کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے وہ ہمارے سامنے مرے۔ اور یوں اللہ تعالیٰ سچے کو زندگی دے گا۔ وہ مشرک بھائی کچھ عرصے کے بعد ہی فوت ہو گیا۔

               مالی کے ریجن فانا کے لوکل مشنری یحییٰ سیسی صاحب بیان کرتے ہیں کہ فانا میں گزشتہ ماہ ایف ایم ریڈیو پر احمدیت اور انصارِ دین کے ساتھ مباحثہ والی کیسٹس نشر کیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان پروگرامز کے ذریعے بہت سے لوگ احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان پروگرامز کی کامیابی کو دیکھ کر فانا کے انصارِ دین گروپ کے ایک مولوی مدیبو سنگاریہ نے 10؍ جون کو فانا ریڈیو پر احمدیت کے خلاف تقریر کی جس میں تمام احمدیوں کو، احمدیوں کی کیسٹ سننے والوں کو ملعون قرار دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیں۔ خدا تعالیٰ کی تقدیر اس طرح ظاہر ہوئی کہ ٹھیک تین دن بعد13؍جون کو یہ شخص اچانک فوت ہو گیا اور یہ واقعہ علاقہ کے لئے عبرت بنا ہوا ہے۔

               کرغزستان کے صوبہ اوش کے مضافاتی گاؤں کاشغر میں مرکزی مسجد کا نائب امام ہمارے نو احمدی بھائیوں کو دیکھ کر تھوکتا اور نفرت کا اظہار کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قہری تجلی دکھاتے ہوئے اسے عبرت کا نشان بنادیا۔ مذکور نائب امام دینی مدرسہ کے بچوں کے ساتھ بدفعلی کے جرم میں گرفتار ہوا اور تحقیق ہونے پر پتہ چلا کہ واقعی امام یہ گھناؤنے فعل کرتا ہے۔اسے عدالت کی طرف سے قید کی سزا ملی۔ امیر صاحب آسٹریلیا بیان کرتے ہیں کہ جماعت سالومن آئی لینڈ کے صدر جماعت احمد تاسیما صاحب جب عیسائی سے احمدی ہوئے تو ان کی بیوی کے بھائی نے شدید مخالفت کی اور کہا کہ تمہارا نبی جھوٹا ہے۔ احمد تاسیما صاحب اوران کی بیوی کے مخالف بھائی ایک مرض میں مبتلا ہو گئے اور(دونوں) ایک ہسپتال میں داخل ہو ئے۔ احمد تاسیما صاحب نے اپنے سرہانے حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کی تصاویر رکھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے اپنے رشتے داروں کو کہا جو کہ جماعت کے سخت مخالف تھے کہ جو بھی ہم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ اسی مرض میں اسی ہسپتال میں مر جائے گا۔ اس کے کچھ ہی دنوں میں بیوی کے مخالف بھائی اسی ہسپتال میں مر گئے اور آپ شفا پا کر گھر آئے۔ایک اور نشان بھی ظاہر ہوا کہ ہسپتال میں ایک اور صاحب داخل تھے اور انہوں نے صدر صاحب سے تصویر کے بارے میں دریافت کیا اور جماعت کے بارے میں سوالات کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے۔ اور جماعت احمدیہ میں شمولیت کے بعد اپنا نام احمد یحيٰ جان رکھا۔ انہوں نے  جماعت کو پھر زمین بھی عطیہ میں دی۔

نظام وصیت میں شامل ہونے والوں کی تعداد

 اللہ تعالیٰ کے فضل سے نظامِ وصیت میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تحریک کے بعد سے اب تک جو تعداد ہے وہ 38 ہزار سے بڑھ کر ایک لاکھ نو ہزار(109000) ہو چکی ہے۔ مجلس کارپرداز میں مسل نمبر ایک لاکھ تین ہزار ہے۔ قادیان کی چھ ہزار تین سو ہیں۔  اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں بھی جماعت بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔

مالی قربانیوں کیمتفرق ایمان افروز واقعات

 ملک طاہر حیات صاحب مبلغ قزاقستان لکھتے ہیں کہ لاہورکے حادثہ سے اگلے دو تین دن بعد ساری جماعت یوں سینٹر میں جمع ہو جاتی ہے جیسے اس کا کوئی قریبی عزیز شہید ہو گیا ہو۔ ہفتہ کے دن ہمارے ایک بزرگ میاں بیوی اپنی پینشن لے کر آ گئے اور کہا یہ ہمارے بھائیوں کے لئے لے لیں۔ خاکسار نے کہا گو شہداء کے خاندانوں کے لئے سیدنا بلال فنڈ موجود ہے مگر ابھی اس سلسلے میں کوئی الگ مرکزی ہدایت نہیں۔ انہوں نے اصرار سے وہ رقم بطور امانت رکھوا دی کہ اگر کوئی الگ تحریک ہو تو ٹھیک ورنہ اس کو سیدنا بلال فنڈ میں جمع کروا دیا جائے۔

نعیم طاہر سون صاحب سیرالیون سے لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع خاتون فاطمہ مانسارے صاحبہ سخت بیمار تھیں۔ان کی چھاتی میں انفیکشن کی وجہ سے سوجن تھی۔پیپ پڑ چکی تھی۔ بہت سی انگریزی اور دیسی ادویات استعمال کیںلیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ خاکسار دورہ پر اس علاقے میں گیا تو دیگر لوگوں کے علاوہ ان سے بھی ملا۔ حال احوال پوچھا۔ ان کے لئے دعا کی اور چندہ کی تحریک بھی کی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے شفا عطا فرمائے گا۔ اس غریب خاتون کے پاس صرف دو ہزار لیونز یعنی پچاس سینٹ تھے جو انہوں نے چندہ میں دے دئیے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی دوائی کے انہیں شفا عطا فرما دی۔ اب وہ بفضلہ تعالیٰ بالکل نارمل زندگی گزار رہی ہیں۔

               امیر صاحب آئیوری کوسٹ لکھتے ہیں کہ ریجن بسّم کا ایک نو مبائع احمدی کاروبار کے سلسلے میں اپنی جماعت سے چھ سو کلو میٹر دور دوسرے شہر چلا گیا جہاں جماعت نہ تھی اور جماعت سے اس کا رابطہ بھی دو سال سے منقطع تھا ۔ ایک دن اچانک عاملہ کے ایک ممبر کو اس کا فون آیا تو انہوں نے بیان کیا کہ مَیں بہت پریشان ہوں۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے مجھے معاف کر دیں۔ اس نے بتایا کہ کل رات مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ مَیں ایک سڑک کے کنارے بیٹھا ہوں اور جماعت احمدیہ کی اخبار پڑھ رہا ہوں۔ ایک راہ گیر آتا ہے اور مجھ سے وہ اخبار چھیننے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اخبار چھیننے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ اور خواب میں ہی مجھے یوں سمجھایا جا رہا ہے کہ یہ شخص مجھے جماعت سے دور کرنا چاہ رہا ہے۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی تو مَیں بہت گھبرایا ہوا تھا اور صبح اٹھتے ہی آپ کو فون کر رہا ہوں۔مَیں آج ہی آپ کو پیسے ٹرانسفر کرتا ہوں۔میرا چندہ ادا کریں اور میرے لئے دعا بھی کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے معاف کرے اور آئندہ میں مسلسل جماعت سے رابطہ رکھوں اور چندہ ادا کرتا رہوں۔

 یہ کچھ مختصر واقعات تھے جو میں نے بیان کئے ہیں۔

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔

               ’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا۔تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو اس خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٔ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گااور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی‘‘۔ فرمایا :’’مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور ان پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا ان سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر کار فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے ان پر کھولے جائیں گے‘‘۔

(رسالہ الوصیت ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)

               السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں