خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 3؍اکتوبر 2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آنحضرتﷺ کے دعویٰ نبوت کے ساتھ ہی پہلے آپ کا استہزاء اور ہنسی ٹھٹھا شروع ہوا اور پھر جب کفار نے دیکھا کہ یہ تو ایک ایک کر کے ہم میں سے لوگوں کو اپنے اندرسمیٹتے چلے جا رہے ہیں ، ہمارے کمزور اور ہمارے غلام اِس شخص کی بیعت میں آ کر ہمارے بتوں کی پوجا کرنے کی بجائے خدائے واحد کی عبادت کرنے والے بنتے چلے جارہے ہیں تو پھر کفار نے آپﷺ کے لئے ہر منصوبہ بندی کی کہ کس طرح آپ ؐکے پیغام کو اور آپؐ کے کام کو روکا جاسکتا ہے۔ آپ کے ماننے والوں پر ظلم و تعدی کی انتہاء کر دی۔ آپﷺ کے ماننے والوں میں نہ کوئی مرد ظالم کفار کے ہاتھوں محفوظ رہا اور نہ کوئی عورت۔ اسلام کی تاریخ میں دو اونٹوں سے ایک شخص کی ٹانگیں باندھ کر اُن کو مخالف سمت دوڑا کر جسم کو چیرنے کا واقعہ ملتا ہے، وہ بھی ایک عورت تھی ، باوجود اپنے بھیانک انجام کے سامنے دیکھنے کے اُس پر عزم عورت نے، توحید پر ہمیشہ قائم رہنے کا عہد کرنے والی عورت نے، اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے اپنے جسم کو ظالمانہ طور پر چیرا جانا برداشت کر لیا لیکن اپنے خدا سے بے وفائی نہیں کی۔

 پھر مکہ میں ہی ظلم کی داستان کا ایک واقعہ ہمیں ملتا ہے جب حضرت یاسرؓکے پورے خاندان کوظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک دن ایسے ہی ظلم کا نشانہ بنتے ہوئے یہ خاندان جب اُس میں سے گزر رہا تھا تو آنحضرتﷺ کا وہاں سے گزر ہوا۔ آپؐ نے دیکھا کہ یہ لوگ رسیوں سے جکڑے ہوئے ہیں اور ظالمانہ طریقے سے اِن کو مارا جا رہا ہے توآپﷺ نے فرمایا: اے آلِ یاسر! صبر کرو۔ اﷲ تعالیٰ نے جنت میں تمہارے لئے مکان تعمیر کیا ہے۔ تمہارا ایک مکان بن رہا ہے جنت میں ۔ اِس ظلم کے دوران ہی حضرت یاسرؓ تو شہید ہوگئے اور حضرت سمعیہ جو آپ کی بیوی تھیں اُن کا بھی بُرا حال تھا ، ظلم اور تشدد کی وجہ سے نیم بےہوشی کی حالت تھی۔ اُس حالت میں بھی ابوجہل نے اُن پہ ظالمانہ طور پر ایک نیزہ مار کے اُن کو شہید کر دیا۔ یہ دونوں ﷲ تعالیٰ کی رضا کا پروانہ لے کر، جو ﷲ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبیﷺ کے ذریعے آپ کو دیا تھا، اِس دنیا کو چھوڑ کر ہمیشہ کی زندگی پا گئے ۔ آج چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اِن کی یہ قربانی تاریخ اسلام میں نہایت آب و تاب سے چمک رہی ہے اور ہر جگہ اِن کی قربانی کا ذکر ہوتا ہے جب بھی آپ تاریخ اسلام اُٹھائیں گے ۔

عورت فطرتاً کمزور ہوتی ہے لیکن اِسلام نے وہ عورتیں پیدا کی ہیں جو مردوں کے شانہ بشانہ قربانیاں دیتی چلی گئیں۔ توحید کے قیام و استحکام کے لئے اپنے پیچھے وہ نمونے چھوڑ گئیں جو ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرنے کا ہمیشہ باعث بنتے چلے جائیں گے ۔ پھر دیکھیں آنحضرتﷺ کی مکی زندگی کے دوران ہی شعبِ ابی طالب کا واقعہ پیش آیا جہاں آنحضرتﷺ، حضرت خدیجہؓ اور آپؐ کے خاندان اور آپؐ کے ماننے والے اڑھائی سال تک وہ قربانیاں دیتے رہے جس میں مسلسل بھوک اور پیاس بھی برداشت کرنی پڑی۔ بچے بھوک سے بلکتے رہے۔ مائیں بچوں کی حالت کو دیکھ کر بےچین اور پریشان تو ضرور تھیں۔ اپنے بچوں کو بھوک کو حالت میں دیکھ کر اور اس بھوک کی حالت کی وجہ سے قریب المرگ دیکھ کر غمزدہ تو ضرور تھیں لیکن جس توحید کی دولت اور جس زندہ خدا کو وہ پاچکی تھیں اُ س سے بےوفائی اور مُنہ موڑنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں ۔ ثبات ِ قدم اور استقامت کے پیکر اگر مرد تھے تو عورتیں بھی اُس سے کم نہیں تھیں ۔پس قربانی اور ایمان میں مضبوطی کی ایک رُوح تھی جو اِسلام نے مردوں اور عورتوں میں یکساں پیدا کر دی ۔ اور پھر جب ﷲ تعالیٰ کے اِذن سے مدینہ میں ہجرت ہوئی، اور اِسلام کے پھیلنے کا ایک نیا دور شروع ہوا تو وہاں بھی دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کا پیچھا کیا اور ایک فوج کے ساتھ مدینہ پر لشکرکشی کی تب خدا تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو اجازت عطا فرمائی کہ دشمنوں کے اِن ظلموں کو روکنے کے لئے آپؐ کو اپنا دفاع کرنے کی اجازت ہے اور اب اِن کا جواب سختی سے دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اب اِن ظلموں کو نہ روکا گیا تو یہ ظلم بڑھتے بڑھتے ہر مذہب کے خلاف آگیں بھڑکائیں گے اور اُس تعلیم کے خلاف جو خدائے واحد کی عبادت پر زور دیتی ہے یہ ظلم کرنے والے ہمیشہ تلوار اُٹھاتے چلے جائیں گے۔ پس آنحضرتﷺ نے اﷲ تعالیٰ کی اجازت سے مدینہ پر حملہ کرنے والوں کے خلا ف صف آرائی کی ، اُن کے سامنے کھڑے ہوئے ۔

پہلی جنگ بدر کے میدان میں لڑی گئی اور پھر جب بھی دشمن کو موقع ملتا رہا دشمن مسلمانوں کے خلاف جنگ کے شعلے بھڑکاتا رہا ۔ مسلمان باوجود تعداد میں کم اور معمولی ہتھیاروں کے دشمن کا مقابلہ کرتے رہے اور اِ ن جنگوں میں بھی جو خالصتاً مردوں کا کام ہے مسلمان عورتوں نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ۔ اُن بہادر عورتوں نے اپنے فرض کو نبھایا اور خوب نبھایا۔ جو فرائض عمومی طور پر انجام دئیے اُن میں فوجیوں کو، جو زخمی فوجی تھے، لڑنے والے جو مسلمان تھے اُن کو پانی پلانا ، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا ، شہیدوں اور زخمیوں کو میدانِ جنگ سے اُٹھا کر لانا ، تیر اُٹھا کر مردوں کو دینا تاکہ وہ چلائیں۔ اَب ایک عورت جو بظاہر کمزور سمجھی جاتی ہے، ہوش و حواس قائم رکھتے ہوئے اور اپنی کمزوریوں پر قابو پاتے ہوئے، یہ کام انجام دے سکتی ہے ، اُس کے بغیر تو نا ممکن ہے کہ یہ کام سر انجام دے سکے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ بعض واقعات میں بیان کروں گا بلکہ ایک واقعہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے جو مَیں نے اِس وقت چُنا ہے جس میں دکھلایا گیا ہے کہ مردوں کی طرح تلوار بھی عورتوں نے چلائی۔ پھر فوجیوں کے لئے کھانے کا انتظام کرنا یہ بھی عورتوں کا کام تھا ، شہیدوں کے لئے قبریں کھودنے میں مردوں کا ہاتھ بٹانا یہ بھی عورتوں کا کام تھا۔ پھر فوج کو ہمت دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا۔ اِس میں بھی عورتوں نے خوب کردار ادا کیا لیکن کافر عورتوں کی طرح گانے گا کر اور غلط طریقے سے اُن کے جذبات اُبھار کر نہیں بلکہ اُن کو دینی غیرت دلا کر، خود مرنے کے لئے آگے قدم بڑھا کر ۔

 پس اِسلام کی تاریخ میں عورتوں کا ایک مقام ہے ۔ جنگ ٹھونسی گئی تو جنگی حالات میں مسلمان عورتوں نے اپنا پورا کردار ادا کیا ورنہ یہ اُن کی زندگی کا مقصد نہیں تھا ۔ وہ صحابیات ایسی تھیں جنہوں نے اُس وقت کے ماحول کے مطابق جو نظام ِ جماعت تھا اُس کو بہترین مشورے بھی دئیے، اُن صحابیات نے علمی کارنامے بھی انجام دئیے۔ عبادتوں کے معیار بھی قائم کئے۔ اپنے بچوں کی ایسی تربیت بھی کی جس سے اُن میں احساس پیدا ہوا کہ ہم نے مذہب اور قوم کے لئے جان ، مال اور وقت اور عزت کو قربان کرنا ہے۔ اور اِس کی قربانی دینی ہے اور اِس کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہے ۔ پس صرف جنگی اور جاہلانہ مزاج ہونے کی وجہ سے وہ نڈر اور بہادر نہیں تھیں بلکہ ایک مقصد کے حصول کے لئے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے اُنہوں نے یہ قدم اُٹھایا۔ اُن کو یہ احساس تھا کہ اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔

 آج اگر حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد سے تلوار کا جہاد بند ہے تو قلم کے جہاد کا آپؑ نے اعلان فرمایا ۔ پھر اِس کے ساتھ، قلم کے جہاد کے ساتھ ساتھ آجکل الیکٹرونک میڈیا ہے۔ مختلف ذرائع ہیں جن کے ذریعہ اِسلام پر حملے کئے جاتے ہیں۔ احمدیت پر حملے کئے جاتے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی ذات پر حملے کئے جاتے ہیں۔ قرآن کریم پر حملے کئے جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات پر حملے کئے جاتے ہیں۔ آ ج اِن حملوں کی تعداد پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے۔ تو اِ ن حملوں کو پسپا کرنے کے لئے جہاں مردوں کو اپنی طاقتیں صرف کرنے کی ضرورت ہے وہاں عورتوں کو بھی اپنی تمام تر طاقتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اِنٹر نیٹ اور فیس بک اور مختلف ویب سائٹس میں داخل ہونا اپنے مزے اور وقت گزاری اور فن کے لئے نہ ہو بلکہ ایک درد کے ساتھ جس طرح قرونِ اُولیٰ کی مسلمان عورتوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کی اور اپنی جان تک اُس مقصد کے حصول کے لئے لڑا دی ۔ آج و ہ جان لڑانے کا وقت ہے۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ دشمن کے ہر حملے کو پاش پاش کرنے کا وقت ہے۔ لڑکیاں اور پڑھی لکھی عورتیں اِس کام کے لئے جماعتی نظام کو اپنے آپ کو پیش کریں۔

 جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ بعض مثا لیں اِن جہاد کرنے والی عورتوں کی پیش کروں گا۔ ایک مثال جو عام ہے وہ میں نے لی ہے وہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ پتہ لگے کہ کس طرح مستقل طور پر اِسلام کے دفاع کے لئے وہ عورتیں کھڑی ہوتی تھیں۔ توحید کے قیام کے لئے جان کی قربانیاں پیش کرنے کی مثالیں تو آپ نے سن لیں لیکن ایسی مثالیں بھی ہیں جن میں اِسلام کے دفاع اور اُس دین کے دفاع جس نے توحید کا قیام کرنا ہے اور آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لئے اپنی جان لڑ انی ہے، اُن کا کیا کام ہے اور کس طرح اُن لوگوں نے، اُن عورتوں نے آنحضرتﷺ کی حفاظت کے لئے اپنی جان لڑائی اور کس طرح وہ مضبوط چٹان بن کر کھڑی ہوئیں۔

               سب سے پہلے میں حضرت اُمّ عمارہ کی مثال لیتا ہوں ۔ حضرت اُمّ عمارہ اُن ابتدائی خوش نصیب عورتوں میں سے تھیں ، مدینہ کی عورتوں میں سے، جنہوں نے مکہّ جا کر بیعتِ عقبہ ثانیہ میں حصہّ لیا تھا ۔ اِس خوش نصیب قافلے میں بہتّر مرد اور دو عورتیں تھیں اور اُن میں سے ایک اُمّ عمارہ نصیبہ بنت کعب اور دوسری اُمّ بنی اَسما ء بنت عمرو بن عدی تھیں۔ حضرت اُمّ عمارہؓ بیان کرتی ہیں اپنے بیعت کا واقعہ۔ کہ جب مردوں سے بیعت لے لی گئی تو میرے خاوند نے عرض کی کہ یا رسول اﷲ یہ دو خواتین بھی بیعت کے لئے حاضر ہیں۔ آپ ؐنے اِرشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے ، اِ ن کی بیعت بھی اُنہی شرائط پر قبول ہے جو ابھی میں نے مردوں سے لی ہیں ۔ عورتوں کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر تو بیعت نہیں ہوتی۔ اِن کی بیعت ہو گئی۔ پھر آپؓ کے کارناموں میں ہم دیکھتے ہیں کہ غزوۂ اُحد میں زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کرنے کے علاوہ تلوار کے بھی آپؓ نے وہ جوہر دکھلائے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ رسولِ اقدس ﷺ نے اِرشاد فرمایا کہ میں اپنے دائیں بائیں اُس وقت جس طرف بھی میری نظر اُٹھتی تھی، دیکھتا تھا تو اُمّ عمارہ کو اپنا دفاع کرتے ہوئے مسلسل لڑتا ہوا پاتا تھا۔

حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ غزوۂ اُحد میں ایک ایسا نازک ترین وقت بھی آیا کہ جب مسلمانوں کی ایک جلد بازی کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا اور مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا۔ کہتی ہیں کہ میں اپنے خاوند اور دونوں بیٹوں عبد اﷲ اور حبیب کے ہمراہ رسولِ اقدس ﷺ کے دفاع کے لئے آپؐ کے پاس آ کھڑی ہوئی۔ اور کہتی ہیں کہ ہم ہر طرف سے اِن حملوں کا جواب دینے لگے جو اُس نازک صورت ِ حال پر ہو رہے تھے۔ خاص طور پر آنحضرتﷺ کی ذات کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ کہتی ہیں میرے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں ڈھال تھی۔ اگر دشمن گھوڑوں پر سوار نہ ہوتے تو ہم اِن میں سے کسی ایک کو بھی زندہ بچ کر نہ جانے دیتے ۔ کہتی ہیں کہ گھوڑے پر سوار دشمن نے مُجھ پر تلوار کا وار کیا لیکن مَیں نے اپنی ڈھال پر اُس وار کو روک لیا اور کچھ نہ کر سکا وہ دشمن۔ اور مَیں نے یک دم پیچھے جب وہ مڑا تو میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اُس کے گھوڑے کی پیٹھ پر تلوار ماری اور اِس زور دار وار کی وجہ سے گھوڑے کی پیٹھ کٹ گئی اور اپنے سوار سمیت وہ نیچے گر گیا ۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اﷲ ﷺنے بڑی بلند آواز سے فرمایا ، اِن کے بیٹے کو آواز دے کر کہ عبد اﷲ بن اُمّ عمارہ اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاؤ۔ و ہ میرے پاس آیا اور پھر میری مدد سے ہم نے اُس دشمن کا کام تمام کیا ۔ اِسی طرح غزوۂ اُحد کا ایک واقعہ اِن کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ جب دشمن کی طرف سے زور دار حملہ ہوا ، مجاہدین بکھر گئے۔ مَیں اپنی والدہ کے ہمراہ رسولِ اقدسؐ کے قریب ہوا اور آپؐ پر جس طرف سے بھی کوئی وار ہوتا ہم اُسے روکتے۔ اور اِس جنگ میں حضرت اُمّ عمارہ کے کندھے پر سخت تلوار کا زخم آیا جس میں سے خون بہہ رہا تھا ۔ آنحضرتﷺ نے اِ ن کے بیٹے کو ارشاد فرمایا کہ اپنی والدہ کے کندھے پر مرہم پٹی کرو اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ تمہارا پورا خاندان بڑا عظیم ہے ، اﷲ تم پر اپنی رحمت کی بارش برسائے۔ اور ساتھ ہی یہ دُعا بھی دی کہ الٰہی اِس خاندان کو جنت میں میرا رفیق بنا دینا ۔ یہ دُعا سن کر اِس خاندان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اوروہ پہلے سے زیادہ جوش اور جذبے کے ساتھ جنگ میں مصروف ہو گئے اور آنحضرتﷺ کے دفاع میں مصروف ہو گئے۔

 حضرت اُمّ عمارہ نے اِس جنگ میں یہ دیکھا کہ بیٹے کا ہاتھ بُری طرح زخمی ہے تو اُس کی پٹی کی اور اُس کے بعد کہا کہ بیٹا جاؤ ، ہمّت کرو اور دوبارہ دشمن پر حملہ کرو۔ اِس زخموں کی وجہ سے بیٹھ نہیں جانا ۔ آنحضرتﷺ نے پھر اِن کی جرأت کی بڑی تعریف فرمائی ۔ حضرت اُمّ عمارہ آنحضرتﷺ کے پاس کھڑی تھیں ، تلوار ہاتھ میں تھی تو وہ مشرک دوبارہ سامنے آیا جس نے اِن کے بیٹے کو زخمی کیا تھا تو رسولِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا پھر سامنے آ گیا ہے۔ حضرت اُمّ عمارہ نے اُس کو دیکھتے ہی ایک وار کیا۔ اُس کی ٹانگ کٹ گئی او رجب زمین پر گرا تو باقی مجاہدین نے پھر اُس کو پکڑ لیا۔ پھر آنحضرتﷺ نے اِن کی بڑی تعریف فرمائی اُس موقع پر۔

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرتﷺ سے خود یہ سنا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ میں نے غزوۂ اُحد کے دن جب اپنے دائیں بائیں دیکھا تو حضرت اُمّ عمارہ کو اپنے دفاع میں لڑتے ہوئے پایا۔ حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا کے جسم پر تقریباً بارہ زخم لگے ، جن میں کندھے کا زخم بہت گہرا تھا جس کا علاج تقریباً ایک سال تک ہوتا رہا ۔ حضرت اُمّ عمارہ کے کندھے پر تلوار کا جو وار کیا  تھا جس شخص نے وہ بڑا خطرناک وار تھا۔ اُس سے آپ بے ہوش بھی ہو گئی تھیں۔ لیکن جب ہوش آیا تو پہلا سوال جو آپ نے پوچھا وہ یہی تھا کہ آنحضرتﷺ کا کیا حال ہے ؟نہ اپنے بیٹوں کا پوچھا نہ اپنے خاوند کا پوچھا۔ جب بتایا گیا کہ آپﷺ ہر طرح سے محفوظ ہیں تو بے ساختہ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ حضرت اُمّ عمارہ رضی اللہ عنہا غزوۂ حنین اور فتح مکہّ کے علاوہ مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں بھی شامل تھیں اور جنگِ یمامہ میں بھی شریک ہوئیں۔ اِ س جنگ میں لڑ ائی کے دوران اِن کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔ اِس کے علاوہ بھی جسم پر گیارہ زخم آئے اور اِن کا بیٹا اِس میں شہید ہوا ۔اُمّ عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے صلح حدیبیہ میں شرکت کی سعادت بھی حاصل کی اور اس سے پہلے جو بیعتِ رضوان لی گئی تھی اُس میں بھی شامل تھیں۔ اور اِس بیعت کے بارے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے اِس میں شامل سب لوگوں کو جنتی قرار دیا ہے ۔

 فرماتی ہیں کہ ہم عمرہ ادا کرنے کے لئے رسول اللہﷺ کی قیادت میںمدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ، مکہّ معظمہ کے قریب حدیبیہ مقام پر ہمیں روک لیا گیا۔ قریش نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان مکہّ معظمہ میں داخل ہوں۔ حضرت عثمان بن عفّان رضی اﷲ تعالیٰ کو سفیر بنا کر مکہ ّ معظمہ بھیجا گیا۔ اُن کی واپسی میں تاخیر ہو گئی اور یہ خبر مشہور ہو گئی کہ اُنہیں شہید کر دیا گیا ہے۔رسولِ اقدس ﷺ نے ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر بیعت لینا شروع کر دی اور آپؐ نے یہ بھی اِرشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیعت لینے کا حکم دیا ہے۔ کہتی ہیںکہ جس کے پاس کوئی ہتھیا ر تھا اُس نے وہ تھام لیا۔ چونکہ یہ سفر عمرہ ادا کرنے کی نیّت سے اختیار کیا گیا تھا اس لئے بیشتر افراد کے پاس کوئی ہتھیا ر نہ تھا۔ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک لاٹھی پکڑ لی اور چھری ایک تھی میرے پاس وہ لے لی اور اپنی کمر کے ساتھ اڑس لی تاکہ اگر کوئی دشمن حملہ کرے تو میں اُن سے لڑ سکوں۔

 حضرت اُمِّ عما رہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے غزوہ حنین میں بھی جرأت اور شجاعت کا بھرپورمظاہرہ کیا ۔ فرماتی ہیں کہ بنو ہوازن کا ایک شخص اونٹ پر سوار میدان میںجھنڈا لہراتا ہوا داخل ہوا۔ میں نے موقع پاتے ہی اونٹ کے پچھلی جانب زور دار وار کیا جس سے اونٹ لڑکھڑاتا ہوا اپنے سوار سمیت گر پڑا۔ اور اس کے گرتے ہوئے سوار پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ اُٹھ نہ سکا ۔

اِن کے بیٹے کو آنحضرتﷺ نے اپنا نمائندہ بنا کر مسیلمہ کذاب کے پاس بھیجا لیکن اُس نے سفارتی آداب کو پامال کرتے ہوئے ایک ستون سے باندھ دیا اور بے ہودہ سوال کرنے کے بعد اُن کا ایک ایک عضو کاٹ کر شہید کر دیا۔جب اُمّ عمارہؓ کو اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر ملی تو کمال صبر اور تحمل سے اِس صدمے کو برداشت کیا۔ اِس پر آنحضرت ﷺ نے آپ کو بہت دعائیں دیں۔ جب مسیلمہ کذاب کو قتل کیا گیا تو اُس میں آپؓ کا اپنا بازو بھی کٹ گیا تھا لیکن اپنا بازو کٹنے کا آپؓ کو اتنا غم نہیں تھا جتنا مسیلمہ کذاب کے واصلِ جہنم ہونے کی خوشی تھی۔

حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے دورِ خلافت میں ایک روز بہت عمدہ چادریں اُن کے پاس لائی گئیں۔ ایک چادر بہت ہی اچھی قسم کی تھی اور بڑے سائز کی تھی۔ حضرت عمرؓکو مشورہ دیا گیا کہ یہ چادر عبداللہ بن عمر کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کو دیدی جائے جو آپ کی بہو تھیں۔ آپؓ نے ارشاد فرمایا یہ چادر اُس خاتون کو دی جائے گی جو صفیہ سے کہیں بہتر ہے میں نے اُس خاتون کی تعریف رسولِ اقدس ﷺ کی زبانِ مبارک سے سنی ہے۔ اِس کے بعد یہ چادر اُمّ عمارہ کو عطا کی گئی۔

صرف جنگیں ہی نہیں آپؓ نے بیعت کے بعد فوری طور پر مدینہ میں آکر تبلیغ اور تربیت کا بھی بہت کام کیا اور اِس میں بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ پس اُمّ عمارہ وہ ہیںجنہوں نے جرأت، بہادری کے عجیب نمونے دکھائے ہیں۔ جنہوں نے آنحضرتﷺ کی حفاظت کے لئے جنگ کی انتہائی خطرناک صورت میں جب آنحضرت ﷺ کے اردگرد چند مسلمان رہ گئے تھے اپنے خاوند اور بیٹوں کے ساتھ مل کربھر پور کردار ادا کیا ہے ۔اگر مردوں میں حضرت طلحہؓ کی مثال دی جاتی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے آنحضرتﷺ پر آنے والاہرتیر اُحد کے دن اپنے ہاتھ پر روکا تھا اور اُف بھی نہیں کرتا تھااِس لئے کہ کہیں اُف کرنے سے میرا ہاتھ ہل نہ جائے اور تیر آنحضرتﷺ کو لگ جائے۔ تو حضرت اُمِّ عمارہؓ نے عورتوں کی نمائندگی میںآپ ﷺ کی حفاظت کا بھی حق ادا کر دیا۔ یہ سوچ لیا کہ آج آنحضرت ﷺ کی حفاظت ہی میرا سب سے بڑا مقصد ہے۔ میرے بیٹے شہید ہوں۔ میرا خاوند شہید ہو۔ مجھے اپنی جان قربان کرنی پڑے تو میں قربان ہو جاؤں لیکن میںنے آنحضرتﷺ کی بہرحال حفاظت کرنی ہے۔

آج اگر آنحضرت ﷺ کا جسمانی وجود ہمارے سامنے نہیں ہے تو آپؐ کی ذات اور اِسلام کی تعلیم آج بھی زندہ ہے ۔پس آج ہر عورت کا کام ہے کہ اُمّ عمارہ بن کر آنحضرت ﷺ کی ذات اور اِسلام پر لگائے گئے ہر الزام کا جواب دے کرآپؐ کی ذات اور اِسلام کی حفاظت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔ میں نے ایک امّ عمارہؓ کی مثال دی ہے۔ اِسلام میں آنحضرتﷺ کے زمانے میںبھی اور بعد میں بھی ایسی خواتین پیدا ہوتی رہی ہیں جنہوں نے دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا۔ جنگ قادسیہ میں بھی مختلف موقعوں پر عورتوں نے بھر پور کردار ادا کیا ہے۔

پس آج جبکہ اِسلام پر دنیا کے ہر کو نے سے حملہ ہو رہا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان کہلانے والے خود بھی زمانے کے امام کی دشمنی کر کے اِن حملوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ ہمیں ایک اُمِّ عمارہ نہیں بلکہ ہزاروں اُمِّ عمارہ کی ضرورت ہے جنہوں نے آنحضرتﷺ کی ذات اور اِسلام کی حفاظت کرنی ہے۔

نئے ذرائع ابلاغ الیکٹرانک ذرائع کو استعمال کرنا آج کل کی نوجوان نسل کو زیادہ آتا ہے۔ پس نوجوان نسل سے بھی میں کہتا ہوں کہ آگے آئیں اور اِس جہاد میں اُتر جائیں۔ ذاتی خواہشات کو پسِ پشت ڈال دیں۔ جو واقفات ِ نو ہیں اپنے وقفِ نو کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ جو واقفات نو نہیں ہیں وہ ایک احمدی اور سچا مسلمان ہونے کا حق ادا کریں۔ دین سیکھیں اور دین کو پھیلائیں۔ اپنی ذاتی خواہشات کو بالکل پس پشت کر دیں۔ مخالفین کے کوئی اعتراض نئے نہیں ہیں آج بھی۔ وہی پرانے اعتراض ہیں جو ہمیشہ سے ہوتے چلے آئے ہیں۔ الفاظ کی ردّو بدل کے ساتھ یہ پیش کر دیتے ہیں اور اِن سب کے جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دے دیئے ہوئے ہیں۔ پس ہماری عورتوں اور لڑکیوں کو چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ لصلوٰ ۃ والسلام کی کتب یا اقتباسات جن کا انگلش میں ترجمہ میسر ہے جن کو اُردو پڑھنی نہیں آتی وہ انگلش میں پڑھیںاور کوشش کریں کہ اِس کے علاوہ بھی علم حاصل کریں اور اُن کے جوابات دیں جو اعترضات آج اِسلام پر اور آنحضرتﷺ کی ذات پر ہو رہے ہیں اور دشمن کے خلاف ایک ننگی تلوار بن کر کھڑی ہو جائیں۔ پھر میں ایک مثال پیش کرتا ہوں حضرت اُمِّ سلمیٰ اسماءؓ ، یہ بیعت رضوان میں شامل تھیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا یہ بیعت تھی جو صلح حدیبیہ سے پہلے ہوئی حضرت عثمانؓ کے شہید ہونے کی افواہ پر۔ اور یہ وہ بیعت تھی جس کا مطلب ہے کہ جس میں شامل لوگوں سے خدا تعالیٰ بھی راضی ہوا کیونکہ آج انہوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر ایک نیا عہد کیا تھا۔

 حضرت اُمِّ سلمیٰ کی خصوصیات یہ تھیں۔ اُن میں بڑا صبر تھا بڑا تحمّل تھا، ایمان اور توّکل اعلیٰ درجے کا تھا، تقویٰ اور خشیّتِ الٰہی میں ترقی کرنے والی خاتون تھیں۔ عقل و دانش کی پیکر تھیں۔ ہمت بھی اُن میں بڑی تھی۔ بہادر بھی بہت تھیں۔ فصاحت اور بلاغت میں ممتاز مقام اُن کا تھا اور عورتوں میں خطیبۃالنساء کے نام سے معروف تھیں کہ عورتوں کی بہترین مقررہ ۔ انہوں نے جنگ میں بھی حصہ لیا ۔ جنگِ یر مو ک میں لاٹھی سے ہی ڈنڈے سے ہی نو رومیوں کو قتل کردیا۔ گفتگو اِن کی بڑی جچی تلی ہوتی تھی۔ جو بھی اِن کی گفتگو سنتا متأثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ اِن کی گفتگو میں بڑی مٹھاس تھی۔

ایک دفعہ آنحضر تﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ مشہور واقعہ جو ہے۔ حدیث ہم سنتے ہیں جس میں اِنہوں نے عورتوں کے بارے میں سوال کیا تھا کہ اُن کا کیا مقام ہے۔ حاضر ہو کر جب اِنہوں نے کہا کہ آج میں عورتوں کی نمائندہ بن کر آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کوعورتوں اور مردوں دونوں کی طرف نبی بنا کر بھیجا ہے۔ ہم عورتوں کو بھی آپؐ پر ایمان لانے اور آپؐ کی پیروی اختیار کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہے۔ ہم اپنے گھروں میں پابند ہیں۔ اپنے خاوندوں کی خدمت گزاری میں محو رہتی ہیں۔ اَولاد کی پرورش کرنا اور گھر کی دیکھ بھال کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ مرد حضرات جمعہ اور باجماعت نمازیں وغیرہ اور جنازے اور جہاد ہر جگہ شریک ہوتے ہیں اور ہم سے زیادہ فضائل حاصل کر لیتے ہیں نیکیوں کی وجہ سے۔ جب وہ جہاد کے لئے روانہ ہوتے ہیں تو ہم اُن کے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔ یا رسول اللہ! کیا اجر و ثواب میںہم بھی اُن کی برابر کی شریک ہیں؟

 یہ اندازِ گفتگو آنحضرتﷺ کوبہت پسند آیا اور آپ ؐنے صحابہ سے کہا: کیا کوئی اِس سے بہتر رنگ میں عورتوں کی نمائندگی کر سکتا ہے؟ صحابہؓ نے کہا کہ ایسا فصیح بیان تو ہم نے آج تک نہیں سنا۔ آنحضرت ﷺ نے آپؓ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اِن خواتین کو جا کر میرا پیغام سنا دوجن کی نمائندہ بن کر تم یہاں آئی ہو۔ تمہا را اپنے خاوندوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا، اُن کی خوشی کو پیشِ نظر رکھنا اور اُن کے نقشِ قدم پر چلنا، اللہ تعالیٰ کو اِس قدر پسند ہے وہ ایسی بلند مرتبہ عورت کو وہی اجرو ثواب دیتا ہے جس کا ذکر اِس نے مردوں کے لئے کیا ہے۔  پس یہ مرد بھی وہ خوش نصیب مرد تھے جو تقویٰ پر چلنے والے تھے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنے والے تھے جو اپنی بیویوں اور بچوں کے حقوق ادا کرنے والے تھے۔ حضرت اسماء یہ پیغام سن کر خوشی سے واپس آئیں اور عورتوں کو جواب دیا۔ پس یہ تقویٰ پر چلنے والی بیویوں کا بھی رویہ ہے کہ اپنے سپرد جو کام ہیں اُن کے، اُن کو وفا سے ادا کرنا۔ اپنے فرائض کو وفا کے ساتھ ادا کرنا۔ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بہترین رنگ میں توجہ دینا۔ لڑکیوں کا کام ہے کہ اپنی دینی تعلیم کی طرف بھی توجہ دینا دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ۔صرف فیشن ہی پیشِ نظر نہ رہیں۔ ایسی عورتیں ہیں ایسی لڑکیاں ہیں جن کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کو راضی کریں۔ کس طرح اُن عورتوں میں شامل ہوں جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ مقام عطا فرمایا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہو گیا۔

پھر ایک واقعہ ملتا ہے حضرت اُ م ِ ّورقہ بنت عبداللہ کا۔ یہ بھی انصاری خواتین میں تھیں۔ قرآن کریم کی حافظ تھیں۔ عالمہ تھیں۔ بڑی مدبرہ تھیں۔ علم و حکمت میں ترقی کرنے والی تھیں۔ عبادت گزار تھیں۔ زہدوتقویٰ میں بڑی ترقی کرنے والی تھیں اور عبادت میں تو اتنی مشہور تھیں کہ رات کا اکثر حصہ عبادت میں گزارا کرتی تھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت نہایت عمدہ لہجے میں کیا کرتی تھیں۔ قرآن کریم کی آیات پر غور اور تدبر اور سوچ اور فکر ان کی بہت گہری تھی۔

حضرت اُمّ ورقہ انصاریہ کے بارے میں لکھا ہے کہ غزوۂ بدر کے لئے روانگی کا جب اعلان ہوا تو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کرحضرت اُم ّورقہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے بھی جنگ میں شرکت کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ میں زخمیوں کی مرہم پٹی، پیاسوں کو پانی پلانے کی خدمات سر انجام دوں گی۔ میری دلی تمّنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی موت عطا کرے۔

 یہ جذبہ اور شوق اور ولولہ دیکھ کر رسولِ اقدس ﷺ نے فرمایا: تم اپنے گھر میں رہو اللہ تعالیٰ وہیں شہادت کا مرتبہ عطا کر دے گا ۔یہ پیغام سن کر حضرت اُمّ ورقہؓ خوشی خوشی اپنے گھر آئیں۔ اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا تھا کہ آنحضرتﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ آپ کے گھر جاتے تھے کہتے تھے: آؤ آج زندہ شہید کے گھر چلیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ کی بات یہ اِس طرح بھی پوری ہوئی کہ اِن کے دوغلام تھے۔ ایک غلام اور ایک لونڈی تھی۔ اُن کو آپؓ نے کہا تھا کہ جب میں وفات پا جاؤں گی تو میں تم لوگوں کو آزاد کر دوں گی۔ اُن دونوں نے مل کے یہ سوچا کہ اِن کی عمر تو پتہ نہیں کتنی ہے! کب تک یہ زندہ رہیں گی اورکب ہمیں آزادی ملے گی!!۔ اُنہوں نے ایک دن موقعہ پا کر رات کو اُن کو شہید کر دیا۔ اِس طرح اپنے گھر میں شہید ہونے کا جوآنحضرتﷺ کا فرمان تھا وہ بھی پورا ہوگیا۔ بہرحال وہ بعد میں پکڑے گئے۔

 پھر حضرت فاطمہؓ بنت خطاب ہیں جو اپنے بھائی کی رہنمائی اور ہدایت کا باعث بنیں۔اُن کے اِسلام لانے کاباعث بنیں۔بھائی کی سختیوں کے باوجود، بھائی کے ہاتھوں لہولہان ہونے کے باوجوداِسلام کی خوب صورت تعلیم سے ایک انچ بھی ہٹنا گوارا نہیں کیا۔ آخر بھائی کو ہی ہتھیار ڈالنے پڑے اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کو سن کر خود بھی اِسلام کی آغوش میں آگئے ۔ یہ حضرت عمر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی بہن تھیں۔

               غرض کہ اِن صحابیات کے بے شمار واقعات ہیں جنہوں نے دین سے محبت ،خدا سے محبت،اللہ تعالیٰ کے رسول سے محبت اور عشق کی داستانیں رقم کی ہیں۔عبادتوں میں بھی ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کی ہے اور جسمانی جہاد میں بھی بھرپور حصہ لیا ہے۔مالی قربانیوں میں بھی بھرپور حصہ لیا ہے۔ اپنے بچوں اور خاوندوں کوقربان کروا کر صبر اور حوصلے کے اعلیٰ معیار بھی قائم کئے ہیں۔ تبلیغِ دین میں بھی بھر پور حصہ لیا ہے اور مسائل سیکھنے اور سکھانے میں بھی بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

 حضرت عائشہؓ ہی تھیں جنہوں نے وہ مقام حاصل کیا کہ نصف دین سکھانے والی بن گئیں۔غرض ہر میدان میں مسلمان عورت کا ایک کردار ہے۔اور ان عورتوں نے اپنے بچوں کے دلوں میں دین کی محبت اِس طرح کوٹ کوٹ کر بھردی کہ وہ ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہو گئے۔

 پس آج آخرین میں شامل ہونے والی عورتوں نے بھی یہی مثالیں قائم کرنی ہیں۔ تبھی وہ اپنا عہد پورا کرنے والی کہلا سکتی ہیں، تبھی وہ اپنے عہد کا حق ادا کرنے والی کہلا سکتی ہیں۔ وہ عورتیں جنہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰ ۃ والسلام سے تربیت پائی اُنہوں نے بھی اپنی قربانیوں اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اُن کی بھی بہت ساری مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

پس ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے اِن مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے لئے ایک رہنما اور ٹارگٹ مقرر کرنے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اِس زمانے میں پہلے سے بڑھ کر ہمیں اِس بارے میں کوشش کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی یہ رُوح تو قائم ہے لیکن اِن پر توجہ کے لئے اِس ذکر کی ضرورت رہتی ہے تاکہ اکثریت ہم میں سے یہ قربانیاں کرنے والی اور عبادتیں کرنے والی اور اپنے تقویٰ کے معیار بلند کرنے والی بن جائے۔ کہیں زمانے کے بہاؤ میں بہہ کر، زمانے کی لغویات میں بہ کر ہماری نسلیں اِس رُوح کو بھول نہ جائیں۔ اِس لئے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم قائم کی گئی تھی تاکہ اس تنظیم کے تحت عورتیں اپنی روحانی تربیت کا بھی سامان کرتی رہیں اور اپنی اَخلاقی تربیت کا بھی سامان کرتی رہیں اور خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کے لئے بھی کوششیں کرتی رہیں اور توحید کے قیام کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے نہ صرف یہ کہ تیار رہیں بلکہ قربانیاں دیتی چلی جائیں اور اگلی نسلوں میں بھی یہ رُوح پھونکتی چلی جائیں۔

 یہ جوش اور جذبہ پاکستان میں آج کل سخت حالات کی وجہ سے اُبھرا تو ہے لیکن یہ عارضی نہیں ہونا چاہئے باہر کے ملکوں کے لئے۔ نہ صرف پاکستانی احمدیوں پر سخت حالات ہیں بلکہ اور بھی بہت سارے ممالک ہیں۔ انڈونیشیا ہے، بنگلہ دیش ہے، بعض عرب کے ممالک ہیںجہاں سخت حالات ہیں۔ وہ تو اِن حالات کی وجہ سے اپنے ایمانوں میں مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں اور پہلے سے زیادہ بڑھ کر اپنے اخلاص و وفا کے نمونے دکھانے کی کوشش کرتے چلے جارہے ہیں۔ اِن لوگوں میں دین میں مضبوطی پیدا ہوئی ہے، دین سے ایک خاص تعلق پیدا ہوا ہے۔ لیکن جو باہر کی رہنے والی ہیں اُن کو بھی اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اَخلاص ووفا کے تعلق میں بڑھتی چلی جائیں۔

میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں اور اِس مضمون کے خط مجھے مسلسل آرہے ہیں کہ پاکستان میں حالات کی خرابی کی وجہ سے عورتوں کو مساجد میں آنا آج کل روکا ہوا ہے۔ اور اُن کی activitiesجو ہیں لجنہ کی تنظیم کی acitivities  جو ہیں اُن کو بڑا low profile میں رکھا گیا ہے بہت محدود کر دیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کیا عورت کی جان مرد سے زیادہ قیمتی ہے؟ کیا عورت کو شہید ہونے کا حق نہیں ہے؟ ہمیں اپنی activities کرنے کی، آزادانہ طور پہ  activitiesکرنے کی آزادی اور اجازت دی جائے اور اِس کے لئے ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ہماری جان بھی جاتی ہے تو چلی جائے۔ بلکہ یہ لکھتی ہیں کہ مرد تو شاید ہمارے سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیںکہ وہ گھر کے کمانے والے ہیں۔ لیکن بہر حا ل عورت کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اگلی نسلوں کی تربیت گاہ عورت ہی ہے۔

 یاد رکھنا چاہئے، اُن عورتوں کو بھی پیغام دیتا ہوں کہ ہمیں عقل سے چلنا بھی بہت ضروری ہے۔ عورت کی عزت، عصمت اور تقدّس انتہائی ضروری چیز ہے اور مردوں کا کام ہے کہ اُس کی حفاظت کریں اِس لئے یہ احتیاطیں ہم کر رہے ہیں لیکن جب ضرورت پڑے تو پھرعورت کو بھی خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ پھر وہی نمونے دکھانے چاہئیں جو نمونے ہمیں قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے دکھائے تھے، اُن صحابیات نے دکھائے تھے یا اِس زمانے میں بھی بعض ہمیں مثالیں اِس کی ملتی ہیں۔ مجھے خط آتے ہیں کہ ہم بھی خولہ بن کر دکھائیں گی۔ مجھے خط آتے ہیں کہ ہم بھی اُمّ عمارہ بن کر دکھائیں گی۔ اللہ کرے کہ یہ جذبے ہمیشہ زندہ رہیں لیکن احتیاطیں جو کی جارہی ہیں اُس کی بہرحال پابندی کرنی ضروری ہے۔

یہاں جو آپ لوگ آزاد رہ رہے ہیں۔ اپنی اِس آزادی کو بھی اِس طریق پر استعمال کریں کہ ہر عورت اور ہر لڑکی یہ سمجھے کہ آج اِسلام اور آنحضرت ﷺ کی حفاظت کی ذمہ داری صرف اور صرف میری ہے۔ اور میں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ اِس حفاظت کا حق ادا کرنے بھر پور کوشش کرنی ہے۔اپنے علم اور روحانیت میں اضافہ کرنا ہے اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھنا جب تک اِسلام کا جھنڈا تمام دنیا پر نہ گاڑ لوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق عطا فرمائے۔ دُعاکر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں