خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ نومبر 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (البقرۃ: 154)
اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ سے صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد مانگتے رہو۔ یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
الٰہی جماعتوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قرآنِ کریم نے جوحکم فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف مستقل مزاجی سے ہر وقت جھکے رہنا ہے۔ یہ صبر اور دعا ہے جو مومنین کو کامیابیاں بخشتی ہے۔ یہ اصول اسلام سے پہلے کے تمام مذاہب نے دیا تھا، ، تمام انبیاء نے بھی بتایا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی سبق ہمیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ تعلیم دی جس کو آپ نے پھیلایا۔ ہم مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ تمہاری کامیابیاں صبر اور دعا سے ہی حاصل ہونی ہیں۔ اس کے بغیر، اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں جس سے تم اپنے مقصد کا حصول کر سکو۔ قرآنِ کریم میں مختلف آیات میں صبر کے حوالے سے جو توجہ دلائی گئی ہے یا تلقین کی گئی ہے، اس کے مطابق صبر کی تعریف یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جو تکالیف آئیں یا جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑے تو کسی قسم کا شکوہ زبان پر نہ لاؤ۔ تاریخِ انبیاء سے ثابت ہے کہ خود انبیاء اور ان کے ماننے والوں کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور کرنا پڑتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون خدا تعالیٰ کا پیارا ہو سکتا ہے۔ لیکن آپؐ کو اور آپؐ کے ماننے والوں کو جن تکالیف سے گزرنا پڑا وہ ظاہر و باہر ہیں۔ لیکن آپؐ نے اپنے صحابہ کی ایسے رنگ میں تربیت فرمائی تھی کہ شکوہ تو دُور کی بات ہے اُن پر جب کبھی تکالیف آئیں یا جنگیں ٹھونسی گئیں یا کسی بھی قسم کے ظلم کئے گئے تو صبر اور دعا کے ہتھیار ہوتے تھے جو انہوں نے استعمال کئے۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب لمبا عرصہ تکلیفوں اور سختیوں کی زندگی سے گزرنا پڑے تو ایک انسان ہونے کی وجہ سے اس تکلیف کے دور سے جب انسان گزرتا ہے تو وہ پریشان بھی ہوتا ہے کہ کب وہ زمانہ آئے گا جب ہمیں ان تکلیفوں اور سختیوں سے نجات ملے گی۔ کب ہم فتحیاب ہوں گے۔ کب ہمارا دشمن خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آئے گا؟ اللہ تعالیٰ مومنوں کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ یاد رکھو خدا تعالیٰ تم صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ کو قائم رکھنے کے لئے صبر اور دعائیں کرو۔ اللہ تعالیٰ کا ساتھ توایسا ساتھ ہے جو نہ صرف اس دنیا کا ساتھ ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی ساتھ ہے۔ ایک مومن مرنے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بنتا ہے۔ دنیا اور آخرت کے اس ساتھ کے لئے تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے، مستقل مزاجی سے اس سے تعلق جوڑتے ہوئے اور دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے چلے جاؤ۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنا اور مانگنا کس طریقے سے؟ یہ ہمارا کام ہے۔ تکالیف آئیں تو ان کو برداشت کرو۔ ان سے پریشان نہ ہو۔ ان کی وجہ سے کسی قسم کا ابہام یا شبہ تمہارے دلوں میں پیدا نہ ہو۔ مستقل مزاجی کے ساتھ اور لگاتار اس سے تعلق جوڑے رکھو۔ یہ نہیں کہ آج دعاؤں پر زیادہ زور دے دیا۔ آج نمازیں پڑھ لیں۔ اگلے دن نمازوں کی طرف توجہ نہ ہوئی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہمیشہ ایک مومن کے دل میں رہنی چاہئے۔ پس جب یہ چیز ہوگی، اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو گا اور مومن دعاؤں سے اس سے مانگ رہا ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل بھی فرماتا ہے۔ صبر کے یہ معنی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ عمل کرنے کی مستقل کوشش کرتے چلے جانا۔ اور جیسے بھی حالات ہوں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے چلے جانا۔ پس جس شخص کو اس کی بھوک، اس کا ننگ، اس کی تکالیف اور کسی بھی قسم کا لالچ جو اسے دیا جاتا ہے، اس بات پر مجبور نہ کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا سے ہٹ کر کوئی کام کرے تو یہ اعلیٰ درجے کا صبر ہے۔ اور پھر ہر قسم کے حالات میں نیکیاں بجا لانے کی کوشش کرنا، نیکیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنا، اس کے لئے تکالیف میں سے گزرنا پڑے تو گزرنا، یہ بھی صبر کی ایک قسم ہے۔ پس جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی مشکلات سے گزر کر اور کسی بھی قسم کا لالچ دلانے کے باوجود گناہوں سے بچا اور نیکیوں پر قائم رہا وہ حقیقی صابر ہے۔ اور پھر یہ کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ مشکلات اور تکلیفوں کے لمبے دور سے گزرنے کے باوجود خدا تعالیٰ پر کوئی شکوہ نہیں، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پر کوئی شکوہ نہیں۔ جو ایسے عمل کرنے والے ہیں، اس طرح اظہار کرنے والے ہیں وہ پھر حقیقی صابر کہلاتے ہیں۔
آج کل بعض لوگوں نے احمدیوں کو اپنے ایمان سے ہٹانے کی یہ کوشش بھی شروع کی ہوئی ہے جس کا پہلے بھی مَیں ایک دفعہ مختصراً ذکر کر چکا ہوں کہ وہ کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت یا جماعت تم میں یہ خوش فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ صبر کرو، صبر کرو اور تکالیف کا دور گزر جائے گا۔ بعض جگہوں پر بعض پمفلٹ بھی تقسیم ہوئے ہیں یا اور ذریعوں سے بہکایا جاتا ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں کہ سو سال سے زائد کا عرصہ تو گزر گیا ہے، یہ تکلیف کا دور تو ابھی ختم نہیں ہوا اور چلتا چلا جا رہا ہے، کب گزرے گا یہ دور؟ گویا کہ احمدیوں کے جذبات کو انگیخت کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ ان کے خیال میں احمدی بہت کمزور ایمان ہیں اس طرح شاید ہمارے دام میں آجائیں۔ ہمدردی کا لبادہ اوڑھ کر ان کو ورغلایا جائے۔ مثالیں بھی دیتے ہیں کہ کون سا نبی ہے جس کو اتنا لمبا عرصہ تکلیفوں میں سے گزرنا پڑا یا جس کی جماعت کو اتنا لمبا عرصہ تکلیفوں میں سے گزرنا پڑا۔ مثالیں تو ہر نبی کی موجود ہیں۔ اگر انہوں نے قرآنِ کریم پڑھا ہو، تاریخ کاکچھ علم ہو تو یہ مثالیں مل جاتی ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کے ماننے والوں کی مثال لے لیں۔ تین سو سال سے زائد عرصے تک ان کو اپنی زندگیاں بعض علاقوں میں غاروں میں چھپ کر ہی گزارنی پڑیں۔ بہر حال یہ مخالفین کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر قسم کے شیطانی حربے سے مومنوں کو ان کے ایمان سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے لوگ اِکاّ دُکاّورغلا بھی لیتے ہیں لیکن مومنین کی اکثریت اپنے ایمان پر قائم رہتی ہے۔ کسی قسم کا لالچ، کسی قسم کی تکلیف انہیں ایمان سے نہیں ہٹا سکتی اور پھر یہی نہیں بلکہ ان تکالیف پر انہیں نہ ہی نبی سے، نہ خدا سے کوئی شکوہ ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ صبر کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے مومنین ہیں۔ وہ صبر و استقامت کی اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہیں۔ بعض دفعہ جیسا کہ مَیں نے کہا انسان ہے، بشر ہے، اس کے ناطے پریشانی ہوتی ہے، اور ہر زمانے میں ہر نبی کے ماننے والے بعض دفعہ اس کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔
مکّہ کی زندگی میں ہجرت سے پہلے باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اپنی جان کی قربانیاں بھی پیش کیں۔ ہر قسم کی سزائیں لیں۔ تکالیف برداشت کیں۔ اور ان کو برداشت کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سوال کر دیا۔ اس لئے نہیں کہ ان کے ایمان کمزور تھے۔ ایمان کے وہ لوگ بڑے مضبوط تھے۔ اپنی پریشانی اور تکلیف کا اظہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیا کہ ہم کب تک یہ برداشت کریں گے؟ اور یہ بھی بعیدنہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کو دیکھ کر یہ کہا ہو کہ کب تک آپؐ یہ تکلیفیں برداشت کرتے جائیں گے؟ جب آپ سے سوال کیا گیا تو حضرت خباب بن الأرت بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تکالیف کا ذکر کیا۔ آپ ؐ کعبہ کے سائے میں چادر کو سرہانہ بنائے لیٹے ہوئے تھے۔ ہم نے عرض کی کہ کیا آپ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ سے مددنہیں مانگتے اور دعا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ سختی کے یہ دن ختم کر دے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا: تم سے پہلے ایسا انسان بھی گزرا ہے جس کے لئے مذہبی دشمنی کی وجہ سے گڑھا کھودا جاتا اور اس میں اسے گاڑ دیا جاتا۔ پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اسے دو ٹکڑے کر دیا جاتا۔ لیکن وہ اپنے دین اور عقیدے سے نہ پھرتا۔ اور بعض اوقات لوہے کی کنگھی سے مومن کا گوشت نوچ لیا جاتا۔ ہڈیاں اور پٹھے ننگے کر دئیے جاتے۔ لیکن یہ ظلم اس کو اپنے دین سے نہ ہٹاتا۔ (صحیح بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃفی الاسلام حدیث نمبر 3612) یہ مثال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے سامنے بیان فرمائی۔
پس آپؐ نے ایک اصولی بات الٰہی جماعتوں کے متعلق ان ابتدائی صحابہ کو بھی سمجھا دی کہ یہ تکالیف آتی ہیں اور آئیں گی۔ مخالفین کی طرف سے ظلموں کی انتہا بھی ہوتی ہے۔ لیکن یہ ظلموں کی انتہا ان کو ان کے دین سے نہیں پھیرتی۔ بلکہ صبر سے وہ ہر چیز برداشت کرتے چلے جاتے ہیں۔ پس اگر صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے رہو گے تو تم نہ صرف اپنے پر ہونے والے ظلموں سے نجات پاؤ گے بلکہ ان پر فتح بھی حاصل کرو گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی ایک شخص نے دعا کی درخواست کی اور بڑی پریشانی کا اظہار کیا کہ ایک مولوی جو ان کے گاؤں میں ایک سکول میں مدرس ہے اسے بڑی تکلیف دیتا ہے۔ دعا کریں کہ اس کا وہاں سے تبادلہ ہو جائے۔ اس پر یہ بات سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسکرائے اور پھر فرمایا کہ:
’’اس جماعت میں جب داخل ہوئے ہو تو اُس کی تعلیم پر عمل کرو۔ اگر تکالیف نہ پہنچیں تو پھر ثواب کیونکر ہو۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں تیرہ (13) برس تک دکھ اٹھائے۔ تم لوگوں کو اس زمانے کی تکالیف کی خبر نہیں اور نہ وہ تم کو پہنچیں ہیں۔ مگر آپؐ نے صحابہ ؓ کو صبر ہی کی تعلیم دی‘‘۔ فرمایا کہ ’’آخر کار سب دشمن فنا ہو گئے۔ ایک زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے‘‘۔ اور فرمایا کہ ’’اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے۔ اب اس وقت یہ لوگ تمہیں تھوڑے دیکھ کر دکھ دیتے ہیں مگر جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ سب خود ہی چپ ہو جائیں گے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا تو یہ لوگ دکھ نہ دیتے اور دکھ دینے والے پیدا نہ ہوتے مگر خدا تعالیٰ اُن کے ذریعہ سے صبر کی تعلیم دینا چاہتا ہے۔ تھوڑی مدت صبر کے بعد دیکھو گے کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ جو شخص دکھ دیتا ہے یا تو توبہ کر لیتا ہے یا فنا ہو جاتا ہے۔ کئی خط اس طرح کے آتے ہیں کہ ہم گالیاں دیتے تھے اور ثواب جانتے تھے لیکن اب توبہ کرتے ہیں اور بیعت کرتے ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’صبر بھی ایک عبادت ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر والوں کو وہ بدلے ملیں گے جن کا کوئی حساب نہیں ہے۔ یعنی اُن پر بے حساب انعام ہوں گے۔ یہ اجر صرف صابروں کے واسطے ہے۔ دوسری عبادت کے واسطے اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں ہے۔ جب ایک شخص ایک کی حمایت میں زندگی بسر کرتا ہے تو جب اسے دکھ پر دکھ پہنچتا ہے تو آخر حمایت کرنے والے کو غیرت آتی ہے اور وہ دکھ دینے والے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہماری جماعت خدا تعالیٰ کی حمایت میں ہے اور دکھ اٹھانے سے ایمان قوی ہوجاتا ہے۔ صبر جیسی کوئی شیئے نہیں ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 544-543۔ جدید ایڈیشن)
اور یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے 1902ء میں اس شخص کے سوال پر فرمائی۔ اور اتفاق سے جب مَیں حوالے تلاش کر رہا تھا، تو وہ مہینہ بھی نومبر 1902ء کا مہینہ تھا۔ ایک سو آٹھ سال پہلے آپ نے یہ بات فرمائی۔ بہر حال اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی سچائی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر کامل یقین کا اظہار کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اس یقین کا اظہار ہے کہ مَیں یقینا خدا تعالیٰ کا فرستادہ ہوں اور اس کی مدد آئے گی اور یقینا آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کی تمام تر تسلیوں اور پیش خبریوں کا نتیجہ تھا کہ آپ نے اس وثوق اور یقین سے یہ بات فرمائی۔ گویا یہ بھی ایک پیشگوئی تھی۔ اور آج ہم یہ امر روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوتا دیکھ رہے ہیں جو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس پاک جماعت کو دنیا میں پھیلائے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جماعت دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ یہ لوگ ایک کوشش کرتے ہیں۔ احمدیوں پر زیادتیاں کرنے والے، ظلم کرنے والے تکلیفیں دینے کی کوشش کرتے ہیں، ظلم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً پاکستان میں سکولوں اور کالجوں میں ہمارے احمدی بچوں کو، بچیوں کو تنگ کیا جاتا ہے۔ وہاں سے نکالنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کاروبار کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جان سے مارنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں کئی احمدی جو ہیں وہ شہید ہوئے۔ لیکن ان سب کوششوں کے باوجود جماعت دنیا میں پھیل رہی ہے۔ نہ صرف یہ مثلاً اگر طلباء کے ساتھ پاکستان میں ظلم ہو رہا ہے تو پاکستان سے باہر آ کر بہت سے طلباء نے تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی اور نہ صرف اس میں کامیابیاں حاصل کیں بلکہ جماعت کی تعلیم کے پھیلانے کا ذریعہ بھی بنے۔ کاروبار والوں سے زیادتی کی تو یہ احمدی اپنے کاروبار باہر کی دنیا میں پھیلانے لگ گئے۔ اور نہ صرف ان کے کاروبار پھیلے بلکہ احمدیت بھی متعارف ہوئی۔ پھر شہادتیں ہیں، شہادتوں کی وجہ سے بعض احمدیوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ ان کے خاندانوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ اور اس کی وجہ سے بھی جماعت دنیا میں پھیل رہی ہے۔ بلکہ جماعت کا پھیلنا تو الٰہی تقدیر ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے۔ احمدیوں پر مظالم کی وجہ سے جماعت زیادہ تیزی سے دنیا میں پھیل رہی ہے۔ اور یہ مظالم جو ہیں جماعت کے پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ جماعت دنیا میں اس طرح متعارف ہو رہی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔ باہر کی دنیا میں، یعنی پاکستان سے باہر کی دنیا میں بیعتوں کی تعداد ہر روز بڑھ رہی ہے۔ پس جب یہ عمل شروع ہے اور جماعت پھیل رہی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی اور خدا تعالیٰ کے وعدے بڑی شان سے پورے ہو رہے ہیں تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی یہ پیشگوئی بھی پوری ہوجائے گی کہ جب یہ جماعت کثیر ہو جائے گی تو یہ خود ہی چُپ ہو جائیں گے۔ یہ بھی آپ کے الفاظ کے ساتھ ہے۔ پس ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ قلت کو کثرت میں بدلنے کے لئے بھر پور کوشش کریں۔ ہماری کوشش کیا ہونی ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ثواب میں حصہ دار بنانے کے لئے یہ فرماتا ہے کہ تبلیغ کرو، پیغام پہنچاؤ۔ ورنہ جس طرح جماعت کے پھیلنے کی رفتار ہے اور جو نتائج ظاہر ہو رہے ہیں وہ کسی انسان کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خط آتے ہیں کہ ہم توبہ کرتے ہیں اور جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ وہی مخالفین جو پہلے دشمنیاں کرتے تھے اب خط لکھنے لگ گئے ہیں کہ ہم توبہ کر کے جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح آج تک یہ سلسلہ قائم ہے بلکہ مخالف علماء اور پادریوں تک میں یہ حرکت پیدا ہو رہی ہے کہ احمدیت کی سچائی ان کے دلوں میں گھر کر رہی ہے۔ اور انہوں نے، پادریوں تک نے بیعت کا اظہارکرنا شروع کر دیا ہے۔ پس یہ انقلاب اللہ تعالیٰ دلوں میں پیدا کر رہا ہے۔ پس اگر ہم صبر اور دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگتے رہے، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکے رہے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم یہ انقلاب دیکھیں گے کہ جو قلت ہے وہ کثرت میں بدل جائے گی۔ یہ اعتراض کرنے والے اگر زندہ ہوئے تو یہ بھی دیکھیں گے ورنہ ان کے بچے دیکھیں گے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تم دیکھو گے۔ پس وہ زمانہ قریب ہے کہ تم دیکھو گے کہ یہ شریر لوگ بھی نظر نہ آئیں گے۔ اُس وقت تو یہ شریر خود بخود مٹ جائیں گے۔
پس اللہ تعالیٰ فتوحات ان کو دیتا ہے جن کے ایمانوں میں پختگی ہو۔ جن کے صبر کا معیار اعلیٰ ہو۔ جن کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقینِ کامل ہو۔ یہ دُکھ اور عارضی تکلیفیں ایمانوں میں جِلا پیدا کر رہی ہوں۔ ان کو پتہ ہو کہ یہ تو ہمارے لئے کھاد کا کام دینے کے لئے ہیں۔ پس ہمارا کام ہے کہ عارضی ابتلاؤں اور مشکلات سے صبر و استقامت دکھاتے ہوئے گزرتے چلے جائیں۔ اپنی دعاؤں میں پہلے سے بڑھ کر توجہ کریں۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کون لوگ ہیں جو صبر اور دعا سے کام لیتے ہیں۔ فرماتا ہے وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ (البقرۃ: 46) اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو۔ اور یقینا یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق میں وہی لوگ آگے بڑھ سکتے ہیں، صبر انہی لوگوں میں پیدا ہوتا ہے جو عاجزی دکھاتے ہیں۔ کبھی متکبر آدمی صبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتا۔ کبھی متکبر آدمی اللہ تعالیٰ کے حضور اس طرح نہیں جھکتا جو اس کے حضور جھکنے کا حق ہے۔ اور جب یہ نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی حمایت سے بھی محروم رہ جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ’تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں‘۔ تو وہیں یہ اعلان تھا کہ جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ آپ کو کھڑا کرنے لگا ہے اُس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاء اللہ تعالیٰ کامیابیاں آپ کے قدم چومیں گی۔ اللہ تعالیٰ جو کام آپ سے لینے لگا ہے اس میں اللہ تعالیٰ اس قدر برکت ڈالنے والا ہے کہ تمام تر مخالفتوں اور دشمنیوں کے باوجود انجامکار آپ کے مشن نے کامیاب ہونا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو رہا ہے۔ پس ہم احمدیوں کو تو ذرّہ بھر بھی اس میں شک نہیں کہ احمدیت کی مخالفت احمدیت کے راستے میں روک نہیں ڈال سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حمایت کے مختلف جگہوں پر قرآنِ کریم میں اعلانات ہیں۔ ا للہ تعالیٰ نے ہمیں مختلف جگہوں پر یہ بتایا ہے کہ میں اپنے بندوں کی، اپنی جماعت کی جس کو میں کھڑا کروں اُس کی حمایت کرتا ہوں۔ اور یہ باتیں ہمیں اس بات پر پختہ کرتی چلی جاتی ہیں کہ احمدیت کا غلبہ انشاء اللہ ہو گا۔ ایک مؤمن کی زندگی بھی خدا کی رضا کے حصول کے لئے ہے۔ اور مرنے کے بعد کی بھی جو زندگی ہے اُس کو بھی یہی یقین قائم کرتا ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی خاطرجو تکالیف اور مشکلات ہیں یہ ہنستے کھیلتے برداشت کر لو گے تو آخری زندگی میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بن جاؤ گے۔ یقینا یہ مشکلات اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ سے ملانے کا باعث بنیں گی۔ اللہ تعالیٰ عاجزی کرنے والوں کے بارے میں مزید تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ(البقرۃ: 47) یعنی کہ عاجزی دکھانے والے اور صبر اور استقامت دکھانے والے اور دعا کرنے والے یہ وہ لوگ ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ گویا اس آیت اور پہلی آیت کا مضمون یہ بنا کہ صبر اور استقامت دکھانے والے اور خدا تعالیٰ سے اپنے معاملات میں مدد مانگنے والے، خوشی اور غمی میں اس واحد و یگانہ کی طرف جھکنے والے وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ عاجزی دکھاتے ہیں۔ اور اس عاجزی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث ٹھہرتے ہیں۔ کسی قسم کے تکبّر کی بُو ان میں نہیں آتی۔ اس دنیا کی زندگی میں بھی اُخروی زندگی کے حصول کے لئے وہ کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یعنی ایک مومن دنیا داروں کی طرف سے کھڑے کئے ہوئے مصائب اور مشکلات سے بچنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور عاجزی سے جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلب گار ہوتا ہے۔ اس کا صبر، اس کی دعائیں انہیں پھرعاجزی میں مزید بڑھاتی ہیں تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کا وارث بنتا چلا جائے۔ ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آتی۔ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اس زمانے میں دین کے لئے جنگ منع ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر یہ اعلان فرمایا تو اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں لیکن اپنے صبر و استقلال اور خدا تعالیٰ سے تعلق پر حرف نہیں آنے دیتے۔ کیونکہ ان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے۔ اس لئے اس کے احکام پر عمل ضروری ہے۔ اللہ کی جو خواہش ہے اور اس کے بھیجے ہوئے فرستادے نے جوہمیں بتایا ہے اُس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ہم جان تو دے سکتے ہیں لیکن اُن حکموں سے سرِ مُو ہٹ نہیں سکتے۔ پس یہاں اُن نام نہاد جہادی تنظیموں اور شدت پسندوں کو بھی پیغام ہے جو اپنے زعم میں اسلام کا نظام رائج کرنے کے لئے دہشت گردی اور خُود کُش حملے کر کے دنیا کا سکون برباد کر رہے ہیں، معصوموں کو قتل کر رہے ہیں کہ تمہارے یہ عمل اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا دعویٰ ہے تو معصوم جانوں کو ختم کرنے کے بعد فخر سے یہ اعلان نہ کرو کہ ہمارا کام ہے جو ہم نے کیا ہے۔ بلکہ کوشش یہ ہو کہ ہم نے عاجزی اختیار کرتے رہنا ہے اور صبر اور دعا کا دامن ہاتھ میں پکڑنا ہے۔ اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے ملکی قانون کو اپنے تابع نہیں کرنا یا اس کے لئے کوشش نہیں کرنی۔ یہ تو متکبر لوگوں کی نشانی ہے اور متکبّروں کی اللہ تعالیٰ کبھی اعانت اور مددنہیں فرماتا۔ آج یہ اعزاز، یہ سوچ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک احمدی کی ہے اور ایک احمدی کو ہی حاصل ہے کہ عاجز بنتے ہوئے خدا تعالیٰ کی مدد کی تلاش میں رہتا ہے۔ عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا ہے۔ عاجزانہ راہیں اختیار کرتے ہوئے نیکیوں میں قدم آگے بڑھاتا ہے۔ اور بَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ اور اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْن کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی مشکلات میں سے گزرتا چلا جاتا ہے۔ بلکہ جان تک کا نذرانہ پیش کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ انہیں لوگوں کو خدا تعالیٰ نے یہ خوشخبری بھی دی ہے کہ اُوْلٰٓـئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ (البقرۃ: 158)کہ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے ربّ کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت بھی ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔ پس ہمیں کوئی جو چاہے کہے یا کہتا چلا جائے کہ اتنے لمبے عرصے کے جو ابتلا ہیں یہ تمہیں جھوٹا ثابت کر رہے ہیں۔ ہمیں اس کی ذرّہ بھر بھی پرواہ نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ خدا تعالیٰ ہمارے ان ابتلاؤں پر صبر کی وجہ سے ہم پر برکتیں نازل فرما رہا ہے جن کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور ہم ہی ہیں جنہیں ہدایت یافتہ ہونے کی سند بھی اللہ تعالیٰ عطا فرما رہا ہے۔ پس ہمارا کام ہے کہ جو بھی ہم پر گزر جائے کبھی صبر اور دعا کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا، کبھی اس کو نہیں چھوڑنا تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ہم وارث بنتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اس کے بعد اب مَیں ایک شہید کا ذکرِ خیر کروں گا جن کو گزشتہ دنوں میں مردان میں شہید کر دیا گیا۔ یہ مکرم شیخ محمود احمد صاحب ابن مکرم نذیر احمد صاحب ہیں۔ آٹھ نومبر سوموار کے دن تقریباً رات کو پونے آٹھ بجے یہ اور ان کا بیٹا عارف محمود اپنی دکان سے گھر واپس آ رہے تھے۔ گھر کے قریب پہنچے ہیں تو نا معلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ بیٹا موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور شیخ صاحب پیچھے بیٹھے تھے۔ فائرنگ کرنے والوں نے پیچھے سے فائر کیا تھا۔ اس کے بعد فرار ہو گئے۔ تین فائر شیخ محمود احمد صاحب کو لگے اور ایک فائر ان کے بیٹے عارف محمود کو لگا۔ فائرنگ کے نتیجے میں شیخ صاحب موقع پر وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بیٹا زخمی ہے ہسپتال میں داخل ہے۔ اٹھائیس سال اس کی عمر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ بیٹے نے بھی بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے جب ربوہ سے بات کی گئی تو اس نے کہا فکر نہ کریں۔ یہ گولیاں اور یہ زخمی کرنا ہمارے ایمانوں کو نہیں ہلا سکتا۔ اس کی مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ زخمی ہوا ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ ہم اسی طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور کوئی فکر کی بات نہیں۔ شہید مرحوم کے دادا نے 1907ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اس طرح ان کوصحابی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ ان کے والدنے 1932ء میں خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ یہ لوگ کوئٹہ میں رہتے تھے۔ پھر 1935ء میں مردان آ گئے۔ اور دو مہینے پہلے مسجد مردان پر جو حملہ ہوا تھا، اس میں ان کے بھتیجے شیخ حامد رضا شہید ہوئے تھے۔ یہ تجارت پیشہ خاندان ہے۔ اللہ کے فضل سے کاروبار ان کا اچھا چل رہا ہے۔ اس کی وجہ سے مخالفین و معاندین کی نظر میں تھے۔ شیخ صاحب اور ان کے بھائیوں کو مختلف وقتوں میں اسیرِ راہِ مولیٰ رہنے کی بھی توفیق ملی۔ ان لوگوں پربیس (20) جماعتی مقدمات ہیں۔ اور ان پر ہمیشہ ظلم ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ 1974ء میں بھی ان کے ایک بھائی شیخ مشتاق صاحب کو ضلع بدر کر دیا گیا تھا۔ 1974ء کی کارروائی میں مولانا دوست محمد صاحب شاہد جب مدد کیا کرتے تھے تو ان کو حوالوں کے لئے دو کُتب کی ضرورت پڑی۔ شیخ صاحب اُن دنوں میں اسلام آباد ہوتے تھے۔ ان سے ذکر کیا تو انہوں نے وہاں جا کر دو دفعہ وہ کتاب لا کر دی جو حوالے کے لئے چاہئے تھی اور اسمبلی کی کارروائی میں حوالہ دینے کے کام آئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوجوانی میں ہی یہ جماعت کے بڑے خدمت گزار تھے۔ ان کو 2008ء میں اغوا بھی کر لیا گیا تھا اور پھر تاوان دے کر ان کو رہائی ملی۔ پہلے تو اغوا کرنے والے ان پر بڑی سختی کرتے رہتے تھے۔ لیکن جب دیکھا کہ یہ تو نمازیں پڑھنے والا اور ذکرِ الٰہی کرنے والا، تہجد پڑھنے والا ہے توپھر آہستہ آہستہ ان کا دل نرم ہو گیا۔ اور دل نرم ہونے کے بعد یہ اثر ہوا کہ اس گرمی میں ٹھنڈے پانی اور پنکھے کی سہولت میسر کر دی۔ اور پھر یہ بھی اغوا کرنے والوں کے دل کی نرمی ہے کہ جتنے پیسے وہ مانگ رہے تھے، اس سے کم پر ان کو رہا کر دیا۔ یہ تو ان کا حال ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ان کی دکان کے قریب بم رکھ کر اس کو اڑانے کی کوشش کی گئی تھی اس سے بھی کچھ نقصان ہوا تھا۔ بہر حال ہمیشہ سے یہ مردان میں ہیں۔ یہ خود بھی اور ان کا خاندان بھی بڑی سختیاں جھیلتا چلا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان شہید کے درجات بلند کرے اور باقی خاندان کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے بلکہ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے جو مردان میں یا پاکستان کے کسی بھی شہر میں ہے۔ کیونکہ دشمنوں کے ارادے بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ نمازوں کے بڑے پابند تھے اور خطبات بڑے غور سے سنتے تھے اور اپنے سارے خاندان کو سنوایا کرتے تھے۔ مختلف جگہوں پر خدمتِ خلق کا کام، رفاہِ عامہ کا کام بھی کیا کرتے تھے۔ مردان شہر میں مختلف جگہوں پر ٹھنڈے پانی کی سہولت کے لئے بجلی کے واٹر کولر لگوا کر دئیے ہوئے تھے۔ اہلیہ کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ایک بڑے بیٹے زخمی ہیں۔ بچوں کی عمر اٹھائیس سال سے لے کر بیس سال تک ہے۔ ۔ اللہ تعالیٰ ان سب لواحقین کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ دے۔ حفاظت میں رکھے۔ ابھی نمازوں کے بعد انشاء اللہ ان کا نمازِ جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔
اس کے علاوہ ہمارے سلسلے کے ایک پرانے بزرگ مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب ہیں جو خلافت لائبریری کے انچارج ہوتے تھے۔ ان کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ واقفِ زندگی تھے اور 1915ء میں پیدا ہوئے۔ 1906ء میں ان کے والدنے بیعت کی تھی۔ ان کی والدہ کی تو اس سے پہلے کی بیعت تھی۔ 1935ء میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کیا اور تیسری پوزیشن لی۔ اس کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخلہ لے لیا۔ اور 1938ء میں وہاں سے فارغ ہو کر حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں وقف کی درخواست دی۔ پھر 1960ء میں انہوں نے پرائیویٹ بی۔ اے کیا اور لائبریری سائنس کا ڈپلومہ کیا۔ خلافت لائبریری کے لائبریرین تھے۔ پڑھنے کا شوق تھا۔ 1964ء میں تعلیم الاسلام کالج میں عربی کی کلاسیں شروع ہوئی ہیں توپھر ایم۔ اے عربی کی اور وہاں طلباء کا پہلے جو بیج تھا اس میں یہ شامل تھے۔ اور عربی میں پوری یونیورسٹی میں اس سال انہوں نے پہلی پوزیشن لی۔ 1931ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے جو احمدیہ کور قائم کی اس کے بھی آپ ممبر تھے۔ اور 1934ء میں نیشنل لیگ کے قیام پر آپ بھی اس میں شامل تھے۔ 1938ء میں خدام الاحمدیہ کے ابتدائی ممبران میں شامل ہوئے اور معتمد خدام الاحمدیہ مرکزیہ، ایڈیٹر خالد اور قائمقام صدر کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ اس وقت حضرت مصلح موعودؓ خود صدر مجلس خدام الاحمدیہ تھے۔ 1947ء میں ہجرت کے موقع پر حضرت امّاں جان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باقی اولاد کے ساتھ ہی یہ قافلے کو لے کر آئے۔ 1948ء میں فرقان بٹالین میں شرکت کی۔ اور 1948ء میں ربوہ کی سرزمین پر جو خیمے گاڑھے گئے تھے ان کا انتظام بھی آپ کے ذمے تھا اور پہلی رات آپ کو ربوہ میں بسر کرنے کی توفیق ملی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے آنا تھا تو ان کو پہلے بھیجا گیا تا کہ خیمے وغیرہ گاڑیں۔ یہ جب ربوہ آبادی کے لئے گئے ہیں تو یہ اور عبدالسلام اختر صاحب خیمے اور چھولداریاں سائبان وغیرہ لے کر گئے۔ سیلاب کی وجہ سے راستے کٹے ہوئے تھے ایک لمبے راستے سے ان کو آنا پڑا۔ اس زمانے میں تعلیم الاسلام سکول عارضی طور پرچنیوٹ میں ہوتا تھا۔ اور اس کے
ہیڈ ماسٹر سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے۔ ان کو انہوں نے کہا کہ ہم نے رات وہاں رہنا ہے تو لڑکوں کے ہاتھ کچھ لالٹین بھجوا دیں تا کہ روشنی ہوتی رہے۔ جب ربوہ پہنچے ہیں تو اس وقت سورج ڈوب رہا تھا۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ ربوہ کی جو زمین ہے اس کا وسط کہاں ہے؟ درمیان کہاں ہے؟ اور پھروہاں انہوں نے خیمے لگائے۔ بنجر اور بیابان جگہ تھی، جو چند لوکل، مقامی راہگیر وہاں سے گزرا کرتے تھے، وہ بڑے حیران کہ اس جگہ یہ دو آدمی بیٹھ کے کیا کر رہے ہیں؟ بہر حال جو سامان لانے والے ٹرک تھے ان کو انہوں نے رخصت کیا۔ اور خاموشی سے یہ دونوں وہاں بیٹھ گئے، دعائیں کرنے لگے۔ نظمیں سنانے لگے۔ اختر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شعر بلند آواز سے سنانے لگے۔ کہتے ہیں کہ اس وقت کیونکہ آبادی تھی نہیں اور ارد گرد سب پہاڑ تھے تو پہاڑوں سے ٹکرا کر ان کی نظموں کی آواز جو تھی، وہ اور زیادہ گونج پیدا کر رہی تھی۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ دور سے ایک ہلکی سی روشنی نظر آرہی ہے۔ یہ شاہ صاحب کو جوکہہ کے آئے تھے ناکہ سکول کے بچوں کے ہاتھ لالٹینیں بھجوا دیں تو دیکھا کہ چھ میل کے فاصلے سے وہ بچے ان کے لئے لالٹین لے کے آ رہے تھے، جن میں سے دو بچے بنگالی تھے اور ایک سیلون کا تھا۔ بہر حال یہ بچے بھی کافی دیر سے پہنچے۔ اس کے بعد رات کو احمدنگر وہاں قریبی گاؤں ہے، وہاں سے ان کو کھانا آیا تو اس طرح انہوں نے یہ پہلی رات ربوہ میں بسر کی۔ اسی طرح ان کے بہت سے تاریخی کام ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1940ء میں بھی علماء کی کمی پوری کرنے کے لئے نوجوانوں کو تیار کرنے کی خاطر مختلف مضامین میں غیر از جماعت جید علماء سے تدریس کا پروگرام بنایا تو اس میں بھی یہ شامل تھے۔ بہر حال ان کی خدمات کا ایک لمبا عرصہ ہے۔ اور بعد میں لائبریرین کے طور پر یہ ریٹائر ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ تحریکِ جدید کے ممبر تھے۔ صدر انجمن احمدیہ کے ابتدائی ممبروں میں سے تھے۔ پاکستان آنے کے بعد جو انجمن بنی ہے اس کے بھی ممبروں میں سے تھے۔ ربوہ کے صدر عمومی رہے ہیں۔ بڑا عرصہ لمبا انہوں نے خدمات انجام دی ہیں۔ اور مَیں نے دیکھا ہے کہ مرتبے کے بزرگ تھے، عمر بڑی تھی۔ بہت فرق ہے میرا اور ان کی عمر کا۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتہائی عاجزی سے ہر ایک کو ملنے والے اور وفادار کارکن تھے۔ جہاں سختی اور دھڑلے کی ضرورت ہوتی تھی وہاں اس سے بھی کام لیتے تھے۔ لیکن بہر حال اچھی انتظامی صلاحیت تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔
اس کے علاوہ ایک اَور جنازہ ہے۔ ان کا بھی جنازہ غائب ابھی ادا ہو گا۔ تیسرا جنازہ غائب مکرم مسعود احمد خورشید سنوری صاحب کا ہے۔ ان کی وفات کو دو مہینے گزر گئے ہیں۔ یہ بھی مختلف حیثیتوں سے خاص طور پرکراچی میں جماعت کی خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور امریکہ میں بھی۔ ان کی بچیاں بھی جماعت کی یہاں خدمات انجام دے رہی ہیں اور ان کی آگے اولادیں بھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند کرے۔
جیسا کہ مَیں نے کہاان سب کی نمازِ جنازہ غائب انشاء اللہ ابھی ادا ہو گی۔