خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ اکتوبر 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ۔ وَ مَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا (سورۃ النساء: 49)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ معاف نہیں کرے گا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ سب کچھ معاف کر دے گا جس کے لئے وہ چاہے۔ اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو یقینا اس نے بہت بڑا گناہ افتراء کیا ہے۔
جوں جوں انسان ایجادات کی وجہ سے ایک دوسرے کے قریب ہو رہا ہے۔ ایک مُلک کی ایجاد سے دوسرے مُلک کے باشندے جو ہزاروں میل دُور رہتے ہیں وہ بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ آپس کے رابطوں نے جہاں ترقی کے راستے کھولے ہیں وہاں ایک دوسرے کی برائیاں بھی تیزی سے اپنائی جا رہی ہیں۔ برائیوں میں یا لہو و لعب میں کیونکہ جاذبیت زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ اپنی طرف زیادہ کھینچتی ہیں انسان انہیں اپنانے میں بڑی تیزی اور شدت دکھاتا ہے۔ یعنی اختیار کرنے میں جلدی بھی ہوتی ہے اور بعض دفعہ جوش بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ وہ کون ہے؟ کن روایات کا حامل ہے؟ کس معاشرے میں اس کی اٹھان ہوئی ہے؟ کس مذہب سے اس کا تعلق ہے؟ خدا تعالیٰ کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں پسند؟ اگر مسلمان ہے تو خدا تعالیٰ نے اس کا مقصدِ پیدائش کیا بتایا ہے؟ غرض کہ بہت سی غلط باتیں ہیں جو دنیا داری میں پڑنے اور ماڈرن بننے کے شوق میں ایک اچھے بھلے مذہبی رجحان رکھنے والے سے بھی سرزد ہو جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بعض احمدی بھی بعض باتیں معمولی سمجھ کر ان کو کرنے لگ جاتے ہیں جس کے انتہائی بدنتائج نکل سکتے ہیں۔ ان برائیوں میں سے جو غیر محسوس طریقے سے انسان کو اپنے دام میں گرفتار کر لیتی ہیں ایک شرک ہے اور وہ ایسی برائی ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف برائی ہی نہیں بلکہ بہت بڑا ناقابلِ معافی گناہ ہے۔ جیسا کہ ہم نے، یہ آیت جومَیں نے تلاوت کی، اس میں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کے مقابل پر کسی بھی قسم کا چاہے وہ معمولی سا بھی اظہار ہے جس سے خدا تعالیٰ کی توحید پر حرف آتا ہو، اللہ تعالیٰ کو قابلِ قبول نہیں ہے۔ پس ایک مسلمان جو توحید پر قائم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، جو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھتا ہے، اسے توحید کی باریکی کو سمجھتے ہوئے، شرک کی باریکی کو سمجھتے ہوئے اس ترقی یافتہ دنیا میں جہاں خدا تعالیٰ کی توحید کا ذرّہ برابر خیال نہیں رکھا جاتا، بڑا بچ بچ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور خاص طور پر ہم احمدی مسلمانوں کو تو یہ ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہم نے تو زمانے کے امام کی بیعت ہی اس شرط پر کی ہے، اور اس شرط کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب سے پہلی شرط کے طور پر رکھا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ
’’بیعت کنندہ سچے دل سے عہد اس بات کا کرے کہ آئندہ اس وقت تک کہ قبر میں داخل ہو، شرک سے مجتنب رہے گا‘‘۔
پس یہ احمدیت میں داخل ہونے کے لئے، حقیقی اسلام میں داخل ہونے کے لئے پہلا عہد ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ مسلمان تو پہلے ہی کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پڑھتے ہیں۔ گو وہ یہ کلمہ پڑھتے ہیں لیکن احمدیت نے جہاں مسلمانوں کو حقیقی اسلام کی طرف لانا ہے وہاں غیر مسلموں کو، دوسرے مذاہب والوں کو بھی، لا مذہبوں کو بھی حقیقی اسلام کی طرف لے کر آنا ہے۔ اس لئے شرک کی جو شرط ہے وہ پہلی شرط ہے کہ شرک کبھی نہیں کرے گا۔ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا کلمہ جو ایک مسلمان پڑھتا ہے، گو بڑی شدت سے اور بڑے زور سے شرک کی نفی کرتا ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے باوجود مسلمانوں میں اس شرک کا جو شرک خفی کہلاتا ہے، اتنا لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ کہنے کو تو یہ بڑی آسان بات ہے کہ مسلمانوں میں سے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والوں کے لئے یہ کوئی بڑی شرط نہیں ہے۔ لیکن اگر غور کریں تو جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مسلمانوں میں سے بھی بہت سے ایسے ہیں جو ظاہری شرک نہ سہی لیکن شرکِ خفی میں مبتلا ہیں۔ قبروں کی پوجا اگر ایک طبقہ ماتھا ٹیک کر کرتا ہے، قبروں پرجا کر سجدے کرتے ہیں تو دوسرا جو اگرچہ سجدہ تو نہیں کرتا لیکن چڑھاوے چڑھا کر دل میں خفی شرک لئے ہوئے ہوتا ہے۔ تیسرا اگرقبروں پر دعا کر رہا ہے تو دعا کرتے ہوئے بجائے خدا کے اس پیر فقیر سے جس کی قبر پر وہ دعا مانگ رہا ہوتا ہے، اُس سے مانگ رہا ہوتا ہے۔ اور ایسے تو کئی واقعات ہیں کہ عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ سے مانگا کہ ہمیں بیٹا دے تو بیٹا پیدا نہیں ہوا۔ لیکن جب داتا دربار میں جا کر داتا صاحب سے مانگا تو بیٹا پیدا ہو گیا۔ اور عورتیں کیونکہ اکثر ایمان میں بھی کمزور ہوتی ہیں اور عموماً مسلمانوں میں نمازوں اور عبادتوں کی طرف بھی رجحان نہیں رہا اس لئے عورتیں خاص طور پر اور مرد بھی عموماً ایسے واقعات ہونے پر خدا تعالیٰ پر ایمان میں کمزوری دکھاتے ہیں۔ بعض دفعہ(ایمان) بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن حضرت داتا گنج بخش یا اور کسی پیر فقیر پر ان لوگوں کا خدا سے بڑھ کر ایمان پیدا ہو جاتا ہے۔ عورتیں اور مرد تقریباً یکساں اس میں شامل ہیں۔ پانچ نمازیں تو ہر ایک کوایک بوجھ لگتی ہیں۔ اور آسان راستہ ان کے لئے یہی ہے کہ قبروں پر دعائیں کرنے اور منتیں مانگنے سے اپنے مسائل حل کروا لیں۔ اور کیونکہ یہ سلسلہ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں چل رہا ہے اس لئے خدا تعالیٰ پر ایمان آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پچھلے دنوں میں ایک ہندو کی ایک نظم نظر سے گزری۔ اس کو مسلمانوں میں انہی بدعات کو دیکھتے ہوئے یہ جرأت پیدا ہوئی کہ اس نے ایک نظم لکھ دی کہ ہم ہندو جو ہیں دیوی دیوتاؤں کو پوجتے ہیں تو مسلمان بھی قبروں پر جاتے ہیں اور پیروں فقیروں کو سجدے کرتے ہیں، ان کے پجاری ہیں۔ اس نے تو نعوذ باللہ یہاں تک کہہ دیا کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا بنا دیتے ہو۔ جو بہر حال ایک الزام ہے اور ایک حقیقی مومن پرانتہائی مکروہ الزام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہ تو کوئی توحید کا علم بردار تھا، نہ ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر نہ تو توحید کی تعلیم دینے والا کوئی تھا اور نہ ہو سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر توحید کا فہم و ادراک حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ پر اس توحید کو لاگو کرنے والا کوئی تھا، نہ ہو سکتا ہے۔ توحید کی حقیقت کو وہی سمجھ سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کو ہر چیز پر فوقیت دینے والا ہو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون اللہ تعالیٰ کو فوقیت دینے اور آپ کو حاصل کرنے میں بے چین ہو سکتا تھا۔ ان کی نبوت کے زمانہ سے پہلے کی تاریخ یہ گواہی دیتی ہے کہ گھنٹوں اور دنوں علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کی ایک دعا ہے۔ یہ دعا ہی خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کے لئے دلی خواہش اور بے چینی کا پتہ دیتی ہے۔ آپؐ اپنے مولیٰ کے حضور بڑے بے چین ہو کر یہ عرض کرتے ہیں کہ:
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یَّنْفَعُنِیْ حُبُّہٗ عِنْدکَ۔ اَللّٰھُمَّ مَا رَزَقْتَنِیْ مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ قُوَّۃً لِیْ فِیْمَا تُحِبُّ وَمَا ذَوَیْتَ عَنِّی مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْہُ فَرَاغًا لِیْ فِیْمَا تُحِبُّ۔
کہ اے اللہ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اس کی محبت جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ دے۔ اے اللہ! جو میری پسندیدہ چیزیں ہیں مجھے عطا کر۔ انہیں میرے لئے تقویت کا ذریعہ بنا دے، اپنی محبت میں بڑھنے کا ذریعہ بنا دے، ایمان میں ترقی کا ذریعہ بنا دے۔ اور جو میری پیاری چیزیں مجھ سے علیحدہ کرے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا کر۔
پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کی محبت مانگتے ہیں تو اُس چیز کی جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے اور دنیا کی ہر پسندیدہ چیز کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا اور عرض کے ساتھ مانگتے ہیں کہ یہ مجھے دین میں بھی بڑھائے اور خدا تعالیٰ کی محبت میں بھی بڑھائے۔ پس بعض لوگ جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم پیروں فقیروں کی قبروں پر اس لئے جاتے ہیں کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے پیارے تھے، اس کے بارہ میں بھی قرآن شریف میں آیا ہوا ہے، ان لوگوں کو تم استعمال کرتے ہو۔ بعض جو بتوں کی پوجا کرتے ہیں ان کے بھی یہی بہانے ہوتے ہیں کہ یہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے ہم اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں۔ یہ بالکل غلط نظریات ہیں۔ یہ دعا اگر وہ پیروں فقیروں کی قبروں پر جا کرتے ہیں، اگر وہ شرک سے پاک ہیں، اگر وہ حقیقت میں نیک تھے تو ان پیروں فقیروں کی زندگی پر غور کرتے ہوئے دعا کرنے والے کو یہ دعائیں خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بنانے والی ہونی چاہئیں۔ نہ یہ کہ وہ انہیں خدا تعالیٰ کے مقابل پر کھڑا کر کے یہ کہنے لگ جائیں کہ اس فقیر نے ہمیں اولاد دی تھی۔ اور اس وجہ سے پھر غیر مسلموں کو بھی اسلام پر اعتراض کرنے کا موقع ملے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض کرنے کا موقع ملے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صحابہ کی تربیت کا اس قدر خیال تھا، قیامِ توحید کا اس قدر خیال فرماتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ معمولی ریاء بھی شرک ہے۔ عبادت میں بھی اگر تم ریاء کرتے ہو، نمازیں پڑھتے ہوئے بھی ریاء کرتے ہو تو یہ بھی شرک ہے۔
آپؐ نے فرمایا کہ شرک سے بچو۔ شرک تم میں چیونٹی کی آہٹ سے بھی زیادہ مخفی ہے۔ یعنی چیونٹی کے پاؤں سے زمین پر جو نشان پڑ جاتے ہیں، اس سے بھی زیادہ باریک ہے۔ صحابہ نے اس پر عرض کیا کہ کس طرح بچیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھ کر کہا کہ یہ دعا پڑھا کرو کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذِبَک مِنْ اَنْ نُشْرِکَ بِکَ شَیْئًا نَعْلَمُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا نَعْلَمُ کہ اے اللہ! ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ہم تیرے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے شریک ٹھہرائیں۔ اور لا علمی میں ایسا کرنے سے ہم تیری بخشش کے طلبگار ہیں۔ (مسند احمد بن حنبلؒ، مسند ابوموسیٰ الاشعریؓ جلد 6صفحہ615-614۔ حدیث نمبر 19835۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ۔ بیروت۔ ایڈیشن 1998ء)
پس آپ نے تو ایک مسلمان کو شرک سے بچنے کی ہمیشہ تلقین فرمائی ہے اور اس کے لئے یہی کہا اور ہمیشہ کہا کہ مَیں تو انسان ہوں۔ ایک عاجز انسان ہوں۔ کوئی آپؐ سے خوفزدہ ہو رہا ہے تو آپؐ فرماتے ہیں کہ مَیں تو ایک معمولی عورت کا بیٹا ہوں۔ خدا تعالیٰ نے بھی آپؐ سے یہی اعلان کروایا کہ اَنَابَشَرٌ مِّثْلُکُمْ (الکہف: 111) کہ مَیں تمہاری طرح ایک بشر ہوں۔ اس لئے یہ بات تو بہر حال اس ہندو نے غلط لکھی کہ تم نے نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا بنا لیا۔ اگر ہم نے اپنے دیوی دیوتاؤں کو خدا بنایا ہوا ہے۔ یا کرشن وغیرہ کو انہوں نے خدا کا بڑا مقام دیا ہے تو کیا ہوا۔ لیکن یہ بات اس کی صحیح ہے کہ قبروں کو تم نے خدا کا مقام دے دیا ہے۔
پس مسلمانوں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ توحید کے علمبرداروں پر شرک کا الزام لگ رہا ہے۔ اس الزام کو عام مسلمان تو دور نہیں کر سکتے لیکن ایک احمدی مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ اپنی حالتوں میں اور اپنے عملوں میں تبدیلی پیدا کریں۔ اپنی عبادتوں کو ایسا بنائیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید ہماری عبادتوں میں نظر آنے لگے، ہمارے عملوں میں بھی نظر آنے لگے۔ دنیا کو بتائیں کہ قیامِ توحید کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے۔ آپ کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہی اب یہ قیامِ توحید ہو سکتاہے۔ اور مسلمانوں کی بھی کیونکہ حالت بگڑ گئی ہے اس لئے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلامِ صادق ہیں، کی جماعت میں ہی شامل ہو کر توحید کے قیام کا حقیقی رنگ میں حق ادا ہو سکتا ہے۔ پس جب یہ احمدی کی ذمہ داری ہے اور شرائطِ بیعت کی پہلی شرط بھی یہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد بھی یہی ہے کہ اپنے آقا کی غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے توحید کے قیام کی کوشش کریں تو پھر ہمیں کس قدر احتیاط سے ہر قسم کے باریک شرک سے بھی بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں نصیحت کرتے ہوئے رسالہ الوصیت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں۔ کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو مگر نرمی اور اخلاق اور دُعاؤں پر زور دینے سے‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 307-306)
پس یہ ایک احمدی کے فرائض میں داخل ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس منشاء کو سمجھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو سمجھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے پرجو ذمہ داری ڈالی گئی ہے اس کو سمجھنے والے ہوں۔ زمانے کے امام کا معین و مددگار بنیں۔ اپنے ہر قول و فعل سے توحید کے قیام کی کوشش کریں۔ صرف مسلمانوں کو نہیں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو بھی توحید کے پیغام کے ذریعہ دینِ واحد پر جمع کرنے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے جو طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا کہ تمہاری باتوں میں نرمی بھی ہو اور اخلاق کا عمدہ مظاہرہ بھی ہو۔ خود لوگ تمہارے اخلاق دیکھیں اور توجہ کریں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں پر زور دو۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض بدعات جب رائج ہو جائیں تو اصل تعلیم سے دور لے جاتی ہیں۔ اور پھر خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی اصل تعلیم انسان بھول جاتا ہے اور یہ بدعات پھر بعض دفعہ، بعض دفعہ کیا اکثر دین کو بگاڑتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ پر کھڑا کر دیتی ہیں۔ تمام سابقہ دین اپنی اصلی حالت کو اس لئے کھو بیٹھے کہ ان میں نئی نئی بدعات زمانے کے ساتھ ساتھ راہ پاتی گئیں اور پھر ان کو دور کرنے کے لئے کوئی نہ آیا اور آنا بھی نہیں تھا۔ کیونکہ اسلام نے ہی تا قیامت اپنی اصل حالت میں قائم رہنا تھا۔ اور جس نے آنا تھا وہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنہوں نے تمام قسم کی بدعات کو اور دین میں جو غلط رسم و رواج راہ پا گئے تھے ان کو حقیقی تعلیم کے ذریعہ سے دور فرمانا تھا۔ گو جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ یہ بدعات بھی بعض مسلمانوں میں غلط طور پر راہ پا گئی ہیں اور بعض بدعات ایسی ہیں اور غلط طرزِ عمل ایسے ہیں جن کی وجہ سے شرک بھی داخل ہو گیا ہے۔ نہ صرف مخفی شرک بلکہ ظاہری شرک بھی بعض جگہ ہمیں نظر آتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق اس زمانہ کے امام کو بھیج کر اس شرک اور بدعت سے اسلام کو محفوظ کرنے کے سامان بہم پہنچا دئیے۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ محفوظ رہے گا۔ یہی بدعات جو اسلام میں راہ پا گئی ہیں، مسلمانوں میں راہ پا گئی ہیں اور جو غلط طریقے جو ہیں ان کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہمارا طریق بعینہٖ وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا تھا۔ آج کل فقراء نے کئی بدعتیں نکال لی ہیں۔ یہ چلّے اور وِرد، وظائف جو انہوں نے رائج کر لئے ہیں ہمیں نا پسند ہیں۔ اصل طریقِ اسلام قرآنِ مجید کو تدبر سے پڑھنا اور جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرنا اور نماز توجہ کے ساتھ پڑھنا، اور دعائیں توجہ اور انابتِ الی اللہ سے کرتے رہنا۔ بس نماز ہی ایسی چیز ہے جو معراج کے مراتب تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ ہے تو سب کچھ ہے‘‘۔ (یعنی نماز ہے تو سب کچھ ہے)۔
پس عام بدعات تو ایک طرف، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو بعض وظائف وغیرہ کرنے اور ان وظائف پرزور دینے والوں کے عمل کو بھی بدعات کرنے والا قرار دیا ہے۔ کیونکہ اس سے اصل چیز جو ہے وہ بھول جاتے ہیں۔ نماز جو اصل عبادت ہے وہ بھول جاتی ہے۔ وہ نماز بھول جاتے ہیں اور وِرد و وظائف پر زور شروع ہو جاتا ہے۔ اور پھر یہ بھی شیطانی عملوں میں سے ایک عمل بن جاتا ہے۔
ایک بزرگ کا قصہ آتا ہے کہ ان کی ہمشیرہ جو بہت نیک تھیں، نمازیں پڑھنے والی، تہجد گزار، دوسرے نوافل پر زور دینے والی۔ انہوں نے بعض مجلسوں میں جا کر یا لوگوں سے متأثر ہو کر وِرد اور ذِکر اور وظائف کی طرف زیادہ توجہ دینی شروع کر دی۔ اس طرف زیادہ مائل ہو گئیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ جو دن کے نوافل تھے وہ چھوڑ دئیے۔ ان بزرگ کو شک پڑا تو انہوں نے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ جی مَیں زیادہ اب وِرد اور وظائف کر لیتی ہوں۔ انہوں نے سمجھایا کہ یہ غلط طریق ہے۔ لیکن بہر حال نہیں سمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں ٹھیک کرتی ہوں۔ آہستہ آہستہ تہجد کی نماز پڑھنی بھی چھوڑ دی۔ اس کی جگہ بھی ذکر شروع ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو جو ذکر تم کر رہی ہو تمہیں شیطان ورغلا رہا ہے۔ اس لئے بچو۔ یہ کوئی خدا کا حکم نہیں ہے۔ اگر تم نے اس سے بچنا ہے تو تم لَاحَوْل پڑھا کرو، بچ جاؤ گی۔ کچھ عرصے بعد اس بزرگ خاتون نے دیکھا کہ فرض نمازوں کی طرف بھی میری بے رغبتی ہو رہی ہے تو پھر خودان کو احساس پیدا ہوا۔ پھر انہوں نے شیطان سے بچنے کے لئے لاَحَوْل پڑھنا شروع کیا۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہ۔ پھر آہستہ آہستہ ان کی نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور وہ انہماک پیدا ہوا۔ پھر تہجد کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ پھر نوافل کی طرف توجہ پیدا ہوئی۔ تو بعض دفعہ انسان کو بعض باتوں کا پوری طرح علم نہیں ہوتا۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ مَیں بعض نیکیاں مَیں کر رہا ہوں ان کو کرنے کا بڑا فائدہ ہے۔ اور ذکر کرنے سے یا وِرد وظائف کرنے سے بڑا مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ گو یہ بڑی اچھی بات ہے، ذکر کرنا چاہئے۔ ذکرِ الٰہی سے زبان تر رکھنی چاہئے۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ نے فرائض بتائے ہیں وہ پورے کر کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے نوافل اور تہجد کی جو سنت قائم فرمائی اس کو کرکے ساتھ ساتھ یہ چیزیں ہوں تب ٹھیک ہے۔ لیکن صرف ایک چیز پر زور دینا اور اصل فرائض کو چھوڑ دینا، سنت کو چھوڑ دینا، یہ غلط طریقِ کار ہے۔
پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ ہُوکی مجلسیں، ذکر اذکار کی مجلسیں بے شک بڑی پاکیزہ مجلسیں ہیں لیکن یہ جب ایک حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہیں تو پھر شیطان کی طرف لے جاتی ہیں۔ پس اصل نیکی وہی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے جو توحید کے قیام کے لئے اہم ہے۔ پس بظاہر نیکی کرنے کی طرف توجہ دلانے والی باتیں جب بعض اوقات بدعات بن جاتی ہیں تو دوسری بدعات تو بہت زیادہ اثر ڈالتی ہیں۔ عام بدعات جو معاشرے پر اثر ڈالتی ہیں وہ تو ڈالتی ہی ہیں۔ لیکن یہ بظاہر نیکی کی طرف لے جانے والی جو بدعات ہیں یہ بھی انسان کو اصل فرائض سے محروم کر دیتی ہیں۔ اس لئے ایک احمدی کو بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہئے۔ اپنے فرائض، نوافل، تہجد ضروری چیزیں ہیں جن کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے اور جن کی سنت ہمارے سامنے پیش فرمائی۔ اور پھر دعائیں اور ذکر اذکارہیں۔ تب ایک انسان حقیقی مومن بننے کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔ اس معاشرے میں ان بدعات سے بچنے کے لئے ایک احمدی کو جہاد کے رنگ میں کوشش کرنی چاہئے۔
جیساکہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ جدید ترقیات نے بعض برائیوں کو بھی پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اور بغیر سوچے سمجھے بعض لوگ خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی ان باتوں میں ڈال دیتے ہیں جن کا علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کی روح کیا ہے؟ بس دیکھا دیکھی معاشرے کے پیچھے چل کر وہ کام کرنے شروع کر دیتے ہیں۔ اگر اُس دعا کی طرف توجہ ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے کہ بعض باتیں جو لا علمی میں ہو جاتی ہیں ان کے کرنے پر بھی اے اللہ ہمیں تیری بخشش چاہئے تو جب دعا نیک نیتی سے ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش ہوتی ہے تو پھر آئندہ انسان بعض برائیوں سے محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔
بہر حال اس برائی کا جو آج کل مغرب میں ان دنوں میں بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی ہے اور آئندہ چند دنوں میں منائی جانے والی ہے، اُس کا مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ halloween کی ایک رسم ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ احمدی بھی بغیر سوچے سمجھے اپنے بچوں کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں، حالانکہ اگر اس کو گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ عیسائیت میں آئی ہوئی ایک ایسی بدعت ہے جو شرک کے قریب کر دیتی ہے۔ چڑیلیں اور جِنّ اور شیطانی عمل، ان کو تو بائبل نے بھی روکا ہوا ہے۔ لیکن عیسائیت میں یہ راہ پا گئی ہیں کیونکہ عمل نہیں رہا۔ عموماً اس کو funسمجھا جاتا ہے کہ بس جی بچوں کا شوق ہے پورا کر لیا۔ تو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر وہ کام چاہے وہ fun ہی سمجھا جائے جس کی بنیاد شرک یا کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں ہو اس سے احمدیوں کو بچنا چاہئے۔ مجھے اس بات پر توجہ پیدا ہوئی جب ہماری ریسرچ ٹیم کی ایک انچارج نے بتایا کہ ان کی بیٹی نے ان سے کہا کہ halloween پر وہ اور توکچھ نہیں کرے گی لیکن اتنی اجازت دے دیں کہ وہ لباس وغیرہ پہن کر، خاص costume پہن کے ذرا پِھر لے۔ چھوٹی بچی ہے۔ انہوں نے اسے منع کر دیا۔ اور پھرجب ریسرچ کی اور اس کے بارہ میں مزید تحقیق کی تو بعض عجیب قسم کے حقائق سامنے آئے۔ تو مَیں نے انہیں کہا کہ مجھے بھی کچھ (حوالے) دے دیں۔ چنانچہ جو مَیں نے دیکھے ان کا خلاصہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ کیونکہ اکثر بچے بچیاں مجھے سوال کرتے رہتے ہیں۔ خطوط میں پوچھتے رہتے ہیں کہ halloween میں شامل ہونے کا کیا نقصان ہے؟ ہمارے ماں باپ ہمیں شامل نہیں ہونے دیتے۔ جبکہ بعض دوسرے احمدی خاندانوں کے بچے اپنے والدین کی اجازت سے اس میں شامل ہو رہے ہوتے ہیں۔ تو بہر حال ان کو جو کچھ میرے علم میں تھا اس کے مطابق مَیں جواب تو یہی دیتا رہتا تھا کہ یہ ایک غلط اور مکروہ قسم کا کام ہے اور مَیں انہیں روک دیتا تھا۔ لیکن اب جو اس کی تاریخ سامنے آئی ہے تو ضروری ہے کہ احمدی بچے اس سے بچیں۔ عیسائیت میں یا کہہ لیں مغرب میں، یہ رسم یا یہ بدعت ایک آئرش اِزم کی وجہ سے آئی ہے۔ پرانے زمانے کے جو pagan تھے ان میں پرانی بد مذہبی کے زمانے کی رائج ہے۔ اس کی بنیاد شیطانی اور چڑیلوں کے نظریات پر ہے۔ اور مذہب اور گھروں کے تقدس کو یہ سارا نظریہ جو ہے یہ پامال کرتا ہے۔ چاہے جتنا بھی کہیں کہ یہ Fun ہے لیکن بنیاد اس کی غلط ہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ اس میں شرک بھی شامل ہے۔ کیونکہ اس کا بنیادی نظریہ یہ تھا کہ زندوں اور مردوں کے درمیان جو حدود ہیں وہ 31؍اکتوبر کو ختم ہو جاتی ہیں۔ اور مردے زندوں کے لئے اس دن باہر نکل کے خطرناک ہو جاتے ہیں۔ اور زندوں کے لئے مسائل کھڑے کر دیتے ہیں۔ بیماریوں میں مبتلا کر دیتے ہیں اور اسی طرح کی اوٹ پٹانگ باتیں مشہور ہیں۔ اور پھر اس سے بچنے کے لئے جو ان کے نام نہاد جادوگر ہوتے ہیں ان جادوگروں کو بلایا جاتاہے جو جانوروں اور فصلوں کی ان سے لے کر ایک خاص طریقے سے قربانی کرتے ہیں۔ bonfireبھی اسی نظریہ میں شامل ہے تا کہ ان مُردہ روحوں کو ان حرکتوں سے باز رکھا جائے۔ ان مُردوں کوخوفزدہ کر کے یا بعض قربانیاں دے کران کو خوش کر کے باز رکھا جائے۔ اور پھر یہ ہے کہ پھراگر ڈرانا ہے تو اس کے لئے costumeاور خاص قسم کے لباس وغیرہ بنائے گئے ہیں، ماسک وغیرہ پہنے جاتے ہیں۔ بہر حال بعد میں جیسا کہ مَیں نے کہا، جب عیسائیت پھیلی تو انہوں نے بھی اس رسم کو اپنا لیا۔ اور یہ بھی ان کے تہوار کے طور پر اس میں شامل کر لی گئی۔ کیتھولکس خاص طور پر (یہ رسم) زیادہ کرتے ہیں۔ اب یہ رسم عیسائیت کی وجہ سے اور پھر میڈیا کی وجہ سے، آپس کے تعلقات کی وجہ سے تقریباً تمام دنیا میں خاص طورپرمغرب میں، امریکہ میں، کینیڈامیں، یہاں UK میں، جاپان میں، نیوزی لینڈ میں، آسٹریلیاوغیرہ میں، یورپ کے بعض ملکوں میں پھیل چکی ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ چھُپی ہوئی برائی ہے۔ جسے مغرب میں رہنے والے مسلمان بھی اختیار کر رہے ہیں۔ بچے مختلف لباس پہن کر گھر گھر جاتے ہیں۔ گھر والوں سے کچھ وصول کیا جاتا ہے تا کہ روحوں کو سکون پہنچایا جائے۔ گھر والے اگر ان مختلف قسم کے لباس پہنے ہوئے بچوں کو کچھ دے دیں تو مطلب یہ ہے کہ اب مردے اس گھر کو کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ یہ ایک شرک ہے۔ بے شک آپ یہی کہیں کہ funہے، ایک تفریح ہے لیکن جو پیچھے نظریات ہیں وہ مشرکانہ ہیں۔ اور پھر یہ کہ ویسے بھی یہ ایک احمدی بچے کے وقار کے خلاف بات ہے کہ عجیب و غریب قسم کا حلیہ بنایا جائے۔ اور پھر گھروں میں فقیروں کی طرح مانگتے پھریں۔ چاہے وہ یہی کہیں کہ ہم مانگنے جا رہے تھے یا چاکلیٹ لینے جا رہے تھے لیکن یہ مانگنا بھی غلط ہے۔ احمدی کا ایک وقار ہونا چاہئے اور اس وقار کو ہمیں بچپن سے ہی ذہنوں میں قائم کرنا چاہئے۔ اور پھر یہ چیزیں جو ہیں مذہب سے بھی دور لے جاتی ہیں۔ بہر حال جب یہ منایا جاتا ہے تو پیغام اس میں یہ ہے کہ چڑیلوں کا وجود، بدروحوں کا وجود، شیطان کی پوجا، مافوق الفطرت چیزوں پر عارضی طور پر جو یقین ہے وہ funکے لئے کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انتہائی غلط نظریہ ہے۔ پس یہ سب شیطانی چیزیں ہیں۔ اس سے ہمارے بچوں کو نہ صرف پرہیز کرنا چاہئے بلکہ سختی سے بچنا چاہئے۔ ماضی قریب تک دیہاتوں کے رہنے والے جو لوگ تھے وہ بچوں کو جو اس طرح ان کے دروازے پر مانگنے جایا کرتے تھے اس خیال سے بھی کچھ دے دیتے تھے کہ مُردہ روحیں ہمیں نقصان نہ پہنچائیں۔ بہر حال چونکہ بچے اور ان کے بعض بڑے بھی بچوں کی طرف سے پوچھتے رہتے ہیں۔ اس لئے مَیں بتا رہا ہوں کہ یہ ایک بد رسم ہے اور ایسی رسم ہے جو شرک کی طرف لے جانے والی ہے۔ پھر اس کی وجہ سے بچوں میں funکے نام پر، تفریح کے نام پر غلط حرکتیں کرنے کی جرأت پیدا ہوتی ہے۔ ماں باپ ہمسایوں سے بداخلاقی سے پیش آتے ہیں۔ ماں باپ سے بھی اور ہمسایوں سے بھی اور اپنے ماحول سے بھی، اپنے بڑوں سے بھی بداخلاقی سے پیش آنے کا رجحان بھی اس وجہ سے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک سروے ہے۔ حتی کہ دوسرے جرائم بھی اس لئے بڑھ رہے ہیں۔ اس قسم کی حرکتوں سے ان میں جرأت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ مغرب میں ہر برائی کو بچوں کے حقوق اور funکے نام پر تحفظات مل جاتے ہیں، اجازت مل جاتی ہے اور مل رہی ہے لیکن اب خود ہی یہ لوگ اس کے خلاف آوازیں بھی اٹھانے لگ گئے ہیں۔ کیونکہ اس سے اخلاق برباد ہو رہے ہیں۔ پھر halloween کے خلاف کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سے بچوں میں تفریح کے نام پر دوسروں کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی برائی جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ بڑھ رہی ہے اور جرائم بھی اس وجہ سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک تو فلموں نے غلط تربیت کی ہے۔ پھر اگر عملی طور پر ایسی حرکتیں کرنے لگ جائیں اور ان کو تفریح کے نام پر بڑے encourage کرنا شروع کر دیں تو پورے معاشرے میں پھربگاڑ ہی پیدا ہو گا اور کیا ہو سکتا ہے؟ اور پھر ہمارے لئے سب سے بڑی بات جیسا کہ مَیں نے کہا مُردوں کو خدا کے مقابل پر کھڑا کر کے ان کے کسی بھی غلط عمل سے محفوظ کرنے کا شیطانی طریق اختیار کیا گیا ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل پر کھڑا کر کے ایک شرک قائم کیا جا رہا ہے یا بچوں کوتحفے تحائف دے کے ان کی روحوں کو خوش کیا جا رہا ہے۔ یا جادوگروں کے ذریعہ سے جادوکر کے ڈرایا جا رہا ہے۔ بہر حال یہ نہایت لغو اور بیہودہ تصور ہے۔
ایک مصنف ہیں ڈاکٹر گریس کیٹر مین، ایم ڈی، وہ اپنی کتاب You and your child’s problemsمیں لکھتے ہیں کہ:
A tragic, by-product of fear in the lives of children as early as preadolescence is the interest and involvement in super natural occult phenomena
یعنی بچوں کی زندگی میں جوانی میں قدم رکھنے سے پہلے، اس عمر سے پہلے یا اس دوران میں خوف کی انتہائی مایوس کن حالت جو لا شعوری طورپر پیدا ہو رہی ہے وہ مافوق الفطرت چیزوں میں دلچسپی اور ملوث ہونے کی وجہ سے ہے۔
اب halloween کی وجہ سے جو بعض باتیں پیدا ہو رہی ہیں ان میں یہ باتیں صرف یہاں تک نہیں رکتیں کہ costumeپہنے اور گھروں میں مانگنے چلے گئے بلکہ بعض بڑے بچے پھر زبردستی گھرو الوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اور دوسری باتوں میں، جرموں میں بھی ملوث ہو جاتے ہیں۔ اور نَتِیْجَۃً پھر جہاں وہ معاشرے کو، ماحول کو ڈسٹرب کر رہے ہوتے ہیں اور نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں وہاں ماں باپ کے لئے بھی دردِ سر بن جاتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کر لیتے ہیں۔ اس لئے مَیں پھر احمدیوں سے کہتا ہوں کہ ان باتوں سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے۔ احمدی بچوں اور بڑوں کا کام ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھائیں۔ جو ہمارا مقصد ہے اس کو پہچانیں۔ وہ باتیں کریں جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ مغربی معاشرے کا اثر اتنا اپنے اوپر نہ طاری کریں کہ بُرے بھلے کی تمیز ختم ہو جائے۔ خدا تعالیٰ سے تعلق اور اس کی ذات کی بڑائی کو بھی بھول جائیں۔ اور مخفی شر ک میں مبتلا ہو جائیں اور اس کی وجہ سے پھر ظاہری شرک بھی ہونے لگ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان خدا کی پرستش کا دعویٰ کرتا ہے مگر کیا پرستش صرف بہت سے سجدوں اور رکوع اور قیام سے ہو سکتی ہے؟ یا بہت مرتبہ تسبیح کے دانے پھیرنے والے پرستارِ الٰہی کہلا سکتے ہیں؟ بلکہ پرستش اس سے ہو سکتی ہے جس کو خدا کی محبت اس درجہ پر اپنی طرف کھینچے کہ اس کا اپنا وجود درمیان سے اٹھ جائے۔ اوّل خدا کی ہستی پر پورا یقین ہو اور پھر خدا کے حسن و احسان پر پوری اطلاع ہو اور پھر اس سے محبت کا تعلق ایسا ہو کہ سوزشِ محبت ہر وقت سینہ میں موجود ہو اور یہ حالت ہر ایک دم چہرہ پر ظاہر ہو۔ اور خدا کی عظمت دل میں ایسی ہو کہ تمام دنیا اس کی ہستی کے آگے مُردہ متصور ہو اور ہر ایک خوف اسی کی ذات سے وابستہ ہو۔ اور اسی کی درد میں لذت ہو۔ اور اسی کی خلوت میں راحت ہو۔ ا ور اس کے بغیر دل کو کسی کے ساتھ قرار نہ ہو۔ اگر ایسی حالت ہو جائے تو اس کا نام پرستش ہے۔ مگر یہ حالت بجز خدا تعالیٰ کی خاص مدد کے کیونکر پیدا ہو۔ اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن (الفاتحہ: 5) یعنی ہم تیری پرستش تو کرتے ہیں مگر کہاں حقِّ پرستش ادا کر سکتے ہیں جب تک تیری طرف سے خاص مددنہ ہو۔ خدا کو اپنا حقیقی محبوب قرار دے کر اس کی پرستش کرنا یہی ولایت ہے جس سے آگے کوئی درجہ نہیں۔ مگر یہ درجہ بغیر اس کی مدد کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس کے حاصل ہونے کی یہ نشانی ہے کہ خدا کی عظمت دل میں بیٹھ جائے۔ خدا کی محبت دل میں بیٹھ جائے اور دل اسی پر توکل کرے اور اسی کو پسند کرے اور ہر ایک چیز پر اسی کو اختیار کرے۔ اور اپنی زندگی کا مقصد اسی کی یاد کو سمجھے۔ اور اگر ابراہیم کی طرح اپنے ہاتھ سے اپنی عزیز اولاد کے ذبح کرنے کا حکم ہو یا اپنے تئیں آگ میں ڈالنے کے لئے اشارہ ہو تو ایسے سخت احکام کو بھی محبت کے جوش سے بجا لائے اور رضاجوئی اپنے آقائے کریم میں اس حد تک کوشش کرے کہ اس کی اطاعت میں کوئی کَسر باقی نہ رہے۔ یہ بہت تنگ دروازہ ہے اور یہ شربت بہت ہی تلخ شربت ہے۔ تھوڑے لوگ ہیں جو اس دروازہ میں سے داخل ہوتے اور اس شربت کو پیتے ہیں۔ زنا سے بچنا کوئی بڑی بات نہیں اور کسی کو ناحق قتل نہ کرنا بڑا کام نہیں اور جھوٹی گواہی نہ دینا کوئی بڑا ہنر نہیں مگر ہر ایک چیز پر خدا کو اختیار کر لینا اور اس کے لئے سچی محبت اور سچے جوش سے دنیا کی تمام تلخیوں کو اختیار کرنا بلکہ اپنے ہاتھ سے تلخیاں پیدا کر لینا یہ وہ مرتبہ ہے کہ بجز صدیقوں کے کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہی وہ عبادت ہے جس کے ادا کرنے کے لئے انسان مامور ہے اور جو شخص یہ عبادت بجا لاتا ہے تب تو اس کے اس فعل پر خدا کی طرف سے بھی ایک فعل مترتب ہوتا ہے جس کا نام انعام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی یہ دعا سکھلاتا ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ: 7-6) یعنی اے ہمارے خدا! ہمیں اپنی سیدھی راہ دکھلا، ان لوگوں کی راہ جن پر تُو نے انعام کیا ہے اور اپنی خاص عنایات سے مخصوص فرمایا ہے۔ حضرتِ احدیت میں یہ قاعدہ ہے کہ جب خدمت مقبول ہو جاتی ہے تو اس پر ضرور کوئی انعام مترتب ہوتا ہے۔ چنانچہ خوارق اور نشان جن کی دوسرے لوگ نظیر پیش نہیں کر سکتے یہ بھی خدا تعالیٰ کے انعام ہیں جو خاص بندوں پر ہوتے ہیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 55-54)
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان کردہ ان توقعات پر جو انہوں نے ہم سے رکھی ہیں پورا اترنے والے ہوں، اس پر کوشش کرنے والے ہوں، اپنی سی کوشش کرتے رہیں اور ہم کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ فضل ہی فرمائے گا۔ اللہ کرے۔