خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 17 ستمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

  کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ۔ ( آل عمران:111)

               یعنی تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ پھر چند آیتیں آگے جا کر اللہ تعالیٰ ان باتوں کا دوبارہ ذکر کرنے کے بعداعادہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰت (آل عمران:114)، یعنی نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھتے ہیں۔ اور یہ نیک کام سرانجام دینے کی وجہ سے اور برائیوں سے روکنے کی وجہ سے فرمایا  وَ اُوْلٰٓئِکَ مِنَ الصّٰلِحِیْن۔ یعنی یہ لوگ نیکوں میں سے ہیں۔ یہی لوگ اصل نیک شمار ہوتے ہیں جو کہ یہ نیک کام کرنے والے ہیں۔

               اب یہ حکم اُمّت کے لئے ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں تو کیا مسلم اُمّہ میں ہمیں یہ باتیں نظر آتی ہیں جس کے بعد کہا جائے کہ وہ خیرِ امّت ہے، سب سے بہترین امّت ہے۔ بلکہ آج کل تو مغربی دنیا بھی، میڈیا بھی اتنا زیادہ مسلمانوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اُن کے نقائص ظاہر کر رہا ہے اور اس میں حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ برائیاں اُن میں ہیں۔ تو پھر کون وہ خیرِ امّت ہے جو سب سے بہتر ہے اور سب انسانوں کے فائدے کے لئے ہے جو نیکیوں کی تلقین کرنے والے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ وہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو مانا اور یہ عہد کیا کہ ہم اُن تمام باتوں پر عمل کریں گے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے اور تمام اُن باتوں سے رکیں گے جن سے رکنے کا اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہے اور نیکیوں کو آگے بڑھائیں گے۔ اپنے اندر بھی نیکیاں رائج کریں گے۔ اپنے گھروں میں بھی نیکیاں رائج کریںگے۔ اپنے ماحول میں نیکیاں رائج کریں گے اور معاشرے میں بھی رائج کریں گے اور جس ملک میں رہ رہے ہیں وہاں بھی رائج کریں گے۔ اور یوں پھیلتے پھیلتے ہم ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکیوں کو رائج کرنا ہے اور برائیوں کو روکنا ہے۔

                اُمّت کا لفظ یہاں استعمال ہوا ہے اور اُمّت میں مرد بھی ہیںعورتیں بھی ہیں۔یہ فرض جو ہے جس طرح مردوں کا ہے اُسی طرح عورتوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ عورت میری امّت سے باہر ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت سے باہر ہے۔ عورتیں بھی اُسی طرح سب کام کرنے کی ذمہ وار ہیں جس طرح مرد ذمہ وار ہے۔ اور اگر عورتیں اس فریضے کو انجام نہیں دے رہیں تو تب وہ اُمّت سے باہر نکل جاتی ہیں۔ یہ اُمّت میں شامل ہونے والوں کی ایک نشانی بتائی گئی ہے ۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ جس طرح مردوں کے لئے نیک کام کرنا، نیکیاں بجا لانا ضروری ہے اُسی طرح عورتوں کے لئے بھی اور نوجوان لڑکیوں کے لئے بھی، بڑی عمر کی عورتوں کے لئے بھی، بچیوں کے لئے بھی اپنے اپنے دائرے میں نیک کام کرنا اور نیکیوں کی تلقین کرنا اور برائیوں سے رُکنا اور برائیوں سے روکنا ضروری ہے۔ جس طرح مرد برائیاں کر کے اس دائرے سے باہر نکل جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے۔ اسی طرح عورتیں بھی اُس دائرے سے باہر نکل جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے ۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ عورت بھی خیرِ امّت کا حصہ ہے۔ اور کونسی عورت ہے جو خیرِ امّت کا حصہ ہے؟ وہ عورت وہ ہے جو اس بات کو سمجھ لے کہ میں مسلمان ہوں اور میں نے تمام اُن باتوں پر عمل کرنا ہے جن کے کرنے کا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

                ابھی آپ نے قرآنِ کریم کی تلاوت سنی۔ سچ بولنے والیاں، نیکیاں قائم کرنے والیاں، روزے رکھنے والیاں، اپنی حفاظت کرنے والیاں، یہ جو ساری چیزیں ہیں اور جو باتیں ہیں یہ جس طرح مومن مرد میں ہونی ضروری ہیں مومن عورتوں میں بھی ضروری ہیں۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ پھر یہی نہیں کہ آپ میں یہ سب چیزیں پیدا ہوگئیں توبس۔ بلکہ فرمایا کہ تم لوگ لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ یہ کبھی ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک مومن مرد اور ایک مومن عورت سے کسی کو کوئی نقصان پہنچے۔ ایک مومنہ اگر ہمیشہ مومنہ ہونے کا حق ادا کر رہی ہے توچاہے وہ بچی ہے، چاہے وہ نوجوان لڑکی ہے، چاہے وہ بڑی عمر کی عورت ہے اُس سے دوسرے کو بھلائی اور خیر پہنچنی چاہئے، دوسرے کو فائدہ پہنچنا چاہئے۔ اگر فائدہ نہیں پہنچا رہیں تو پھر سوچیں، غور کریں۔ بڑے فکر کا مقام ہے کہ آپ اُمّت کے اُن لوگوں میں شامل نہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم خیرِ امّت ہو اور جنہوں نے اِس زمانے میں پھر اُس عہد کی تجدید کی ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنی تمام برائیوں کو چھوڑتے ہیں اور تمام نیکیوں کو اختیار کریں گے اور اُن حکموں پر چلنے کی کوشش کریں گے جن پر چلنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے۔ پس ایک حقیقی مومنہ کبھی کسی دوسرے کا برا نہیں چاہ سکتی۔ جب بھی اُس کے سامنے کوئی آئے گا اُس کو یہ پتہ ہو گا کہ مجھے اس سے سوائے خیر کے، بھلائی کے اور فائدے کے اور کچھ نہیں ملنا۔ یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ مجھے کسی مومنہ عورت سے کوئی نقصان پہنچ سکے کیونکہ یہ نیکیوں کی ہدایت کرنے والی ہیں اوربرائیوں سے روکنے والی ہیں۔ لیکن نیکیوں کی ہدایت کرنے کے لئے پہلے خود نیکیوں کو اختیار کرنا ہو گا۔ نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ بات نہ کہو جو تم کرتے نہیں۔ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصّف:30)۔ جو تم کرتے نہیں اُس کو کیوں کہتے ہو۔ پس ظاہر ہے کہ نیکیوں کی تلقین جب کرنی ہے تو پھر اپنے آپ کو بھی اُن نیکیوں میں اس طرح ڈبونا ہے کہ آپ سے ہر وقت خیر ہی خیر کے چشمے پھوٹتے ہوں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہوتی ہو۔

               حقوق اللہ کیا ہیں؟ نماز ہے، روزہ ہے، زکوۃ ہے، حج ہے جس کو توفیق ہے۔ لیکن نماز تو بہر حال فرض ہے۔ پھر توحید کا قیام ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے کوشش ہے۔ ایک احمدی یہ عہد کرتا ہے، ابھی آپ نے عہد دہرایا کہ میں ان تمام نیکیوں کی کوشش کرتی رہوں گی۔ تو اگر عہد دہرانے کے بعد بھی جب یہاں سے اُٹھ کرجائیں اور سب کچھ بھول جائیں تو خیرِ امّت میں شمار نہیں ہو سکتیں۔ اپنے نفس کے بتوں کو توڑنا ہے تبھی توحید کا قیام ہوسکتا ہے۔ شرکِ خفی، بعض چھپے ہوئے شرک ہوتے ہیں جو ظاہری بتوں کے شرک نہیں ہوتے لیکن اندر ہی اندر انسان کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اچھا نماز نہ پڑھو۔ آج فلاں دعوت پر جانا ہے، فلاں فنکشن پر جانا ہے، فلاں سہیلی کے گھر جانا ہے، وہاں چلے جاؤ۔ وضو نہ کرو، تمہارا میک اَپ نہ خراب ہو جائے۔ اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی یہ شرکِ خفی ہے۔

               پھر حقوق العباد ہیں۔ والدین سے احسان کا سلوک ہے۔ا ب سب سے زیادہ والدین سے احسان کے سلوک کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اُن سے کرو اور اُن کے لئے دعا کرو کہ جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم کیا، مجھے پالا پوسا اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔ اور یہ دعا اُن کی زندگی میں بھی ہو سکتی ہے، اُن کے مرنے کے بعد بھی ہوسکتی ہے۔ ایک مستقل دعا ہے۔ اگر ہر بچہ، ہر نوجوان، ہر عورت یہ دعا کر رہی ہو گی تو خود بھی اُس کو احساس ہو رہا ہو گا۔ جو بچوں والیاں ہیں جب وہ اپنے والدین کے لئے دعا کر رہی ہوں گی تو اُن کو خود بھی احساس ہو گا کہ ہم نے بھی دعا لینی ہے۔ ہمیں بھی ان نیکیوں پر قائم ہونے کی ضرورت ہے جو ہمیں ان دعاؤں کا حقدار بنائیں۔ یہ ایک ایسی دعا ہے جس کو اگر غور سے پڑھا جائے اور غور سے دعاکی جائے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی کبھی کسی کی برائی چاہنے والی ہو۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اس دعا میں اگر آپ غور کریں تو ہمارے ہاں جو ساس بہوؤں کے مسئلے پیدا ہو جاتے ہیں وہ بھی حل ہو جاتے ہیں۔ بہو جب اپنے والدین کے لئے دعا کر رہی ہو گی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تمہارے جو رِحمی رشتے دار ہیں خاوند کی طرف سے وہ بھی تمہارے ماں باپ ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 5 صفحہ نمبر 179-180۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) بلکہ اللہ کے رسول نے فرمایا۔ پس اُن کے لئے بھی دعا ہو رہی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ ان پر بھی رحم فرمائے۔ میرے خاوند کے ماںباپ پر بھی رحم فرمائے۔ میرے ماں باپ پر بھی رحم فرمائے۔ ماں باپ جو ہیں جب یہ دعا کر رہے ہوں گے تو وہ اپنے بڑوں کے لئے دعا کر رہے ہوں گے اور یہ سوچ کر کر رہے ہوں گے کہ اسی طرح ہمارے بچے بھی ہمارے لئے دعا کر رہے ہیں تو ہم نے بھی اُن کی دعاؤں کا وارث بننا ہے، اُن کا فائدہ اُٹھانا ہے تو ہم بھی اُن سے نیکیاں کریں۔

                پھر رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ہے۔ یہ ایک بہت اہم چیز ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر بعض رشتوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ ایک نیکی جو ہے جس کا اللہ تعالیٰ ثواب دے رہا ہوتا ہے اُس سے محروم ہو جاتی ہیں۔ اگر یہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک کی نیکی رہے تو عموماً میں نے دیکھا ہے کہ گھروں میں جو رشتے برباد ہوتے ہیں، ٹوٹتے ہیں، خاوند اور بیوی کی آپس میں جو لڑائیاں ہوتی ہیں وہ نندوں اور بھابھیوں کی لڑائیاں ہیں، ساس اور بہو کی لڑائیاں ہیں۔ اگر ایک دوسرے سے حسنِ سلوک کر رہے ہوں گے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی قسم کی ایک دوسرے کے خلاف رنجشیں پیدا ہوں، برائیاں پیدا ہوں۔ پس یہ بھی نیکیوں میں آگے بڑھنے والی مومنات کا کام ہے کہ اپنے رشتوں کا بھی پاس اور خیال رکھیں۔

                پھر ہمسایوں سے حسنِ سلوک ہے۔ یہاں کے جو جرمن ہمسائے ہیں، نہ جاننے والے اُن سے تو آپ حسنِ سلوک اسی کو سمجھتے ہیں کہ ہمارا ان سے تعلق نہیں، واسطہ نہیں۔ پھر قریبی ہمسائے آپ کے جماعت کے ممبران بھی ہیں اُن سے حسنِ سلوک ہے۔ لیکن جرمنوں سے بھی حسنِ سلوک ضروری ہے۔ ہر ایک ہمسایہ چاہے وہ عیسائی ہے، چاہے وہ ہندو ہے، چاہے سکھ ہے یا بدھ ہے، یہودی ہے یا مسلمان ہے ان سے حسنِ سلوک ہوگا تو آپ لوگ نیکیوں کو پھیلانے والے ہوں گے اور ان نیکیوں کو پھیلانے کی وجہ سے اپنے تبلیغ کے میدان کو وسیع کر رہے ہوں گے۔ پس یہاں بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ سو کوس تک یعنی سو سو میل تک تمہارے ہمسائے ہیں۔ یہ نہ سمجھو کہ تمہاری ہمسائیگی صرف اس حد تک ہے کہ تمہارے گھر کے ساتھ جڑی دیوار والا تمہارا ہمسایہ ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ نمبر 214-215۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)۔

جماعت کے تمام افراد تمہارے ہمسائے ہیں۔ جہاں آپ اِس وقت بیٹھی ہوئی ہیں، تین چار ہزار، پانچ ہزار جتنی بھی تعداد ہے ہر ایک جو بیٹھی ہے ہر دوسری اُس کی ہمسائی ہے اور یہ ہمسائیگی کا حق آج کے لئے نہیں، یہ ان تین دنوں کے لئے نہیں بلکہ اب اس ہمسائیگی کے حق کو مستقل آپ نے نبھانا ہے۔ اس سوچ کو وسیع کریں گی تو پھر دیکھیں کیسا حسین معاشرہ آپ پیدا کرنے والی ہو جائیں گے۔ وہ خوبصورت معاشرہ پیدا کرنے والی ہو جائیں گی جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اور جس کو پیدا کرنے کے لئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے۔ وہ معاشرہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا فرمایا تھا۔ ایک دوسرے کی خاطر قربانی کرنے والا معاشرہ اور یہ اسلام کی خوبی ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ اپنے حق لو۔ اسلام کہتا ہے کہ حقوق العباد ادا کرو ۔ ہر ایک جو ہے دوسرے کا حق ادا کرے۔ جب ہر ایک دوسرے کا حق ادا کرنے والا ہو گا تو وہاں یہ قانون نہیں بنے گا جس طرح ملکوں کے دنیاوی قانون بنتے ہیں کہ ہم نے حق لینا ہے۔ ہمیں عورتوں کا حق چاہئے۔ ہمیں آزادی چاہئے۔ ہمیں ووٹ کا حق چاہئے۔ ہمیں فلاں چیز کا حق چاہئے۔ بلکہ جب آپ کی یہ سوچ ہو گی کہ ہم نے حق دینے والا بننا ہے تو ہر ایک دوسرے کا حق ادا کر رہا ہو گا۔ اور جب ہر ایک دوسرے کا حق ادا کر رہا ہو گا تو یہ سوچ کبھی اُبھر ہی نہیں سکتی کہ ہمارے حق ادا کرو۔ پس یہ سوچ ہر احمدی کی ہونی چاہئے اور خاص طور پر عورتوں کی جنہوں نے اگلی نسلوں کو پروان چڑھانا ہے۔

                پھر امانت اور عہد کی حفاظت ہے۔ ایک بہت بڑی بیماری جومردوں میں بھی ہوتی ہے لیکن عورتوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے کہ جب مجلس میں بیٹھتی ہیں تو اُس کی امانت کا حق ادا نہیں کرتیں۔ آپ کی دوست ہیں، سہیلیاں ہیں یا جماعت کی کوئی مجلس ہے، اس میں جب آپ آئیں تووہاں جو باتیں سنیں اُس کو اپنے تک محدود رکھیں۔ جب آپ اُس بات کو آگے جا کے کسی اور سے کرتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے امانت کا حق ادا نہیں کیا اور اُس کی حفاظت نہیں کی۔ بعض جماعتی باتیں ہیں، بعض مسائل ہیں، بعض لوگوں کے بعض تربیتی مسائل عاملہ میں ڈسکس ہوتے ہیں۔ بعض بچیوں کے مسائل عاملہ میں ڈسکس ہو جاتے ہیں۔ اگر عاملہ ممبر یا کوئی بھی عورت یا نوجوان لڑکی پر شک ہو، اگر اُس کو گواہی کے لئے بلایا جاتا ہے اور وہ اُس گواہی کو یا اُس بات کو اپنے تک محدود نہیں رکھتی اور اگر کوئی باتیں کسی دوسرے کے بارے میں پتہ لگتی ہیں اور اُن کو دوسروں تک پھیلاتی ہیں یا باہر جا کے کسی اور سے ذکر کرتی ہیں تو اس کامطلب ہے کہ اُس نے امانت کا حق ادا نہیں کیا اور جب امانت کا حق ادا نہیں کیا تو آپ ان لوگوں میں شامل نہیں ہوسکتیں جو خیرِ امّت کہلانے والی عورتیں ہیں۔

               پھر عہد کی حفاظت ہے۔ ایک عہد، عہدِ بیعت آپ نے باندھا ہے۔ پھر ہر اجلاس میں آپ لجنہ کا عہد دہراتی ہیں۔ ناصرات ہیں، ناصرات کا عہد دہراتی ہیں۔ دس سال سے اوپر کی لڑکیاں جو ہیںاُن کو اتنی عقل ہوتی ہے کہ وہ سمجھ جائیں کہ ہم نے کیا کہنا ہے، کیا کرنا ہے، کس طرح اپنی زندگی گزارنی ہے۔ اگر اپنے عہد نہیں پورے کرتیں تو وہ بھی غلط کرتی ہیں۔

                پھر سچائی کا اظہار ہے۔ سچائی کے اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ بدّوؤں کی طرح جو بات منہ میں آئے ہم نے سچ کہہ دیا ۔ ہم بہت سچے ہیں۔ ہم نے کسی کے منہ پر کھڑے ہو کے مجلس میں یہ کہہ دیا کہ تمہارے میں یہ یہ برائی ہے۔ اگر وہ برائی ہے بھی تو تب بھی تمہیں کہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ سچائی نہیں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ جب تمہیں کسی گواہی کے لئے بلایا جائے تو وہاں تم جو سچ ہے اور حق ہے وہ کہو۔ اور پھر اُس کے بعد تمہارا کوئی حق نہیں بنتا کہ تم جا کے پھر اُس بات کو باہر لوگوں میں کرتے پھرو۔ پھر سچائی کا اظہار یہ ہے کہ اگر اپنے بچے بھی کوئی غلط کام کر رہے ہیں اور جماعتی ذریعے سے پوچھا جاتا ہے یا کہیں بھی پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے بچے نے غلط کام کیا تو سچی گواہی دو کہ ہاں یہ غلط کام کیا اور میں اس سے کراہت اور نفرت کا اظہار کرتی ہوں۔ اگر نہیں تو یہاں بھی سچائی کا اظہار نہیں ہے۔

                پھر امانتوں کا حق ادا کرنا ہے۔ امانتوں کے حق ادا کرنے میں پہلے تو امانت کی حفاظت تھی۔ اب یہاں حق ادا کرنا ہے، اور حق ادا کرنے میں عہدیداران بھی شامل ہیں، اپنے حلقے کی، اپنے محلے کی، اپنی گلی کی چھوٹے سے چھوٹے لیول کی جو عہدیدار ہے اُس سے لے کے مرکزی عہدیدارات تک جتنی ہیں اُن سب کا یہ فرض ہے کہ اس کاحق ادا کریں اور حق ادا کرنا یہ ہے کہ جو کام سپرد کیا گیا ہے اُس کو صحیح طرح بجا لائیں اور اگر کوئی راز کی بعض باتیں ہیں تو اُن کو اپنی حد تک محدود رکھیں جیسے پہلے مَیں نے کہا تھا۔

                پھر انتخابات ہوتے ہیں۔ انتخابات جب ہوجاتے ہیں اُس کے بعد رپورٹیں آتی ہیں کہ جی فلاں نے یہ کہہ دیا ۔ فلاں اس طرح تھی اور فلاں اس طرح تھی اور ہم نے ووٹ دے دئیے۔ اگر آپ لوگوں نے غلط عورت کو ووٹ دے دئیے، غلط عہدیدار کو ووٹ دے دئیے تو یہ آپ لوگوں کا قصور ہے۔ اسی طرح جب صدرات بنتی ہیں اگر صدرات اپنی عاملہ میں ایسی عورتوں کو نہیں چنتیں جو اس کام کو بجا لانے کی حقدار ہیں یا جو قواعد بنے ہوئے ہیں اُن پر پورا نہیں اُترتیں۔ مثلاً مَیں نے کہا ہے کہ پردہ ایک ضروری چیز ہے اور جو عورت پردہ نہیں کرتی اُس کو کسی قسم کا عہدہ نہیں دینا۔ تو اگر صدرات جو ہیں اس قسم کی عورتوں کو اپنی عاملہ میں رکھتی ہیں تو وہ امانت کا حق ادا نہیں کر رہیں۔ غرض کہ امانت کے حق ادا کرنے کی بہت ساری چیزیں ہیں۔ ان میں باریکی میں جا کے آپ کو دیکھنا چاہئے۔ تبھی آپ ان لوگوں میں ہو سکتی ہیں جو خیرِ امّت ہوں گی۔ پھر دوسرے کی خاطر قربانی کرنا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا جوحق دینا ہے وہ اسلام کہتا ہے کہ حق ادا کرو۔ یہ نہیں کہ اپنے حق چھینو۔ تم حق ادا کرو۔ ہر ایک اپنا حق ادا کرے گا۔ قربانی کا جذبہ ہو گا تو یہ حق ادا کرنے کی توفیق ملے گی۔ پس ایک دوسرے کی خاطر بھی قربانیاں ہونی چاہئیں۔ پھر اُسی سے بات آگے بڑھتی ہے اور جماعت کی خاطر قربانی کی توفیق ملتی ہے۔

                پھر عاجزی دکھانا ہے۔ عاجزی دکھانا بھی ایک بہت بڑی خصوصیت ہے۔ ابھی نظم بھی آپ نے سنی۔

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر 21 صفحہ 18)

               یہ عاجزی جو ہے بہت ضروری ہے۔ کسی کو یہ زعم کہ میرے پاس دس پیسے زیادہ ہیں۔ کسی کو یہ زعم کہ میرے پاس زیور زیادہ ہے۔ کسی کو یہ زعم کہ میری تعلیم زیادہ ہے۔ کسی کو یہ زعم کہ میرے بیٹے ہیں اور دوسرے کے بیٹے نہیں ہیںتو وہاں بھی تکبر کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ چیزیں جو ہیں اسلام کو انتہائی ناپسند ہیں۔ پھر بہت سارے معاملات ہیں، کسی بھی قسم کی خدمت ہے وہ عاجزی سے کرتے رہنا چاہئے۔

                پھر حسنِ ظن کرنا ہے۔ بد ظنی جو ہے وہ ایک ایسی برائی ہے جو تمام برائیوں کی جڑ ہے اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ اگر یہ بدظنیاں دور ہو جائیں تو بہت سارے مسائل جو گھریلو جھگڑوں میں بھی اور اپنے معاشرے کے جھگڑوں میں بھی  پیدا ہوتے ہیں وہ سب ختم ہو جائیں۔ یہ مَیں چند موٹی موٹی وہ باتیں بتا رہا ہوں جو مَیں نے چنیں جن کا قرآن شریف میں ذکر ہے۔

                پھر شکر کی عادت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو وہ تمہیں اور دے گا۔ تمہارے پر نعمتوں کو بڑھاتا چلا جائے گا۔ پس اپنی گھریلو زندگی میں بھی اُس کا شکر ادا کریں۔ اپنے خاوندوں کی کمائی دیکھیں ۔اُن کے اندر خرچوں میں رہ کے گزارہ کریں، گھر چلائیں، اُس کا شکر ادا کریں۔ خاص طور پر بعض نئی شادی شدہ لڑکیوں کے بعض مسائل مجھے آ جاتے ہیں۔ کہاں تک یہ صحیح ہے یا غلط ہے لیکن لڑکا لڑکی پرالزام لگا رہا ہوتا ہے اور لڑکی لڑکے پر۔  لڑکے کا الزام یہ ہوتا ہے کہ اس کا مطالبہ بہت زیادہ ہے اور بعض دفعہ یہ صحیح ثابت ہوتا ہے کہ لڑکیاں کہتی ہیں کہ یہ ہماری ڈیمانڈ پوری نہیں کرتا۔ یہ ہر مہینے یا ہر ہفتے ہمیں بیوٹی پارلر نہیں لے کے جاتا۔ بیوٹی پارلر جانا تو ایک احمدی عورت کا یا احمدی لڑکی کا مقصد نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس توفیق نہیں ہے تو کس طرح لے جا سکتا ہے؟ اپنی حدوں کے اندر رہ کر گزارہ کریں تو تبھی رشتے قائم رہ سکتے ہیں۔

               پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم شکر کرو گے تو مَیں تمہیں بڑھاؤں گا۔ ہر نیا جوڑا جو اپنی نئی زندگی شروع کرتا ہے اُس کی ابتدا تھوڑے سے ہی ہوتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور آہستہ آہستہ جوں جوں زندگی گزرتی ہے تجربہ حاصل ہوتا ہے مردوں کی آمدنیاں بھی بڑھتی رہتی ہیں اور وسائل بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ پس یہ نوجوان لڑکیوں کو خاص طور پر مَیں کہتا ہوں کہ صبر اور حوصلے اور شکر کی عادت ڈالیں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے رشتے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بھی وارث بنتی چلی جائیں گی۔ اور اُن لوگوں میں شمار ہوں گی جن کو پھر اللہ تعالیٰ پیار کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اپنے عہد پورے کرنے والی ہوں گی۔

               پھر معاف کرنے کی عادت ہے۔ یہ بھی بہت ضروری ہے۔ انصاف کرنا ہے۔ انصاف کیا ہے؟ انصاف کا اللہ تعالیٰ نے یہاں تک حکم فرمایا ہے کہ اگر تمہیں اپنے قریبی عزیزوں اور اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو گواہی دو۔ یہ انصاف ہے جس کو ہم نے قائم کرنا ہے۔ اگر جماعت احمدیہ میں یہ انصاف نہیں رہے گا تو پھر جماعت احمدیہ کا بھی کوئی مقصد نہیں ہے یا کم از کم اُس شخص کا جماعت میں رہنے کا کوئی مقصد نہیںہے جو انصاف قائم نہیں کرتا۔ اگر یہ بے انصافی عہدیداروں سے ہو رہی ہے تو وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ اگر آج یہاں نہیں پکڑے جاتے ، نظام کی نظر میں نہیں آتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور تو پکڑے جائیں گے۔ اس لئے یہ انصاف آپ لوگوں نے قائم کرنا ہے۔ پس اس کی کوشش کریں۔

               پھر احسان کرنا ہے۔ صرف انصاف نہیں کرنا بلکہ احسان ہونا چاہئے۔ ایک دوسرے سے پیار محبت کا سلوک ہونا چاہئے۔ اگر آپ کو کوئی تکلیف پہنچاتا ہے تو آپ اُس سے پیار کا سلوک کریں شاید اسی سے اُس کی اصلاح ہو جائے۔ اور اگر نہیں بھی ہو گی تو کم از کم اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ موردِ ثواب بن جائیں گے۔

               پھر خوش خلقی ہے۔ یہ بہت اعلیٰ خلق ہے۔ ہنس کے ملنا، مسکرا کے ملنا، سلام کرنا۔ پھر صفائی ہے اس کا خیال کرنا۔ احمدیوں میں مسلمانوں میں صفائی کی طرف جتنی توجہ دلائی گئی ہے وہ صرف ظاہری صفائی ہی نہیں ہے۔ اپنے گھروں کی صفائی بھی ہونی چاہئے۔ اپنے ماحول کی صفائی بھی ہونی چاہئے۔ اپنے ذہنوں کی صفائی بھی ہونی چاہئے۔ کوئی گندے خیالات، کوئی فضول چیزیں آپ کے ذہنوں میں نہ آئیں۔

               غصے پر قابو پانا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ غصے پر قابو پاؤ۔ پھر برائیاں کون کونسی ہیں جن سے خود بھی رُکنا ہے اور دوسروں کو بھی روکنا ہے۔ کنجوسی، بخل جو ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر کیا ہے یہ ایک بہت بڑی برائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت احمدیوں کی، احمدی عورتوں کی تو خاص طور پر ایسی ہے جنہوں نے کم از کم جماعتی قربانی کے لئے کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ جب بھی کچھ کہا گیا بڑھ کے اپنی جیبیں خالی کیں بلکہ اپنے خاوندوں کی بھی جیبیں خالی کر دیں، بعد میں بیشک خاوند اُن سے لڑتے رہیں۔ لیکن بعض ایسی بھی ہیں جو ذاتی اخراجات تو کر سکتی ہیں لیکن قربانی نہیں کر سکتیں۔ قربانی کرنے والی جیبیں جو ہیں وہ محدود ہیں ان میں اضافہ ہونا چاہئے۔

               پھر عیب لگانا یہ بھی ایک برائی ہے۔ دوسرے پر بلاوجہ کسی بات کا عیب لگا دیا۔ اس سے ایک تو رشتوں میں دراڑیں پڑتی ہیں اورپھر معاشرے میں گندگی بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس سے اصلاح نہیں ہوتی۔ اس سے بچنے کی بہت ضرورت ہے۔

               پھرتحقیراورہرایک کا تمسخر ہے ۔ مذاق بھی ہونے چاہئیں تو ایک حد تک ہونے چاہئیں۔ اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے ہونے چاہئیں۔ خاص طور پر نوجوان لڑکیاں بھی غور سے سُن لیں۔ دس، بارہ ، پندرہ سال کی لڑکیاں بھی بعض دفعہ آپس میں مذاق کرتی ہیں۔ بعض دفعہ بڑی عورتیں بھی کر دیتی ہیں لیکن ایسا مذاق نہیں ہونا چاہئے جس میں تمسخر ہو۔

               پھرحسد ہے۔ یہ بہت بڑی برائی ہے۔ اس سے بچنا چاہئے۔ جب حسد سے بچیں گی تو حسد سے بچنے کی تلقین بھی کر سکیں گی۔ فضول خرچی کی بات میں پہلے ہی کر آیا ہوں کہ اپنے پاؤں اُتنے ہی پھیلائیں جتنی چادر ہے۔ اس سے زیادہ بڑھیں گی تو گھروں میں فساد پیدا ہوں گے۔

               پھر لغو باتیں ہیں۔ ان لغو باتوں کے لئے مَیں خاص طور پر بچوں کو یہ کہنا چاہتا ہوںکہ لغو باتیں صرف وہ باتیں ہی نہیں جو بڑی بوڑھیاں بیٹھ کر کرتی ہیں۔ وہ تو کرتی ہیں اُن کو اس سے روکنا ہی ہے، لیکن دس بارہ سال کی عمر کی لڑکیوں سے لے کے نوجوان لڑکیوں تک کے لئے جو ٹی وی اور انٹرنیٹ ہے یہ آج کل لغویات میں شامل ہوچکا ہے۔ اگر آپ لوگ سارا دن ایسے پروگرام دیکھ رہی ہیں جس میں کوئی تربیت نہیں ہے تو یہ لغویات ہے۔ انٹرنیٹ جوہے، اُس میں بعض دفعہ ایسی جگہوں پر چلی جاتی ہیں جہاں سے پھر آپ واپس نہیں آسکتیں اور بے حیائی پھیلتی چلی جاتی ہے۔ بعض دفعہ ایسے معاملات آ جاتے ہیں کہ غلط قسم کے گروہوں میں لڑکوں نے لڑکیوں کو کسی جال میں پھنسا لیا اور پھر اُن کو گھر چھوڑنے پڑے اور اپنے خاندان کے لئے بھی، جماعت کے لئے بھی بدنامی کا باعث ہوئیں۔ اس لئے انٹرنیٹ وغیرہ سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی ذہنوں کو زہریلا کرنے کے لئے انٹرنیٹ پر بہت سارے پروگرام ہیں۔ ٹی وی پر بےحیائی کے بہت سارے پروگرام ہیں۔ ایسے چینل والدین کو بھی بلاک کر کے رکھنے چاہئیں جو بچوں کے ذہنوں پر گندے اثر ڈالتے ہوں۔ ایسے مستقل لاک (Lock) ہونے چاہئیں اور جب بچے ایک دو گھنٹے جتنا بھی ٹی وی دیکھنا ہے دیکھ رہے ہیں توبیشک دیکھیں لیکن پاک صاف ڈرامے یا کارٹون۔ اگر غلط پروگرام دیکھے جا رہے ہیں تو یہ ماں باپ کی بھی ذمہ واری ہے اور بارہ تیرہ سال کی عمر کی جو بچیاں ہیں اُن کی بھی ہوش کی عمر ہوتی ہے، اُن کی بھی ذمہ داری ہے کہ اس سے بچیں۔ آپ احمدی ہیں اور احمدی کا کردار ایسا ہونا چاہئے جو ایک نرالا اور انوکھا کردار ہو۔ پتہ لگے کہ ایک احمدی بچی ہے۔

                پھر بغیر علم کے بات کرنا بھی ایک بڑی برائی ہے ۔ کسی بات کا علم نہیں، سنی سنائی بات کر دی اور کسی کے خلاف جب الزام ہو جاتا ہے، عیب لگتا ہے اور سنا سنایا عیب لگ رہا ہوتا ہے تو بعد میں جب پوچھو، تحقیق کرو توپتہ لگتا ہے کہ ہاں یہ بات ہوئی تھی، چھ سات سال پہلے ہوئی تھی۔ اُس موقع پر اُس عورت کو یا اُس شخص کو سزا بھی مل گئی تھی۔ اُس کی کارروائی بھی ہو گئی تھی۔معافی بھی ہو گئی ۔اب دوبارہ جب وہ عورت عہدیدار بنائی گئی تو دوبارہ اُس کی شکایت اس لئے کر دی گئی کہ وہ پرانی باتیں اکھیڑی جائیں۔ یا کہہ دیا کہ مَیں نے تو صرف فلاں سے سنا تھا کہ اُس میں یہ برائی ہے۔ یہ جو ہے یہ غلط قسم کی بات ہے۔ حدیث میںیہ آیا ہے کہ سنی سنائی بات جو ہے بالکل غلط چیز ہے۔ خود آنکھوں دیکھی جو بات ہو اُس کو بھی محتاط طریقے سے کرنا چاہئے۔ کجا یہ کہ سنی سنائی باتیں پھیلا دیں۔

                غیبت ایسی بیماری ہے، اُس کے بارے میں فرمایا کہ تم گویا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہو۔ کیا کوئی پسند کرتی ہے کہ اپنی مردہ بہن کا گوشت کھائے۔ اگر تمہیں یہ پسند نہیں تو پھر غیبت بھی نہ کرو۔ کسی کی برائیاں اُس کی پیٹھ پیچھے نہ کرو۔ اگر برائیاں کر رہی ہو تو یہ اسی طرح ہیں جس طرح مردہ کا گوشت کھا لیا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ تم سمجھو کہ تم اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے کباب بنا کر کھا رہے ہو۔ (ماخوذ از حقائق الفرقان جلد نمبر 4 صفحہ 7 مطبوعہ ربوہ) کیا تمہیں کراہت نہیں آئے گی۔ اس وقت شاید بعض حسّاس طبیعتیں ایسی ہوں جن کو اس بات کو سن کے متلی شروع ہوجائے۔ لیکن جب غیبت کر رہی ہوتی ہیں تو اُس وقت بڑے مزے لے لے کے، چسکے لے کے باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ اور غیبت یہی ہے کہ اگر کسی میں کوئی برائی ہے تو اُس کی پیٹھ پیچھے اُس کا ذکر کرنا جس سے اُس کو تکلیف پہنچے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ برائی اُس میں ہے ہی نہیں اور تب بھی تم وہ بات کر رہے ہو تو یہ جھوٹ ہے کہ جھوٹی بات اُس کی طرف منسوب کر رہے ہو۔ (مسلم کتاب البر و الصلۃ والآداب باب تحریم الغیبۃ حدیث نمبر 6593)  پس غیبت جو ہے اس سے بچنا ضروری ہے۔

               جھوٹ ایک شرک ہے۔ جھوٹ بہت گندی عادت ہے۔ ہماری بچیوں کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جھوٹ سے بڑی برائی اَور کوئی نہیں ہے۔ اور جھوٹ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی بڑی بات میں جھوٹ بولنا۔ چھوٹی سی بات میں بھی آپ لوگ اگر غلط بیانی کرتے ہیں تو یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ جو ہے آہستہ آہستہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور پھر یہ اتنا پھیل جاتا ہے کہ آپ کو ہر بات میں گول مول بات کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ جھوٹ بولنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ کبھی سیدھی اور قولِ سدید کی بات نہیں کرتیں اور یہی بڑے ہو کر جب پکی عادتیں ہو جاتی ہیں توپھر معاشرے میں فساد کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو فرمایا تھا کہ ساری برائیاں تم چھوڑ دو۔ نہیں چھوڑ سکتے تو جھوٹ کی ایک برائی چھوڑ دو۔ اور جب وہ جھوٹ کی برائی چھوڑی تو ساری برائیاں دور ہو گئیں۔  (ماخوذ از التفسیر الکبیر للامام رازی جلد نمبر 16 صفحہ 176۔ تفسیر سورۃالتوبۃ زیر آیت یا ایھاالّذین اٰمنوا اتّقوااللّہ … دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)۔ پس بچیاں بھی یاد رکھیں کہ جھوٹ، ہلکا سا بھی جو جھوٹ ہے کبھی نہیں بولنا۔

                پھر بعض دفعہ لوگ مایوسی میں آجاتے ہیں خاص طور پر جماعتی لحاظ سے جو مایوسی ہے وہ تو بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت وعدے ہیں اور انشاءاللہ تعالیٰ یہ وعدے پورے ہونے ہیں اور ہورہے ہیں۔ میں بعض واقعات بھی آپ کو سناؤں گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو پھیلا رہا ہے۔ لیکن نوجوان لڑکیوں سے خاص طور پر مَیں کہتا ہوں کہ بعض انٹر نیٹ اور بعض لوگوں کی باتوں میں آ کے یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت جو ہے وہ ترقی نہیں کر رہی، یا کسی بھی قسم کی مایوسی کی باتیں اُن سے شروع ہو جاتی ہیں اور دشمن ہمارے اندر مایوسی پھیلانے کی کوشش کرتا ہے، مخالفین پھیلانے کی کوششیں کرتے ہیں اور یہ جو آجکل کا میڈیا ہے، خاص طور پر ویب سائٹس وغیرہ ان کے ذریعے بہت بیہودہ قسم کی باتیں ہوتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ذہنوں میں مایوسی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور مایوسی پیدا ہونے کے بعد دین سے دُور ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس معاملے میں بھی خیال رکھیں کہ کبھی کسی قسم کا مایوسی کا خیال نہیں آنا چاہئے۔

               پس یہ چند باتیں جو مَیں نے کی ہیں ان کو اگر قائم رکھیں گی تو یہی نیکیاں ہیں جو آپ میں قائم رہ کر پھر آپ آگے ان نیکیوں کو پھیلانے کا ذریعہ بنیں گی۔ یہ برائیاں ہیں جن کو آپ اپنے اندر سے نکالیں گی تو ان برائیوں کو روکنے کا آپ ذریعہ بنیں گی۔

               پھر ایک احمدی عورت، ایک احمدی بچی جب یہ باتیں اختیار کرے گی اور پھر آگے بڑھے گی تو اُن لوگوں میں شامل ہو گی جو صالحات کہلاتی ہیں جن کا ابھی آپ نے تلاوت میں بھی ذکر سنا۔ وہ صالحات بنیں گی جو خدا تعالیٰ کی پسندیدہ بندیاں ہیں۔ وہ عورتیں اور وہ بچیاں بنیں گی جن کو پھر اللہ تعالیٰ پیار کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے والی ہوتی ہیں۔ وہ ہر وہ کام کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو۔ ہر اُس کام سے رکتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو۔

               پھر اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے خاص طور پر فرمایا، آپ نے ابھی تلاوت میں بھی سنا کہ اولاد کو قتل نہ کرو۔ اولاد کو کون قتل کرتا ہے۔ اولاد کے قتل کا مطلب ہی یہی ہے جو پہلے مَیں ذکر کر آیا ہوںکہ بچوں کی صحیح تربیت نہ کرنا، اُن کی غلط طور پر جانبداری سے اُن کی طرفداری کرنا، جانبداری سے اُن کی باتوں کو اہمیت دینا اور سچی بات کو چاہے وہ عہدیداروں کی طرف سے آ رہی ہو یا کہیں سے آرہی ہو، باہر معاشرے سے آ رہی ہو اُس کو ردّ کر دینا، اُن کی تعلیم کی طرف پوری توجہ نہ دینا۔ بعض ایسی عورتیں بھی ہوتی ہیں جو بچوں کو سکول بھیجتی ہیں اورجب خاوند کام پر چلا گیا۔ تو خود بھی اگر پردے کا تھوڑا بہت لحاظ ہے تو شاید کوئی چادر اُٹھائی، سکارف اُٹھایا یا کوٹ پہنا اور چلی گئیں۔ نہیں تو ویسے ہی سر پر دوپٹہ رکھا اور ہمسایوں سے باتیں کرنے یا ادھر اُدھر نکلتی چلی گئیں۔ سارا دن گھر سے باہر گزار کے شام کو واپس آئیں تو بچے بیچارے بعض دفعہ دودھ پی کے یا جوس پی کے یا کوئی سیب پھل کھا کے سو جاتے ہیں۔ پس ایسی عورتیں بھی ہیں۔ اپنی ذمہ واریوں کا احساس کرنا چاہئے۔ نہیں تو یہ اولاد کا قتل ہے۔ پھر اولاد بگڑتی ہے اور پھر وہ نہ اُن کے اپنے کام کی رہتی ہے، نہ جماعت کے کام کی رہتی ہے۔ اولاد بھی آپ کے پاس جماعت کی امانت ہے اور اس کا حق ادا کرنا بھی ہر ماں کا فرض ہے۔ پس اس طرف بھی توجہ رہنی چاہئے۔ ان کی دینی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں دے رہیں تو یہ بھی اولاد کا قتل ہے۔ ماں باپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بچے نماز پڑھ رہے ہیں کہ نہیں۔ دس سال کی عمر تک آہستہ آہستہ عادت ڈالنی چاہئے۔ دس سال کے بعد تھوڑی سی سختی بھی کرنی چاہئے اور اس عمر میں اگر بچوں کو عادت پڑ جائے اور بچوں کو خود بھی سوچنا چاہئے کہ ہم احمدی بچیاں ہیں، ہم نے اللہ تعالیٰ کا جو نماز پڑھنے کا حکم ہے، اُس کو اپنانا ہے اور اس طرف توجہ رکھنی ہے تو ماں باپ اس کی نگرانی رکھیں کہ بچیاں نمازیں پڑھ رہی ہیں کہ نہیں۔ کیونکہ مائیں ہی ہیں جو ایک عمر کے بعد اُنہی کو پتہ ہوتا ہے کہ بچی نے نماز پڑھنی ہے کہ نہیں پڑھنی۔ اور ویسے بھی تو وہ گھر میں رہنے والی ہیں۔ اسی طرح اپنے بچوں کی نگرانی کریں کہ بچے نماز پڑھ رہے ہیں کہ نہیں۔ پھر قرآنِ کریم پڑھنے کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ قرآنِ کریم پڑھ رہے ہیں کہ نہیں۔ ایک دینی ماحول اپنے گھروں میں پیدا کریں گی تو تبھی خیرِ امّت میں شمار ہوںگی۔

               پھر بچوں کے جو دوست ہیں اُن کی طرف بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ لڑکیوں کی دوست ہوں یا لڑکوں کے کہ کس قسم کے دوست ہیں؟ لڑکیوں کو لڑکوں سے دوستی نہیں کرنی چاہئے۔ لڑکیاں لڑکیوں کی دوست ہوں۔ لیکن لڑکیاں دوست بھی وہ ہوں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔ تعلیمی لحاظ سے اگر دوست بنائی ہیں تو تعلیمی لحاظ سے اچھی ہوں۔ اخلاقی لحاظ سے اچھی ہوں۔ اسی طرح لڑکے ہیں اُن کی نگرانی کرنا ماؤں کا فرض ہے۔ اگر یہ نہیں کررہیں توپھر یہ بھی اولاد کا قتل ہے۔

               پھر بعض گھروں میں جماعتی نظام یا جماعتی عہدیداروں کے خلاف باتیں کرنے کی، یا ویسے ہی تبصرے کرنے کی عادت ہے۔ اُس سے پھر بچوں کے ذہنوں میں غلط اثر پڑتا ہے اور جب غلط اثر پڑتا ہے تو آہستہ آہستہ وہ جماعت سے دور ہٹ جاتے ہیں۔ یہ بھی اولاد کا قتل ہے جو ایک عورت کر رہی ہوتی ہے۔ پس آپ کی نظر میں اگر کسی بھی قسم کا عیب یا غلطی کسی کی ہے بھی تو اس قسم کی باتیں اپنے تک محدود رکھیں یا چھپ کر بات کریں۔ کبھی بچوں کے سامنے باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پس ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو ایک مومنہ پر ڈالی گئی ہے کیونکہ وہ گھر کی جو تربیت ہے اُس کی بھی ذمہ دار ہے اور ماحول کی بھی ذمہ دار ہے اور جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے اپنے معاشرے کی تربیت کی بھی ذمہ دار ہے۔ تبھی وہ خیرِ امّت میں شمار ہوگی۔

               اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کہا کہ مرد کی ذمہ داری ہے۔ مرد ادا کریں گے تو ثواب میں حصہ لیں گے بلکہ عورت بھی جب یہ ذمہ داری ادا کرے گی تو خیرِ امّت بن کے اپنے ان عملوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ثواب کی حقدار ٹھہرے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُوْلٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا (النساء:125) اور جو لوگ خواہ مرد ہوں یا عورتیں، مومن ہونے کی حالت میں نیک کام کریں گے تو وہ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن پر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

               پس اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو نیکیاں بجا لانے اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے اور برائیوں سے روکنے کے لئے ایک سطح پر کھڑا کر دیا ہے، ایک لیول پر کھڑا کر دیا ہے۔ جو جو یہ کام کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنے گا اور جنت کا وارث بنے گا۔ اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا کی چکا چوند جو ہے کسی عورت کو کبھی ایمان سے نہ پھیرے۔ ایمان مضبوط ہوگا تو نیکیوں کی طرف توجہ بھی ہو گی۔ برائیوں سے بچنے کی کوشش بھی ہو گی۔ پس ہمیشہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے بھی دعائیں مانگتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی ایک شرط ہے۔ تو پھر جب ایمان سلامت ہو گا اور اللہ تعالیٰ پر ایمان جب کامل ہوتا جائے گا، جس جس طرح بڑھتا جائے گا اُسی طرح برائیوں سے نفرت ہوتی جائے گی اور نیکیوں کی طرف رغبت پیدا ہوتی جائے گی۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی ادا ہوں گے۔

                کل میں نے خطبے میں کہا تھا کہ آجکل تلوار کا جہاد نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکے ہمیں یہی بتایا ہے کہ تلوار کا جہاد نہیں ہے۔ یہ جہاد جو ہم نے کرنا ہے اپنے اعلیٰ اخلاق سے کرنا ہے۔نیکیوں کو پھیلا کے کرنا ہے۔برائیوں کو روک کر کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی توحید قائم کر کے کرنا ہے۔ اور یہ ساری چیزیں، یہ باتیں جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے مَیں نے قرآنِ کریم سے لی ہیں۔ کیا نیکیاں کرنی ہیں اور کیا اور برائیاں نہیں کرنی۔ قرآن، سنت اور حدیث کی روشنی میں ہم نے ان نیکیوں کو پھیلاتے چلے جانا ہے اور برائیوں سے خود بھی رُکنا ہے اور دنیا کو بھی روکتے چلے جانا ہے اور یہی جہاد ہے جو آجکل اس زمانے میں ضروری ہے۔ یہی جہاد ہے جس سے ہم اسلام کی تبلیغ کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ بہت ساری باتیں، بہت سارے دلائل آپ دنیا کو دیتے ہیں لیکن دنیا یہ دیکھتی ہے کہ خود آپ میں اُن پر عمل کرنے کی کس حد تک صلاحیت ہے اور کس حد تک کر رہی ہیں۔ اگر خود اپنے عمل ایسے نہیں تو اس بات کا کبھی کوئی اثر دنیا پر نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کہہ کر ایک بہت بڑی ذمہ داری ایک احمدی پر ڈالی ہے کہ اپنے عملوں سے تبلیغی میدان میں کود جاؤ۔ تمہارے عمل جو ہیں وہی ہیں جو تبلیغ میں اپنے معاشرے میں، اپنے ماحول میں اور جس قوم میں تم رہ رہے ہو، بہت بڑا کردار ادا کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں آکے فضل فرمایا، بہت ساروں کو مالی لحاظ سے بھی بہت مضبوط کر دیا ہے۔ اس قوم نے احسان کیا ہے کہ آپ کو یہاں رہنے کی جگہ دی ہے۔ اس قوم کے اپنے اوپر احسان کا بدلہ آپ اُسی صورت میں اتار سکتی ہیں جب اِن کو تبلیغ بھی کریں اور اسلام کا حقیقی پیغام جو ہے وہ پہنچائیں۔ قرونِ اولیٰ کی خواتین نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات نے جہاں اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کرنے اور اللہ تعالیٰ سے لَو لگانے میں ترقی کی ہے وہاں اپنے اخلاق میں بھی اعلیٰ ترقی کی ہے۔ اپنے اعمال میں بھی اعلیٰ ترقی کی اور بہت سارے اعلیٰ نمونے قائم کئے جن کو دیکھ کر دوسرے بھی متاثر ہوئے۔ اور صرف یہی نہیں کہ اپنی روحانیت کے اعلیٰ معیار قائم کئے بلکہ اپنی اولاد کی بھی اس طرح  تربیت کی کہ وہ اُمت کے لئے مفید وجود بن سکیں۔ اُن کی ایسی تربیت کی کہ اُن کو اسلام کے ساتھ جوڑ دیا اور وہ قربانیاں دیتے چلے گئے۔ یہی آج احمدی ماؤں کا کام ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ آپ نے جو عہدِ بیعت باندھا ہے وہ یہ تقاضا کرتا ہے کہ اپنے بچوں کو، اپنی نسلوں کو جماعت کے ساتھ اس طرح جوڑ دیں کہ وہ جماعت کی خاطر ہمیشہ قربانیاں کرتے چلے جائیں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ صرف عہد دہرانے والے نہ ہوں۔

               پھرتعلیمی میدان میں بھی ترقی کرنی ہے۔ یہ بھی ایک احمدی کا کام ہے کہ دنیاوی تعلیم میں، تعلیمی میدان میں بھی ترقی کرے۔ یہی کام جو پہلی مسلمان عورتیں تھیں انہوں نے کیا۔ انہوں نے اُن کی دینی تعلیم و تربیت کی۔ اُن کو دنیاوی طور پر بھی مضبوط کیا لیکن یہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عملی طور پر اُن کو اس قابل بنایا کہ وہ ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہو گئے جیسا کہ میں نے کہا۔ اور یہ کیوں ہوا؟ اس لئے کہ وہ مائیں، وہ عورتیں خود عملی جہاد میں حصہ لے رہی تھیں۔ اُس زمانے میں جب مسلمانوں پر حملے ہوتے تھے تو مسلمانوں کو بھی تلوار اُٹھانے کا حکم ملا۔ کبھی کسی حملے میں کسی جنگ میں مسلمان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں پہل نہیں کی۔ ہمیشہ حملے ہوئے تو پھر دفاع کرنا پڑا اور اُس جہاد میں عورتیں بھی شامل ہوئیں۔ انہوں نے تلواریں بھی چلائیں۔ دیکھیں وہ عورت ہی تھی جس نے جنگِ اُحد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے اپنا خون بہایا۔ اپنے خاوند اور بیٹوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا حق ادا کر دیا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ اپنے بیٹے کو دشمن کے ہاتھوں زخمی دیکھا تو کہا کہ میرے بیٹے گھبراؤ نہیں، اُٹھو اور آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی حفاظت کا حق ادا کر دو۔ اور پھر یہ خوشنودی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حاصل کی، یہ سند بھی ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ملی کہ اے اُمّ عمّارہ! آپ جیسی جرأت بھلا کوئی دکھا سکتا ہے؟ آپ نے اور آپ کے خاندان نے آج حق ادا کر دیا ہے۔

(الطبقات الکبری جلد 8 و من نساء بنی النجار، امّ عمارہ صفحہ نمبر 441-442۔ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

                پس ایسی عورتیں بھی تھیں جو مردوں کے مقابلے میں تلوار چلاتی رہیں اور خود اور اپنے بچوں کو بھی اس راہ میں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہیں اور کسی قسم کی پرواہ نہیں کی۔ یہ جرأت اُن عورتوںمیں ایمان کی حرارت سے ہی پیدا ہوئی تھی۔ اور یہ ایمان کی حرارت ہی ہے جو آج بھی یہ جرأت پیدا کر سکتی ہے۔ آج تلوار کا جہاد نہیں لیکن اپنے اخلاق کو اعلیٰ ترین معیار تک پہنچانے کا جہاد ہے۔ نیکیوں کو رائج کرنے کا جہاد ہے۔ برائیوں سے رُکنے کا جہاد ہے اور روکنے کا جہاد ہے۔ اسلام کی تبلیغ کرنے کا جہاد ہے جو ہم نے کرنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور اس میں عورت کا بڑا اہم کردار ہے جو اُس نے ادا کرنا ہے چاہے وہ نوجوان ہے یا بچی یا بڑی عمر کی عورت ہے۔ اور یہ جرأت آج بھی آپ میں پیدا ہو سکتی ہے اگر ایک تڑپ اور لگن ہو جو اُن پہلی عورتوں میں پیدا ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی ایسی ہیں جو اس تڑپ کا اظہار کرتی ہیں لیکن جو نہیں کرتیں اُ ن کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ اور جو ہیں اُن کو اپنے معیار اور بلند کرنے چاہئیں تاکہ اس قوم تک ہم احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام جلد سے جلد پہنچا سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو فرماتے ہیں کہ آج تم سے کوئی تلوار کا جہاد کرنے کے لئے نہیں کہہ رہا کہ جس سے تم خوفزدہ ہو جاؤ۔ اپنا خون بہانے کے لئے نہیں کہہ رہا۔ تمہیں تو صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ اسلام کے دفاع کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع کے لئے، اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاؤ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 150۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)۔  پس یہ کرو گی تو اُن حقیقی مومنات میں سے شمار ہو گی جو خیرِ امّت میں شامل ہونے والی ہیں۔

               جیسا کہ مَیں نے کل بھی بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمارے کام بہت آسان کر دئیے ہیں۔ ہم ایک کام کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس کے مقابلے میں سو دروازے خود بخود کھول دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام نے جو اسلام کا حقیقی پیغام ہے اس نے تو دنیا میں پھیلنا ہی ہے اور پہنچنا ہے، اور جو سعید فطرت لوگ ہیں اس جماعت میں شامل ہونے ہیں، انشاءاللہ تعالیٰ اور اُن کے اللہ تعالیٰ سینے کھول رہا ہے لیکن ہم سے صرف یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ خیرِ اُمت بننے کا حق ادا کرو اور نیکیوں کو پھیلاؤ اور برائیوں سے دور رہو اور یہ اُس وقت ہوگا جب ہمارے عورت مرد، لڑکیاں اور لڑکے اور بچے اپنی حالت بدلنے کی طرف توجہ دیں گے اور اس طرف اُن کی توجہ ہوگی۔ دنیا داری کی طرف توجہ نہیں ہوگی بلکہ دین کی طرف توجہ ہوگی، دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی طرف توجہ ہوگی۔

                مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کام آسان کرنے کی بات کی ہے تو آج بھی چند مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کے سینے کھول رہا ہے جن میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ مَیں نے صرف چند عورتوں کی مثالیں لی ہیں جنہیں اللہ اُن لوگوں میں شامل فرما رہا ہے جو خیرِ امّت بننے کا حق ادا کرنے کے لئے آگے بڑھ رہی ہیں۔

                شام سے ہماری ایک حلوانی صاحبہ ہیں وہ اپنی خوابیں بیان کرتی ہیں۔ کہتی ہیں کہ مَیں نے پہلی خواب میں  علماء کا ایک مجموعہ دیکھا اور یوں لگتا ہے کہ وہ الحوار المباشر میں (جو ہمارا ایم ٹی اے کا عربی کا پروگرام ہے) بیٹھے ہوئے ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ بیدار ہونے کے بعد میرے ذہن میں صرف پنجاب کا لفظ محفوظ رہا جو میں نے اس سے قبل کبھی نہیں سُنا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنی ایک احمدی سہیلی کو خواب سنانے کے بعد اِس لفظ کا مطلب پوچھا تو وہ بہت حیران ہوئیں۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد مَیں نے ایک اور خواب میں ایک نور دیکھا جو ایک ایسے شخص کے حلیے میں تھا جو پگڑی پہنے ہوئے ہے اور دو زانو ہو کر بیٹھا ہے اور مجھے کہتا ہے کہ میں مہدی ہوں۔ جب میں بیدار ہوئی تو بہت خوش تھی اور میں نے بیعت کا اظہار کیا لیکن کسی وجہ سے میری بیعت لیٹ ہوگئی۔ کہتی ہیں تیسری خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں دن کے وقت آرام کی غرض سے لیٹی ہوئی ہوں اور ایک آواز مجھے مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ مَیں تیسری دفعہ تمہیں کہہ رہا ہوں کہ مَیں مہدی ہوں ۔تمہیں کس کا انتظار ہے؟ اس کے بعد میری بیٹی نے مجھے جگایا اور میں حیران و پریشان تھی۔ چنانچہ مَیں نے جلد بیعت کر لی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کا مطالعہ بھی کر رہی ہیں۔ کہتی ہیں مَیں ’’التبلیغ‘‘ کتاب پڑھ رہی ہوں۔ اس کو پڑھ کے بہت خوشی اور سعادت کا احساس ہوا ہے۔ اس کتاب میں مجھے خدا تعالیٰ کی قدرت نظر آئی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے بعد خدا تعالیٰ کی قدرتیں نئے انداز سے جلوہ گر ہوئی ہیں۔ اور جب بھی کوئی بات علم میں آتی ہے تو خدا تعالیٰ کی قدرت کو سجدے کرنے کو دل چاہتا ہے اور دل اُس کے شکر اور حمد کے گیت گانے لگتا ہے۔

               شام سے ہی ایک صاحبہ کہتی ہیں کہ میں نے جب جماعت کے بارے میں خدا تعالیٰ سے رہنمائی چاہی تو میں نے خواب میں آپ کو(یہ خط وہ مجھے لکھ رہی ہیں کہ آپ کو) اپنی طرف آتے دیکھا۔ مَیں نے آپ سے کہا کہ مَیں بہت تھک گئی ہوں۔ اس لئے مجھے آپ اپنے پاس لے جائیں تو آپ نے فرمایا کہ قرآن ختم کر لو تو مَیں تمہارے پاس آجاؤں گا یا کسی کو تمہارے لینے کے لئے بھیج دوں گا۔ اس پر میں نے کہا کہ اگر میں آپ کے پاس چلی گئی تو واپس سیریا (Syria) نہیں آؤں گی۔ اس پر آپ نے بڑی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور مسکرائے۔ اُس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں نے اپنے احمدی خاوند محترم کو کہا کہ بیعت کا خط ارسال کر دیں۔ مطلب یہ تھا کہ جب جماعت میں شامل ہو جاؤں گی تو انشاء اللہ تعالیٰ مضبوط رہوں گی اور اُن لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کروں گی جو پھر واپس مڑ کے برائیوں کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ نیکیوں کو پھیلانے والے ہیں اور خیرِ امّت میں شامل ہیں۔

               پھر تیونس کی ایک احمدی خاتون نے اپنا خواب بیان کیا جو کہ اُنہوں نے دس سال پہلے دیکھا تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک بہت بڑی جگہ پر ہیں۔ وہاں ایک reception پر شریف عودہ صاحب کو دیکھا۔ وہ بھی اس reception میں داخل ہو گئیں۔ وہاں انہوں نے مہادبوس صاحبہ جوہماری ایک عرب خاتون ہیں اور بڑے اخلاص سے کام کر رہی ہیں، تبلیغ کے کام میں بھی بہت آگے ہیں۔ جماعت کے لئے وقف ہی ہیں اور بہت سی پاکستانی لجنہ کو دیکھا اور اُن سے پردے کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ تمہارا پردہ ٹھیک ہے۔

               اب یہ بھی مَیں یہاں پر ضمناً ذکر کردوں کہ بعض عرب عورتیں مجھے یہ کہتی ہیں کہ ہم مسجد میں گئے۔ یوکے میں بھی، اور جگہوں میں بھی، وہاں احمدی عورتوں کے پردے ٹھیک نہیں تھے۔ عرب جو ہیں وہ خاص طور پر اپنے بالوں کے پردے کی طرف بہت توجہ دیتی ہیں۔ انہوں نے سر ڈھانکا ہوتا ہے۔ اس لئے اُن کو بڑا عجیب لگتا ہے کہ احمدی عورتیں پردہ نہیں کر رہی ہوتیں۔ ہلکا سا ایک دوپٹہ، چُنّی سر پر ڈالی ہوتی ہے۔ اس طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آپ کی وجہ سے کسی کو ٹھوکر نہ لگ جائے۔ بہرحال یہ تو اچھا ہوا کہ ان کو پاکستانی احمدی عورتوں کا خواب میں کم از کم پردہ اچھا نظر آیا۔

               کہتی ہیں کہ کچھ عرصے کے بعد میں نے جب بیعت کرلی تو ایک دن اپنی بہن سمیرہ کے ساتھ بیٹھی ایم ٹی اے دیکھ رہی تھی ۔ ایم ٹی اے پر الحوارالمباشر لگا تھا۔ میری بہن نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ میں نے اپنی بہن کو بتایا کہ یہ مسیح کے ساتھی ہیں۔ پھر ایم ٹی اے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر میں نے دیکھی ۔ یہ دیکھ کر میری بہن نے بڑے تعجب کے انداز میں کہا کہ اُس نے دس سال قبل ایک خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایسی ہی تصویر، یہی افراد اور یہی نظارہ دیکھا تھا جو وہ ایم ٹی اے پر دیکھ رہی تھی۔ تو یہ دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ خود گھیر گھیر کے لوگوں کو اس طرف خیرِ اُمت میں شامل کرنے کے لئے لا رہا ہے۔ اور ہم جن میں اکثریت جو میرے سامنے یہاں بیٹھی ہے پیدائشی احمدی ہیں ان کو کس فکر کے ساتھ اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ ہماری کیا ذمہ واریاں ہیں۔ کس طرح ہم نے اپنے آپ کو بہترین مومنات میں شامل کرنا ہے جو خیرِ اُمت کہلانے کی حقدار ٹھہریں۔ اور یہ خواب اُس وقت کا ہے جب ایم ٹی اے العربیہ ابھی وجود میں بھی نہیں آیا تھا۔

               پھر آئیوری کوسٹ سے ہمارے ایک مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ اپریل اور مئی 2011ء میں بیس مقامات کا دورہ کیا۔ ایک گاؤں نیاکارہ میں ایک خاتون مانوفوتو کسی بیماری میں مبتلا تھیں اور حاملہ بھی تھیں۔ وہ اپنی بیماری سے عاجز آ چکی تھیں مگر اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور اپنے ہونے والے بچے کے لئے ہر وقت دعا گو رہتیں۔ ایک رات وہ خواب میں ایک پگڑی والے شخص کو دیکھ کر ڈر گئیں اور ادھر اُدھر بھاگنے لگیں۔ لیکن جس طرف بھاگتیں ادھر ہی وہ اُنہیں دیکھتیں۔ آخر اُس پگڑی والے شخص نے اُسے کہا کہ ڈرو نہیں۔ مَیں آپ کی صحت کے لئے دعا کروں گا اور آپ ٹھیک ہو جائیں گی، انشاءاللہ۔ اس پر آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد جلد ہی وہ ٹھیک ہو گئیں۔ چار مہینے کے بعد اُس نے ایک صحت مند بچے کو جنم دیا۔ ایک دن اس عورت کا احمدیہ مشن نیاکارہ میں آنا ہوا تو وہاں انہوں نے میری تصویر دیکھی اور دیکھتے ہی کہنے لگی کہ یہ تو وہی شخص ہے جنہوں نے میرے لئے خواب میں دعا کی تھی اور میں تندرست ہو گئی ہوں۔ اسے بتایا گیا کہ یہ خلیفۃالمسیح الخامس ہیں اور اُس کے بعد پھر اُس نے اور اُس کے شوہر نے بیعت کرلی۔

               تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جب کسی بھی خلیفہ کو رؤیا میں دکھاتا ہے جو جانتے بھی نہیں تو اس لئے دکھاتا ہے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا اظہار ہو۔

               پھر اٹلی میں ہماری ایک عرب خاتون ہیں۔ اُن کی تو بہت لمبی چوڑی کہانی ہے کہ کس طرح انہوں نے ایم ٹی اے کو دیکھا اور اُن کے خاوند نے ہی کہا کہ دیکھا کرو۔ وہ اُسے دیکھتی رہیں اور دیکھ کر آخر انہوں نے ارادہ کر لیا کہ میں احمدی ہو جاؤں گی، بیعت کر لوں گی۔ لیکن خاوند اپنی مصروفیات کی وجہ سے احمدی نہیں ہو رہے تھے۔ آخر کسی وجہ سے اُن کی نوکری چھٹ گئی۔ نوکری ختم ہونے پر خاوند کو انہوں نے کہا کہ تم ایم ٹی اے بیٹھ کر دیکھا کرو اور دیکھنے پر بہت سارے سوال جو اُن کے ذہن میں اُبھرتے تھے۔ تو وہ اُن کے جواب لینے کے لئے جب اپنے مولویوں کے پاس جاتے تھے تو مولوی اُن کے جواب نہیں دے سکتے تھے۔ آخر انہوں نے بھی ایک دن بیعت کر لی۔ وہ اپنی خوابوں کا ذکر کرتی ہیں ۔کہتی ہیں کہ شروع میں جبکہ ہم میاں بیوی احمدیت کے بارے میں بحث کرتے تھے تو ایک دن وہ کہیں دور دراز علاقے میں گئے تاکہ لوگوں سے احمدیت کے بارہ میں پوچھیں۔ واپس لوٹے تو اُن کا چہرہ بجھا بجھا سا تھا۔ کہنے لگے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مَیں اپنے آپ کو ان مشائخ سے جو سارا قرآن پڑھے بہتر سمجھوں۔ میاں کی پریشانی کی وجہ یہ بھی تھی کہ مَیں احمدیت کی طرف بڑی شدت سے راغب تھی۔ اس رات مَیں نے دو رکعت نوافل ادا کئے اور بارگاہِ الٰہی میں روئی کہ الٰہی! مَیں تو حضرت امام مہدی مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لاتی ہوں اور میرے میاں بھی اطمینانِ قلب چاہتے ہیں۔ سو ان پر حق آشکار کر اور مجھے بھی ثابت قدم رکھ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے خوابیں دکھائیں۔ کہتی ہیں پہلی خواب یہ تھی کہ مَیں نے دیکھا، (مجھے دیکھا انہوں نے) کہ آپ ہمارے گھر تشریف لائے ہیں اور گھر میں چیزیں بکھری پڑی ہیں، صوفہ اور کرسیاں بھی سب اُلٹ پلٹ ہیں۔ یہ سُن کر کہ خلیفۂ وقت آنے والے ہیں مَیں نے چیزوں کو سیٹ کرنے کی کوشش کی مگر پھر بھی بکھری رہ گئیں۔ کہتی ہیں جب آپ داخل ہوئے تو مَیں اور میرے میاں آپ کے پہلو میں کھڑے ہو گئے اور مَیں الٹ پلٹ اشیاء دکھا کر گویا شکوہ کر رہی ہوں کہ بچوں نے یہ اودھم مچایا ہے۔ تو اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ مَیں نے کھولا تو کیا دیکھتی ہوں کہ تبلیغی جماعت والوں کی ایک عورت ہے جو مجھے کہتی ہے کہ لوگ تبلیغی سفر پر جانے کے لئے تیار ہیں تم بھی آجاؤ۔ مَیں نے کہا مَیں تم لوگوں کے ساتھ جانے کیلئے تیار نہیں ہوں۔ مَیں چاہتی ہوں کہ وہ عورت جلد واپس چلی جائے کیونکہ خلیفۂ وقت ہمارے گھر آئے ہوئے ہیں اور مَیں بہت خوش ہوں۔ خیر پھر کہتی ہیں، اپنے مشنری کو لکھتی ہیں یا دفتر میں کہ مَیں نے دیکھا (میرے متعلق کہ) اُن کی کوئی دکان ہے جو گندم کی بوریوں سے بھری ہوئی ہے اور لوگ اس میں سے اُٹھا اُٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ مَیں بھی اُٹھاتی ہوں۔ ایک شخص اچانک مجھ سے جھگڑتے ہوئے کہتا ہے کہ ایک دن اس دکان میں موجود گندم ختم ہو جائے گی ۔ میں بڑی جرأت سے جواب دیتی ہوں کہ زمین کا یہ ٹکڑا دیکھتے ہو۔ ایک وسیع ٹکڑا زمین کا ہے، یہ ہماری زمین ہے۔ اگر میں گندم کا ایک دانہ اس میں بوؤں گی تو وہ سو دانے نکالے گا۔ تمہارا کیا خیال ہے یہ ہزاروں دانے کتنے ہو جائیں گے۔ جب یہ خوابیں انہوں نے دیکھیں تو اس کے بعد خیر بیعت بھی کر لی اور جرأت بھی اُن میں پیدا ہوئی۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی طرح ہے۔ ایک دانہ بویا جاتا ہے تو سو دانے اللہ تعالیٰ نکالتا چلا جا رہا ہے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا جو قرآنِ کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ ہے کہ آپ کی اُمت خیرِ امّت ہے اس خیرِ امّت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اور انشاء اللہ ہوتا چلا جائے گا۔ پس آپ لوگ بھی اس کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ تو احمدیت میں وہ عورتیں لا رہا ہے جو اپنے خاوندوں سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں داخل ہو رہی ہیں اور آپ کو سلام پہنچا رہی ہیں۔ اُن لوگوں میں شامل ہو رہی ہیں جو خیرِ امّت کا حق ادا کرنے والیاں ہیں۔ اپنے خاوندوں اور اولادوں کی اصلاح کے لئے کوشش کر رہی ہیں اور اُن کی اصلاح کا باعث بن رہی ہیں۔ یہی کام اگر آج آپ کریں گی اور اس عہد کے ساتھ یہاں سے اُٹھیں گی کہ ہم نے کرنا ہے تو اس زمانے کی اُن خواتین میں شامل ہو جائیں گی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی وہ حقیقی جماعت ہے جو خیرِ امّت ہے جنہوں نے آخرین میں سے ہو کر اوّلین کے فیض پانے کی خوشخبری پائی ہے۔

 ایک عرب نے مجھے لکھا کہ میں بہت پریشان ہوتا تھا کہ قرآن شریف میں آتا ہے کہ تم خیرِ امّت ہو۔ تو خیرِامّت یہ ہے؟ نہ ہمارے علماء کے پاس علم ہے، نہ ہمارے پاس کوئی طاقت ہے، غیروں نے ہم پر قبضہ کیا ہوا ہے، کس قسم کی خیرِ امّت ہیں۔ اب جبکہ مَیں نے ایم ٹی اے چینل دیکھنا شروع کیا ہے، احمدیت کا تعارف ہوا ہے، احمدیت میں شامل ہوا ہوں تو اب مجھے یقین آ گیا کہ یقینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والے ہی اُن لوگوں میں شامل ہیں جو خیرِ امّت ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ انہی کے ذریعے سے اسلام اور احمدیت کا دنیا پر غلبہ ہو گا۔

پس آپ لوگ اپنے فرائض کو سمجھیں چاہے وہ بچیاں ہیں۔ دس گیارہ سال کی بچیاں بھی عقل والی بچیاں ہوتی ہیں۔ نوجوان بچیاں بھی اپنے فرض کو پہچانیں، حق کو پہچانیں۔ صرف فیشن یا دنیا کی چکا چوند آپ کو متاثر نہ کرے۔ اُس ذمہ داری کی طرف توجہ دیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر ڈالی ہے کہ آپ نے دنیا کی اصلاح کا باعث بننا ہے اور دنیا کو نیکیوں کی تبلیغ کرنی ہے۔ اسی طرح جو بڑی عمر کی عورتیں ہیں نوجوانی سے قدم آگے بڑھا رہی ہیں اُن کو بھی چاہئے کہ اپنی ذمہ واریاں ادا کریں اور جب ہم تمام مرد عورتیں مل کر ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دیں گے تو تبھی ہم اُس مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے جس کو دے کر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا تھا۔

 اللہ کرے کہ ہم آپ کی بعثت کا مقصد پورا کرنے والے اور اس کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں