خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جرمنی 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں، لاہور میں احمدیوں پر جو حالات گزرے ہیں، جس ظالمانہ اور سفاکانہ طور پر افرادِ جماعت کو جمعہ کے دوران شہید کیا گیا ہے۔ 17،18سال کے نوجوان سے لے کر 92،93سال کے بوڑھے تک کا خون سفّاکی کی بدترین مثالیں قائم کرتے ہوئے بہایا گیا ہے۔ اور قانون نافذ کرنے والوں نے اپنی کسی مصلحت کے تحت اس خون کو بہنے دیا اور بروقت مدد نہ کی ورنہ شاید کئی قیمتی جانیں بچ جاتیں۔ بہر حال جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اکثر احمدی خود بھی اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ (یوسف: 87) (کہ میں اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ کے حضور کرتا ہوں) پس ہماری فریاد تو اللہ تعالیٰ کے حضور ہے جو مضطر کی دعائیں سنتا ہے۔ جیسا کہ خود اس نے فرمایا ہے کہ میں ہی ہوں جو مضطر کی دعائیں سنتا ہوں۔ وہ لوگ جو تکلیف میں ہیں، وہ لوگ جن پر ظلم کیا جاتا ہے، وہ لوگ جن پر جینا تنگ کیا جاتا ہے، جب وہ بے چین ہو کر مجھے پکارتے ہیں تو میں ان کی تکلیفوں کو دور کرتا ہوں۔ فرماتا ہے اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ۔ ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (سورۃ النمل63:) نیز بتاؤ توکون کسی بے کس کی دعا سنتا ہے جب وہ اس خدا سے دعا کرتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کردیتا ہے اور وہ تم (دعا کرنے والے انسانوں) کو ایک دن ساری زمین کا وارث بنا دے گا۔ کیا اس قادرِ مطلق اللہ کے سوا کوئی معبود ہے؟ کم ہی ہیں جو نصیحت حاصل کرتے ہیں۔
پس ہم تو اس تمام طاقتوں کے مالک اور تمام صفاتِ کاملہ سے متصف خدا کے ماننے والے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم کہیں کہ خدا پہلے تو سنتا تھا ، آج نہیں سنتا۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پہلے تو اس میں یہ صفت تھی کہ براہِ راست خلفاء بناتا تھا جو انبیاء کی صورت میں آئے، لیکن اب اس کی یہ طاقت اور صفت ختم ہو گئی ہے۔ آج بھی وہ جسے چاہے کلیم اللہ بنا سکتا ہے۔ اور اِس زمانے میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خاتم الخلفاء بنا کر اپنی اس صفت کا واضح اور روشن اظہار فرمایا ہے۔ اور جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ اس سے کئے گئے وعدے بھی یقینا پورے کرے گا اور اس کے ماننے والوں کی متضرعانہ دعاؤں کو بھی سنے گا اور یقینا سنے گا اور سنتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’کلامِ الٰہی میں لفظ مُضْطَرسے وہ ضرر یافتہ مراد ہیں جو محض ابتلا کے طور پر ضرر یافتہ ہوں نہ سزا کے طور پر‘‘۔(دافع البلاء۔ روحانی خزائن جلد 18صفحہ231)
اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادتوں اور قبولیتِ دعا کے نظارے دیکھتے ہوئے ہم اس بات پر علی وجہ البصیرت قائم ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائے تو جاتے ہیں لیکن یہ آزمایا جانا سزا نہیں ہوتا بلکہ خدا ایمان کی مضبوطی کے لئے مومنوں کو آزماتا ہے۔ جماعت احمدیہ کی ایک سو اکیس سالہ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی الٰہی تقدیر کے تحت جماعت پر ابتلاء آیا اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ثباتِ قدم عطا فرمایا، دعاؤں کی طرف راغب کیا اور جماعت کی متضرعانہ اور مضطربانہ دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے کامیابیوں کی طرف پہلے سے بڑھ کر رواں دواں کر دیا اور بَشِّرِالصَّابِرِیْن (البقرۃ: 156)کی خوشخبری کا مصداق بنا دیا۔
پس آج بھی جو ظلم جماعت پر پاکستان میں روا رکھا جا رہا ہے اور جس کی انتہائی بہیمانہ اور ظالمانہ صورت لاہور میں احمدیوں پر اجتماعی حملے کی صورت میں سامنے آئی اور حملہ بھی خدا کے گھر میں، خدا کی عبادت کرنے والے نہتّے احمدیوں پر۔ تو اُس وقت جب حملہ ہو رہا تھا، اُس وقت جس صبر اور حوصلہ اور اضطرار سے احمدی دعائیں کر رہے تھے اور اس کے بعد آج تک احمدیوں میں اضطراری کیفیت قائم ہے اور دعاؤں میں مصروف ہیں، تو کیا خدا تعالیٰ ان دعاؤں کو نہیں سنے گا؟ سنے گا اور انشاء اللہ یقینا سنے گا۔ یہ اس کا وعدہ ہے۔ یہ ظلم جو خدا کے نام پر خدا والوں سے روا رکھا گیا اور رکھا جا رہا ہے، کیا اس بات پر خدا کی غیرت جوش نہیں دکھائے گی؟ دکھائے گی اور یقینا دکھائے گی۔
احمدیوں کو کیوں ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ صرف اس بات پریہ ظلم ہو رہا ہے کہ تم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حقیقی معنی کو چھوڑ کر ان معنوں کی پیروی کرو جن سے اللہ اور اس کے رسول کی تحقیر اور توہین ہوتی ہے۔ احمدی اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں لیکن کبھی اللہ اور اس کے رسولؐ کے نام کی تحقیر اور توہین برداشت نہیں کر سکتے۔ کبھی خدا تعالیٰ کی صفات کو محدود نہیں کر سکتے۔ کبھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام افضل الرسل اور خاتم النبیین پر آنچ نہیں آنے دے سکتے۔
ہم کہتے ہیں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا مطلب ہے کہ ہمارا خدا ازل سے معبودِ حقیقی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ہم کہتے ہیں ہمارے معبود حقیقی کی تمام صفات کا اظہار جیسے پہلے ہوتا تھا، آج بھی ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے۔ جس طرح پہلے وہ بگڑی ہوئی قوموں کی اصلاح کے لئے وحی و الہام کر کے اپنے خاص بندے بھیجتا تھا اس زمانے میں بھی اس نے بھیجا ہے۔ لیکن جیسا کہ اس کی سنّت رہی ہے کبھی شرعی نبی بھیجتا رہا، کبھی غیر شرعی نبی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآنِ کریم کے نازل ہونے کے بعد اس نے شریعت کامل کر دی اور قیامت تک ہر زمانے کے انسان کی ضروریات کے لئے اس نے کامل اور مکمل تعلیم اتار دی۔ لیکن اس کامل تعلیم کے سمجھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پیروی کرنے والے سے اب بھی اللہ تعالیٰ مکالمہ مخاطبہ کر کے اسے نبوت کے مقام تک پہنچا سکتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس نے پہنچایا۔ اس نے یہ مقام عطا فرمایا تا کہ اس تعلیم کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری، جسے مرورِ زمانہ کے ساتھ دنیا بھول رہی تھی، دوبارہ دنیا پر روشن کرے۔ تا کہ دنیا کو بتائے کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ صرف زبانی اعلان نہیں ہے بلکہ ہمارا معبود وہ اللہ ہے جو آج بھی ان صفات کا جامع ہے جیسا ہمیشہ سے تھا۔ وہ آج بھی دین کا درد رکھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو قائم کرنے کی خواہش رکھنے والوں کی دعاؤں کو سنتے ہوئے ایسے شخص کو بھیج سکتا ہے اور بھیجا ہے جو معبودِ حقیقی اور واحد و یگانہ خدا کی پہچان دنیا کو کروائے۔ پس اگر ہم منہ سے تو کہیں کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ اور اس کی عبادت کرنے سے ہماری وہ دعا بھی قبول نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لئے ہم کر رہے ہیں۔ وہ دعا بھی قبول نہ ہو جو ایک خدا کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے ہم کر رہے ہیں۔ ہم پکار پکار کر کہیں کہ اے خدا! تیرے آخری کامل دین کے ماننے والوں کی حالت بھی بگڑ گئی ہے کوئی مسیحا بھیج جو پھر سے انہیں معبودِ حقیقی کے قدموں میں ڈالتے ہوئے عباد الرحمن بنا دے۔ لیکن خدا کہے کہ بے شک میں معبودِ حقیقی ہوں لیکن نعوذ باللہ تمہاری اس دعا کو میں نہیں سن سکتا۔ آج بھی یہ غیر احمدی مسلمان چلّا چِلّا کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام کی کشتی کو سنبھالنے کے لئے خلافت کا نظام ہونا ضروری ہے۔ لیکن جس خاتم الخلفاء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں سرشار کر کے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے، اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ نہیں اب ایسا شخص خدا تعالیٰ نہیں بھیج سکتا۔
پس ہم تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا یہ ادراک رکھتے ہیں کہ جب ہم نے کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی عبادت کی، اس کے سامنے جھکے تو اس نے کہا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ قائم کرنے کے لئے اس زمانے میں مَیں نے تمہاری تضرعات کو سنتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو بھیج دیا ہے۔ جاؤ اور اس کے مددگار بن کر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کو دنیا میں پھیلا دو اور ہر قسم کے شرک کو دنیا سے مٹانے کے لئے اس کی مدد کرو۔ لیکن ہمارے مخالفین کو یہ برداشت نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تم ہماری طرح منہ سے تو بیشک لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہو ، منہ سے تو بے شک کہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے لیکن یہ نہ کہو کہ وہ آج بھی ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے کوئی مصلح، کوئی مسیحا، کوئی نبی دنیا میں بھیج سکتا ہے۔ اے مخالفینِ احمدیت! غور سے سن لو کہ ایسی محدود طاقتوں والا خدا تمہارا معبود تو ہو سکتا ہے، ہمارا نہیں۔ ہمارا واحد و یگانہ معبودِ حقیقی تو وہ ہے جو تمام صفات کا حامل ہے، تمام طاقتوں کا مالک ہے اور ایسے خدا کو ہم کبھی نہیں چھوڑ سکتے، کبھی نہیں چھوڑ سکتے اور کبھی نہیں چھوڑ سکتے خواہ ہماری گردنیں کٹ جائیں۔
پھر تم کہتے ہو کہ ہم اس بات سے انکار کر دیں کہ محمدؐ، اللہ کے خاص رسول ہیں۔ وہ رسول ہیں جن کی رسالت کا اقرار کرنا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور معبودِ حقیقی ہونے کے اقرار کے ساتھ ضروری ہے۔ اس کے بغیر اب تا قیامت خدا تعالیٰ کا قرب پانا ممکن نہیں۔ اس اقرار کے بغیر اب تا قیامت دعاؤں کی قبولیت کی معراج حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ انہی کی زیادہ سنتا ہے جو اس کے پیارے ہیں۔ اور اس قبولیت کے لئے جو نسخہ قرآنِ کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروا کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32 )کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو وہ تم سے محبت کرے گا۔ پس ہم تو جب اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو نہ سمجھیں اور آپ کی کامل پیروی کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار نہ پائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب یہ مسیحیت اور امامتِ زمانہ کا مقام ملا تو یہ مقام آپ علیہ السلام کو اپنے آقا کی کامل پیروی اور محبت کے نتیجہ میں ملا ۔ چنانچہ اس مقام کے عطا ہونے سے پہلے آپ کو جو نظارہ دکھایا گیا اس میں فرشتوں نے یہی کہہ کر تو آپ کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ھٰذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہ۔(تذکرہ صفحہ 34 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ) یعنی یہ وہ شخص ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے۔ آپ نے اس کی وضاحت فرمائی کہ اس مقام کی سب سے بڑی شرط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ اور فرشتوں نے اعلان کیا کہ یہ محبت کا جذبہ سب سے زیادہ اس شخص میں پایا جاتا ہے۔
پس یہ وہ مقام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اور حقیقی ادراک کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا ہوا اور آپ کی وساطت سے ہمیں عطا ہوا۔ آپ خود ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’سو میں نے خدا کے فضل سے، نہ اپنے کسی ہنر سے، اس نعمت سے کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی۔ اور میرے لئے اس نعمت کا پانا ممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولیٰ فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے راہوں کی پیروی نہ کرتا‘‘۔
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد22صفحہ64)
آپ فرماتے ہیں: ’’سو میں نے جو کچھ پایا، اُس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفتِ کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے‘‘۔
(حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد22صفحہ64-65)
پس ہم نے اس زمانے کے امام، جسے خدا تعالیٰ نے مسیح و مہدی بنا کر بھیجا ہے، اس مسیح و مہدی سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عرفان حاصل کیا ہے کہ آپؐ کی کامل پیروی سے، آپؐ سے عشق و محبت کے حقیقی اظہار اور عمل سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو منعم علیہ گروہ میں شامل کرتا ہے۔ جن کے بارے میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ۔ (النساء: 70) جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام کی وجہ سے مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ (النساء: 70) یعنی وہ لوگ نبیوں، صدیقوں، شہداء اور صالحین کے مقام سے حصہ پانے والے بن گئے ۔
پس ہمارا تو یہ ایمان ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح ادراک رکھنے والوں اور آپ سے محبت رکھنے والوں کو ان درجات اور مرتبوں تک خدا تعالیٰ لے جا سکتا ہے اور لے جاتا ہے جو اس کے مقرب ترین بندے ہیں۔
مخالفین ہمیں کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم کی اس تعلیم کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی تعریف کرو ورنہ ہم تمہاری گردنیں کاٹیں گے۔ ہماری تعریف کے مطابق لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو ٹھیک، ورنہ مرنے کے لئے تیار ہو۔ ہماری تعریف کے مطابق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کو سمجھنے کے لئے تیار ہو تو ٹھیک، ورنہ اپنی جان سے ہاتھ دھونے کے لئے تیار ہو جاؤ۔
ہم اپنے مخالفین سے کہتے ہیں کہ ہمیں اس کلمہ کی قسم جو قیامت کے دن ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر کے بتائے گا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے حقیقی وفا کرنے والے ہم ہیں کہ تم؟ اس دنیا میں اپنی عارضی طاقت اور حکومتوں کی پشت پناہی کے زعم میں تم جو ظلم اور سفاکی ہم سے روا رکھ سکتے ہو، رکھ لو۔ لیکن ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس کلمہ کا یہی حقیقی فہم و ادراک آئندہ ہمیشہ کی زندگی میں جنت کی خوشخبریاں دیتا ہے۔ اس کلمہ سے ہی ختم نبوت کا حقیقی فہم خدا تعالیٰ سے ہدایت پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ پس لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اس دنیا میں بھی ہمارے دل کی آواز ہے اور اگلے جہان میں بھی ہمارا گواہ بن کر دشمن کے گریبانوں کو پکڑے گا۔ انشاء اللہ۔ہم ببانگ دہل اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ مسیح محمدی کی بعثت سے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ خاتمیتِ نبوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپؐ کے امتی کو یہ بلند مقام ملنا آپ کی اعلیٰ شان کا اظہار ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں کہ
برتر گمان و وہم سے احمدؐ کی شان ہے
جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 286 حاشیہ)
پس ہم تو اس تعلیم کو سینے سے چمٹائے ہوئے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ ترین شان کے قائم کرنے والے ہیں۔ ہم کسی مولوی، کسی عالم اور کسی حکومت کے خوف سے خوفزدہ ہو کر ،مال و جان کے ضائع کر دئیے جانے کی دھمکیوں سے ڈر کر، قتل کے فتووں سے پریشان ہو کر، ظالمانہ طور پر گرنیڈوں کے حملوں اور گولیوں کی بوچھاڑ سے اپنے پیاروں کو شہادت کا رتبہ پاتے دیکھ کر اس شانِ محمدی کے قائم کرنے سے کبھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ دشمن اپنی کئی ظالمانہ، سفاکانہ حرکات سے کبھی باز نہیں آئے گا کہ شیطان کے چیلوں کا یہی کام ہے۔ افسوس ہے تو صرف یہ کہ ظالم میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، امن و سلامتی کے پیامبر، محسنِ انسانیت کے نام کو استعمال کر کے اس ظلم کو روا رکھتے ہیں۔ جو رسولؐ کمزوروں، بیواؤں، یتیموں کا سہارا بن کر آیا تھا یہ ظالم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کمزوروں کے سہارے چھین رہے ہیں۔ بچوں اور سہاگنوں کو یتیم اور بیوہ کرنے کی ظالمانہ کوششیں کر رہے ہیںاور پھر اپنے اس فعل پر خوشی سے مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں۔ جو رسولؐ انسانیت کی قدریں بحال کرنے آیا تھا ،جس نے جاہلوں اور اجڈوں کو انسان اور با خدا انسان بنایا تھا، یہ ظالم اس رسولؐ کے نام پر انسانیت کی معمولی قدروں کو بھی پامال کرتے چلے جا رہے ہیں۔
اے ظالمو! خدا کے لئے، خدا کے لئے میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام نہ کرو۔ اگر تم اپنی ظالمانہ حرکات سے اپنی بدفطرتی کی وجہ سے باز نہیں آ سکتے تو نہ آؤ۔ اگر تم اپنے ظلم و بربریت کی مثالیں قائم کرنے سے نہیں رک سکتے تو نہ رکو۔ اگر تم احمدیوں پر ظلم و تعدی کا بازار گرم کرنا چاہتے ہو تو بے شک کرو اور کرتے چلے جاؤ ۔اس بارے میں اگر تم کسی حکومت کی اشیر باد لینا چاہتے ہو اور اس وجہ سے یہ کام کر رہے ہو تو بے شک کرو۔ لیکن میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر یہ مذموم حرکات نہ کرو۔
غور سے سن لو کہ تم لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے پیارے کلمے کو بدنام کرنے والے ہو نہ کہ احمدی۔ اگر تم اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہو تو خدا کے حضور روؤ اور فریاد کرو کہ اللہ تمہارے لئے نشان ظاہر کرے۔ لیکن یاد رکھو کہ اس زمانے میں خدا تعالیٰ کے اس فرستادے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے خلاف دعائیں اور نالے بھی ہوا میں اُڑ جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام مخالفین کو یہ کھلا چیلنج دیا ہے کہ میرے پر بد دعائیں خدا تعالیٰ کبھی نہیں سنے گا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’میں محض نصیحتاً للہ مخالف علماء اور ان کے ہم خیال لوگوں کو کہتا ہوں کہ گالیاں دینا اور بد زبانیاں کرنا طریقِ شرافت نہیں ہے۔ اگر آپ لوگوں کی یہی طینت ہے تو خیر آپ کی مرضی، لیکن اگر مجھے آپ لوگ کاذب سمجھتے ہیں تو آپ کو یہ بھی تو اختیار ہے کہ مساجد میں اکٹھے ہو کر یا الگ الگ میرے پر بد دعائیں کریں اور رو رو کر میرا استیصال چاہیں۔ پھر اگر میں کاذب ہوں گا تو ضرور وہ دعائیں قبول ہو جائیں گی اور آپ لوگ ہمیشہ وہ دعائیں کرتے بھی ہیں ۔لیکن یاد رکھیں کہ اگر آپ اس قدر دعائیں کریں کہ زبانوں میں زخم پڑ جائیں اور اس قدر رو رو کر سجدوں میں گریں کہ ناک گھِس جائیں اور آنسوؤں سے آنکھوں کے حلقے گل جائیں اور پلکیں جھڑ جائیں اور کثرت گریہ وزاری سے بینائی کم ہو جائے اور آخر دماغ خالی ہو کر مرگی پڑنے لگے یا مالیخولیا ہو جائے،تب بھی وہ دعائیں سنی نہیں جائیں گی کیونکہ میں خدا سے آیا ہوں۔ جو شخص میرے پر بد دعا کرے گا وہ بد دعا اسی پر پڑے گی۔ جو شخص میری نسبت یہ کہتا ہے کہ اس پر لعنت ہو وہ لعنت اس کے دل پر پڑتی ہے مگر اسے خبر نہیں‘‘۔
(اربعین نمبر4،روحانی خزائن جلد17صفحہ471-472)
آپ فرماتے ہیں: ’’میری روح میں وہی سچائی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کو دی گئی تھی۔ مجھے خدا سے ابراہیمی نسبت ہے۔ کوئی میرے بھید کو نہیں جانتا مگر میرا خدا۔ مخالف لوگ عبث اپنے تئیں تباہ کر رہے ہیں۔ میں وہ پودا نہیں ہوں کہ ان کے ہاتھ سے اکھڑ سکوں۔ اگر ان کے پہلے اور ان کے پچھلے اور ان کے زندے اور ان کے مُردے تمام جمع ہو جائیں اور میرے مارنے کے لئے دعائیں کریں، تو میرا خدا ان تمام دعاؤں کو لعنت کی شکل پر بنا کر ان کے منہ پر مارے گا۔ دیکھو صدہا دانشمند آدمی آپ لوگوں کی جماعت میں سے نکل کر ہماری جماعت میں ملتے جاتے ہیں۔ آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں۔ اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے ؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو۔ وہ تمام مکرو فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیںوہ سب کرو اور کوئی تدبیر اٹھا نہ رکھو ۔ناخنوں تک زور لگاؤ۔ اتنی بد دعائیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟ خدا کے آسمانی نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں مگر بدقسمت انسان دور سے اعتراض کرتے ہیں۔ جن دلوں پر مہریں ہیں ان کا ہم کیا علاج کریں۔اے خدا تو اس اُمّت پر رحم کر‘‘۔
(اربعین نمبر4،روحانی خزائن جلد17صفحہ473)
مخالفینِ احمدیت اور دشمنانِ احمدیت کے ظالمانہ فعل اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ دعاؤں سے اور دلائل سے تو جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انبیاء کے مخالفین کا رویہ اپناتے ہوئے طاقت اور حکومت سے مقابلہ کریں۔ پس جس حکومت و طاقت کا تمہیں زعم ہے اس کا استعمال بھی کر لو بلکہ گزشتہ ایک سو اکیس سال سے کر رہے ہو ۔کیا اس مخالفت سے احمدیت کے قدم رکے ہیں؟ احمدیت تو ہر جہت اور ہرسُو پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ ہر مخالفت کے بعد سعید فطرت احمدیت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اس تازہ ظلم کے بعد بھی کئی سعید فطرت اس حوالے سے ہی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آئے ہیں۔ لاہور کے واقعہ کے بعد اس واقعہ کو دیکھ سن کرکافی بیعتیں بھی آ رہی ہیں۔ ا س واقعہ کے بعد یہ فتنہ و فساد پیدا کرنے والا ٹولہ جو ہے مخالفت اور گھٹیا زبان کے استعمال میں مزید بڑھا بھی ہے۔ اس کے باوجود لوگوں کی توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ ٹی وی پروگراموں میں بغیر کسی روک ٹوک کے ان کی دریدہ دہنی کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں۔ اور اگر کسی ٹی وی چینل نے احمدیوں کو وقوعہ کی روشنی میں حقائق پیش کرنے اور پاکستان کی تعمیر میں جماعت احمدیہ کے کردار کے بارے میں روشنی ڈالنے کے لئے بلانے کا اظہار کیا تو یا مُلاّں کے خوف سے یا حکومتی ادارے کے خوف سے اس پروگرام کے کرنے کی اجازت نہیں ملی یا خود ہی بعد میں کہہ دیا کہ ہمیں اجازت نہیں۔ اس لئے کہ ان کو پتہ ہے کہ قوم کی آنکھوں پر نام نہاد علماء کے غلط پروپیگنڈے نے جو پردہ ڈالا ہوا ہے احمدیوں کا مؤقف سامنے آنے پر یہ پردہ چاک ہو جائے گا۔ جن کی احمدیوں کو گالیاں دینے اور مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف گھٹیا زبان استعمال کرنے کی وجہ سے روزی لگی ہوئی ہے ان کی وہ روٹی بند ہو جائے گی ۔ پس یہ نفس پرست مُلّاں ہیں جنہوں نے بد قسمتی سے پاکستانی حکومتوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور حکومتیں بھی اپنا الٰہ، اپنا معبود ان مُلاّؤں کو سمجھتے ہوئے آنکھیں اور کان بند کر دیتی ہیں۔
اے وہ لوگو! جو اپنی طاقت اور کثرت کے بل بوتے پر ظلم میں بڑھتے چلے جا رہے ہو اُس خدا سے ڈرو جو کہتا ہے سَنَسْتَدْرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ(الاعراف:183)( اور ہم انہیں آہستہ آہستہ ایسے راستوں سے جن کو وہ جانتے نہیں ہلاکت کی طرف کھینچ لائیں گے) پس اپنی ہلاکت کو آواز نہ دو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور زمانے کے منادی کی آواز پر کان دھرو کہ وہ بھی آیت اللہ ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ تمہاری مخالفت تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل کو اپنی فتح پر محمول نہ کرو۔ یہ ڈھیل تو تمہیں خدا تعالیٰ کے قول اُمْلِیْ لَھُمْ (کہ میں انہیں ڈھیل دیتا ہوں )کی وجہ سے مل رہی ہے۔ لیکن اس کے بعد کے انذاری الفاظ پر بھی ذرا غور کرو جن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔اِنَّ کَیْدِیْ مَتِیْن۔(الاعراف:184)( کہ میری تدبیر بڑی مضبوط ہے)۔ پس جب اللہ تعالیٰ حد سے بڑھے ہوؤں کے خلاف تدبیر کرتا ہے تو وہ انسانی سوچ کے دائرے سے باہر ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ کیا تدبیر ہو گی۔ لیکن یہ ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرتا ہے اور پورا کرے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ جو شخص خدا تعالیٰ کے مأمور کی مخالفت کرتا ہے وہ اس کی نہیں بلکہ حقیقت میں وہ خدا کی مخالفت کرتا ہے۔ یاد رکھو خدا تعالیٰ اگرچہ سزا دینے میں دھیما ہے مگر جو لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے اور بجائے اس کے کہ اپنے گناہوں کا اقرار کر کے خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں، الٹے خدا تعالیٰ کے رسول کو ستاتے اور دکھ دیتے ہیں، وہ آخر کار پکڑے جاتے ہیں اور ضرور پکڑے جاتے ہیں‘‘۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 412-413 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس اے احمدیو! تم اس ظلم پر پریشان نہ ہو کہ الٰہی جماعتوں سے یہی ہمیشہ روا رکھا گیا ہے۔ ان ظالموں کا معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑو۔ جماعتِ احمدیہ کی ترقی ،جیسا کہ میں نے کہا ہے، نہ پہلے کبھی ان واقعات سے رکی ہے نہ آئندہ انشاء اللہ رکے گی۔ ظالموں کو اللہ تعالیٰ پکڑے گا اور ضرور پکڑے گا۔ ہمارا کام خدا تعالیٰ کے حضور جھکنا ہے اور اس کی رحمت کو جذب کرنا ہے۔ جب ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ (آل عمران:194) کہ اے ہمارے رب! ہم نے یقینا ایک پکارنے والے کی آواز کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا اَنْْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُم کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ زمین و آسمان کا پالنے والا وہ خدا ہے جو تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا اور اس میں موجود ہر چیز کی پیدائش اور پرورش کرنے والا وہی رب ہے۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہیں اور آپؐ پر شریعت کامل ہوئی ہے۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ قرآن کریم آخری شرعی کتاب ہے جو رب العالمین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ فرشتے برحق ہیں اور جس طرح پہلے اپنے مفوضہ فرائض کو سرانجام دیتے تھے آج بھی سرانجام دیتے ہیں۔ وحی و الہام کرنے والے فرشتے جس طرح پہلے فعّال تھے آج بھی فعّال ہیں۔ روح القدس کی تائیدات جس طرح پہلے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں کے ساتھ تھیں آج بھی ساتھ ہیں۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ پہلے انبیاء پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتابیں نازل ہوئیں۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ تمام رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں کچھ شریعت اور کتاب لے کر اور کچھ اپنے سے پہلے انبیاء کی تعلیم کو آگے پھیلانے کے لئے۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ تمام رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس لحاظ سے سب برابر ہیں۔ اس بات پر ایمان لاؤ کہ قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آخرین میں جو نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں مبعوث ہونا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق مبعوث فرما دیا ہے۔ یہ سب سننے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ فَاٰمَنَّا۔ پس ہم ایمان لائے۔
اے عاشقِ رسول اور مسیح و مہدی! ہم تجھے ہی وہ منادی سمجھتے ہیں جس کے آنے کا خدا تعالیٰ نے اس زمانے میں وعدہ فرمایا۔ ہم کامل طور پر تیری اطاعت کرنے اور اس کامل شریعت کی پیروی کرنے کا عہد کرتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری۔ اور جسے اس زمانے میں دنیا میں پھیلانے کا کام خدا تعالیٰ نے اے مسیح موعود تیرے سپرد کیا۔ اے اللہ! مجیب الدعوات اور غفور الرحیم ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے تجھ سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ تا دمِ آخر ہمیں اس ایمان پر قائم رکھ جس کا عہد ہم نے تیرے فرستادے سے عہدِ بیعت کی صورت میں کیا ہے۔ رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ کَفِّرْعَنَّا سَیِّاٰ تِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِ ( آل عمران:194)اے ہمارے رب! تو ہمارے قصور معاف کر اور ہماری بدیاں ہم سے مٹا دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ وفات دے۔
پس ہم عہدِ بیعت اسی صورت میں نبھا سکتے ہیں جب ہم خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں، جب ہم برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ہماری موت تبھی ان نیک لوگوں کے ساتھ ہو سکتی ہے جب ہم اپنے اعمال پر نظر رکھیں ، جب ہم اپنے عہدِ بیعت کو نبھانے کی ہر دم کوشش کرتے رہیں ۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے عہدِ بیعت کو نبھایا ،جنہوں نے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی سند حاصل کی۔
ہم شہداء کے واقعات سنتے ہیں، بعض لکھنے والے مجھے لکھتے ہیں کہ آج کل خطبات میں جو شہداء کا ذکر ہو رہا ہے اور بعض کو ان میں سے ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں اور ان کا ذاتی تجربہ ہے یقینا ان میں سے ہر ایک اپنا عہد پورا کرنے والا اور ایک روشن چمکدار ستارہ تھا۔ قطب ستارے یا بعض ستارے تو ارضی راستوں کی نشاندہی کرتے ہوئے رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ عشق و وفا کے لہلہاتے کھیتوں کی طرف ہمیں لے جانے والے ہیں۔ پس یہ لوگ ہیں جنہوں نے عہدِ بیعت نبھایا ہے۔
حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحبؓ شہید کے ذکر کے بعد ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کویہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے، اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں‘‘۔
(تذکرۃ الشہادتین ،روحانی خزائن جلد20صفحہ 75)
پھر اپنے ایک کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سَرو کی کاٹی گئی اور میں نے کہا کہ اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو تا وہ بڑھے اور پھولے‘‘۔ اس کشف کو حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کے واقعہ پر محمول کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’ سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا۔ سو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی‘‘۔(تذکرۃ الشہادتین ،روحانی خزائن جلد20صفحہ 75-76)
پس جو مالی اور جانی قربانیاں کرتے ہوئے اپنے عہدِ بیعت کو نبھا گئے وہ بے شک اسی کشف کے مصداق اور اس شاخ کے بغل بچے ہیںجو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی صورت میں زمین میں گاڑی گئی تھی۔ یہ تو خدا تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس کو اس نے شہادت کا درجہ دینا ہے اور کس سے کسی اور رنگ میں کام لینا ہے۔ لیکن آج ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ اپنے عہدِ بیعت کو نبھاتے ہوئے اپنے اندر وہ انقلابِ عظیم پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے مقرب بنیں جو انقلاب زمانے کے منادی ہم میں روحانی طور پر پیدا کرنا چاہتے تھے۔ جو روحانی انقلاب اور مسیح محمدی سے تعلق حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحبؓ شہید نے دکھایا تھا وہ ہمیں پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے کلمے کی عملی تصویر بننے کے لئے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کارلانی چاہئیں۔ ورنہ رَبَّنَآ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ (آل عمران:194) کا نعرہ بے فائدہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ ہمارا ایمان کامل کرنے کے لئے آپ نے کیا طریق بتائے ہیں؟ یہاں کچھ ذکر کرتا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سب سے بنیادی چیز ایک مومن کے ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔ اور یہ ایمان اس وقت تک اعلیٰ درجے تک نہیں پہنچتا جب تک خدا تعالیٰ سے بے غرض محبت نہ ہو۔(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 508 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے وقف کر دے اور سپرد کر دے اور اعتقادی اور عملی طور پر اس کا مقصود اور غرض اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور خوشنودی ہو‘‘۔
(ملفوظات جلد 2 صفحہ 133جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
فرمایا: ایک ’’ حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ سے پیار کرتا ہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب و مولا پیدا کرنے والا اور محسن ہے، اس لئے اس کے آستانہ پر سر رکھ دیتا ہے۔ سچے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میں کچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ ہے اور نہ آرام ہیں نہ لذات ہیں تو وہ اپنے اعمالِ صالحہ اور محبتِ الٰہی کو ہرگز ہرگز چھوڑ نہیں سکتا۔ کیونکہ اس کی عبادات اور خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی فرمانبرداری اور اطاعت میں فنا کسی پاداش یا اجر کی بناء اور امید پر نہیں ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 133جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’ تمہارا فرض ہے کہ سچی توبہ کرو اوراپنی سچائی اور وفا داری سے خدا کو راضی کرو تا کہ تمہارا آفتاب غروب نہ ہو‘‘۔(ملفوظات جلد 2 صفحہ 140جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پس مسیح محمدی کی بیعت میں آ کر جس آفتابِ صداقت اور نورِ محمدی سے ہم احمدی فیض پا رہے ہیں جس سے دوسرے مسلمانوں نے باوجود اس سورج کے پاس ہونے کے فائدہ نہیں اٹھایا اس سورج کو ہمیشہ چمکتا اور روشن رکھنے اور فیض حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے تعلق کی ضرورت ہے۔
مجھے ان دہشتگردی کے واقعات کے بعد جس کثرت سے اس مضمون کے خط آ رہے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کے قریب ہوئے ہیں اور ہمارے ایمان میں ترقی ہوئی ہے اس تعلق میں خدا تعالیٰ کی قربت کے مزید مدارج طے کرنے کی طرف ہر احمدی کو اب مستقل مزاجی سے توجہ کی ضرورت ہے۔ پھر دیکھیں وہ خدا جو ہمارا خدا اور سب طاقتوں والا خدا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے گئے اپنے تائیدات کے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے کس تیزی سے اپنی تائیدات کے نظارے دکھاتے ہوئے دشمن کے ہر مکر کو اُس پر الٹاتا چلا جائے گا۔ آج تک ہم نے خدا تعالیٰ کی فعلی شہادتیں مسیح محمدی کے قائم کردہ اس سلسلے کے ساتھ ہی دیکھی ہیں اور اس کو دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں اور جو خدا آج تک جماعت احمدیہ کی حفاظت کرتا آیا ہے اور ترقی کی نئی راہیں دکھاتا رہاہے اور دکھاتا چلا جا رہا ہے وہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بھی دکھائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے دو فریق ہو گئے ہیں۔ جس طرح ہماری جماعت شرح صدر سے اپنے آپ کو حق پر جانتی ہے اسی طرح مخالف اپنے غلو میںہر قسم کی بے حیائی اور جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔ شیطان نے ان کے دلوں میں جما دیا ہے کہ ہماری نسبت ہر قسم کا افترا اور بہتان ان کے لئے جائز ہے اور نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا کام ہے‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ 176جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اور یہ بات آج بھی سچ ہے۔مجھے کسی نے بتایا کہ لاہور میں مسجد پر حملے کے بعد ان کا کوئی عزیز ٹیکسی پر بیٹھا تو باتوں باتوں میں ڈرائیور سے اس نے کہاکہ کیا خیال ہے یہ ظلم نہیں ہوا جواحمدیوں کی مسجد میں فائرنگ ہوئی ہے اور ظلم ہوا ہے؟ تو ڈرائیور نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ بالکل ٹھیک ہوا کیونکہ اس مسجد ( وہ مسجد تو نہیں کہتے عبادت گاہ کہتے ہیں) کے اندر یہ لوگ ایک بڑا خطرناک کام کر رہے تھے جس سے تمام امتِ مسلمہ تباہ ہو سکتی تھی ۔نعوذ باللہ۔ تو یہ باتیں علم نہ رکھنے والے عوام کے دماغوں اور دلوں میں جھوٹی کہانیاں سنا سنا کر ان نام نہاد علماء نے ہی بھری ہوئی ہیں۔ اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ، تا کہ اس کا جواز بنا کر پھر احمدیوں پر ظلم کئے جائیں۔
بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کی ان باتوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جھوٹ سچ کی تمیز تو اب ان کو رہی نہیں۔ ’’اس لئے اب ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو ان کے مقابلے میں بالکل چھوڑ دیں‘‘ یعنی ان کے الزامات پر صفائیاں پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’اور خدا تعالیٰ کے فیصلے پر نگاہ کریں‘‘ ۔اب مقابلے کو چھوڑ دیں اور خدا تعالیٰ کے فیصلے پر نگاہ کریں۔ ’’جس قدر وقت ان کی بیہودگیوں اور گالیوں کی طرف توجہ کرنے میں ضائع کریں بہتر ہے کہ وہی وقت استغفار اور دعاؤں کے لئے دیں‘‘۔
آپ فرماتے ہیں کہ’’ جس قدر وقت اُن کی بیہودگیوں اور گالیوں کی طرف توجہ کرنے میں ضائع کریں بہتر ہے کہ وہی وقت استغفار اور دعاؤں کے لئے دیں‘‘۔(ملفوظات جلد دوم صفحہ 176-177 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
ہاں تبلیغ کرنا ہمارا کام ہے اس لئے کہ بہت سے سعید فطرت حقیقت جاننا چا ہتے ہیں۔ ان کی رہنمائی بہرحال ہم نے کرنی ہے۔ اور یہ دیکھ کر خود اس لئے ہمارے پاس آتے بھی ہیں۔ اس لئے وہ کام تو جاری رہے گا۔ لیکن ان مولویوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کی ہر بات ہر گالی کا جواب دینے کے لئے جو بعض لوگوں کو خیال آتا ہے کہ دیا جائے، وہ غلط ہے۔ آپ اپنی طاقتیں ضائع کرنے کی بجائے اتنا عرصہ دعاؤں اور استغفار میں اپنا وقت گزاریں۔ کیونکہ یہ دریدہ دہن علمائے سوء جو ہیں ، ان کے ساتھ بحث کرنے کی ضرورت ہی کوئی نہیں، کیونکہ انہوں نے تو ماننا نہیں، چکنے گھڑے ہیں۔ ان کی روزی مرتی ہے۔
پس اگر ہم دعاؤں اور استغفار میں اس کا حق ادا کرتے ہوئے جُت گئے۔ اگر ہم نے مسیح محمدی کے ارشادات پر صحیح رنگ میں عمل کیا، وہ تبدیلیاں پیدا کر لیں جو اس زمانے کے امام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔اپنی راتوں کو دعاؤں سے سجاتے رہے۔ استغفار کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے رہے، تو یہ مخالفتیں اور ظلم جو درحقیقت جماعت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لئے کی جا رہی ہیں یہ جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتیں۔ ان مخالفتوں کے پھل یقینا جماعت کی کامیابی کی صورت میں لگنے ہیں اور ضرور لگنے ہیں اور لگ رہے ہیں اوردنیا کی کوئی طاقت ہزار کوششوں کے باوجود بھی جماعت کو پھلنے پھولنے اور بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔اگر ہمارا اپنے معبودِ حقیقی سے تعلق مضبوطی کی طرف بڑھتا چلا جائے تو جماعت کی عظیم کامیابیوں کو ہم اپنی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ بڑا احمق ہے دشمن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے مالی نقصان ہمیں اپنے دین سے پیچھے ہٹا دیں گے۔ بڑا کم عقل اور خوش فہم ہے ہمارا دشمن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے جانی نقصان ہمارے ایمان میں کمزوری پیدا کر دیں گے۔
ہم نے تو یہ نظارے دیکھے ہیں کہ باپ کے شہید ہونے پر اس کے نو دس سالہ بیٹے کو ماں نے اگلے جمعہ مسجد میں جمعہ پڑھنے کے لئے بھیج دیا اور کہا کہ وہیں کھڑے ہو کر جمعہ پڑھنا ہے جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا تا کہ تمہارے ذہن میں یہ رہے کہ میرا باپ ایک عظیم مقصد کے لئے شہید ہوا تھا، تا کہ تمہیں یہ احساس رہے کہ موت ہمیں اپنے عظیم مقصد کے حصول سے کبھی خوفزدہ نہیں کر سکتی۔ جہاں ایسے بچے پیدا ہوں گے، جہاں ایسی مائیں اپنے بچوں کی تربیت کر رہی ہوں گی وہ قومیں کبھی موت سے ڈرا نہیں کرتیں۔ اور کوئی دشمن ، کوئی دنیاوی طاقت ان کی ترقی کو روک نہیں سکتا۔
یہ مالی اور جانی نقصان ہونے کی اطلاع تو آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے خدا نے ہمیں دے دی تھی اور ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے عمل سے اس کی مثالیں بھی قائم فرما دی تھیں اور جب آخرین کو پہلوں سے جوڑا تو یہ واضح کر دیا کہ یہ مثالیں آخرین بھی قائم کریں گے۔ اور پھر بَشِّرِ الصَّاِبرِیْن (البقرۃ: 156) کہہ کر آخرین کو بھی ان قربانیوں کے بدلے جنتوں اور فتوحات کی خوشخبری سنا دی۔
پس ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ان واقعات نے جو جماعتی قربانی کی صورت میں ہوئے جس طرح پہلے سے بڑھ کر ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف راغب کیا ہے، اس جذبے کو، اس ایمانی حرارت کواللہ تعالیٰ کے حضور اپنی آہ و بکا کے عمل کو، اپنے اندر پاک تبدیلیوں کی کوششوں کو کبھی کمزور نہ ہونے دیں، کبھی کمزور نہ ہونے دیں، کبھی اپنے بھائیوں کی قربانی کو مرنے نہ دیںجو اپنی جان کی قربانیاں دے کر ہمیں زندگی کے نئے راستے دکھا گئے۔ اگر ہم نے اپنی سوچوں اور اپنے عملوں کو اس نہج پر چلایا تو خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت کے نظارے بھی ہم دیکھیں گے، انشاء اللہ۔ اور اَلَا اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْب (البقرۃ: 215) (یاد رکھو کہ اللہ کی مدد یقینًا قریب ہے) کی جاںفزا اور پُرشوکت آواز بھی ہم سنیں گے۔ اور اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُبِینًا (الفتح: 2) کی خوشخبری اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ پس خدا کے حضور جھک جائیں اور اپنے خدا کے حضورجو سب طاقتوں کا مالک ہے جو مجیب الدعوات ہے اس طرح چِلّائیں کہ عرش کے کنگرے بھی ہلنے لگیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی ایسی دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے۔
اے اللہ! تو ہم کمزوروں کو باوجود ہماری تمام تر کمزوریوں کے ہر آن اپنے مسیح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق سے کئے گئے وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے دکھاتا چلا جا۔ ہماری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرما۔ ہمارے گناہوں کو معاف فرما۔ ہمیں اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے۔ کبھی کوئی ابتلاء، کوئی امتحان ہمارے ایمانوں میں کمزوری پیدا کرنے کا باعث نہ بنے۔ ہمارے ایمانوں میں پہلے سے بڑھ کر مضبوطی عطا فرما۔ ہماری پردہ پوشی فرما۔ مخالفین اور منافقین کے ہر شر سے ہمیں بچا۔ مخالفین پر ہمیں فتح و کامیابی عطا فرما۔ رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَاعَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (البقرۃ251)
اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں اپنے سب شہداء اور ان کے خاندانوں کو بھی یاد رکھیں، اسیران کو بھی یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے اور خیریت سے اپنے گھروں کو لے کر جائے۔ اب دعا کر لیں۔