خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 7؍فروری2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کا جلسہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔گزشتہ سال بنگلہ دیش کے جلسہ سالانہ پر مَیں نے یہاں سے Liveخطاب کیا تھا جس کے بعد بے شمار بنگالی احمدیوں کے مجھے خطوط آئے کہ آپ کے براہِ راست مخاطب ہونے سے ہمیں یوں لگا جیسے آپ ہمارے درمیان مخاطب ہیں اور ہر خط لکھنے والے نے بڑے اخلاص و وفا کا اظہار کیا۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنگلہ دیش کی جماعت اخلاص و وفا اور قربانیوں میں بڑھتی چلی جانے والی جماعتوں میں سے ہے۔اس سال کے جلسہ پر تو میرے ذہن میں نہیں تھا کہ پھر جلسہ سے براہِ راست خطاب کروں گا۔لیکن تقریباً ایک مہینہ پہلے بنگلہ ڈیسک کے انچارج نے میرے سامنے اس بات کا اظہار کیا تو پہلے تو مَیں انکار کرنے لگا تھا ۔پھر اس جلسہ پر جوبلی جلسوں کی وجہ سے جوپروگرام بنا تھا اور بہت سے بنگالیوں نے قادیان آ کر مجھ سے ملنے کا پروگرام بنایا تھا،لیکن کسی وجہ سے قادیان کا جلسہ نہیں ہو سکا اور Cancelکرنا پڑا۔اس لئے ان کا احساس کرتے ہوئے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ جلسہ سے براہِ راست مخاطب ہوں۔ اور ایک بہت بڑی تعداد جو میرے قادیان جلسہ پر نہ جانے کی وجہ سے مایوس ہوئی تھی ان کی کچھ حد تک تسلی ہو جائے۔لیکن پھر مجھے معًاخیال آیا کہ گزشتہ سال کے براہِ راست خطاب سے بنگلہ دیش کی جماعت کے افرادمرد و زن نے جس خوشی کااوراخلاص کا اور وفا کا اظہار کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ چاہے مختصر ہی سہی کچھ نہ کچھ ان کے سامنے کہوں۔اور’’ بنگالہ کی دلجوئی ‘‘کرنے والوں میں مَیں بھی شامل ہو جاؤں۔سو اس وقت مَیں نے حامی بھر لی اور مَیں امید کرتا ہوں کے جلسہ سالانہ پر شامل ہونے والے تمام احمدیوں نے جلسے کے پروگرام سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہو گا جس کا آج آخری دن ہے۔لیکن یہ فائدہ عارضی نہیں ہونا چاہئے۔ جلسے کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب نیکی کی باتیں سن کر اپنے اندر اور اپنے اہل و عیال کے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے ایک غیر معمولی جوش پیدا ہو۔اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا جلسوں کے انعقاد سے یہی مقصد تھا۔اور اسی مقصد کے حصول کے لئے آج دنیا کے ہر ملک میں جماعت احمدیہ کے جلسے منعقد کئے جاتے ہیں۔پس جو کمزور احمدی ہیں وہ بھی اپنے اندرایک انقلاب لانے کی خاص کوشش اور جدو جہد کریں۔اور جو جماعت کے ساتھ حقیقی وفا کا تعلق رکھتے ہوئے جماعت کی خاطر اپنی جان ، مال ،وقت اور عزت کو قربان کرنے کا ایک خاص جوش اپنے اندر پاتے ہیں وہ اس جوش اور جذبے کو قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے خدا تعالیٰ سے استقامت چاہیں۔ہمیشہ یاد رکھیں کہ شیطان کو یہ قطعاً پسند نہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے والا بن کر اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث بنے۔ اس لئے وہ کمزوروں پر بھی اور مضبوط ایمان والوں پر بھی کسی نہ کسی ذریعہ سے حملہ کرتا رہتا ہے۔ بعض مرتبہ ایک مخلص ساری زندگی جماعت کے ساتھ ایک مضبوط تعلق رکھتا ہے لیکن ایک وقت میں اپنی اولاد کی خواہشات کی وجہ سے کمزوری دکھا جاتا ہے اور جماعت سے دور چلا جاتا ہے۔ پس جہاں اپنا مضبوط تعلق جماعت سے قائم کریں وہاں اپنی اولاد کی بھی اس رنگ میں تربیت کریں کہ کبھی ان کی نفسانی خواہشات انہیں جماعت سے دور لے جانے والی نہ بنیں۔نیز ایک حقیقی مومن کا یہ بھی کام ہے کہ بجائے اپنے کمزور بھائیوں کو تخفیف کی نظر سے دیکھنے کے یا کسی قسم کے تکبر کا اظہار کرنے کے انہیں اپنے ساتھ لے کر چلیں۔اور دینی معاملات میں بھی ان کی تربیت کا خیال رکھیں۔اور بغیر کسی احساسِ بڑائی کے تربیت کریں۔فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات (البقرہ: 149)کا بھی یہی مطلب ہے کہ جہاںنیکیوں میں خود بڑھ رہے ہوں وہاں اپنے کمزور ساتھیوں کو ،نئے آنے والوں کو ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ ان نیکیوں میں شامل کریں۔اگر آپ نیکیوں کے زینوں پر چڑھ رہے ہیں اور کمزور پیچھے رہ رہے ہیں تو رُک کر ان کا ہاتھ پکڑ کر ان کو بھی اوپر لائیںاور جب یہ حالت جماعت میں پیدا ہو جائے تو جماعت ایک بُنْیَانِ مَرْصُوْصبن جاتی ہے۔ ایک مضبوط چٹان بن جاتی ہے۔ ایک مضبوط دیوار بن جاتی ہے ، سیسہ پلائی دیوار بن جاتی ہے جس سے ٹکرا کر ہر مخالف خود اپنے آپ کو تباہ کر لیتا ہے۔

پس اگر اس سوچ کے ساتھ آپ نے جماعتی نظام کو سمجھا ہے اور اس پر عمل کیاہے اور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا عہد کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے اُسوہ کو اپنے سامنے رکھا ہے۔اگر آپؐ کے اس ارشاد کو سامنے رکھا ہے کہ مومن ایک جسم کی مانند ہے اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو پھر پورے جسم کو تکلیف ہوتی ہے تو یقیناً آپ ایسی جماعت بن جائیں گے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔دشمن لاکھ آپ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے وہ خود تباہ و برباد ہو جائے گا۔

بنگلہ دیش کی جماعت کا ہر احمدی جانتا ہے اور اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ مخالفین نے جماعت کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کیا۔کیا مخالفین اپنے اس عمل میں کامیاب ہو گئے؟ گزشتہ بیس پچیس سال سے مخالفت اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔اس عرصہ میں دشمن نے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا کہ احمدیت کو ختم کرے ۔جماعت کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے اور نقصان پہنچایا۔جانوں کو نقصان پہنچایا۔لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ترقی کی منازل پر گامزن ہے اور ترقی کا قدم کبھی نہیں رکا۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم دنیا داروں کی نظر میں کمزور ہیں لیکن سب طاقتوں کے مالک خدانے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ’’ مَیں تیرے ساتھ اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں‘‘۔پس جس کے ساتھ خدا تعالیٰ ہو اس کو دنیاوالے کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔پس اپنے خدا، اپنے مولیٰ کی آغوش میں آنے کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیارے بننے کی کوشش کریں۔  ایسے پیارے بنیںجو اللہ تعالیٰ کی آغوش میں آنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اور اس کے معیار قائم کرنے والے بنیں۔ ایسا بنیں جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہنے والے ہیں۔ اور جب تک ہم اس سوچ اور اس عمل پر مستعد رہیں گے، دنیا کی کوئی طاقت ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتی۔یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جس کا اس نے قرآنِ کریم میں بھی ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے کہ بَلِ اللّٰہُ مَوْلٰکُمْ وَھُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْن َ(آل عمران151) بلکہ اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہ سب سے بہتر مدد کرنے والا ہے۔پس جس کے ساتھ خدا ہے اس کو فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی جماعت اس معاملے میں تجربہ کار ہے۔ دشمن کے غرور اور تکبر کو آپ نے خود ٹوٹتے دیکھا ہے۔ہر مرتبہ جماعت کو ختم کرنے کا زعم لے کر اٹھنے والے خود اپنی ناکامیوں کا منہ دیکھنے لگ گئے۔ کیا آپ اس کے گواہ نہیں کہ براہمن بڑیہ ضلع کی اور دوسری جگہوں کی کتنی مساجد پر حکومت کے تعاون سے مُلّاں نے قبضہ کیا۔کیا آپ اس بات کو نہیں جانتے کہ احمدیوں کو کاروباروں سے روکا گیا؟ ان کے راستے بند کئے گئے، کھانے پینے سے روکا گیا،انہیں محصور کیا گیا۔لیکن کیا اس سے جماعت کی ترقی رُک گئی؟ آپ تو اس بات پر خوش ہیں اور ہونا چاہئے کہ آپ کا محاصرہ کر کے دشمن نے آپ کو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر دشمنانِ اسلام کے کئے گئے اس ظالمانہ فعل سے ملانے کی کوشش کی ہے جب آپ کو شعبِ ابی طالب میں محصور کیا گیا تھا۔ آپ نے اس محاصرہ کی چاہے ہلکی سی جھلک مشاہدہ کی لیکن اُن برکات سے کچھ تو حصہ پا لیا جس کا کمال ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا۔ اور جہاں تک نقصان کا سوال ہے خدا تعالیٰ نے ظاہری طور پر بھی ان مساجد سے محروم نہیں کیابلکہ حکومت نے تو مُلّاںکی پشت پناہی کرتے ہوئے ہماری مساجد ان کے سپرد کر دی تھیں۔لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ان مساجد کے قریب بہتر مساجد بنانے کی توفیق عطا فرما دی۔ اور اب حال ہی میں اللہ تعالیٰ نے براہمن بڑیہ میں پرانی مسجد کے قریب جماعت کو ایک تین منزلہ نئی مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ دشمنوں نے جماعتی املاک کو نقصان پہنچایا۔ آگیں لگائیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بڑھ کر نوازا۔ یہ ہے نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ (الانفال:41) خدا کا کام۔اور صرف عمارتوں اور مساجد سے ہی اللہ تعالیٰ نے نہیں نوازا بلکہ باوجود ساری مخالفتوں کے ، باوجود ان نامساعد حالات کے سعید فطرت لوگوں کو جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بھی عطا فرمائی   ۔

بنگلہ دیش میں جماعت پر ظلموں کی داستان لمبی ہے۔ فصلیں جلائی گئیں۔شہید کئے گئے۔ اگر ان کو بیان کرنے لگوں تو کافی وقت لگ جائے گا۔ اور یہ سب کچھ پاکستان کے مُلّاؤں کے تربیت یافتہ مُلّاں اور پاکستان سے آئے ہوئے مُلّاؤں کے کہنے پر ہوا۔ اپنے ملک کو تو ان پاکستانی مُلّاؤں نے احمدیت کی دشمنی کر کے داؤ پر لگایا ہی ہواہے۔اب دنیا کے باقی مسلمان ممالک کے ساتھ بھی یہی سلوک کرنا چاہتے ہیںاور بنگلہ دیش بھی ان کے نزدیک آسان نشانہ ہے۔ لیکن بنگلہ دیش کے میڈیا اور پڑھے لکھے لوگوں میں اتنی شرافت ہے کہ جماعت پر کئے گئے ہر ظلم پر میڈیا نے آواز اٹھائی۔اور پڑھے لکھے لوگوں نے اور ججوں تک نے بھی آواز اٹھائی اور مُلّاںکو کامیاب نہیں ہونے دیا۔یہ ان کی شرافت ہے۔اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے۔ جب تک یہ شرافت قائم رہے گی اللہ تعالیٰ ملک کو شر پسندوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔مذہبی اختلاف اپنی جگہ لیکن جب انسانیت کے شرف کو ختم کیا جاتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی گرفت بھی آتی ہے۔کاش پاکستان کے گونگے شرفاء بھی بنگلہ دیش کے جرأتمند شرفاء سے سبق سیکھیں۔ میڈیا، بنگلہ دیش کے میڈیا سے سبق سیکھے اور اپنے ملک کی قسمت بدلنے کا ذریعہ بنیں، اس ملک کی قسمت جس کا مَیں بھی ایک فرد ہوں اور مجھے اس سے محبت ہے۔

 جیسا کہ مَیں نے شہداء کا ذکر کیا ہے۔ کھلنا میں ایک مسجد میںبم دھماکے کئے اور اس دھماکہ سے سات احمدی شہید ہوئے۔لیکن ان شہادتوں نے اور بعض اور انفرادی شہادتوں نے جماعت کے ایمانوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کمزور نہیں کیا۔ بلکہ بنگلہ دیش جماعت ایمان میں پہلے سے بڑھ کر ترقی کی منازل طے کرنے لگی۔ دشمن سمجھتا ہے کہ احمدیوں کو شہید کر کے انہیں ان کے دین سے پھیر دیں گے۔ لیکن نہیں جانتے کہ احمدیوں نے جان، مال اور وقت اور عزت کو قربان کرنے کا عہد کیا ہوا ہے۔پس یہ قربانیاں ،یہ تکلیفیں ،یہ شہادتیں تو احمدیوں کے ایمان میں ترقی کا باعث بنتی ہیں۔

پس اے بنگلہ دیش کے رہنے والے احمدیو!اس سوچ کو،اس جرأت مندانہ سوچ کو، اس اخلاص و وفا سے پُر سوچ کو ،خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی سوچ کو کبھی مرنے نہ دینا۔ یاد رکھیں یہ قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی۔ شہیدوں کا خون نہ پہلے رائیگاں گیا، نہ اب جائے گا۔ شہیدوں کے خون کا ہر قطرہ پھول پھل لائے گااور پھول پھل جائے گا ۔یہ مخالفت کی آندھیاں ہمیشہ اونچا اڑاتی ہیں۔جماعت پہلے سے بڑھ کر ترقی کرتی ہے۔ اور آج بھی انشاء اللہ کرے گی اور یہ ترقی انشاء اللہ جاری رہے گی اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ انہی لوگوں میں سے جن میں سے نکل کر آپ نے بھی اخلاص و وفا کے نمونے دکھائے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ لوگ دیکھیں گے کہ دشمنی کے زہر قطراتِ محبت بن کر ٹپکیں گے۔ لیکن یاد رکھیں کہ انقلاب ہمیشہ قربانیاں کرنے سے آتے ہیں۔محبت اور پیار سے اپنے اہلِ وطن کو صداقت کی طرف بلاتے رہیں۔ ظلم کبھی نہیں پنپتا۔محبت ہمیشہ جیتتی ہے۔صداقت کے سامنے جھوٹ خس و خاشاک کی طرح اڑ جاتا ہے۔

 پس ہمیشہ اپنے سچے جذبوں کو،اپنے محبت کے جذبوں کو زندہ رکھیں اور انہیں کبھی مرنے نہ دیں۔خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔پیار اور محبت کے پیغام کو اپنے ملک کے کونے کونے تک پھیلا دیں۔دعوتِ الی اللہ کے کام میںکمزوری کبھی نہ دکھائیں۔ اللہ تعالیٰ نے دعوتِ الی اللہ کو سب سے اچھی بات فرمایا ہے۔ دعوتِ الی اللہ کی وجہ سے مخالفین بھی سرگرم ہو ں گے۔دشمنیاں بڑھیں گی۔ لیکن آپ ہر سختی کا جواب نرمی سے دیں۔ ہر ظلم پر خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں۔ کیونکہ اصل طاقت تو خدا تعالیٰ ہے جو دلوں کو پھیرتا ہے۔ اگرخدا تعالیٰ کا پیار ہم حاصل کر لیں گے، اس کی رضا کی خاطر اس کے دین کو پھیلانے کی کوشش کریں گے، اپنے عمل اور اپنے قول کو خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھالیں گے تو دشمن ہزار زور لگا لے ہماری ترقی کی رفتار کو روک نہیں سکتا۔یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور مخالفین کی پھونکوں سے نہیں بجھتا۔جیسا کہ خودقرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہییُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤا نُوْرَاللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ(الصف:9) وہ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی اور نہ کبھی ہو گی۔وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ  (الصف:9)اللہ تعالیٰ تو ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے۔ وہ نور جو اس کی طرف سے آیا ہے اس کو انسانی کوششیں کس طرح بجھا سکتی ہیں؟۔

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ۔

 ’’منہ کی پھونکیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی کسی نے ٹھگ کہہ دیا۔ کسی نے دکاندار اور کافر و بے دین کہہ دیا۔ غرض یہ لوگ ایسی باتوں سے چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نور کو بجھا دیں مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ نور اللہ کو بجھاتے بجھاتے خود ہی جل کر ذلیل ہو جاتے ہیں‘‘۔(ملفوظات جلد اول صفحہ 428۔ جدید ایڈیشن) اس زمانہ میں بھی ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ کتنے فرعونوں کوہم نے اس زمانے میں بھی فنا ہوتے دیکھا ہے۔وہی لوگ جو بنگلہ دیش میں احمدیت کو ختم کرنے کے درپے تھے اور دنیاوی طاقت کو اپنا سب کچھ سمجھتے ہوئے اپنی فتح کے شادیانے بجاتے تھے وہ کہاں گئے وہ؟ ان لوگوں کی کرسیاںتو ختم ہو گئیں لیکن احمدیت کا قافلہ آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے رواں دواں ہے۔

پس یاد رکھیں الٰہی جماعتوں کے ساتھ مخالفتیں تو لگی ہوئی ہیںاور یہ مخالفتیں ان میں نئی روح پھونکنے کے لئے ہیں۔آئندہ بھی اگر احمدیت کے خلاف مخالفتیں شدت اختیار کریں گی تو انجام کار تباہ ہوں گی۔ہمارے مالی نقصان، ہماری شہادتیںنہ پہلے کبھی ہماری ترقی میں روک بنیں، نہ انشاء اللہ آئندہ بنیں گی۔ ہر ابتلا ایک نئی فتح کی خوشخبری لے کر آتا ہے۔

                پس اپنے آپ میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر جذب کریں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے نور کو اپنے اندر جذب کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا نورنورِ محمدیؐ سے ہی ہمیں ملنا ہے۔ اور اس زمانہ میں نورِ محمدیؐ کا ادراک ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے کروایا ہے۔ ہمارے دلوں میں عشقِ رسولِ عربی کو قائم رکھنے کے لئے نئے نئے طریقے سکھائے ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کے نور سے حصہ لینے کے اصول سکھائے ہیں۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام کا ایک ایک لفظ عشقِ رسول اور خدا تعالیٰ کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہی عشقِ رسول میں فنا ہونے کی وجہ سے خداتعالیٰ کے نور کے مظہر ہیں۔ پس کون ہے جو اس نور کو پھونکوں سے مٹا سکے؟

حضرت مسیح موعودؑ کو خود بھی خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ:۔ ’’یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤا نُوْرَاللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْ۔قُلِ اللّٰہُ حَافِظُہٗ۔عِنَایَتُ اللّٰہِ حَافِظُکَ۔مخالف لوگ ارادہ کریں گے کہ تا خدا کے نور کو بجھا دیں۔کہہ خدا اس نور کا آپ حافظ ہے ۔ عنایتِ الہٰیہ تیری نگہبان ہے‘‘۔

(براہین ا حمدیہ۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ 668-667۔ بقیہ حاشیہ در حاشیہ نمبر4)

 ہر احمدی گواہ ہے کہ ہر موقع پر مخالفتوں نے نئی نئی فتوحات کو جنم دیا ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدے کے مطابق آپ کے مشن کو آگے بڑھنے سے دشمن روک نہیں سکا۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نور کو اللہ تعالیٰ پھیلاتا ہی چلا جا رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ پھیلاتا چلا جائے گا۔ پس اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اگر ہم اس نور سے حصہ لیتے رہیں گے تو ہزار مخالفتیں بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اور جماعتِ احمدیہ کی ترقی کو نہیں روک سکتیں۔ پس پیار اور محبت سے اہلِ وطن کو زمانہ کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کا پیغام پہنچاتے چلے جائیں۔ اس نور سے حصہ لیتے ہوئے نفرتوں کو محبت میں بدلتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ آج نہیں تو کل انشاء اللہ تعالیٰ ضرور پورا ہو گا۔ احمدیت کے غلبہ کے نظارے دنیا دیکھے گی۔ اللہ تعالیٰ کی عنایات کے نظارے جو آج بھی نظر آ رہے ہیں یہ پہلے سے بڑھ کر نظر آئیں گے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں احمدیت کا یہ قافلہ آگے بڑھتا چلا جائے گا۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:۔

 ’’تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔ اگر تم صدق اور ایمان پر قائم رہو گے تو فرشتے تمہیں تعلیم دیں گے۔ اور آسمانی سکینت تم پر اترے گی۔ اور روح القدس سے مدد دئیے جاؤگے اور خدا ہر ایک قدم پر تمہارے ساتھ ہو گا۔ اور کوئی تم پر غالب نہیں ہو سکے گا۔خدا کے فضل کی صبر سے انتظار کرو۔ گالیاں سنو اور چپ رہو۔ماریں کھاؤ اورصبر کرو اور حتی المقدور بدی کے مقابلہ سے پرہیز کرو تا آسمان پر تمہاری قبولیت لکھی جاوے۔ یقیناً یاد رکھو کہ جو لوگ خدا سے ڈرتے ہیں اور دل ان کے خدا کے خوف سے پگھل جاتے ہیں اُنہیں کے ساتھ خدا ہوتا ہے۔ اور وہ ان کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے۔ دنیا صادق کو نہیں دیکھتی پر خدا جو علیم و خبیر ہے وہ صادق کو دیکھ لیتا ہے۔پس اپنے ہاتھ سے اس کو بچاتا ہے۔…… خدا خوب جانتا ہے کہ واقعی اس کا وفادار دوست کون ہے اور کون غدّار اور دنیا کو مقدم رکھنے والا ہے؟ سو تم اگر ایسے وفا دار ہو جاؤ گے تو تم میں اور تمہارے غیروں میں خدا کا ہاتھ ایک فرق قائم کر کے دکھلائے گا‘‘۔

(تذکرۃالشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 68)

پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

 ’’یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے…… ’’ کہ دنیا میں ایک نذیرآیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا۔‘‘جن لوگوں نے انکار کیااور جو انکار کے لئے مستعد ہیں ان کے لئے ذلّت اور خواری مقدر ہے۔انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر یہ انسان کا افترا ہوتا تو کب کا ضائع ہو جاتا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بیوقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرأت کسی کذّاب میں ہو سکتی ہے؟ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہی اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت ہو۔ اور یہ اُسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہان کامقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جائے۔ یقینا منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رُوسیاہ ہو گا۔ اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے‘‘۔

                                                            (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد5صفحہ349)

پس ان فتوحات کے نظارے دیکھنے کے لئے استقامت اور صبر سے اپنے فرائض ادا کرتے چلے جائیں۔ اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرتے چلے جائیں۔ اس جلسہ کے نیک اثرات کو ہمیشہ اپنے دلوں میں قائم رکھیں۔اپنی عملی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ڈھالتے ہوئے اس پر ہمیشہ قائم رہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور پہلے سے بڑھ کر فتوحات کے نظارے ہم اپنی زندگیوں میں دیکھیں۔اللہ تعالیٰ سب شاملینِ جلسہ کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور خیریت سے انہیں اپنے گھروں کوواپس لے جائے اور ہمیشہ اپنی تائید و نصرت کے نظارے دکھاتا رہے۔ اب دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں