افتتاحی خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ یوکے 30؍جولائی 2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت میرے اس خطاب کے ساتھ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ یہ جلسہ جن مقاصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شروع فرمایا تھا، ان میں سے ایک بہت اہم مقصد جو تمام مقاصد کی اصل ہے وہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے صحیح عابد بندے بننا ہے۔ خدا تعالیٰ کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کرنا ہے۔ اس کا خوف دل میں پیدا کرنا ہے۔اپنے پیدائش کے مقصد کو پورا کرنا ہے۔ آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں کے بارے میں جن خصوصیات کا حامل ہونے کا ذکر فرمایا اور دعا کی، ان دعاؤں میں ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہونا چاہئے۔ایسا خوف جو سب خوفوں پر حاوی ہو اور اس وجہ سے خدا تعالیٰ سے تعلق میں ترقی ہو۔کوئی دنیاوی چیز ایک مومن کو خوفزدہ نہ کر سکے۔ جان، مال، اولاد کے نقصان سے خوفزدہ کرنے کی کوشش ہو تو ان چیزوں کی اس کے سامنے کوئی حیثیت نہ ہو، اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت سب چیزوں پر حاوی ہو جائے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تصویر بنے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَ ہٗ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤمِنِیْنَ(آل عمران:176)   یقینا شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں کو ڈراتا ہے۔ پس تم ان سے نہ ڈرو۔ اس کے دوست نہ بنو اور مجھ سے ہی ڈرو اگر تم مومن ہو۔ پس غیر اللہ کا خوف شیطان کے چیلوں کا کام ہے، ایک مومن کا نہیں۔ ایک حقیقی مومن اپنے پر ظلم تو برداشت کر لیتا ہے لیکن کبھی شیطان اور اس کے چیلوں سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔یہ ایمانی حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ شیطان کے چیلے ہر وقت سرگرم ہیں اور ان کے ڈرانے کے مختلف طریقے ہیں۔احمدیوں کو نقصانات کی دھمکیاں، قتل کی دھمکیاں، خاص طور پر لاہور میںدو مہینے پہلے جو واقعات ہوئے اس کے بعد پاکستان میں مزید شدت اختیار کر گئی ہیں اور نہ صرف پاکستان بلکہ اور ملکوں میں بھی جہاں شیطان اور اس کا گروہ کام کر رہا ہے ، یہ دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ اجتماعی شہادتوں کے بعد دشمن کا یہ خیال ہے کہ احمدی خوفزدہ ہیں، اس لئے ان کو ان کے ایمان سے پھرانے کے لئے مزید خوفزدہ کیا جائے۔لیکن جیسا کہ پہلے مَیں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ یہ لوگ بڑے خوش فہم ہیں، عقل سے عاری ہیں، بلکہ یہ کہنا چاہئے پاگل ہیں۔ ان کے خیال میں احمدیوں کو خوفزدہ کر کے ان کو ان کے ایمان سے پھیرا جا سکتا ہے۔ کیونکہ خود ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی کبریائی اور بڑائی اور قدرت و جبروت کا ادراک نہیں ہے اس لئے سمجھتے ہیں کہ احمدی خوفزدہ ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ سے زیادہ بندوں سے خوفزدہ ہو جائیں گے۔ شیطان کے ٹولوں کے زیرِ اثر آ جائیں گے۔ جبکہ لاہور کے واقعہ کے بعد جو خوشکن حقائق سامنے آ رہے ہیں وہ تو یہ ہیں کہ احمدیوں کا ڈر اور خوف دُور ہوا ہے، پاکستان سے آنے والے کئی لوگ بتاتے ہیں بلکہ اس موقع پر موجود کئی لوگ مجھے اب بتاتے ہیں کہ ہمارا ڈر اور خوف دُور ہو گیا۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے، باجماعت نمازوں کا ذوق اور شوق پیدا ہوا ہے۔پس احمدی کی سرشت میں بزدلی اور خوف کا خمیر نہیں ہے۔ان واقعات نے تو احمدیوں کو مزید خدا تعالیٰ کے قریب کر دیا ہے۔جو سست تھے ان کو بھی ان کے اصل مقام کی یاددہانی کرا دی ہے۔ پس ایسے واقعات تو احمدی کے ایمان کو صیقل کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ اب جبکہ دشمن ہمیں خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اپنی طاقتوں کو ہمیں خوفزدہ کرنے کے لئے جمع کر رہا ہے تو پھرجیسا کہ مَیں نے کہا ہر احمدی کی وہ حقیقی فطرت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ وہ سوائے خدا تعالیٰ کے کسی سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔ اور جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ کر مزید صیقل کرنے کی اللہ تعالیٰ نے ہر احمدی کو توفیق عطا فرمائی ہے۔ یہ الٰہی توارد ہے کہ لاہور کے واقعہ کے ایک ماہ بعدجرمنی کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا اور اس جلسے نے براہِ راست شامل ہونے والوں اور ایم ٹی اے کے ذریعے دیکھنے والوں کی بھی اکثریت میں ایمان کی مضبوطی، نیکیوں کی طرف بڑھنے اور تقویٰ میں ترقی کرنے کی، قربانی کے معیار قائم کرنے اور دعاؤں کی طرف توجہ پیدا کرنے کی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اور اب تھوڑے وقفے سے برطانیہ کا جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ جلسہ بھی قربانی کے جذبے کو اوراپنی حالتوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے، اللہ تعالیٰ کا تقویٰ دل میں پیدا کرنے میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ہر نیک فطرت اور سچے احمدی میں زہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور   پرہیز گاری کو حاصل کرنے کا ذریعہ بنے گا۔ یہی تو جلسے کے مقاصد تھے۔ اللہ کرے کہ پہلے سے بہت بڑھ کر احمدی تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی کریں۔

جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ  فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَخَافُوْنِ۔ تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ہی ڈرو، تو اس سے پہلے فرمایا سورۃ آلِ عمران کی آیت ہے کہ اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ  (آل عمران :174)  یعنی وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف لوگ اکٹھے ہو گئے ہیں پس ان سے ڈرو۔ تو اس بات نے ان کو ایمان میں بڑھا دیا اور انہوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ پس مومنوں کے لئے دشمنوں کے منصوبے، دشمن کے حملے، دشمن کی چالیں، دشمن کے جتھے، حکومتوں کی پشت پناہی کسی قسم کے خوف کا باعث نہیں بنتی بلکہ ایمان میں مضبوطی پیدا کرتی ہے۔ دشمن کے منصوبوں کے مقابلے میں وہ مزید ایک جان ہو کر خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق میں مضبوطی پیدا کرتے ہیں۔ صرف انفرادی دعاؤں کے بجائے اجتماعی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا کرتے ہیں۔ صرف اپنی ذات اور اپنے قریبیوں کے لئے دعا ؤں پر توجہ سے بڑھ کر اپنی دعاؤں میں وسعت پیدا کرتے ہیں۔ ایک جان ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور گرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں۔ ان کے ایمان اور یقین کی حالتحَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ   میں منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اور اس کا ادراک بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وہ دشمن کے مقابلے پر سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن کے ہر حملے کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے ناکام و نامراد کر دیتے ہیں۔ وہ اجتماعی اور مشترکہ دعاؤں سے دشمن پر ایسے کاری تیروں کی بوچھاڑ کرتے ہیں جو دشمن کی صفوں کو تتر بتر کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کو جذب کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ’’ ان کو ڈرایا جاتا ہے کہ لوگ تمہیں سزا دینے کے لئے اتفاق کر گئے ہیں سو تم لوگوں سے ڈرو۔ پس ڈرانے سے اَور بھی ان کا ایمان بڑھتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ خدا ہمیں کافی ہے‘‘۔ پھر آپؑ نے فرمایا ’’ان کی شجاعت میں ریا کاری اور خود بینی نہیں ہوتی، اور نہ نفس کی پیروی ۔بلکہ ہر ایک پہلو سے خدا کی رضا مقدم ہوتی ہے‘‘۔ فرمایا’’ اس آیت میں‘‘( جو مَیں نے آلِ عمران کی پڑھی ہے) ’’یہ سمجھایا گیا ہے کہ حقیقی شجاعت کی جڑ صبر اور ثابت قدمی ہے۔ اور ہر ایک جذبہ نفسانی یا بَلا جو دشمنوں کی طرح حملہ کرے اس کے مقابلہ پر ثابت قدم رہنا اور بزدل ہو کر بھاگ نہ جانا یہی شجاعت ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد نمبر10صفحہ 359)

 یہ ٹھیک ہے کہ شیطان بعض اوقات افرادِ جماعت کو نقصان پہنچا دیتا ہے اور پہنچاتا رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس کام کی چھوٹ دی ہوئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ شجاعت کی جڑ صبر اور ثابت قدمی ہے، یہ صبر اور ثابت قدمی کی حقیقت تو اس وقت سامنے آتی ہے جب دشمن عملی حربے استعمال کرتا ہے۔خوفزدہ کرنے کے لئے صرف دھمکیاں نہیں ہوتیں بلکہ نقصان پہنچاتا ہے اور ایک مومن نے اس حالت میں بھی صبر اور ثابت قدمی دکھانی ہے۔ بہادری سے، بغیر کسی خوف کے ان حملوں کا سامنا کرنا ہے۔ کتنے عظیم ہیں وہ مومنین جنہوں نے آج بھی صبر و استقامت کے وہ نمونے قائم کئے جو ہمیشہ زندہ رہیں گے۔اور آفرین ہے ان ماں باپ، بھائی بہنوں اور بیوی بچوں پر جنہوں نے صبر سے اس صدمے کو برداشت کیا اور اپنے ثباتِ قدم پر حرف نہیں آنے دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں اپنے تمام وعدے پورے فرمائے۔

اللہ تعالیٰ شیطان کے بارے میں فرماتا ہے کہ اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ (الاعراف:16) کہ تجھے ڈھیل دی جاتی ہے کہ اپنے چیلوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر ،ان کے دل میں خدا کے نام پر ہی غلط اعتقاد پیدا کر کے، الٰہی جماعت کے ماننے والوں کے متعلق جھوٹی باتیں کہہ کر اپنے ظالمانہ مقاصد حاصل کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر کے یہ کوشش کرتا چلا جا۔ لیکن اس کا انجام بھی یاد رکھنا کہ قیامت کے دن وہ شیطانی چیلے بھی اور شیطان بھی اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے سزاوار ہوں گے۔ اور مومنوں کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ راستے کی عارضی روکیں اور انفرادی نقصان اور دشمن کے حملوں سے تمہاری جماعتی ترقی کبھی نہیں رکے گی اور نہ رک سکتی ہے۔ یہ امتحان، یہ ابتلا تمہیں آزمانے کے لئے ہیں۔ تمہارے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے ہیں۔ جماعتی ترقی کے نئے ہدف مقرر کرنے کے لئے ہیں۔ پس اگر مومنین کی جماعت صبر اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتی رہے گی، اور دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا ہر لمحہ مقدم رہے گی ، خدا تعالیٰ کا خوف دلوں میں قائم رہے گا تو مومنین کی جماعت ان ابتلاؤں سے سرخرو ہو کر نکلتی چلی جائے گی۔ مومنوں کے ابتلاؤں اور امتحانوں کے بارے میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے  (مَیں ترجمہ پڑھتا ہوں) کہ’’ ہم مومنوں کو خوف سے بھی آزماتے ہیں، جُوع یعنی بھوک سے بھی آزماتے ہیں اور آزمائیں گے، مالوں کے نقصان سے بھی آزمائیں گے، جانوں کے نقصان سے بھی آزمائیں گے، پھلوں کے نقصان سے بھی آزمائیں گے۔لیکن جو صبر اور ثباتِ قدم دکھاتے ہوئے ان آزمائشوں سے گزر جائیں گے ان کے لئے بشارت ہے، ان کے لئے خوشخبری ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کر لیا۔ تمام قسم کے مصائب اور مشکلات میں بجائے خوف کے یا خوفزدہ ہو کر دنیاوی سہارے تلاش کرنے کے ایسے مومن جب پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کے ثباتِ قدم اور ان کے عملوں کی وجہ سے ان کو اس طرح نوازتا ہے کہ تکلیفیں آرام میں بدل جاتی ہیں، بے چینیاں سکون میں بدل جاتی ہیں، ظلم کی انتہا فتوحات کے نئے دروازے کھولتی ہے اور صبر کے پھل اس دنیا میں بھی ملتے ہیں اور آخرت میں بھی ملتے ہیں۔

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: مصیبتوں کو برا نہیں ماننا چاہئے کیونکہ مصیبتوں کو برا سمجھنے والا مومن نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْۡئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْا َمْوَالِ وَالْا َ نْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ٓ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ:157-156)     ’’یہی تکالیف جب رسولوں پر آتی ہیں تو ان کو انعام کی خوشخبری دیتی ہیں اور جب یہی تکالیف بدوں پر آتی ہیں تو ان کو تباہ کر دیتی ہیں۔ غرض مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّـا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ (البقرۃ:157)پڑھنا چاہئے کہ تکالیف کے وقت خدا تعالیٰ کی رضا طلب کرے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ 150حاشیہ ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) جو نیک کام مومن کرتا ہے اس کے لئے اجر مقرر ہوتا ہے، مگر صبر ایک ایسی چیز ہے جس کا ثواب بے حد و بے شمار ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہی لوگ صابر ہیں، یہی لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو سمجھ لیا۔ خدا تعالیٰ ان لوگوں کی زندگی کے دو حصے کرتا ہے جو صبر کے معنی سمجھ لیتے ہیں۔اوّل جب وہ دعا کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: اُدْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن :61)اور اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن(البقرۃ:187)دوم بعض دفعہ اللہ تعالیٰ مومن کی دعا بعض مصلحت کی وجہ سے قبول نہیں کرتا تو اس وقت مومن خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے۔ (ماخوذاز ملفوظات جلد سوم صفحہ 151-150۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )فرمایا ’’مومن کو مصیبت کے وقت میں غمگین نہیں ہونا چاہئے۔ وہ نبی سے بڑھ کر نہیں ہوتا‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ 151۔ حاشیہ ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ ) اصل بات یہ ہے کہ مصیبت کے وقت ایک محبت کا سرچشمہ جاری ہو جاتاہے۔ مومن کو کوئی مصیبت نہیں ہوتی جس سے اس کو ہزارہا قسم کی لذت نہیں پہنچتی۔ فرمایا خدا تعالیٰ کے پیاروں کو گناہ سے مصائب نہیں پہنچتے۔ یعنی یہ مصائب جو ہیں یہ کسی گناہ کی پاداش میں نہیں ہوتے، بلکہ اللہ تعالیٰ مومنین کاامتحان لیتا ہے۔ پھر اس کی مثال دیتے ہوئے آپؑ آگے فرماتے ہیں کہ دیکھو جب تک لڑکی اپنے والدین کے گھر میں ہوتی ہے والدین اسے بہت پیار کرتے ہیں اور نکاح کے وقت اگرچہ والدین کو بہت تکلیف ہوتی ہے حتی کہ والدہ ایک طرف روتی ہے اور والد ایک طرف روتا ہے تا ہم وہ سب تکالیف برداشت کر کے اس کو ہمیشہ کے لئے الگ کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وہ جانتے ہیں کہ اس لڑکی میں ایک جوہر ہے جو کہ سسرال میں جا کر ظاہر ہو گا۔ اس لئے مومن کے جوہر بھی مصائب سے کھلتے ہیں۔ چنانچہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دکھوں اور نصرت کے زمانہ پر آپؐ کے اخلاق کو کس طرح ظاہر کیا۔ اگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکالیف نہ پہنچتے تو اب ہم ان کے اخلاق کے متعلق کیا بیان کرتے۔ مومن کی تکالیف کو دوسرے بے شک تکالیف سمجھتے ہیں مگر مومن ان کو تکالیف نہیں خیال کرتا۔ غرض یہ ضروری بات ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے مقرب کو دوسروں کی نسبت زیادہ دکھ پہنچائے۔ مومن کو ہر روز مرنا پڑتا ہے۔ اور یہ ضروری بات ہے کہ انسان اپنی سچی توبہ پر قائم رہے۔ روز روز کی مشکلات کے باوجود اللہ تعالیٰ سے تعلق نہ توڑے۔کسی دوسرے خوف کو اپنی توبہ پر حاوی نہ ہونے دے۔ توبہ کیا چیز ہے؟ اپنے گناہوں کو ترک کر کے خدا تعالیٰ کے حضور معافی مانگتے ہوئے جھکے رہیں۔‘‘آپؑ نے جو یہ فرمایا ہے کہ توبہ پر قائم رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی امتحان، کوئی ابتلا مومن کی ایمانی حالت میں لغزش پیدا نہ کردے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کے حضور جھکا رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا انتظار کرے۔ (ماخوذ ازملفوظا ت جلد سوم صفحہ 151 تا 153 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )اس کے بعد آپ فرماتے ہیں اور یہ کہ توبہ سے اس کو ایک نئی زندگی ملتی ہے۔ اور’’ اگر توبہ کے ثمرات چاہتے ہو تو عمل کے ساتھ توبہ کی تکمیل کرو ۔ دیکھو جب مالی بوٹا لگاتا ہے پھر اس کو پانی دیتا ہے اور اس سے اس کی تکمیل کرتا ہے۔ اسی طرح ایمان ایک بوٹا ہے اور اس کی آبپاشی عمل سے ہوتی ہے۔ اس لئے ایمان کی تکمیل کے لئے عمل کی ازحد ضرورت ہے۔ اگر ایمان کے ساتھ عمل نہیں ہوں گے تو بوٹے خشک ہو جائیں گے اور وہ خائب و خاسر رہ جائیں گے‘‘۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ 153۔حاشیہ ۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ایک مومن کا کام جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے عمل کے ساتھ توبہ کی تکمیل کرنا ہے۔ اور وہ عمل جو اعمالِ صالحہ کہلاتے ہیں ان کی توفیق بھی اسی وقت ملتی ہے جب خدا تعالیٰ کا خوف ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں میں جس زہد کے پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے،جس تقویٰ کے پیداکرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جس خدا ترسی اور پرہیز گاری کے پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جس بھائی چارے اور آپس کی محبت کے پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، یہ سب اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ پر کامل یقین ہو اور اس کا خوف ہو۔ یہ خوف ہو کہ خدا تعالیٰ میرے کسی عمل کی وجہ سے مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ اور یہ جو خوف خدا ہے یہ کسی سزا کے ڈر کی وجہ سے نہ ہوبلکہ خدا تعالیٰ سے محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہو اور اس طرف توجہ دلاتی ہو کہ کہیں میرے عمل میری سب سے پیاری ہستی کو مجھ سے ناراض نہ کر دیں، میرا محبوب مجھ سے دور نہ چلا جائے۔ ایک مومن تو خدا تعالیٰ سے دوری کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایک حقیقی مومن کی تو پہچان ہی یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو سب محبتوں پر حاوی کر لے۔ قرآنِ کریم میں بھی حقیقی مومن کی یہی تعریف فرمائی ہے۔ فرمایا : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ(البقرۃ:166) اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیںاللہ کی محبت میں ہر محبت سے شدید ہیں۔ ہر دوسری محبت کو اللہ تعالیٰ کی محبت پر قربان کر دیتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کا خوف جو ایک مومن کے دل میں پیدا ہوتا ہے اس کی بنیاد اس شدتِ محبت کی وجہ سے ہوتی ہے کہ میرا محبوب کہیں مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ عبادات کے دو حصے تھے۔ ایک وہ جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو ڈرنے کا حق ہے۔ خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو پاکیزگی کے چشمہ کی طرف لے جاتا ہے اور اس کی رُوح گداز ہو کر اُلوہیت کی طرف بہتی ہے اور عبودیت کا حقیقی رنگ اس میں پیدا ہو جاتا ہے‘‘۔ آنکھوں سے اس کے اس طرح آنسو رواں ہوتے ہیں جو روح کی گہرائیوں سے نکل رہے ہوتے ہیں اور سوز کا پتہ دے رہے ہوتے ہیں۔ اور عبودیت میں اس قدر بڑھتے ہیں کہحَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ  (آل عمران :174) کے علاوہ کسی قسم کا کلمہ بھی تکلیف کی حالت میں بھی ان کے منہ سے نہیں نکلتا۔ فرمایا’’دوسرا حصہ عبادت کا یہ ہے کہ انسان خدا سے محبت کرے جو محبت کرنے کا حق ہے۔ اسی لئے فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرۃ:166) اور دنیا کی ساری محبتوں کو فانی اور آنی سمجھ کر حقیقی محبوب اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا جاوے۔ یہ دو حق ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نسبت انسان سے مانگتا ہے‘‘۔فرمایا’’…… خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر ان کا جمع ہونا بھی محال نظر آتا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اس سے محبت کیونکر کر سکتا ہے‘‘۔  فرمایا ’’مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے۔ جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی۔ اور جس قدر محبتِ الٰہی میں ترقی کرے گا اسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا‘‘۔  (ملفوظات جلد 2صفحہ224-225۔ ایڈیشن 2003ء  مطبوعہ ربوہ)

 پس جب انسان خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کرے، اس کی قدرتیں دیکھے، اس کی ربوبیت پر یقین کرے اور اس بات پر غور کرے کہ کس طرح میرے پیارے رب نے میری پیدائش سے لے کر آج تک میری زندگی کے سامان پیدا فرمائے ہیں بلکہ تاحیات ہی اس کی ربوبیت ہے جو ہر انسان کی پرورش کے سامان کرنے والی ہے۔ اسی طرح وہ رحمان ہے، ہر قدم پر ہر انسان مومن و غیر مومن اس کی رحمانیت کے نظارے دیکھتا ہے۔ لیکن ایک مومن جب خدا تعالیٰ کے انعامات کی بارش اپنے اوپر برستے ہوئے دیکھتا ہے تو خدا تعالیٰ سے محبت میں ایک جوش پیدا ہو کر وہ پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے۔ اور پھر ایک نیک شخص اور عبدِ رحمان کے اس کے آگے جھکنے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت مزید جوش میں آتی ہے۔ اور انعام و اکرام کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس رحمتِ خاص کی وجہ سے ایک مومن کی زبان حمد کے جذبات سے مغلوب ہو کر مزید حمدیہ الفاظ سے تر ہوتی چلی جاتی ہے اور مومن اللہ تعالیٰ کے قرب میں مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔

 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کیفیت کا نقشہ کھینچتے ہوئے جو ایک حقیقی مومن پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے طاری ہوتی ہے، فرماتے ہیں کہ:’’ جب اتمامِ نعمت کے باعث حمد اپنے کمال کو پہنچ جائے تو وہ کامل محبت کی جاذب بن جاتی ہے۔اور ایسا مُحسن اپنے محبّین کی نظر میں بہت قابلِ تعریف اور محبوب بن جاتا ہے‘‘۔

(اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ104-105اردوترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعود ؑ جلد اول صفحہ49)

 اس کیفیت کی انتہا اور کمال ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا۔ اور یہ کامل محبت سب سے زیادہ آپؐ نے جذب فرمائی۔ اور اس محبت کی وجہ سے قربِ خدا وندی کے اعلیٰ ترین مقام کو حاصل کیا۔ آپؐ کا دن ،آپؐ کی رات، آپؐ کا اٹھنا ، آپؐکا بیٹھنا، آپؐ کا اوڑھنا، آپؐ کا بچھونا، آپؐ کی عبادتیں اور آپؐ کی قربانیاں یہ سب خدا تعالیٰ کی خاطر ہو گئیں۔ اور اس کامل انسان کے پاک نمونے کو جس نے محب اور محبوب کے فرق کو مٹا دیا، اللہ تعالیٰ نے اس طرح نوازا کہ مومنین کو فرمایا کہ  قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (آل عمران:32 )۔ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم! تو لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو وہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے قصور اور گناہ تمہیں بخش دے گا۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’سعادتِ عظمی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ رکھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی جاوے جیسا کہ اس آیت میں صاف فرما دیا ہے ۔  قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ (آل عمران:32)۔ یعنی آؤ میری پیروی کرو، تا کہ اللہ بھی تمہیں دوست رکھے۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ رسمی طور پر عبادت کرو‘‘۔ فرمایا’’… اسلام محض اس کا نام نہیں ہے ۔ اسلام تو یہ ہے کہ بکرے کی طرح سر رکھ دے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا مرنا، میرا جینا، میری نماز، میری قربانیاں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اور سب سے پہلے مَیں اپنی گردن رکھتا ہوں‘‘۔

  (ملفوظات جلد اول صفحہ428-429۔ ایڈیشن 2003ئمطبوعہ ربوہ)

 پس آج ہمیں خدا تعالیٰ ایک اور اجتماعی موقع دے رہا ہے، اجتماعی طور پر ہم سب یہ عہد کریں کہ ہم اپنی زندگیاں اپنے آقا و مطاع حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں گزارنے کا عہد کرتے ہیں۔  تا کہ اپنے محبوبِ حقیقی واحد و یگانہ خدا کے پیار کو جذب کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے اور محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنتے ہوئے ،اپنی عبادتوں اور اپنی قربانیوں کے معیار بلند تر کرنے کی کوشش کا ہم عہد کرتے ہیں۔ اور جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور آپؐ کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں تو آپ کی قربانیاں نہ تو وصال تک ختم ہوئیں اورنہ ہی آپؐ کی عبادتوں میں کمی آئی، نہ ہی خدا تعالیٰ کے ذکر سے کبھی آپؐ کی زبانِ مبارک فارغ ہوئی۔ نمازوں کو آپؐ نے آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا۔ تو ذکرِ الٰہی آپؐ  کی روح کی تسکین اور روح کی غذا تھی۔ آپؐ فرماتے ہیں۔ رَبِّ اجْعَلْنِیْ لَکَ ذَاکِرًا لَکَ شَاکِرًا۔  اے اللہ!مجھے اپنا ذکر کرنے والا اور اپنا شکر کرنے والا بنا۔

(صحیح ابن حبان کتاب الرقائق باب ذکر ما یستحب للمرء سوال الرب…حدیث 947دارالمعرفۃ بیروت 2004ء)

مشکلات و مصائب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آئے اور ایسی ایسی تکلیفوں سے آپ  ؐ کو گزرنا پڑا کہ جن کو سُن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے اس پیارے اور مردِ کامل نے کسی حالت میں بھی اپنی عبادتوں اور ذکرِ الٰہی اور قربانی کے معیار میں کمی نہیں آنے دی۔ اور نہ صرف آپؐ نے اپنی عبادتوں اور قربانیوں اور دعاؤں کے اعلیٰ معیار قائم کئے بلکہ آپؐ کی قوتِ قدسی نے آپؐ کے صحابہ میں بھی وہ روح پھونکی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ صدیوں کے مردے زندہ کر دئیے۔

(ماخوذ ازبرکات الدعاء روحانی خزائن جلد 6صفحہ11)

               یہ فقرہ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی تصویر کشی کرتا ہے وہاں یہ صحابہ کے مقام کی ایک خوبصورت تعریف بھی ہے۔ وہ صحابہ بھی اپنی دن بھر کی مصروفیات سے فارغ ہو کر جس کے دوران بھی یقینا ان کی زبانیں ذکرِ الٰہی سے تر رہتی تھیں اور فرض نمازوں کی طرف بھی توجہ رہتی تھی، رات کو نوافل کی ادائیگی میں نمونے قائم کر گئے۔ ہمارے لئے تو صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بھی ہر ایک، ایک نمونہ ہے۔ فرائض کی بجا آوری کرنے والے اور نوافل کی ادائیگی میں ایک دوسرے سے بڑھنے والے تھے۔ خود زندہ ہوئے تو دوسروں کو زندگی بخشنے کا ذریعہ بھی بن گئے۔ دشمنوں نے جب ان کے خلاف اکٹھے ہو کر تلوار اٹھائی اور خوفزدہ کر کے دین سے پھیرنے کی کوشش کی تو ان کے ایمانوں میں مزید جِلاء پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس بات پر فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا کی سند عطا فرما دی۔ اللہ تعالیٰ نے جو ہر انسان کے دل کا حال جانتا ہے جو عالم الغیب والشہادۃ ہے، اس نے ان کے دل کی کیفیت کو ہمیشہ کے لئے تا قیامت آنے والے مومنین کے لئے ایمان و ایقان اور محبت و وفا کی مثال بنا دیا۔

               اس موقع پر حاضرین نے مختلف نعرے لگائے توحضورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک نعرہ کا اضافہ کرتے ہوئے فرمایا)’’صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم! زندہ باد‘‘۔

 اور یہ سند انہیں اس ایمانی حالت کی وجہ سے عطا ہوئی جو انہوں نے دشمن کے تمام تر جتھوں، طاقتوں اور حکومتوں کے سامنے سینہ تان کریہ اعلان کیا تھا کہ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل ۔ ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا وہ کارساز ہے۔ یعنی دشمن کے ہر شر کے خلاف جو دشمن ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے کرتا ہے ہمیں اللہ کافی ہے۔    اللہ تعالیٰ صبر اور شکر سے دشمن کے ظلم سہنے پر جزا دینے کے لحاظ سے ہمیں کافی ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ دشمن کے خلاف ہماری مدد کرنے کے لئے بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہو جائے اور جب خدا تعالیٰ دین کی خاطر ان ظلموں سے گزرنے پر بھی ہماری جزا بن جائے تو اس سے اچھا کیا سودا ہے؟ اور ہم اللہ تعالیٰ کو حَسِیْب  اس لئے بناتے ہیں کہ وہ تمام قدرتوں کا مالک خدا ہمارا وکیل ہے۔ وکیل کہتے ہیںاس کو جس پر بھروسہ کیا جاتا ہے جس کے سپرد عاجز آدمی اپنے تمام کام کر دے۔ پس خدا تعالیٰ سے زیادہ اور کون سی ذات ہے جس پر بھروسہ کیا جائے۔ جو اپنے عاجز بندوں کو دیکھ بھی رہا ہے۔ اور ان کی مدد کے لئے آنے کے وعدے بھی کرتا ہے۔ اور اپنے پر توکل کرنے والوں کو پسند بھی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ(سورۃ آل عمران آیت 160) یقینا اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے  جو اس پر کامل توکل رکھتے ہیں۔ ہر معاملے میں ان کا مکمل بھروسہ خدا تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے اور ہر موقع پر تنگی اور آسائش میں وہ اسی کی طرف جھکتے ہیں۔ اس کے ذکر سے ہر لمحہ اپنی زبانوں کو تر رکھتے ہیں جو سب محبوبوں سے زیادہ پیارا ہے۔ جب اسے محبوب بناتے ہیں تو وہ ان سے محبت کرتا ہے۔ پس جب صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرتے ہوئے آپؐ کے اُسوہ پر چلتے ہوئے خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے کی کوشش کی، اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کی، تو یہ تمام صحابہ بھی ہمارے لئے قابلِ تقلید نمونے اور روشن ستارے بن گئے۔ اور پھر اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو مبعوث فرمایا تو اس کامل پیروی اور اطاعت کی وجہ سے آپؑ بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب بن گئے۔ ابتلاؤں اور امتحانوں سے خدا تعالیٰ آپ کو نکالتا چلا گیاآپ نے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت سے سرشار جماعت پیدا کی، خدا تعالیٰ کے دین کی خاطر قربانیاں کرنے والے پاک وجود پیدا کئے، عبادتوں اور قربانیوں میں آگے بڑھنے والے مخلصین پیدا کئے۔ آج بھی ان عبادتوں اور قربانیاں کرنے والوں میں ہمیں قرونِ اولیٰ کے قربانیاں کرنے والوں کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ یہ جرأت اور یہ بہادری اور یہ قربانی کے معیار اور عبادتوں کے شوق صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی مل سکتے ہیں۔ لاہورکی مساجد کی اجتماعی قربانی میں تو ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے احمدی کی قربانی شامل ہے۔ اس میں ہر طبقے سے قربانی لے کر خدا تعالیٰ نے اس بات کی سند بھی عطا فرما دی کہ مسیح محمدی کی جماعت میں قربانیاں کرنے والے ہر طبقے میں موجود ہیں۔ ویسے تو جماعت ایک وجود ہے اس میں کوئی طبقہ نہیں ہے۔ لیکن مَیں مالی لحاظ سے کمزور اور امیرہونے کے لحاظ سے بات کر رہا ہوں اور اس قربانی کے وقت ہر فرد نے یہ واضح اعلان کر دیا کہ باوجود مالی حالات کے فرق کے، ظاہری ذات پات اور رتبے کے فرق کے، مالک اور غلام کے فرق کے ہم ایک جماعت ہیں اور یہ خوبی اس زمانے کے امام کی قوتِ قدسی نے ہم میں پیدا کی ہے۔ اور پھر اب جو ان سب کے حالات ہمارے سامنے آئے ہیں، تو ہمیں ان کی عبادتوں اور خدا تعالیٰ پر توکل کے حسن اور معیار کا بھی علم ہوا۔ اللہ تعالیٰ کا خوف، تقویٰ، اللہ تعالیٰ سے محبت کے جذبات، پرہیز گاری، نیکی اور حسنِ خلق کا بھی ہمیں پتہ چلا۔ پس یہی ایک حقیقی مومن کا شیوہ ہونا چاہئے ۔ اور جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ یہی حالت پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تھے اور اس مقصد کے حصول کے لئے آپؑ نے جلسوں کا انعقاد کیا تھا۔

 پس آج ہمیں جہاں یہ جلسہ اس طرف توجہ مبذول کروانے والا ہونا چاہئے کہ اپنی حالتوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہر وقت اپنی عبادتوں اور قربانیوں اور زہد اور تقویٰ کے معیار بہتر کرنے کی طرف توجہ کرتے چلے جائیں۔ وہاں شہدائے احمدیت کی روحیں بھی یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ ہم وقفے وقفے سے جو قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں اور چند دن پہلے جو ہم نے اجتماعی قربانی دی ہے اس کا بدلہ اور جزا تو ہم خدا تعالیٰ کے حضور بہت خوبصورت رنگ میں پا رہے ہیں۔ ایسے رزق سے ہم نوازے جا رہے ہیں جس کا دنیا والے تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر تم ہماری قربانیوں کا کوئی صلہ دینا چاہتے ہو تو اپنے پیدا کرنے والے پیارے خدا سے کبھی بے وفائی نہ کرنا۔ یہ قربانیاں کرنے والے ہم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر اور تقویٰ میں تمہاری جو ترقی ہے وہ ہمارے لئے بھی باعثِ تسکین ہو گی اور تمہاری بھی دنیا و آخرت سنوارے گی۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو اجتماعی طور پر یہ تین دن اپنی روحانی حالت کے سنوارنے کے لئے عطا فرمائے ہیں ان سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھانا ہے۔ یہی ہمارے جلسے کا مقصد ہے اور تبھی ہم اس مقصد کو پورا کرنے والے بنیں گے۔ اور یہ بھر پور فائدہ ہم اس وقت اٹھا سکتے ہیں جب ہم ان دنوں میں جلسہ کے پروگرام سنیں اور اس دوران درود اور ذکرِ الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں۔ نمازوں کے اوقات میں باقاعدگی کے ساتھ باجماعت نمازوں میں شامل ہوں۔ جو اجتماعی قیامگاہوں میں ہیں وہ اجتماعی تہجد میں شامل ہوں۔ جو گھروں میں ہیں وہ اپنے طور پر نفلوں پر توجہ دیں۔ ذکرِ الٰہی میں زیادہ وقت گزاریں اور فضول باتوں میں وقت کو ضائع نہ کریں۔ ہمارے پاس دشمن کے مقابلے کی کوئی دنیاوی طاقت اور سامان نہیں ہے۔ مخالفین کو اپنی دولت پر مان ہے، ان کو اپنے جتھوں پر مان ہے، ان کو اپنے ہتھیاروں پر مان ہے، ان کو اپنے ظالمانہ قوانین کی پشت پناہی پر مان ہے، لیکن ہمارا تو سب انحصار اور مان ہمارے پیارے خدا پر ہے اور ہونا چاہئے۔ حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْل۔ یہی ہمارا نعرہ ہے اور یہی ہمارا مان ہے۔ ہمارے سامنے تو یہی اسوہ ہے کہ    ؎

عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں          نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں

(درثمین مع فرہنگ صفحہ نمبر58 شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ کراچی)

         پس آج ہماری کامیابی کا راز اسی میں ہے کہ دعاؤں، عبادتوں اور ذکرِ الٰہی پر بہت زور دیں۔ خدا تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں اپنی خشیت پیدا کرے۔ اپنا خوف پیدا کرے۔ اپنی محبت پیدا کرے اور اللہ تعالیٰ کی محبت سب محبتوں سے بڑھ کر ہمارے دل میں پیدا ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارا مقصود و مطلوب ہو جائے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے میں ہم ایک دوسرے سے بڑھنے والے ہوں۔اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔

  اب مَیں دعا کرنے سے پہلے بعض قرآنی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی دعائیں پڑھوں گا

حدیث میں ایک دعا ہے

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ ۔اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَاَھْلِیْ وَمِنَ الْمَآئِ الْبَارِدِ۔

(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 73حدیث نمبر3490)

   اے میرے اللہ!مَیں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں۔اور ان لوگوں کی محبت جو تجھ سے پیار کرتے ہیں۔ اور اس کام کی محبت جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے میرے خدا! ایسا کر کہ مجھے تیری محبت اپنی جان، اپنے اہل و عیال اور ٹھنڈے شیریں پانی سے بھی زیادہ پیاری اور اچھی لگے۔

 پھر ایک دعا ہے۔

اَللّٰھُمَّ اَقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْیَتِکَ مَا یَحُوْلُ بِہٖ بَیْنَنَا وَبَیْنَ مَعَاصِیْکَ وَمِنْ طَاعَتِکَ مَا تُبَلِّغُنَا بِہٖ جَنَّتَکَ وَمِنَ الْیَقِیْنِ مَا تُھَوِّنُ بِہٖ عَلَیْنَا مَصَآئِبَ الدُّنْیَا وَمَتِّعْنَا بِاَسْمَآعِنَا وَاَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا اَحْیَیْتَنَا وَاجْعَلْہُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَلْ ثَاْرَنَا عَلٰی مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلٰی مَنْ عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِیْبَتَنَا فِیْ دِیْنِنَا وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْیَا اَکْبَرَ ھَمِّنَا وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَیْنَا مَنْ لَّا یَرْحَمُنَا۔

(سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 82/79حدیث نمبر3502)

اے میرے اللہ! تو ہمیں اپنا خوف عطا کرجسے تو ہمارے اور گناہوں کے درمیان روک بنا دے،اور ہم سے تیری نافرمانی سرزد نہ ہو، اور ہمیں اطاعت کا وہ مقام عطا کر جس کی وجہ سے تُو ہمیں جنت میں پہنچا دے۔ اور اتنا یقین بخش جس کی وجہ سے دنیا کے مصائب تو ہم پر آسان کر دے۔اے میرے اللہ! ہمیں اپنے کانوں، اپنی آنکھوں، اور اپنی طاقتوں سے زندگی بھر صحیح صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے۔ اور ہمیں اس بھلائی کا وارث بنا۔ اور جو ہم پر ظلم کرے اس سے تو ہمارا انتقام لے۔ جو ہم سے دشمنی رکھتا ہے اس کے برخلاف ہماری مدد فرما۔ اور دین میں کسی ابتلاء کے آنے سے بچا اور ایسا کر کہ دنیا ہمارا سب سے بڑا غم اور فکر نہ ہواور نہ یہ دنیا ہمارا مبلغ علم ہو۔ یعنی ہمارے علم کی پہنچ صرف دنیا تک ہی محدود نہ ہو۔ اور ایسے شخص کو ہم پر مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے اور مہربانی سے پیش نہ آئے۔

                پھر ایک دعا ہے :اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْکَ اَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ ۔اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِعِزَّتِکَ۔ لَا اِلٰہ َ اِلَّا اَنْتَ اَنْ تُضِلَّنِیْ۔ اَنْتَ الْحَیُّ الَّذِیْ لَایَمُوْتُ وَالْجِنُّ وَالْاِنْسُ یَمُوْتُوْنَ۔

  (صحیح مسلم کتاب الذکر و الدعاء … باب التعوذ من شرماعمل…حدیث6899)

               اے اللہ! مَیں تیری فرمانبرداری کرتا ہوں۔ تجھ پر ایمان لاتا ہوں۔ تجھ پر توکل کرتا ہوں۔ تیری طرف جھکتا ہوں۔ تیری مدد سے دشمن کا مقابلہ کرتا ہوں۔اے میرے اللہ! مَیں تیری عزت کی پناہ چاہتا ہوں۔ تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔تُو مجھے گمراہی سے بچا۔ تُو زندہ ہے کسی کو بقا نہیں۔ جنّ و اِنس سب کے لئے فنا مقدر ہے۔

               اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔

(سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ،باب تفریع أبواب الوتر باب ما یقول الرجل اذا خاف قوما حدیث1537)

               اے اللہ! ہم تجھے ان کے سینوں میں رکھتے ہیں( یعنی تیرا رعب ان کے سینوں میں بھر جائے) اور ہم ان کے شر سے تیری پناہ میں آ جائیں۔

               رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔(تذکرہ صفحہ نمبر363ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

               اے میرے رب! ہر ایک چیز تیری خدمت گزار ہے۔ اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما۔

               رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ مِنَ السَّمَآئِ ۔ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَاَنْتَ خَیْرُ الْوَارِثِیْنَ ۔ رَبِّ اَصْلِحْ اُمَّتَ مُحَمَّدٍ۔ رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفَاتِحِیْنَ۔

(تذکرہ صفحہ نمبر37ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

               اے میرے رب! مغفرت فرما اور آسمان سے رحم کر۔ اے میرے ربّ! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تُو خیر الوارثین ہے۔ اے میرے ربّ! اُمّتِ محمدیہ کی اصلاح کر۔ اے ہمارے ربّ! ہم میں اور ہماری قوم میں سچا فیصلہ کر دے اور تُو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔

               اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغَافِرِیْنَ۔وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَا اِلَیْکَ۔(الاعراف:57-56)

               تُو ہی ہمارا ولی ہے۔ پس ہمیں بخش اور ہم پر رحم کر اور تُو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے ۔اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حَسَنَہ  لکھ دے اور آخرت میں بھی۔یقینا ہم تیری طرف آ گئے ہیں۔

               رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا  لَنَکُونَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ  (الاعراف :24)

اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور گھاٹا پانے والوں میں سے ہوں گے۔

               رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ (الاعراف:127)

               اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے۔

               رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ۔(آل عمران:9)

               اے ہمارے ربّ! ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دینا بعد اس کے جو تُو نے ہمیں ہدایت دی۔ اور ہمیں اپنے حضور سے رحمت عطا کرنا۔ یقینا تُو بہت عطا کرنے والا ہے۔

               رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ۔ (البقرۃ:251)

                      اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثباتِ قدم بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔

 اب ہم دعا کریں گے۔ دعاؤں میں جہاں اپنے لئے آپ دعا کر رہے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا پوری جماعت کے لئے دعا کریں۔ جماعت کی ترقی کے لئے دعا کریں۔شہداء کے لئے دعا کریں۔ ان کے خاندانوں کے لئے دعا کریں۔ اسلام کی شان و شوکت قائم ہونے کے لئے دعا کریں۔اور ان دعاؤں کو ان تین دنوں میں پھر جاری بھی رکھیں۔ اللہ سب کو توفیق دے۔ دعا کرلیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں