خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 4؍ مارچ 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَٴ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا۔ اَوَ لَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ وَ کَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡہُمۡ قُوَّۃً ؕ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعۡجِزَہٗ مِنۡ شَیۡءٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَلِیۡمًا قَدِیۡرًا (فاطر: 45-44)
اِن آیات کا ترجمہ ہے کہ زمین میں تکبر کرنا چاہتے تھے اور بُرے مکر کرنا چاہتے تھے۔ اور بُری تدبیر نہیں گھیرتی مگر خود اُس تدبیر کرنے والے کو۔ پس کیا وہ پہلے لوگوں (پر جاری ہونے والی اللہ) کی سنت کے سوا کوئی اور انتظار کر رہے ہیں؟ پس تُو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اور تو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہیں پائے گا۔ کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھ لیتے کہ اُن لوگوں کا کیا انجام ہوا جو اُن سے پہلے تھے حالانکہ وہ قوت میں اُن سے بڑھ کر تھے؟ اور اللہ ایسا نہیں کہ آسمانوں یا زمین میں کوئی چیز بھی اسے عاجز کر سکے۔ یقینا وہ دائمی علم رکھنے والا (اور) قدرت رکھنے والا ہے۔
اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں اور ہم اس یقین پر اور ایمان پر قائم ہیں کہ یقینا آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں کیونکہ ہر آن اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت ہم آپ کے شاملِ حال دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جو آپ سے وعدے کئے اُنہیں ہم نے پورا ہوتے دیکھا۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کا آپ سے سلوک ہمارے ایمان اور یقین میں مزید پختگی پیدا کرتا ہے۔ بلکہ آپ کے وصال کے بعد بھی جن باتوں کی آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر اپنی جماعت کو اطلاع دی اور ہمیں بتایاہم اُن باتوں کو بھی پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے نبوت کا مقام عطا فرمایا۔ لیکن ایسی نبوت جو غیر تشریعی نبوت ہے، ظلّی نبوت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُمّتی ہونے کی ایک معراج ہے۔ یہ مقام اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعطا فرمایا ہے کہ آپ کا اُمّتی آپ کے انتہائی عشق اور غلامی کی وجہ سے نبوت کا اعزاز پا گیا۔ لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مخالف مسلمانوں کے دوسرے فرقے اپنے علماء کے غلط رنگ میں اس مقامِ نبوت کی تشریح کی وجہ سے احمدیوں کے خلاف جب موقع ملے، جہاں موقع ملے، نہ صرف آوازیں اُٹھاتے رہتے ہیں بلکہ جس حد تک تکلیف پہنچا سکتے ہیں پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس مخالفت میں بعض اوقات تمام حدوں کو پار کر جاتے ہیں۔ بہر حال جماعتیں جب ترقی کرتی ہیں، پھیلتی ہیں تو اس ترقی کو دیکھ کر مخالفین کھلی دشمنیاں کر کے اپنی طاقت کے استعمال سے اور اُن سہاروں کے استعمال سے جن کو وہ بہت طاقتور اور قدرت والا سمجھتے ہیں، اِس ترقی کو روکنے کی ہر طرح کوشش کرتے ہیں۔ اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اندر ہی اندر مختلف طریقوں سے کمزور ایمان والوں کو کم تربیت یافتہ کو یا کچے ذہنوں کو جو جوانی کی عمر میں پہنچنے والے ہوتے ہیں یا جوانی کی عمر میں قدم رکھا ہوا ہوتا ہے، بڑی چالاکی سے اپنی باتوں کے جال میں پھنسانے کی کوشش کر کے انہیں حق سے دور لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لئے ہر احمدی کو ایک تو اپنے دینی علم میں اضافے کی کوشش کرنی چاہئے، اُس کو پتہ ہونا چاہئے مَیں کیا ہوں؟ کون ہوں؟ اور کیوں ہوں؟ تا کہ ایسے چھپے دشمنوں کا جواب دے سکیں۔ دوسرے سب سے بڑھ کر یہ کہ ایمان کی سلامتی کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے کہ اُس کے فضل کے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایمان کی مضبوطی کے لئے ہر قسم کے ٹیڑھے پن سے بچنے کے لئے یہ دعا بھی سکھائی ہے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا وَھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْوَھَّابُ (آل عمران: 9) کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں ہدایت دے، ہمیں ہدایت دینے کے بعد کبھی ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے اور اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقینا تُو بہت عطا کرنے والا ہے۔
پس ایمان کی سلامتی بھی خدا تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے، خدا تعالیٰ کی رحمت سے ہوتی ہے۔ اس لئے ایک عاجز بندہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی مدد کا طلبگار رہتا ہے اور رہنا چاہئے۔ بعض لوگ بعض دفعہ مجھے خط بھی لکھ دیتے ہیں کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی نہ کہو یا لوگوں کے سامنے اس کا اظہار نہ کیا جائے تو کیا حرج ہے؟ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے سے ہی اس قسم کی باتیں ہوتی تھیں کہ اس سے جو مخالفت ہے اس میں کمی آ جائے گی۔ اِس لئے اگریہ لفظ نہ استعمال کیا جائے تو کیا حرج ہے؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ: ’’جو امور سماوی ہوتے ہیں اُن کے بیان کرنے میں ڈرنا نہیں چاہئے‘‘ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا جو بیان ہو گیا اور جو باتیں خدا تعالیٰ نے کہہ دیں، اُن کو کہنے سے ڈرنا نہیں چاہئے) ’’اور کسی قسم کا خوف کرنا اہلِ حق کا قاعدہ نہیں۔ صحابہ کرام کے طرزِ عمل پر نظر کرو۔ وہ بادشاہوں کے درباروں میں گئے اور جو کچھ اُن کا عقیدہ تھا وہ صاف صاف کہہ دیا اور حق کہنے سے ذرا نہیں جھجکے، جبھی تولَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآ ئِمٍ (المائدہ: 55)کے مصداق ہوئے‘‘۔ فرمایا ’’ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نبی اور رسول ہیں‘‘۔ فرمایا ’’خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے۔ پس ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے‘‘۔ (کوئی نئی شریعت والی نبوت نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کو منسوخ کر رہی ہو اور نئی کتاب لائے) ’’ایسے دعویٰ کو تو ہم کفر سمجھتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’بھلا اگر ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لئے اور کونسا امتیازی لفظ ہے جو دوسرے ملہموں سے ممتاز کرے؟‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر5صفحہ 446,447مطبوعہ ربوہ)
پس فرمایا: یہ الہام تو دوسروں کو بھی ہو جاتے ہیں لیکن کثرت سے جو الہام ہوتے ہیں، کثرت سے اللہ تعالیٰ جو باتیں کرتا ہے تو یہی نبوت کامقام ہے اور اس تعریف کی رو سے مَیں نبی ہوں۔ ورنہ الہام تو اور وں کو بھی ہو جاتے ہیں۔ پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک کھلا اور واضح اعلان ہے اور یہ عین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہے کہ حضرت مسیح موعودنبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے اور مسیح موعود کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ (سنن ابی داود کتاب الملاحم باب خروج الدجال حدیث نمبر4324)
پس جب مسیح موعود مانا ہے تو نبی بھی ماننا ضروری ہے۔ باقی رہی مخالفتیں، تووہ الٰہی جماعتوں کی ہوتی ہیں اور ہوتی رہیں گی اور یہی الٰہی جماعتوں کی نشانی ہے کہ اُن کی مخالفتیں ہوتی ہیں۔ بڑے بڑے جابر سلطان اور اُن کے جتھے مقابل پر کھڑے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت ترقی کرتی چلی جاتی ہے اور آخر ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ تمام جتھے ختم ہو جاتے ہیں، تمام طاقتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی غالب آتی ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22) کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ مَیں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے رسول کے خلاف تدبیریں کرنے والے تمام متکبر خود اپنی ہی تدبیروں کے جال میں پھنس جائیں گے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے جتھے اور ہمارے اوپر ہمارے دنیاوی آقاؤں کی چھت ہمیں نبی اور اس کی جماعت کے خلاف تدبیروں میں کامیاب کر دے گی تو یہ اُن کی بھول ہے۔ آخری کامیابی یقینا الٰہی جماعتوں کی ہی ہوتی ہے۔ سازشوں اور جھوٹی سکیمیں بنانے میں چاہے جتنے بھی اُن کے ذہن تیز ہوں، وہ خدا تعالیٰ کی تدبیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی مومنوں کو یہ کہہ کر تسلی فرمائی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک اصولی فیصلہ اور عمل ہے کہ وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَھْلِہٖ(فاطر: 44) کہ گندی اور ناپاک تدبیریں تو ان تدبیر کرنے والوں کے علاوہ کسی کو گھیرے میں نہیں لیتیں۔ یعنی صرف و ہی اُس کے گھیرے میں آ جاتے ہیں۔ بے شک خدا تعالیٰ کے دوسرے قانون کے تحت قربانیوں کا دور بھی چلتا ہے لیکن آخری کامیابی خدا والوں کو ہی ہوا کرتی ہے۔ نبی اور اس کی جماعت کو ہی ہوا کرتی ہے اور اس کے دشمن یقینا سزا کے مورد بنتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ یہ ایسی نہ تبدیل ہونے والی سنت ہے جس نے پہلے بھی دشمن کے بد انجام کے نمونے دکھائے اور آج بھی دشمن کے بد انجام کے نمونے دکھا رہی ہے اور دکھائے گی۔ اس کے بڑی نمونے تو خدا تعالیٰ اپنے وقت پر دکھائے گا جیسا کہ اس دوسری آیت میں ذکر ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے۔ لیکن مومنوں کے ایمان کی مضبوطی کے لئے اللہ تعالیٰ مختلف وقت میں اِن تکبر کرنے والوں اور حق کے مخالفین کی تدبیروں اور کوششوں کی ناکامی کے چھوٹے چھوٹے نظارے دکھاتا رہتا ہے۔
گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں اِن نام نہاد مُلّاؤں کے چیلوں نے جو ظالمانہ کارروائی کی اور وہ خود بھی اُس میں شامل تھے۔ اِس کے بعد مُلّاں کو مزید جرأت پیدا ہوئی اور باقی جگہوں کے اِن نام نہاد مولویوں نے بھی کہا کہ ہم کیوں پیچھے رہ جائیں۔ چنانچہ انہوں نے اعلان کیا کہ یکم مارچ کو جکارتہ میں ایک بڑا جلوس نکالا جائے گا جس میں لاکھوں آدمی شامل ہوں گے۔ اور انہوں نے اُس کی بڑی تیاری کی تھی اُس جلوس میں ہمارا یہ مطالبہ ہو گا کہ احمدیوں کو مکمل طور پر بین (Ban) کرو۔ یہ اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ دیں۔ یا پھر اگر مسلمان کہلوانا ہے تو ہمارے میں شامل ہو جائیں۔ ورنہ ہم اُس وقت تک اس احتجاج کو جاری رکھیں گے جب تک یا حکومت یہ فیصلہ نہیں کر دیتی یا صدرِ مملکت کو ہم اُن کے صدارتی محل سے باہر نہیں نکال دیتے۔ اور جتنا بڑا plan تیار ہو رہا تھااس پر جماعت انڈونیشیا کو بھی خیال تھا اور فکر بھی تھی کہ اس مخالفت، احتجاج اور جو جلوس کا اِن کا plan ہے اس کی شدت کا جواندازہ لگایا جا رہا ہے، وہ بہت زیادہ ہو گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ معمولی سا اور بے وقعت قسم کا ایک جلوس نکلا اور وہ بھی اپنے وقت سے بہت پہلے ختم ہو گیا۔ اِن کے جلوس کے اِس plan سے چند دن پہلے اللہ تعالیٰ نے حکومتی پروردہ مولویوں کے دل میں یہ ڈالا کہ ہم جلسہ کریں، اور ایک بہت بڑا جلسہ ہو گیا جس میں صدرِ مملکت خود بھی چلے گئے۔ اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے ان کی جو تدبیریں تھیں اُن کے ردّ کرنے کے سامان پیدا فرما دئیے۔ بہر حال ہمارے تو نہ یہ حکومتی مولوی سگے ہیں نہ حکومت مخالف مولوی۔ لیکن اللہ تعالیٰ بعض اوقات ایسے سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ مخالفین کی آپس میں سر پھٹول ہو جاتی ہے۔ تو اِس جلسے کی وجہ سے جو پہلے ہو گیا اللہ تعالیٰ نے اِس شدت پسند جلوس کے ناکام ہونے کے سامان پیدا فرما دئیے۔ بہر حال ہم حکومت کے بھی شکر گزار ہیں کہ اس کے بعد سے عمومی طور پر حکمرانوں کا رویہ، سوائے ایک دو وزراء کے، جماعت کے حق میں بہتر رہا ہے۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جس طرح لاہور کی شہادتوں کے بعد افریقہ کے بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے افرادِ جماعت کے اخلاص اور وفا کے نظارے دکھائے اور اُن میں بیعتیں بھی ہوئیں، اسی طرح انڈونیشا کے واقعہ نے بھی جماعت کے حق میں راستے کھولے ہیں اور سعید فطرت لوگوں کو حق پہچاننے کی توفیق ملی ہے۔
افریقہ کے ایک ملک سے مربی صاحب نے لکھا کہ مَیں نے انٹرنیٹ پر انڈونیشیا کا یہ واقعہ دیکھا اور سخت بے چینی تھی، بڑی جذباتی کیفیت تھی۔ مَیں اُس کو دیکھ کرروتا رہا۔ کہتے ہیں کہ اُسی دن اتفاق سے شام کو علاقے کے بعض غیر از جماعت معززین اور اُن کے علماء کے ساتھ ایک تبلیغی نشست تھی تو کہتے ہیں کہ مَیں نے اُس میں ٹی وی پر یہ جو ساری بہیمانہ کارروائی ہوئی تھی اُس کی ریکارڈنگ لگا دی اور اُن مہمانوں سے کہا کہ پہلے آپ یہ دیکھ لیں پھر بات شروع کرتے ہیں۔ اور اس کی تفصیل بھی بتا دی کہ احمدیوں کے ساتھ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مَیں نے یہ ریکارڈنگ لگائی ہے تو ابھی ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک مَعْلَم (وہاں کے علماء جو مولوی یا امام ہیں اُن کو افریقہ میں مَعْلَم کہتے ہیں ) کھڑے ہو گئے اور اُن کا جو طریقہ ہے سر پر ہاتھ رکھ کے دھاڑیں مار مار کے رونے لگ گئے کہ یہ مسلمان ہیں جو یہ ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر یہ سب کچھ کر رہے ہیں؟ کہنے لگے کہ ایسے مسلمانوں کے اس اسلام سے تو مَیں توبہ کرتا ہوں اور مَیں اعلان کرتا ہوں کہ مَیں آج سے احمدی ہوں۔ میری فوری بیعت لے لیں۔ وہ مذہبی بحث تو بعد میں ہونی تھی، جو مجلس لگنی تھی وہ تو بعد میں ہونی تھی، اُس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک بڑے امام کو اِن کی حرکتیں دیکھ کے بیعت کرنے کی توفیق عطا فرما دی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ آگے انہوں نے کہا کہ مَیں یہ بھی عہد کرتا ہوں کہ اِ ن تین شہداء کے بدلے انشاء اللہ تعالیٰ مَیں تین گاؤں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی گود میں لاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ اُن کو توفیق عطا فرمائے۔
تو دشمن چاہے چھُپ کر تدبیر کرے، پیار بھرے انداز میں تدبیریں کرے یا کھل کر دشمنی کرے تا کہ یہ نبی کے ماننے والے خوفزدہ ہو کر یا کسی طریقے سے بھی پیچھے ہٹ جائیں لیکن مضبوط ایمان والوں کا خوفزدہ ہونا تو ایک طرف رہا اِن کی تدبیریں نیک فطرتوں کے سینے فوراً کھول کر احمدیت کے حق میں ایسی ہوا چلاتی ہیں کہ جو کام ہمارے مبلغین سال میں نہیں کر سکتے وہ دشمنوں کے مکروں سے ہمارے حق میں ایک لمحے میں ہو جاتا ہے۔ پس کون ہے جو خدا تعالیٰ کے کاموں کو روک سکے؟ لیکن ان تکبر کرنے والوں کو کبھی سمجھ نہیں آئے گی۔ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ وہ اپنی سنّت میں تبدیلی نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ کی سنّت ایک اُس کی تقدیر غالب آنے کی سنّت ہے اور دوسرے ایسے ظالموں کو تباہ کرنے کی سنّت ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارننگ ہے کہ اگر پہلے لوگ اس مخالفت کی وجہ سے اپنے بد انجام کو پہنچے تو آج بھی وہی خدا ہے اور اُسی طاقتوں کے مالک خدا کے وعدے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا زمین میں نہیں پھرے۔ اَوَلَمْ یَسِیْرُوا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَکَانُوْآ اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً کہ کیوں دیکھتے اور جائزہ نہیں لیتے کہ قوموں کی تباہی کی تاریخ تمہیں کیا بتا رہی ہے۔ آج کل تو ٹی وی پروگراموں میں، رسالوں میں، گھر بیٹھے ہی پُرانے دفینوں کے نظارے ہو جاتے ہیں کہ کتنی قومیں تھیں جو مختلف آفات کی وجہ سے دفنا دی گئیں، پوری کی پوری بستیاں زمین میں دفن ہو گئیں۔ بلکہ اس زمانے میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب زلزلے آتے ہیں تو کئی بستیاں دفن ہو جاتی ہیں۔ تو عبرت حاصل کرنے والوں کے لئے یہ بھی بڑا عبرت کا مقام ہے۔ قرآنِ کریم میں ان کا ذکر فرما کر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو عقل کے ناخن لینے کی پہلے ہی ہدایت کر دی تھی کہ ہوش سے کام لینا، اس قسم کی حرکتیں نہ کرنا کہ پہلی تاریخ تم پر بھی دہرائی جائے۔ لیکن افسوس کہ مسلمان باوجود اس تنبیہ کے اس عبرتناک تنبیہ کو بھول گئے۔ اللہ تعالیٰ ہر بڑے تکبر کرنے والے اور اپنی تدبیروں پر بھروسہ کرنے والے اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں سرشار کو فرماتا ہے کہ تمہارے یہ تکبر کچھ کام نہیں آئیں گے۔ فرمایا وَکَانُوْآ اَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً۔ کہ وہ بڑے طاقتور لوگ تھے جو تمہارے سے پہلے تھے۔ ایک تو وہ تمہاری آج کی حکومتوں سے زیادہ طاقتور تھے۔ دوسرے اُن نبیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور تھے۔ دنیاوی حیثیت سے نبیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن جب اللہ تعالیٰ کی لاٹھی چلی، جب اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو فناکرنے کا ایک فیصلہ کیا تو سب فنا ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اس سنّت کا ذکر فرما کر ہر زمانے کے طاقتور اور فرعون اور اُن کے پروردوں کو بتا دیا کہ ایک تو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مقابلے میں تمہاری طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ دوسرے اللہ والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی حمایت کا اعلان بظاہر اُن کی کمزور حالت کے باوجود اُنہیں طاقتور بنا دیتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طاقت اُن کے پیچھے ہوتی ہے۔ اور طاقتور سمجھے جانے والے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ قصہ پارینہ بن جاتے ہیں، ختم ہو جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں تھے اور کہاں گئے؟ پس اللہ والوں کے مخالفین کو ہوش کرنی چاہئے اور اس حقیقت کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کا مقابلہ اللہ تعالیٰ سے مقابلہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ وہ ہے کہ فرمایا وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ مِنْ شَیْْئٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَلَا فِی الْا َرْضِ کہ آسمان اور زمین میں کوئی نہیں جو اللہ تعالیٰ کو عاجز کر سکے۔ پس ایک بیوقوف قوم جو ہے وہ یہی سمجھتی ہے یا بعض علاقوں کے، بعض ملکوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم طاقتور ہیں۔ ہم ان تھوڑے سے اور معمولی حیثیت کے لوگوں کو زیر کر لیں گے۔ دنیاوی نظر سے دیکھا جائے تو یہ بیوقوفی نہیں، بڑی صحیح سوچ ہے کیونکہ طاقتور اور چالاک غالب آ جاتے ہیں۔ اور جب ہم دنیا کے حالات دیکھتے ہیں، آج کل بھی دیکھ لیں، طاقتور اور چالاک ہی ہیں جنہوں نے دنیا پر حکومت کی ہوئی ہے، حکومت کر رہے ہیں اور بظاہر مومن کہلانے والے اُن کے قبضے میں ہیں لیکن یہاں مقابلہ دنیاوالوں کا دنیا والوں کے ساتھ نہیں ہے۔ جب جماعت احمدیہ کا سوال آتا ہے، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کا سوال آتا ہے تو دنیا والوں کامقابلہ اللہ والوں کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ ایک الٰہی جماعت کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ پس یہاں دنیاوی اصول نہیں چلے گا بلکہ یہاں وہ جیتے گا جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کھڑا ہو کر یہ اعلان فرمائے گا کہ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعْجِزَہٗ اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ جسے کوئی عاجز کر سکے۔
پس آج اس زمانے میں ہمارے لئے یہ خوشخبری ہے لیکن ساتھ ہی ایک ذمہ داری کی طرف بھی توجہ ہے کہ اُس اللہ والے سے حقیقی رنگ میں جُڑ کر اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا کریں۔ اُن لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کریں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ کی سنّت خاص نشان دکھاتی ہے۔ اپنی عبادتیں، اپنی دعائیں، اپنے عمل اس نہج پر چلانے کی کوشش کریں جس کی نشاندہی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی ہے اور جس کو کھول کر زمانے کے امام حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی موعودنے ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ اگرہم نے اس اصول کو حقیقت میں پکڑ لیا تو چاہے پاکستان کے طاقتور ہوں یا انڈونیشیا کے یا بنگلہ دیش کے یا کسی عرب ملک کے یا کسی بھی ملک کے ہوں، وہ سب طاقتوں اور قدرتوں والے خدا کے سامنے کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ جس کے علم نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ اللہ والے ہی غالب آیا کرتے ہیں۔ جن کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید ہو وہی غالب آیا کرتے ہیں۔ پس ان مخالفین کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے اشارے کو سمجھیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے تو غالب آنا ہے۔ اُس وقت کوئی عذر کام نہیں آئے گا کہ یہ وجہ ہو گئی اور وہ وجہ ہو گئی۔ جب اللہ تعالیٰ کی آخری تقدیر چلتی ہے تو پھرسب کچھ فنا ہو جاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ آپ نے فرمایا کہ:
’’خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا اور انہیں دکھلائے گا کہ وہ کیونکر غریبوں کی حمایت کرتا ہے اور شریروں کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالتا ہے۔ شریر انسان کہتا ہے کہ مَیں اپنے مکروں اور چالاکیوں سے غالب آجاؤں گا اور مَیں راستی کو اپنے منصوبوں سے مٹا دوں گا۔ اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت اسے کہتی ہے کہ اے شریر میرے سامنے اور میرے مقابل پر منصوبہ باندھنا تجھے کس نے سکھایا؟ کیا تُو وہی نہیں جو ایک ذلیل قطرہ رحم میں تھا؟ کیا تجھے اختیار ہے جو میری باتوں کو ٹال دے؟‘‘۔ (کرامات الصادقین روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ67)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’ہمیشہ یہ امر واقع ہوتا ہے کہ جو خدا کے خاص حبیب اور وفادار بندے ہیں اُن کا صدق خدا کے ساتھ اُس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ یہ دنیا دار اندھے اُس کو دیکھ نہیں سکتے۔ اس لئے ہر ایک سجادہ نشینوں اور مولویوں میں سے اُن کے مقابلہ کے لئے اُٹھتا ہے اور وہ مقابلہ اس سے نہیں بلکہ خدا سے ہوتا ہے۔ بھلا یہ کیونکر ہو سکے کہ جس شخص کو خدا نے ایک عظیم الشان غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور جس کے ذریعے سے خدا چاہتا ہے کہ ایک بڑی تبدیلی دنیا میں ظاہر کرے، ایسے شخص کو چند جاہل اور بزدل اور خام اور ناتمام اور بے وفا زاہدوں کی خاطر سے ہلاک کر دے‘‘۔ فرمایا کہ ’’اگر دو کشتیوں کا باہم ٹکراؤ ہو جائے‘‘ (دریا میں دو کشتیوں کا ٹکراؤ ہو جائے تو) ’’جن میں سے ایک ایسی ہے کہ اس میں بادشاہِ وقت جو عادل اور کریم الطبع اور فیاض اور سعید النفس ہے، مع اپنے خاص ارکان کے سوار ہے۔ اور دوسری کشتی ایسی ہے جس میں چند چوہڑے یا چمار یا ساہنسی بدمعاش بدوضع بیٹھے ہیں۔ اور ایسا موقع آ پڑا ہے کہ ایک کشتی کا بچاؤ اس میں ہے کہ دوسری کشتی مع اس کے سواروں کے تباہ کی جائے تو اب بتلاؤ کہ اُس وقت کونسی کارروائی بہتر ہو گی؟ کیا اُس بادشاہ عادل کی کشتی تباہ کی جائے گی یا اُن بدمعاشوں کی کشتی کہ جو حقیر و ذلیل ہیں تباہ کر دی جائے گی۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ بادشاہ کی کشتی بڑے زور اور حمایت سے بچائی جائے گی اور اُن چوہڑوں چماروں کی کشتی تباہ کر دی جائے گی اور وہ بالکل لاپرواہی سے ہلاک کر دئیے جائیں گے اور اُن کے ہلاک ہونے میں خوشی ہو گی کیونکہ دنیا کو بادشاہِ عادل کے وجود کی بہت ضرورت ہے اور اُس کا مرنا ایک عالَم کا مرنا ہے۔ اگر چند چوہڑے اور چمار مر گئے تو اُن کی موت سے کوئی خلل دنیا کے انتظام میں نہیں آ سکتا۔ پس خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب اُس کے مُرسَلوں کے مقابل پر ایک اور فریق کھڑا ہو جاتا ہے تو گو وہ اپنے خیال میں کیسے ہی اپنے تئیں نیک قرار دیں اُنہیں کو خدا تعالیٰ تباہ کرتا ہے اور اُنہیں کی ہلاکت کا وقت آ جاتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جس غرض کے لئے اپنے کسی مرسل کو مبعوث فرماتا ہے اُس کو ضائع کرے کیونکہ اگر ایسا کرے تو پھر وہ خود اپنی غرض کا دشمن ہو گا۔ اور پھر زمین پر اُس کی کون عبادت کرے گا؟ دنیا کثرت کو دیکھتی ہے اور خیال کرتی ہے کہ یہ فریق بہت بڑا ہے، سو یہ اچھا ہے‘‘۔ (یعنی بڑا ہونے کی وجہ سے یہی ٹھیک ہیں ) ’’اور نادان خیال کرتا ہے کہ یہ لوگ ہزاروں لاکھوں مساجد میں جمع ہوتے ہیں، کیا یہ بُرے ہیں؟ مگر خدا کثرت کو نہیں دیکھتا وہ دلوں کو دیکھتا ہے۔ خدا کے خاص بندوں میں محبتِ الٰہی اور صدق اور وفا کا ایک ایسا خاص نور ہوتا ہے کہ اگر مَیں بیان کر سکتا تو بیان کرتا لیکن مَیں کیا بیان کروں؟ جب سے دنیا ہوئی اس راز کو کوئی نبی یا رسول بیان نہیں کر سکا۔ خدا کے باوفا بندوں کی اس طور سے آستانہ الٰہی پر روح گرتی ہے کہ کوئی لفظ ہمارے پاس نہیں کہ اس کیفیت کو دکھلا سکے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن۔ جلد20 صفحہ 72-71)
پس مخالفین کی ہزاروں کوششوں نے آپ کی ترقی میں ذرا سا بھی فرق نہیں ڈالا۔ اس لئے کہ ان کے ہر مکر اللہ تعالیٰ اُن پر اُلٹا دیتا تھا اور آج تک یہ نظارے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اور جب تک ہم اپنے ایمانوں میں مضبوط رہیں گے، ہم جماعتی ترقی کے نظارے دیکھتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔
پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’یہ اُن لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں۔ مَیں وہ درخت ہوں جس کو مالکِ حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ جو شخص مجھے کاٹنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکریوطی اور ابوجہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے…‘‘۔
فرمایا کہ’’…اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو آخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا۔ اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دُعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دُعا نہیں سُنے گا اور نہیں رُکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے۔ اور اگر انسانوں میں سے ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے۔ اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ توقریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں۔ پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو۔ کاذبوں کے اَور مُنہ ہوتے ہیں اَور صادقوں کے اور۔ خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا۔ مَیں اس زندگی پر لعنت بھیجتا ہوں جو جھوٹ اور افترا کے ساتھ ہو۔ اور نیز اس حالت پر بھی کہ مخلوق سے ڈر کر خالق کے امر سے کنارہ کشی کی جائے‘‘۔ (اربعین نمبر3روحانی خزائن جلد 17صفحہ 400-399)
فرمایا: ’’اے تمام لوگو! سن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر اُن کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہو گا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا۔ اور ہر ایک کو جو اُس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نا مراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی۔ اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان۔ کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا؟ پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹا کیا جاتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ (یٰس: 31) پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے رو برو آسمان سے اترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں، اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا؟ پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اترنا محض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اترے گا۔ ہمارے سب مخالف جو اَب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر اُن کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰؑ بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آ گئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰؑ اب تک آسمان سے نہ اترا۔ تب دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی کہ عیسیٰؑ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں، سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ67-66)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کی سچائی تو ہم دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا سلوک تو ہم دیکھ رہے ہیں۔ آج اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق ایشیا کے ممالک میں بھی اور جزائر میں بھی، یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی اور افریقہ کے سرسبز علاقوں میں بھی اور ریگستانوں کی دور دراز آبادیوں میں بھی احمدیت کو پھیلا دیا ہے، اور بڑی شان سے نہ صرف پھیلا دیا ہے بلکہ بڑی شان سے پنپ رہی ہے، بڑھ رہی ہے اور پھیل رہی ہے۔ ہر احمدی کی ہر قربانی ہمارے لئے نئی منزلوں کے حصول کا ہی ذریعہ بنتی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اِن فضلوں کا حصہ بننے کے لئے، اپنے ایمانوں کی مضبوطی کے لئے پہلے سے بڑھ کر ہمیں دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اور کروٹ لے رہے ہیں یہ
انشاء اللہ تعالیٰ احمدیت کے حق میں عظیم نظارے دکھانے والے بننے والے ہیں۔ اور اس کے لئے بڑی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پس ان دنوں میں خاص طور پر، خاص طور پر دعاؤں پر، دعاؤں پر بہت زور دیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری پردہ پوشی بھی فرمائے اور ہمارا کوئی عمل ایسا نہ ہو جو ہمیں اس ترقی کو دیکھنے سے محروم رکھے۔
آخر میں ایک افسوسناک اعلان ہے۔ ایک جنازے کا اعلان ہے میں ابھی جمعہ کی نماز کے بعدجنازہ پڑھاؤں گا جو مکرم تراری مرزوکی صاحب المعروف امام ادریس کا جنازہ ہے۔ مراکش کے تھے۔ گزشتہ دنوں پچھتہر(75) سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
انہوں نے 2002ء میں بیعت کی تھی اور امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارا وفد ان کے پاس جاتا تھا۔ بڑی تبلیغی نشستیں لگتی تھیں۔ امام تھے اور بڑے صاحبِ علم آدمی ہیں۔ مَیں اُن کوملا ہوں۔ تو یہ کوئی نہ کوئی راستہ نکلنے کا، فرار کا نکال لیتے تھے۔ ماننا نہیں ہوتا تھا۔ علماء کی جس طرح ضد ہوتی ہے اس کا ان پر بھی اثر تھا۔ بہر حال کہتے ہیں ایک دن تبلیغی نشست تھی، ہم بیٹھے تھے۔ جنرل سیکرٹری صاحب نے کہا کہ ان سے باتیں کرنا تو یہی ہے کہ پتھروں سے سر ٹکرانا۔ تو ان کوچھوڑیں۔ اُس پر یہ کہتے ہیں کہ مَیں نے اٹھتے ہوئے اُن کو اعجاز المسیح جو کتاب ہے وہ دے دی کہ اس کو پڑھیں اور چند دنوں کے بعدوہ آئے اور کہا کہ میری بیعت لے لیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کی اور جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ احمدیت قبول کرنے سے پہلے فرانس میں Strasburg کی ائمہ کمیٹی کے مستقل رُکن تھے اور مسلمانوں کی مسجد میں خطبہ بھی دیا کرتے تھے۔ تمام ائمہ ان کی قابلیت اور ایمانداری کی تعریف کرتے تھے لیکن جب لوگوں کو ان کی احمدیت کا پتہ چلا تو سب نے مخالفت شروع کر دی جس پر انہوں نے خود ہی امامت کا کام چھوڑ دیا۔
میری ملاقات اِن سے پہلی دفعہ 2003ء میں فرانس کے جلسے میں ہوئی تھی۔ گزشتہ سال جب مَیں فرانس گیا ہوں تو ان کی کمزوری بہت زیادہ تھی اور نقاہت تھی۔ بیماری بہت بڑھ گئی تھی۔ Strasburg میں گیا ہوں وہاں تشریف لائے اور امیر صاحب کو کہا کہ آپ ہر دفعہ کہتے تھے کہ خلیفۃ المسیح سے ملاقات کے لئے لندن چلو لیکن ڈاکٹر مجھے سفر کی اجازت نہیں دیتا تھا اور مجھے بہت زیادہ تکلیف بھی تھی لیکن اب دیکھیں اللہ تعالیٰ نے کیسا انتظام کیا ہے کہ خلیفہ ٔوقت خود میرے پاس آ گئے ہیں۔ خلافت سے آپ کو بے پناہ عشق تھا۔ قرآنِ مجید ہاتھ سے لکھ رہے تھے۔ جب میں Strasburg گیا ہوں تومجھے بھی انہوں نے بتایا کہ مَیں ہاتھ سے لکھ رہا ہوں۔ ان کی لکھائی بھی اچھی تھی۔ مجھے کہا کہ جب مَیں اسے ختم کرلوں گا تو مَیں آپ کو تحفے کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وفات کے وقت بھی ان کے سرہانے قرآنِ کریم اور صد سالہ جوبلی کا سوونیئر پڑا تھا۔ عاملہ کے اجلاسات کے لئے اکثر اپنا گھرپیش کیا کرتے تھے۔ Strasburg مسجد کے لئے جب چندے کی تحریک کی گئی تو جو بھی ان کے پاس رقم موجود تھی ساری کی ساری انہوں نے پیش کر دی۔ اللہ تعالیٰ اِن سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور اُن کو اپنی رضا کی جنتوں میں بلند مقام عطا فرمائے۔ اِن کے بچے اور باقی عزیز رشتے دار تو احمدی نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے بھی سینے کھولے اور اُن کو بھی احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