خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍ جنوری 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (البقرة: 266)
اور اُن لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس کو ثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو تھوڑی سی بارش ہی کافی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
آج دنیا میں بسنے والا ہر احمدی جس نے احمدیت کو سمجھا ہے، وہ اس یقین پر قائم ہے کہ احمدیت اور ہر احمدی اُس آخری شرعی کتاب پر یقین رکھتا ہے یا احمدیت آخری شرعی کتاب پر یقین رکھتی ہے جو قرآن کریم کی صورت میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری اور اس کا ہر حکم قابلِ عمل ہے۔ اور اس کے ہر حکم کی بجا آوری ایک مومن کو حقیقی مومن بناتی ہے۔ اور خدا کی راہ میں مالی قربانی بھی خدا تعالیٰ کے اہم حکموں میں سے ایک حکم ہے جس کے بارے میں سورۃ بقرہ کی ابتدائی آیات میں ہی یہ فرمایا ہے کہ قرآنِ کریم متقیوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اُن کے لئے جو اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (البقرۃ: 4) یعنی غیب پر ایمان لانے والے ہیں۔ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (البقرۃ: 4) اور نمازوں کو قائم کرنے والے ہیں۔وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ(البقرۃ: 4)۔ اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے، اس میں سے خرچ کرنے والے ہیں۔ پس یہ تینوں باتیں متقی ہونے کے لئے اور قرآنِ کریم سے ہدایت پانے کے لئے ضروری ہیں۔ جن میں سے ایک جیسا کہ مَیں نے کہا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ اور پھر سورۃ البقرۃ میں ہی آخر تک متعدد جگہ قربانیوں کا اور مالی قربانیوں کا مختلف رنگ میں، مختلف حوالوں سے بیان ہوا ہے۔ اور اسی طرح باقی قرآنِ کریم میں بھی بے شمار جگہ پر رزق کی قربانی کے بارے میں ذکر آتا ہے۔ پس ایک احمدی مسلمان مالی قربانی کی اہمیت کو سمجھتا ہے اور جب اس تعلیم پر عمل کرتے ہوئے قربانیاں پیش کرنے کے بعد جب وہ براہِ راست خدا تعالیٰ کے غیر معمولی اسلوب کا مورد بنتا ہے تو اس مالی قربانی پر ایمان اور یقین اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین، اور اسلام کی سچائی پر یقین اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی صداقت پر یقین اور پختہ ہو جاتا ہے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے حوالے سے ہی بات ہو رہی ہے۔ فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنی دولت کا اظہار نہیں چاہتے، جو کسی پر احسان کرنے کے لئے خرچ نہیں کرتے، جو خرچ کرنے کے بعد احسان جتانے کے لئے خرچ نہیں کرتے بلکہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اپنے میں سے کمزوروں کو مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ جماعت کو مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنا اور اپنے نفس اور اپنے لوگوں کو ثبات دینے کی خواہش، مضبوط کرنے کی خواہش ہر شریف الطبع اور نیک فطرت کو ہوتی ہے اور ہو سکتی ہے۔ بدفطرت کو تو یہ خواہش کبھی نہیں ہو سکتی۔ ایسے لوگ جو اپنی ذات سے بالا تر ہو کے سوچتے ہیں اُن کو یہ خواہش ہوتی ہے۔ پس جو اپنی ذات سے بالا ہو کر سوچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں، اُن کا خرچ کبھی دولت کے اظہار کے لئے نہیں ہوتا۔ نہ احسان کرنے اور احسان جتانے کے لئے ہوتا ہے۔ اور ایسے خرچ میں صرف دولتمند ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ غریب بھی شامل ہوتے ہیں۔ غریب بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے خواہشمند ہوتے ہیں بلکہ عموماً دولتمندوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے خواہشمند غریب لوگ ہوتے ہیں۔ انبیاء کی جماعتیں جب بنتی ہیں تو ان میں بھی اکثریت غرباء کی ہوتی ہے اور اس غربت کے باوجود اپنے بھائیوں کی مدد کر کے اُن کی خدمت کرتے ہیں اور جماعت کی بھی جوخدمت وہ کر سکتے ہیں، جس حد تک اُن کی وسعت ہو وہ کرتے ہیں اور اسے مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انفرادی طور پر ایک دوسرے کو مضبوط کرنے کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں ہجرتِ مدینہ کے وقت نظر آتی ہے کہ جب انصار نے مہاجرین کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے، اُن کی مدد کرنے کے لئے بے مثال قربانی دی۔ پھر جماعتی طور پر بھی صحابہ کے ہی نمونے نظر آتے ہیں۔ جب بھی کسی مہم کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چندے کی تحریک ہوئی یا کسی بھی مقصد کے لئے چندے کی تحریک ہوئی تو جو کچھ پاس ہوتا اُس کا بہترین حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں دے دیتے۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی تحریک امیر اور غریب دونوں کو کی ہے۔ یہ تحریص ہر ایک کو دلائی ہے کہ اگر خدا کی راہ میں خرچ کرو گے تو اپنی اپنی طاقت اور حیثیت کے مطابق جو بھی کوئی خرچ کر رہا ہو گا، اُس کی اس قربانی کے دوگنے پھل اسے ملیں گے۔ غریبوں کو بھی تسلی کروا دی کہ خالص ہو کر جو خرچ اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور اُس کی رضا چاہتے ہوئے کیا جائے تو خدا تعالیٰ ضرور اس کا بدلہ دیتا ہے، جس کے بارہ میں دوسری جگہ قرآنِ کریم میں بھی بیان ہوا ہے کہ سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ خدا دے سکتا ہے۔ یہاں یہ کوئی شرط نہیں ہے کہ بڑی رقموں کو اور بڑی قربانیوں کو قبول کیا جائے گا بلکہ اصل قربانی کی روح ہے جسے خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے۔ بلکہ ہر عمل کی نیت ہے جسے خدا تعالیٰ قبول کرتا ہے۔ بعض اوقات یہ ہوتا ہے کہ بڑی قربانی کے مقابلے میں بظاہر چھوٹی سی قربانی زیادہ رتبہ پاتی ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک درہم، ایک لاکھ درہم کے مقابلے میں آج سبقت لے گیا۔ صحابہ نے عرض کی کہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص کے پاس دو درہم تھے۔ اُس نے ایک درہم کی قربانی کر دی۔ اور ایک دوسرے شخص کے پاس بے شمار دولت اور جائیداد تھی اس نے اس میں سے ایک لاکھ درہم کی قربانی کی۔ (سنن النسائی کتاب الزکاۃ باب جہد المقل حدیث نمبر 2527) جو اس کی دولت کے مقابلے میں بہت کم تھی، گو کہ بہت بڑی رقم ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا معیار جذبہ اور نسبت کا ہے، مقدار کا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں بھی اس آیت میں غریبوں کی تسلی فرما دی کہ جس طرح زرخیز زمین پر تھوڑی بارش باغ کو پھلوں سے بھر دیتی ہے اسی طرح اپنی حیثیت کے مطابق نیک نیتی سے کی گئی تھوڑی سی قربانی بھی نیک عمل کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پا کر بڑی قربانی کرنے والوں کے برابر لا کھڑا کرتی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ درجہ میں بڑھا بھی دیتی ہے۔ جیسا کہ اس ایک مثال سے ثابت ہے جو میں نے پیش کی۔ پھر اللہ تعالیٰ اسی آیت میں فرماتا ہے وَاللّٰہُ بِمَاتَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(البقرہ: 266) کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے دیکھ رہا ہے۔ یہ کہہ کر یہ واضح کر دیا کہ اللہ تعالیٰ دلوں کا حال جانتا ہے۔ وہ تمہارے جذبے کو جانتا ہے۔ وہ اس روح کو جانتا ہے جس سے تم قربانی کرتے ہو۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے ہاں جب بدلے ملتے ہیں تو دلوں کے اور نیتوں کے عمل کے مطابق ملتے ہیں، نیتوں کے مطابق ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہاری مالی حیثیت جانتا ہے۔ تم نے جوقربانی کی اگر اس حیثیت سے کی تو جو بھی بدلہ ملے گا اس کے مطابق ملے گا۔ اس لئے قربانیوں کی قبولیت بھی اس نیت کے مطابق اور عمل کے مطابق درجہ پاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی جب آپ مالی تحریک فرماتے تو غریب بھی اور امیر بھی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مالی قربانی کرتے تھے۔ آپ کے ماننے والوں کی اکثریت بھی غرباء کی تھی اور ان کی قربانیاں بھی رقم کے لحاظ سے بہت معمولی ہوا کرتی تھیں لیکن یہ جو طَلٌّ ّ معمولی بارش بھی ہے، ایسی فائدہ مند ہوئی کہ اُن قربانیوں کو اتنے پھل لگے جو آج تک اُن بزرگوں کی نسلیں کھا رہی ہیں۔ پس یہ اُن نسلوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ جن میں سے بعض آج بہت زیادہ حیثیت کے ہو چکے ہیں، مالی لحاظ سے بہتر ہو چکے ہیں کہ اُن کی قربانیوں کو اب وَابِلٌ تیز بارش کا نمونہ دکھانا چاہئے۔ یہ صورت اختیار کرنی چاہئے تاکہ اُن کے اور ان کی نسلوں کے اعمال کے درخت ہمیشہ سرسبز رہتے چلے جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ایک روپیہ قربانی کرنے والے کا ذکربھی اپنی کتابوں میں فرمایا ہے جو معمولی قربانی تھی، جس نے مستقل اپنے اوپر لازم کر لیا تھا کہ ایک روپیہ ہر مہینہ ادا کریں گے۔ آپ کے صحابہ کے کیسے کیسے قربانی کے نمونے تھے اُن میں سے مَیں ایک مثال دیتا ہوں۔ چوہدری عبدالعزیز صاحب احمدی اوجلوی پٹواری تھے۔ اُن کے بارے میں قاضی محمد یوسف صاحب پشاوری فرماتے ہیں کہ گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مالی قربانی کی تحریک کی۔ چوہدری عبدالعزیز صاحب پٹواری خود آ کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں ایک سو روپیہ چاندی کا پیش کر کے گئے اور کہا کہ خاکسار کے پاس یہی رقم موجود تھی جو میں لے آیا ہوں۔ قاضی صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس پٹواری کی اس قربانی پر بڑی حیرت ہوئی اور رشک بھی آیا کہ ایک پٹواری جس کو چھ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے اس نے کس طرح اخلاص کے ساتھ قربانی پیش کی ہے۔ قاضی صاحب پھر لکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس کے اخلاص کے عوض اس پر بڑے فضل کئے۔
یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں تقویٰ بہت تھا۔ تقویٰ میں بڑھے ہوئے تھے۔ آپ سے جو براہِ راست فیض پا رہے تھے اس کی وجہ سے اُن کے تقویٰ کے معیار بہت بلند تھے۔ چوہدری صاحب بھی تقویٰ میں بڑھے ہوئے تھے۔ دوسرے پٹواریوں کی طرح نہیں تھے۔ ہمارے ملک میں پٹواریوں کے بارے میں مشہور ہے کہ تنخواہ بیشک ان کی تھوڑی ہو لیکن ان کی زائد آمدنی بہت زیادہ ہو جاتی ہے جو مختلف ذریعوں سے وہ زمینداروں سے، چھوٹے زمینداروں سے وصول کرتے رہتے ہیں۔ اور بعض ایسے بھی ہیں جو جب ریٹائر ہوتے ہیں تو اُن کے پاس دولت بھی ہوتی ہے، کئی کئی ایکڑوں کے مالک ہوتے ہیں بلکہ سو سو ایکڑوں کے مالک بن جاتے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ میرے ساتھ سکول میں ایک پٹواری کا لڑکا پڑھا کرتا تھا اور اس کا رہن سہن رکھ رکھاؤ، کپڑے ایسے ہوتے تھے جو ہزاروں کمانے والا کوئی بچہ بھی نہیں رکھ سکتا۔ اور خود بتاتا تھا کہ میرے باپ کی تنخواہ تو پینتالیس روپے ہے لیکن اللہ کا بڑا فضل ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو معیار ہیں وہ بدل گئے ہیں۔ جو ناجائز آمد ہے وہ اللہ کا فضل بن گیا اور جو جائز آمد ہے وہ حکومت کی تنخواہ بن گئی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آ کر ہمیں بتایا کہ صحیح اللہ کا فضل کیا ہوتا ہے۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں نہ کسی مہدی کی ضرورت ہے، نہ مسیح کی ضرورت ہے، نہ مصلح کی ضرورت ہے۔ اگر اس چیز کو یہ تسلیم کر لیں کہ اس کی ضرورت ہے اور ماننے والے کو مان لیں تو تب صحیح پہچان ہو سکتی ہے کہ اللہ کا فضل کس طرح ہوتا ہے اور کیا چیز ہے؟یہ تو احمدی کو پتہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہر قسم کی قربانی کا کرنا اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا فضل کس طرح ہوتا ہے؟ وَابِل ہو یا طَلّ، تیز بارش ہو یا ہلکی بارش، بڑی قربانی ہو یا تھوڑی قربانی، دولتمند ہوں یا غریب، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کی گئی قربانیاں دوگنے پھل لاتی ہیں۔ جیسا کہ حضرت چوہدری عبدالعزیز صاحب کے بارہ میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اس اخلاص کے بے انتہا پھل لگائے۔ تنخواہ کے ساتھ شاید تھوڑی سی اُن کی زمین بھی ہو۔ پٹواری عموماً دیہاتوں کے رہنے والے ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ زمیندارہ ہوتا ہے جس کی آمد بھی ہوتی ہو گی۔ اس کی وجہ سے کچھ رقم بھی جمع کر لی ہو گی۔ وہ سب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں لا کے رکھ دی۔
ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو کبھی پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں سے پیسوں کی ضرورت ہو۔ اللہ تعالیٰ جب قربانی کے لئے فرماتا ہے تو بندے کو ثواب دینے کی خاطر۔ اور یہی حال اللہ تعالیٰ کے انبیاء کا ہوتاہے۔ انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ جماعت کے جواخراجات ہیں کس طرح پورے ہوں گے؟ اللہ تعالیٰ جب کام شروع کرواتا ہے، کسی کو بھیجتا ہے تو اس کے لئے اسباب بھی مہیا فرما دیتا ہے۔ ظاہری تحریک انبیاء ضرورکرتے ہیں اور اس کے بعد خلفاء بھی کرتے ہیں لیکن ضرورت پوری کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی یہ وعدہ ہے۔ اس لئے آپ نے ایک جگہ اس بات کا اظہار بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدہ فرمایا ہے کہ خرچ کے لئے رقم کہاں سے آئے گی۔ آپ نے فرمایا یہ تو بہت آئے گی لیکن اس کو دیکھ کر تم لوگ دنیا دار نہ ہو جانا۔ یعنی انفرادی طور پر بھی جماعت کو خوشخبری دے دی کہ تم لوگوں کو کشائش عطا ہو گی اور جماعتی طور پر بھی کشائش پیدا ہو گی۔ پس جماعتی طور پر جو کشائش پیدا ہو تو جن کے ہاتھ میں خرچ ہے اُن کو بھی ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم کسی بھی قسم کا غیر ضروری خرچ نہ کریں۔ ہر پیسے کو سنبھال کے اور احتیاط سے خرچ کریں۔ غریب قربانی کر رہے ہیں یا امیر قربانی کر رہے ہیں، اس کو سوچ سمجھ کر خرچ کرنا یہ خرچ کرنے والوں کا کام ہے اور بہت اہم کام ہے تا کہ جہاں وہ خدمتِ دین کر رہے ہیں، خدمتِ سلسلہ کر رہے ہیں تو ان خرچوں کو سنبھال کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بھی بنیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قربانی کی جو روح جماعت میں پیدا کی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں جماعت ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔ صحابہ کی قربانیوں کے نمونے نئے آنے والے بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے دور دراز علاقوں میں جہاں جہاں بھی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں، غریب لوگ ہیں لیکن مالی قربانیاں بھی کرتے ہیں۔ ہلکی بارش بھی ان کی قربانیوں کو پھلوں سے لاد رہی ہے اور وَابِلٌ کے نمونے بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ تیز بارش کی طرح مالی قربانیوں میں ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اُن کے کاروباروں کو کئی گنا بڑھاتی چلی جا رہی ہے۔ اس وقت میں نے چند واقعات لئے ہیں جو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ مثلاً انڈیا سے وہاں کے ناظم وقفِ جدید لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال 2010ء میں گجرات کے دورے پر گیا تو وہاں گاندھی دھام ایک جگہ ہے اس کے ایک دوست کے پاس جب وقفِ جدید کا چندہ لینے گیا تو ان کا چندہ وقفِ جدید اس وقت تیرہ ہزارروپے تھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں ان کے مالی حالات جانتا تھا۔ مَیں نے انہیں تحریک کی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت نوازا ہے۔ آپ اپنا وعدہ پچاس ہزار روپے کر دیں۔ موصوف نے اسی وقت پچپن ہزار روپے کا چیک کاٹ کر دے دیا اور کہا کہ دعا کریں میرا ایک کاروبار ہے اس میں میرے اکیس لاکھ روپے پھنسے ہوئے ہیں جو ملنے کی امیدنہیں بن رہی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ دو چار دن کے بعد ہی اُن کی جو رُکی ہوئی رقم تھی وہ اکیس لاکھ روپیہ ان لوگوں نے خود آ کر ان کو دے دیا۔
اسی طرح ہمارے انسپکٹر وقفِ جدید ہیں، وہ کہتے ہیں کوئمبٹور جماعت میں تامل ناڈو میں ایک مخلص دوست جنہوں نے دس سال پہلے بیعت کی تھی۔ جب انہیں وقفِ جدید کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور ان کو کہا کہ آپ تیس ہزار روپے اپنا وعدہ لکھوائیں کیونکہ آپ کی آمد کافی ہے۔ انہوں نے کہا مولوی صاحب! میں نے آپ کی باتیں سن لی ہیں۔ مَیں تیس ہزار نہیں بلکہ پچاس ہزار روپے کا وعدہ لکھواتا ہوں۔ اس پر کہتے ہیں میں نے اُن سے کہا کہ یہ شاید آپ کی طاقت سے بڑھ کر ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر جودینا ہے تو پھر آپ کو اس سے کیا؟ مجھے پتہ ہے کتنی میری طاقت ہے اور اللہ تعالیٰ کس طرح نوازتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں پھر انہوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور کہتے ہیں میری آمد اب اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس سال کے لئے انہوں نے تحریکِ جدید اور وقفِ جدید دونوں کا اپنا وعدہ ایک ایک لاکھ روپیہ لکھوایا ہے۔
پھر صوبہ بنگال کے انسپکٹر وقفِ جدید شیخ محمد داؤد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک نو احمدی ہیں جو مدرسہ میں پڑھاتے تھے۔ اس کے بعد پھر انہوں نے معلم کی ٹریننگ لی اور پانچ سو روپیہ چندہ دیتے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل فرمایا۔ اب ان کا پانچ ہزار روپیہ چندہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں غیر احمدی تھا تو لوگوں کے دروازے پرجا کر کھانا کھاتا تھا اور اب بیعت کرنے کے بعد چندے کی برکت سے لوگ میرے دستر خوان پر کھاتے ہیں۔ پہلے جائیدادنہیں تھی اور اب جائیداد بھی بن گئی ہے۔
پھر تامل ناڈو کی جماعت کوئمبٹور کی جو اکثریت ہے وہ نو احمدیوں کی ہے جس میں زیادہ تر احبابِ جماعت نے دس سے پندرہ سال قبل بیعت کی تھی۔ سو اس میں سے اللہ کے فضل سے پچاس فیصد جو زیادہ کمانے والے ہیں وہ اب تک موصی بن چکے ہیں۔ چند سال پہلے ایک شخص نے بیعت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی کہ چندے میں غیر معمولی اضافہ کیا۔ اور وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے کاروبار میں اضافہ کر دیا ہے اور میرے غیر از جماعت رشتے دار حیران ہیں کہ تمہارے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ مَیں ان کو یہی کہتا ہوں جو بھی ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احمدیت کی برکت ہے۔ یہ تو مَیں نے انڈیا کے حالات بتائے ہیں۔ افریقہ میں وہاں کے دور دراز علاقوں میں لوگوں کا قربانی کرنے کا کیا جذبہ ہے، یہ دیکھیں۔ گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک بھائی فوڈے با کولی (Fodayba Colley) ایک غریب آدمی ہیں، جب انہیں وقفِ جدید کے چندے کے لئے کہا گیا تو انہوں نے بتایا کہ تنگدستی کی وجہ سے وہ تو فاقوں سے ہیں۔ تین دن بعد یہ دوست مشن ہاؤس آئے اور پچاس ڈلاسی دئیے اور کہا کہ مَیں چاہتا ہوں کہ برکت کی خاطر میرا نام بھی چندہ ادا کرنے والوں کی فہرست میں شامل ہو جائے۔ یعنی فاقے کی نوبت بھی ہے لیکن اس کے باوجود چندہ دینے کی خواہش ہے کہ کہیں میں محروم نہ رہ جاؤں۔ یہ عجیب جذبہ ہے۔
پھر ایک اور صاحب تھے، انہوں نے بھی اسی طرح کہا کہ مَیں بہت غریب ہوں، ضرورت مند ہوں، میرے پاس کچھ نہیں لیکن سو (100) ڈلاسی دئیے۔
جماعت بینن کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نو مبائع جماعت اور ا کامے (Avrakame) کے جنرل سیکرٹری لطیفو لامیدی صاحب کچھ عرصے سے بیروزگاری کے حوالے سے بہت پریشان تھے۔ محنت مزدوری اور کاروبار ڈھونڈھنے کے سلسلے میں نائیجیریا بھی گئے لیکن کچھ نہ بنا اور پریشان ہی واپس لوٹے۔ اب وقفِ جدید کے آخری دو ماہ نومبر، دسمبر رہ گئے تھے اور یہ اس چندے میں بقایا دار تھے۔ انہیں جب وقفِ جدید کا چندہ دینے کا کہا گیا اور بتایا گیا کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مشکل حالات میں خرچ کرنے والوں کے لئے بھی خاص انعامات ہوتے ہیں تو یہ اگلے دن چندے کی رقم لے کر آگئے اور کہنے لگے کہ جب سارا گھر قرض لے کر کھا رہا ہے تو کیوں نہ خدا کی راہ میں بھی خرچ کے لئے قرض اٹھا لیا جائے۔ شاید اللہ ہمارے دن موڑ دے۔ تو اللہ تعالیٰ کا فضل اس طرح نازل ہوا کہ چندہ دینے کے تیسرے دن انہیں ایک خاصے امیر گھرانے میں ملازمت مل گئی اور اتنی اچھی تنخواہ ملی کہ دو ماہ میں ان کے تمام قرضے بھی اتر گئے۔ انہوں نے ایک موٹر سائیکل بھی خرید لی اور اب ہر جگہ کہتے ہیں کہ یہ میرے چندے کی برکت ہے۔
بینن میں ہی جماعت اور ا کامے (Awrakame) جو (نام) پہلے بتایا تھا۔ وہاں معلم صاحب چندہ لینے کے لئے گئے۔ اس علاقہ کے بہت سے لوگوں نے جو جگہ ہے’اور ا کامے‘ (Awrakame) اس کے صدر جماعت کے پیسے دینے تھے۔ اور یہ بہت بڑی رقم بنتی تھی۔ مگر کافی عرصے سے ادھار لینے والے رقمیں نہیں دے رہے تھے جس کی وجہ سے صدر صاحب اور ان کے گھر کے بعض افرادنے اپنا وقفِ جدید کا مکمل چندہ ادا نہیں کیا۔ معلم صاحب نے صدر اور ان کے گھر والوں کو سمجھایا کہ دیکھو وعدہ ایک قرض ہے۔ جب تم لوگ خدا کا قرض ادا کرنے کے لئے پس و پیش کرتے ہو تو دوسرے لوگ تمہارا قرض ادا کرنے کے لئے کیوں نہ پس و پیش کریں۔ یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی اور انہوں نے فوراً اپنا وقفِ جدید میں سارے گھرکا چندہ بے باق کیا اور کہتے ہیں کہ لو معلم صاحب، مَیں نے تو خدا کا ادھار چکا دیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرح اپنا فضل فرمایا کہ ہفتے کے اندر اندر جن لوگوں نے ان کے پیسے دینے تھے وہ سب آئے اور ان کی رقمیں واپس کر گئے۔ اب انہوں نے ایک ایکڑ زمین خریدی ہے جس میں سے آدھی چار کنال جگہ مسجد کے لئے جماعت کو دی ہے۔
مبلغ نائیجیریا بیان کرتے ہیں کہ لوکوجہ جماعت کی ایک خاتون اسوت حبیب (Aswat Habib) صاحبہ بتاتی ہیں کہ مَیں اپنے گھر میں کپڑوں کی، گارمنٹس کی دکان چلاتی ہوں، لیکن اب میرے شوہر نے سکول کھولا ہے جس کی وجہ سے میرا زیادہ وقت سکول کے کاموں میں گزرتا ہے۔ اور سکول بھی گھر سے دور ہے جس کی وجہ سے دکان کے کام میں آمدنی کم رہی۔ یہ بات میرے لئے پریشان کن تھی۔ ایک دن مربی صاحب نے چندہ وقفِ جدید میں قربانی کی تحریک کی اور مجھ سے جتنا ہو سکتا تھا میں نے اس میں ادا کر دیا۔ اُسی دن چند گھنٹوں کے بعد جب مَیں نے اپنی گارمنٹس کی دکان کھولی توچند گھنٹوں میں اتنی سیل ہوئی جو پہلے ہفتوں میں نہیں ہوتی تھی۔ یہ صرف خدا کی راہ میں چندہ دینے کی برکت ہے جس نے مجھے اتنا نوازا۔
وِدْگُوریجن کے مبلغ لکھتے ہیں جیالو سیکو (Diallo Seko) صاحب جو یہاں کے گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ سال بیعت کی ہے اور بیعت کے بعد انہوں نے فوراً چندہ دینا شروع کردیا اور اس چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس مخلص نو مبائع کو ایسی برکت سے نوازا کہ اس کی فصل اسی سال گزشتہ سال کی نسبت دوگنا ہو گئی۔ اور اب انہوں نے وقفِ جدید میں دوبارہ اناج کی صورت میں چندہ دیا ہے۔
امیر صاحب برکینا فاسو لکھتے ہیں کہ گاوا ریجن (Gava Region) کے صدر جماعت ہیما یوسف (Hema Yousaf) صاحب بتاتے ہیں کہ ایک روز جیب میں صرف تین ہزار فرانک تھے۔ اہلیہ نے کہا کہ گھر میں پکانے کو کچھ نہیں ہے، لا کر دیں۔ کہتے ہیں کہ اسی اثناء میں مَیں پیسے لے کرمشن ہاؤس گیا تو وہاں مربی صاحب نے چندے کے وعدے کے متعلق یاددہانی کروائی کہ آپ کا وقفِ جدید کا چندہ رہتا ہے۔ خاکسار نے یہی سمجھا کہ آج میرا امتحان ہے۔ مَیں نے اسی وقت یہ تہیہ کیا کہ چندہ ہی دوں گا اور فوراً تین ہزار فرانک کی رسید کٹوا لی اور اللہ تعالیٰ کو میری حقیر قربانی بہت پسند آئی۔ اسی روز میرے کام کے سلسلے میں ایک شخص گھر آیا اور تین لاکھ فرانک نقد دے کر کہنے لگا کہ میرا آرڈر بک کر لیں اور یہ رقم ایڈوانس کے طور پر رکھ لیں۔ بقیہ کام مکمل ہو گا تو ادا کروں گا۔ یوسف صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس روز سے میرا اللہ تعالیٰ پر توکل بہت بڑھ گیا ہے۔ خصوصاً مالی مشکلات تو بالکل ختم ہو گئی ہیں۔ بنفورا (Banfora) ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دوست سوادوگو (Sawadogo) صاحب چار سال قبل احمدی ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ اخلاص میں ترقی کی اور چندے ادا کرنے شروع کئے۔ ایک روز بیان کرنے لگے کہ سب سے پہلے چندوں کے نظام میں شامل ہو جائیں کیونکہ اس کی بیشمار برکات ہیں اور اس کا ثبوت میری اپنی ذات ہے۔ کیونکہ احمدیت میں داخل ہونے سے قبل اور چندوں کی ادائیگی سے قبل میں اکثر لوگوں سے قرض اور ادھار لیتا تھا۔ مگر آج اللہ تعالیٰ نے میری حالت کو یکسر بدل دیا ہے اور چندہ ادا کرنے کی برکت سے میں اس قابل ہوا ہوں کہ لوگوں کو ادھار رقوم دیتا ہوں۔ پہلے لوگ میرے در پر مجھ سے اپنی رقوم لینے آتے تھے مگر آج امام مہدی علیہ السلام کی برکت سے لوگ میرے در پر مدد مانگنے آتے ہیں۔ نائیجر، ایک غریب اور پسماندہ ملک ہے، ان لوگوں کو لینے کی عادت تو ہے، دینے کی نہیں۔ لیکن خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جہاں بھی تبلیغ کی جاتی ہے وہاں مالی قربانی کے نظام کے بارہ میں بتایا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگ مالی قربانی کی طرف توجہ کر رہے ہیں۔ کئی دیہات ایسے ہیں جہاں پہلی دفعہ تبلیغ کی اور انہوں نے پہلے ہی دن کچھ نہ کچھ چندہ دیا۔
مبلغ لکھتے ہیں کہ امسال خدا تعالیٰ کے فضل سے وقفِ جدید کی مالی قربانی میں نائیجر کی سو فیصد جماعتیں شامل ہو چکی ہیں۔ اور گزشتہ سال وقفِ جدید میں شاملین کی تعداد ایک ہزار چار سو اٹھہتر تھی جبکہ امسال یہ تعداد بڑھ کے سترہ ہزار سات سو چھ ہے۔ یعنی وقف جدید میں سولہ ہزاردو سو اٹھائیس (16,228) نومبائعین کا اضافہ ہوا ہے۔
افریقہ میں صرف چندہ ہی نہیں بلکہ وہاں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑھ کر دوسری مالی قربانیاں کرنے کی بھی توفیق مل رہی ہے۔
لیگوس کے ایک مخلص احمدی ہیں الحاجی ابراہیم الحسن، انہوں نے اپنا نیا گھر بنایااور اس سے ملحق ایک مسجد اور تین فلیٹ پر مبنی ایک عمارت بنائی۔ مسجد کے بارہ میں ان کا ارادہ تھا کہ وہ اس کو جماعت کے حوالہ کر دیں گے۔ کہتے ہیں کہ ابھی میں اپنے اس نئے گھر میں شفٹ نہیں ہوا تھا کہ ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول میرے اس نئے گھر میں تشریف لائے ہیں اور آپ کے بعد خلیفہ ثانی اور خلیفہ ثالث اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع اور خلیفہ خامس سب تشریف لائے اور سب سے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے۔ آمد کے بعد حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہی اس گھر کے افتتاح کی تقریب ہے اور کوئی افتتاح کی تقریب نہیں ہو گی۔ اس کے بعد مسجد سے ملحق عمارت جس میں تین فلیٹس بنائے تھے اُن میں سے ایک فلیٹ میں آپؑ تشریف لے گئے اور فرمایا کہ یہ بھی مسجد کے ساتھ ہی جماعت کو دے دیں۔ کہتے ہیں کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور مَیں نے ارادہ کر لیا کہ فلیٹ بھی مسجد کے ساتھ ہی جماعت کو بطور مشن ہاؤس دے دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے یہ مسجد اور سارے فلیٹس بطور مشن ہاؤس جماعت کو دے دئیے ہیں جس کی کل مالیت نوّے ہزار پاؤنڈ بنتی ہے۔
ٹوگو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ نَوْچے ریجن کے ایک گاؤں میں جہاں کچھ عرصہ قبل احمدیت کا نفوذ ہوا تھا چندے کا آغاز ایک عجیب واقعہ سے ہوا۔ مخالفین وہاں پر بہت سا سامان اور پیسے لے کر گئے کہ ان کو دے کر احمدیت سے الگ کیا جائے۔ یہ ایک غریب گاؤں ہے اور لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ مخالفین نے ان سے کہا کہ ہم آپ کے لئے پیسے لے کر آئے ہیں جبکہ احمدی آپ سے چندہ مانگتے ہیں اور یہ سارے پیسے اکٹھے کر کے ان سے کاروبار کرتے ہیں۔ گاؤں والوں نے جواب دیا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو۔ تم ہمیں پیسے دینے آئے ہو تا کہ ہم ایمان سے ہٹ جائیں؟ اور احمدی ہم سے چندہ مانگتے ہیں تا کہ ہمارے ایمان مضبوط ہوں۔ اور پھر وہ ہمیں قرآن کی تعلیم بتاتے ہیں کہ ہر مسلمان کو خدا کی راہ میں کچھ نہ کچھ خرچ کرنا چاہئے اور ہم جانتے ہیں کہ احمدی اس چندے سے اسلام کی خدمت کرتے ہیں۔ کھا پی نہیں جاتے یا کاروبار نہیں کرتے۔ ہم بے شک غریب ہیں اور آپ کی رقم ہماری ضروریات پوری کر سکتی ہے لیکن جو تھوڑا بہت ہمارے پاس ہے ہم خدا کی راہ میں دینا پسند کریں گے۔ اس طرح وہ چندہ کے نظام میں شامل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک چندے کے نظام میں شامل ہیں۔ پس یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں کر رہے ہیں۔ تھوڑی قربانی بھی ہے۔ بڑی قربانی بھی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق ان کے پھلوں کو دوگنا کرتا چلا جا رہاہے۔ مالی قربانیوں کی ایک روح جیسا کہ ہم نے دیکھا جماعت میں نہ صرف قائم ہے بلکہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ نئے ہونے والے احمدی بھی اس میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ وقفِ جدید کا چندہ جو پہلے صرف پاکستان کے احمدیوں کے لئے ہی خیال کیا جاتا تھا۔ یعنی اس قربانی میں صرف پاکستانی احمدی ہی شامل ہوتے تھے۔ پھر خلافتِ رابعہ میں یہ پوری دنیا کے لئے عام کر دیا گیا۔ امیر ممالک سے یعنی مغربی ممالک سے اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے وقفِ جدید کا چندہ لینے کا بڑا مقصد یہ تھا کہ انڈیا اور افریقہ کے بعض ممالک جن کے اخراجات بڑھ رہے ہیں اور جماعتوں کی اکثریت بھی نومبائعین کی ہے جنہیں ابھی مالی نظام کا صحیح طرح پتہ نہیں اُن پر ہی رقم خرچ کی جائے۔ ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ مساجد کی تعمیر ہے اور دوسرے اخراجات ہیں۔ لیکن آپ نے دیکھا جو مَیں نے واقعات بیان کئے ہیں کہ اب نو مبائعین خود بھی کس طرح قربانیوں میں بڑھ رہے ہیں۔ اور ان کے خود قربانیوں میں بڑھنے سے وہاں کی ضروریات کچھ حد تک پوری ہو رہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ نئے مشن بھی کھل رہے ہیں۔ اس لئے امیر ممالک سے یا مغربی ممالک سے جو وقفِ جدید کا چندہ لیا جاتا ہے وہ دوسرے نئے منصوبوں پر خرچ کیا جائے گا جہاں اور مزید ضروریات بڑھ رہی ہیں، مساجد بن رہی ہیں، مشن ہاؤسز بن رہے ہیں، لٹریچر چھپ رہا ہے۔ یہ قربانیاں جو مغربی ممالک کے احمدی کر رہے ہیں جہاں ان کو اپنے ملک میں جماعتی پروجیکٹس کو اور کاموں کو آگے بڑھانے میں وسعت دینے میں کام آ رہی ہیں وہاں غریب ممالک میں احمدیت کی ترقی میں بھی یہ ممد بن رہی ہیں۔ اور یوں امیر ممالک کے قربانی کرنے والے لوگ بھی انفرادی طور پر بھی جو معمولی قربانی کر رہے ہیں بحیثیت جماعت ان کی قربانی تیز بارش کے نتائج پیدا کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے قبول فرماتا رہے۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یکم جنوری سے وقفِ جدید کا سال شروع ہوتا ہے اور جو مثالیں مَیں نے دیں وہ زیادہ تروقفِ جدید کی ہیں۔ واضح ہے کہ آج کے خطبہ میں وقفِ جدید کا نئے سال کا اعلان کیا جائے گا۔ اور گزشتہ سال کے کچھ اعداد و شمار پیش کئے جائیں گے۔ اللہ کے فضل سے وقفِ جدید کا یہ تریپنواں (53واں ) سال ہے جو 31؍دسمبر کو ختم ہوا ہے۔ الحمد للہ اس سال میں اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل ہوئے، اور وقفِ جدید میں جماعت کو اکتالیس لاکھ تراسی ہزار پاؤنڈ سے اوپر کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی اور گزشتہ سال کے مقابلہ میں یہ قربانی اللہ کے فضل سے چھ لاکھ چونسٹھ ہزار سے زائد ہے۔ اور اس میں قربانی کے لحاظ سے حسبِ معمول وحسبِ سابق پاکستان تو پہلے نمبر پر ہی ہے۔ اس کے بعد امریکہ ہے اور پھرUK ہے۔ پھر جرمنی ہے۔ UK نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک لاکھ پاؤنڈ کا اضافہ کیا ہے۔ اور جرمنی نے بھی اس دفعہ توUKسے وقفِ جدید میں اوپر آنے کے لئے پوری کوشش کی ہے اور دو لاکھ یورو سے زیادہ وصولی کی ہے لیکن پوزیشن گزشتہ سال والی ہے۔ پھر کینیڈا ہے۔ پھر انڈیا ہے۔ پھر آسٹریلیا ہے۔ آسٹریلیا کی ایک پوزیشن اوپر آ گئی ہے۔ انڈونیشیا ہے، بیلجیئم ہے اور دسویں نمبر پر سوئٹزر لینڈ ہے۔
اور مقامی کرنسی کے لحاظ سے، گزشتہ سال کے مقابلے پر زیادہ وصولی کرنے والی پانچ جماعتیں۔ نمبر ایک جرمنی ہے جس نے تینتیس فیصد اضافہ کیا ہے۔ پھر بھارت نمبر دو پہ ہے۔ پھر امریکہ ہے، پھر آسٹریلیا ہے۔ پھر بلجیم ہے۔
فی کس ادائیگی کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر ہے جن کا اکاسی (81) پاؤنڈ سے اوپر فی کس چندہ ہے۔ پھر نیچے سوئٹزرلینڈ ہے اڑتالیس پاؤنڈ، پھر آئر لینڈ ہے، پھر UK ہے۔ پھر جاپان ہے۔ فرانس، کینیڈا، سپین وغیرہ نے بھی کافی کوشش کی ہے۔ افریقہ میں وصولی کے لحاظ سے پہلی پانچ جماعتوں میں گھانا ہے۔ نائیجیریا ہے۔ پھر ماریشس۔ چوتھے نمبر پر برکینا فاسو اور پانچویں پر بینن ہے۔
اس سال وقفِ جدید کا چندہ ادا کرنے والوں کی تعداد میں پچیس ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح مجموعی تعداد چھ لاکھ سے اوپر ہے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا نائیجر نے اس دفعہ کوشش کی ہے تو انہوں نے حالانکہ چھوٹی سی جماعت ہے اور بالکل نئی جماعت ہے، سولہ ہزار شاملین کا اضافہ کر لیا ہے۔ اگر افریقہ کی باقی جماعتیں کوشش کریں تو یہ اضافہ بہت زیادہ ہو سکتا ہے۔ گھانا اور نائیجیریا کو تو مَیں اگلے سال کے لئے کہتا ہوں کہ کم از کم اضافی ٹارگٹ جو ہے وہ پچاس ہزار افراد کا رکھیں۔ اور ان کی گنجائش ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہو سکتا ہے۔
پھر پاکستان کے جو نتائج ہیں اس کے لحاظ سے اول لاہور ہے۔ کراچی ہے اور ربوہ ہے، اور ربوہ اور کراچی کا اتنا معمولی فرق ہے کہ اگر ربوہ کو پہلے پتہ ہوتا تو شاید کوئی ایک آدمی ادا کر دیتا۔ شاید چار پانچ ہزار روپے کا فرق ہے۔
بالغان میں دس اضلاع۔ سیالکوٹ، راولپنڈی، فیصل آباد، اسلام آباد، شیخو پورہ، گوجرانوالہ، سرگودھا، ملتان، گجرات اور عمر کوٹ ہیں۔ اطفال میں اوّل لاہور۔ دوم کراچی۔ سوم ربوہ ہے۔ اطفال کے پہلے دس اضلاع سیالکوٹ، راولپنڈی، اسلام آباد، شیخوپورہ، فیصل آباد، گوجرانوالہ، نارووال، گجرات، عمر کوٹ اور دسویں نمبر پر حیدر آباد۔
امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں۔ لاس اینجلیس، اِن لینڈ ایمپائر، سیلیکون ویلی، ڈیٹرائٹ، شکاگو ویسٹ اور بوسٹن ہیں۔ برطانیہ کی پہلی دس جماعتیں۔ ووسٹر پارک، مسجد فضل، رینیز پارک، برمنگھم ویسٹ، ویسٹ ہل، بریڈفورڈ نارتھ، بیکسلے اینڈ گرین وچ، چیم، مسجد ویسٹ اور وولورہیمپٹن۔
اور وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کے ریجن ہیں، مڈلینڈ ریجن، ساؤتھ ریجن، لنڈن ریجن، مڈل سیکس ریجن، اسلام آباد ریجن۔
جرمنی کی پانچ جماعتیں ہیں۔ ہیمبرگ، فرینکفرٹ، گرو س گیراؤ، ویزبادن اور ڈارمسٹڈ۔
وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی نمایاں جماعتیں ہیں۔ روڈر مارک، نوئے ایس، بروخسال، مورفیلڈن (جرمن خود ہی ان شہروں کاتلفظ درست کر لیں) روڈس ہائیم، مہدی آباد، بریمن، نیدر روڈن، وال ڈورف، وائن گارٹن۔
کینیڈا نے دفتر اطفال اور بالغان علیحدہ کیا ہوا ہے۔ باقی ممالک جہاں نظام اچھی طرح establish ہو چکا ہے اُن کو بھی میں نے کہا تھا یہ قائم کریں لیکن جرمنی اور امریکہ اور برطانیہ اس بارہ میں کوشش نہیں کر سکے کہ اطفال اور خدام کوعلیحدہ علیحدہ کر سکیں، لیکن کینیڈا بہر حال رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان کے بعد فی الحال کینیڈا ہے جس نے علیحدہ ریکارڈ رکھا ہوا ہے۔ اس چندہ بالغان میں مارکھم، پیس ولیج ساؤتھ، ویسٹن ازلنگٹن، کیلگری ساؤتھ، ووڈ برج۔ کینیڈا میں دفتر اطفال کی جماعتیں ہیں، ویسٹرن ساؤتھ، ویسٹرن نارتھ ویسٹ، ویسٹن، ازلنگٹن، مارکھم، پیس ولیج ساؤتھ۔ انڈیا کی جماعتیں کیرالہ، جموں کشمیر، تامل ناڈو، آندھرا پردیش، ویسٹ بنگال، کرناٹکہ، اڑیسہ، پنجاب، اتر پردیش، راجستھان، دہلی ہیں۔ پہلے مَیں نے صوبے بیان کئے تھے اور اب جماعتیں ہیں اور ان کی نمایاں جماعتیں کالی کٹ، کینا نور ٹاؤن، حیدرآباد، قادیان، چنائی، کلکتہ، کیرولائی، بنگلور، پنج گاڑی، کمبٹور، آسنور ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس نئے سال میں قربانی کرنے والوں کی توفیق کو بھی بڑھائے۔ جنہوں نے گزشتہ سالوں میں قربانیاں کی ہیں ان کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے اور پہلے سے بڑھ کر یہ قربانیاں کرتے چلے جانے والے ہوں۔ اور آئندہ بھی ہم جماعت کا ہر قدم ترقی پر دیکھنے والے ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
ایک افسوسناک اطلاع ہے۔ جرمنی کے مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب 4؍جنوری کو منگل کے دن وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کی پیدائش 1946ء کی تھی۔ اس لحاظ سے تقریباً چونسٹھ سال یا پینسٹھ سال عمر بنتی ہے، اگر شروع میں تھی تو پینسٹھ سال، ہاں پینسٹھ سال تقریباً۔ اور فرینکفورٹ میں ان کی تعلیم ہوئی۔ 1974ء میں ان کی شادی ماریشس کی ایک خاتون سے ہوئی جن سے ایک بیٹی ہیں۔ ان کی یہ اہلیہ 1989ء میں وفات پا گئی ہیں۔ پھر ان کی دوسری شادی قادیان میں سعید احمد درویش مہار صاحب کی بیٹی سے ہوئی جن سے ان کے تین بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔ بڑے مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے اسلام قبول کس طرح کیا؟ اس کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن اپنی والدہ کے گھر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سفید روشنی کندھے کے اوپر سے نکل کر کتابوں کی الماری کی طرف جاتی ہوئی نظر آئی جس میں سینکڑوں کتابیں ترتیب سے پڑی ہوئی تھیں۔ وہ روشنی ایک کتاب پر آ کر رُک گئی۔ آپ نے جب اٹھا کر اس کتاب کو دیکھا تو وہ جرمن ترجمہ قرآن تھا۔ آپ قرآنِ کریم کو اپنے ہاتھوں میں لے کر پڑھنے لگے اور قرآن میں کچھ حصہ پڑھنے کے ساتھ ہی آپ کو یقین ہو گیا کہ خدا تعالیٰ اپنی کتاب کے ذریعے بول رہا ہے۔ اور یہ کتاب سچی ہے اور مجھے اسے قبول کر لینا چاہئے۔ چنانچہ اسلام قبول کر لیا۔ یہ خیال آتے ہی پھر اس کے بعد مسجد کی تلاش شروع کر دی اور مسجدنور کا ان کو پتہ لگ گیا۔ اس طرح جماعت سے رابطہ ہوا اور مبلغ سلسلہ مکرم مسعود جہلمی صاحب مرحوم سے تعلقات ہوئے۔ انہوں نے بڑی محبت و شفقت سے ان کو اسلام اور احمدیت کا تعارف کروایا۔ 1969ء میں یہ بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے آپ کا نام ہدایت اللہ رکھا۔ 1970ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ جب فرینکفورٹ تشریف لے گئے تھے تو وہاں آپ کی حضور سے ملاقات ہوئی۔ امیر صاحب جرمنی بھی ان کے ذریعہ سے ہی احمدی ہوئے کیونکہ انہوں نے ان کو کافی تبلیغ کی۔ کیونکہ وہ حق کی تلاش میں قادیان میں گئے تھے اور وہاں یہ بھی جرمن تھے اس لئے انہوں نے ان کو ساتھ لے کر سارا قادیان پھرایا اور تبلیغ کی۔ ہمیشہ یہ مترجم کے طور پر اور خلفاء کے مترجم کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ بڑے درویش صفت اور نیک اور مخلص انسان تھے۔ خدا پر توکل انتہا کا پہنچا ہوا تھا۔ یعنی ایسے تھے جو بعد میں آئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ توکل اور ایمان اور یقین اور وفا اور محبت اور اخلاص میں وہ بہتوں سے آگے بڑھ گئے۔ خلافتِ احمدیہ سے ان کو عشق تھا۔ وفا کا تعلق تھا۔ یعنی کسی بھی معاملے میں ذرہ بھر بھی اختلاف نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اگر ایم۔ ٹی۔ اے پر خطبہ وغیرہ آ رہا ہوتا یا کوئی پروگرام خلیفہ وقت کا آ رہا ہوتا تو فوری طور پر بچوں کو چپ کرا دیتے اور خاموشی سے سننے کا کہتے اور خود بھی سنتے۔ نمازوں میں انہماک انتہا کا تھا۔ تہجد گزار، نوافل پڑھنے والے۔ مجھے یاد ہے گزشتہ سال مَیں نے وہاں جرمنی میں ایک دن کی ایک شوریٰ بلائی تھی۔ جرمن زبان میں جماعت کی طرف سے ہی ایک رسالہ وہاں شائع ہواتھا لیکن اس میں کچھ ایسا مواد تھا جس سے بعض لوگوں کو تحفظات تھے۔ بہر حال اس میں اس بارے میں ڈسکشن ہو رہی تھی اور مجھے وہ تحفظات صحیح لگ رہے تھے۔ حالانکہ ہدایت اللہ صاحب کا اس رسالے میں بڑا رول تھا اور ان کی خواہش تھی اور ان کے کچھ ان کی بچیوں کے بھی مضامین بھی اس میں تھے۔ بعض دوسروں نے تو اس رسالہ کے حق میں بول کے اس کے مضامین کو Justify کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ہدایت اللہ صاحب کھڑے ہوئے اور پہلی بات انہوں نے یہی کی کہ جن غلطیوں کی نشاندہی آپ کر رہے ہیں بالکل صحیح ہے اور مَیں اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں اور بہتر یہی ہے کہ اس پر غور کیا جائے۔ کوئی چوں چرا نہیں تھی کہ یہ ہونا چاہئے، وہ ہونا چاہئے۔ یا کسی بھی قسم کی تجویز نہیں دی کہ مَیں اب کیا کہتا ہوں۔ simple اعتراف تھا کہ ہمارے سے غلطی ہوئی ہے اور ہم معافی چاہتے ہیں۔ تو یہ ان کے اندر روح تھی۔ اس ایک سال میں بڑی عید وہاں کی توخاص طور پر بڑا زور دے کے مجھے اپنے گھر بلایااور پھر اپنے گھر کا ہر کمرہ دکھایا، اپنی لائبریری دکھائی اور سارا گھر تو خوش تھا ہی، ان کی جو خوشی تھی جو باقیوں سے ان کو ممتاز کر رہی تھی وہ دیکھنے والی تھی۔ خدمتِ دین کی اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی توفیق عطا فرمائی ہے۔ جرمن زبان میں اسلام کے بارے میں کافی کتب لکھی ہیں۔ میڈیا کے ساتھ ان کا بڑا گہرا تعلق تھا۔ سوال و جواب کی بہت ساری مختلف مجلسیں غیروں میں جا کے میڈیا پر کرتے تھے۔ جماعت جرمنی کے پریس سیکرٹری کے طور پر بھی آپ کو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ ایک صاحبِ علم شخصیت تھے اور ہر طرح سے کہنا چاہئے، جو بھی انسان میں، ایک مومن میں خصوصیات ہونی چاہئیں وہ ان میں پائی جاتی تھیں۔ ایم۔ ٹی۔ اے جرمن سٹوڈیوکے فعال رکن تھے اور جرمن پروگراموں کی یہ جان سمجھے جاتے تھے۔ جرمن زبان میں تبلیغی اور تربیتی لٹریچر کا ایک بڑا خزانہ انہوں نے جماعت جرمنی کے لئے چھوڑا ہے۔
جرمنی کے اخبارات اور متعدد ٹی وی چینلز پر اسلام اور احمدیت کا مؤقف بھر پور انداز میں پیش کرنے کی توفیق ملی۔ اور جرمن زبان کے ساتھ ساتھ انگریزی میں بھی ان کو عبور تھا۔ جرمن اور انگلش دونوں میں نظمیں بھی لکھا کرتے تھے۔ جامعہ احمدیہ میں جرمن زبان آج کل پڑھا رہے تھے اور بڑی محنت سے یہ فریضہ انجام دے رہے تھے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ نظمیں لکھتے تھے۔ بڑے اچھے شاعر تھے۔ ان کی شاعری کی کتب بھی شائع ہوئی ہیں۔ تقاریر بھی جلسے پر کیا کرتے تھے۔ قرآنِ کریم سے انہیں بے انتہا محبت تھی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بے انتہا اعتماد تھا۔ کسی مشکل یا پریشانی میں ایک ہی جواب ہوتا تھا کہ دعا کرو۔ نمازوں کی پنجوقتہ ادائیگی کے علاوہ نوافل اور تہجد کی طرف بھی التزام تھا۔ مالی قربانی کی طرف بھی توجہ رہتی تھی۔ ان کی بیٹی نے مجھے لکھا کہ کئی دفعہ کوئی مسئلہ ہوتا تھا تو ان کاپہلا جواب یہ ہوتا تھا کہ خلیفہ وقت کو دعا کے لئے خط لکھو اور خود دعاؤں میں جت جاؤ۔ اس کا ایک ہی حل ہے۔
ان کی تصنیفات جو جماعت سے باہر کی تصنیفات ہیں ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے جرمن زبان میں دو ایڈیشن ہیں۔ اسلام کے بارے میں ننانوے سوالات اور ان کے جوابات، اس کا بھی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ پھر ہے اسلام میں عورت کا مقام، یہ تیسری کتاب ہے اس میں کچھ سوالات اور ان کے جواب ہیں۔ اسی طرح اسلام میں ’’جنت اور جہنم کا تصور‘‘ ہے اور بھی بہت ساری کتابیں ہیں جو تقریباً بارہ کے قریب کتب ہیں جو انہوں نے مختلف مضامین پہ لکھیں اور جو ان کی احمدیت سے باہر شائع ہوئی ہیں۔ اور جماعتی طور پر جو ان کی کتب ہیں ان کی تعداد تقریباً چار ہے۔ اس کے علاوہ میگزین وغیرہ تھے، جن میں قادیان دارالامان اور پھر عورت کے کردار کے بارے میں کتاب تھی کہ اسلام میں عورت کا کردار۔ پھر اسلامی نظموں کے مجموعے ہیں۔ باقاعدہ جماعتی میگزین میں ان کے مضامین ہوتے تھے۔ مختلف موضوعات پر کتابچے اور بروشر جو ہیں ان کی تعداد تقریباً ایک سو بیس ہے۔ ٹی وی پروگرام اور ٹاک شوز میں شامل ہوتے رہے۔ جرمنی کے ایک مشہور یہودی کا پروگرام تھا جس کا موضوع تھا’’اسلام کتنا خطرناک ہے؟‘‘ اس میں شامل ہوئے اور اسلام کا دفاع کیا۔ پھران کا ایک ٹاک شو تھا ’’کیا اسلام قبول کرنے والے انتہا پسند ہیں؟‘‘ اس میں بھی انہوں نے بڑا کردار ادا کیا۔ غرض کہ کافی ٹی وی پروگرام ان کے تھے۔ قومی، بین الاقوامی سیاستدانوں اور اہم دانشوروں اور ادیبوں فنکاروں سے، صحافیوں سے آپ کے رابطے بھی تھے۔ اسلام کے ناقدین کے علاوہ اخباروں، رسالوں اور پبلشروں سے بھی رابطے رہتے تھے۔ جرمنی کے، بڑے روزنامے “Die Welt” میں آپ کے مضامین چھپتے رہے۔
آپ کی وفات پر جرمنی کے سولہ اخبارات نے خبر دی ہے اور ان میں کئی بڑے قومی اخبارات شامل ہیں۔ بہت سے مضامین میں آپ کو مسلمان ہونے والی سب سے مشہور شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا۔ حیسن صوبہ کے وزیر برائے مذہبی ہم آہنگی نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ اسلام اختیار کرنے والوں میں سب سے مشہور شخصیت تھے۔ فرینکفرٹ نیو پریس نے لکھا ہے کہ آپ ایک شاعر اور مبلغ تھے، ادب کے نوبل انعام یافتہ گنٹرکراس (Gunter Grass) نے آپ کو 1960ء کی دہائی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا ہے۔ آخری نظم جو آپ نے لکھی تھی اس میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہایت ادب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپؐ کی بدولت مجھے سچے اور پاک دین کو قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔
آپ کی جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ ایک اہلیہ ہیں اور آٹھ بچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا بھی نگہبان ہو۔ ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کے نقشِ قدم پر چلائے۔ ایک دو بچیاں تو ہیں جو جماعت کی خدمات کر رہی ہیں۔ تمام بچے ان کی خواہش کے مطابق جماعت کے خادم بنیں اور وفا کا جوتعلق انہوں نے جماعت کے ساتھ اور خلافت کے ساتھ رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی اس میں بڑھاتا چلا جائے۔
اسی طرح میں جرمنی کے احمدیوں کو، نوجوان نسل کو بھی کہتا ہوں کہ جرمن ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے احمدی مسلمان ہونے کا ایک حق ادا کیا تو آپ لوگ بھی ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں اور جرمنی میں اور یورپ میں جہاں بھی اسلام کے دفاع کی ضرورت ہے آگے بڑھیں، علم حاصل کریں اور سیکھیں اور ان کی زبان میں ان کو بیان کریں اور اسلام کا دفاع کریں۔ نہ صرف دفاع کریں بلکہ اسلام کی خوبیاں بیان کر کے اسلام کی برتری تمام مذاہب پر ثابت کریں۔ یہاں ایک وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ہدایت اللہ صاحب جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے لیکن بعض دفعہ کسی کے مقام کو بعض لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس سے دوسروں کے ذہنوں میں بعض سوال اٹھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ تأثر بھی بعض جگہ سے ملا ہے کہ منگل کے روز جو سورج گرہن ہوا تھا شاید سورج گرہن کا وہ وقت تھا اور ان کی وفات کا جو وقت تھا وہ ایک ہی تھا یا شاید اس سے سورج گرہن کی بھی کوئی نسبت ہو۔ اس قسم کی باتوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے ’’حضرت مغیرہ بن شعبہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آپؐ کے صاحبزادے ابراہیمؑ کی وفات کے دن سورج کو گرہن لگا تو بہت سے لوگ کہنے لگے کہ سورج کو ابراہیم کی وفات کی وجہ سے گرہن لگا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورج اور چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن دیکھو تو نماز پڑھو اور دعائیں کرو۔ (بخاری کتاب الکسوف باب الصلوٰۃ فی کسوف الشمس)
تمہار اصرف یہ کام ہے۔ پس کبھی گرہن دیکھیں تو یہ اصل طریق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نمازِ کسوف و خسوف پڑھی جائے۔ گرہن کی نماز پڑھی جائے۔
دنیا میں اس دن اور بھی بہت سارے لوگ فوت ہوئے ہوں گے، پیدا بھی ہوئے ہوں گے اور ہر ایک نے کسی نہ کسی کو کوئی نہ کوئی مقام دیا ہوتا ہے۔ پھر تو ہر ایک جو بھی ان کے اپنے قریبی ہیں، پیارے ہیں، ان کے بارے میں یہی کہیں گے کہ چاند گرہن، سورج گرہن جو لگا ہے وہ اس وجہ سے لگا ہے کہ فلاں کی وفات ہوئی ہے یا فلاں پیدا ہوا ہے۔ اس سے غلط قسم کی بدعات راہ پاتی ہیں۔ اس لئے احمدیوں کو ہمیشہ ان سے بچنا چاہئے۔ صرف وہ کریں جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ میں دعا کی ایک تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں۔ کل مردان میں مخالفین احمدیت نے پھر ہمارے بعض احمدیوں پر فائرنگ کی جس کی وجہ سے ہمارے ایک نوجوان میاں وجیہ احمدنعمان جو میاں بشیر احمد صاحب مردان کے بیٹے ہیں۔ پچیس سال ان کی عمر ہے۔ ان کے کولہے پر گولی لگی ہے۔ زخمی ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کوشفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور دشمنوں کو بھی کیفرِ کردار تک پہنچائے۔