خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 4؍ فروری 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْکِتْبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ۔ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (آل عمران آیت نمبر111)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔ اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہت بہتر ہوتا۔ اُن میں مومن بھی ہیں مگر اکثر ان میں سے فاسق لوگ ہیں۔ یہ آیت جو آپ نے ابھی سنی، اس کے بارے میں پہلے بھی مختلف موقعوں پر بیان کر چکا ہوں۔ لیکن یہ ایک ایسا مضمون ہے، ایک ایسی نصیحت ہے، ایک ایسی یاد دہانی ہے جس کا بار بار ذکر ہونا چاہئے اور مختلف زاویوں سے ذکر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان لانے والوں کے لئے، ایسے لوگوں کے لئے جو صرف ایمان کا دعویٰ ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہیں، اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہوئے اس میں مضبوطی پیدا کرتے چلے جانے والے ہیں۔ اپنے ایمان کی حفاظت اور اس کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ اپنی نسلوں کے ایمان کی حفاظت اور اس کی مضبوطی کے لئے بھی کوشاں رہتے ہیں۔ اور پھر صرف اپنی اور اپنے اہل و عیال کے ایمان کی حفاظت اور اس میں مضبوطی کی کوشش ہی نہیں کرتے بلکہ اپنے ماحول میں رہنے والے ہر مذہب کے ماننے والے بلکہ لا مذہبوں کو بھی اس لئے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر نیکیاں بجا لانے والے ہوں اور ایمان لانے والے بنیں، اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی ذمہ داری مومنوں پر ڈالی ہے۔ وہ مومن جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے اس زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور عاشقِ صادق کو مان کر اللہ تعالیٰ پر اپنے مضبوط ایمان کا اظہار کیا ہے۔ پس قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح جنہوں نے قرآنِ کریم کے احکامات اور ارشادات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو ہمیشہ سامنے رکھا اور شریعت اور قرآنی احکامات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کی تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکیں اور اس میں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب بھی ہوئے، اس زمانے میں ہم احمدیوں کا فرض ہے جو قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل اور مضبوط ایمان لانے کادعویٰ کرتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگیوں میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے اور قرآنی احکامات کو اپنے پر لاگو کرنے کے لئے زمانے کے امام مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے کہ ہم اپنے جائزے لیں کہ ہم کس حد تک خیرِ امت ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ہم کس حد تک انسانوں کے فائدے کے لئے ان کا درد دل میں رکھنے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ ہم کس حد تک اپنے قول کے ساتھ ساتھ اپنے عمل سے نیک باتوں کی تلقین کر رہے ہیں۔ ہم کس حد تک اپنے عمل اور نصائح سے دنیا کو برائیوں سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ جائزے ہم اپنی طرف سے کسی قسم کا خود ساختہ معیار بنا کر نہیں لے سکتے۔ یہ جائزے ہمیں اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے لینے ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے مقرر فرمایا۔ اس کا میں آگے جا کے ذکر کروں گا۔ اور جب تک ہم یہ جائزے لیتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے ہم ترقی کے راستے پر گامزن رہیں گے، انشاء اللہ۔

قوموں کا زوال ہمیشہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ خود ساختہ معیاروں کو سامنے رکھتے ہیں، جب وہ ہوا و ہوس میں گرفتار ہو جاتے ہیں، جب وہ بنیادی مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے گزشتہ انبیاء کا ذکر کر کے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سابقہ قوموں نے جب اپنی تعلیم کو بھلا دیا، جب اپنے مقصد سے روگردانی کرنی شروع کر دی تو پھر یا تو وہ تباہ ہو گئیں یا اُن میں اتنا بگاڑ پیدا ہو گیا کہ اصل تعلیم کی جگہ بدعات اور لغویات اُن میں رائج ہو گئیں جو روحانی اور اخلاقی تباہی ہے۔ برائیاں ان کی نظر میں اچھائیاں بن گئیں۔ پاکیزگی اور حیا اُن کی نظر میں فرسودہ تعلیم بن گئی۔ مذہب کی خود ساختہ تشریحات ہونے لگیں۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیم کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ انبیاء کی تعلیم کے نام پر غلط اور اپنی مرضی کی تعلیم اُن کتب کا حصہ بنا دی گئی جو انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا تقدس بھی باقی نہیں رہا اور نہ ہی انبیاء کا اور روحانی لحاظ سے وہ مردہ ہو گئیں۔ یہی حال آپ دیکھیں آج کل مغرب میں بسنے والی قوموں کا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام سے پہلے کے اور جتنے بھی مذہب اپنے آپ کو کسی سے منسوب کرتے ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے۔ مسلمانوں پرخدا تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے وعدے کے مطابق اس آخری شرعی کتاب کی حفاظت فرمائی۔ اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پہلے کسی نے ان الفاظ میں نقشہ کھینچا کہ ؎

