خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 22؍ اکتوبر 2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ وَ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (آل عمران: 105)

وَ مَا کَانَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ لِیَنۡفِرُوۡا کَآفَّۃً ؕ فَلَوۡ لَا نَفَرَ مِنۡ کُلِّ فِرۡقَۃٍ مِّنۡہُمۡ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوۡا فِی الدِّیۡنِ وَ لِیُنۡذِرُوۡا قَوۡمَہُمۡ اِذَا رَجَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ لَعَلَّہُمۡ یَحۡذَرُوۡنَ (التوبہ: 122)

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں۔ پہلی آیت سورۃ آلِ عمران کی ہے۔ اس کا ترجمہ ہے کہ ’’چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور نیکی کی تعلیم دیں اور بدیوں سے روکیں اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں‘‘۔

دوسری آیت سورۃ توبہ کی ہے۔ اس کا ترجمہ ہے کہ ’’مومنوں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ تمام کے تمام اکٹھے نکل کھڑے ہوں۔ پس ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے ہر فرقے میں سے ایک گروہ نکل کھڑا ہو تا کہ وہ دین کا فہم حاصل کریں اور اپنی قوم کو خبردار کریں جب ان کی طرف واپس لوٹیں تا کہ شاید وہ ہلاکت سے بچ جائیں‘‘۔

ان آیات میں جیسا کہ ابھی دیکھا اللہ تعالیٰ نے ایسے گروہ کا ذکر فرمایا ہے جو دین کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں تاکہ نیکیوں کو قائم کریں، برائیوں سے روکیں اور تبلیغِ اسلام میں اپنی زندگی گزاریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کا نظام کسی نہ کسی شکل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہی قائم ہے اور خلافتِ ثانیہ میں اس میں ایک باقاعدگی پیدا ہوئی۔ باقاعدہ زندگی وقف کرنے کے بانڈ (Bond) یا فارم پُر کئے جانے لگے۔ دینی تعلیم کے لئے جامعہ احمدیہ کے نظام کو مزید منظم کیا گیا۔ مبلغین بیرونِ ملک بھیجے جانے لگے جنہوں نے تبلیغی میدانوں میں بڑے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں میں اپنی پہچان کروائی اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک جاری ہے اور مبلغین مختلف ممالک میں اس کام میں مصروف ہیں۔ ان مبلغین اور مربیان اور معلمین میں پاکستان، ہندوستان کے علاوہ اب مختلف قوموں کے افراد شامل ہو چکے ہیں۔ خاص طور پر افریقن ممالک کے اسی طرح انڈونیشیا کے مبلغین اور معلمین کافی تعداد میں شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ وفا کے ساتھ ان سب کو خدمات بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔

واقفینِ زندگی کے نظام میں ایک دوسرا گروہ بھی ہے۔ صرف مبلغین نہیں، ڈاکٹرزاور ٹیچرز اور دوسرے لوگ ہیں، وہ بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بہر حال جوں جوں جماعتی ضروریات بڑھ رہی ہیں، تبلیغی میدان میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے اور خدمات کے دوسرے میدانوں میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے جہاں واقفینِ زندگی اور مبلغین کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس جس طرح یہ وسعت پیدا ہو رہی ہے، کام بڑھ رہے ہیں، احمدیت کا پیغام پھیل رہا ہے۔ دنیا احمدیت کی آغوش میں بھی آ رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ واقفینِ زندگی اور دینی علم رکھنے والوں کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے جو تبلیغ اور تربیت کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد کا ہمہ وقت تبلیغی اور تربیتی کاموں میں مصروف رہنا ممکن نہیں۔ اس لئے ایک گروہ ہو جو خاص طور پر یہ کام سرانجام دے۔ باوجود اس کے کہ ایک دوسری جگہ امت کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے کہ وہ نیکیوں کے پھیلانے، برائیوں سے روکنے اور دعوتِ الی اللہ کا فرض ادا کرے۔ لیکن پھر بھی یہ فرمایا ہے کہ کیونکہ یہ جو نظامِ دنیا ہے اس کو چلانا بھی ضروری ہے، اس لئے جو اس میں مصروف ہوں گے وہ بھی ہمہ وقت، وقت نہیں دے سکتے۔ پھر ہر ایک کا مزاج بھی ایسا نہیں ہوتا کہ وہ تبلیغی اور تربیتی کام احسن رنگ میں سرانجام دے سکے۔ پھر تمام کے تمام امت کے افراد دین کا وہ فہم اور ادراک بھی حاصل نہیں کر سکتے جو ایک مبلغ اور مربی کے لئے ضروری ہے۔ اور پھر یہ بھی کہ تمام لوگوں کو خاص توجہ کے ساتھ ٹریننگ بھی نہیں دی جا سکتی۔ اس لئے ایک گروہ ہونا چاہئے جو پوری توجہ سے دین سیکھے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات، اوامر و نواہی سے واقفیت حاصل کرے۔ ان کی گہری حکمت سیکھے اور پھر پھیلائے۔ ما شاء اللہ جماعت میں ایسے بھی بہت سے افراد ہیں جو اپنے ذوق اور شوق کی وجہ سے دنیاوی تعلیم کے علاوہ بھی دینی علم کا کافی درک رکھتے ہیں۔ لیکن بعض دفعہ، بلکہ اکثر دفعہ ان کی دوسری مصروفیات ایسی ہو جاتی ہیں جو مستقل طور پر وقت دینے میں آڑے آتی ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین کے کام کے لئے واقفِ زندگی کا ایک گروہ ہونا چاہئے اور پھر کیونکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس لئے ہر فرقے میں سے یعنی ہر گروہ میں سے، ہر طبقے میں سے، لوگوں کے ہر حصے میں سے متفرق قسم کے لوگوں میں سے یہ ایک گروہ ہونا چاہئے۔ اور پھر مزید وسعت پیدا کریں تو فرمایا کہ ہر قوم میں سے ایسے لوگ ہوں جو دین سیکھیں اور آگے سکھائیں۔ ہر قوم اور ہر گروہ اور ہر طبقے کے مزاج، نفسیات اور طریق مختلف ہوتے ہیں۔ اس کے مطابق تبلیغ کا طریق اختیار کیا جائے۔ اس طرح تبلیغ کرنی بھی آسان رہے گی اور تربیت بھی آسان رہے گی۔ بہر حال یہ رہنمائی اللہ تعالیٰ نے فرمائی کہ مومنوں کا ایک گروہ ہو جو تبلیغی اور تربیتی کام سرانجام دے اور پھر یہ کہ ہر قوم اور ہر طبقے کے لوگوں میں سے ہو تا کہ اس کام میں سہولت پیدا ہو سکے۔

پس جماعت احمدیہ میں اس اصول کے تحت دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کا نظام قائم ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا مختلف قوموں اور طبقوں کے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اس نظام کا حصہ بن چکے ہیں اور بن رہے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعتی ضروریات بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس تعداد میں اضافے کی بھی ضرورت ہے اور یہ ضرورت آئندہ بڑھتی بھی چلی جائے گی۔ فی الحال صرف موجودہ وقت میں ضرورت نہیں ہے بلکہ آئندہ اس ضرورت نے مزید بڑھنا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس ضرورت کو بھانپتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پا کر واقفینِ نو کی سکیم شروع فرمائی تھی۔ اور اس کی بنیادی اینٹ ہی تقویٰ پر رکھتے ہوئے والدین کو یہ تحریک فرمائی تھی کہ بجائے اس کے کہ بچے بڑے ہو کر اپنی زندگیاں وقف کریں اور اپنے آپ کو پیش کریں، والدین دین کا درد رکھتے ہوئے اور تقویٰ پر قائم ہوتے ہوئے اپنے بچوں کو ان کی پیدائش سے پہلے دین کی راہ میں وقف کرنے کے لئے پیش کریں۔ اور حضرت مریم کی والدہ کی طرح یہ اعلان کریں کہ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ (آل عمران: 36) کہ اے میرے ربّ! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اسے مَیں نے تیری نذر کرتے ہوئے آزاد کر دیا۔ یعنی دین کے کام کے لئے پیش کر دیا اور دنیاوی دھندوں سے آزاد کر دیا، پس مجھ سے یہ قبول کر لے۔ پس جب خاص طور پر مائیں اس دعا کے ساتھ اپنے بچے جماعت کوپیش کرتی ہیں، خلیفہ وقت کے سامنے پیش کرتی ہیں اور کریں گی، تو ان کی بہت بڑی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ پھر ان بچوں کی تربیت اس طرح کریں کہ وہ اپنی زندگیاں خدا کی راہ میں اس وقف کا حق ادا کرتے ہوئے گزارنے کے لئے پیش کریں۔ پورا عرصہ حمل ان کے لئے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ اس بچے کو دین کا خادم بنائے۔ دنیاوی آلائشوں سے پاک رکھے۔ دنیا کی طرف رغبت نہ ہو بلکہ یہ لوگ دین کے لئے خالص ہو جائیں۔ پھر پیدائش کے بعد بچے کی تعلیم و تربیت اس نہج پر ہو کہ اس بچے کو ہر وقت یہ پیشِ نظر رہے اور اس کو یہ باور بھی کروایا جائے کہ مَیں واقفِ زندگی ہوں اور میں نے دنیاوی جھمیلوں میں پڑنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت میں زندگی گزارنی ہے۔ جب اس طرح ابتدا سے ہی تربیت ہو گی تو نوجوانی میں قدم رکھ کر بچہ خود اپنے آپ کو پیش کرے گا اور خالص ہو کر دین کی خدمت کے لئے پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔ پس والدین کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بچے کو وقف کے لئے تیار کرنا، اس کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا والدین کا کام ہے تا کہ ایک خوبصورت اور ثمر آور پودا بنا کر جماعت اور خلیفہ وقت کو خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے پیش کیا جائے۔ یہ جو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہمارا بچہ وقفِ نو ہے اس لئے ابتدا سے اس کو جماعت سنبھالے، یہ بالکل غلط سوچ ہے۔ جماعت تعلیم و تربیت کے لئے رہنمائی تو ضرور کرتی ہے اور کرنی چاہئے۔ اس کے لئے ربوہ میں مرکز میں وکالتِ وقفِ نو بھی قائم ہے۔ قادیان میں نظارتِ تعلیم کے تحت وقفِ نو کا شعبہ قائم ہے۔ یہاں لندن میں مرکزی طور پر براہِ راست خلیفہ وقف کی نگرانی میں اس شعبہ کا کام ہو رہا ہے۔ جماعتوں میں سیکرٹریانِ وقفِ نو کی یہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت، کونسلنگ اور گائیڈنس وغیرہ کریں اور ان کو ایک جماعت کا فعال حصہ بنانے کی کوشش کریں اور اس میں اپنا بھی فعال کردار ادا کریں۔ لیکن ان سب کے باوجود والدین کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر وقفِ نو کی سکیم کا اجراء ہوا تھا۔ اور یہ ایک انتہائی اہم اور آئندہ جماعتی ضروریات کو پوری کرنے والی سکیم ہے جس میں علاوہ مختلف مربیان و مبلغین کے مستقبل میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے واقفینِ زندگی کی ضرورت ہو گی۔ پس والدین اور وقفِ نو کے شعبہ کو اس ذمہ داری میں اپنا کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔

اکثر جگہ دیکھا گیا ہے کہ سیکرٹریانِ وقفِ نو اس طرح فعال نہیں جس طرح ان کو ہونا چاہئے۔ پس وہ فعال ہوں تاکہ یہ بچے جب میدانِ عمل میں آئیں تو میدان میں آ کر قوموں کو اپنے لوگوں کو، تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا اہم کردار ادا کر سکیں۔ اور فلاح پانے والے گروہ میں خود بھی شامل ہوں اور نہ صرف خود فلاح پانے والے بنیں بلکہ دنیا کی فلاح اور بقا کا باعث بنیں۔ بے شک والدین کا بھی یہ کام ہے کہ اپنے ہر بچے کی تربیت کریں اور کوئی احمدی بچہ بھی ضائع ہونا جماعت برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ سب جماعت اور قوم کی امانت ہیں۔ لیکن واقفینِ نو بچوں کے ذہن میں بچپن سے ہی یہ ڈالا جائے کہ تمہیں ہم نے خدا تعالیٰ کے راستے میں وقف کیا ہے۔ صرف وقفِ نو کا ٹائٹل مل جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ تمہاری تربیت، تمہاری تعلیم، تمہارا اٹھنا بیٹھنا، تمہارا بات چیت کرنا، تمہارا لوگوں سے ملنا جلنا، تمہیں دوسروں سے ممتاز کرے گا۔ یہ عادتیں پھر عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوں اور کوئی انگلی کبھی تمہاری کردار کشی کرتے ہوئے نہ اٹھے۔

پھر واقفینِ نو کا سلیبس ہے جو جماعت نے، مرکز نے بنایا ہوا ہے۔ اس سے آگاہ کرنا، اسے پڑھانا ماں باپ اور نظام دونوں کا کام ہے تاکہ تَفَقُّہ فِی الدِّیْن میں بچپن سے ہی رجحان ہو اور اس میں ہر آنے والے دن میں بہتری آتی رہے۔ تبھی ہم آئندہ آنے والے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ تبھی ہم دنیا کی دین کو سمجھنے کی ضرورت کو بروقت پورا کر سکتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بچے میں خود دین سیکھنے کی لگن ہو۔ اگر یہ ہو گا توپھر ہی صحیح فہم و ادراک بھی حاصل کرنے کی طرف توجہ ہو گی۔ ورنہ مجبوری کا سیکھنا اور مجبوری کا وقف یہ فائدہ مند اور کارآمدنہیں ہو سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کریں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین سکھایا ہے اس میں تَفَقُّہ کر سکیں۔ پس ہمارے واقفِ زندگی اور خاص طور پر وہ جو دین سیکھ کر اپنی زندگیاں وقف کرنا چاہتے ہیں۔ یا واقفینِ نو جودنیا کے مختلف جامعات میں پڑھ رہے ہیں، انہیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دین سکھایا ہے وہ سیکھنا ہے۔ اور آپؐ نے کیا دین سکھایا؟ آپ نے ہمارے سامنے جو دین پیش کیا اور جس کا نمونہ قائم فرمایا اس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ بیان ہمارے لئے راہِ عمل ہے کہ کَانَ خُلُقُہٗ اَلْقُرْاٰن کہ آپ کا خُلق قرآن تھا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8 مسندعائشہؓ صفحہ نمبر144-145حدیث نمبر25108مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998)

آپ کا دین قرآنِ کریم کے ہر حکم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا اور اسے پھیلانا تھا۔ پس آپ کے اسوہ پر چلنے کا تو ہر مومن کو حکم ہے لیکن وہ لوگ جوتَفَقُّہ فِی الدِّیْن کرنے والے ہیں، جو دین کو سمجھنے اور سیکھنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، جو عام مومنین سے بڑھ کر خیر کی طرف بلانے والے ہیں، جن سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت بہت زیادہ نیکیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں ان کو کس قدر اس اُسوہ پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ پس جو واقفینِ زندگی ہیں ان کواپنا اپناجائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن ایک مکمل شرعی کتاب ہے تو پھرتَفَقُّہ فِی الدِّیْن کرنے والے اس بات کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں کہ اپنی زندگیوں کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا کر سکیں۔ اپنے نمونے قائم کر کے خدا تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہوں۔ احسن رنگ میں تبلیغ اور تربیت کا فریضہ سرانجام دینے والے ہوں۔ اب مَیں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش رکھتا ہوں کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ کس قسم کے واقفینِ زندگی ہونے چاہئیں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور سے کچھ کر کے دکھانے والے ہوں۔ علمیت کا زبانی دعویٰ کسی کام کا نہیں‘‘۔

پس یہاں مَیں تمام مبلغین اور جو دنیا کے مختلف جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں، ان پڑھنے والوں سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھیں۔ ہمیشہ اپنے جائزے لیتے رہیں کہ ہمارے علم اور عمل میں مطابقت ہے یا نہیں۔ وعظ تو ہم کر رہے ہوں کہ نمازوں میں سستی گناہ ہے اور خودنمازوں میں سستی ہو۔ خاص طور پر طلباء جامعہ احمدیہ جو ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے۔ بعض عملی میدان میں آئے ہوئے بھی سستی کر جاتے ہیں ان کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ دوسروں کو تو ہم یہ کہہ رہے ہوں کہ بد رسومات جو مختلف جگہوں پر ہوتی ہیں، مثلاً شادی بیاہ میں ہوتی ہیں یہ بدعات ہیں اور خلیفہ وقت اور نظامِ جماعت ان کی اجازت نہیں دیتا۔ دین ان کی اجازت نہیں دیتا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سختی سے ان کو ردّ فرمایا ہے۔ اللہ اور رسول ان کو ردّ کرتے ہیں۔ لیکن اپنے بچوں یا اپنے عزیزوں کی شادیوں میں ان باتوں کا خیال نہ رہے یا ایسی شادیوں میں شامل ہو جائیں جن میں یہ بد رسومات کی جا رہی ہوں اور وہاں بیٹھے رہیں اور نہ ان کو سمجھائیں اور نہ اٹھ کر آئیں تو یہ چیزیں غلط ہیں۔ پس اگر دین کا علم سیکھا ہے تو اس لئے کہ عالم با عمل بنیں اور بننے کی کوشش کریں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ واقفِ زندگی ایسے ہونے چاہئیں گی کہ’’نخوت اور تکبر سے بکلی پاک ہوں‘‘۔

اب ہر واقفِ زندگی جائزہ لے جو میدانِ عمل میں ہیں یا مختلف جگہوں پر کام کر رہے ہیں اور وہ بھی جو جامعات میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جب ہمیں جائزے لینے کی یہ عادت پڑے تو پھر ایک تبدیلی بھی پیدا ہو گی انشاء اللہ تعالیٰ۔ اس سال کینیڈا کے جامعہ احمدیہ سے بھی واقفینِ نو کی اور مربیان کی، مبلغین کی پہلی کھیپ نکل رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ باقی جگہوں سے بھی واقفینِ نو میں سے نکلنی شروع ہو جائے گی بلکہ پاکستان میں تو ہو سکتا ہے کہ کچھ واقفینِ نو مربیان بن بھی چکے ہوں۔ تو ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ عاجزی اور انکساری ایک مبلغ کا خاصہ ہونا چاہئے لیکن وقار قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔

پھر آپ نے واقفینِ زندگی کوہدایت دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’ہماری کتابوں کا کثرت سے مطالعہ کرنے سے ان کی علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو‘‘۔

پس یہ نہیں فرمایا کہ پہنچائیں۔ اتنا مطالعہ کریں کہ علمیت کامل درجہ تک پہنچی ہوئی ہو۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ جامعہ میں پڑھنے کے دوران بھی اور میدانِ عمل میں بھی انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ یہی اس زمانے میں صحیح اسلامی تعلیم کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ’’قناعت شعار ہونا بھی ایک مبلغ اور مربی کے لئے ضروری ہے‘‘۔ اور اس قناعت شعاری کے بارے میں جو معیار آپ نے مقرر فرمایا وہ یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ’’اگر ہماری منشاء کے مطابق قناعت شعار نہ ہوں، تب تک پورے اختیار بھی نہیں دے سکتے‘‘۔

یعنی جو قناعت شعار ہو گا اسی کو اس تبلیغ کا، وقفِ زندگی کے کاموں کا اختیار دیا جا سکتا ہے۔ اور منشاء کیا ہے؟ فرمایا کہ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ایسے قانع اور جفاکش تھے کہ بعض اوقات صرف درختوں کے پتوں پر ہی گزارہ کر لیتے تھے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 658 جدید ایڈیشن)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا اور خواہش کو پورا فرماتے ہوئے ایسے بزرگ مبلغین اپنے فضل سے عطا فرمائے ہیں جن کی قناعت قابلِ رشک تھی۔ آج مبلغین کو سہولتیں بھی ہیں لیکن ایک وقت ایسا تھا جب سہولتیں نہیں تھیں۔ جماعت کے مالی حالات بھی اب اچھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر ممکن خیال رکھنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ گو بعض جگہ اب بھی تنگی اور مشکلات کا سامنا ہے لیکن جب دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا تو پھر ان مشکلات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور نہ ہونی چاہئے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ اور قادیان کے علاوہ دنیا کے بعض مغربی ممالک میں بھی مثلاً UK میں، جرمنی میں، کینیڈامیں جامعات قائم ہیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ کینیڈا کے جامعہ سے اس سال مربیان کی پہلی کھیپ فارغ ہو رہی ہے جو میدانِ عمل میں آئیں گے۔ اسی طرح انڈونیشیا اور افریقہ کے بعض ممالک میں بھی جامعہ احمدیہ قائم ہیں۔ جہاں تک افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ کے جامعات کا تعلق ہے وہ تو وہیں کے رہنے والے طلباء ہیں جو عموماً وہیں تعینات بھی ہوتے ہیں۔ اپنے ملکوں کے حالات میں گزارہ کرنے والے ہیں۔ لیکن مغربی ممالک میں جو طلباء اب میدانِ عمل میں آ رہے ہیں اور انشاء اللہ آئیں گے انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بحیثیت واقفِ زندگی انہیں جہاں بھی بھیجا جائے انہوں نے تعمیل کرنی ہے اور جانا چاہئے۔ یہی وقف کی روح ہے۔ اور ضروری نہیں ہے کہ ان کو یورپ میں لگایا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں رہنے والے اُدھر افریقہ میں بھیجے جائیں تو افریقہ کے سخت موسم سے پریشان ہو جائیں۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کر دیا تو پھر سختی کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اب سہولتیں بھی ہیں اور شروع میں جو مبلغین میدانِ عمل میں باہر گئے تھے ان کو بڑی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان مبلغین کے بعض واقعات میں نے لئے ہیں تا کہ آپ کو احساس ہو کہ کس طرح وہ قربانی دیتے رہے اور کن حالات میں وہ گزارا کرتے رہے ہیں۔

ہمارے ایک مبلغ تھے حضرت سید شاہ محمد صاحب۔ انہوں نے اپنا واقعہ یہ بیان کیا ہے کہ مَیں متواتر اٹھارہ سال انڈونیشیا میں کام کرتا رہا اور اللہ کے فضل سے مَیں نے کبھی کسی کے آگے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ اپنا پورا وقار رکھا۔ بہت معمولی الاؤنس پر گزارہ ہوتا تھا۔ مشکل سے شاید دو وقت کی روٹی چلتی ہو۔ اپنی ہر حاجت کے لئے اپنے ربّ کا دروازہ کھٹکھٹاتا رہا اور وہ میری حاجت روائی کرتا رہا۔ کہتے ہیں جب اٹھارہ سال بعدمیری واپسی ہوئی تو مَیں بڑا خوش تھا۔ بحری جہاز کے ذریعے سے پاکستان کے لئے روانہ ہوا۔ اور کہتے ہیں میرے پاس ایک پرانی اچکن تھی اور دو ایک شلوار قمیص کے دھلے ہوئے جوڑے تھے۔ اور کچھ نہیں تھا۔ کہتے ہیں مَیں بحری جہاز پرسفر کر رہا تھا۔ ہوائی جہاز کا تواس وقت تصور ہی نہیں تھا۔ راستے میں مجھے خیال آیا کہ مَیں اتنے عرصے کے بعد ملک واپس جا رہا ہوں اور میرے پاس نئے کپڑے بھی نہیں ہیں جنہیں پہن کرمَیں ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر اتروں گا۔ اس وقت مبلغین کراچی آیا کرتے تھے پھر وہاں سے ٹرین پر ربوہ پہنچتے تھے۔ تو کہتے ہیں کہ مَیں انہی خیالات میں تھا اور دعاؤں میں لگا ہوا تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ مجھے دل میں بھی اس قسم کی خواہش نہیں کرنی چاہئے تھی۔ یہ وقف کی روح کے خلاف ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے اس پر بڑی توبہ استغفار کی۔ اور پھر چند دن بعد جہاز سنگا پور میں پورٹ پر رکا۔ کہتے ہیں مَیں جہاز کے عرشے پہ کھڑا، ڈیک پہ کھڑا نظارہ کر رہا تھا کہ مَیں نے ایک شخص کو ایک گٹھڑی اٹھائے ہوئے جہاز پر چڑھتے دیکھا۔ وہ سیدھاجہاز کے کپتان کے پاس آیا اور اس سے کچھ پوچھنے لگا۔ کپتان نے اسے میرے پاس بھیج دیا۔ وہ مجھ سے گلے ملا۔ بغل گیر ہو گیا اور کہا کہ وہ احمدی ہے اور درزی کا کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ جب الفضل میں مَیں نے پڑھا کہ آپ آ رہے ہیں اور رستے میں سنگا پور رکیں گے تو مجھے خواہش پیدا ہوئی کہ مَیں آپ کے لئے کوئی تحفہ پیش کروں۔ اور آپ کی تصویریں مَیں نے دیکھی ہوئی تھیں۔ قد کاٹھ کا اندازہ تھا۔ مَیں نے آپ کے لئے کپڑوں کے دو جوڑے سیے ہیں اور ایک اچکن اور ایک پگڑی تیار کی ہے۔ درزی ہوں اور یہی کچھ پیش کر سکتا ہوں۔ آپ اسے قبول کریں۔ تو حضرت شاہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے کہ کس طرح میرے خدا نے میری خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک احمدی کے دل میں تحریک کی جسے مَیں نہیں جانتا تھا اور نہ وہ مجھے جانتا تھا۔ وہ مبلغین کو، مربیان کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مبلغ صرف آستانہ الٰہی پر جھکا رہے اور کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہ کرے تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کے لئے سامان مہیا کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ واقفینِ زندگی سے، صرف مبلغین نہیں، ہر واقفِ زندگی سے یہ سلوک کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میدانِ عمل میں آج بھی یہ نظارے دیکھتے ہیں۔

پھر مولانا غلام احمد صاحب فرخ کے بارہ میں ان کے ایک بیٹے نے لکھا کہ یہ بھی جماعت کی طرف سے بڑا عرصہ باہر مبلغ رہے ہیں۔ جب واپس آئے توحیدرآباد میں ان کی تعیناتی ہوئی۔ وہاں جماعت کی طرف سے ایک چھوٹا سا مکان مل گیا اور اس کی بھی کافی خستہ حالت تھی۔ کیونکہ یہ لمبا عرصہ باہر رہے تھے اس لئے ہم اس بات پر خوش تھے کہ ہمارے والد اب ہمارے ساتھ تو رہیں گے۔ لیکن مکان کی حالت کو دیکھ کر ایک دن ان کے چھوٹے بھائی نے حضرت مولانا غلام احمدصاحب فرخ کو اپنی سمجھ کے مطابق کہہ دیا کہ ابا جان جماعت کو درخواست کریں کہ مکان کی مرمت کروا دیں۔ حضرت مولانا فرخ صاحب توصرف اپنے وقف کو نبھانا جانتے تھے۔ ان کو تو ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں تھی۔ انہوں نے بڑی محبت سے سارے بہن بھائیوں کو پاس بٹھایا اور بڑے طریقے سے، بڑی حکمت سے، بڑی دانائی سے واقفین کے گزر اوقات میں سادگی اور بودوباش میں عاجزی اور انکساری کو پیش کیا۔ انہوں نے یہ فرمایا کہ ہر خواہش کو دبانا اور ہر مطالبے سے اجتناب برتنا بھی وقفِ زندگی کا نصب العین ہے۔ اور میری دلی تمنا ہے کہ تم سب میرا سہارا بنو۔ قدم قدم پر زندگی کی تلخیوں کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ کو خوش کرو۔ بچوں کو یہ نصیحت کی۔

پھر مولانا غلام احمد فرخ صاحب کے یہ بیٹے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہمارے پاس آئے۔ اس وقت یہ فوج میں میجر تھے جب ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ بچے اچھی جگہ پر کاموں پر لگے ہوئے تھے۔ تو ہماری بچوں کی یہ خواہش تھی کہ ہم آپ کی کچھ خدمت کریں اور آپ ریٹائرمنٹ لے لیں۔ ہم نے اپنے والد کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہیں کل جواب دوں گا۔ اور ہم سب اس جواب سے بڑے خوش ہوئے۔ اور اطمینان ہوا کہ شایدمان جائیں گے۔ کل یہی جواب ہو گا کہ اچھا ٹھیک ہے مَیں تم لوگوں کے پاس آ جاتا ہوں۔ لیکن کہتے ہیں ہماری خوشی بھی عارضی ثابت ہوئی۔ آپ نے ہمیں اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا کہ مَیں ایک انتہائی عاجز انسان ہوں۔ تم لوگوں نے جو بات کل مجھے کہی تھی اس نے کل کا میرے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خدا کے لئے دوبارہ مجھے یہ بات کبھی نہ کہنا۔ مَیں نے اپنے اللہ سے حلفاً یہ عہد کیا ہوا ہے کہ وقفِ زندگی کا ہر سانس بحیثیت واقفِ زندگی بسر کروں گا۔ یہاں تک کہ اللہ مجھے اس دنیا سے واپس بلا لے۔ ڈرتا ہوں کہ تمہاری ان باتوں سے مَیں تجدیدِ عہد میں لغزش نہ کھا جاؤں۔ اس لئے دوبارہ تم لوگوں سے کہتا ہوں کہ آج کے بعد مجھ سے کبھی اس طرح نہ کہنا۔ یہ کہہ کر آپ کھڑے ہو گئے اور کہا ہمیشہ دعا کرتے رہنا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کے حضور کئے ہوئے اپنے عہد پر پورا اتروں۔ پس یہ لوگ تھے جنہوں نے وقفِ زندگی کا اور قناعت کا حق ادا کیا۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقفِ زندگی کے لئے فرماتے ہیں کہ’’سفر کے شدائد اٹھا سکیں‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 684 جدید ایڈیشن)

سفر کی جومشکلیں اور صعوبتیں اور شدتیں ہیں ان کو برداشت کر سکیں۔ گاؤں گاؤں پھر کر لوگوں کو ہماری بعثت کی اطلاع دیں۔ شروع میں ہمارے جو مبلغین افریقہ گئے ہیں اور ہندوستان میں بھی جو مبلغین تبلیغ کرتے تھے وہ سفر کی شدت برداشت کیا کرتے تھے۔ سفر کی سہولتیں تو تھیں نہیں اور زادِ راہ بھی اتنا نہیں ہوتا تھا کہ جو سہولتیں میسر ہیں ان کا استعمال کر سکیں۔ اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے۔ اور پھر نہ صرف یہ کہ سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے تھے بلکہ مخالفتوں کا بھی ہندوستان میں بھی، باہر بھی اور افریقہ وغیرہ میں بھی سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مولانا نذیر احمد علی صاحب کے کئی ایسے واقعات ہیں جب انہیں گاؤں والوں نے دھتکار دیا اور انہوں نے راتیں باہر جنگل میں گزاریں۔ ساری ساری رات مچھروں میں بیٹھے رہے۔ وہاں افریقہ میں مچھر بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج افریقہ میں جماعت کی جو نیک نامی ہے اور بڑی ترقی ہے وہ انہی بزرگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ ان کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔

مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری جو خود بھی ایک دفعہ مولوی نذیر احمد علی صاحب کے ساتھ تھے، بیان کرتے ہیں کہ جنگِ عظیم دوم کے دوران 1940ء میں ایک روز حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب اور خاکسار (مولوی صدیق صاحب) نے سیرالیون کے قاصری نامی ایک تجارتی قصبے میں تبلیغ کے لئے پروگرام بنایا۔ وہ فری ٹاؤن سے چالیس میل دور تھا اور دریا کے دوسرے کنارے پر تھا اور کشتی کے ذریعے وہاں جانا پڑتا تھا۔ حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب پہلے بھی وہاں اسلام کا پیغام پہنچا چکے تھے۔ اور اس تبلیغ کی وجہ سے مخالفت بڑھ گئی تھی۔ کہتے ہیں ہمارا یہ دوسرا دورہ تھا۔ اکثر وہاں کے لوگ فولانی قبیلے کے ہیں جنہیں اپنے اسلام پر بڑا ناز ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور صحیح مسلمان ہیں۔ اپنا تعلق نسل کے لحاظ سے عرب لوگوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ بہر حال یہ لوگ وہاں گئے۔ ان فولانیوں نے اور مسلمانوں نے جھوٹی، من گھڑت باتیں لوگوں میں پھیلا دی تھیں اس کی وجہ سے وہاں لوگوں نے یہ عہد کر لیا تھا کہ اگر ہم دوبارہ آئے توہمیں وہاں ٹھہرنے کے لئے جگہ نہیں دیں گے۔ اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد تو صرف تبلیغِ اسلام تھا۔ احمدیت کا پیغام پہنچانا، اسلام کا پیغام پہنچانا تھا اور اس کی حقیقی روح سے آگاہ کرنا تھا۔ غیر مسلموں اور عیسائیوں کو باقاعدہ تبلیغ کرنا تھا۔ اس لئے ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ وہاں جا کر چند دن رہ کراپنے متعلق جو غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں ان کو دُور کرنے کی کوشش کریں۔ بہر حال وہ کہتے ہیں کہ ہم بذریعہ کشتی روانہ ہوئے اور مغرب کے وقت وہاں قاصری گاؤں میں پہنچ گئے۔ چند دن ٹھہرنے کا پروگرام تھا اور لیکچروں کا انتظام کرنا تھا۔ کہتے ہیں جب ہم کشتی سے اترے تو سیدھے چیف کے بنگلے میں گئے، کیونکہ چیف کو اس زمانے میں حکومت کی طرف سے مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے کے لئے ایک گرانٹ ملا کرتی تھی۔ لیکن بہرحال ہمیں غلط طور پر بتایا گیا یا حقیقت تھی کہ چیف اپنے فارم پر گیا ہوا ہے اور وہ ابھی تک وہاں سے واپس نہیں آیا اور جوباقی ذمہ دار لوگ تھے وہ سب بڑی بے رخی اور مخالفت کا اظہار کر رہے تھے۔ بعض جو ان کے ہمدرد تھے وہ بھی دوسروں کی مخالفت سے مرعوب ہو گئے تھے۔ اور کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی بھی پوچھنے والا نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ چند افریقن احمدی طالب علم تھے۔ ان کو تو افریقن ہونے کی وجہ سے کہیں جگہ مل گئی اور وہ چلے گئے اور ہمارا سامان بھی ساتھ لے گئے۔ اور ہم وہیں گاؤں کے باہرجنگل میں پِھر رہے تھے۔ بعض لبنانی تاجروں کے ساتھ رابطہ ہوا جن کی دکانیں وہیں دریا کے کنارے پر تھیں۔ بہر حال ایک لبنانی مسلمان جو تھا اس سے ہم نے کچھ عربی میں باتیں کیں، ہماری عربی سے متأثر ہوا اور اپنے ساتھ لے گیا اور وہاں تبلیغ شروع ہو گئی۔ اور اس نے پھر زور دے کے ہمیں رات کا کھانا بھی کھلایا۔ لیکن رات کو ہم دس بجے لٹریچر وغیرہ کا ان سے وعدہ کر کے وہاں سے اٹھ کر آ گئے۔ نہ اس نے پوچھا، نہ ہم نے بتایاکہ ہمارے پاس تو رات کو ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں۔ رات ہم پھر دریا کے کنارے آ کر بیٹھ گئے اور وہ سارا علاقہ زہریلے سانپوں اور جنگلی جانوروں سے بھرا پڑا ہے۔ دریا کے کنارے مگرمچھ ہیں وہ بھی حملے کرتے رہتے تھے۔ اکثر وارداتیں ان کی ہوتی رہتی تھیں۔ لیکن اللہ نے اپنا فضل کیا۔ ان کو ہر جانور کے حملے سے محفوظ رکھا۔ ایسی حالت میں اب نیند تو آ نہیں سکتی تھی تو یہ لوگ گاؤں کے باہر ایک سرے سے دوسرے سرے تک ٹہلتے رہے۔ پھرکہتے ہیں کہ آدھی رات کو دریا کے کنارے ہم ریت پربیٹھ گئے۔ قرآنِ کریم کے جو حصے ہمیں یاد تھے ایک دوسرے کو سنانے لگ گئے۔ پھر آیات کی تفسیرمیں باتیں ہوتی رہیں۔ بہر حال یہ دینی باتیں ہوتی رہیں۔ پھر کچھ رات گزری تو حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب نے ایک لمبی پُرسوز دعا کرائی کہ اللہ تعالیٰ اس گاؤں والوں کو ہدایت دے اور اسلام کی اور احمدیت کی ترقی اور اپنے نیک مقاصد کے لئے دعائیں کیں۔ پھر اس کے بعد ٹہلنا شروع کیا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ تین بجے کے قریب ہم لوگ اٹھے اور گاؤں میں گئے کہ مسجد میں جا کر تہجد کی نماز پڑھیں۔ جب مسجد میں داخل ہوئے ہیں تو مسلمان کہلانے والوں کی مسجد کا یہ حال تھا کہ ایک دَم اندھیرے میں عجیب قسم کی آوازیں آنا شروع ہوئیں اور تھوڑی دیر بعد وہاں مسجد سے بکریوں کا ریوڑ باہر نکلا۔ مسجد میں گند ڈالا ہوا تھا۔ کہتے ہیں ہم نے مسجد صاف کی اور پھر صفیں بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی۔ فجر کی نماز کا وقت ہوا۔ پھر ہم دونوں نے باری باری اذان دی۔ اور اذان دینے سے لوگ ہماری طرف آنا شروع ہوئے، غیر مسلم بھی آنا شروع ہوئے۔ ان کے جوبڑے مسلمان لیڈر تھے وہ اس لئے آگئے کہ کہیں یہ نہ ہو کہ رات کو کسی نے جگہ دے دی ہو اور انہوں نے ہماری مسجد پر قبضہ کر لیا ہو۔ خیر اس کے بعد ہم نے نماز پڑھی۔ وہ ہمیں نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے رہے اور انہوں نے کہا فرق تو کوئی نہیں ہے۔ یہ تو غلط مشہور ہوا ہے کہ ان کی اذان کا فرق ہے اور یا نمازمیں فرق ہے۔ سوائے نماز کے اس فرق کے کہ احمدی نماز ہاتھ باندھ کر پڑھ رہے تھے اور ان میں سے اکثریت کیونکہ وہاں مالکیوں کی ہے وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں تو صرف یہ فرق ہے۔ بہر حال اتنا سا تعارف ہوا اور گاؤں والوں نے کوئی پذیرائی نہیں کی۔ مخالفت تو کم نہیں ہوئی۔ یہ شکر ہے کہ انہوں نے ان کو مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا نہیں اور نماز پڑھ کے پھر یہ لوگ واپس آ گئے۔ تو ایسے حالات سے بھی گزرے۔ لیکن بعد میں پھر اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا وہاں نفوذ کیا اور احمدیت ان علاقوں میں پھیلی۔ تو یہ تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کا حقیقی اور عملی اظہار ہے جو ہمارے مبلغین نے کیا۔

پس ایک واقفِ زندگی کو اپنی خواہشات کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ شدائد سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا آج بھی بعض جگہ یہ نمونے ہمیں نظر آتے ہیں اور دیکھے ہیں۔ لیکن ہمارے نئے شامل ہونے والے مربیان بھی، مبلغین بھی اور واقفینِ نو کو بھی ان باتوں کو سامنے رکھ کر اپنے میدان میں بھی اور تعلیم کے دوران بھی اس طرح کام کرنا چاہئے اور اس سوچ کے ساتھ اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے کہ یہ جذبہ ہے جو ہم نے لے کر میدانِ عمل میں جانا ہے۔ میرے سامنے جامعہ کے بہت سارے طلباء بیٹھے ہوئے ہیں۔ ابھی سے ہی یہ سوچنا شروع کر دیں کہ اس کے بغیر ہم دین کو پھیلا نہیں سکتے۔ اور اگر یہ نہیں ہو گا تو پھر میدانِ عمل میں سوائے گھبرا جانے کے اور کچھ نہیں ہو گا۔ اور بعض تو بد قسمتی سے یہ سن کر ہی کہ بعض دفعہ ان کی ٹرانسفر کی گئی تو وقف ختم کر دیا اور وقف سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس لئے ابھی سے اپنے آپ کو تیار کریں کہ ہمیں یہ سب قسم کی سختیاں برداشت کرنی ہیں۔ اور جامعہ میں پڑھنے والوں سے میں خاص طور پر یہ کہہ رہا ہوں کہ ابھی سے ان سختیوں کے بارے میں سوچ لیں۔ آج کل واقفینِ نَو میں سے ایک بڑی تعداد (تعداد کے لحاظ سے تو ایک اچھی تعداد ہے لیکن واقفین نو کی نسبت کے لحاظ سے نہیں ) جو مختلف ملکوں کے جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہی ہے انہیں ہمیشہ پہلے اپنے والدین کے عہد کو، پھر اپنے عہد کو اور اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات کو سامنے رکھنا چاہئے، اور ان باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ یہ وفا کا مظاہرہ ہے جو ہر واقفِ زندگی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔

یہ بھی یاد رکھیں کہ مربی اور مبلغ کا ایک وقار ہے جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا، اس لئے عاجزی دکھائیں۔ بیشک عاجزی تو مبلغ کے لئے ضروری ہے لیکن وقار کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اپنی ضرورت، اپنی خواہش کا اظہار کسی کے سامنے نہ کریں۔ جیسا کہ حضرت مولوی صاحب نے بھی نصیحت کی ہے کہ اپنی ضروریات کو ہمیشہ خدا کے سامنے پیش کرو۔ اور یہ میرا اپنا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ضروریات پوری کرتا ہے۔ گھانا میں میدان میں رہا ہوں۔ بڑے مشکل حالات تھے۔ جو مانگنا ہے خدا تعالیٰ سے مانگیں۔ تنگی ترشی برداشت کر لیں، لیکن اپنے وقار کو کبھی نہ گرائیں۔ اور یہ باتیں صرف نئے آنے والوں کو نہیں کہہ رہا بلکہ پرانوں کوبھی جو میدانِ عمل میں ہیں انہیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ بعض دفعہ بھول جاتے ہیں یا بعض دفعہ دنیا داروں کو دیکھ کر خواہشات بڑھ جاتی ہیں۔ ہر مربی جماعت کی نظر میں، مرکز کی نظر میں، افرادِ جماعت کی نظر میں خلیفۂ وقت کا نمائندہ ہے۔ پس کوئی ایسی حرکت نہیں ہونی چاہئے جس سے اس نمائندگی پر حرف آتا ہو۔ بعض دفعہ بیوی بچوں کی وجہ سے مجبور ہو کر بعض ضروریات کا اظہار ہو جاتا ہے۔ جماعت اپنے وسائل کے لحاظ سے حتی الامکان واقفِ زندگی کو سہولت دینے کی کوشش کرتی ہے اور کرنی چاہئے۔ لیکن جس طرح دنیا میں معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے، غریب ممالک میں خاص طور پر برا حال ہو جاتا ہے۔ باوجود کوشش کے مہنگائی کا مقابلہ مشکل ہو جاتا ہے۔ لیکن ایک مربی کا ایک واقفِ زندگی کا وقار اسی میں ہے کہ کسی کے سامنے اپنی مشکلات کا ذکر نہ کرے۔ جو رونا ہے خدا تعالیٰ کے آگے روئیں، اس سے مانگیں۔ میں نے پہلے بزرگوں کی جو مثالیں دی ہیں، آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی قربانیاں موجود ہیں۔ لیکن بعض بے صبرے بھی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا وقف بھی توڑ جاتے ہیں۔ دوسروں کو دیکھ کر جب اپنی خواہشات کو پھیلایا جائے تو پھر یہ حال ہو جاتا ہے۔ اس سے مشکلات مزید بڑھتی ہیں۔ جب آپ اپنے ہاتھ، خواہشات کو دوسروں پر نظر رکھتے ہوئے پھیلاتے ہیں تو یاوقف توڑ دیں گے یا پھر مقروض ہو جائیں گے۔ پس اپنی چادر میں رہنا ہی ایک واقفِ زندگی کا کام ہے۔ اور اس حوالے سے میں واقفینِ زندگی کی بیویوں کو بھی یہ کہوں گا کہ وہ بھی اپنے اندر قناعت پیدا کریں اور اپنے خاوندوں سے کوئی ایسا مطالبہ نہ کریں جو پورا نہ ہو اور واقفِ زندگی کو ابتلا میں ڈال دے۔

پس جس عظیم کام کے لئے اور جس عظیم مجاہدے کے لئے واقفینِ زندگی خاص طور پر مبلغین اور مربیان نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے، ان کی بیویوں کا بھی کام ہے کہ اس کام میں، اس مجاہدے میں ان کی معاون بنیں۔ ایک مبلغ اور مربی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ مدرسہ احمدیہ کے اجراء کے وقت آپ نے فرمایاکہ ’’یہ مدرسہ اشاعتِ اسلام کا ایک ذریعہ بنے اور اس سے ایسے عالم اور زندگی وقف کرنے والے لڑکے نکلیں جو دنیا کی نوکریوں اور مقاصد کو چھوڑ کر خدمتِ دین کو اختیار کریں، جو عربی اور دینیات میں توغل رکھتے ہوں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 618 جدید ایڈیشن)

یعنی علوم حاصل کرنے اور سمجھنے کی ان میں ایک لگن ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مربیان مبلغین کو ان باتوں کو سامنے رکھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

واقفینِ نَو کے سلسلہ میں بعض انتظامی باتیں بھی ہیں جو کہنا چاہتا ہوں۔ واقفینِ نو کی ایک بڑی تعداد ایسے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے جو دینی علم حاصل کرنے کے لئے جا معہ میں داخل نہیں ہوتے اور مختلف میدانوں میں جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ جماعت کو ایسے واقفین کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو مختلف فیلڈز میں جائیں اور جماعت کی خدمت کریں۔ اس لئے پڑھائی کی ہر سٹیج پر واقفینِ نَو کو مرکز سے مشورہ کرنا چاہئے کہ اب یہاں پہنچ گئے ہیں ہم آگے کیا کریں۔ ۔ اب ہمارا یہ یہ ارادہ ہے۔ کیا کرنا چاہئے؟ اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساڑھے چودہ ہزار واقفینِ نو بچے بچیاں ہیں جو پندرہ سال سے اوپر ہو چکے ہیں۔ کل تعداد تو چالیس ہزار ہے۔ ایک تو اس عمر میں ان کو خود اپنے وقف کے فارم پُر کرنے چاہئیں کہ وہ وقف قائم رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ یہ ہوش کی عمر ہے۔ سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کریں کہ وقف کو قائم رکھنا ہے یا پھر وقف نہیں کرنا۔ پہلے ماں باپ نے وقف کیا تھا اب واقفِ زندگی بچے نے، وقفِ نوَبچے نے خود کرنا ہے۔ اگر وقف قائم رکھنا ہے تو مرکز کو اطلاع ہونی ضروری ہے اور پھر رہنمائی بھی لیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہم جامعہ میں تو نہیں جا رہے، یہ یہ ہمارے شوق ہیں۔ تعلیم میں ہمیں یہ دلچسپی ہے تو آپ ہماری رہنمائی کریں کہ ہم کونسی تعلیم حاصل کریں۔ بے شک جیسا کہ مَیں نے کہااپنے شوق بتائیں، اپنی دلچسپی بتائیں لیکن اطلاع کرنا ضروری ہے۔ اور مختلف وقتوں میں پھر ان کی رہنمائی ہوتی رہے گی۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ سیکرٹریانِ وقفِ نَو کو بھی فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ اور اگر یہ فعال ہوں گے تو پھر متعلقہ جماعتوں کے اپنے واقفینِ نو بچوں سے معلومات لے کر مرکز کو اطلاع بھی کریں گے اور پھر مرکز یہ بتائے گا کہ کیا کام کرنا ہے، کیا نہیں کرنا۔ یا کیا آگے پڑھنا ہے یا پڑھائی مکمل کرنے کے بعد مرکز میں اپنی خدمات پیش کرنی ہیں۔ خود ہی فیصلہ کرنا وقفِ نو کا کام نہیں ہے، نہ ان کے والدین کا۔ اگر خود فیصلہ کرنا ہے تو پھر بھی بتا دیں کہ مَیں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اب مَیں وقفِ نوَمیں رہنا نہیں چاہتا تا کہ اس کو وقفِ نو کی فہرست سے خارج کر دیا جائے۔ گو کہ اب تک یہی ہدایت ہے کہ پندرہ سال کے بعد جب اپنا وقف کا فارم فل (Fill) کر دیا تو پھر واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ لیکن اب میں یہ راستہ بھی کھول دیتا ہوں۔ تعلیم مکمل کر کے دوبارہ لکھیں اور یہ لکھوانا بھی سیکرٹریانِ وقفِ نو کا کام ہے۔ اور اس کی مرکز میں باقاعدہ اطلاع ہونی چاہئے کہ ہم نے یہ تعلیم مکمل کر لی ہے اور اب ہم اپنا وقف جاری رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں رکھنا چاہتے۔

پندرہ سال سے اوپر کی جو تعداد ہے اس کا تقریباً دس فیصد یعنی چودہ سو چھبیس کے قریب مختلف ممالک کے جامعہ احمدیہ میں واقفینِ نَو پڑھ رہے ہیں۔ یعنی نوّے فیصد اپنی دوسری تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں یا پڑھائیا ں چھوڑ بیٹھے ہیں یا کوئی پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس بارہ میں بھی باقاعدہ رپورٹ تیار ہونی چاہئے۔ میرا نہیں خیال کہ نوّے فیصد کے بارہ میں مرکز کو باقاعدہ آگاہ کیا گیا ہے کہ یہ واقفینِ نو بچے کیا کر رہے ہیں۔ ان کی رپورٹ تیار ہو۔ سیکرٹریانِ وقفِ نو سے میں کہہ رہا ہوں اور یہ رپورٹ مرکز میں بھجوائیں۔ اسی طرح واقفینِ نو کے لئے، چاہے وہ جامعہ میں پڑھ رہے ہیں یا نہیں پڑھ رہے اور کوئی دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، دینی تعلیم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اور ان کے لئے سلیبس بنایا گیا ہے۔ پہلے پندرہ سال کے بچوں تک کے لئے تھا۔ اب انیس سال تک کے لئے بنایا گیا ہے۔ اس کو پڑھنا اور اس کا امتحان دینا بھی ضروری ہے۔ اور یہ انیس سال والا بیس سال تک بھی extendکیا جا سکتا ہے۔ تو اس میں شامل ہونا اور اس میں واقفینِ نو کے سیکرٹریان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ سو فیصد شمولیت ہو، یہ بھی ضروری ہے۔ اور پھر ان کے نتائج مرکز میں بھجوائے جائیں۔ مختلف اوقات میں یہاں مرکز سے بھی شعبہ وقفِ نو سے ہدایات جاتی رہتی ہیں۔ ان کے بارہ میں بعض جماعتیں بلکہ اکثر جماعتیں جواب ہی نہیں دیتیں۔ ان کی یاددہانی کے لئے گو کہ بعض باتیں پہلے بھی آ گئی ہیں لیکن جو سرکلر جاتے ہیں وہ مَیں دوبارہ آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ مثلاً ایک ہدایت یہ ہے کہ وقفِ نَومیں شمولیت کے لئے لازمی ہے کہ ولادت سے قبل والدین خود تحریری طور پر خلیفہ وقت کو درخواست دیں اور بعض دفعہ بعض لوگ بعد میں، پیدائش کے بعد درخواستیں بھیجتے ہیں کہ ہمیں بھول گیا تھا یا فلاں مجبوری ہو گئی تھی۔ تو یہ ٹھیک نہیں۔ شروع میں درخواست دینی ضروری ہے۔ اور انہی کا وقف قبول کیا جاتا ہے جو پہلے درخواست دیتے ہیں۔ اور یہی پہلے دن سے وقفِ نو کے شعبے کا اصول رہا ہے۔ یہاں صرف ایک بات کی مَیں وضاحت کر دوں کہ لوگ خط لکھتے ہیں۔ وقفِ نو میں درخواست دیتے ہیں، اس میں اپنے بعض دوسرے مسائل بھی لکھ دیتے ہیں اور کیونکہ یہ شعبے جنہوں نے جواب دینے ہیں مختلف ہیں۔ وقفِ نو کا جواب وقفِ نو کا شعبہ دے گا۔ خط کے باقی حصے کا جواب دوسرے حصے نے دینا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ عورتیں اور مرد جو اپنے بچوں کے لئے وقفِ نو کے لئے لکھتے ہیں، اگر انہوں نے اپنے خطوط میں دوسرے مسائل لکھنے ہوں تو وہ دوسرے خط میں علیحدہ لکھا کریں۔ پھر یہ ہے کہ وقفِ نو بچے بچی کے جو والدین ہیں وہ خود درخواست کریں۔ ان کے رشتے داروں کی درخواستیں جو ہیں وہ منظور نہیں ہوں گی۔ دعا تو آپ نے اپنے بچوں کو وقف کرنے کے لئے کرنی ہے، اس لئے درخواست بھی خود دینی ہو گی۔ کیونکہ تربیت اور تعلیم اور دعا سب آپ کی ذمہ داری ہے۔

اور پھر یہ ہے کہ بعض علاقوں میں افریقہ وغیرہ میں جہاں بعض دفعہ پوری طرح ہدایات پر عمل نہیں ہوتا۔ اول تو ان کا اپنے رجسٹروں میں ویسے نام لکھ لیا جاتا ہے کہ جی بچہ پیدا ہوا اس نے کہا وقفِ نو میں شامل کر لو، وقفِ نو ہو گیا۔ جب تک مرکز کی طرف سے کسی کو وقفِ نو میں شامل ہونے کی کلیئرنس نہیں ملتی، کوئی بچہ وقفِ نو میں شامل نہیں ہو سکتا۔ اور پیدائش کے بعد تو سوال ہی نہیں۔ اور اسی طرح جو گود میں لینے والے بچے ہیں، اگر وہ اپنے عزیز رشتے داروں کے ہیں تو اس کی بھی ولادت کے وقت سے پہلے اطلاع ہونی چاہئے کہ بچہ وقفِ نو میں شامل کرنا ہے۔ اور بے شک گود آپ نے لیا ہو کسی بھی زید یا بکر نے۔ لیکن ولدیت میں اسی کا نام لکھا جائے گا جس کا وہ حقیقی بچہ ہے۔

پھر پیدائش کے بعد یہ بھی لازمی ہے کہ والدین مرکزی ریکارڈ میں بچے کا اندراج کروائیں اور حوالہ نمبر درج کریں۔ والدین بعض دفعہ لمبا عرصہ اندراج نہیں کرواتے اور اس کے بعد پھر یاددہانی کے باوجود اندراج نہیں کرواتے اور پھر کئی سالوں کے بعد یہ شکایتیں لے کر آ جاتے ہیں کہ ہمارے بچے کا ریکارڈ نہیں ہے۔ تو یہ ذمہ داری بھی والدین کی ہے۔

اسی طرح جب بچے پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو مقامی اور نیشنل سیکرٹریانِ وقفِ نو ان کے وقف کی تجدید کروائیں۔ پہلے بھی میں بتا چکا ہوں، بلکہ اب مَیں نے کہا ہے کہ جو یونیورسٹیوں، کالجوں میں پڑھ رہے ہیں وہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد بھی تجدید کریں۔ کیونکہ اب اس ریکارڈ کو بہت زیادہ اَپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کو باقاعدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر ہم آگے اپنی جو بھی سکیم ہے جماعت کی ضروریات ہیں ان کا اندازہ ہی نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی ہمیں ان کا یہ پتہ لگ سکتا ہے کہ ہمیں کس کس شعبے میں کتنے لوگوں کی اب ضرورت ہے۔ بعض دفعہ والدین کے لئے ایک بڑے صدمے والی بات ہوتی ہے کہ بچہ معذور پیدا ہوا ہے۔ ایسی صورت میں بھی وقفِ نو میں تو شامل نہیں ہوتا گو یہ والدین کے لئے دہرا صدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کوئی اور بہتر صورت کرے یا ایسے والدین کو نعم البدل اولاد عطا کرے۔

پھر اسی طرح ایسے والدین جن کو کسی وجہ سے اخراج از جماعت کی تعزیر ہو جاتی ہے (عموماً یہی ہوتا ہے کہ جماعت کی بات نہیں مانی یا کسی فیصلہ یا جماعتی روایات پر عمل نہیں کیا) تو ان کے بچوں کا نام بھی اس لئے فہرست میں سے خارج کر دیا جاتا ہے کہ جو والدین خود اپنے آپ کو اس معیار پر نہیں رکھنے والے کہ جہاں جماعت کی پوری اطاعت اور نظامِ جماعت کا احترام ہو تو وہ اپنے بچوں کی کیا تربیت کریں گے۔ اس لئے سیکرٹریانِ وقفِ نو بھی یہ نوٹ کر لیں کہ اگر ایسی کوئی بات ہو، کسی کے بارے میں کوئی تعزیرہو تو ایسے لوگوں کی بھی فوراً مرکز میں اطلاع کریں۔ یہ سیکرٹریانِ وقفِ نو کا کام ہے۔

اور اسی طرح یہ تو میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ یونیورسٹیوں میں پڑھنا چاہیں تو بتادیں اور پہلے اجازت لے لیں۔ اور جو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر چکے ہوں اور اپنا وقف میں رہنا بھی confirmکیا ہوا ہو توان کے لئے بھی لازمی ہے کہ وقتاً فوقتاً جماعت سے رابطہ رکھیں کہ اب ہم کام کر رہے ہیں۔ کام کرنے کا عرصہ اتنا ہو گیا ہے۔ فی الحال اکثریت کو اجازت دی جاتی ہے کہ اپنے کام جاری رکھو۔ جب جماعت کو ضرورت ہو گی بلا لے گی۔ لیکن ان کا کام یہ ہے کہ ہر سال اس کی اطلاع دیتے رہیں۔ اسی طرح جودوسرے پیشے کے لوگ ہیں جو اعلیٰ تعلیم تو حاصل نہیں کر سکے لیکن دوسرے پیشوں میں، مختلف قسم کے سکلز (Skills) ہیں ان میں پروفیشنر (Prifessions) ہیں، ان میں چلے گئے ہیں تو ان کو بھی اپنے مکمل کرنے کے بعد ٹریننگ یا ڈپلومہ وغیرہ کی اطلاع کرنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ ان سب واقفینِ نو اور تمام واقفاتِ نو کو جماعت کے لئے بھی مفید وجود بنائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ان لوگوں کی جو جماعت کی امانت ہیں، جو قوم کی امانت ہیں، احسن رنگ میں تربیت بھی کر سکیں اور جماعت کے لئے ایک مفید وجود بنانے میں ان کی مدد بھی کرنے والے ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں