خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ سپین 3؍اپریل2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ مومنوں کے سامنے ایک مطمحِ نظر ہونا چاہئے جیسا کہ اس شخص یا قوم کے سامنے ہوتا ہے جس نے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں۔ اور پھر یہ بھی فرمایا کہ مسلمان تو خیرِ اُمّت ہیں جو دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (آل عمران:111) ۔ یعنی تم سب سے بہتر اُمّت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ پس مسلمان کا کام صرف اپنا فائدہ دیکھنا نہیں ہے بلکہ دوسروں کا فائدہ دیکھنا اور انہیں فائدہ پہنچانا بھی ہے۔ یہ فائدہ تبھی پہنچایا جا سکتا ہے جب اپنے پاس وہ سامان بھی ہوں جو دوسروں کے لئے فائدہ مند ہوں۔ اور یہ اعلیٰ ترین خزانہ جس سے ایک مسلمان دوسرے کو فائدہ پہنچا سکتا ہے وہ باتیں ہیں جو اِس دنیا میں بھی کام آئیں اور مرنے کے بعد بھی کام آئیں۔ اور وہ باتیں کیا ہیں؟ وہ نیکی کی باتیں ہیں۔ وہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو ایک انسان کو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتے ہیں۔ وہ خدا تعالیٰ کی آخری اور کامل اور مکمل تعلیم کو پھیلانے والے عمل ہیں جو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی دنیا و عاقبت سنوارنے کا باعث بنتے ہیں۔ پس خیرِ اُمّت بننے کے لئے ایک مقصد خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا ہے۔ اور فرمایا کہ اس کے حصول کی کوشش کرو گے تو خیرِ امت بن سکو گے۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا یہ بھی فرمایا کہ وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَات(البقرۃ:149)۔ اور ہر ایک شخص کا کوئی مطمحِ نظر ہوتا ہے جسے وہ اپنے پر مسلّط کرتا ہے۔ سو تمہارا مطمحِ نظر نیکیوں میں بڑھنا ہونا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’ خیر اور بھلائی کی ہر ایک قسم میں سبقت کرو اور زور مار کر سب سے آگے چلو‘‘۔
(تفسیر حضرت مسیح موعود؈ جلد اول (سورۃ البقرۃ )زیر آیت 149۔صفحہ 598)
پس صرف یہ حکم نہیں ہے کہ اپنی نیکیوں کے معیار بہتر کرتے جاؤ بلکہ ایک ٹارگٹ رکھو کہ ہم نے ہر اپنے سے بہتر جو نیکیوں میں آگے بڑھنے والا ہے، اُس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی ہے۔ اور پھر جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم خیرِ اُمّت ہو یعنی پوری اُمّت کی ذمہ داری لگا دی ہے کہ اپنے مقام پر غور کرو۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سب سے بہترین اُمّت بنایا ہے۔ تم ایسی شریعت کو ماننے والے ہو جو کامل اور مکمل شریعت ہے۔ تم پر ایسی تعلیم اتاری گئی ہے جس سے بہتر تعلیم قیامت تک اب اُتر نہیں سکتی۔ تمہارے لئے وہ رسول بھیجا گیا ہے جو خاتم الانبیاء ہے۔ اس نبی کی تصدیق کے بغیر کسی نبی کی حقیقت کا ہمیں پتہ نہیں چل سکتا۔ تم اُس رسول کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنے والے ہو جو افضل الرسل ہے اور انسانِ کامل ہے۔ پس کیوں نہ ہو کہ جس اُمّت میں یہ سب چیزیں جمع ہو جائیں وہ خیرِ اُمّت کہلائے۔ لیکن فرمایا کہ صرف اُمّت میں رسمی طور پر شامل ہو جانے سے خیرِ اُمّت کے فیض نہیں پہنچیں گے بلکہ ہر فردِ اُمّت کو یہ فیض حاصل کرنے کے لئے فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَات پر توجہ دینی ہو گی۔ نیکیوں میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ اور جب نیکیوں میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ ہو گی، جب حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ ہو گی ، جب ہر قسم کے اعلیٰ اخلاق کے حصول کے لئے کوشش ہو رہی ہو گی،جب نیکیوں میں ایک دوسرے سے بڑھنے کے لئے زور مار رہے ہو گے تبھی خیرِ اُمّت کا فرد کہلانے کے مستحق ٹھہرو گے۔ کیونکہ خیرِ اُمّت کا لقب تو ملا ہی اس لئے ہے کہ وہ نیکیوں کو پھیلانے والے اور برائیوں سے روکنے والے لوگ ہیں۔ پس جو شخص نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے کے لئے آگے قدم نہیں بڑھا رہا وہ خیرِ اُمّت کا حصہ دار کس طرح بن سکتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کے لئے ٹارگٹ بھی کوئی معمولی نہیں رکھا۔ بلکہ ایک کامل انسان کے عمل کو بطورِ نمونہ قائم فرما کر مسلسل کوشش کرتے چلے جانے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہر فرد کے سامنے ایک عظیم اُسوہ قائم فرما کر کہا ہے کہ اس کے حصول کی کوشش کرو۔ بے شک نیکیوں میں بڑھنے کے لئے ہر آگے جانے والا شخص پیچھے رہنے والے کے لئے نمونہ ہے۔ اس کو دیکھ کر پیچھے رہنے والے نے نیکیوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی ہے۔ لیکن دونوں طرح کے لوگوں کے لئے آخری مثال انسانِ کامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُواللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا(الاحزاب: 22)۔ یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک اعلیٰ نمونہ ہے جو اللہ اور اخروی زندگی کے ملنے کی امید رکھتے ہیں اور اللہ کا بہت ذکر کرتے ہیں۔ پس یہ نمونہ ہے جس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی طرف خدا تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ یقینا ایک عام مومن اس معیار تک نہیں پہنچ سکتا۔ لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بلند ترین ٹارگٹ تم اپنے سامنے رکھو اور اس کے لئے اپنی صلاحیتوں اور استعدادوں کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو۔ فرمایا کہ نیک نیتی سے اس کے حصول کے لئے کوشش کرو اور کرتے رہو۔ اگر تمہیں اس بات پر یقین ہے کہ ایک روز اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے، اگر تمہیں یہ یقین ہے کہ یومِ آخرت برحق ہے تو پھر اپنی کوشش جاری رکھو۔ کسی قسم کی سستی نہ دکھاؤ۔ اور اس کے لئے یہ بہت اہم ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔ اس سے مدد مانگتے رہو کہ اے اللہ! تیری رضا کے حصول کے لئے ہم تیرے اِس پیارے نبی ؐ کی قائم کردہ مثالوں کے مطابق چلنے کی کوشش تو کر رہے ہیں۔تُو ہی ہماری مدد فرما۔ جب نیک نیتی سے اس طرف توجہ ہو گی تو خدا تعالیٰ کمزوریوں اور کمیوں کو اپنی رحمت اور مغفرت میں ڈھانپ لیتاہے۔
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کے بارے میں فرماتا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ۔وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران:32 ) تُو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ پس یہ انتہائی اہم حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کا ایک رنگ میں دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے پیار کا حصول ہر اس شخص کے لئے بہت اہم ہے جو اپنے آپ کو حقیقی مسلمان کہتا ہے۔ اور ایک احمدی نے تو خاص طور پر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت ہی اس لئے کی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہو۔ اس کی رضا حاصل کرنے والا ہو اور اس کا پیار حاصل کرنے والا ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ کا پیار اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور اتباع کے بغیر نہیں مل سکتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ’’ ان کو کہہ دے کہ اگر خدا سے پیار کرتے ہو تو آؤ میرے پیچھے ہو لو اور میری راہ پر چلو تا خدا بھی تم سے پیار کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ تو بخشندہ اور رحیم ہے‘‘۔(اسلامی اصول کی فلاسفی ۔ روحانی خزائن ۔جلد 10صفحہ 325)
پھر آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں:’’ پس دیکھو کس طرح اللہ تعالیٰ نے افرادِ اُمّت کو اپنے محبوب قرار دیا ہے بشرطیکہ وہ محبوبوں کے سردار (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کریں اور آپؐ کے نمونہ پر چلیں‘‘۔
(تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد 2 صفحہ 17۔ ترجمہ از عربی عبارت ۔ کرامات الصادقین۔ روحانی خزائن جلد 7 صفحہ 131)
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں:’’ خدا وند تعالیٰ مسلمانوں کو حکم فرماتا ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے پر چلیں اور آپ کے ہر قول اور فعل کی پیروی کریں۔ چنانچہ فرماتا ہے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (سورۃ الاحزاب: 22)۔ پھر فرماتا ہے۔ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ ۔(آل عمران:32 )
(ریویو آف ریلیجنز جلد 2 نمبر 6 بابت جون 1903ء صفحہ 245)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’ خدا کے محبوب بننے کے واسطے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ہی ایک راہ ہے۔ اَور کوئی دوسری راہ نہیں کہ تم کو خدا سے ملا دے‘‘۔ فرمایا:’’مَیں پھر کہتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی راہ کے سوا اور کسی طرح انسان کامیاب نہیں ہو سکتا‘‘۔
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 102 مطبوعہ ربوہ)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اُسوۂ حسنہ قائم فرمایا جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں اس شدت سے توجہ دلائی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ وہ تعلیم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر اتاری۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپؐ کے اخلاق کیا تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا کہ آپ کے اخلاق قرآن تھے ۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 144-145 مسند عائشہؓ حدیث نمبر 25108۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)
اور کیوں نہ ہوتا۔ آپؐ ہی تو وہ انسانِ کامل تھے جن پر وہ آخری شریعت نازل ہوئی تا کہ دنیا کی اصلاح ہو، دنیا خدا تعالیٰ کی حقیقت کو سمجھے۔ دنیا اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھے۔ اور اس کا بہترین نمونہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات میں قائم کر کے دکھایا توصحابہ جو آپ کے ساتھ تھے وہ بھی باخدا انسان بن گئے۔
اس وقت مَیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعض ان واقعات کا ذکر کروں گا جو معاشرتی زندگی کے پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ وہ نمونے ہیں جو ہمیں اپنی روز مرہ زندگی کے جائزے لینے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
آج کل روزمرہ کی گھریلو زندگی میں ایک بہت بڑا مسئلہ میاں بیوی کے تعلقات میں دراڑیں اور ناچاقیاں بنتا چلا جا رہا ہے۔ مرد اور عورت دونوں
بے صبری کے نمونے دکھاتے ہیں۔ لیکن مرد کو عورت پر فوقیت کے لحاظ سے برداشت اور حسنِ سلوک میں بھی فوقیت کا اظہار کرنا چاہئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا نمونہ دکھاتے تھے۔ کیا نمونہ آپ نے قائم فرمایا۔ روایات میں ملتا ہے کہ بعض دفعہ آپ کی ازواج آپ سے سخت الفاظ بھی کہہ دیتی تھیں لیکن آپ ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا۔ عائشہ! جب تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو مجھے پتہ لگ جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! آپ کو کس طرح پتہ لگ جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم خوش ہوتی ہو اور اگر کسی بات پر قسم کھانے کا معاملہ آ جائے تو تم کہتی ہو کہ محمدؐ کے ربّ کی قسم! بات یوں ہے۔ اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو قسم کھانے کے معاملہ میں کہتی ہوابراہیم کے ربّ کی قسم! بات یوں ہے۔
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب غیرۃ النساء و وجدھن حدیث 5228)
بظاہر یہ چھوٹی سی بات ہے لیکن آپؐ کے حساس دل کی عکاسی کرتی ہے۔ان الفاظ سے جو آپ کے سامنے کہے جاتے ہیں آپؐ کو فوراً احساس ہو جاتا ہے کہ میری بیوی کسی بات پر ناراض ہے۔ اور پھر اس ناراضگی کے سدّ باب کی کوشش بھی آپ فرماتے تھے۔ آپؐ نے اپنے نمونے کے ساتھ صحابہ کو بھی یہ نصیحت فرمائی کہ یہی ایک بات جو ہے یہ گھریلو زندگی کے امن کی ضمانت ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کہہ ’’فَاتَّبِعُوْنِیْ ‘‘ ۔پس میری پیروی کرو۔ تو اس میں آپ کے ہر عمل اور ہر قول کی پیروی شامل ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی صحابہ کو نصیحت فرمائی۔ یہی اُمّت میں بعد میں آنے والوں کو نصیحت فرمائی۔
گھریلو تعلقات کے بارہ میں آپ کی نصیحت احادیث میں آتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورتوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا خیال رکھو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے( یعنی اس میں پسلی کی طرح کا طبعی ٹیڑھا پن ہے)۔ پسلی کے اوپر کے حصہ میں زیادہ کجی ہوتی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے۔ اگر تم اسے اس کے حال پر ہی رہنے دو گے تو اس کا جو فائدہ ہے وہ تمہیں حاصل ہوتا رہے گا۔ پس عورتوں سے نرمی کا سلوک کرو اور اس بارے میں میری نصیحت مانو۔
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب الوصیۃ بالنساء حدیث 5186)
ایک اور روایت میں ہے کہ عورت پسلی کی طرح ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے۔ لیکن اگر اس کے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرو گے تو فائدہ اٹھا لو گے۔
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب المداراۃ مع النساء … حدیث 5184)
پھر ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر اس کی ایک بات اسے ناپسند ہے تو دوسری بات پسندیدہ ہو سکتی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء حدیث 3648)
یعنی اگر اس کی کچھ باتیں ناپسندیدہ ہیں تو کچھ اچھی بھی ہوں گی۔ ہمیشہ اچھی باتوں پر تمہاری نظر رہے۔
اسی طرح عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ تم مرد کے گھر کی نگران ہو۔ اس کے گھر کی پوری طرح نگرانی کرواور اس کی کامل اطاعت بھی کرو۔
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا حدیث 5200)
دونوں طرف سے یہ سلوک ہو گاتو تبھی گھر کا امن اور سکون قائم رہ سکتا ہے۔
پھر ایک حدیث میں آتا ہے حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی اے اللہ کے رسول! بیوی کا حق خاوند پر کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا جو تُو کھاتا ہے، اس کو بھی کھِلا۔ جو تُو پہنتا ہے اس کو بھی پہنا۔ اس کے چہرے پر نہ مار اور نہ اس کو بد صورت بنا۔ اس کی کسی غلطی کی وجہ سے سبق سکھانے کے لئے اگر تجھے اس سے الگ رہنا پڑے تو گھر میں ہی ایسا کر۔ یعنی گھر سے اُسے نہ نکال۔
(سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجھا حدیث 2142)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ میں سے تحمّل ایک بہت بڑا خلق ہے۔ یہ تحمّل آپ میں بچپن میں بھی تھا جب آپ اپنے چچا کے گھر رہتے تھے۔ کبھی چچا کے بچوں سے ایسی بات نہیں کی یا کسی قسم کی زیادتی سے جو گھر میں ہو جاتی ہیں،ایسا اظہار نہیں ہوا جس سے آپ کا صبر ٹوٹتا ہوا نظر آئے۔ لیکن عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ تو یہ خُلق اور بھی نکھرتا چلا گیا۔ آپ کی برداشت کے ایسے ایسے واقعات احادیث میں ملتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ مدینہ ہجرت کے بعد آپ کی حیثیت معاہدہ کے بعدایک سربراہِ مملکت کی بھی تھی۔ لیکن اس زمانے میں بھی بعض ایسے واقعات روایات میں ملتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح آپؐ بعض لوگوں کے سلوک اور رویوں پرتحمّل اور برداشت سے کام لیتے تھے۔ کس شان کا صبر اور تحمّل کا نمونہ آپ نے دکھایا۔ ایک دفعہ ایک بدوی نے مال لینے کی خاطر آپ کی چادر کو اس قدر کھینچا کہ آپ کی گردن پر نشان پڑ گیا۔ لیکن آپ نے اس کی اس بات پر اسے سزا دینے کی بجائے مزید عطا کر دیا۔ کیونکہ اس نے کہہ دیا تھا کہ آپؐ سختی کا بدلہ نرمی سے دیتے ہیں۔
(الشفاء لقاضی عیاض جزء اول صفحہ 74’’و اما الحلم‘‘ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
یہی تلقین آپؐ نے اُمّت کے افراد کو بھی فرمائی۔ فرمایا :بعض دفعہ انسان بے صبری سے کام لیتاہے اور ایک سلسلہ جھگڑوں کا شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے آپؐ نے ایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دین کا خلاصہ یہ ہے کہ زبان کو روک کر رکھو۔ صحابہ نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ! ہماری ہر بات کا مؤاخذہ ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا کہ لوگ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیوں( یعنی برے الفاظ جو ہیں اور بیہودہ باتیں جو ہیں،بے موقع باتیں ہیں، اس) کی وجہ سے جہنم میں گرتے ہیں۔(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ حدیث 3973)
یہ زبان ہی ہے جو اس دنیا میں بھی انسان کو لے ڈوبتی ہے، جھگڑے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر مرنے کے بعد بھی قابلِ مؤاخذہ ٹھہراتی ہے۔
اِس زمانہ میں تحمل کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی زندگی میں نظر آتی ہے کہ ایک شخص آ کر آپ کو مجلس میں سب صحابہ کے سامنے گالیاں دیتا چلا جاتا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسے کچھ نہ کہو۔ آخر کار خود ہی بک بک کر کے تھک کر واپس چلا جاتا ہے۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 443-444)
یہ نمونے ہیں جو ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ ہیں۔
روایات میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طاقتور پہلوان وہ شخص نہیں جو دوسروں کو پچھاڑ دے۔اصل پہلوان وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب حدیث 6114)
پھر حضرت ابو ہریرہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حضرت ابو بکرؓ کو برا بھلا کہہ رہا تھا۔ اور حضرت ابوبکر ؓچپ تھے۔ حضور بیٹھے مسکراتے رہے اور تعجب کرتے رہے۔ جب اس شخص نے گالیاں دینے میں حد کر دی تو حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی جواباً کچھ الفاظ کہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ناراضگی کے انداز میں کھڑے ہو گئے اور چل پڑے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور! جب تک وہ مجھے گالیاں دیتا رہا آپ سنتے رہے اور بیٹھے رہے۔ لیکن جب مَیں نے اُس کا جواب دیا تو آپ ناراض ہو کر اٹھ آئے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر! جب تم خاموش تھے تو فرشتے تمہاری طرف سے اُسے جواب دے رہے تھے۔ لیکن جب تم نے خود جواب دینا شروع کیا تو فرشتے چلے گئے اور شیطان آ گیا۔ میں شیطان کے ساتھ کس طرح بیٹھ سکتا تھا۔ پھر فرمایا: اے ابوبکر! تین باتیں برحق ہیں۔ اوّل یہ کہ اگر کسی انسان سے زیادتی ہو اور وہ اللہ کی خاطر درگذر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے عزت کا مقام عطا کرتا ہے اور اس کی مدد کرتا ہے۔ دوسری یہ کہ جس شخص نے بخشش کا دروازہ کھولا اور اس کا مقصد صرف صِلہ رحمی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے مال کو زیادہ کرے گا اور اسے بہت دے گا۔ تیسری یہ کہ جس شخص نے اس غرض سے مانگنا شروع کیا ہے کہ اس کا مال زیادہ ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کے مال کو بڑھانے کی بجائے کم کر دے گا۔(یعنی تنگدستی اُس کا پیچھا کرے گی)۔
(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 546-547 ’’مسند ابی ھریرۃ‘‘ حدیث نمبر 9622 ۔ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پھر ایک اورخُلق ہے، جذبات کا احترام۔ یہ ایک ایسا خلق ہے جو معاشرے میں محبت پیار پھیلانے کی ضمانت بن جاتا ہے۔ امن قائم کرنے کی ضمانت بن جاتا ہے۔ ایک دفعہ ایک یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر شکایت کی کہ حضرت ابوبکر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا دل دکھایا ہے۔ آپؐ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا کہ یہ کیا کہتا ہے؟۔ کیا معاملہ ہے؟ حضرت ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ اس شخص نے پہل کی تھی اور کہا تھا کہ مَیں موسیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جسے خدا تعالیٰ نے تمام دنیا پر فضیلت دی ہے۔ اس پر مَیں نے جواباً یہ کہا تھا کہ مَیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں جسے
خدا تعالیٰ نے موسیٰ سے افضل بنایا ہے۔ (اور یہ اب ایسی بات نہیں ہے جو حضرت ابوبکرؓ نے غلط کہی ہو)۔ لیکن آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے جو خاتم الانبیاء ہیں، آپؐ جو افضل الرسل ہیں اور اس بات کو یقینا آپ سب سے زیادہ بہتر رنگ میں جانتے تھے، فرمایا: ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ کیوں؟ اس لئے کہ دوسرے مذہب والے کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اور ایک حقیقی مسلمان کو دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا چاہئے۔ ان لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دیا کرو۔
(عمدہ القاری شرح صحیح بخاری جلد 12 صفحہ 369 کتاب الخصومات باب ما یذکر فی الاشخاص، و الخصومۃ بین المسلم و الیھود حدیث 2411 طبع اول 2003ء)
اب اس حقیقت کے باوجود کہ آپ موسیٰ سے افضل ہیں۔ آپ کا یہ کہنا صرف اور صرف جذبات کے احترام اور امن کے قیام کے لئے تھا۔ لیکن اس کے باوجود بعض مستشرقین ، اسلام پر اعتراض کرنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے یہودیوں کے ساتھ ظلم سے کام لیا۔ اور یہ کتنی بڑی حقیقت ہے اور ایسی سچائی ہے جس کا خدا تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں اور افضل الرسل ہیں۔ لیکن جذبات کا احترام کرتے ہوئے آپ صحابہ کو اس سے روک رہے ہیںکہ ہمیں ان لوگوں کا احترام کرنا چاہئے۔
پس ایک احمدی کو بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر جو دوسروں کو تکلیف پہنچانے کا موجب بنتے ہیں تو وہ اس سے احتراز کریں، پرہیز کریںاور یہ دیکھیں،اپنے جائزے لیں کہ کیا ہم حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع بن رہے ہیں؟
آج دنیا میں چھوٹی سطح پر بھی اور بڑی سطح پر بھی انصاف قائم کرنے کا حق ادا نہیں کیا جاتا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انصاف کا معیار وہ تھا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ جس طرح آج کل بھی بعض معاشروں میں سفارشیں چلتی ہیں۔ کہا جاتا تھا کہ یورپ میں نہیں چلتیں۔ یہاں بھی چلتی ہیں یا کسی کو غیر معمولی توجہ اور ترجیح دی جاتی ہے جو انصاف کے خلاف ہے۔ اس طرح بعض کو بعض کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ عربوں میں بھی اُس زمانے میں یہ چیز بہت پائی جاتی تھی۔ لیکن آپؐ کا انصاف دیکھیں کہ کسی قوم کی بڑائی آپ کو انصاف کرنے سے نہیں روک سکی کیونکہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے۔ ایک دفعہ ایک بڑی خاندان کی عورت نے دوسرے کا مال ہتھیا لیا اور اس ہتھیانے کی وجہ سے پکڑی گئی۔ عربوں میں ان قبیلوں میں بے چینی پیدا ہوئی کہ بڑے خاندان کی عورت ہے۔ اگر اس کو سزا ملے گی تواس قبیلہ کی ہتک ہو جائے گی۔ اس عورت کی معافی کی سفارش کے لئے اسامہ بن زید کوجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پیارے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا گیا۔ لیکن اس سفارش کے سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو ہمیشہ غصہ کو دبانے والے اور تحمّل کا اظہار کرنے والے تھے، آپ کے چہرے پر غصے کا اظہار آیا اور آپؐ نے فرمایا کہ اُسامہ! سنو! کہ تمہارے سے پہلی قومیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ وہ بڑوں کا لحاظ کرتی تھیں اور چھوٹوں پر ظلم کرتی تھیں۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا اورمَیں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی یہ جرم کرتی تو مَیں اسے بھی سزا دیتا۔ (صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب 52/53 حدیث 3475)
آپؐ کے چچا عباسؓ پہلے مسلمان نہیں ہوئے تھے،بدر کی جنگ میں قیدی بنے۔ انہیں رسّیوں سے باندھا گیا جس کی وجہ سے وہ کراہتے تھے۔ اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ان کے کراہنے کی وجہ سے بار بار ان کی طرف اٹھتی تھی اور آپ بے چین ہوتے تھے۔ کیونکہ ان کا سلوک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت اچھا تھا۔ صحابہ نے یہ محسوس کیا تو حضرت عباس، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ پہلے مسلمان نہیں تھے بعد میں مسلمان ہو گئے، ان کی رسیاں ڈھیلی کر دیں۔ جب آپؐ کو علم ہوا تو آپؐ نے فرمایا: یا تو تمام قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کر دو۔ یا ان کو بھی اُسی طرح دوبارہ کَس کر باندھو ۔ چنانچہ صحابہ نے باقیوں کی رسّیاں بھی ڈھیلی کر دیں۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 2 جزء 4 صفحہ 325 الطبقۃ الثانیۃ من المھاجرین و الانصار ’’عباس بن عبد المطلب‘‘ ۔ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
اللہ تعالیٰ کی کامل امانت یعنی شریعتِ کامل کو دنیا کے انسان تک پہنچانے کا ذریعہ بن کر اپنے امین ہونے کی سند جب آپؐ نے خدا تعالیٰ سے حاصل کی تو پھر اس تعلیم کے مطابق ہر قسم کی امانت کی ادائیگی کے حق بھی آپؐ نے ادا کئے۔ انتہائی خطر ناک حالات میں جب آپؐ نے مکّہ مکرمہ سے ہجرت کی تو آپؐ کو ان امانتوں کی بھی فکر تھی جو لوگوں نے آپ ؐکے پاس رکھوائی ہوئی تھیں۔ چنانچہ ان امانتوں کو آپ نے حضرت علیؓ کے سپرد کیا اور انہیں تاکید کی کہ یہ ان کے مالکوں تک پہنچا کر تم نے پھر مدینہ آنا ہے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 342 ھجرۃ الرسول ﷺ ’’ خروج النبیﷺ و استخلافہ علیا علی فراشہ‘‘۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
ایک دفعہ کسی نے سوال کیا کہ اگر کہیں کوئی گری پڑی چیز مل جائے تو اس کا کیا کیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کی نشانیاں بتا کر اعلان کرتے رہو۔ پھر اگر اُس کا مالک آجائے تو اسے لوٹا دو۔ پھر اس نے سوال کیا کہ اگر کوئی گمشدہ اونٹ مل جائے تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ آپؐ کا چہرہ متغیر ہو گیا۔ آپؐ نے فرمایا: اس اونٹ کے پاؤں اس کے ساتھ ہیں۔ وہ درختوں سے چر کر اور پانی پی کر زندہ رہ سکتا ہے۔ اس کو چھوڑ دو یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو حاصل کر لے یا پا لے۔
(صحیح مسلم کتاب اللقطۃ باب معرفۃ العفاص و الوکاء و حکم ضالۃ الغنم و الابل حدیث 4498)
پھر دشمنوں کی امانت کی ادائیگی کا کس طرح خیال رکھا؟ خیبر کی جنگ میں جبکہ مسلمانوں نے قلعہ کا محاصرہ کیا ہوا تھا ۔ یہود کے ایک حبشی چرواہے نیجوباہر بکریاں چرایا کرتا تھا اسلام قبول کر لیا۔ اس کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ تھا جو یہود کی تھیں۔ جن کو وہ چرایا کرتا تھا۔ مسلمان بھی اس وقت بھوک اور افلاس کا شکار تھے۔ اس کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے ریوڑ بھی اس کے ساتھ ہی آ گیا تھا۔ ظاہر ہے یہ تو مسلمانوں کے لئے اپنی بھوک مٹانے کا اور پیٹ بھرنے کابڑا اچھا موقع تھا ۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اس بارہ میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ریوڑ کا منہ قلعہ کی طرف کر کے اس کو قلعہ کی طرف ہانک دو۔ خود ہی وہاں چلا جائے گا۔ چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی اور بکریاں قلعہ تک پہنچ گئیں اور قلعہ والوں نے ان کو قلعہ کے اندر کر لیا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ’’امر الاسود الراعی فی حدیث خیبر ‘‘ صفحہ 703۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
تو یہ ادائیگی ٔ امانت کی وہ اعلیٰ ترین مثال ہے کہ مسلمان ہونے پر پہلا سبق جو اس حبشی غلام کو بھی دیا تووہ یہ تھا کہ یہ بکریاں نہ ہمارے لئے حلال ہیں، نہ تمہارے لئے حلال ہیں۔ ان کو ان کے مالکوں تک پہنچاؤ۔ پھر تم حقیقی مسلمان کہلا سکتے ہو۔ پس یہ وہ نمونہ ہے جو ہر احمدی کو بھی اپنی امانت کے حق کی ادائیگی کے لئے اپنانا چاہئے۔
ایک اعلیٰ خُلق عہد کی پابندی ہے۔ آپؐ اس بارے میں بھی اس قدر پابندی فرماتے تھے کہ بادشاہِ روم نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تبلیغی خط ملنے پر ابوسفیان کو بلا کر آپؐ کے بارے میں پوچھا اور یہ سوال کیا کہ اس شخص نے جس نے رسول ہونے کا دعویٰ کیا ہے کبھی بد عہدی بھی کی ہے؟ ابوسفیان جو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کا دشمن تھا اسے بھی شاہِ ہرقل کے سامنے یہ اقرار کرنا پڑا کہ آج تک آپؐ نے ہمارے ساتھ کوئی بد عہدی نہیں کی۔ البتہ ایک بات ہے کہ آجکل ایک معاہدہ ہوا ہوا ہے( جو صلح حدیبیہ کا معاہدہ تھا) دیکھیں اس بارہ میں آپ کا کیا رویہ ہوتا ہے۔ ابو سفیان کہتے ہیں کہ اس سے زیادہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کوئی بات نہیں کر سکا۔
(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب 6 حدیث نمبر 7)
یہ صلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی مشرکین نے ہی توڑا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس کی ایک ایک شِق پر عمل کیا تھا اور کرنے کی کوشش کی تھی۔ اور اس ایفاء عہد کا اتنا پاس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی بے انتہا برکات عطا فرمائیں اور اس کا سب سے بڑا انعام فتح مکّہ کی صورت میںخدا تعالیٰ نے عطا فرمایا۔
پھرعورتوں سے حسنِ سلوک کی آپؐ نے تلقین فرمائی۔ یورپ نے تو اب کچھ دہائیاں پہلے عورتوں کوبعض حقوق دئیے ہیں اور ان حقوق کے نام پر اب مسلمانوں پر اعتراض شروع ہو گئے ہیں کہ دیکھو یہ عورتوں کے حقوق کس طرح غصب کرتے ہیں اور اسلام نعوذ باللہ عورتوں کے حقوق پامال کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ان کو پردہ میں رکھا جاتا ہے۔ ان سے حجاب کی پابندی کروائی جاتی ہے۔ یہ ویسے ہی سراسر ایک الزام ہے، جھوٹ ہے۔ عورتیں اگرپردہ کرتی ہیں تو ایک نیک عورت خود اپنی مرضی سے کرتی ہے۔ لیکن اگریہ قرآن کو دیکھیں تو عورتوں کے حقوق کی تعلیم کا ان لوگوں کو علم ہو۔ اور اگر انصاف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر نظر ڈالیں تو پھر ان کو پتہ چلے کہ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے حقوق قائم فرماتے تھے؟ قرآنی تعلیم کے مطابق آپؐ نے آج سے چودہ سو سال پہلے عورت کے ورثہ کے حق کو قائم فرمایا۔ لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کو بھی ماں باپ کے ورثہ میں حقدار ٹھہرایا۔ ماؤں اور بیویوں کو بیٹیوں اور خاوندوں کے ورثہ کا حق دار ٹھہرایا۔ بہنوں کو بھائیوں کے ورثہ کا بعض حالات میں حقدار ٹھہرایا۔ عورت کی وراثت کا یہ حق قائم کرنے کا امتیاز صرف اور صرف اسلام کو حاصل ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل طور پر عملدرآمد کروایا۔ اسی طرح عورت کے مال کو اس کی ملکیت قرار دیا اور خاوند کو اس پرکسی قسم کے تصرف سے منع فرمایا۔ عورت اپنا مال خرچ کرنے میں پورا اختیار رکھتی ہے۔
آج کل بعض احمدیوں میں بھی یہ مثالیں سامنے آ جاتی ہیں کہ بیوی کے مال پر نظر رکھتے ہیں جوبیویاں کما رہی ہیں۔ اور اگر بیویاں اپنے مال نہ دیں یا کسی قسم کی بات نہ مانیں تو پھر گھروں میں لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ انتہائی غلط کام ہے اور مرد کی طرف سے ایک گھٹیا حرکت ہے۔ مرد کو اس کا کوئی حق نہیں ہے کہ اس کے مال پر تصرف کرنے کی کوشش کرے۔
عورتوں کے جذبات کا آپؐ کو اس قدر احساس ہوتا تھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز پر مَیں نماز جلد ی ختم کر دیتا ہوں کہ اس کے رونے کی وجہ سے اس بچے کی ماں کو تکلیف ہو رہی ہو گی۔
(صحیح بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلاۃ عند بکاء الصبی حدیث 707)
لیکن عورتوں کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ چھوٹے بچے جو رونے والے ہیں ان کو بلا وجہ مسجد میں لانا بھی نہیں چاہئے تا کہ باقی لوگوں کی بھی نمازیں خراب نہ ہوں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عورتوں کا جو احساس تھا اس کی وجہ سے مسلمانوں کو جو آخری نصیحت فرمائی اس میں یہ نصیحت بھی شامل تھی کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے ہمیشہ حسنِ سلوک کرتے رہنا۔
(المعجم الکبیر جلد 1 صفحہ 102 ’’سنن علی بن ابی طالب و وفاتہ رضی اللہ عنہ‘‘ ۔ دار احیاء التراث العربی 2002ء)
آپؐ یہ بھی فرماتے تھے کہ جس کے گھر میں لڑکیاں ہوں وہ ان کی اچھی تعلیم اور تربیت کرے تو خدا تعالیٰ قیامت کے دن اس پر دوزخ حرام کر دیتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الادب باب بر الوالد و الاحسان الی البنات حدیث 3669)
ہمسایوں سے حسنِ سلوک معاشرے کی خوبصورتی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اگر ہر ہمسایہ اپنے ہمسائے کا حق ادا کرے تو محلوں میں بھی امن قائم ہو جائے، شہروں میں بھی امن قائم ہو جائے اور ملکوں میں بھی امن قائم ہو جائے۔ آج کل اس دنیا میں جو لڑائیاں ہو رہی ہیں، فساد پھیلے ہوئے ہیں یہ سب ختم ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس قدر تاکید فرمائی تھی اور فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے بار بار تاکید کی ہے کہ ہمسایوں سے ہمیشہ نیک سلوک رکھنا اور فرماتے ہیں اتنی زیادہ تاکید فرمائی کہ مجھے خیال ہوا کہ شائد ہمسایوں کو وارث قرار دیدیا جائے گا۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب الوصاء ۃ بالجار حدیث 6014)
حضرت ابوہریرہؓ سے یہ روایت ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ ہرگز مومن نہیں۔ وہ ہرگز مومن نہیں۔ خدا کی قسم !وہ ہرگز مومن نہیں۔ صحابہ نے عرض کیاکہ یا رسول اللہ! کون مومن نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: جس کا ہمسایہ اس کی بدسلوکی اور نقصان سے محفوظ نہیں۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ حدیث 6016)
عورتوں کو بھی آپ نے خاص طور پر نصیحت فرمائی کہ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھو۔ عورتوں کو بد ظنیوں کی بھی زیادہ عادت ہوتی ہے۔ ویسے تو مردوں کو بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن بہر حال عورتوں کو بہت ہے۔ اس لئے ہر وقت وہ دوسری عورتوں کے بارے میں بد ظنی کی وجہ سے خود ساختہ کہانیاں بنا کر دل میں بعض اوقات پیچ و تاب کھاتی رہتی ہیں۔ اور اس وجہ سے پھردوسروں کو بعض دفعہ نقصان بھی پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ یا اگر نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں تو یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ اس دوسری عورت کو کسی رنگ میں کوئی فائدہ نہ پہنچ سکے۔ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نصیحت یاد رکھنی چاہئے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے عورتوں کو ہمسایوں کے خیال رکھنے کے بارہ میں نصیحت فرمائی کہ اگر تھوڑا سا بھی اچھا سالن تمہارے گھر میں پکا ہو اور ہمسایہ غریب ہو تو ہمسائے کا خیال رکھو۔
(صحیح بخاری کتاب الادب باب لا تحقرن جارۃ لجارتھا حدیث 6017)
پھر آپؐ نے فرمایا کہ ہمسائے کا اس قدر حق ہے کہ اگر وہ کسی مشترک دیوار پر کیل وغیرہ گاڑتا ہے اور تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے تو اسے نہ روکو۔
(صحیح بخاری کتاب المظالم باب لا یمنع جار جارہ ان یغرز خشبہ فی جدارہ حدیث 2463)
یہاں مغرب میں قانون بنانے والے جو انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں۔ یہاں تو ہمسائے کی ذرا ذرا سی بات پر یہ لوگ ایک طوفان کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کا حق ادا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اور خاص طور پرجب ہمسائے ایشین ہوں۔ ایک کام اگر ان کا ہم قوم کر رہا ہو تو اُسے اجازت ہوتی ہے اور کوئی غیر قوم کا آدمی کرے تو شور مچا دیتے ہیں۔ یہاں بھی بعض گھروں کی تبدیلیوں کی اجازت ،اگر کرنی ہوں تو،مشکلوں سے ہی ملتی ہے۔ لیکن لندن میں ،انگلستان میںتو مَیں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ایک واقعہ بھی ہوا ۔ ایک ڈاکٹر اجازت لے کراپنے گھر میں تبدیلی کرنے لگے ۔سامنے والے گھر نے بھی وہی تبدیلی کی ہوئی تھی۔ اس پرتو ہمسایوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن جب یہ کرنے لگے تو ہمسائے نے شور مچا دیا اور کونسل مجبور ہے کہ ہمسائے کے حق کے نام پر اس کو تبدیلی نہ کرنے دے۔ اس کا کوئی نقصان نہیں، کوئی مشترکہ دیوار بھی نہیں ہے۔ یہ جو انسانی قانون بنائے جاتے ہیں وہ پھر اسی طرح ہوتے ہیں جو بے چینیاں پیدا کرتے ہیں۔ بہر حال قانون نافذ کرنے والوں اورذمہ دار اداروں کا یہ کام ہے کہ حق اور انصاف پر قائم رہتے ہوئے ایک دوسرے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا دوریاں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں اور بے چینیاں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو تم نے ہمسائے کا حق ادا کرنا ہے۔
پھر معاشرے کی بھلائی کے لئے ایک بہت اہم چیز ایک دوسرے کے عیوب چھپانا ہے۔ آپؐ تو کسی کے عیب کا علم ہونے کے بعد بھی اسے چھپاتے ہی تھے۔ دوسروں کو بھی منع کرتے تھے۔ لیکن اگر کوئی خود اپنے عیب ظاہر کرتا تو اسے بھی منع فرماتے۔ آپؐ نے فرمایا جو شخص دوسرے شخص کا گناہ اس دنیا میں چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ قیامت کے دن چھپائے گا۔
(صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ ۔ باب بشارۃ من ستر اللہ تعالیٰ عیبہ فی الدنیا حدیث 6595)
پس یہ ان لوگوں کے لئے بہت سوچنے کا مقام ہے جو دوسروں کی ذرا ذرا سی کمزوری دیکھ کر اس کو اِدھر اُدھر پھیلاتے رہتے ہیں۔ اس طرح برائیوں کے اظہار سے برائیاں پھیلتی ہیں۔ آج کل کے معاشرے میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ معاشرے کی اصلاح کے لئے ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں یا ایسے ڈرامے بنائے جاتے ہیں جن میں برائیوں کا خوب خوب اظہار کیا جاتا ہے۔ اور آخر میں تھوڑے سے حصہ میں یہ نتیجہ نکال دیا جاتا ہے کہ ان برائیاں کرنے والوں کا انجام بُرا ہو اورکیونکہ اصلاح سے زیادہ ان فلموں اور ڈراموں میں کاروباری مقصد پیشِ نظر ہوتا ہے اس لئے مہینوں کی قسطیں چلتی چلی جاتی ہیں اور پھر اس کے بعد آخرمیں ایک قسط کے تھوڑے سے حصہ میں برائی کرنے والے کا بد انجام دکھایا جاتا ہے اور یہ انتہائی فضول اور لغو چیز ہے۔ ایک لمبا عرصہ برائیوں کو دیکھ دیکھ کر نوجوانوں میں اس برائی کو کرنے کی طرف زیادہ چاہت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور بہ نسبت اس سے رکنے کے بعض فن (Fun)کے طور پر کر رہے ہوتے ہیں ۔ اور آج کل کے معاشرے میں تو برائیاں اس قدر پھیل گئی ہیں کہ نوجوان بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی وجوہات یہی ہیں جو فلموں میں دکھائی جاتی ہیں۔
پھر معاشرے کی بہت بڑی بیماری سچائی سے دوری ہے۔ گھروں میں بھی اور بازاروں میں بھی اور محلوں میں بھی، کاروباروں میں بھی، ملکی سطح پر بھی ایک دوسرے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے سچ سے دور ہو رہے ہیں اور جھوٹ کا سہارا لیا جاتاہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو سچ کا مقام اتنا اونچا تھا کہ غیر بھی آپ کو صدّیق کہنے پر مجبور تھے۔ آپ نے اپنی اُمّت کو بھی نصیحت فرمائی ہے کہ سچ کے ایسے مقام پر کھڑے ہو جہاں جھوٹ کا شائبہ تک نہ ہو۔
آپؐ نے فرمایا: سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور سچ کا مقام یہ ہے کہ انسان سچ بولتا چلا جائے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے حضور بھی سچا کہلائے۔
(صحیح بخاری۔ کتاب الادب۔ باب قول اللہ تعالیٰ’ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین‘ حدیث 6094)
اللہ تعالیٰ کے حضور سچا کہلانے کا تو انسان کو پتہ نہیں چل سکتا۔ اس کا صرف اور صرف یہ مطلب ہے کہ ہر انسان انتہائی باریکی سے ہر وقت اپنا جائزہ لیتا رہے کہ مَیں کوئی ایسی بات تو نہیں کہہ رہا جس میں ہلکا سا بھی غلط بیانی کا شائبہ ہو۔
حضرت عائشہؓ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹ سے زیادہ ناپسندیدہ اور قابلِ نفرین کوئی اور بات نہیں تھی۔ اور جب آپ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپ اس وقت تک اس سے کھچے کھچے رہتے جب تک آپ کو علم نہ ہو جاتا کہ اس نے اس کام سے توبہ کر لی ہے۔
(سنن ترمذی۔ کتاب البر۔ و الصلۃ باب ما جاء فی الصدق و الکذب حدیث 1973)
ایک شخص کو اپنے گناہ دور کرنے کے لئے جو ایک نصیحت فرمائی تو وہ یہ تھی کہ تمام گناہ دور کرنے کے لئے ایک ہی نصیحت ہے جس سے باقی گناہ بھی دور ہو جائیں گے۔ وہ نصیحت یہ تھی کہ کسی حالت میں بھی جھوٹ نہیں بولنا۔
(تفسیر کبیر امام رازی ۔جلد 8 ۔جزء 16۔ صفحہ 176۔ تفسیر سورۃ التوبۃ زیر آیت 119
’’ یا ایھا الذین اٰمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین‘‘۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
پس یہ ایک ایسا اہم خُلق ہے جو ایک احمدی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہونا چاہئے۔ کسی موقع پر بھی ،کسی سطح پر بھی جھوٹ کا اظہار نہیں ہونا چاہئے اور ہمیشہ سچائی کا اظہار ہونا چاہئے۔ یہی ایک احمدی کی امتیازی شان ہے اور ہونی چاہئے۔
یہ چند باتیں جو مَیں نے بیان کی ہیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کی چند مثالیں ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ پر چلنے کے لئے تو قرآنِ کریم کے تمام حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے اور اس کو اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی متّبعین میں شمار ہو سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنا جس کے لوازم میں سے محبت اور تعظیم اور اطاعتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے، اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیںیعنی اگر کوئی گناہ کی زہر کھا چکا ہے تو محبت اور اطاعت اور پیروی کے تریاق سے اس زہر کا اثر جاتا رہتا ہے۔ اور جس طرح بذریعہ دوا مرض سے ایک انسان پاک ہو سکتا ہے ایسا ہی ایک شخص گناہ سے پاک ہو جاتا ہے۔ اور جس طرح نور ظلمت کو دُور کرتا ہے اور تریاق زہر کا اثر زائل کرتا ہے اور آگ جلاتی ہے۔ ایسا ہی سچی اطاعت اور محبت کا اثر ہوتا ہے‘‘۔
(عصمت الانبیاء علیہم السلام ،روحانی خزائن جلد18۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن ۔صفحہ 680)
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت پیدا کرے۔ ہم اپنے اعمال کو کوشش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے والے بنیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے ہوں۔
اللہ تعالیٰ سب شاملینِ جلسہ کو اپنے خاص فضل اور رحم سے نوازتا رہے۔ اس جلسہ کی برکات ہمیشہ ظاہر ہوتی رہیں، ہر احمدی کی زندگی میں بھی اور جماعتی زندگی میں بھی۔ اللہ تعالیٰ کی امان اور حفاظت میں آپ سب اپنے اپنے گھروں کو لَوٹیں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر رہے۔
امیر صاحب نے حاضری پیش کی ہے۔ مجھے نہیں پتہ گزشتہ سال کیا حاضری تھی۔ (امیر صاحب سپین نے عرض کی کہ گزشتہ سال حاضری 444تھی ۔اس پر حضور ایدہ اللہ نے فرمایا ) اس دفعہ اس سے بڑھ گئی ہے۔ اگر دیگر ممالک کے لوگ نہ آتے تو حاضری بہت کم ہو جاتی۔ انہوں نے آپ کی کچھ حاضری بڑھا دی ہے کیونکہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے 228ہیں۔ اس میں پرتگال اور مراکو وغیرہ کے بھی کافی لوگ شامل ہیں لیکن یہاں کے 343 ہیں۔ کل حاضری 571 ہے۔ اللہ تعالیٰ مبارک کرے۔ اور یہ حاضری اللہ تعالیٰ آئندہ جلسوں میںہزاروں میں لے جائے۔
اچھا اب دعا کرلیں۔