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

لیکن ایک طبقہ ہر زمانے میں ایسا پیدا ہوتا رہا جو قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہا، اُس کی حفاظت کرتا رہا اور پھر آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا، مہدی معہود کو بھیجا۔ اور آج ہم سب احمدی اس مسیح موعود کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، اُس شخص کا ہاتھ بٹانے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جو ایمان کو ثریا سے زمین پر لایا۔ اُس امام سے منسوب ہونے والے ہیں جس نے دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حالت میں دنیا کے کونے کونے میں قائم کرنے کا عہد کیا ہے اور جس کی جماعت نے اس عہد کو پورا کرنا ہے۔ ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کونے کونے میں مسیح محمدی کے ذریعے دینِ اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری خود لی ہے اور ہمیں فرمایا کہ تم بھی اس تقدیرِ الٰہی کا حصہ بن جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ اور تم اس کے حصہ دار بن کے ثواب کماؤ گے۔ ہمیں کس طرح اس الٰہی تقدیر کا حصہ بننا ہے؟ اپنے اندر وہ انقلاب پیدا کر کے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا دے۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر کے، اپنے اندر سے ہر قسم کی برائیوں کو دور کر کے، اپنے قول و فعل میں یکجہتی وہم آہنگی پیدا کر کے۔

اب اس آیت میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ ایسی باتیں ہیں جو اگر ہم میں موجود ہوں اور اگر ہم ان کی تبلیغ کرنے والے ہوں تو یہ ہر پاک فطرت کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والی ہوں گی۔ یہ ضروری نہیں کہ ایسی تبلیغ کی جائے جو صرف مذہبی مسائل کے لئے ضروری ہے۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں جو ایک دنیا دار کو بھی اپنی طرف کھینچیں گی چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو بشرطیکہ وہ اخلاقی قدروں کی خواہش رکھتا ہے۔ اُس کے اندر ایک پاک فطرت ہے جو اچھے اخلاق کو چاہتی ہے، اچھی باتوں کو چاہتی ہے۔ بلکہ لامذہب اور دہریہ بھی اچھے اخلاق کو اچھا ہی کہیں گے۔ اچھی باتوں کو اچھا کہنے والے ہوں گے اور بری باتوں کو برا کہیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنی اس ذمہ داری کو سمجھو اور دنیا کے فائدے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیوں کی تلقین کرو اور برائیوں سے روکو۔ حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ دلاؤ اور حقوق العباد کے غصب کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کر کے ایسا عمل کرنے والوں کو توجہ دلاؤ، اُن کو روکو۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے سے پہلے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہو گی۔ اپنے اندر کے نظام کو ہم درست کریں گے تو ہماری باتوں کا بھی اثر ہو گا۔ اور اپنے اندر کے نظام کو درست کرنے کے لئے ہمیں ہر وقت یہ پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی میرے ہر قول اور فعل پر نظر ہے، میرے ہر عمل کو وہ دیکھ رہا ہے۔ دنیا کو تو میں نے پہلے صرف دنیاوی اخلاق سکھاتے ہوئے نیکی کی تلقین کرنی ہے اور برائی کی پہچان کروا کر اس سے روکنا ہے لیکن مَیں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت بھی کرنا ہے کہ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہ کہ یہ نصیحت کرنے والے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں اور اللہ پر ایمان اس وقت حقیقی ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی محبت سب رضاؤں اور محبتوں سے زیادہ شدید ہو گی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ  (البقرہ: 166) اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ انسان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے اس کا وہ سب سے زیادہ خیال رکھتا ہے۔ پس جب ایمان کا دعویٰ ہو تو اللہ تعالیٰ سے محبت بھی سب سے زیادہ مقدم ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ سے محبت ہو تو اس کے احکام پر عمل بھی سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ پس جب ہم اپنے جائزے لیں تو پھر احساس ہوتا ہے کہ خیرِ امت ہونا صرف ایمان لانے کا اعلان کرنا نہیں ہے۔ اسی سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں قدم بڑھانے سے خیرِ امت میں شمار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیوں کی تلقین کرنی ہو گی اور برائیوں سے دوسروں کو روکنا ہو گا۔ پھر ہم خیرِ اُمّت کہلا سکتے ہیں اور اس صورت میں جب ایک مومن آگے قدم بڑھائے گاتو ایک حقیقی مومن سب سے پہلے یہ دیکھے گا کہ جس بات کی میں نصیحت کرنے جا رہا ہوں کیا یہ نیکی مجھ میں ہے؟ جس برائی سے مَیں روکنے جا رہا ہوں کیا یہ برائی مجھ میں تو نہیں؟ وہ سوچے گا کہ ایک طرف تو ایمان کی وجہ سے میرا اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ ہے اور جن سے محبت کا دعویٰ ہو اُن کے سامنے تو انسان اپنے تمام حالات کو ویسے ہی ظاہر کر دیتا ہے۔ ہر راز کی بات ایک دوسرے کوپتہ لگ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ تو وہ محبوب ہے جو عالم الغیب والشہادۃ ہے۔ اس کو بتانے کی ضرورت نہیں وہ تو مخفی اور ظاہر سب علم رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ایک طرف تم ایمان کا دعویٰ کرتے ہو، محبت کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف مَیں جو تمہارے دلوں کو جانتاہوں، میں نے تو اس میں کھوٹ دیکھا ہے یا میں کھوٹ دیکھ رہا ہوں۔ تم جو کہہ رہے ہو وہ کر نہیں رہے۔

پس اگر ایک حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ کی اس بات پریقین ہو کہ اللہ تعالیٰ دیکھنے والا ہے، وہ عالم الغیب والشہادۃ ہے تو اس کا اندرونی خودحفاظتی کا جو خود کار نظام ہے وہ اُسے راہِ راست پر لے آئے گا بشرطیکہ ایمان ہو۔ پس ہم میں سے اگر کسی کا یہ خود حفاظتی کا خود کار نظام مؤثر نہیں تو ہمیں فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ایمان کا وہ معیار نہیں جو ہونا چاہئے۔ ہر بدی ہر معاشرتی برائی ہمیں آئینہ دکھا رہی ہوتی ہے۔ لیکن یہ آئینہ بھی اس وقت نظر آئے گا جب اللہ تعالیٰ کی محبت کی دل میں تڑپ ہو گی۔ اگر یہ احساس نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت غالب نہ ہو اور معاشرے اور دنیا داری کا زیادہ غلبہ ہو تو پھر برائیوں اور اچھائیوں کے معیار بدل جاتے ہیں۔ جماعت کی بعض روایات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور خلفاء نے مختلف وقتوں میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان کو جماعت میں قائم کیا ہے۔ بعض باتوں کو جماعت میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے سختی بھی کی گئی اور کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ ایک حقیقی مومن کا مقصدِ زندگی معروف پر عمل کرنا ہے۔ نیکیوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر نہ ہی وہ نیکیوں کی تلقین کر سکتا ہے اور نہ ہی برائیوں سے روک سکتا ہے۔ پس جب زمانے کے امام کے ساتھ اس لئے منسوب ہوئے کہ ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کریں گے اور خیرِ امت بننے کی کوشش کریں گے تو پھر دنیا داری تو چھوڑنی پڑتی ہے۔ خود ساختہ نیکیوں کے معیار نہیں بن سکتے۔ بلکہ نیکیوں کے معیار وہی بنیں گے جو اسلام کی تعلیم کی روشنی میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہدایت پا کرسکھائے ہیں۔ اور آپ نے ان کو جماعت میں رائج کرنے کی کوشش فرمائی ہے، تلقین فرمائی ہے۔ یہ ایک بہت اہم چیز ہے، ایک بہت اہم بات ہے جسے ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے۔

گزشتہ دنوں ایک جماعت میں خلافِ تعلیمِ سلسلہ ایک شادی پر بعض حرکات ہوئیں جس کی وجہ سے میں نے اُن لوگوں کے خلاف تعزیری کارروائی کی۔ اُن میں سے بعض ایسے تھے جو دین کا اتنا علم نہیں رکھتے تھے، روایات سے بھی واقفیت نہیں تھی گو کہ یہ کوئی عذر نہیں ہے۔ ہر احمدی کو اپنے حقیقی ایمان کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے۔ لیکن اُن میں سے بعض ایسے بھی تھے جو دین کا علم بھی رکھتے ہیں، جماعت کی خدمت کرنے والے بھی ہیں، جماعتی روایات اور تعلیمات کو جاننے والے بھی ہیں۔ انہوں نے بھی اُس شادی میں شامل ہو کر مداہنت دکھائی، کمزوری دکھائی اور برائی سے روکنا تو ایک طرف رہا وہاں بیٹھ کر وہ سب کچھ دیکھتے رہے جو لغویات ہوتی رہیں اور بجائے اس کے کہ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر پر عمل کرتے اُس برائی کا حصہ بن گئے اور بعد میں مجھے لکھ دیا کہ ہم تو اُن کی اصلاح کے لئے شامل ہوئے تھے۔ یہ عجیب اصلاح ہے کہ نہ اُن لوگوں کو برائی سے روکنے کی طرف توجہ دلائی، نہ نیکی کی تلقین کی اگر کوئی نیکی کی تلقین کی بھی تو مختلف موضوع پر۔ یہ عجیب اصلاح ہے کہ برائی کسی اور قسم کی ہو رہی ہے، اسے دیکھ کر تو اس میں شامل ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیکی کی تلقین کی، جو پتہ نہیں حقیقت میں کی بھی گئی کہ نہیں کی گئی لیکن اگر کی بھی تھی تو اس برائی کو روکنے کے لئے نہیں کی گئی بلکہ اور قسم کی نیکیوں کی تلقین کی جاتی رہی۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کسی چور کو چوری کرتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے روکنے کی بجائے، اسے پکڑنے کی بجائے، کسی کا نقصان ہونے سے بچانے کی بجائے اُس چوری میں اُس کی مدد کر دیں اور پھر بعد میں اس سے کہہ دیں کہ سچ بولنا بڑی اچھی بات ہے۔ سچ بولنا تو یقینا اچھی بات ہے لیکن اُس وقت نیکی کی تلقین یا اس برائی سے روکنا چور کو چوری سے بازرکھنا تھا۔ پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان ہے تو ایک احمدی کو معاشرے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ دین کو مقدم رکھنا ضروری ہے۔ آپ نے تو اپنی اولاد اور اپنے ماننے والوں کے لئے یہ دعا کی ہے کہ رعبِ دجال ان پر نہ آئے۔ تو مغرب میں رہنے والے اگر اس رُعبِ دجال کے اندر آ گئے تو پھر رہ کیا گیا۔ یہ جو واقعہ ہوا اس میں بہت سے لوگ ملوث تھے جیسا کہ میں نے کہا تو مجھے یہ کہا گیا کہ بہت سارے لوگ ہیں اس سے جماعت میں بے چینی پیدا ہو جائے گی۔ اُن کو میں نے یہی جواب دیا تھا کہ سزا تو بہر حال ملے گی۔ اگر جماعت میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، کچھ لوگ ٹوٹتے ہیں، جاتے ہیں تو بیشک چلے جائیں مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے۔ لیکن ہو گا وہی جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے، جس کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے، برائیوں اور لغویات سے بچنا۔

قول اور فعل کا جو تضاد ہے اُس کو خدا تعالیٰ نے بھی اور اللہ تعالیٰ کے رسول نے بھی ناپسند فرمایا ہے۔ پہلے بھی میں کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں، مجھ سے پہلے خلفاء بھی کہہ چکے ہیں کہ اس قسم کی شادیوں اور فنکشنوں پر سے احمدیوں کو اگر وہ کسی احمدی کے گھر میں ہو رہے ہیں تو اٹھ کر آ جانا چاہئے۔ ورنہ یہ بزدلی ہے اور معاشرے کی محبت کا اللہ تعالیٰ کی محبت پر حاوی ہونا ہے اور یہ عمل اُس برائی کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پیش کرنا چاہتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مومن کا معیار کیا ہونا چاہئے؟ اس حدیث کو پڑھ کر خوف سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ و سے روایت ہے کہ آپؐ فرماتے ہیں کہ چار خصلتیں ہیں جس میں ہوں وہ پورا منافق ہے۔ اور جس میں ان خصلتوں میں سے ایک خصلت ہو اُس میں نفاق کی بھی ایک ہی خصلت ہو گی جب تک وہ اسے نہ چھوڑ دے۔ اُن خصلتوں میں سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ خیانت کرتا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔ تیسری بات یہ کہ جب عہد کرتا ہے تو عہد شکنی کرتا ہے۔ اور چوتھی بات یہ کہ جب جھگڑتا ہے تو گالی بکتا ہے۔ (صحیح بخاری۔ کتاب الایمان۔ باب علامۃ المنافق)

حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب جنہوں نے جماعت میں صحیح بخاری کی کچھ شرح لکھی تھی۔ وہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ’’ایمان کی بحث میں نفاق کا ذکر لانے سے بھی وہی مقصود ہے جو کفر اور شرک اور ہر قسم کی بد اعتدالی اور نا شائستگی کے ذکر کرنے سے ہے۔ یعنی نفاق بھی ایمان کو ناقص کرنے والا ہے‘‘۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’جیسے جیسے کسی شخص میں ان علامتوں میں سے کوئی علامت پائی جائے گی ویسے ویسے اس میں نفاق زیادہ اور ایمان کم ہوتا جائے گا۔ نفاق کے معنی ہیں باطن کا ظاہر کے ساتھ مطابق نہ ہونا‘‘۔ (یعنی دل میں کچھ اور ہونااور ظاہر میں کچھ ہونا) ’’یا واقعہ کے خلاف ہونا‘‘۔ (کہ حقیقت کچھ اور ہو اور بیان کچھ اور کیا جائے)۔ ’’اور نفاق کی جو علامتیں آپؐ نے بتلائی ہیں وہ اس کی صحیح تفسیر ہیں۔ جھوٹ میں انسان کا قول، وعدہ خلافی میں انسان کا فعل اور خیانت اور غداری میں اس کی نیت یہ سب واقعہ کے خلاف ہوتے ہیں۔ معاہدہ توڑنا اور گالی دینا یہ بھی واقعہ کے خلاف کرنا ہے۔ غرض یہ موٹی موٹی مثالیں ہیں نفاق کی حقیقت بیان کرنے کے لئے۔ دل میں ایمان نہ ہو زبان پر ہو، یہ بھی حقیقتِ حال کے خلاف ہے۔ یا ایمان ہو مگر اقرار نہ ہو یہ بھی واقعہ کے خلاف ہے‘‘۔ (بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بڑا اچھا سمجھتے ہیں، لیکن دنیا کے سامنے اس کا اقرار نہیں کر سکتے تو یہ بھی نفاق ہے) ’’یا ایمان ہو اور عملاً اس کی تصدیق نہ ہو‘‘ (ایمان بھی لاتے ہوں لیکن عمل اس کے خلاف ہوں اس تعلیم کے خلاف ہوں ) ’’یہ بھی نفاق ہے۔ غرض جو بات بھی یہ رنگ رکھے گی وہ نفاق ہو گا‘‘۔ یہ معنی ہیں نفاق کے۔ (ماخوذاز شرح صحیح بخاری۔ مرتبہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب۔ جلد اوّل صفحہ81)

یہ برائیاں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کھول کر بیان فرمائیں اس زمانے میں ہمیں بہت زیادہ نظر آتی ہیں۔ اور معاشرے کے زیرِ اثر یقینا ہم میں سے بھی بعض ان میں سے کسی نہ کسی کا شکار ہیں یا ہو رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ان میں سے کسی ایک کا بھی ہونا دل کے ایک حصہ کو نفاق میں مبتلا کر دیتا ہے۔ شایدانہی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ’’آنحضرتؐ کے زمانے میں جو منافق تھے اگر وہ اس زمانے میں ہوتے تو بڑے بزرگ اور مومن سمجھے جاتے کیونکہ شر جب بہت بڑھ جاتا ہے تو اس وقت تھوڑی سی نیکی کی بھی بڑی قدر ہوتی ہے۔ وہ لوگ جن کو منافق کہا گیا ہے اصل میں وہ بڑے بڑے صحابہ کے مقابل پر منافق تھے‘‘۔ لیکن ہمیں یادرکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مان کر ہمارے معیار عام مسلمان سے اونچے ہونے چاہئیں۔ ہمارے لئے اس زمانے کے کمزور ایمان والے یا بعض باتوں میں کمزوریاں دکھانے والے اسوہ نہیں ہیں بلکہ وہ صحابہ اسوہ ہیں جو اعلیٰ معیار پر پہنچے ہوئے تھے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے جنت کی اور اپنی رضا کی خوشخبریاں دی ہیں۔ پس ہم نے وہ اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں۔ ہماری امانت کے معیار بہت اعلیٰ ہونے چاہئیں۔ قومی امانتیں ہوں، جماعتی امانتیں ہوں یا ذاتی امانتیں ہوں ہم نے ہر ایک کا حق ادا کرنا ہے۔ ہم کسی سرکاری دفتر میں کام کر رہے ہیں تو قطع نظر اس کے کہ ساتھ کا عملہ کیا عمل دکھا رہا ہے ہمارا اپنا امانت کا معیار ہونا چاہئے جو دوسروں سے ممتاز کرنے والا ہو۔ پرائیویٹ کمپنیوں میں کام کر رہے ہیں تو وہاں ایک احمدی کا نمونہ ہو جو دوسروں سے ممتاز کر رہا ہو۔ آج ہم بڑے فخر سے غیروں کو بتاتے ہیں کہ احمدی کا امانت کا معیار دوسروں سے بہتر ہے۔ لیکن صرف یہ بہتر ہونا کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ فخر کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ ترین معیار ہو۔ تیسری دنیا کے ملکوں میں جہاں ترقی کی رفتار نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ بعض جگہ تو منفی رفتار ہے، وہاں یہی وجہ ہے کہ ہر شعبے میں اور ہر جگہ پر اور ہر سطح پر امانت میں خیانت کی جا رہی ہے مثلاً پاکستان کو یہ تو بڑا فخر ہے کہ ہم مسلمان ملک ہیں لیکن اب جو نئے اعداد و شمار آئے ہیں، کرپشن کرنے والے ممالک میں اس کا نمبر پہلے سے بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح بعض اور مسلمان ممالک ہیں یا بعض ممالک کے مسلمان ہیں جن کے ہاتھ میں اختیارات ہیں لیکن خیانت میں بڑھے ہوئے ہیں اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ تو کیا صرف مسلمان ہونے سے خیرِ امت بن جائیں گے؟ کیا صرف اسلامی قوانین نافذ کرنے کا اعلان کرنے سے خیرِ امت بن جائیں گے؟ ان لوگوں میں ایک دو برائیوں کا سوال نہیں ہے بلکہ تمام برائیاں ہیں لیکن پھر بھی مومن ہیں۔ اور جو حقیقی مومن ہیں وہ ان کی نظر میں کافر ہیں۔ آج کل کے ایسے ہی نام نہاد مومنوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ آنحضرتؐ کے زمانے کے منافقین ان نام نہاد مومنوں سے بہتر تھے۔

پس امانت کے معیار قائم کرنے کے لئے اور اس امانت کی حفاظت کرنے کے لئے جس کے امین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے ایک احمدی ہی ہے جو صحیح حق اداکر سکتا ہے اور حق ادا کرنا چاہئے تا کہ خیرِ اُمّت میں شمار ہوں۔ اس بگڑے ہوئے معاشرے میں یہ حق اپنے نمونے قائم کر کے اور ماحول کو نصیحت کر کے ادا ہو گا۔ آنحضرتؐ جس امانت کو لے کر آئے تھے اور جو دنیا کو خدا تعالیٰ کا توحید کا پیغام پہنچانا تھا، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی تھی تو یہ امانت ہے جو ایک احمدی کے ذمہ لگائی گئی ہے۔ پس آج احمدی اس امانت کا بھی سب سے بڑھ کر امین ہونا چاہئے۔ اور اس مقصد کے لئے سب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح سے اس امانت کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کر کے اس امانت کا حق ادا ہو گا۔ اپنے بچوں کی تربیت کر کے اس امانت کا حق ادا ہو گا تا کہ ان حقوق کی ادائیگی کی روح اگلی نسلوں میں بھی منتقل ہوتی چلی جائے۔

پھر آنحضرتؐ نے منافق کی ایک نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے۔ جو بات کرے گا اس میں جھوٹ کی ملونی ہو گی۔ جھوٹ بولنے والے کے لئے کتنی خطر ناک تنبیہ ہے اور اگر دیکھیں تو یہ قول و فعل کا تضاد ہے اور یہ تضاد ہی منافقت ہے۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ ہے دوسری طرف جھوٹ ہے۔ گویا جھوٹ کو خدا تعالیٰ کے مقابلے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے جھوٹ اور بُت پرستی کو ایک جگہ بیان فرمایا یعنی جھوٹ اور شرک کو اکٹھا فرمایا۔ یہ دو باتیں جس میں جمع ہو جائیں یا صرف جھوٹ ہی بولنے والا ہو تووہ مشرک ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان کے دعوے کے ساتھ جھوٹ ہے تو ہر ایک جانتا ہے کہ یہ غلط بیانی ہے اور بڑا واضح نفاق ہے۔ یعنی اس طرح انسان جھوٹ بول کر اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بجائے شرک کے زیادہ قریب ہو رہا ہوتا ہے۔ منہ سے بیشک یہ دعویٰ ہے کہ میں مومن ہوں لیکن عمل اس کی نفی کر رہا ہوتا ہے۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلمانوں کی اکثریت جھوٹ اور سچ کے اس فرق کو بھول بیٹھی ہے۔ پس آج اگر احمدیوں نے اس کے خلاف جہادنہ کیا، اپنے نفس اور اپنے ماحول کو اس سے پاک کرنے کی کوشش نہ کی تو ایک ایسا داغ دل میں لگانے والے بن جائیں گے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے اور اسلام سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اصلاح کے لئے آئے تھے، شریعت کے قیام کے لئے آئے تھے، اللہ تعالیٰ کا رنگ چڑھانے کے لئے آئے تھے۔ اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرتے ہوئے آپ کی اتباع میں آئے تھے۔ اگر ہم میں بھی جو آپ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں جھوٹ قائم رہے گا تو شریعت کا قیام کس طرح ہو گا؟ یہ جتنے دعوے ہم کر رہے ہیں یہ کس طرح پورے ہوں گے؟ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کو دیکھیں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے پر نظر ڈالنی چاہئے کہ کس حد تک ہماری اصلاح ہو رہی ہے۔

آنحضرتؐ نے منافق کی تیسری علامت یہ بتائی کہ جب عہد کرے، معاہدے کرے تو غدّاری کرتا ہے۔ اُن کو ایفاء نہیں کرتا۔ بدعہدی کرتا ہے۔ آج کل دنیا میں یہی حالات ہیں۔ کاروباروں میں بدعہدی ہے۔ روزمرہ کے معاملات میں بدعہدی ہے۔ قومی سطح پر اتنی بد عہدی ہے کہ اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک تجارت کا معاہدہ کرتے ہیں اور اس میں اتنی خیانت اور بدعہدی ہے کہ تصور سے باہر ہے۔ کسی نے مجھے بتایا بلکہ ایک کاروبار کرنے والے نے ہی بتایا کہ پاکستان سے ہم جواچھا باسمتی چاول دنیا کو بھیجتے ہیں اُس کے درمیان میں ہم نے ایک ایسا طریقہ رکھا ہوا ہے جس میں اِری جو باسمتی چاول نہیں ہوتا، موٹے چاول کی ایک قسم ہے لیکن اتنا موٹا بھی نہیں ہوتا‘ وہ اس طریقے سے ڈالتے ہیں کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔ اور یہ کوئی پرواہ نہیں کہ اگر پتہ لگ جاتا ہے تو اس سے ان کی تجارت پر بھی اثر پڑے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک کی بدنامی ہو گی۔ پھر اسی طرح اور بہت سے کام ہیں جو کئے جاتے ہیں۔ یعنی یہ صرف بدعہدی نہیں ہے بلکہ خیانت بھی ہے، جھوٹ بھی ہے۔ صرف چار پیسے کمانے کے لئے یہ بد عہدی کر رہے ہوتے ہیں۔ اور جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو رہے ہیں، انہوں نے کیا توقع آپ سے رکھی ہے۔ انہوں نے تجارت میں تو سوال ہی نہیں جنگی معاہدات میں بھی اور عام معاہدات میں بھی اپنا کیا اسوہ قائم کیا ہے اور کس طرح باریکی سے اس کو پورا فرمایا کہ دنیا کے کسی معاہدے میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی۔ مثلاً صلح حدیبیہ کا معاہدہ جب ابھی لکھا جا رہا تھا، زبانی شرطیں طے ہو رہی تھیں تو مکّہ سے آنے والے ایک صحابی کو آپ نے کفار کے مطالبے پرواپس بھجوا دیا۔ آپ نے انہیں یہ نہیں کہا کہ ابھی تو شرائط نہیں لکھی گئیں اس لئے واپس نہیں جائے گا۔ لیکن کیونکہ زبانی ہو چکا تھا، لکھی جا رہی تھیں آپ نے فرمایا ٹھیک ہے تم واپس جاؤ، جب کہ آپؐ کو علم بھی تھا کہ اس کے واپس جانے سے اس کی جان کو بھی خطرہ ہے۔ تو یہ تھے آپ کے معیار۔ پس آج آپؐ کے غلامِ صادق کے غلاموں نے بھی ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ (پھر ایک دفعہ آپ) بازار میں جا رہے تھے۔ آپؐ نے ایک ڈھیری پرہاتھ ڈالا جو گندم کی یا مکئی کی تھی تو بیچ میں آپ کو گیلی گندم نظر آئی۔ آپؐ نے کہا تم یہ دھوکہ دے رہے ہو اور ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا۔ تو ہم نے اس قسم کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ تب ہی اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتے ہوئے ہم حقیقی نصیحت کرنے والے بن سکیں گے۔

پھر ایک علامت منافق کی یہ ہے کہ بحث کرتے ہیں تو فحش کلامی کرتے ہیں، گالم گلوچ پر آ جاتے ہیں۔ اب یہ خصوصیت آج کل ہم اپنے مخالفین میں دیکھتے ہیں کہ کتنی زیادہ ہے؟ اس کا ہر وہ ٹی وی چینل اور ویب سائٹ خود اظہار کر رہے ہیں جو جماعت کے خلاف چل رہے ہیں۔ پس ایک احمدی کا فرض ہے کہ اس بات سے بچیں۔ یہ جو نشانی ہے جس کا مخالفین کی طرف سے اظہار ہو رہا ہے یہ انہی کا حصہ ہے۔ ایک احمدی کو اس سے ہمیشہ بچنا چاہئے اور کبھی سختی کا جواب اس رنگ میں نہیں دینا چاہئے جس سے گالم گلوچ یا فحش کلامی کی صورت پیدا ہو جائے۔ ہمارے سامنے ہمیشہ وہ اسوہ ہونا چاہئے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا۔ اور پھر آپ کے غلامِ صادق، مسیح الزمان علیہ السلام نے ہمیں دکھایا کہ منہ پر لوگ آپ کو برا بھلا کہتے رہے لیکن کبھی اُس رنگ میں جواب نہیں دیا بلکہ صَرفِ نظر ہی فرمایا۔ آپؐ تو رحمت للعالمین تھے۔ آپ سے تو ہر ایک کو صرف نرمی ہی نہیں بلکہ سختی کے جواب میں بھی رحمت ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ان بیماریوں سے محفوظ رکھے جو ایمان کو برباد کرنے والی ہیں اور معاشرے کے امن کو برباد کرنے والی ہیں۔ ہم ہمیشہ حقیقی رنگ میں تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر پر عمل کرنے والے ہوں۔ آج بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت میں انہی بیماریوں کی وجہ سے مسلمانوں کی بدنامی ہو رہی ہے۔ یہ جھوٹ اور امانت میں خیانت، اور معاہدوں کا پاس نہ کرنا، اُن کو آنر (Honour)نہ کرنا، یہی چیز ہے جس نے ملکوں کے امن برباد کر دئیے ہیں۔ اکثر مسلمان ملکوں کے اندر حکومتوں اور سیاستدانوں اور عوام کے درمیان جو جنگ کی صورت پیدا ہوئی ہوئی ہے وہ اسی نفاق کا نتیجہ ہے جس کی نشاندہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ (مسلمان) ملکوں میں جو نفاق پیدا ہوا ہے اس سے فائدہ اٹھا کر غیر مسلموں کو اسلام کے خلاف بیہودہ گوئیاں کرنے اور بدنامی کا موقع مل رہا ہے۔ اسرائیل کے ایک اخبار میں ایک یہودی نے ایک کالم لکھا کہ اسلام کی تعلیم تو امن پسند ہے ہی نہیں اور ان مسلمانوں کے جو عمل ہیں اس سے یہ واضح ہے کہ اسلام کی تعلیم اس کے خلاف ہے۔ لکھتا ہے کہ اگر امن کی تعلیم ہے تو یا یہودیت میں ہے یا عیسائیت میں ہے اور اگر مسلمانوں میں کہیں امن کی کوئی بات ہوتی نظر آتی ہے تو وہ ایک بہت تھوڑی اقلیت ہے جو امن کی بات کرتے ہیں۔ تو یہ کتنا بڑا المیہ ہے۔ وہ لوگ جن کی تعلیم میں واضح طور پر سختی کی تعلیم لکھی گئی ہے مسلمانوں کے عمل کی وجہ سے اسلام کی تعلیم پر اعتراض کر رہے ہیں اور انگلی اٹھا رہے ہیں۔ ہم احمدی اس بات پر تو خوش نہیں ہو سکتے کہ ایک محدود اقلیت سے احمدیوں کی طرف اشارہ ہے یا ایک گروپ مسلمانوں کی طرف بھی ہے تو ہم اس بات پر خوش ہو جائیں کہ چلو ایک اقلیت گروپ جو ہے وہ بدنام نہیں ہے اور امن کی بات کر رہا ہے۔ ہماری خوشی تو تب ہو گی جب مسلمانوں کی اکثریت کے متعلق یہ کہا جائے کہ یہ اسلام کی تعلیم کی وجہ سے محبت، پیار اور امن کا پیغام دینے والے ہیں۔ اسلام کی تعلیم پر یہ گھناؤنا الزام ہے جو ان لوگوں نے لگایا ہے اور لگا رہے ہیں اور لگاتے چلے جا رہے ہیں اور مسلمانوں کو اس کی کوئی فکر نہیں۔ ہمارے لئے تو یہ انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ ہماری خوشی جیسا کہ میں نے کہا، ایک احمدی کی خوشی تو اس وقت ہو گی جب دنیا یہ کہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم امن، پیار اور محبت کی تعلیم ہے۔ اور صرف یہی تعلیم ہے جو اس قدر خوبصورت تعلیم ہے کہ جس کے بغیر دنیا میں امن قائم ہی نہیں ہوسکتا۔

پس آج ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُمّتِ مسلمہ کو بھی عقل دے اور وہ حقیقی رنگ میں خیرِ امت بننے کا حق ادا کرنے والے بنیں اور ہم بھی حقیقی رنگ میں اپنا فرض ادا کرنے والے بن سکیں۔ گزشتہ خطبے میں مَیں نے ایک حوالہ پیش کیا تھا۔ اُس کی وضاحت بھی مَیں کرنا چاہتا ہوں۔ وہ ابو لہب کا حوالہ تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے توہین کا سلوک کرتا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کو بھیڑیوں نے چیر پھاڑ دیا۔ اس میں ایک غلطی تھی جس کی اصلاح آج کرنا چاہتا ہوں۔ عموماً تو میں قرآن اور حدیث، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے خود بھی چیک کر لیتا ہوں یا چیک کروا لیتا ہوں۔ لیکن ہمارے لٹریچر میں یہ مضمون ہمارے علماء میں سے ایک نے لکھا تھا تو اس میں سے مَیں نے لے لیا۔ خیال تھا کہ صحیح حوالہ ہو گا لیکن بہر حال اس میں غلطی ہے۔ لیکن یہ غلطی بھی ایسی ہے جو اس لحاظ سے بہتر ثابت ہو رہی ہے کہ اس کا تعلق ابولہب سے نہیں بلکہ اس کے بیٹے عتیبہ کی ہلاکت سے ہے (جو خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کیا کرتا تھا)۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ روح المعانی میں ایک روایت میں یہ ہے کہ ابو لہب کی ہلاکت کے بارے میں سورۃ لہب کی پیشگوئی غزوہ بدر کے سات دن بعد پوری ہوئی، اور وہ طاعون جیسی بیماری السر سے ہلاک ہوا اور تین دن اس حال میں رہا کہ اس سے بو آنے لگی۔ اس کے خاندان والوں نے ذلت سے ڈر کر ایک گڑھا کھود کر اس کو ایک لکڑی کے ساتھ دھکیل کر اس میں گرا دیا اور پھر اس کے اوپر پتھر پھینک کر اس گڑھے کو پُر کر دیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس توہین کا یہ بدلہ لیا۔ اور ایک روایت تاریخِ طبری کی یہ بھی ہے کہ اُس کو ایک ایسے پھوڑے میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے وہ مر گیا۔ اور اس کے دونوں بیٹوں نے دو یا تین راتوں تک اسے نہ دفنایا یہاں تک کہ لاش گھر میں سڑنے لگی۔ بُو آنے لگی اور پھر اس کو بُو سے ہی دفنا دیا گیا۔ بہر حال انجام اُس کا بھی بُرا ہو اور ساتھ اس کے بیٹے عتیبہ کا انجام بھی برا ہوا۔

بہر حال مَیں یہ کہہ رہا ہوں کہ غلطی کی وجہ سے ایک کی بجائے دو(ابولہب اور عتیبہ کے بارہ میں ) روایتیں مل گئی ہیں۔ عتیبہ کا نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی اُمّ کلثوم سے ہوا تھا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ وہ سفرِ شام پر جانے سے پہلے آنحضرتؐ کی ایذا رسانی کی غرض سے آپ کے پاس گیا اور کہا مَیں سورۃ نجم کا انکاری ہوں پھر ازراہِ تحقیر و توہین آپ کے سامنے تھوک کر آپ کی صاحبزادی کو طلاق دی۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کچھ نہیں کہا بلکہ اس کے خلاف بد دعا دی، اور اسی سفر میں وہ بھیڑئیے یا شیر کے پھاڑ نے سے ہلاک ہو گیا۔ بہر حال یہ روایت تو اور بھی جگہوں سے مل رہی ہے۔

خطبہ کے علاوہ تیسری بات جو ہے وہ یہ ہے کہ ابھی نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ پڑھاؤں گا جو مکرم رشید احمد بٹ صاحب ابن مکرم میاں محمد صاحب مرحوم لاہور کا ہے۔ ان کی 18؍ اکتوبر2010ء کو اکہتّرسال کی عمر میں بعارضہ قلب وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ 28؍مئی 2010ء کو دارالذکر میں تھے اور ان کے بھی ٹانگ پر گولی لگی تھی۔ زخمی ہوئے تھے۔ ریسکیو والے آپ کو ڈسٹرکٹ ہسپتال میں چھوڑ آئے جہاں وہ ایک روز داخل رہے۔ ان کا خون زیادہ بہہ گیا تھا، بہت زیادہ کمزوری ہو گئی تھی، اس وجہ سے دل پر بھی اس کا اثر پڑا۔ آپ کی جماعتی خدمات یہ ہیں کہ سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری اصلاح و ارشاد، زعیم انصار اللہ رہے۔ نہایت نیک، تہجد گزار، صاحب رؤیا و کشوف اور خدمتِ خلق اور دعوتِ الی اللہ کا بھر پور جذبہ رکھنے والے مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ آپ کو ہومیو پیتھی سے بھی لگاؤ تھا۔ اپنے گھر میں میڈیکل کیمپ لگا کر لوگوں کو فیض پہنچایا کرتے تھے۔ اور ہزاروں لوگوں نے آپ سے فیض پایا۔ خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا۔ اپنی ہر کامیابی کو خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی طرف منسوب کر دیا کرتے تھے۔

28؍مئی کے واقعہ کے بعد انہوں نے اپنا ایک کشف سنایا کہ میں نے ایک اُڑن کھٹولا دیکھا جو فضا میں پھرتا جا رہا تھا تو میں نے خواہش کی کہ دیکھوں اس میں کیا ہے؟ تو وہ اُڑن کھٹولا میرے اوپر ٹیڑھا ہو گیا۔ اور مَیں نے اس میں دیکھا کہ ستارے جھلمل جھلمل کر رہے ہیں اور کافی دیر تک میرے سامنے رہے۔ پھر اس کے بعد وہ اُڑن کھٹولا آسمان کی طرف چلا گیا۔ کہتے ہیں میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ یہ شہداء ہیں جو لاہور کی مساجد میں 28؍ مئی کو جان دے کر اَمر ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ کچھ دن بعد جب خطبہ میں مَیں نے ذکر کیا تو ان کو مزید تسلی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں