خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزمورخہ18؍ستمبر2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَاتِ۔ اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَاتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (البقرہ آیت149)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ آپ نے رپورٹ میں بھی سن لیا اور آپ سب جانتے ہیں لیکن دنیا کو بتانے کے لئے میں بتارہا ہوں کہ آج خدام الاحمدیہ جرمنی کا اجتماع اختتام کو پہنچ رہا ہے اور اسی طرح خدام الاحمدیہ برطانیہ کا اجتماع بھی اس وقت live ٹرانسمشن کے ذریعہ اپنے ختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اسی طرح لجنہ اماء اللہ جرمنی کا اجتماع بھی میری اس تقریر کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے ۔
مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ لوگوں نے اس اجتماع کے پروگراموں سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہوگا ۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہوا ہو۔ شاید جرمنی کے خدام الاحمدیہ کا یہ تیسرا اجتماع ہے جس میں مَیں شامل ہورہا ہوں ۔ ہمارا جو خدام الاحمدیہ کا مرکزی ڈیسک ہے اس کے ذریعہ سے گو صدر خدام الاحمدیہ جرمنی کا ایک ہلکا سا پیغام ملا تھا کہ میں جرمنی کے اجتماع میں شامل ہوں لیکن وہ پیغام اتنا لیٹ تھا کہ اُس سے پہلے مَیں خود ہی یہاں آنے کا ایک پروگرام بنا چکاتھا ۔ اس لئے بہرحال ان کی شاید نیت اور ہو ڈرتے ڈرتے انہوں نے پیغام دے دیا۔اور وہ پیغام بھی بڑے ڈرتے ڈرتے مجھے ملا تھا کیونکہ اُس میں کوئی ایسی پُرجوش دعوت نظر نہیں آرہی تھی ۔ بہرحال یہ صدر صاحب کی خواہش تھی یا جو بھی دلی جوش سے پیغام تھا لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا ، مَیں اس سے پہلے ہی سوچ رہا تھا کہ اس سال جرمنی کے اجتماع میں شامل ہوں اگر چہ انہیں تاریخوں میں خدام الاحمدیہ یوکے (UK)کا جو اجتماع ہے اُس کو چھوڑنا پڑے گا۔
بہرحال جماعت احمدیہ جرمنی فعال جماعتوں میں سے ہے اور خدام الاحمدیہ جرمنی بھی اُن فعال مجالس میں سے ہے جن کے اجتماعوں میں شامل ہونے کو دل کرتا ہے۔ اس لئے مَیں نے پروگرام بنایا کہ ضرور شامل ہوں ۔ اللہ کرے کہ جرمنی کا یہ دورہ اور خدام اور لجنہ کے اجتماعات میں میرا شامل ہونا جماعت جرمنی اور خاص طور پر دونوں ذیلی تنظیموں بلکہ انصاراللہ کے لئے بھی فائدہ مند ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ مَیں نے کہاجرمنی کی جماعت اور ذیلی تنظیمیں فعال جماعتوں اور تنظیموں میں شامل ہیں ۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ایک کوشش کے بعد ایک اعزاز تو حاصل ہوجاتاہے لیکن اُس اعزاز کو قائم رکھنا، یہ بہت زیادہ کوشش کا تقاضا کرتا ہے ۔ اور بہت زیادہ محنت طلب کام ہے اور جب تک پورا جماعتی نظام اور ذیلی تنظیمیں اس حقیقت کو سمجھ کراپنا اپنا کردار ادا نہیں کرتیں ، اُس اعزاز کو قائم نہیں رکھ سکتیں جس تک وہ پہنچ چکی ہوں ۔
پس یہ بیشک ایک خوشی کا مقام ہے کہ خدام الاحمدیہ جرمنی اوپر کی چند اچھی مجالس میں سے ایک ہے ۔ لیکن اس بات کو کہ آپ فعال مجالس میں سے ایک ہیں ، آپ لوگوں کو فکر میں ڈالنے والا ہونا چاہئے ۔ اس لئے بھی کہ ہم نے جو مقام حاصل کیا ہے کہیں اُس سے نیچے نہ گر جائیں ۔ اور اس لئے بھی کہ مومن کی یہی شان ہے اور ترقی کرنے والی قوموں کا یہ نشان ہے کہ اُن کے قدم آگے کی طرف بڑھتے ہیں اور جو الہٰی جماعتیں ہوتی ہیں اُن کی آگے بڑھنے کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں ۔ اُن کے مقاصد اور ہوتے ہیں جن کووہ اپنے سامنے رکھتے ہیں ۔ الہٰی جماعتیں اور اُن کے ماننے والے دنیا کی جاہ وحشمت اور مال ودولت کو اوّلین ترجیح نہیں دیتے ۔ گو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اِس کو بھی حاصل کرتے ہیں اور کرنا چاہئے تاکہ اِس کو دین کے تابع کرکے دین کی ترقی کا ذریعہ بنائیں ۔ لیکن اصل میں یہ الہٰی حکم اُن کے پیش نظر ہوتا ہے اور ہونا چاہئے کہ فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰتِ یعنی نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اِس کو بیان فرمایا ہے ۔ اس آیت میں جو مَیں نے تلاوت کی ہے یہی بیان فرمایا ہے ۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :۔
’’اور ہرایک کے لئے ایک مطمحِ نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے ۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ تم جہاں کہیں بھی ہوگے اللہ تمہیں اکٹھا کرکے لے آئے گا۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدر ت رکھتا ہے۔‘‘
پس یہ وہ مطمحِ نظر ہے جسے ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے ۔ دنیا میں ترقی اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی مقصد سامنے ہو ۔اگر مقصد نہیں تو ترقی بھی نہیں ہوتی ۔ سائنس میں نئی نئی ایجادات اس لئے ہورہی ہیں کہ ایک مقصدکو قائم کرکے اُس کے لئے کوشش کی جاتی ہے ۔ پہلے ایک خیال قائم کیاجاتا ہے ۔پھر اُس خیال تک پہنچنے کے لئے مختلف راستے تلاش کئے جاتے ہیں ۔ پھر اس ریسرچ کے لئے وہاں پہنچنے کے لئے اخراجات ہوتے ہیں ۔ حکومتوں سے مدد مانگی جاتی ہے ۔ فنڈ لئے جاتے ہیں ، سالوں محنت کی جاتی ہے ،پھر ایک نئی چیز سامنے آتی ہے ۔ اور جتنا ریسرچ پہ خرچ ہوتا ہے وہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اگر کسی وقت میں اس کو کمرشلائیز(Commercialise) نہ کیا جائے تو شاید ان کمپنیوں کا دیوالیہ ہوجائے ۔ لیکن بہت ساری ریسرچ اس لئے بھی ہوتی ہے کہ دنیا کو فائدہ پہنچایا جائے۔ اس لئے تحقیق ہوتی ہے کہ دنیا کو فائدہ پہنچایا جائے اور اس کے لئے حکومتیں بہت بڑے بڑے بجٹ رکھتی ہیں ۔بعض ریسرچ ایسی ہوتی ہیں کہ انسان کے فائدے کے لئے ہیں اور بعض بے فائدہ بھی ہیں بلکہ الٹا نقصان ان سے پہنچتا ہے ۔
احمدی طلباء کو مَیں ریسرچ میں جانے کا جوکہتا ہوں تو ایک تو اس لئے کہ ایک احمدی کے علم میں اضافہ ہونا چاہئے اور یہ بڑا ضروری ہے اورایک اس لئے کہ انسانیت کے فائدے کے لئے جو بھی کوشش ہوسکتی ہے وہ کرنی چاہئے ۔ایک اس لئے کہ ملک کی ترقی کے لئے احمدی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ۔ ایک اس لئے کہ جماعت کا فرد ہونے کی حیثیت سے ایک احمدی کو اپنا مقام منوانا چاہئے کہ میں ایک احمدی ہوں اورمیری ایک شان ہے اور میرا ایک مقام ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی احمدی بستا ہواُس کی ایک پہچان ہونی چاہئے اور آج کل بلکہ ہمیشہ سے علم ایک بہت بڑی دولت ہے جس کے ذریعے سے انسان کی پہچان ہوتی ہے ۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بعض ریسرچ بے فائدہ ہوتی ہے اور ایک مومن کو اس سے بچنا چاہئے ۔ بلکہ اس کے خلاف دلائل رکھتے ہوئے اُسے روکنا چاہئے ۔اگر ہمارے نوجوان پڑھے لکھے نہیں ہونگے ، ریسرچ میں نہیں ہونگے تو ان نئی تحقیقات کی اچھائیاں ، برائیاں کس طرح بتاسکیں گے ۔ الیکٹرانکس کی ٹیکنالوجی میں آج دنیا آگے بڑھ رہی ہے تو بعض لغویات کا نفوذ بھی اس کے ساتھ ساتھ ہورہا ہے ۔ بیہودگیاں بھی پھیل رہی ہیں ،جس سے نئی نسل کے اور قوم کے اخلاق بگڑ رہے ہیں۔ اسی طرح بیالوجی میں کلونگ وغیرہ کی جو ریسرچ ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ، خلق میں دخل اندازی ہے۔ اس ریسرچ پر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم مخلوق میں جو یہ تبدیلیاں کرنے کی کوشش کررہے ہو، یہ تمہیں آخرکار جہنم میں لے جانے والی بنیں گی ۔ پس احمدی کی ریسرچ یا کسی مقصد کے حصول کے لئے کوشش اُس کام میں ہوگی اور ہونی چاہئے جو نیکیوں میں بڑھانے والا ہو۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو۔ علم بیشک بہت بڑی دولت ہے اور اس کے لئے محنت کرنی چاہئے لیکن ایک احمدی کا سب سے بڑا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اور علم کو اُس کے تابع کرنا ہے ۔
پس یہ دنیاوی ریسرچ اور دنیاوی علوم میں ترقی کرنا بھی بیشک ہمارا مطمحِ نظر ہے اور اس سوچ کے ساتھ ہے کہ اس کو دین کے تابع کرکے دین اور انسانیت کے لئے کارآمد اور مفید بنانا ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن کا کام ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے ۔ ایک احمدی نوجوان یاشخص اگراپنی دنیاوی تعلیم اور تحقیق میں آگے بڑھ گیا ہے جو انسانیت کے لئے مفید اور کارآمد بھی ہے لیکن اگر اس کا خدا تعالیٰ کے حق اداکرنے کا خانہ خالی ہے تو فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰتِ پر عمل کرنے والا نہیں ہے ۔ اگر اپنے علم کے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں ترقی کررہا ہے اور بندوں کے حق ادا نہیں کررہا تو وہ فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰتِ پر عمل کرنے والا نہیں ہے ۔
پس ہمیں ان باتوں کی تلاش بھی کرنی پڑے گی جن کو خداتعالیٰ نے خیرات اور نیکیوں میں شمار فرمایا ہے کیونکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان کر ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے ۔ اور جو ترقی ہمیں خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے سے روکتی ہے ، جو ترقی ہمیں دین کے حق ادا کرنے سے روکتی ہے وہ ترقی نہیں بلکہ جہالت ہے ۔ مثلاً دین اور خداتعالیٰ کی بندگی کے حق ادا کرنے کی بات ہے تو اُس کی ایک موٹی مثال مَیں دیتا ہوں ۔ عید ایک ایسا اسلامی تہوار ہے جس میں سوائے اشد مجبوری کے شامل ہونا ضروری ہے ۔ اب دیکھا گیا ہے کہ بعض سٹوڈنٹس اپنی یونیورسٹی یا سکول ، کالج کی کلاسوں کا بہانہ کرکے اِس میں شامل نہیں ہوتے ۔ حالانکہ اپنے طور پر اگر چاہیں تو کئی کئی دن کی چھٹیاں کرلیتے ہیں ۔ ابھی چونکہ حال ہی میں عید گزری ہے اس لئے اُس کی مثال میرے سامنے آئی ہے ۔ بعض لڑکوں کو مَیں جانتا ہوں کہ انہوں نے مجبوری کا عذر کیا ہے ۔ حالانکہ اگر پہلے ہی پلان کرکے یونیورسٹی کا یاکالج اورسکول کوبتایا ہوتا تو رخصت بھی مل جاتی ۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگ جو اس مغربی ماحول میں رہ رہے ہیں ،جہاں دینی قدروں کی اہمیت بہت کم ہے ۔ اگر آپ احمدیوں نے ، جن کا دعویٰ ہے کہ ہم اُس امام کو ماننے والے ہیں جس نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی روح ہم میں پھونکی ہے، اور اپنے ہر اجتماع اور اجلاس میں ہم عہد دہراتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گے ۔ اگر آپ لوگوں نے دین کے بارے میں کمزوری دکھائی تو یہ ان نیکیوں میں آگے بڑھنے کے خلاف ہے جن کی طرف خداتعالیٰ اور اُس کا رسول ؐ ہمیں بلارہے ہیں ۔
جیسا کہ مَیں نے کہا بعض مجبوریوں میں تو بعض فرض عبادتیں بھی آگے پیچھے ہوجاتی ہیں اور نوافل بھی چھوڑے جاسکتے ہیں ۔ جیسے امتحان وغیرہ کی بعض دفعہ طلباء کو مجبوری ہوجاتی ہے ۔ لیکن صرف کلاسوں کے لئے ، صرف اپنے کاروبار کے نقصان سے بچنے کے لئے ، صرف اپنے دنیاوی مقاصد کے لئے ،دین کو پسِ پُشت ڈالنااور دنیا کو آگے رکھنا، یہ بات اپنے عہدوں کے پوراکرنے کی نفی کرتی ہے ۔ پس اصل چیز یہ ہے کہ ہم جو احمدی کہلاتے ہیں اور یہ احمدی نام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جماعت کا رکھا ہے تو یہ اس لئے رکھا تھا کہ دنیاکو پتہ چلے کہ احمدی زمانے کے امام کو ماننے والے مسلمان ہیں ، اور زمانے کے امام کو مان کر اس لحاظ سے دوسروں سے مختلف ہوگئے ہیں کہ ان کا مطمحِ نظر فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰتِ ہے ۔نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے ۔ آج اسلام کی عزت اورپاس ہم نے رکھنا ہے ۔ یہ ہمارے پر فرض ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی توقعات پرہم نے پورا اترنے کی کوشش کرنی ہے ۔ اور کوشش کرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ سستیاں دکھاتے رہے اور کہہ دیا کہ ہم نے کوشش کی تھی اور کوشش کررہے ہیں ۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ نیکیوں کے حصول کی کوشش کرنی ہے ۔ اور کوشش یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس مقصد کے حصول اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نام کی عزت کے لئے قربانی کی حد تک لے کر جانا ہے ۔ پھر معاملہ خدا پہ چھوڑنا ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :۔
’’ ہماری جماعت کے لوگوں کو نمونہ بن کر دکھانا چاہئے اور جوشخص ہماری جماعت میں ہوکر برا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے ۔ کیونکہ وہ تمام جماعت کو بدنام کرتا ہے اور ہمیں بھی اعتراض کا نشانہ بناتا ہے ۔‘‘ فرمایا :۔’’پس اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے اور اس میں غور کرنا چاہئے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے ۔ انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونا چاہئے ۔ جس کا آج اورکل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہوگیا وہ گھاٹے میں ہے ۔ ‘‘ فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ کی نصرت اُنہی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں ۔ ایک جگہ ٹھہر نہیں جاتے ۔‘‘ فرمایا:۔ ’’ ٹھہرا ہوا پانی آخرگندہ ہوجاتا ہے ۔ ‘‘
(ملفوظات جلد پنجم جدید ایڈیشن صفحہ455,456)
پس اللہ تعالیٰ نے جو مطمحِ نظر ہمارا مقرر فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو۔ ایک جگہ کھڑے نہ ہوجاؤ ۔ اسی پر قناعت نہ کرلو کہ ہم نے بہت نیکیاں کرلیں ۔ ہم نے پانچ وقت نمازیں پڑھ لیں ۔ یہ بہت ہی بڑی نیکی ہے ۔ نہیں ! بلکہ ہرقسم کی نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانا ہے ۔ اور ایک جگہ کھڑے ہونے والے اور نیکی میں ترقی نہ کرنے والے کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ جیسے کھڑا پانی ہو۔چلتا پانی ہمیشہ صاف شفاف رہتا ہے ۔ گند کو بہا کرلے جاتا ہے ۔ لیکن کھڑاپانی آہستہ آہستہ بدبودار ہوجاتا ہے ۔ پس انسانی فطرت میں بھی یہی ہے۔ اگر اس میں یہ احساس نہیں کہ اپنی نیکیوں کو ہر وقت ٹٹولتا رہے ، جائزہ لیتا رہے۔یہ جائزہ لے کہ کہیں وہ ایک جگہ کھڑا تو نہیں ۔اگرکھڑا ہے تو یہ بہت خطرناک چیزہے۔ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ہزاروں چور ، ڈاکو ،شیطان اُس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ جو اُس کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے اور پھر انسان کھڑے پانی کی طرح ہوجائے گا۔ جو کچھ عرصے بعد بدبودار پانی بن جاتا ہے ، جو نقصان دہ ہوجاتا ہے ۔
پس خدام الاحمدیہ جماعت احمدیہ کا وہ طبقہ ہے جنہوں نے اپنے آپ کو اس تنظیم سے منسلک کیا ہے جو احمدیت کے خدام ہیں ۔جنہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ دین کودنیا پر مقدم رکھیں گے اور اس کی خاطر اپنی جان ،مال، وقت اور عزت قربان کریں گے ۔خلافت احمدیہ کے قائم رکھنے کیلئے ہر قربانی کیلئے تیار رہیں گے۔ خلیفہ وقت کا ہر حکم جو معروف ہے جو فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰتِکی طرف توجہ دلانے والا ہے، اس پر عمل کرنے کیلئے ساری قوتیں صرف کر دیں گے پس آپ اپنے عہد کی طرف توجہ دیں ۔اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں پوچھنا کی تم نے کتنے یورو یا پاؤنڈ کمائے؟ خداتعالیٰ نے یہ نہیں پوچھنا کہ تم نے کتنا دنیاوی علم حاصل کیا؟ خداتعالیٰ نے یہ نہیں پوچھنا کہ تم نے اپنے دنیاوی مقاصدکو کس حد تک حاصل کر لیا؟ ہاں جس بات کا خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں پوچھوں گا وہ یہ ہے کہ تم نے کس حد تک اپنے عہد کو اپنی تمام تر طاقتوں سے نبھانے کی کوشش کی۔ تم نے کس حد تک میرے حُکموں پر عمل کیا ہے ۔اگر کیا ہے تواللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آؤ اور میری رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ ۔پس یہ وہ عظیم مطمحِ نظر ہے جسے ہم میں سے ہر ایک کو سامنے رکھنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ ہماری رہنمائی فرماتے ہوئے ہمیں اس راستے پر ڈال دیا جو خداتعالی کی رضا کے حصول کا راستہ ہے ۔اور نیکیوں میں یہ آگے بڑھنا صرف ذاتی فائدہ کیلئے نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کو بیان فرماکر اور ہر فرد ِجماعت کو اس طرف توجہ دلا کر قومی اور جماعتی ترقی کا ایک ایسا گُربھی بتا دیا ہے جس پر چل کر ہماری جماعتی ترقی کی رفتار بھی ہزاروں گُنا ہو سکتی ہے اورقومی ترقی کی رفتار بھی ہزاروں گنا ہو سکتی ہے ۔ صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کا راز یہی تھا کہ انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ فلاں شخص میں کیا کمزوری یا برائی ہے ۔بلکہ یہ دیکھا کہ فلاں شخص میں کیا خوبی اور نیکی ہے اور اُس سے آگے بڑھنے کی کو شش کی ۔ یہ با تیں ہیں جن میں ہرایک نے بڑھنے کی کوشش کی۔ اگر دوسری نیکیاں ہیں تو اس میں ہر ایک نے بڑھنے کی کوشش کی۔
حضرت عمرؓکا واقعہ بیان ہوتا ہے ۔ ایک دفعہ بہت زیادہ مال ودولت ان کے پاس آیا تو اس میں سے نصف اُٹھا کر لے آئے کہ آج میں حضرت ابوبکرؓ سے آگے نکل جاؤں گا ۔تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓسارا سامان لے کر آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا کہ گھر میں بھی کچھ چھوڑا ہے توحضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کو چھوڑکر آیا ہوں ۔سب گھر کا تمام سامان لے آیا ہوں ۔حضرت عمر ؓنے سوچا اور کہاکہ مَیں نصف لاکر بڑا فخر کر رہا تھا۔میں کبھی بھی حضرت ابوبکر ؓسے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔تو یہ مسابقت کی روح تھی جو اُن لوگوں میں آگے بڑھنے کے لئے تھی۔
پھر صحابہؓ ہی تھے جن کی آنکھوں سے اس بات پر آنسو بہتے تھے کہ آج ہمارے پاس بھی مال ہوتا ،سواری ہوتی ،ہتھیار ہوتے تو ہم بھی جہاد میں حصہ لے سکتے تھے۔ پھر صدقہ و خیرات میں آگے بڑھنے والے لوگ تھے تو غریب لوگوں کو خیال آیا کہ یہ ہمارے سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اورپوچھا یہ آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔آپ نے فرمایا کہ ہر فرض نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ اورالحمدللہ اور اللہ اکبر پڑھا کرو تو تمہاری بھی یہ صدقہ و خیرات کی کمی پوری ہو جا ئے گی ۔کچھ دنوں کے بعدامیر لوگوں نے بھی یہ پڑھنا شروع کر دیا ۔تو اس طرح ہر ایک میں ایک مسابقت کی روح تھی ۔نیکی میں آگے بڑھنے کی روح تھی جس کو ان لوگوں نے اختیار کیا اور پھر دنیا میں انقلاب پیدا کر دیا ۔بچوں اور نوجوانوں نے اس زمانے میں یہ نہیں سوچا کہ یہ عبادتیں کرنا اور نیکیوں میں آگے بڑھنا بڑوں کااور بوڑھو ں کا کام ہے ۔بلکہ نوجوان صحابہؓ نے بھی کوشش کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض دفعہ ساری ساری رات عبادت بھی کی،اپنے معیاربڑھائے۔بلکہ ابتداء میں آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کوماننے والوں میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگئی تھی جنہوں نے نیکیوں میں سبقت لے جا کر اسلام کے حق میں سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کیا ہے ۔
آج مسیح محمدی بھی جن کو آخرین میں ہونے کے باوجود اوّلین سے ملنے کی خوشخبری ملی ہے ہم سے یہی تقاضا فرما رہے ہیں کہ نیکیوں میں آگے بڑھو، تا خدا تعالیٰ کی نصرت شامل ہو۔ اور جماعت من حیث الجماعت ، ترقی کی منازل چھلانگیں مارتی ہوئی طے کرتی چلی جائے۔اور جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مثال دے کر فرمایا ہے کہ کھڑا پانی بدبودار ہو جاتا ہے۔ ہر قسم کی نیکی کو اختیار کرنا اور اُس میں آگے بڑھنا ہی ایک احمدی کو جماعتی ترقی میں صحیح کردار ادا کرنے والا بنائے گا، ایک نوجوان کو بنائے گا،ایک بچے کو بنائے گا۔ جب تک ہم سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے اس سوچ کو اپنے اوپر حاوی نہیں کر لیں گے کہ آج اس زمانے میں اسلام کی فتح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر مقدر کر رکھی ہے اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا ایک حصہ ہیں، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست و بازو بن کرخدا تعالیٰ کی اس تقدیر میں حصہ دار بننا ہے تو اُس وقت تک ہم فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰتِ کا حق ادا نہیں کر سکتے۔
پس یہ سوچ ہمیں ہر وقت اپنے اوپر طاری رکھنی پڑے گی ۔سورۂ کہف میں بھی جب دین کو محفوظ کرنے اور حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیم کو بچانے اور اُس پر عمل کرنے کا ذکر ملتا ہے تو نوجوانوں کا ہی ذکر ملتا ہے۔تو کیا آج مسیح محمدی کے خدام ، وہ نوجوان جنہوں نے یہ عہد بھی کیا ہے اور خلافت کے زیرِ سایہ اس عہد کو ہمیشہ دہراتے بھی رہتے ہیں ۔ وہ اپنا کردار ادا نہیں کریں گے؟اور دین کو دنیا پر غالب کرنے کے لئے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور اپنے ساتھیوں کو بھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ یقیناً جس طرح ہمارے سابق اسلاف کرتے آئے ہیں آج بھی کریں گے۔انشاء اللہ ۔ بلکہ میں تو کچھ عرصہ سے بعض نوجوانوں کے چہروں پر وہ عزم دیکھ رہا ہوں جو اس بات کا اظہار کر رہا ہے کہ ہم اپنے عملی نمونے دکھا کر، اپنے علم میں اضافہ کر کے اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق کی حفاظت اورادائیگی کرکے اس ملک کے کونے کونے میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا کر اس قوم کی دنیا اورعاقبت سنوارنے کی کوشش کریں گے۔ انشاء اللہ۔پس آج میں آپ نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ چند ایک کاسوال نہیں ہے بلکہ اُن تمام نوجوانوں کوجو اپنے آپ کو مسیحِ محمدی سے منسوب کرتے ہیں آج ایک عزم کرنا ہوگا، ایک عہد کی تجدید کرنی ہوگی اور اس عہد کی تجدید کرکے یہاں سے اُٹھنا ہوگا کہ نیکیوں میں آگے بڑھنے اور اس کو پھیلانے کے لئے ہم ہر قربانی دیں گے۔ اپنی دنیاوی خواہشات کو پسِ پشت ڈال دیں گے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خدام الاحمدیہ اس لئے قائم فرمائی تھی کہ نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ۔ نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہو کہ ہم جماعت احمدیہ کا ایک ایسا مفید وجود ہیں جس نے اپنی تمام تر صلاحیتیں خدا تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے اور جماعت کی ترقی کے لئے اپنا کردار ادا کرنے، نیکیوں میں اعلیٰ مقام پیدا کرنے اور ان میں بڑھتے چلے جانے کے لئے صرف کرنی ہیں ۔ یہ نہ دیکھیں کہ ہمارے بڑے کیا کر رہے ہیں ۔اگر بڑے اپنا کردار ادا نہیں کر رہے تو یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ پھر ہم کیوں کریں ۔اُن کی مثال آپ نے نہیں دیکھنی۔ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ اگر تم فلاں کو دیکھ کر اپنا حق اور فرض ادا نہیں کر رہے تو فلاں کو سزا ملے گی اور تم بخش دئیے جاؤ گے۔ جس کا نمونہ تم نے دیکھا تھا اُس کو سزا ملے گی اور تم بخش دئیے جاؤ گے۔ جس شخص کو دیکھ کر تم آپ بھی اپنی اصلاح نہیں کر رہے، اُس شخص کے ساتھ تواللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کرنا ہے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ہر ایک کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے معاملات ہوتے ہیں لیکن تمہیں خدا تعالیٰ کی با ت نہ ماننے اور اپنے عہدکو نہ نبھانے کے بارے میں اللہ تعالیٰ ضرور پوچھے گا۔ یہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ پس نہ کسی کی نیکیوں نے کسی دوسرے کو بخشوانا ہے اور نہ کسی کے غلط کاموں نے کسی دوسرے کو سزا دلوانی ہے۔ہر ایک اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے ۔
حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خدام الاحمدیہ اس لئے قائم فرمائی تھی کہ اگر جماعت کے بڑے اپنا کردار ادا نہیں کررہے تونوجوان سامنے آئیں اور اپنی ذمہ داری سمجھیں ، لجنہ سامنے آئے اور اپنی ذمہ داری سمجھے تاکہ جماعت کا کام آگے بڑھتا چلا جائے۔ اور جب جماعتی نظام بھی اور تمام ذیلی تنظیمیں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہونگی، فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰت کے حصول کے لئے ہر ایک کوشش کررہا ہوگاتو جماعت کی ترقی کئی گُنا ہو جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جو آگے بڑھنے والے ہیں وہ ایک قدم اوپر جا کر نیچے رہنے والوں کا ہاتھ پکڑ کر اُنہیں بھی اوپر لائیں ۔ اگر نوجوان بہت اوپر چلے جائیں تو رسہ پھینک کر، سیڑھیاں لگا کرکمزوروں کو بھی اوپر کھینچنے کی کوشش کریں ۔ اگر نوجوان نیکیوں میں آگے بڑھیں گے تو پھر سچائی کے پرچار اور اسے اپنے اوپر لاگو کرنے میں بھی آگے بڑھیں گے ۔حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی آگے بڑھیں گے۔ جب نوجوانوں کے یہ قدم آگے بڑھ رہے ہوں گے تو اگر بڑوں میں کمزوری ہے تو اُنہیں خود بخود شرم آجائے گی۔ آپ لوگ راستے دکھانے والے بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جائیں گے۔
مَیں یہ نہیں کہہ رہا کہ خدانخواستہ یہاں بڑوں کی اکثریت نیکیوں کی طرف توجہ دینے والی نہیں ہے یا دنیا کے کسی بھی ملک میں یہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ میں نوجوانوں کے ذہنوں سے اس بات کو زائل کرنا چاہتا ہوں کہ اُن کا یہ بہانہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا کہ ہم نے تو بڑوں کے نمونے دیکھنے ہیں ۔ خلیفہ ٔوقت جب جماعت سے مخاطب ہوتا ہے تو اُس میں نوجوان بھی شامل ہیں ، بوڑھے بھی شامل ہیں ، مرد بھی شامل ہیں ، عورتیں بھی شامل ہیں ۔ یہ کبھی کسی خلیفۂ وقت نے نہیں کہا ، یہ کہیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہیں فرمایا ، یہ کہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد نہیں فرمایا ، یہ کہیں قرآن کریم کی تعلیم میں ہمیں نظر نہیں آتا کہ نوجوانوں سے پہلے بوڑھے مخاطب ہوں ۔ اگر اس طرح کی بات ہوتو جماعتی ترقی رک جائے کہ جب تک سب بڑے بوڑھے ٹھیک نہ ہو جائیں نوجوانوں کی بھی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ پس ہر ایک کو اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔ اس مقصد کے لئے آپ کی علیحدہ ایک تنظیم بنائی گئی تھی۔ اس مقصد کو سمجھنا ہوگا کہ کیوں آپ علیحدہ خدام الاحمدیہ کے نام سے موسوم ہیں ؟ کیوں تنظیم بنی ہے؟ اس مقصد کے لئے آپ کے مختلف پروگرام اور اجتماعات ہوتے ہیں ۔ اور آپ نوجوان ہی ہیں جنہوں نے آئندہ جماعت کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں ۔
اگر آج اس مقصد کو آپ سمجھ لیں جو آپ کی تنظیم کا ہے تو کل کے آنے والے نوجوانوں کی آپ پر کبھی اس بات پر اُنگلی نہیں اُٹھے گی کہ ہمارے بڑے کام نہیں کر رہے، کیوں کہ کل کو آپ نے بڑے بنناہے، یا یہ کہ انہوں نے کام نہیں کیا اور ترقی کی رفتار رک گئی ۔اس بات کویاد رکھیں کہ آج کے نوجوان کل کے بڑے ہیں ۔ اور آج آپ کی اصلاح نے ہی آئندہ قوم اور جماعت کی ترقی کے راستے متعین کرنے ہیں ۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ فقرہ کہہ کر نوجوانوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈالی ہے کہ’’ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی۔‘‘ پس آپ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ۔ اگر ایک بچہ ایک بزرگ کو جس کو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق تھا، جو بزرگ نیکیوں میں آگے بڑھا ہوا تھا، جس کی مثال ہمیں واقعات میں ملتی ہے، جو دنیا کے لئے علم و عرفان سکھانے کا ذریعہ بنا ہوا تھا، جو تقویٰ پر چلنے والا انسان تھا۔ اس بزرگ کو اگر ایک بچہ ایک فقرے میں توجہ دلا سکتا ہے کہ اگر میں پھسلا تو صرف مجھے چوٹ لگے گی لیکن اگر آپ پھسلے تو ایک قوم کو لے ڈوبیں گے۔ تو آپ نوجوان بھی اپنے عمل سے اپنے بڑوں کو، اگر آپ کے خیال میں وہ اپنا حق ادا نہیں کر رہے، فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰت کے اعلیٰ معیارادا کرکے توجہ دلا سکتے ہیں ۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ آپ خودبھی جنہوں نے اس وقت دنیا کی اصلاح کا بیڑا اُٹھا یا ہوا ہے اپنی نیکیوں کے اعلیٰ معیا ر قائم کر کے ہی اس کا حق ادا کر سکتے ہیں ۔ ورنہ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ خد ا تعالیٰ پو چھے گا کہ تم نے اپنا عہد نہیں نبھایا۔ عہددہراتے تو رہے لیکن اس کو پورا نہیں کیا۔اور یہ قوم جس میں تم رہ رہے تھے جو حق کی متلاشی تھی اسے حق پہنچانے کاحق ادا نہیں کیا۔ جرمنوں میں ایک بڑی تعداد میں حق کی تلاش شروع ہوچکی ہے اور ان کو صحیح راستہ دکھانا آج احمدی نوجوانو ں کا ہی کام ہے۔ پس آپ نوجوان اور ان لوگوں کو اپنی اس ذمہ داری کو سمجھنا ہوگا۔
خدام الاحمدیہ میں دو قسم کے جوان ہیں ۔ ایک بالکل نوجوان، نوجوانی میں قدم رکھنے والے۔ ایک جن کی جوانی ڈھل رہی ہے لیکن جوان ہیں ۔ جو خدام الاحمد یہ کی آخری عمر میں ہیں ۔ آپ کے چھوٹے بھائی، بہنیں اور بچے بھی آپ کے نمونے دیکھ رہے ہیں ۔اگر آپ اپنے نمو نے نہیں دکھائیں گے تو ان کی ٹھوکر کا باعث بن رہے ہونگے۔ اگر آپ نے اپنا حق ادا نہ کیا تو آپ ان لوگوں کی ٹھوکر کا باعث بنیں گے۔ پس ایک احمدی نوجوان ایک وقت میں وہ بچہ بھی ہے جس نے بزرگ کوسبق دیا اور اسی لمحے، اسی وقت وہ ایک بزرگ بھی ہے۔ ایک خادم وہ بچہ بھی ہے جس نے بزرگ کو سبق دیا اور وہ بزرگ بھی ہے جس نے نسلوں کو سنبھالنا ہے۔ جس کے پیچھے ایک نسل ہے، ایک قوم ہے، جس کی راہنمائی کرکے اسے نیکیوں میں سبقت لے جانے کے راستے دکھانے ہیں ۔ اورجب ہمارے نوجوان ، ہمارے خدام جو اپنے آپ کو خدام الاحمدیہ کے نام سے پکارتے ہیں ، اس حقیقت کو جان لیں گے تو یہ دنیا آپ پہ زیر کردی جائے گی۔ آپ کے تحت اقدام کردی جائے گی۔ اس کی سربراہی آپ کے ذمے آجائے گی اور پھر ہم انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات کے نئے نظارے دیکھیں گے۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ خدمت دین اور نیکیوں میں آگے بڑھنا جو ہے یہ کسی کی میراث نہیں ہے ۔وراثت میں نہیں ملتا۔ جو بھی نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے آگے آئے گا،اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو پانے والا بنے گا۔اُن میں شامل ہوگا جو جماعت کی خدمات میں مقام پانے والے ہیں ۔ یہ قانون شریعت بھی ہے اور قا نون قدرت بھی ہے۔ کسی چیز کوحاصل کر نے کیلئے جد وجہد کر نی پڑتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے تویہ فرمایا ہے کہ جو میری طرف آنے کی تلاش کرے گا، ہدایت کی تلاش کرے گا،میں اسے ہدایت کے راستے دکھاؤں گا۔ یہ ہدایت کا پانا اور اس کیلئے کوشش اور نیکیوں میں آگے بڑھنا ہی اس زمانے کا جہاد ہے۔ جس کیلئے مسیح محمدی ہمیں بلا رہے ہیں ۔
اگرقرون اولیٰ کے مسلمان بچوں ، نوجوانوں اور عورتوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر، بےخطر میدان جنگ میں کود کر، اسلام کا دفاع کیا تو آج اسلام کے دفاع اور تبلیغ کیلئے ہمیں بھی صحابہ کی طرح پہلے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرکے، اپنے اعمال کو سنوار کر پھر اس جہاد میں کودنا ہوگا جو دنیا کو خداتعالیٰ کی پہچان کروائے۔ جو توحید کے قیام کا جہاد ہے، جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں لہر انے کا جہاد ہے۔ آج مسیح محمدی اسلام کی نشأۃ ثانیہ کیلئے ہمیں تلوار کے جہاد کی طرف ہمیں نہیں بلارہے۔ بلکہ اپنے نفسوں کے پاک کرنے کے جہاد کی طرف ہمیں بلارہے ہیں ۔ صدق سے اپنے سلسلہ بیعت میں شامل ہونے کی طرف بلا رہے ہیں ۔ اسلام کی پاک تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے جہاد کی طرف ہمیں بلارہے ہیں ۔یہ پیغام دنیا میں پھیلانے کا ہم تبھی حق ادا کر سکتے ہیں جب ہم اپنے نفسوں کو پاک کرتے ہوئے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور بڑ ھتے چلنے جا نے کیلئے مسلسل اپنی حالتو ں پر نظر رکھیں ۔
پس اے خد ام احمدیت! آج مسیح زمان تمہیں کہہ رہا ہے کہ آؤ اور اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے محا فظ بن جاؤ۔ آج جب اپنو ں کی، امت کی اکثریت کی بد عملیوں نے اسلام کو بد نام کیا ہوا ہے۔ آج جب غیر وں نے ہر طرف سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پرحملوں کی تابڑتوڑ بھر مار کی ہوئی ہے اور ہر ذریعہ سے بھرمار کی ہوئی ہے تو آج احمدی ہی ہے، احمدی نوجوان ہی ہے جس نے مسیح محمدی کی قیادت میں اسلام کی برتری دنیا پر ثابت کر نی ہے۔
آج اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیلئے طلحہ جیسے ہاتھو ں کی ضرورت ہے۔وہ جو 28,27سال کا نوجوان تھا جس نے اُحد کی جنگ میں آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کے سامنے اپنا ہا تھ رکھ کر تیروں کو روکا اور تیروں سے زخمی ہونے کے باوجود اس لئے اُف نہیں کی کہ کہیں اُف کرنے سے ہاتھ اپنی جگہ سے ہل نہ جائے۔
آج اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیلئے ابو دجانہ جیسے بہادروں کی ضرورت ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کاحق ادا کر دیا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی تلوار عنا یت فرمائی۔ اور پھر جنہوں نے اپنا جسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے سامنے کھڑا کر لیا یہاں تک کہ تیروں کی بارش سے ان کا جسم چھلنی ہوگیا ۔گو آج زمانہ تیروں کے حملوں سے حفاظت کا نہیں ہے۔ یہ زمانہ تلوار چلانے کا نہیں ہے۔ لیکن آج بھی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کیلئے اس جوش اور جذبے کی ضرورت ہے جو ہمارے اسلاف نے دکھلایا تھا۔ اس زمانے میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے، نیکیوں میں آگے بڑھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علمِ کلام سے لیس ہو نے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام پر کئے گئے ہر وار کا مقابلہ کیا جائے اور کوئی تیر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے اور جسم تک نہ پہنچنے دیا جائے۔
پس خدام الاحمدیہ بھی جو جرمنی کی خدام الاحمدیہ ہے یا یوکے کی خدام الاحمدیہ ہے جن کا آج اجتماع ہو رہا ہے یا دنیا میں کہیں بھی خدام الاحمدیہ ہے، ان کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح خواتین کی ذمہ داری ہے، لجنہ اماءاللہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی ترجیحا ت کو بدلیں ۔ دنیاوی خو اہشات میں آگے بڑھنے کے بجا ئے دین کے کاموں میں مسابقت کی روح پیدا کریں ۔ دین میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کریں ۔ تبلیغ کے میدان میں آگے بڑھنے کا جوش پیدا کریں ۔ اس وقت دو سو، تین سو یا چار سو خدام کا مجلس انصار سلطان القلم میں شامل ہونا اور تبلیغ کے کاموں میں آنا کافی نہیں ہے بلکہ پوری کی پوری خدام الاحمدیہ کو اس کام میں جھونکنا ہوگا اور اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھنا ہو گا کہ تمہا را مطمحِ نظر فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰت ہو۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا جرمن قوم کا اسلام کو سمجھنے کی طرف رخ ہو رہا ہے بلکہ تمام دنیا میں جہا ں ایک طرف اسلام کے خلاف منصوبہ بندیاں ہیں تو دوسری طرف توجہ بھی ہے۔ دنیا کا ایک حصہ اسلام کو سمجھنا بھی چاہتا ہے اور اسلام کی حقیقی تصویر صرف احمدی ہی پیش کر سکتا ہے۔ اس لئے اس کام کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے نوجوان بھی فضولیات اور لغویا ت اورلہو و لعب کے پیچھے چل پڑے تو دنیا کے طالبانِ حق کو کون سنبھالے گا؟ اگر احمدی نوجوانوں کے کانوں میں ہر وقت آجکل کی ایجادات MP3یا دوسرے ذرائع سے میوزک اور گانے سننے کیلئے Earphone لگے رہے تو آپ کے ماحول میں نیکیوں کو کون پھیلائے گا ۔کون ہو گا جو نیکیوں میں آگے بڑھ کر پھر پیچھے رہنے والوں کو اوپر کھینچنے کی کوشش کرے گا۔ اپنی ذات میں MP3 یا الیکٹرونکس کی جو دوسری ایجادات ہیں یہ بری نہیں ہیں ۔ ان کا غلط استعمال برا ہے۔ ان کا صحیح استعمال ان میں دین کے حق میں مضبوط دلائل بھر کر کریں ۔پھر کانوں میں لگائیں اور سنیں تاکہ دلائل آپ کو یاد ہوں ۔
پس ہمیشہ ایک احمدی نوجوان کے یہ پیش ِنظر ہونا چاہئے کہ اُس کا ایک بہت بڑا مقصد ہے اور اُس کے حصول کے لئے اُس نے اپنے عمل نیک کرنے ہیں ۔ سچائی کو اپنا شیوہ اور خاص نشانی بنانا ہے۔ تعلیم کی طرف توجہ دینی ہے۔دینی تعلیم بھی اور دنیاوی تعلیم بھی کیونکہ آج اسلام کی فتح آپ کے علم سے جڑی ہوئی ہے ۔یا آپ کی اسلام کے دفاع اور تبلیغ کی خدمت آپ کے علم و معرفت میں بڑھنے ، پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور اعلیٰ اخلاق اپنانے سے منسلک ہے۔اللہ تعالیٰ یہ فرمانے کے بعد کہ تمہارا مطمحِ نظر فَاسۡتَبِقُوۡا الۡخَیۡرٰت ہونا چاہئے، فرماتا ہے کہ اَیۡنَ مَا تَکُوۡنُوۡا یَاۡتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیۡعًا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کرکے لے آئے گا۔ اگر تم نے اس مطمحِ نظر کو اختیار نہ کیا ،اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ساتھ جڑنے کے بعد پھر اپنامطمحِ نظر دنیا کی رنگینیوں کو رکھا اور سستیوں اور غفلتوں کو اپنے اس مطمحِ نظر کو حاصل کرنے میں روک بنائے رکھا تو پھر ایک دن اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کر کے اپنے پاس لائے گا اور تمہیں ان غفلتوں اور سستیوں کا جواب دینا پڑے گا۔
پس آج ایک احمدی پر جو ذمہ داری ہے ، جو فرائض اُس کے سپردکئے گئے ہیں اُس میں اُسے کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے وارننگ دی ہے کہ ایک دن تم سب اکٹھے کئے جاؤ گے تو پھر جواب طلبی ہو گی۔ بڑی شرمندگی بھی ہو گی تمہیں ، اور پکڑ بھی ہوگی۔ پس یہ ہمارے لئے بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہر احمدی کو بڑی فکر کرنی چاہئے۔جیسا کہ میں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو اپنی ترجیحات بدلنی ہونگی اور یہ سوچ پیدا کرنی ہوگی کہ ہم نے اپنی بھی اور معاشرے کی بھی اصلاح کرنی ہے کیونکہ ہم صحیح اسلامی تعلیم کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ خدا کرے کہ ہم اس اہم بات کو سمجھنے والے بن جائیں اور دنیا کو روشنی دکھانے والے بن جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین