خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز یکم اگست2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج کل جماعت احمدیہ کی مخالفت کا ایک اور دور بڑی شدت کے ساتھ جاری ہے لیکن اس کی ہمیں فکر نہیں کیونکہ الٰہی جماعتوں کی مخالفت جب شدت اختیار کرتی ہے تو فضل الٰہی بھی بڑھ کر برسناشروع ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء اور ان کی جماعتوں کی  یہی سنت بتائی ہے۔ فرمایا اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَ لَمَّا یَأۡتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرۃ:215)کیا تم سمجھتے ہو کہ باوجود اس کے کہ تم پر ان لوگوں کی سی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے تم جنت میں داخل کیے جاؤ گئے۔ پھر فرمایا مَسَّتْھُمُ الْبَاْئُ وَالضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا(البقرۃ:215)انہیں تنگی بھی پہنچی تکلیف بھی پہنچی، اور مخالفت کی شدت اس قدر تھی کہ وہ ہلا کر رکھ دیئے گئے۔

 اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں اور ان کی جماعت کو خود کھڑا کر کے پھر انہیں ضائع نہیں کرتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ مشکلات اور مصائب میں اس قدر ڈال دئیے جاتے ہیں کہ وہ ہل کر رہ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ ہے کہ مخالفین کی مخالفت مومنین کو اس کے حضور مزید جھکنے والا بنائے، ان کو دعاؤں کی طرف مزید توجہ پیدا ہو، ان کے خدا تعالیٰ سے تعلق میں مزید جلا پیدا ہو اور اس حالت میں اس شدت مخالفت اور تکلیف میں بھی وہ غیر اللہ کی طرف نہ جھکیں بلکہ خدا تعالیٰ کو ہی پکاریں اور مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرۃ:215)کی آواز ان کے دل کی گہرائیوں سے نکل کر عرش کو ہلا دے۔ اور پھر جب اللہ تعالیٰ کا جواب اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیۡب(البقرۃ:215)اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سنو تم اپنے دل میں تسلی پیدا کرواور اللہ کی مدد یقینا قریب ہے، تو ان کے دل تسلی پاتے ہیں۔ پس یہ جو تسلی اس غم اور تکلیف اور مخالفت کی شدت کے وقت میں ایک مومن سنتا ہے تو اس کے ایمان میں یہ اضافہ کا باعث بنتی ہے اور یہی نظارہ انشاء اللہ ہم دیکھیں گے اور یقینا دیکھیں گے او ریقینا دیکھیں گے۔ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ کی صدا تو ہم بلند کریں گے لیکن حضرت مسیح موعود ؑ کی دعاؤں اور صداقت پر کبھی دل میں شکوک پیدا نہیں ہونے دیںگے۔ مخالفین کے مختلف طریقوں سے حملوں کے دفاع کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے مد د مانگتے ہوئے تیاری تو کریں گے لیکن دشمن کے دجل اور خوف میں آکر کبھی اپنے ایمانوں میں کمزوری نہیں دکھائیں گے۔ جانی اور مالی نقصان بھی ہو سکتا ہے، دشمن نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرے گا ،کچھ حد تک کا میاب بھی ہو گا لیکن جماعت کا کچھ بھی نہیں بگا ڑ سکتا۔

 آج کل دشمن ایک یہ چال بڑی شدت سے چل رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کے حوالوں کو بغیر سیاق و سباق کے اور توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے اوراس پر اعتراض کیے جانے لگے ہیں تا کہ کم علم احمدی مسلمانوں کو بھی احمدیت سے پیچھے ہٹا یا جائے اور غیر احمدی مسلمانوں کے جذبات کو بھی انگیخت کر کے فتنہ کو ہوا دی جائے اور یہی ہمیشہ سے فتنہ پر دازوں اور معترضین کا شیوہ رہا ہے۔ اپنے زعم میں وہ یہ کوشش کرتے ہیں۔ بہر حال جب آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی نے نبوت کا مقام حاصل کرنا تھا تو جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے مخالفین اور مفاد پرستوں نے مخالفت میں بھی بڑھنا تھا۔ یہ لوگ ایسے ائمۃ الکفر ہیں جن کے بارہ میں خدا تعالیٰ فرماتاہے کہ اَلَّذِیْنَ خَسِرُوْااَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ(الانعام:13)یہ و ہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالا ہے اور یہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو ڈوبے ہی ہیں اور دوسروں کو بھی ڈبونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس یہ مخالفت تو حضرت مسیح موعود ؑ کی سچائی کا ثبوت ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کا کلام کہ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ  (الجمعہ :4)سچ ہے اور یقینا سچ ہے۔ زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے کلام کو کبھی نہیں ٹالا جاسکتا تو پھر اس آیت کا مصداق بنتے ہوئے آنے والے مسیح موعود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبوت کا اعزاز پانے کے بعد ایسی مخالفت کا سامنا کرنا تھا اور کیا اور آپ کی جماعت آج تک کر رہی ہے اور یہی مومنین کی جماعت سے روا رکھا جاتا ہے۔ لیکن ہر مخالفت ،دشمن کا ہر حربہ باد مخالف کی طرح جماعت کی ترقی کو نئی بلندیوں کی طرف لے جاتی ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا آج بھی مخالفین جن میں نام نہاد علماء اور مولوی شامل ہیں اپنے زعم میں مخالفت کے تیر چلا رہے ہیں اور تمام تر الیکٹرونک میڈیا اور پریس کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ ایک تو غلط حوالے دے کر احمدی نوجوان نسل اور نومبائعین جن کو ابھی پوری طرح علم نہیں ہوتا ان کے خیال میں وہ کمزور ہیں ان کواپنے زعم میں احمدیت سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ لیکن نہیں جانتے کہ جو کمزور ترین احمدی بھی ہے وہ بھی احمدیت پر قائم ہے اور صدق دل سے حضرت مسیح موعود ؑ کے دعاوی پر ایمان رکھتا ہے۔ اسی طرح نومبائعین ہیں جنہوں نے صدق دل سے آپ کے دعویٰ کوسمجھ کر اسے قبول کیا ہے اور بیعت میں شامل ہوئے ہیں۔ بہرحال یہ مخالفین کی کوششیں ہیں جو وہ اپنی طرف سے کر رہے ہیں۔ یہ ان کا وہم ہے کہ وہ کسی کو بھی ایمان سے پھر اسکیں گے۔اور یہ کمزور ترین احمدی پر بھی بد ظنی ہے اور اس میں انشاء اللہ تعالیٰ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ بلکہ جیسا کہ میںکئی مرتبہ گزشتہ دنوںمیں بھی بیان کر چکا ہوں کہ لاہور کی شہادتوں کہ بعد نوجوانوں اور نومبائعین کو پہلے سے زیادہ ایمان اور یقین کا ادراک ہوا ہے، ان میں ایمان اور یقین پید اہو ا ہے۔ دوسرے وہ لوگ جو جماعت کے قریب ہیں، جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں مخالفین کی کوشش ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کے غلط حوالے دے کر ان میں تنّفر پیدا کیا جائے۔

ا س حوالے سے مَیں آج حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی مختلف کتب میں اپنی صداقت کے جو ثبوت دیئے ہیں وہ چند ایک حوالے آپ کے سامنے رکھوں گا ۔جن سے ہر صاحب عقل اور صاحب فراست جو صاف دل ہو کر ان کو دیکھے گا، سنے گا، پڑھے گا اسے پتہ چل جائے گا کہ کس طرح آپ نے اپنی صداقت کے ثبوت مہیا فرمائے ہیں اور قرآن حدیث، زمینی اور آسمانی نشانات اور ائمہ سلف نے آپ کے دعویٰ کی تصدیق کی ہے اور تائید ات کا یہ سلسلہ آج تک جاری ہے اور اللہ تعالیٰ سعید روحوں کی رہنمائی کرتا چلا جارہا ہے۔ پس ایک حقیقی مسلمان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرستادے کی باتوں کو غور سے سنیں، سمجھیں اور پرکھیں۔ نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر اپنے ایمان اوراپنی عاقبت کو خراب کرنے کی بجائے آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کے مددگار بنیں۔ آپ نے اپنی صداقت کے بیشمار ثبوت مہیا فرمائے ہیں اور آپ کی کتب اگرسیاق و سباق کے ساتھ پڑھی جائیں یعنی مکمل پڑھی جائیں یا کم از کم حوالے کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھا جائے تو ہر پڑھنے والے کو جو ثبوت ہیں ان کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ نظر آئے گا۔ یہاں یہ تفصیل تو بیان نہیں ہو سکتی لیکن چند حوالے میں نے لیے ہیں، جیسا کے میں نے کہا، جو آپ کی صداقت کی خوبصورت تصویر پیش کرتے ہیں اور ان کو ترتیب دیتے ہوئے مجھے ہوسکتا ہے کہ وقت زیادہ لگ جائے کیونکہ میں نے حوالے جو نکالے تھے ان میں سے کافی نکالنے کے باوجود بھی کافی مواد ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ: ’’ خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے جس کا نام اسلام رکھا ہے۔ پھر نعمت میں جمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتمام نعمت ہو ا یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر اتمام نعمت جو لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (الصف:10)کی صورت میں ہو گا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہو گا۔ وہ جمعہ اب آگیا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعود کے ساتھ مخصوص رکھا ہے۔ اس لیے کہ اتمام نعمت کی صورتیں دراصل دو ہیں۔ اول تکمیل ہدایت۔ دوم تکمیل اشاعت ہدایت۔ اب تم غور کر کے دیکھو۔ تکمیل ہدایت تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کامل طور پر ہوچکی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا تھاکہ تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بروزی رنگ میں ظہور فرماویںاور وہ زمانہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ ہے یہی وجہ ہے کہ  لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ (الصف:10) اس شان میں فرمایا گیا ہے۔ تمام مفسّرین نے بالاتفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے۔ در حقیقت اظہار دین اسی وقت ہو سکتا ہے جب کل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعت مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیںاور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آ گیا ہے۔ چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولیتں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ ڈاکخانوں کے ذریعہ سے کُل دنیا میں تبلیغ ہو سکتی ہے۔ اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے۔ ریلوں کے ذریعہ سفر آسان کر دیئے گئے ہیں۔ غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہو تی جاتی ہیں اُسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہارِ دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔ اس لیے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے  لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ کہہ کر فرمائی تھی یہ وہی زمانہ ہے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ (المائدہ:4)کی شان کو بلند کرنے والااور تکمیل اشاعت ہدایت کی صورت میں دوبارہ اتمام نعمت کا زمانہ ہے۔ اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے اتمام نعمت کا وقت آپہنچا ہے لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں۔ مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تّجلی فرمائے گا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھا دے گاکہ اس کا نذیر سچا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ134،135جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

                فرمایا:  ’’احادیث نبویہ میں صراحت سے لکھا گیا ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہوگا۔ جیسا کے موسیٰ کے سلسلہ کا مسیح اسی قوم میںسے تھا نہ کہ آسمان سے آیا تھا۔پس اس تفریط اورافراط کو دور کرنے کے لیے خدا نے یہ سلسلہ زمین پر قائم کیا جو بباعث اپنے سچائی اور خوبصورتی اور اعتدال کے ہر ایک اہل دل کو پسند آتا ہے۔ غرض یہ پیشگوئی کے ایک گروہ پرانے مسلمانوں میں سے اس سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گا اور ایک گروہ نئے مسلمانوں میں سے یعنی یورپ اور امریکہ اور دیگر کفار کی قوموں میں سے اس سلسلہ کے اندر اپنے تئیںلائے گا پچیس برس بعد اس زمانہ سے کہ جب خبر دی گئی پوری ہوئی‘‘۔جب آپ لکھ رہے ہیں اس کے پچیس برس بعد لکھ رہے ہیں۔ فرمارہے ہیں کہ ’’ یاد رکھو کہ جیسا کہ ہم ابھی لکھ چکے ہیں عربی زبان میں اس پیشگوئی کے یہ لفظ ہیں جو وحی الٰہی نے میرے پر ظاہر کیے جو براہین احمدیہ میں حصص سابقہ میں آج سے پچیس برس پہلے شائع ہو چکے ہیں  ثُلَّۃٌ مِّنَ الْاَوَّلِیْنَ وَثُلَّۃٌ مِّنَ الْاٰخِرِیْنَ یعنی اس سلسلہ میں داخل ہونے والے دو فریق ہوں گے۔ ایک پرانے مسلمان جن کا نام اوّلین رکھا گیا جو اَب تک‘‘ (اس وقت تک جب آپ نے یہ لکھا تھا۔ فرمایا کہ )’’تین لاکھ کے قریب اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیں‘‘ (اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کروڑوں میں داخل ہو چکے ہیں)’’ اور دوسرے نئے مسلمان جو دوسری قوموں میںسے اسلام میں داخل ہوںگے یعنی ہندوؤں اور سکھوں اور یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں میں سے اور وہ بھی ایک گروہ اس سلسلہ میں داخل ہو چکا ہے اور ہوتے جاتے ہیں۔ اسی زمانہ کے بارے میں جو میر ازمانہ ہے خداتعالیٰ قرآن شریف میں خبر دیتا ہے جس کا خلاصہ ترجمہ یہ ہے کہ آخری دنوں میں طرح طرح کے مذاہب پیدا ہو جائیں گے اور ایک مذہب دوسرے مذہب پر حملہ کرے گاجیسا کہ ایک موج دوسری موج پر پڑتی ہے۔ یعنی تعصب بہت بڑھ جائے گا اور لوگ طلب حق کو چھوڑ کر خواہ نخواہ اپنے مذاہب کی حمایت کریں گے اور کینے اور تعصب ایسے حد اعتدال سے گزر جائیں گے کہ ایک قوم دوسری قوم کو نگل لینا چاہے گی۔ تب انہیں دنوں میں آسمان سے ایک فرقہ کی بنیاد ڈالی جائے گی اور خدا اپنے منہ سے اس فرقہ کی حمایت  کے لیے ایک قرنا بجائے گا اور اس قرنا کی آواز سے ہر ایک سعید اس فرقہ کی طرف کھچا آئے گا۔ بجز ان لوگوں کے جو شقیّ ازلی ہیں جو دوزخ کے بھرنے کے لیے پیدا کیے گے ہیں‘‘

               آپ فرماتے ہیں کہ’’ قرآن شریف کے اس میں الفاظ یہ ہیں وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَجَمَعْنَاھُمْ جَمْعًا (الکہف:100) اور یہ بات کہ وہ نفخ کیا ہو گا؟اور اس کی کیفیت کیا ہوگی؟ اس کی تفصیل وقتاً فوقتاًخود ظاہر ہوتی جائے گی۔ مجملاً صرف اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ استعدادوں کو جنبش دینے کے لیے کچھ آسمانی کارروائی ظہور میں آئے گی اور ہولناک نشان ظاہر ہوں گے۔ تب سعید لوگ جاگ اٹھیں گے کہ یہ کیا ہو اچاہتا ہے۔ کیا یہ وہی زمانہ نہیں جو قریب قیامت ہے جس کی نبیوں نے خبر دی ہے۔ اور کیا یہ وہی انسا ن نہیں جس کی نسبت اطلاع دی گئی تھی کہ اس اُمّت میں سے وہ مسیح ہو کر آئے گاجو عیسیٰ بن مریم کہلائے گا۔ تب جس کے دل میں ایک ذرا بھی سعادت اور رُشد کا مادہ ہے خدا تعالیٰ کے غضبناک نشانوں کو دیکھ کر ڈرے گااور طاقت بالا اس کو کھینچ کر حق کی طرف لے آئے گی۔ اور اس کے تمام تعصّب اور کینے یوں جل جائیں گے جیسا کہ ایک خشک تنکا بھڑکتی ہوئی آگ میں پڑ کربھسم ہو جاتا ہے۔ غرض اس وقت ہر ایک رشید خدا کی آواز سن لے گااور اس کی طرف کھینچا جائے گا اور دیکھ لے گا کہ اب زمین اور آسمان دوسرے رنگ میں ہیں‘‘۔

 (براہین احمدیہ حصہ پنجم۔ روحانی خزائن جلد21صفحہ108،109)

               پھر آپ براہین احمدیہ کا ایک جگہ حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’ میری نسبت یہ الہام ہے جس کے شائع کرنے پر بیس برس گزر گئے اور وہ یہ ہے فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔ یعنی ان مخالفین کو کہہ دے کہ مَیں چالیس برس تک تم میں ہی رہتا رہا ہوںاوراس مدت دراز تک تم مجھے دیکھتے رہے ہوکہ میرا کا م افتراء اور دروغ نہیں ہے اور خدا نے ناپاکی کی زندگی سے مجھے محفوظ رکھا ہے۔ تو پھر جو شخص اس مدّت دراز تک یعنی چالیس برس تک ہر ایک افتراء اور شرارت اور مکر اور خباثت سے محفوظ رہا اور کبھی اس نے خلقت پر جھوٹ نہ بولا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ برخلاف اپنی عادت قدیم کے اب وہ خدا تعالیٰ پر افتراء کرنے لگا‘‘۔       (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ 283)

                اپنے بعض الہاموں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’ ان الہامات میں چار عظیم الشان پیشگوئیوں کا ذکر ہے (1) ایک یہ کہ خدا تعالیٰ ایسے وقت مَیں کہ جب میں اکیلا تھا اور کوئی میرے ساتھ نہ تھا اُس زمانہ میں جس کو اب قریباً تئیس سا ل گزر چکے ہیں مجھے خوشخبری دیتا ہے کہ تو اکیلا نہیں رہے گااور وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ تیرے ساتھ فوج در فوج لوگ ہو جائیں اور وہ دور دور راہوں سے تیرے پاس آئیں گے اور اس قدر کثرت سے آئیں گے کہ قریب ہے کہ تو ان سے تھک جائے یا بد اخلاقی کرے۔ مگر تو ایسا نہ کر (2)دوسری یہ پیشگوئی ہے کہ ان لوگوں سے بہت سی مالی مدد ملے گی۔ ان پیشگوئیوں کے بارے میں ایک دنیا گواہ ہے کہ جب یہ پیشگوئیاںبراہین احمدیہ میں لکھی گئیں تب مَیں ایک تنہا آدمی گمنامی کی حالت میں قادیان میںجو ایک ویران گاؤں ہے پڑا تھا۔مگر بعد اس کے ابھی دس برس گزرنے نہیں پائے تھے کہ خدا تعالیٰ کے الہام کے موافق لوگوں کا رجوع ہو گیا اور اپنے مالوں کے ذریعہ سے لوگ مدد بھی کرنے لگے…۔‘‘

                فرمایا : ’’ تیسری پیشگوئی یہ ہے کہ لوگ کوشش کریں گے کہ اس سلسلہ کو معدوم کر دیں اور اس نور کو بجھا دیں مگر وہ اس کوشش میں نا مراد رہیں گے۔ اب اگر کوئی شخص صریح بے ایمانی اختیار کرے تو اس کو کون روک سکتا ہے۔ ورنہ یہ تینوں پیشگوئیاں آفتاب کی طرح چمک رہی ہیں۔ ظاہرہے کہ ایسے زمانے میں جب کہ ایک شخص گمنامی کی حالت میں پڑا ہے اور تنہا اور بے کس ہے اور کوئی ایسی علامت موجود نہیں ہے کہ وہ لاکھوں انسانوں کا سردار بنایا جائے اور نہ کوئی یہ علامت موجود ہے کہ لوگ ہزار ہا روپے اس کی خدمت میں پیش کریں۔ پھر ایسی حالت میں ایسے شخص کی نسبت اس قدر اقبال اور نصر ت الٰہی کی پیشگوئی اگر صرف عقل اور اٹکل کے ذریعہ سے ہو سکتی ہے تو منکر کو چاہیے کہ نام لے کر اس کی نظیر پیش کرے۔ بالخصوص جب کہ ان دونوں پیشگوئیوں کو اس تیسری پیشگوئی کے ساتھ ہی رکھا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ بہت کوشش کریں گے کہ یہ پیشگوئیاں پوری نہ ہوں لیکن خدا پوری کرے گا۔ تو بالضرورت ان تینوں پیشگوئیوں کویکجائی نظر کے ساتھ دیکھنے سے ماننا پڑے گا کہ یہ انسان کا کام نہیں ہے۔ انسان تو یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ اتنی مدّت تک زندہ بھی رہ سکے۔ پھر چوتھی پیشگوئی ان الہامات میں یہ ہے کہ ان دنوں میں اس سلسلے کے دو مرید شہید کیے جائیں گے‘‘

(لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد 20صفحہ نمبر191۔192)

                چنانچہ شیخ عبدالرحمن صاحب کا ذکر کیا ہے کہ وہ امیر عبدالرحمن والی کابل کے حکم سے شہید کیے گئے اور صاحبزادہ عبدالطیف صاحب شہید کیے گئے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بھی اور حضرت مسیح موعود ؑ کی یہ فکر کہ یہ دو شہید ہوئے ہیں آئندہ جماعت کا کیا حال ہوگا اس کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کس شان سے پوری ہوتی جارہی ہے اور آج تک شہداء احمدیت کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ان پیشگوئیوں کو اگر آپ دیکھیں آج جماعت کی تعداد کروڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ اگر کسی کی دیکھنے کی نظر ہو تو یہی بہت بڑا صداقت کا ثبوت ہے۔ کل ہی ہم نے دیکھا ہے جو رپورٹ میں نے دی تھی اورآج ہم نے عالمی بیعت کا نظارہ دیکھا ہے۔ یہی بات ہی منکرین جماعت کے لیے ایک صداقت کا ثبوت ہو نی چاہیے۔ دنیا کے 198ممالک میں احمدیت کا پودا لگ گیا ہے۔ ایک چھوٹی سی جگہ قادیان سے ایک شخص کا دعویٰ ہے۔ کیا خدائی مدد کے علاوہ یہ کام ہو سکتا ہے؟ قطعاً نہیں ہو سکتا۔ مخالفت بھی ہر جگہ ہو رہی ہے۔ حکومتوں کی مخالفتیں بھی جاری ہیں۔ تشدد پسند گروہوں کی مخالفتیں بھی جاری ہیں۔ کیا اب بھی یقین نہیں کہ یہ الٰہی سلسلہ ہے۔ ان لوگوںکو خدا کا خوف کرنا چاہیے خدا سے جنگ نہ کریں کہ خدا سے لڑنے والے مٹا دیئے جاتے ہیں۔ پس ہم نے تو اگرکوئی ہتھیار ان سارے حملوں کے خلاف استعمال کرنا ہے، ان ساری تدبیروں کے خلاف استعمال کرنا ہے تو وہ دعا کا ہتھیار ہے اور جب تک ہم یہ ہتھیار استعمال کرتے چلے جائیں گے انشاء اللہ کوئی دشمن، کوئی طاقت جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی۔

                پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’ اور ہزار ہا ایسے لوگ ہیں کہ محض خوابوں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے میرا سچا ہونا ان پر ظاہرکر دیا۔ غرض یہ نشان اس قدرکھلے کھلے ہیں کہ اگر ان کو یکجائی نظر سے دیکھا جائے تو انسان کو بجز ماننے کے بَن نہیں پڑتا۔‘‘                                          (لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد نمبر20صفحہ نمبر194)

               آج بھی ہم دیکھتے ہیںاور ہر سال دیکھتے ہیں کہ خوابوں کے ذریعہ سے بے شمار لوگ احمدی ہوتے ہیں۔ کل میں نے چندواقعات بیان کیے تھے ایک دو اس زمانے میں بھی بیان کر دیتا ہوں کہ آج کل بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات کس طرح حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ ہیں۔

               الجزائرکی ایک فیملی نے ایم ٹی اے کے ذریعہ اپنے ایک چودہ سالہ بچے کے ذریعہ بیعت کی تھی ۔اور جب میں اٹلی گیا ہو ں وہاں مجھے یہ فیملی ملی بھی تھی۔ انہوں نے اپنے بچے کی خواب سنائی کہ ان کے بیٹے کو کینسر تھا۔ ایک دن اس نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے اتر رہے ہیں۔ تب دوسرے دن اس نے اپنے والدصاحب کو بتایا پر انہوں نے اس کی بات کوزیادہ اہمیت نہیں دی ۔ کچھ ہی دن بعد وہ ڈش انٹینا پر ٹی وی دیکھ رہا تھا ریموٹ سے چینل تبدیل کر رہا تھا اچانک ایم ٹی اے نظر آیا اور حضرت مسیح موعود ؑ کی تصویر دیکھتے ہی بچے نے کہا یہ تو وہی شکل ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کی جو میں نے خواب میں دیکھی تھی۔ تب اس کے والد نے کہا کہ اس کو دیکھنا چاہیے۔ اس کے بعد پھر انہوں نے عربی پروگرام دیکھنا شروع کیا اور پھر سارے خاندان نے بیعت کر لی اور اس بچے کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس سارے خاندان کی ہدایت کا ذریعہ پیدا کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بچے کو کینسر سے شفا بھی ہو گئی۔

                پھر شبان تہامی صاحب ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ماہ اگست میںنماز تہجد کے بعدنماز فجر کا انتظار کر رہا تھا کہ نیند آگئی۔ خواب میں دیکھا کہ ایک منادی بلند مگر خوبصورت او رمیٹھی آواز میں کہہ رہا تھا اے اللہ کے بندو، اٹھو اور نبی کا استقبال کرو۔ اس وقت میں نے پاکستانی کپڑوں سے ملتے جلتے اچھے کپڑے پہنے تھے جو میں نے پہلے کبھی نہیں پہنے تھے۔ کہتے ہیں اس وقت خواب میں باہر نکلا تو دائیں بائیں حد نظر تک پھیلا ہوا ہجوم دیکھاجہاں لوگ قطاروں میں کھڑے تھے ۔ان میں سبز لباس پہنے ہوئے بچے بھی تھے۔ آسمان کا رنگ اس قدر نیلا تھا کہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بہت سے ایسے پرندے بھی دیکھے جو پہلے نہ دیکھے تھے۔ ان کی چونچیں لمبی تھیں۔ وہ ہمارے اوپر اڑتے تھے۔ چونچوں سے پانی کے قطرے ہم پر گرتے تھے جن سے پیاسے اپنی پیاس اور بھوکے اپنی بھوک مٹاتے۔ ہم ایسے راستے پر چل رہے تھے جس کے آخر پر خانہ کعبہ تھا جس پر نیا غلاف چڑھایا گیا تھا اور چاند بھی اس پر اپنی خوبصورت روشنی ڈال رہا تھا۔ قافلہ کے شروع میں ایک شخص اونٹنی پر سوار تھا جس کے ہاتھ میں سوٹی اور کندھوں پر چادر رکھی تھی۔ اونٹنی کے پیچھے گھوڑوں کی ایک قطار تھی جن پر خوبرو لوگ تھے جن میں سے صرف ایک شخص کو پہچان سکا جو کہ خلیفہ رابع تھے۔ اونٹنی سوار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے جنہیں سب لوگ پہچان رہے تھے اور حضور کو ہاتھ ہلا کر سلام کر رہے تھے۔ بعض کہہ رہے تھے کہ یہ موسیٰ  ؑ ہیں اور ان کا عصا موسیٰ یا حضرت شعیب کے عصا جیسا ہے۔ بعض نے کہا کہ عیسیٰ ہیں۔ بعض نے کہا کہ وہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہیں۔اس پر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اور ظل ہوں۔ تب مختلف جہات سے لا الٰہ اللّٰہ اور بعض دیگر آیات قرآنیہ پر مشتمل نعرے بلند ہونے لگے یہاں تک کہ خود میں نے اپنی آواز سوتے میں سنی بلکہ اپنی آواز سن کر اٹھ گیا۔

                پھر احمد باکیر صاحب لکھتے ہیں کہ میں بچپن میں ایک امام مسجد سے قرآن کریم حفظ کیا کرتا تھا۔ لیکن جب اس امام صاحب میں جھوٹ اور نفاق دیکھا توا س کے پاس جانا چھوڑ دیا بلکہ مسجد اور نماز بھی چھوڑ دی۔ بعد میں ایک دوست باسل الخیمی صاحب کی تحریک پر میں نے دوبارہ نمازیں شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے رؤیا اور کشوف کا دروازہ کھول دیا۔ ایک رات خواب میںکہا گیا کہ مجھے محلّے کی مسجد میں جانے کی بجائے گھر پر نماز پڑھنی چاہیے۔ ہم بعض دوست مل کر نماز پڑھنے لگے او رنمازوں کی لذت حاصل ہو نے لگی۔ پھر جب جماعت سے تعارف ہوا تو اس بارے میں استخارہ کیا تو ایک بارخواب میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے اپنی کتاب مواہب الرحمن دی۔ اس کو پڑھنے سے مجھے شرح صدر حاصل ہوا۔ پھر ایک بار کشف میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جماعت کے ساتھ تشریف لائے تو ایک وہابی مولوی آپ پر اعتراض کرنے لگا۔ آپ مسکراتے رہے۔ پھر آواز آئی کہ اس مولوی کو دور کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد وہ مولوی غائب ہو گیا ۔اس کشف کے بعد میرے تمام شکوک و شبہات دور ہو گئے اور بیعت کی توفیق ملی ۔الحمدللہ

               حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ: ’’کسی شخص کے دعویٰ نبوت پرسب سے پہلے زمانہ کی ضرورت دیکھی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ وہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی سوچا جاتا ہے کہ خدا نے اس کی تائید کی ہے یا نہیں۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہو تا ہے کہ دشمنوں نے جو اعتراض اٹھائے ہیں ان اعتراضات کا پورا پورا جواب دیا گیا ہے یا نہیں۔ جب یہ تما م باتیں پوری ہو جائیں تو مان لیا جائے گا کہ وہ انسان سچا ہے ورنہ نہیں۔

                اب صاف ظاہر ہے کہ زمانہ اپنی زبان حال سے فریاد کر رہا ہے کہ اس وقت اسلامی تفرقہ کے دور کرنے کے لیے اور بیرونی حملوں سے اسلام کو بچانے کے لیے اور دنیا میں گمشدہ روحانیت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے بلا شبہ ایک آسمانی مصلح کی ضرورت ہے جو دوبارہ یقین بخش کر ایمان کی جڑھوں کو پانی دیوے……‘‘۔

                اور یہ بات آج کل کے مسلمان بھی تسلیم کر رہے ہیں۔ اخباروں میں بھی لکھ رہے ہیں، کالموں میں بھی لکھ رہے ہیں اور میٹنگوں میں بھی کہاجاتا ہے کہ ہمیں اگر ایک ہونا ہے، اسلام کی ترقی ہو نی ہے تو ہمیں خلافت کی ضرورت ہے۔ ایک مصلح کی ضرورت ہے لیکن جو مصلح اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔

                فرمایا : ’’……اور اس طرح پربدی اور گناہ سے چھڑا کر نیکی اور راستی کی طرف رجوع دیوے۔ سو عین ضرورت کے وقت میں میرا آنا ایساظاہر ہے کہ مَیں خیال نہیں کر سکتا کہ بجز سخت متعصب کے کوئی اس سے انکار کر سکے ۔

               اور دوسری شرط یعنی یہ دیکھنا کہ نبیوں کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہے یا نہیں۔ یہ شرط بھی میرے آنے پر پوری ہو گئی ہے۔ کیونکہ نبیوں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ جب چھٹا ہزار ختم ہونے کو ہو گا تب وہ مسیح موعود ظاہر ہو گا۔ جو قمری حساب کے رُو سے چھٹا ہزار جو حضرت آدم ؑ کے ظہور کے وقت سے لیا جاتا ہے مدت ہو ئی جو ختم ہو چکا ہے اور شمسی حساب کے روسے چھٹا ہزار ختم ہونے کو ہے۔ ما سوا اس کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ہر ایک صدی کے سر پر ایک مجدد آئے گا جو دین کو تازہ کرے گااور اب اس چودھویں صدی میں سے اکیس سال گزرہی چکے ہیں اور بائیسواں گزر رہا ہے۔ اب  کیا یہ اس بات کا نشان نہیں کہ وہ مجدد آ گیا۔

                اور تیسری شرط یہ تھی کہ کیا خدا نے اس کی تائید بھی کی ہے یا نہیں۔سواس شرط کا مجھ میں پایا جانا بھی ظاہر ہے۔ کیونکہ اس ملک کی ہر ایک قوم کے بعض دشمنوں نے مجھے نابود کرنا چاہااور ناخنوں تک زور لگا یا اور بہت کوششیں کیں لیکن وہ اپنی تمام کوششوں میں نامراد رہے۔ کسی قوم کو یہ فخر نصیب نہ ہوا کہ وہ کہہ سکے کہ ہم میں سے کسی شخص نے اس شخص کے تباہ کرنے کے لیے کسی قسم کی کوششیں نہیں کیں اور ان کی کوششوں کے برخلاف خدا نے مجھے عزت دی اور ہزار ہا لوگوں کو میرے تابع کر دیا۔ پس اگر یہ خدا کی تائید نہیں تھی تو اور کیا تھا۔ کس کو معلوم نہیں کہ سب قوموں نے اپنے اپنے طور پر زور لگا ئے کہ تا مجھے نابود کر دیں مگر میں ان کی کوششوں سے نابود نہ ہو سکا۔ بلکہ مَیں دن بدن بڑھتا گیا ……‘‘۔

                اور آج آپ لوگوں کی حاضری اس بات کی گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام یقینا خداکے فرستادہ اور اس کے بھیجے ہوئے ہیں ۔

               آپ فرماتے ہیں:  ’’……پس اگر خدا کا ایک پوشیدہ ہاتھ میرے ساتھ نہ ہوتااور اگر میرا کاروبار محض انسانی منصوبہ ہوتا تو ان مختلف تیروں میں سے کسی تیر کا مَیں ضرورنشانہ بن جاتا اور کبھی کا تباہ ہوا ہوتا۔ اور آج میری قبر کا بھی نشان نہ ہوتا۔ کیونکہ جو خدا پر جھوٹ باندھتا ہے اُس کے مارنے کے لیے کئی راہیں نکل آتی ہیں۔ وجہ یہ کہ خدا خود ا س کا دشمن ہوتا ہے۔ مگر خدا نے ان لوگوںکے تما م منصوبوں سے مجھے بچا لیا جیسا کہ اس نے چوبیس برس پہلے خبر دی تھی۔ ما سوا اس کے یہ کیسی کھلی کھلی تائید ہے کہ خدا نے میری تنہائی اور گمنامی کے زمانہ میں کھلے لفظوں میں براہین احمدیہ میں مجھے خبر دے دی کہ میں تجھے مدد دوں گا اور ایک کثیر جماعت تیرے ساتھ کر دوں گا اور مزاحمت کرنے والوں کو نامراد رکھوں گا۔ پس ایک صاف دل لے کر سوچو کہ یہ کس قدر نمایا ں تائید ہے اور کیسا کھلا کھلا نشان ہے۔ کیا آسمان کے نیچے ایسی قدرت کسی انسان کوہے یا کسی شیطان کو کہ ایک گمنامی کے وقت میںایسی خبر دے اور وہ پوری ہو جاوے اور ہزاروں دشمن اٹھیں مگر کوئی اس خبر کو روک نہ سکے۔

                پھر چوتھی یہ شرط تھی کہ مخالفوں نے جو اعتراض اٹھائے ان اعتراضات کا پورا پوراجواب دیا گیا یانہیں۔ یہ شرط بھی صفائی سے طے ہو چکی کیونکہ مخالفوں کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ مسیح موعود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں وہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے۔ پس ان کو جواب دیا گیا کہ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ  ؑفوت ہو چکے ہیں اورپھر دوبارہ دنیا میں ہر گز نہیں آئیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ انہیں کی زبان سے فرماتا ہے فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ (المائدہ:118)پہلی آیتوں کو ساتھ ملا کر ترجمہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ قیامت کو حضرت عیسیٰ ؑ سے پوچھے گا کہ کیا تو نے ہی یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے ماننا اور ہماری پرستش کر نا۔ اور وہ جواب دیں گے کہ اے میرے خدا !اگر میں نے ایسا کہا ہے تو تجھے معلوم ہوگا کیونکہ تو عالم الغیب ہے۔ میں نے تو وہی باتیں ان کو کہیں جو تو نے مجھے فرمائیں۔ یعنی یہ کہ خدا کو وحد ہ لاشریک اور مجھے اس کا رسول مانو۔میں اُس وقت تک اُن کے حالات کا علم رکھتا تھا جب تک کہ میں اُن میں تھا۔ پھر جب تو نے مجھے وفات دے دی تو تُو ان پر گواہ تھا۔ مجھے کیا خبر ہے کہ میرے بعد انہوں نے کیا کیا۔ اب ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ جواب دیں گے کہ جب تک میں زندہ تھا عیسائی لوگ بگڑے نہیں تھے اور جب مَیں مرگیا تو مجھے خبر نہیں کہ ان کا کیا حال ہوا۔پس اگر مان لیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک زندہ ہیں تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ عیسائی بھی اب تک بگڑے نہیں اور سچے مذہب پر قائم ہیں۔ پھر ماسوا اس کے اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی وفات کے بعد اپنی بے خبری ظاہر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے میرے خدا! جب تو نے مجھے وفات دے دی اس وقت سے مجھے اپنی امت کا کچھ حال معلوم نہیں۔ پس اگر یہ بات صحیح مانی جائے کہ وہ قیامت سے پہلے دنیا میں آئیں گے اور مہدی کے ساتھ مل کر کافروں سے لڑائیاںکریں گے تو نعوذ باللہ قرآن شریف کی یہ آیت غلط ٹھہرتی ہے اور یا یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے جھوٹ بولیں گے اور اس بات کو چھپائیں گے کہ وہ دوبارہ دنیا میں آئے تھے اور چالیس برس تک رہے تھے اور مہدی کے ساتھ مل کر عیسائیوں سے لڑائیاں کی تھیں۔پس اگر کوئی قرآن شریف پر ایمان لانے والا ہو تو فقط اس ایک ہی آیت سے تمام وہ منصو بہ باطل ثابت ہوتا ہے جس میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مہدی خونی پیدا ہو گا اور عیسیٰ اس کی مدد کے لیے آسمان سے آئے گا۔ بلاشبہ وہ شخص قرآن شریف کو چھوڑتا ہے جو ایسا اعتقاد رکھتا ہے۔ پھر جب ہمارے مخالف ہر ایک بات میں مغلوب ہو جاتے ہیں تو آخر کار یہ کہتے ہیں کہ بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئیںجیسے کہ آتھم کی پیشگوئی۔ مَیں کہتا ہوں کہ اب آتھم کہاں ہے؟ اس پیشگوئی کا تو ماحصل یہ تھا کہ جو شخص جھوٹا ہے وہ سچے کی زندگی میں ہی وفات پاجائے گا۔ سو آتھم وفات پا گیا اورمَیں اب تک زندہ ہوں‘‘۔

(لیکچر لاہور۔ روحانی خزائن ۔جلد نمبر20۔صفحہ نمبر194تا197)

               نشان کے بارہ میں فرمایا: کہ ’’نشان خدا تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ وَلَوْتَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْا َقَاوِیْل لَا َخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنَ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ(الحاقۃ:45۔47)۔یعنی اگر یہ نبی ہمارے پر افترا کرتاتو ہم اس کو دہنے ہاتھ سے پکڑلیتے۔ پھر اس کی وہ رگ کاٹ دیتے جو جان کی رگ ہے۔ یہ آیت اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کے معنوں میں عموم ہے۔ جیسا کے تمام قرآن شریف میں بھی محاورہ ہے کہ بظاہراکثر امر و نہی کے مخاطب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  ہوتے ہیںلیکن ان احکام میں دوسرے بھی شریک ہوتے ہیں یا وہ احکام دوسروں کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ جیسا کے یہ آیت فَلَا تَقُلْ لَّہُمَا أُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا (بنی اسرائیل:24) یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں ان سے نہ کر جن میں ان کی بزرگی کا لحاظ نہ ہو۔اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  ہیں لیکن دارصل مرجع کلام امت کی طرف ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خوردسالی میں ہی فوت ہو چکے تھے اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمندسمجھ سکتا ہے کہ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ تُواپنے والدین کی عزّت کر اور ہر ایک بول چال میں ان کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ، توپھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہیے…‘‘۔

                فرمایا کہ: ’’…… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو فرمایا کہ اگر وہ ہمارے پر کچھ افترا کرتا تو ہم اس کو ہلاک کر دیتے ۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف خداتعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ غیر ت اپنی ظاہر کرتا ہے کہ آپ اگر مفتری ہوتے تو آپ کو ہلاک کر دیتا مگر دوسروں کی نسبت یہ غیرت نہیں ہے اور دوسرے خواہ کیسا ہی خدا پر افتراء کریںاور جھوٹے الہام بنا کر خدا کی طرف منسوب کر دیا کریں ان کی نسبت خدا کی غیرت جوش نہیں مارتی۔ یہ خیال جیسا کہ غیر معقول ہے ایسا ہی خداکی تمام کتابوں کے برخلاف بھی ہے او راب تک توریت میں بھی یہ فقرہ موجود ہے کہ جو شخص خدا پر افترا کرے گا اور جھوٹا دعویٰ نبوت کا کرے گا وہ ہلاک کیا جاوے گا۔ علاوہ اس کے قدیم سے علماء اسلام آیت  لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا کو عیسائیوں اور یہودیوں کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے لیے بطور دلیل پیش کرتے رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی بات میں عموم نہ ہووہ دلیل کا کام نہیں دے سکتی۔ بھلا یہ کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر افترا کرتے تو ہلاک کیے جاتے اور تمام کام بگڑ جاتا لیکن اگر کوئی دوسرا افترا کرے تو خدا ناراض نہیں ہوتا بلکہ اُس سے پیار کرتا ہے اور اُس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ مہلت دیتا ہے اور اس کی نصرت اور تائید کرتا ہے۔ اس کا نام تو دلیل نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ تو ایک دعویٰ ہے کہ جو خود دلیل کا محتاج ہے۔ افسوس میری عداوت کے لیے ان لوگو ں کی کہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے نشانوں پر بھی حملے کرنے لگے ۔چونکہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ میرے اس دعویٰ وحی اور الہام پر پچیس سال سے زیادہ گزر چکے ہیں …‘‘۔فرمایا کہ ’’اور ابھی معلوم نہیں کہ کہاںتک خداتعالیٰ کے علم میں میرے ایّام دعوت کا سلسلہ ہے اس لیے یہ لوگ باوجود مولوی کہلانے کے یہ کہتے ہیں کہ ایک خدا پر افترا کرنے والا اور جھوٹا ملہم بننے والا اپنے ابتدائے افترا سے تیس سال تک بھی زندہ رہ سکتا ہے اور خدا اس کی نصرت اور تائید کر سکتا ہے اور اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کرتے۔ اے بیباک لوگو! جھوٹ بولنا اور گوہ کھانا ایک برابر ہے ۔جو کچھ خدا نے اپنے لطف و کرم سے میرے ساتھ معاملہ کیا یہاں تک کہ اس مدت دراز میں ہر ایک دن میرے لیے ترقی کا دن تھا اور ہر ایک مقدمہ جو میرے تباہ کرنے کے لیے اٹھایا گیا خدا نے دشمنوں کو رسوا کیا۔ اگر اس مدت اوراس تائید و نصرت کی تمہارے پاس کو ئی نظير ہے تو پیش کرو ورنہ بموجب آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَایہ نشان بھی ثابت ہو گیا اور تم اس سے پوچھے جاؤ گے‘‘۔                             (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ 213تا215)

                اور یہ سلوک آج تک آپ کی جماعت سے ہو رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا جو سعید فطرت لوگ ہیں وہ خوابیں دیکھ کر جماعت میں شامل ہو رہے ہیںاور ہر سال ہو رہے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد ہے جو خوابیں دیکھ کر شامل ہوئی ہے ۔ان کو تو خدا تعالیٰ کی طرف سے منذرخوابیں آنی چاہیے تھیں کہ جس مسیح ومہدی کی جماعت میں شامل ہونے کہ لیے تم استخارے کر رہے ہو، اس کی جماعت میں شامل ہونے کے لیے خدا سے رہنمائی طلب کر رہے ہو تو ہوشیا ر ہو جاؤ یہ تو جھوٹا ہے ہم نے تو (نعوذ باللہ) اسے ذلیل و رسوا کرنا ہے بلکہ کر دیا ہے۔ آج دشمن ایک ہو کر جماعت کو ختم کرنے کی کس قدر کوشش کر رہے ہیں اَور یہ سازشیں جیسا کہ میں نے کہا اور ملکوں میں بھی پھیل رہی ہیں۔ چند ملکوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی ہو چکی ہیں۔ اگر یہ امام مہدی اور مسیح موعودخدا کی طرف سے نہ آیا ہوتا تو  وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَاکا نشان پورا ہوتا۔ پس یہ خدا تعالیٰ کا لگایا ہو ا پودا ہے جو کسی انسان کی کوششوں سے ختم نہیں ہو سکتا ۔

               پھر آپ فرماتے ہیں کہ:  ’’ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم الانبیاء ہونا بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کو ہی چاہتا ہے۔ کیونکہ آپ کے بعد اگر کوئی دوسرا نبی آ جائے تو آپؐ خاتم الانبیا ء نہیں ٹھہر سکتے اور نہ سلسلہ وحی نبوت کا منقطع متصور ہو سکتاہے۔ اور اگر فرض بھی کر لیں کہ حضرت عیسیٰ امتی ہو کر آئیں گے تو شان نبوت تو ان سے منقطع نہیں ہو گی گو اُمتیوں کی طرح وہ شریعت اسلام کی پاپندی بھی کریں……‘‘۔

                حاشیہ میں فرمایا:’’ چونکہ حدیثوں میں آنے والے مسیح موعود کو اُمّتی لکھاہے کیونکہ درحقیقت وہ اُمّتی ہے۔ اس لیے نادان علماء کو دھوکہ لگا اور انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اُمّتی ٹھہرا دیا حالانکہ ہمارے دعویٰ پر یہ ایک نشان تھا کہ مسیح موعود امت میں سے ہو گا‘‘۔

               فرمایا: ’’……مگر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس وقت وہ خداتعالیٰ کے علم میں نبی نہیں ہوں گے۔ اور اگر خدا تعالیٰ کے علم میں وہ نبی ہوں گے تو وہی اعتراض لازم آیا کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک نبی دنیا میں آگیا اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا استخفاف اور نصّ صریح قرآن کی تکذیب لازم آتی ہے۔ قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا توکہیں بھی ذکر نہیں لیکن ختم نبوت کا بکمال تصریح ذکر ہے اورپرانے یا نئے نبی کی تفریق کر نا یہ شرارت ہے۔ نہ حدیث میں نہ قرآن میں یہ تفریق موجود ہے اور حدیث لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ میںبھی نفی عام ہے۔ پس یہ کس قدر جرأت اور دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کر کے نصوص صریحہ قرآن کو عمدا ً چھوڑ دیا جائے اور خاتم الانبیا ء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جائے اور بعد اس کے جو وحی نبوت منقطع ہو چکی تھی پھر سلسلہ وحئ نبو ت کا جاری کر دیا جائے کیونکہ جس میں شان نبوت باقی ہے اس کی وحی بلا شبہ نبوت کی وحی ہو گی۔ افسوس یہ لوگ خیال نہیں کرتے کہ مسلم اور بخاری میں‘‘ (جو حدیث کی دو کتابیں ہیں) ’’فقرہ  اِمَامُکُمْ مِّنْکُمْ اور اَمَّکُمْ مِنْکُمْ صاف موجود ہے۔ یہ جواب سوال مقدر کا ہے۔ یعنی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں مسیح ابن مریم حَکم عدل ہو کر آئے گا تو بعض لوگوں کو یہ وسوسہ دامنگیر ہو سکتا تھا کہ پھر ختم نبوت کیوں کر رہے گا۔ اس کے جواب میں یہ ارشاد ہوا کہ وہ تم میں سے ایک اُمّتی ہو گا اور بروز کے طور پر مسیح بھی کہلائے گا‘‘۔

                فرمایا کہ: ’’ اگر حدیث میں یہ مقصود ہوتا کہ عیسیٰ باوجود نبی ہونے کے پھر اُمّتی بن جائے گا تو حدیث کے لفظ یوں ہونے چاہئیے تھے اِمَامُکُمُ الَّذِیْ یَصِیْرُ مِنْ اُمَّتِیْ بَعْدَ نَبُوّتِہٖ ۔یعنی تمہارا امام جونبوت کے بعدمیری امت میں سے ہو جائے گا‘‘ ۔’’چنانچہ مسیح کے مقابل پر جو مہدی کا آنا لکھا ہے اس میں بھی یہ اشارات موجود ہیں کہ مہدی بروز کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کا مورد ہو گا۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس کا خلق میرے خلق کی طرح ہو گا۔اور یہ حدیث کہ  لَا مَہْدِیَّ اِلَّا عِیْسٰی ایک لطیف اشارہ اس بات کی طرف کرتی ہے کہ وہ آنے والا ذوالبروزین ہوگا اور دونوں شانیں مہدویت اور مسیحیت کی اس میں جمع ہوں گی۔ یعنی اس وجہ سے کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت اثر کرے گی مہدی کہلائے گا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی مہدی تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی  (الضحیٰ: 8) اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نبیوں کی طرح ظاہری علم کسی استاد سے نہیں پڑھا تھا۔ مگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ مکتبوں میں بیٹھے تھے۔ اور حضرت عیسیٰ نے ایک یہودی استاد سے تمام توریت پڑھی تھی۔ غرض اسی لحاظ سے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی استاد سے نہیں پڑھا خدا آپ ہی استاد ہوااور پہلے پہل خدا نے ہی آپ کو اِقْرَئْ  کہا۔ یعنی پڑھ۔ اَور کسی نے نہیں کہا۔ اس لیے آپ نے خاص خدا کے زیر تربیت تمام دینی ہدایت پائی اور دوسرے نبیوں کے دینی معلومات انسانوں کے ذریعہ سے بھی ہوئے۔ سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا سو اس میں یہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن اور حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو مَیں حلفاًکہہ سکتا ہوں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں : ’’سو میں حلفاًکہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی حال ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسّر یا محدّث کی شاگردی اختیار کی ہے۔ پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدؐیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے ۔ اور جس طرح مذکورہ بالاوجہ سے آنے والا مہدی کہلائے گا اسی طرح وہ مسیح بھی کہلائے گا کیونکہ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانیت بھی اثر کرے گی۔ لہٰذا وہ عیسیٰ ابن مریم بھی کہلائے گا اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے اپنے خاصۂ مہدویت کو اس کے اند ر پھونکا اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی روحانیت نے اپنا خاصہ روح اللہ ہونے کا اس کے اندر ڈالا‘‘۔

                                                                           (ایام الصلح ۔روحانی خزائن ۔جلد 14۔صفحہ392تا395مع حاشیہ)

پھر آپ ایک دلیل بیان فرماتے ہیں کہ: ’’دار قطنی کی حدیث ہے کہ مہدی موعود کی یہ بھی نشانی ہے کہ خدا اس کے لیے اس کے زمانہ میں یہ نشان ظاہر کرے گاکہ چاند اپنی مقررہ راتوں میں سے (جو اس کے خسوف کے لیے خدا نے راتیں مقرر کر رکھی ہیں۔یعنی تیرھویں ،چودھویں ،پندرھویں )پہلی رات میں گرہن پذیر ہو گا اور سورج اپنے مقررہ دنوں میں سے (جو اس کے کسوف کے لیے خدا نے دن مقرر کر رکھے ہیں یعنی 27، 28،29) درمیانی دن میں کسوف پذیر ہو گا۔ اور یہ دونوں خسوف کسوف رمضان میں ہوں گے۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ مہدی کے وقت میں یہ دو مرتبہ واقع ہوں گے۔ چنانچہ یہ دونوں دو مرتبہ میرے زمانہ میں رمضان میں واقع ہو گئے۔ ایک مرتبہ ہمارے اس ملک میں دوسری مرتبہ امریکہ میں۔ اور ہمیں اس بات سے بحث نہیںکہ ان تاریخوں میں کسوف خسوف رمضان کے مہینہ میں ابتدائے دنیا سے آج تک کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے‘‘۔  (جب سے دنیا بنی ہے ان تاریخوں میں کسوف وخسوف رمضان کے مہینے میں کتنی مرتبہ واقع ہوا ہے) ’’ ہمارا مدعا صرف  اس قدر ہے کہ جب سے نسل انسان دنیا میں آئی ہے نشان کے طور پر یہ خسوف کسوف صرف میرے زمانہ میں میرے لیے واقع ہوا ہے اور مجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعوے کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف کسوف بھی واقع ہو گیا ہو۔اور اُس نے اُس کسوف خسوف کو اپنے لیے ایک نشان ٹھہرایا ہو۔ اور دار قطنی کی حدیث میں یہ تو کہیں نہیں ہے کہ پہلے کبھی کسوف خسوف نہیں ہوا ۔ہاں یہ تصریح سے الفاظ موجود ہیں کہ نشان کے طور پر یہ پہلے کبھی کسوف خسوف نہیں ہوا کیونکہ لَمْ تَکُوْنَا   کا لفظ مؤنث کے صیغہ کے ساتھ دار قطنی میں ہے جس کہ یہ معنی ہیں کہ ایسا نشان کبھی ظہور میں نہیں آیا۔ اور اگر یہ مطلب ہوتا کہ کسوف خسوف پہلے کبھی ظہور میں نہیں آیا تو لفظ  لَمْ یَکُوْنَا مذکر کے صیغہ سے چاہیے تھا نہ کہ  لَمْ تَکُوْنَا  کہ جومؤنث کا صیغہ ہے جس سے صریح معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آیَتَیْن ہے۔ یعنی دو نشان کیونکہ یہ مؤنث کا صیغہ ہے۔ پس جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ پہلے بھی کئی دفعہ خسوف کسوف ہو چکا ہے اس کے ذمہ یہ بار ثبوت ہے کہ وہ ایسے مدعی مہدویت کا پتہ دے جس نے اس کسوف خسوف کو اپنے لیے نشان ٹھہرایا ہو اوریہ ثبوت یقینی اور قطعی چاہیے۔ اور یہ صرف اس صورت میں ہو گا کہ ایسے مدعی کی کوئی کتاب پیش کی جائے جس نے مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور نیز یہ لکھا ہو کہ خسوف کسوف جو رمضان میں دارقطنی کی مقرر کردہ تاریخوں کے موافق ہوا ہے وہ میری سچائی کا نشان ہے۔ غرض صرف خسوف کسوف خواہ ہزاروں مرتبہ ہوا ہو اس سے بحث نہیں۔ نشان کے طور پر ایک مدّعی کے وقت صرف ایک دفعہ ہوا ہے۔ اور حدیث نے ایک مدعیٔ مہدویت کے وقت میں اپنے مضمون کا وقوع ظاہر کر کے اپنی صحت اور سچائی کو ثابت کر دیا۔ اسی طرح نواب صدیق حسن خان صاحب حجج الکرامہ میںاور حضرت مجدّد الف ثانی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ احادیث صحیحہ میں لکھا ہے کہ ستارہ دنبالہ دار یعنی ذوالسنین مہدی معہود کے ظہور کے وقت میں نمودارہو گا۔ چنانچہ وہ ستارہ 1882ء میں نکلا اور انگریزی اخباروں نے اس کی نسبت یہ بھی بیان کیا کہ یہی و ہ ستارہ ہے کہ جو حضرت مسیح علیہ السلام کے وقت میں نکلا تھا ۔ایسا ہی اس زمانہ کے قریب جب کہ خدا نے مجھ کو مبعوث فرمایا ستارے اس کثرت سے ٹوٹے جن کی ان سے پہلے نظیر نہیں دیکھی گئی اور شاید یہ نومبر 1885ء تھا۔ اسی طرح اور کئی آسمانی نشان ظاہرہوئے۔ یہ خدا کے سب نشان ہیں ‘‘۔                   (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر23۔صفحہ نمبر329,330حاشیہ)

پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسا مہدی آنا چاہیے جو جہاد کا فتویٰ دے اور انگریزوںاور دوسری غیر قوموںسے لڑائی کرے۔ مَیں کہتا ہوں یہ بھی غلط ہے اور حدیث سے بھی پایا جاتا ہے کہ آنے والا موعود یَضَعُ الْحَرْبَ کر کے دکھائے گا۔ یعنی لڑائیوں کو موقوف کرے گا۔ دیکھو ہر چیز کے عنوان پہلے ہی سے نظر آ جاتے ہیں جیسے پھل سے پہلے شگوفہ نکل آتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ کا یہی منشاء ہوتا کہ مہدی آکر جہاد کرتا اور تلوار کے زور سے اسلام کی حمایت کرتا تو چاہیے تھا کہ مسلمان فنون حربیہ اور سپاہ گری میں… تمام قوموں سے ممتاز ہوتے اور فوجی طاقت بڑھی ہوئی ہوتی۔ مگر اس وقت یہ طاقت تواسی قوم کی بڑھی ہوئی ہے اور فنونِ حرب کے متعلق جس قدر ایجادات ہو رہی ہیں وہ یورپ میں ہو رہی ہیں نہ کسی اسلامی سلطنت میں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا یہ منشاء ہرگز نہیں ہے اور یَضَعُ الْحَرْبَکی پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے یہی ہونا بھی چاہیے تھا۔ دیکھو مہدی سوڈانی وغیرہ نے جب مخالفت میں ہتھیار اٹھائے توخداتعالیٰ نے کیسا ذلیل کیایہاں تک کہ اس کی قبر بھی کھدوائی گئی اور ذلت ہوئی اس لیے کہ خدا کے منشاء کے خلاف تھا۔ مہدی موعود کا یہ کام ہی نہیں ہے بلکہ وہ تواسلام کو اس کی اخلاقی اور علمی وعملی اعجازات سے دلوں میں داخل کرے گا اور اس اعتراض کو دور کرے گا جو کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا۔ وہ ثابت کر دکھائے گا کہ اسلام ہمیشہ اپنی عملی سچائیوں اور برکات کے ذریعہ پھیلاہے۔ ان تمام باتوںسے انسان سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کا منشا تلوار سے کام لیناہوتا توفنونِ حرب اسلام والوں کے ہاتھ میں ہوتے۔اسلامی سلطنتوں کی جنگی طاقتیں سب سے بڑھ کر ہوتیں……‘‘۔(آج کل تو ہم دیکھتے ہیںکہ مسلمان طاقتیں مغربی طاقتوں سے ہتھیار مانگ رہی ہوتی ہیں بلکہ ہر قسم کی ٹیکنالوجی وہاں سے مانگتی ہیں) ۔

فرمایا کہ: ’’……اگرچہ حقیقی خبر تو خدا تعالیٰ سے وحی پانے والوں کو ملتی ہے مگر مومن کو بھی ایک فراست ملتی ہے اور وہ علامات و آثار سے سمجھ لیتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے۔ جب عیسائی قوموں کے بالمقابل آتے ہیں تو زَک اُٹھاتے ہیں اور ذلّت کا منہ دیکھتے ہیں۔ کیا اس سے پتہ نہیں لگتا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء تلوار اٹھانے کا نہیں ہے۔ یہ اعتراض صحیح نہیں، غلط ہے‘‘۔اور یہی حالت ہم دیکھ رہے ہیں ۔ (ملفوظات جلد نمبر سوم صفحہ نمبر87۔88جدید ایڈیشن ربوہ)

                ایک اور دلیل دیتے ہوئے فرمایا کہ : ’’ دیکھو یہی علماء کیسے شوق سے چودھویں صدی کے منتظر تھے اور تمام دل بول اٹھے تھے کہ اسی صدی کے سر پر مہدی اور مسیح پیدا ہوگا۔ بہت سے صلحاء اور اولیاء کے کشف اس بات پر قطع کر چکے تھے کہ مہدی اور مسیح موعود کا زمانہ چودھویں صدی ہے ۔اب ان کے دلوں کو کیا ہو گیا۔  وَ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَافِرِیْنَ (البقرۃ:90)مگر ضرورتھا کہ وہ مجھے کافر کہتے اور میرا نام دجّال رکھتے۔ کیونکہ احادیث صحیحہ میں پہلے سے یہی فرمایا گیا تھا کہ اس مہدی کو کافر ٹھہرایا جائے گا اور اس وقت کے شریر مولوی اس کو کافر کہیں گے اور ایسا جوش دکھلائیں گے کہ اگرممکن ہوتا تو اس کو قتل کر ڈالتے۔ مگر خدا کی شان ہے کہ ان ہزاروں میں سے یہ میاں غلام فرید صاحب چاچڑاں والوں نے پرہیز گاری کانور دکھلایا……‘‘ ۔

 ان کے بارے میں فرمایا کہ ’’… وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُوتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ۔خدا ان کو اجر بخشے اور عاقبت بالخیر کرے۔ آمین۔

فرمایا کہ ’’اب جب تک یہ تحریریں دنیا میں رہیں گی میاں صاحب موصوف کا ذکر باخیر بھی اس کے ساتھ دنیا میں کیا جائے گا۔ یہ زمانہ گزر جائے گا او ردوسرا زمانہ آئے گا اور خدا اس زمانے کے لوگوں کو آنکھیں دے گا اور وہ ان لوگوں کے حق میں دعائِ خیر کریں گے جنہوں نے مجھے پاکر میرا ساتھ دیا ہے۔ سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وقت گزر جائے گا اور ہر ایک غافل اور منکر اور مکذّب وہ حسرتیں ساتھ لے جائے گا جن کا تدارک پھر اس کے ہاتھ میں نہیں ہوگا۔اب میاں غلام فرید صاحب کا خط ذیل میں حسب وعدہ مذکورہ لکھا جاتا ہے…‘‘ ۔

عربی کا خط ہے جس کا ترجمہ پڑھ دیتا ہوں ۔’’ترجمہ اس کایہ ہے۔ تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو ربّ الارباب ہے۔ اور درود اس رسول مقبول پر جو یوم الحساب کا شفیع ہے اور نیز اس کی آل اور اصحاب پر۔ اور تم پر سلام اور ہریک پر جوراہ صواب میں کوشش کرنے والا ہو۔ اس کے بعد واضح ہو کہ مجھے آپ کی وہ کتاب پہنچی جس میں مباہلہ کے لئے جواب طلب کیا گیا ہے۔ اور اگرچہ میں عدیم الفرصت تھا تاہم میں نے اس کتاب کی ایک جز کو جو حسن خطاب اور طریق عتاب پر مشتمل تھی پڑھی ہے۔ سو اَے ہریک حبیب سے عزیز تر تجھے معلوم ہو کہ میں ابتدا سے تیرے لئے تعظیم کرنے کے مقام پر کھڑا ہوں تا مجھے ثواب حاصل ہو اور کبھی میری زبان پر بجز تعظیم اور تکریم اور رعایت آداب کے تیرے حق میں کوئی کلمہ جاری نہیں ہوا۔ اور اب میں مطلع کرتا ہوں کہ مَیں بلاشبہ تیرے نیک حال کا معترف ہوں۔ اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ تو خدا کے صالح بندوں میں سے ہے اور تیری سعی عند اللہ قابل شکر ہے جس کا اجر ملے گا اور خدائے بخشندہ بادشاہ کا تیرے پر فضل ہے۔ میرے لئے عاقبت بالخیر کی دعا کر اور مَیں آپ کے لئے انجام خیر و خوبی کی دعا کرتا ہوں۔ اگر مجھے طول کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں زیادہ لکھتا۔ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنْ سَلَکَ سَبِیْلَ الصَّوَابِ۔ من مقام چاچڑاں‘‘۔ (چاچڑاں شریف سے یہ لکھا تھا)۔

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم روحانی خزائن جلد 11صفحہ 322۔324)

 حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی کتاب میں ایک اور بزرگ کا ذکر کیا ہے جو میں نے لیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’ دوسرے پیر صاحبُ الْعَلَم ہیں جو بلاد سندھ کے مشاہیر مشائخ میں سے ہیں جن کے مرید ایک لاکھ سے کچھ زیادہ ہوں گے اور باوجود اس کے وہ علوم عربیہ میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور علماء راسخین میں سے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے جو میری نسبت گواہی دی ہے وہ یہ ہے…‘‘ جِس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’ یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم کشف میں دیکھا۔ پس میںنے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ شخص جومسیح موعودہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیا یہ جھوٹا اور مفتری ہے یا صادق ہے ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صادق ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس میں نے سمجھ لیا کہ آپ حق پر ہیں۔ اب بعد اس کہ ہم آپ کے امور میں شک نہیں کریں گے اور آپ کی شان میں ہمیں کچھ شبہ نہیں ہو گا اور جو کچھ آپ فرمائیں گے ہم وہی کریں گے۔ پس اگر آپ یہ کہوکہ ہم امریکہ میں چلے جائیں تو ہم وہیں جائیں گے اور ہم نے اپنے تئیں آپ کے حوالہ کر دیا ہے اور انشاء اللہ ہمیں فرمانبردار پاؤ گے‘‘۔

 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔’’یہ وہ باتیں ہیں جو ان کے خلیفہ عبداللطیف مرحوم اور شیخ عبداللہ عرب نے زبانی بھی مجھے سنائیں اور اب بھی میرے دلی دوست سیٹھ صالح محمد حاجی اللہ رکھا صاحب جب مدراس سے ان کے پاس گئے تو انہیں بدستور مصدق پایا بلکہ انہوں نے عام مجلس میں کھڑے ہو کر اورہاتھ میں عصا لے کر تمام حاضرین کو بلند آواز سے سنا دیاکہ میں اُن کو اپنے دعویٰ میں حق پر جانتا ہوں اور ایسا ہی مجھے کشف کی رُو سے معلوم ہوا ہے اور ان کے صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ جب میرے والد صاحب تصدیق کرتے ہیں تو مجھے بھی انکار نہیں ‘‘۔

(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر11۔صفحہ نمبر344)

مخالفت کے بارے میں ہی ایک اور حوالہ ہے جو مَیں پڑھ دیتا ہوں۔فرماتے ہیں کہ: ’’میرے مقابل پر جو میرے مخالف مسلمان مجھے گالیاں دیتے ہیں اور مجھے کافر کہتے ہیں یہ بھی میرے لئے ایک نشان ہے ۔کیونکہ انہیں کی کتابوں میں یہ اب تک موجود ہے کہ مہدی معہود جب ظاہر ہوگا تو اُس کو لوگ کافر کہیں گے اور اُس کو ترک کردیں گے اور قریب ہوگا کہ علمائے اسلام اُس کو قتل کردیں۔ چنانچہ ایک جگہ مجدّد الف ثانی صاحب بھی یہی لکھتے ہیں اور شیخ محی الدین ابن العربی صاحب نے بھی ایک مقام میں یہی لکھا ہے۔ سو اس میں کچھ شک نہیں کہ باوجود ہزارہا نشانوں کے جو خدا نے میرے لئے دکھلائے پھر بھی مَیں سخت تکذیب کانشانہ بنایا گیا ہوں اور میری کتابوں کے یہودیوں کی طرح معنے محرف مبدل کرکے اور بہت کچھ اپنی طرف سے ملاکر میرے پر صدہا اعتراض کئے گئے ہیں کہ گویا مَیں ایک مستقل نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں اور قرآن کو چھوڑتا ہوں اور گو یا مَیں خدا کے نبیوں کو گالیاں نکالتا ہوں اور توہین کرتا ہوں اورگویا مَیں معجزات کا منکر ہوں۔ سو میری یہ تمام شکایت خدا تعالیٰ کے جناب میں ہے اور مَیں یقینا جانتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے میرے حق میں فیصلہ کرے گا کیونکہ میں مظلوم ہوں‘‘۔            (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن۔ جلد نمبر23۔صفحہ نمبر334)

فرمایا کہ: ’’ میراانکار میرا انکار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔ کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے، معاذاﷲ، اﷲ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرالیتا ہے۔ جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ  اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ(الحجر:10)کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح اس محمدیؐ سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا۔مگر اس نے معاذاﷲ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امت میں نہیں اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے، معاذاﷲ۔کیونکہ اس سلسلہ کی اتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی امّت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا اُسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا۔اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی۔ بلکہ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اَلْحَمْدُ سے لے کر وَالنَّاسِ تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا۔ پھر سوچو کہ کیامیری تکذیب کوئی آسان امر ہے۔ یہ میں ازخود نہیں کہتا۔ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کردی اور خدا کو چھوڑ دیا…‘‘۔

(ملفوظات جلد چہارم۔ صفحہ14۔15 مطبوعہ لندن نومبر1984ء)

آپ فرماتے ہیں:  ’’مَیں قرآن و حدیث کا مصدّق و مصداق ہوں۔میں گمراہ نہیں بلکہ مہدی ہوں۔ مَیں کافر نہیں بلکہ اَنا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ کا مصداق صحیح ہوں اور جو کچھ مَیں کہتا ہوں خدا نے مجھ پر ظاہر کیا کہ یہ سچ ہے۔جس کو خدا پر یقین ہے جو قرآن اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق مانتا ہے اس کے لئے یہی حجت کافی ہے کہ میرے منہ سے سن کر خاموش ہو جائے۔ لیکن جو دلیر اور بیباک ہے اس کا کیا علاج؟خدا خود اس کو سمجھائے گا۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ خدا کے واسطے اس امر پر غور کریں اوراپنے دوستوں کو بھی وصیت کریں کہ وہ میرے معاملے میں جلدی سے کام نہ لیں۔بلکہ نیک نیتی اور خالی الذہن ہو کر سوچیں ‘‘۔  (ملفوظات جلد چہارم صفحہ16۔مطبوعہ لندن نومبر1984ء)

آپ تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں کرتے ہوئے مدد مانگو  تاکہ رہنمائی کرے، ہدایت دے۔ فرمایا: ۔

 ’’اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنی نمازوں میں دعائیں مانگیں کہ وہ ان پر حق کھول دے اورمَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر انسان تعصب اور ضد سے پاک ہو کر حق کے اظہار کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو ایک چلّہ نہ گزرے گا کہ اس پر حق کھل جائے گا۔ مگر بہت ہی کم لوگ ہیں جو ان شرائط کے ساتھ خدا تعالیٰ سے فیصلہ چاہتے ہیں اور اس طرح پر اپنی کم سمجھی یا ضدّو تعصب کی وجہ سے خدا کے ولی کا انکار کر کے ایمان سلب کرا لیتے ہیں۔کیو نکہ جب ولی پر ایمان نہ رہے تو ولی جو نبوت کے لئے بطور میخ کے ہے اسے پھر نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے اور نبی کے انکار سے خدا کا انکار ہوتا ہے اور اس طرح پر بالکل ایمان سلب ہو جاتا ہے‘‘۔               (ملفوظات جلد نمبردوم صفحہ نمبر364تا366جدید ایڈیشن ربوہ ۔ملفوظات۔ جلد چہارم صفحہ16۔ مطبوعہ لندن نومبر1984ء)

               فرمایا: ’’ہماری آخری نصیحت یہی ہے کہ تم اپنے ایمان کی خبرداری کرو۔نہ ہو کہ تم تکبر اور لاپروائی دکھلا کر خدائے ذوالجلال کی نظر میں سرکش ٹھہرو۔دیکھو خدا نے تم پر ایسے وقت میں نظر کی جو نظر کرنے کا وقت تھا ۔سو کوشش کروکہ تا تمام سعادتوں کے وارث ہو جاؤ۔خدا نے آسمان پر سے دیکھا کہ جس کو عزت دی گئی اس کو پیروں کے نیچے کچلا جاتا ہے اور وہ رسول جو سب سے بہتر تھا اس کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ اس کو بدکاروں اورجھوٹوں اور افترا کرنے والوں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کی کلام کو جو قرآن کریم ہے بُرے کلموں کے ساتھ یاد کر کے انسان کا کلام سمجھا جاتا ہے۔ سو اس نے اپنے عہد کو یاد کیا۔ وہی عہد جو اس آیت میں ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ۔(الحجر:10)۔ سو آج اُسی عہد کے پورے ہونے کا دن ہے۔ اُس نے بڑے زور آور حملوں اور طرح طرح کے نشانوں سے تم پر ثابت کر دیا کہ یہ سلسلہ جو قائم کیا گیا اُس کا سلسلہ ہے۔ کیا کبھی تمہاری آنکھوں نے ایسے قطعی اور یقینی طور پر وہ خد ا تعالیٰ کے نشان دیکھے تھے جو اب تم نے دیکھے؟ خداتعالیٰ تمہارے لئے کُشتی کرنے والوں کی طرح غیر قوموں سے لڑا اور اُن پر فتح پائی۔ دیکھو آتھم کے معاملہ میں بھی ایک کشتی تھی۔ تلاش کرو آج آتھم کہاں ہے؟ سنو! آج وہ خاک میں ہے ۔ وہ اسی شرط کے موافق جو الہام میں تھی چند روز چھوڑا گیا اور پھر اسی شرط کے موافق جو الہام میں تھی پکڑا گیا۔ دوسری کشتی لیکھرام کا معاملہ تھا۔ پس سوچ کر دیکھو کہ اس کشتی میں بھی خدا تعالیٰ کیسے غالب آیا؟ اور تم نے اپنی آنکھ سے دیکھا کہ جس طرح اُس کی موت کی الہامی پیشگوئیوں میں پہلے سے علامتیں مقرر کی گئی تھیں اُسی طرح وہ سب علامتیں ظہور میں آئیں۔ خد اکے قہری نشان نے ایک قوم پر سخت سوگ وارد کیا۔ کیا کبھی تم نے پہلے اس سے دیکھا کہ تم میں اور تمہارے رو برو اس جلال سے خدا کا نشان ظاہر ہوا ہو؟سو اے مسلمانوں کی ذرّیت! خدا تعالیٰ کے کاموں کی بے حرمتی مت کرو‘‘۔

(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد نمبر14۔صفحہ نمبر325تا327)

یہ چند اقتباسات میں نے سنائے ہیں۔ آپ نے مختلف پیرایوں میں اپنی صداقت کو اپنی مختلف کتب میں بیان فرمایا ہے۔ ان کی اس قدر کثرت ہے کہ ایک تقریر کیا،کئی تقریروں میں بھی ان کا احاطہ ممکن نہیں ہو سکتا۔ اور پھر اس پر جماعت احمدیہ کی گزشتہ ایک سو بیس سال سے زائد کی تاریخ پوری آب و تاب کے ساتھ اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت بھی ہر قدم پر جماعت کے ساتھ ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ساتھ ہے۔ جہا ں یہ ہر دم ہر احمدی کے ایمان کو مضبوط کرتی چلی جا رہی ہے وہاں وہ سعید فطرت لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں ہر سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں وہ اس امر پر مہر تصدیق ثبت کرتے چلے جارہے ہیں کہ یہی وہ خدا تعالیٰ کا فرستادہ ہے جو الٰہی تائیدا ت اپنے ساتھ لیے ہوئے ہے جس نے اس زمانے میں جب کہ ہر طرف ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کے نظارے نظر آتے ہیں مبعوث ہو کر دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کر کے امن ،سکون،صلح اور آشتی کی فضا قائم کرنی تھی۔

 کل ہی میں نے بینن کے ایک شخص کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ احمدی اس لئے ہو گیا تھا کہ لاہور کے واقعہ پر جب خلیفۂ وقت کی طرف سے صبر اور دعا کی تلقین ہوئی تو تمام جماعت کا ردعمل صرف صبر اور دعا تھا۔ اور اس نے کہا کہ یہ سوائے سچوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا ۔

مخالفین نے آج کل ایک اور شیطانی چال چلی ہوئی ہے اور اپنی طرف سے بڑے پیار سے اور بڑے پیارے انداز میں احمدیوں کو سمجھا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے پیدائشی احمدیو! تمہارے ماں باپ اپنی کم علمی اور کم عقلی اور ذاتی مفادات کی خاطر احمدیت کو قبول کرتے رہے لیکن تم عقل سے کام لو۔ اگر انسان اندھا بھی ہو عقل سے عاری بھی ہو تو تبھی وہ اتنی جرأت کر سکتا ہے اور اس طرح کی یاوہ گوئی کرتا ہے جو آج کل یہ غیر احمدی علماء کر رہے ہیں ۔ کیا تائیدات اور نشانات اور صداقت کے جو دلائل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے دکھائے اور جن کو ہمارے بزرگوں نے براہ راست دیکھا اور قبول کیا ان صداقت کے نشانات کے بعد تمہاری کم علمی اور بیوقوفی پر رویا جائے یا اپنے بزرگوں پر شکوہ کیا جائے ۔

اے نام نہاد علماء اور مخالفین احمدیت اور شیطان کے قدموں پر قدم مارنے والو! سن لواور اپنے پلّے باندھ لو کہ تمہارے یہ حربے کبھی بھی ہم پر کار گر نہیں ہو سکتے ۔جس راستے سے تم نے آنا ہے آؤ۔کبھی کسی مومن احمد ی کے پائے ثبات کو ہلا نہیں سکتے۔ یاد رکھو وہ سعید روحیں جنہوں نے امام الزمان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ہم تک رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام صادق کی تعلیم پہنچائی ہے اور ہمیں اس الٰہی جماعت کا حصہ بنایا ہے اور جو لوگ آخرین میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنے ان بزرگوں کا یہ احسان ہم اور ہماری نسلیں تا قیامت نہیں اتار سکتیں ۔پس ہم نے تو ان کے احسان کی وجہ سے اس درخت وجود کی سرسبز شاخیں بننے کا اعزاز پایا ہے جنہوں نے تمام دنیا کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ٹھنڈے سائے تلے لانا ہے۔ اگر آج تمہارے دجل میں آکر کو ئی بدقسمت سچائی کو پا کر پھر اس کو چھوڑ بیٹھتا ہے تو اس بات پر خوش نہ ہو کہ الٰہی جماعتوں سے سوکھی شاخوں کی شاخ تراشی خدا کی تقدیر ہمیشہ سے کرتی آئی ہے۔ جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کوئی کمزور ایمان نہیں دیتا۔ یہ قربانیوں کے معیارجو آج احمدی قائم کر رہے ہیں یہ صاف بتا رہے ہیں کہ ہمیں خداتعالیٰ  کے اس فرستادہ پر کامل ایمان اور یقین ہے ۔اور ہر ابتلاء ہر احمدی کا ایمان پہلے سے مضبوط کرتا ہے۔ لاہور کے شہداء کی اجتماعی شہادت کے بعد تو مجھے دنیائے احمدیت کے ہر شہر اور ہر ملک سے یہ اطلاعیں آ رہی ہیں کہ جو دنیاوی کاموں میں پڑ کر مسجد سے بے تعلق اور کمزور ہو گئے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی مسجد سے جڑنے کی توفیق عطا فرما دی ہے۔ بلکہ بعض تو باقاعدہ اور پرانے مسجدمیں آنے والوں سے بھی پہلے آکر مسجد میں بیٹھنے لگ گئے ہیں۔ پس کیا تمہاری ان دجّالی چالوں سے احمدیوں کا ایما ن کمزور ہو سکتا ہے۔ یاد رکھو تمہاری یہ خوش فہمی ہے اور ہم پر بد ظنی ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ بدظنی تمہیں شرمندہ کرے گی بشرطیکہ تمہارے اند ر شرمندہ ہونے والا دل ہو ۔تمہارے دل تو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں۔ پتھروں میں سے تو پھر بعض ایسے ہیں جن میں سے پانی کے چشمے پھوٹتے ہیںجو زندگی بخشنے کا ذریعہ ہیں۔ تمہارے دلوں اور زبانوں سے تو صرف نفرتوں کے لاووں کے علاوہ کچھ نہیں پھوٹتاجو سوائے نقصان کے اور شر کے کچھ نہیں کر سکتے۔ اے نفرتوں کے شرارے پھیلانے والو! تم وہ لوگ ہو جو ظلمتوں کے پجاری ہو اور نور سے دور ہو۔ تم اگر قرآن کریم کے علم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہو تو خود قرآن کھول کر پڑھ لو کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہتا ہے۔

 آج ہر احمدی مرد ،عورت، بچہ اور بوڑھا اور جوان تو اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرتا چلا جارہا ہے اور جیسا کہ ہم نے آج بھی دیکھا ہے کہ سعید فطرت اس منادی اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت میں شامل ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن تم لوگ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بے علم لوگوں کو حق سے دور لے جانے کی جس مذموم کوشش میں مصروف ہو اور الٰہی جماعت کے خلاف نفرتوں کے تیر چلانے کی جس مہم میں مصروف ہو یہ یقینا تمہیں خدا کی پکڑ میں گرفتار کرے گی ۔تم پر بہت کھل کر اتمام حجت ہو چکی ہے خدا کی لاٹھی بے آواز ہے اس سے ڈرو اور اس کی فکر کرو۔ قرآنی دلائل، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ ارشادات، عقلی دلائل، زمینی اور آسمانی نشانات، اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادتیں اور آج تک ان کا تسلسل اور جاری تسلسل تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو نا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی مَیں عامۃ المسلمین سے بھی کہتا ہوں کہ اگر وہ میری بات پر کان دھریںاور اپنی عقل سے کام لیں جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ سے رہنمائی چاہیں۔ جھوٹے دعوے کرنے والوں کے حق میں خدا تعالیٰ اس طرح صداقت کے ثبوت ظاہر نہیں فرماتا۔ یاد رکھیں کہ خداتعالیٰ کے سامنے یہ عذر کام نہیں آئے گا کہ ہمیں ان علماء نے ورغلایا تھا۔ پس ان نام نہاد علماء کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے یقین نہ کریں ۔بے نفس اور خالی الذہن ہو کر خداتعالیٰ کے حضور جھکیں ۔دعا کریں اور رہنمائی چاہیں تو پھر خدا تعالیٰ بھی رہنمائی فرماتا ہے۔ اپنے ذہنوں کو ہر قسم کے شکوک سے پاک کریں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم کی دعا کریں تب اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہے۔ آج جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والے ہزاروں سعید لوگ جو افریقہ سے بھی لاکھوں کی تعداد میں شامل ہو رہے ہیں، عرب ممالک سے بھی شامل ہو رہے ہیں، یورپ سے بھی شامل ہو رہے ہیں، امریکہ سے بھی شامل ہو رہے ہیں، جزائر سے بھی شامل ہو رہے ہیں، ایشیا سے بھی شامل ہو رہے ہیں، ان کی یہ شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ یقیناحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دعویٰ سچاہے اور آپ خدا تعالیٰ کے فرستادہ ہیں۔

میں احمدیوں کو پھر یا د دہانی کرواتا ہوں کہ آج جب کہ فتنہ و فساد اور مخالفت کی آندھیاں اپنا زور دکھا رہی ہیں توہراحمدی مرد، عورت جوان، بوڑھا، بچہ اپنے لیے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعاوی اور صداقت پر مزید مضبوطی پیداکرنے کے لیے دعا کریں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں ایمان میں پہلے سے بڑھاتا چلا جائے اور تمام مسلمانوں کو دین واحد پر جمع ہونے کا نظارہ دکھائے اور مسلمانوں کی جوکھوئی ہوئی ساکھ اور عظمت ہے وہ دوبارہ ہم اپنی زندگیوں میں دیکھ سکیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہم بڑی شان سے دنیا میں لہراتا ہوادیکھیں۔

 اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں جہاں جماعت کے لیے، جماعت کی ترقی کے لیے، ہر ملک میں جماعت کے پھیلنے کے لیے، احمدیوں کے ثبات قدم کے لیے، استقامت کے لیے دعا کریں وہاں واقفین زندگی کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صحیح رنگ میں جماعت کی خدمت کے حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسیران کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے جلد سامان پید افرمائے۔ شہدا ء کے لیے دعا کریں کہ انہوں نے جو عظیم قربانیاں دے کر ایک نئی روح ہمارے دلوں میں پھونکی ہے اس کوہم ہمیشہ جاری رکھیں اور اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔ ان شہداء کے خاندانوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر اور استقامت اور حوصلہ عطا فرماتا رہے اوراپنی جناب سے ان کی حفاظت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہر مشکل میں گرفتار اور مصیبت میں گرفتار احمدی کو اپنے فضل سے اس سے نجات دے۔ اللہ تعالیٰ سب پر رحم فرمائے۔ دعا کرلیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں