خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍ دسمبر 2010ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَاِن۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرہ: 187)
انشاء اللہ تعالیٰ دو دن بعد 26 دسمبر کو قادیان میں جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد قادیان کے جلسہ سالانہ میں اتنا پھیلاؤ اور وسعت کچھ سال تک نہیں رہی جو 47ء سے پہلے ہوتی تھی لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے یہ جلسہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت وسیع ہو چکا ہے۔ 1991ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کا دورہ ہوا۔ کافی تعداد میں لوگ آئے، اُس کے بعد پھر زیادہ تعداد میں لوگوں کا آنا شروع ہو گیا۔ پھر 2005ء میں جب مَیں گیا ہوں اُس وقت بھی بہت بڑی تعداد آئی۔ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضری بڑھ رہی ہے، گو اُتنی تو نہیں ہوتی جتنی 2005ء میں تھی لیکن بہر حال اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے جلسے کے انتظامات کے بارے میں قادیان سے رپورٹس وغیرہ آ رہی تھیں اُن رپورٹس کو دیکھنے سے ربوہ کے جلسوں کا تصور بھی سامنے آگیا۔ یہ دن آج سے 27 سال پہلے ربوہ اور پاکستان کے احمدیوں کے لئے عجیب روح پرور ماحول کے دن ہوتے تھے۔ جب ربوہ میں ہر طرف جلسے کے انتظامات کے لئے تیاریاں ہو رہی ہوتی تھیں۔ ہر طرف ایک شوق، جذبہ اور گہما گہمی نظر آتی تھی۔ ربوہ میں جوجماعت کے سکول تھے ان سکولوں میں افسر جلسہ سالانہ کے دفتر کی طرف سے ہر احمدی طالب علم کو ڈیوٹی فارم آتے تھے جو وہ پُر کرتا تھا کہ وہ کہاں ڈیوٹی دینا چاہتا ہے۔ اگر جلسے کی انتظامیہ کو کسی جگہ لگانے کی اپنی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی تھی، تو عموماً بچوں اور نوجوانوں کی اُن کی صوابدید پر ہی ڈیوٹیاں لگائی جاتی تھیں۔ ڈیوٹی چاہے اپنی مرضی کی ملے یا جلسے کی انتظامیہ اپنی ضرورت کے مطابق تفویض کرے، نوجوانوں میں خدمت اور ڈیوٹی دینے کا ایک عجیب جذبہ ہوتا تھا۔ ستائیس سال میں ایک نسل جو پیدا ہوئی اب بھرپور جوانی میں ہے، اور وہ جو نوجوان تھے، وہ انصاراللہ میں شامل ہو گئے، بلکہ پچپن سال سے اوپر کے انصاراللہ کی صفِ اوّل میں چلے گئے ہوں گے۔ جو بچے جوان ہوئے اُنہیں شاید ڈیوٹیوں کا تجربہ نہ ہویا احساس نہ ہو اور ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ وہاں جلسے نہیں ہو رہے سوائے اُن گھروں کے جن میں جلسے کا ذکر چلتا رہتا ہے بلکہ مَیں امید کرتا ہوں کہ ربوہ کے جو پُرانے گھر ہیں، پُرانے رہنے والے ہیں اُن میں جلسے کا یہ ذکر چلتا رہتا ہو گا۔ اگر نہیں تو ذکر ہونا چاہئے تاکہ آنے والے بچے بھی اور نسل بھی اس ماحول اور اُس جذبے کو تازہ دم رکھیں۔ اس لئے نہیں کہ نئی نسل حسرت کرے بلکہ اس لئے کہ نئی نسل اپنے اندر ایک عزم پیدا کرے۔ مایوس نہ ہو بلکہ ایک عزم ہو کہ عارضی پابندیاں ہماری روح کو مردہ نہیں کر سکتیں، ہمیں مایوس نہیں کر سکتیں، ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اس سے مانگتے چلے جانے میں روک نہیں بن سکتیں۔ ہمارے ایمان اور یقین کو ڈگمگا نہیں سکتیں کہ پتہ نہیں اب وہ دن دوبارہ دیکھنے نصیب بھی ہوں گے یا نہیں جب ہر بچہ بوڑھا اور جوان ایک جوش اور ایک ولولے سے اُس زمانے میں جلسے کی تیاریوں اور ڈیوٹیوں میں حصہ لیتا تھا۔ جب ہر جلسہ سننے والا اپنی روح کی سیرابی کے سامان کرتا تھا۔ یہ باتیں نئی نسل کو بھی علم ہونی چاہئیں۔ جو بعد میں پیدا ہونے والے بچے ہیں اُن کو بھی علم ہونی چاہئیں۔ بلکہ گزشتہ پندرہ سولہ سال میں جو بچے پیدا ہوئے وہ بھی اب جوان ہو گئے ہیں، اُن کو بھی پتہ ہونا چاہئے کہ جلسے کے دن کیسے ہوتے تھے؟ ربوہ جب ایک غریب دلہن کی طرح سجا کرتا تھا۔ بازار سجتے تھے۔ عارضی بازار بنتے تھے تاکہ لاکھوں کی تعداد میں آنے والے مہمانوں کی ضروریاتِ زندگی اُن کی پسند کے مطابق مہیا کی جا سکیں۔ سپیشل ٹرینیں اور بسیں آیا کرتی تھیں۔ ہر گھر اپنی بساط اور توفیق کے مطابق اپنے گھر کو مہمانوں کی آمد کے لئے صاف کرتا تھا۔ آرام دہ بنانے کی کوشش کرتا تھا، سجاتا تھا۔ گھروں کے صحنوں میں زائد رہائش کے لئے خیمے نصب کئے جاتے تھے کیونکہ اکثر گھر اتنے چھوٹے تھے کہ مہمانوں اور میزبانوں کی رہائش کا انتظام بغیر خیموں کے ممکن نہ تھا۔ بعض گھروں والے اپنے گھر کے سارے کمرے مہمانوں کے سپُرد کر دیتے تھے اور خود باہر صحنوں میں خیموں کے اندرچلے جاتے تھے۔ غرضیکہ قربانی کے عجیب نظارے ہوتے تھے جو اہلِ ربوہ دکھا رہے ہوتے تھے۔ ہر چہرے پر خوشی ہوتی تھی کہ ہم مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ باتیں ہمیشہ کے لئے خواب و خیال نہیں بن گئیں۔ یہ ہمیں مایوس کرنے والی نہیں ہیں بلکہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ رونقیں دوبارہ قائم ہوں گی اور ضرور ہو گی۔ ہمارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہوں۔ اُس سے مانگتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ ہم تو اس بات پر یقین رکھتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نبی کے حوالے سے قرآنِ کریم میں ذکر فرمایا ہے کہ مَنْ یََّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہِٓ اِلَّا الَضَّآلُّوْنَ (الحجر: 57) اور گمراہوں کے سوا اپنی رب کی رحمت سے کون مایوس ہوتا ہے؟ ہمیں یہ مایوسی تو نہیں کہ وہ دن لوٹ کر نہیں آئیں گے یا کس طرح آئیں گے؟ وہ دن تو جیسا کہ میں نے کہا انشاء اللہ لوٹ کر آئیں گے۔ کیونکہ ہمیں اُس خدا کی قدرتوں پر یقین ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’جب سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے اور کوئی صورت مخلصی کی نظر نہیں آتی تو اس صورت میں اُس کا یہی قانونِ قدیم ہے کہ وہ ضرور عاجز بندوں کی خبر لیتا ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 664)
پس اگر ہم عاجزی دکھاتے ہوئے اُس سے مانگتے رہیں گے تو وہ ضرور مدد کو آتا ہے اور آئے گا۔ جب سب حیلے ختم ہو جاتے ہیں تو تب بھی حضرتِ توّاب کا حیلہ قائم رہتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ الْغَیْْثَ مِن بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ۔ وَہُوَ الْوَلِیُّ الْحَمِیْدُ (الشوریٰ: 29) اور وہی ہے جو مایوسی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے۔ وہی کارساز اور سب تعریفوں کا مالک ہے۔ تو یہ خدا تعالیٰ کا روحانی زندگی میں بھی، جسمانی زندگی میں بھی عموم ہے۔ جب خدا تعالیٰ عمومی طور پر مایوس لوگوں کو رحمت سے نوازتا ہے تو جو مومن ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہ اللہ تعالیٰ اُن کا ولی ہے جو ایمان لانے والے ہیں۔ جو سچے مومن ہیں اُن کو مایوسیوں میں نہیں ڈالتا بلکہ ایسے مومنوں کو جو اس کے آگے جھکنے والے ہیں، جو عاجزی کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اُن کی ضرور خبر لیتا ہے، اُن کی مدد کے لئے ضرور آتا ہے۔ اپنی رحمت کو ان کے لئے وسیع تر کر دیتا ہے۔ جس کا اعلان اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ وَیَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَیَزِیْدُہُم مِّنْ فَضْلِہٖ (الشوریٰ: 27) اور مومنوں اور نیک عمل کرنے والوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور اپنے فضل سے بہت بڑھا کر انہیں دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے نوازنے کے طریقے اور معیار انسانی سوچوں سے بہت بالا ہیں۔ پس جب ایسے خدا پر ہم ایمان لانے والے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ حالات اور پُرانی یادیں ہمیں مایوس کریں۔ ہاں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ اب کوئی صورت مخلصی کی نہیں ہے۔ یعنی ایسی صورت جو انسانوں کے دائرہ اختیار میں ہو تب لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہ کی آواز آتی ہے۔ اور وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہُ کا نظارہ ایک عاجز انسان دیکھتا ہے۔
پس یہ ہمارا فرض ہے کہ اپنے دن اور رات دعاؤں میں صرف کریں۔ خاص طور پر ان جلسہ کے دنوں میں جلسے پر آئے ہوئے جو لوگ ہیں، جو شامل ہو رہے ہیں وہ اپنے قادیان میں قیام کے ہر لمحے کو دعاؤں میں ڈھال دیں۔ خاص طور پر پاکستان سے آئے ہوئے احمدی یاد رکھیں کہ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی رحمت سے گمراہوں کے علاوہ کوئی مایوس نہیں ہوتا۔ پس یہ مایوسی غیروں کا کام ہے۔ ہم تو گمراہوں میں شامل نہیں۔ ہم تو مہدی آخر الزمان کے ماننے والے ہیں۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے اس مسیح و مہدی کے ذریعے سے اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا ہے۔ ہمیں تو گمراہی میں بھٹکنے کے بجائے صراطِ مستقیم پر چلنا سکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً احمدی اس حقیقت کو جانتے ہیں تبھی تو ایمان کی مضبوطی کے ساتھ تکالیف بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ تبھی تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان تکالیف کو جو انہیں مخالفینِ احمدیت پہنچاتے ہیں اُن کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے۔ تبھی تو اپنے شہداء کو بغیر جزع فزع کے باوقار طریقے سے دفنانے کے بعد، اُن کی تدفین کرنے کے بعد، دعائیں کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لَوٹتے ہیں۔ اور پھر اپنے آنسو صرف اور صرف خدا کے آگے بہاتے ہیں۔ لیکن بعض اِکّا دُکّا، کوئی کوئی، پریشان بھی ہو جاتے ہیں جو اچھا بھلا دین کا علم رکھنے والے بھی ہیں اور بعض جماعت کے کام کرنے والے بھی ہیں۔ کہہ دیتے ہیں اور بعض مجھے لکھ بھی دیتے ہیں کہ یہ سختیوں کے دن لمبے ہوتے جا رہے ہیں۔ کل یا پرسوں کی باتیں ہوتی تھیں، یہ کل یا پرسوں تو ختم ہی نہیں ہو رہی۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ قوموں کی زندگی میں دنوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ قوموں کی عمر میں چند سال کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ترقی کرنے والی قومیں صرف ایک محاذ کو نہیں دیکھتیں، ایک ہی طرف اُن کی نظر نہیں ہوتی، اُن کی نظر قوم کی مجموعی ترقی پر ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے سخت حالات کے بعد جماعت کی ترقی کی رفتار کئی گنا بڑھ چکی ہے بلکہ پاکستان میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی پہلے سے بڑھ کر ہے۔ ہاں بعض سختیاں بھی ہیں۔ بعض پابندیاں ہیں۔ جانی اور مالی نقصانات ہیں۔ خلیفہ وقت کو جماعت سے براہِ راست اور جماعت کو خلیفہ وقت سے بغیر کسی واسطے کے ملنے کی تڑپ بھی دونوں طرف سے ہے۔ وہ بیشک اپنی جگہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے اس کے لئے بھی نصف ملاقات کا ایک راستہ بھی ہمارے لئے کھول دیا ہے جو ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے انتظام فرمایا ہے۔ اگر پاکستان میں جلسے اور اجتماعات پر پابندیاں ہیں تو ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے ہی کئی جلسوں اور اجتماعات میں دنیا کا ہر احمدی بشمول پاکستانی احمدی شریک ہوتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ نے باوجود پابندیوں کے روحانی مائدہ کو بندنہیں ہونے دیا۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے اتنے احسانات ہیں تو کبھی بھی کسی وقت بھی کسی کے دل میں بھی مایوسی کے خیالات نہیں آنے چاہئیں۔ بلکہ ان دنوں میں اہلِ ربوہ کو بھی اور اہلِ پاکستان کو بھی اپنی بے چینیوں کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے دعاؤں میں بدل لینا چاہئے، دعاؤں میں ڈھال لینا چاہئے۔ مَیں اپنے تصور میں ربوہ کے جلسہ کے پُر رونق ماحول اور پاک ماحول کو لا کر غور کرتا ہوں۔ خدا تعالیٰ کی تقدیر کو جو احمدیت کی فتح کی تقدیر ہے اُس پر غور کرتا ہوں اور یہی ہر احمدی کا کام ہے۔ وہ تقدیر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو دنیا پر غالب کرنے کی تقدیر ہے۔ جو دنیا کی اکثریت کو مسیح محمدی کی جماعت میں شامل کرنے کی تقدیر ہے۔ جو دوسری قوموں کی طرح پاکستانیوں پر بھی مسیح موعود کی صداقت خارق عادت طور پر ظاہر ہونے کی تقدیر ہے۔ پس ہمیں اپنی دعاؤں میں ایک خاص رنگ پیدا کرتے ہوئے اس الٰہی تقدیر کو اپنی زندگی میں دیکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے عاجزی کی انتہا کرتے ہوئے مانگتے چلے جانا چاہئے۔
ربوہ کی رونق اور پاک ماحول سے میرے تصور میں ربوہ کی سڑکوں پر جلسہ گاہ جاتے اور آتے ہوئے لوگوں کا رش بھی آتا ہے۔ لیکن مجال نہیں کہ اُس رش میں کہیں دھکم پیل ہو رہی ہو۔ مردوں، عورتوں کو خود بھی احساس ہوتا تھا۔ اور اگر کہیں ذرا سی کوئی بات ہو بھی گئی تو اطفال اور خدام جو ڈیوٹی پر ہوتے تھے، جو راستے کی ڈیوٹی پر رہنمائی کرنے کے لئے کھڑے ہوتے تھے وہ اُن کو توجہ دلا دیتے تھے اور توجہ دلانے پر فوراً اپنے اپنے راستے پر ہر کوئی چلتا تھا۔ لوگوں کاایک مسلسل دھارا چل رہا ہوتا تھا۔ جس طرح پانی کا ایک بہاؤ ہوتا ہے، پانی کی ایک ندی بہہ رہی ہوتی ہے اس طرح لوگ جلسہ گاہ کی طرف جا رہے ہوتے تھے اور اسی طرح جلسہ ختم ہونے پر واپس آ رہے ہوتے تھے۔ سڑک کے ایک طرف مرد ہوتے تھے تو دوسری طرف عورتیں ہوتی تھیں۔ ہر مرد کو عورت کے تقدس کا خیال ہو تا تھا اور ہر عورت کو اپنی حیا کا پاس ہوتا تھا۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کا راستہ کاٹ رہے ہوں یا کوئی ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو جائے۔ پردے کی پابندی اور غضِّ بصر ہر طرف نظر آتا تھا۔
یہ نظارہ انسان کو مدینہ کی گلیوں میں بھی لے جاتا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتیں اور مرد علیحدہ علیحدہ راستے اختیار کریں۔ عورتیں ایک طرف دیوار کے ساتھ ہو کر چلا کریں۔ تو اس کی اس قدر پابندی ہوتی تھی کہ روایت میں آتا ہے کہ بعض عورتیں اس قدر دیواروں کے قریب ہو کر چلتی تھیں کہ اُن کی چادریں بعض دفعہ دیواروں کے پتھروں میں الجھ کر اٹک جایا کرتی تھیں۔ (سنن ابی داؤد کتاب النوم باب فی مشی النساء مع الرجال فی الطریق حدیث نمبر 5272)
تو یہ سب اس لئے تھا کہ اطاعت کا ایک اعلیٰ نمونہ دکھائیں اور اپنی حیا اور تقدس کو قائم رکھیں۔ تو یہ نظارے جیسا کہ میں نے کہا ہمیں ربوہ میں بھی جلسہ کے دنوں میں دیکھنے میں آتے تھے۔ اسلامی روایات کا نمونہ ربوہ میں آنے والے عموماً اور عام دنوں میں بھی اور جلسے کے دنوں میں خصوصاً دیکھتے تھے۔
قادیان میں بھی چھوٹی سڑکیں اور گلیاں ہیں۔ اس حوالے سے میں قادیان میں جلسے میں شامل ہونے والے لوگوں سے بھی کہتا ہوں کہ کیونکہ بہت سے پہلی دفعہ شامل ہو رہے ہوں گے۔ مختلف ممالک اور ماحول سے آئے ہوئے ہیں، بعض دفعہ اتنا خیال نہیں رہتا کہ اپنے اپنے راستے پر چلیں۔ بجائے اس کے کہ آپ کو ڈیوٹی والے کارکنان توجہ دلائیں، عورتیں اور مرد اپنے اپنے علیحدہ راستوں پر چلیں۔ قادیان کے بارے میں تو غیروں نے بھی آج سے اسّی نوّے یا سو سال پہلے یہ لکھا ہوا ہے کہ وہاں اسلامی تعلیم کا یا اسلامی قدروں کا یا اسلام کا ٹھیٹھ نمونہ نظر آتا ہے۔ تو یہ ٹھیٹھ نمونہ قادیان میں آج بھی قائم رہنا چاہئے جبکہ دور دور سے غیر بھی جلسے پر آئے ہوں گے۔
پس حیا اور تقدس کے اظہار اور حفاظت کے ساتھ ساتھ جلسے میں شامل ہونے والے اپنی نمازوں کی بھی خاص طور پر حفاظت کریں۔ اذان کی آواز پر ہر ایک کا رُخ مسجدوں کی طرف ہونا چاہئے۔ اسی طرح جلسے کی کارروائی کے دوران بھی جلسے کو سننے کی بھر پور کوشش اور توجہ ہونی چاہئے۔ جلسہ کوئی میلہ نہیں ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا۔ وہاں اس وقت کی اطلاع کے مطابق چھ سات ہزار مہمان تو باہر سے آ چکے ہیں، اور بھی آئیں گے انشاء اللہ۔ تو ہر ایک جلسے کے تقدس کا بھی خیال رکھے۔ بلکہ پاکستان سے آئے ہوئے بہت سارے لوگ ہیں کہ اُن کو اللہ تعالیٰ نے براہِ راست بھی جلسے میں شامل ہو کر روحانی فائدہ اٹھانے کا موقع عطا فرمایا ہے۔ پس ایک حقیقی مؤمن کی طرح بھر پور فائدہ اٹھانے کی ہر ایک کو وہاں کوشش کرنی چاہئے۔
نصیحت اور ہدایت کی بات شروع ہوئی ہے تو اس طرف بھی توجہ دلا دوں کہ جلسہ میں شامل ہونے والے ہر فرد کے دل میں اور عمل میں قربانی کا بھی بھر پور اظہار نظر آنا چاہئے۔ نہ قیامگاہوں میں بدنظمی ہو۔ نہ کھانے کے اوقات میں بدنظمی ہو۔ نہ جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہوئے اور نکلتے وقت بدنظمی ہو۔ عموماً بدنظمی خود غرضی کی وجہ سے، اپنا حق پہلے لینے کی کوشش کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس اگر چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر بڑی باتوں تک قربانی دکھائیں گے تو کبھی بدنظمی نہیں ہو سکتی۔ اور بعض دفعہ بعض مفاد پرست یا حاسدین جو حسد کی وجہ سے خواہش رکھتے ہیں اور بعض دفعہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ کسی طرح کسی انتظام میں بدنظمی پیدا کی جائے تا کہ اُن کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کا موقع مل جائے تو ہمیشہ یاد رکھیں کہ کسی احمدی کو کبھی اُن لوگوں کی خواہش کے مطابق اس قسم کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہئے جس سے جماعت کی بدنامی اور سبکی ہو یا کسی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو۔ قادیان میں ہندو بھی رہتے ہیں، سکھ بھی رہتے ہیں، عیسائی بھی رہتے ہیں۔ ہر احمدی کا فرض ہے کہ ہر ایک کی عزت اور احترام کرے۔ عموماً وہاں کے رہنے والے لوگ بڑے اچھے ہیں۔ لیکن اگر کسی سے کوئی غلط بات ہو بھی جائے تو اپنے جذبات پر کنٹرول رکھیں۔ قادیان کے رہنے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ بعض دفعہ کسی مہمان کی غیرت کی وجہ سے میزبان یا وہاں کے رہنے والے جذبات میں آ جاتے ہیں، یا کوئی بات سن کر جذبات میں آ جاتے ہیں۔ تو کسی بھی قسم کا ایسا جذباتی اظہار نہیں ہونا چاہئے جس سے کسی بھی قسم کے فساد یا فتنے کا خطرہ پیدا ہوسکے۔ اسی طرح وہاں رہنے والے آپس میں سلام کو رواج دیں۔ چلتے پھرتے ایک دوسرے کوجانتے ہیں یا نہیں جانتے سلام کریں تا کہ محبت اور بھائی چارے کی فضا پیدا ہو اور مزید بڑھے۔
بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسے کے دن جہاں پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کے لئے خاص دن ہیں۔ انہیں دعاؤں میں گزاریں۔ جلسے پر پاکستان سے جو قادیان میں آئے ہوئے لوگ ہیں وہ بھی اور دوسرے ممالک سے آئے ہوئے لوگ بھی اور ہندوستان والے جو ہیں وہ بھی سب خاص طور پر ان دنوں کو دعاؤں میں گزاریں۔ شاملینِ جلسہ تو خاص طور پر اپنے ہر لمحے کو دعاؤں میں گزاریں اور گزار سکتے ہیں کیونکہ ان کا شامل ہونے کا تو اور کوئی مقصدنہیں ہے اور نہ ہی انہیں کوئی اور کام ہے سوائے اس کے کہ روحانی فیض حاصل کریں، اپنی تربیت کے سامان کریں۔ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کی بستی میں ایک روحانی ماحول کے تحت اتنی تعداد میں جمع کر کے ایک موقع پیدا کیا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس سے اس کا فضل مانگیں۔ اس کے احسان کا شکر ادا کریں۔ پاکستان سے شامل ہونے والے خاص طور پر پاکستان میں احمدیوں کے حالات اور ملک کے حالات کے بارے میں بھی دعائیں کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ ہمیں یہ تسلی دلاتا ہے کہ اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ مجھے پکارو میں تمہاری دعاؤں کو سنوں گا۔ اور جب ماحول میسر آ جائے تو اس سے بہتر اور کون سا ایسا موقع ہے جب ایک عاجز بندہ اللہ تعالیٰ سے مانگے۔ آج کل سب سے زیادہ اضطرار کی کیفیت پاکستان کے احمدیوں کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مضطر کی دعا سنتا ہوں۔ پس ان دنوں میں اپنے اضطرار کو اللہ تعالیٰ کے حضور آنکھ کے پانی کے ذریعے بہائیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں سے حصہ پانے والے بنیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ۔ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (سورۃ النمل: 63) یا پھر وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔
اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ انتہائی درجے کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔ جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اُس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھنا ہو اسے چاہئے کہ دعا کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 618۔ مطبوعہ ربوہ)
پس اپنی دعاؤں کے اثرات کو زمین پر دیکھنے کے لئے پہلے آسمان کے کنگرے ہلانے ہوں گے۔ آپ چند ہزار جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محرومیاں دور کرنے اور ایک خاص ماحول سے فیض اٹھانے کے لئے جلسہ میں شمولیت کا موقع عطا فرمایا ہے اپنے اس اضطرار کو صحیح رُخ دے کر اپنی مادّی اور روحانی زندگی کے سامان کرنے کی کوشش کریں۔ ڈیوٹی دینے والے بھی وہاں گئے ہوئے ہیں وہ صرف یہ نہ سمجھیں کہ اُن کا مقصد صرف ڈیوٹی دینا ہے۔ بے شک یہ خدمت کریں لیکن چلتے پھرتے اُٹھتے بیٹھتے اپنی زبانوں کو ذکرِ الٰہی سے تر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔
اس موقع سے جیسا کہ مَیں نے کہا، جلسے میں شامل ہونے والے صرف پاکستانیوں کا ہی فرض نہیں بلکہ ہر ایک کو بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے جو وہاں شامل ہو رہے ہیں۔ ماحول بھی میسر ہے تو اس ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھائیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا پاکستانی خاص طور پر اپنے حالات کی وجہ سے جو ان میں اضطراری کیفیت ہے اُس کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں مضطر کی دعا سنتا ہوں۔ پھر ایسے مضطر جو صرف اپنے لئے دعا نہیں کر رہے ہوتے بلکہ جماعت کے لئے دعا کر رہے ہیں اور دنیا میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قیام کے لئے دعا کر رہے ہوں ایسے مضطروں کی دعا تو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ دنیا کی ہمدردی میں کسی بھی دین سے منسلک جو لوگ ہیں ان کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعا کر رہے ہوں تو ایسے لوگوں کی دعا تو اللہ تعالیٰ ضرور سنتا ہے جن کو ہمدردی مخلوق بھی ہے، ہمدردی انسانیت بھی ہے اور ہمدردی دین بھی ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ صرف یہی نہیں فرما رہا کہ میں تمہاری اضطراری کیفیت کی دعائیں قبول کر کے تمہاری تکلیفیں دور کر دوں گا۔ تمہاری ذاتی اور جماعتی تکالیف کو ختم کر دیا جائے گا۔ تمہیں تکلیفیں پہنچانے والوں کے ہاتھوں کو روک دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ تکلیف کا علاج صرف تکلیف دور کرنے سے نہیں فرما رہا بلکہ فرمایا کہ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضکہ تمہیں زمین کا وارث بنا دے گا۔ پہلے بھی بناتا آیا ہے اور آئندہ بھی اس کی یہی تقدیر ہے۔ پس یہ تقدیرِ الٰہی ہے تو مایوسیوں کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نہ صرف تکالیف دور ہو رہی ہیں بلکہ تمہیں تکلیفیں دور کرنے کے بعد زمین کا وارث بنایا جا رہا ہے۔ پس اپنی بیچارگی کے رونے نہ روؤ۔ یہ کل پرسوں کب آئے گی، اس کی باتیں نہ کرو۔ اگر تمہاری عاجزی اور اضطرار سے کی گئی دعائیں جاری رہیں تو یہ کل پرسوں تو تمہاری تکلیفیں دور کرتے ہوئے آ ہی جائے گی اور نہ صرف تکلیفیں دور کرتے ہوئے آئے گی بلکہ مخالفین کو تمہارا زیرِ نگین کرتے ہوئے آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ پس اُس معبودِ حقیقی کے حضور جھکتے ہوئے اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ہر قسم کی مایوسیوں اور شرک، چاہے وہ شرکِ خفی ہی کیوں نہ ہو، اُس سے اپنے آپ کو بچائیں، اپنی نسلوں کو بچائیں پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ فیض پاتے چلے جائیں گے۔ پس کیا ہی پیارا ہمارا خدا ہے جو کہتا ہے کہ اگر تم صرف میری خالص عبادت کرنے والے ہو تو میں تمہاری اضطرار سے کی گئی دعاؤں کو تمہاری مانگنے سے زیادہ پھل لگاتا ہوں۔ اس وہم میں بھی نہ رہو کہ پتہ نہیں ہمارا اضطرار اللہ تعالیٰ تک پہنچتا بھی ہے کہ نہیں؟ اللہ فرماتا ہے میں تو تمہارے بہت قریب ہوں۔ جو میں نے آیت تلاوت کی اس میں یہی فرما رہا ہے۔ اتنا قریب کہ جو خالص ہو کر ایک بندہ دعا کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کا جواب بھی دیتا ہوں۔ لیکن ایک شرط ہے کہ جو تم نے اضطرار سے دعائیں شروع کی ہیں اُن میں مستقل مزاجی رکھنا اور میرے احکامات پر عمل کرنا، میں جو باتیں کہتا ہوں ان پر لبیک کہنا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’دعا اور اس کی قبولیت کے زمانے کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاء پر ابتلاء آتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلاء بھی آ جاتے ہیں کہ کمر توڑ دیتے ہیں۔ مگر مستقل مزاج، سعید الفطرت ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعدنصرت آتی ہے‘‘۔
اب دیکھیں آپ فرماتے ہیں کہ خوشبو سونگھتا ہے۔ ہم تو من حیث الجماعت ان مخالفتوں اور تکلیفوں کے باوجود صرف خوشبو نہیں سونگھ رہے بلکہ اس کے پھل کھا رہے ہیں۔ بے شک ہم اپنی ہر جانی قربانی اور شہادت پر افسوس کرتے ہیں، غمزدہ بھی ہوتے ہیں، دکھ بھی ہوتا ہے، تکلیف بھی ہوتی ہے لیکن یہ شہادتیں، یہ قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو کر جماعت کو پھلوں سے لاد رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِر یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اُسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی۔ اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔ پس کبھی گھبرانانہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کبھی خیال نہیں کرنا چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہو گی یا نہیں ہوتی۔ ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ708-707)
یعنی اگر یہ ہو گا کہ میری دعائیں قبول نہیں ہوتیں تو اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت سے آپ انکار کر رہے ہیں کہ وہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔
پس آج پاکستان کے احمدیوں سے زیادہ اس بات کو کون جان جاسکتا ہے یا ہندوستان کے بعض علاقوں کے وہ احمدی جن پر ظلم اور سختیاں ہو رہی ہیں یا دنیا کے بعض دوسرے ممالک کے احمدی جو سختیوں اور تکلیفوں سے گزر رہے ہیں، اُن سے زیادہ کون جان سکتا ہے کہ اضطرار یا اضطراب کیا ہوتا ہے؟ پس جب اضطرار پیدا ہو جائے تو دعاؤں کی قبولیت کا وقت بھی قریب ہوتا ہے۔ اس حوالے سے آج میں جلسے میں شامل ہونے والے تمام شاملین اور پاکستانی احمدیوں سے کہتا ہوں جن کو مسیح محمدی کی بستی میں جلسے میں شمولیت کا موقع مل رہا ہے کہ اپنے اضطرار اور اضطراب کو دعاؤں اور آنسوؤں میں ڈھالنے کی انتہا کر دیں اور پھر پہلے سے بڑھ کر اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنا لیں تا کہ ایک حقیقی انقلاب لانے والے بن جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:۔ ’’دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے دعا کی تعلیم نہیں دی۔ یہ دعا ایک ایسی شے ہے جو عبودیت اور ربوبیت میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے‘‘۔ (بندے اور خدا میں ایک رشتہ پیدا کرتی ہے)۔ ’’اس راہ میں قدم رکھنا بھی مشکل ہے لیکن جو قدم رکھتا ہے پھر دعا ایک ایسا ذریعہ ہے کہ ان مشکلات کو آسان اور سہل کر دیتا ہے۔ ……جب انسان خدا تعالیٰ سے متواتر دعائیں مانگتا ہے تو وہ اَور ہی انسان ہو جاتا ہے۔ اس کی روحانی کدورتیں دور ہو کر اس کو ایک قسم کی راحت اور سرور ملتا ہے۔ اور ہر قسم کے تعصب اور ریا کاری سے الگ ہو کر وہ تمام مشکلات کو جو اس کی راہ میں پیدا ہوں برداشت کر لیتا ہے۔ خدا کے لئے ان سختیوں کو جو دوسرے برداشت نہیں کرتے اور نہیں کر سکتے صرف اس لئے کہ خدا تعالیٰ راضی ہو جاوے برداشت کرتاہے تب خدا تعالیٰ جو رحمان رحیم خدا ہے اور سراسر رحمت ہے اُس پر نظر کرتا ہے اور اس کی ساری کلفتوں اور کدورتوں کو سرور سے بدل دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 492 مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی دعائیں کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور ہماری دعاؤں کو قبولیت بھی عطا فرمائے۔ ہماری کلفتوں کو دور فرمائے اور جلد اس کو سرور میں بدل دے۔ ہمارا شمار ہمیشہ ان بندوں میں رکھے جن پر ہر وقت اس کے پیار کی نظر پڑتی رہتی ہے۔
آج بھی ایک افسوس ناک خبر ہے۔ مردان میں ہمارے ایک نوجوان مکرم شیخ عمر جاوید صاحب کو کل شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ شہید مرحوم اپنے والد مکرم شیخ جاوید احمد صاحب اور اپنے چچا زاد بھائی شیخ یاسر محمود صاحب ابن مکرم شیخ محمود احمد صاحب شہید کے ہمراہ کار میں اپنی دکان سے شام کو پونے سات بجے کے قریب گھر واپس آ رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے تعاقب کر کے فائرنگ کر دی۔ شہید مرحوم عمر جاوید صاحب پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن کے سر اور کمر میں گولیاں لگی ہیں جس سے ان کی موقع پر شہادت ہو گئی۔ جبکہ اگلی سیٹ پر موجود شہید مرحوم کے والد اور شیخ جاوید احمد صاحب کے بازو پر گولی لگی جس سے وہ زخمی ہو گئے۔ ڈرائیو کرنے والے شیخ یاسر محمود کو شیشے کے ٹکڑے ہاتھ پر لگنے سے زخم آئے۔ دونوں زخمی جو تھے ان کو تو ابتدائی طبی امداد کے بعد ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔ اللہ کے فضل سے ٹھیک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو پیچیدگیوں سے بھی بچائے اور جلد شفائے کاملہ عطا فرمائے۔ گاڑی پہ کُل تقریباً کوئی سترہ اٹھارہ گولیاں لگی ہوئی تھیں جو نشانات ملے ہیں۔ بہر حال ملزمان جو تھے، جومجرم تھے وہ تو اس کے بعد فرار ہو گئے لیکن وہاں سرحد میں ابھی تک یہ شرافت ہے کہ وزیرِ اعلیٰ کے والد صاحب محمد اعظم خان ہوتی زخمیوں کی عیادت کے لئے بھی آئے اور پھر ان کے ہسپتال کے سٹاف کو ہدایات بھی دیں کہ ان کا صحیح علاج کیا جائے۔ اور شہید مرحوم کے گھر تعزیت کرنے بھی گئے۔
یہ خاندان جو ہے اس کے شیخ نیاز دین صاحب نے 1907ء میں بیعت کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے۔ شیخ شہید مرحوم کے دادا شیخ نذیر احمد صاحب تھے جنہوں نے بعد میں 1932ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے زمانے میں بیعت کی ہے۔ اور ان کے بارہ میں پہلے بھی مَیں بتا چکا ہوں کہ شہید مرحوم کے چچا اور سسر شیخ محمود احمد صاحب سات بھائی تھے۔ اس خاندان میں پہلے بھی شہید ہو چکے ہیں۔ مردان کی مسجد پر جوخود کش حملہ ہوا تھا، اُس میں شہید مرحوم کے چچا زاد بھائی شیخ عامر رضا ابن مکرم شیخ مشتاق احمد صاحب شہید ہوئے تھے۔ اور بعد میں ان کے چچا شیخ محمود احمد صاحب کو 8؍نومبر 2010ء کو معاندین نے شہید کیا تھا۔ اس وقت جو فائرنگ ہوئی تھی اس میں ان کا ایک بیٹا زخمی ہوا تھا۔ 1974ء میں بھی ان کے خاندان کا ایک فرد جن کا رشتہ سسرالی رشتہ تھا وہ شہید کئے گئے تھے تو اس خاندان میں 1974ء سے شہادتوں کا سلسلہ چل رہا ہے لیکن پھر بھی یہ تمام مشکلات اور مصائب کا سامنا کر رہے ہیں اور پورا خاندان بڑی بہادری کے ساتھ یہ مقابلہ کر رہا ہے۔
پچھلی شہادت پہ میرا خیال ہے کہ میری ان سے بھی بات ہوئی تھی کیونکہ سارے افراد سے ہوئی تھی تو ان سے بھی ہوئی ہوگی اور بڑے ہمت اور حوصلے سے تمام اپنے جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔
مرحوم کے چچا اور سسر مکرم شیخ محمود احمد صاحب شہید اور ان کے سب بھائی مختلف اوقات میں بیس سے زائد مختلف جماعتی مقدمات کے حوالے سے اسیرِ راہِ مولیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ شہید مرحوم کے دو چچاؤں کو ایک جماعتی مقدمے میں عدالت نے پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ اس جرم کی سزا ہی زیادہ سے زیادہ تین سال ہے۔ بہر حال ہائی کورٹ نے بعد میں ان کو بَری کر دیا تھا۔ اسی طرح مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ان کے خاندان میں اغوا بھی ہوتے رہے ہیں۔ ان کی دکان پہ جو کاروبار ہے وہاں ایک بم بلاسٹ بھی ہوا تھا۔ اپنے چچا کے ساتھ ہی کاروبار میں شریک تھے۔ ناظم خدمتِ خلق ضلع مردان تھے۔ محاسب تھے۔ بہر حال احتیاط تو یہ عموماً کیا کرتے تھے۔ مَیں نے ان کو کہا بھی تھا کہ سرِ شام ہی اپنا کاروبار بند کر کے آ جایا کریں لیکن بہر حال اس دن یہ آ رہے تھے، اپنے گھر کے قریب پہنچے اور گھر سے قریباً تین چار سو گز کے فاصلے پر تھے تو ان پر فائرنگ کی گئی اور یہ شہید ہو گئے۔ سال، دو سال پہلے ان کی شادی ہوئی تھی۔ ان کی اہلیہ ہیں ان کے ہاں بچے کی پیدائش بھی ہونے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی صحت سے رکھے اور ہر قسم کی پیچیدگیوں سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور تمام لواحقین کو صبر اور حوصلہ و ہمت عطا فرمائے۔ ابھی نماز کے بعد انشاء اللہ ان کا نمازِ جنازہ غائب ادا کروں گا۔