خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍ اپریل 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بعض کتب میں اپنے مسیح و مہدی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے حق کی تلاش کرنے والے علماء و صلحاء اور عوام الناس کو اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ بلا وجہ تکفیر کے فتوے لگانے یا عوام الناس کو بغیر سوچے سمجھے علماء کے پیچھے چلنے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنی چاہئے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ خالی الذہن ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں تو یقینا اللہ تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ایک کتاب’’نشانِ آسمانی‘‘ میں یہ طریق بھی بتایا ہے کہ توبۃ النصوح کر کے رات کو دو رکعت نماز پڑھو۔ پہلی رکعت میں سورۃ یٰسین پڑھے، دوسری رکعت میں اکیس مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے، پھر بعد اس کے تین سو مرتبہ درود شریف اور تین سو مرتبہ استغفار پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے کہ تُو پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، اس شخص کے بارے میں مجھ پر حق کھول دے۔
پھر اس میں آپ نے دوبارہ یہ تاکید فرمائی ہے کہ اپنے نفس سے خالی ہو کر یہ استخارہ کرنا شرط ہے۔ لیکن اوّل تو توبۃ النصوح ہی بہت بڑی کڑی شرط ہے۔ اس پر عمل ہی کوئی نہیں کرتا اور خاص طور پر علماء تو بالکل ہی نہیں کر سکتے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر دل بُغض سے بھرا ہواور بدظنی غالب ہو تو پھر شیطانی خیالات ہی آئیں گے۔ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بہت دعا کرتے ہیں ہمیں تو کوئی سچائی نظر نہیں آئی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر دل میں ہی کینہ بھرا ہوا ہے، بُغض بھرا ہوا ہے تو پھر شیطان نے رہنمائی کرنی ہے۔ پھر خدا تعالیٰ رہنمائی نہیں کرتا۔ (ماخوذاز نشان آسمانی روحانی خزائن جلد4صفحہ 400,401)
اسی طرح علماء اور صلحاء کو خاص طور پر اپنی کتاب ’’کتاب البریہ‘‘ میں مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد چاہنے کی تجویز دی۔ (ماخوذ از کتاب البریہ روحانی خزائن جلدنمبر13صفحہ364)
لیکن بُغض سے بھرے ہوئے علماء اس تجویز پر کبھی عمل نہیں کرتے اور عوام الناس کو بھی اپنے ساتھ ڈبو رہے ہیں۔ بہر حال اس کے باوجود بہت سے سعید فطرت ہیں جو اس نسخے کو آزماتے ہیں اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی رہنمائی فرمائی اور اس کے علاوہ بعض سعید فطرت ایسے ہیں جو نیکی کی تلاش میں رہتے ہیں اُن کی اللہ تعالیٰ ویسے بھی رہنمائی فرماتا ہے۔ بہر حال اس زمانے میں بھی آج کل بھی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اُن لوگوں کی رہنمائی فرماتا چلا جا رہا ہے جو حق کی تلاش میں سنجیدہ ہیں۔ اس وقت مَیں ایسے ہی لوگوں کے چند واقعات پیش کروں گا۔
تبشیر کی رپورٹ کے مطابق جو عربی ڈیسک نے اُن کودی کہ اس ماہ اپریل کے اَلْحِوَارُ الْمُبَاشِر میں ایم۔ ٹی۔ اے تھری پرجو عربی پروگرام آتا ہے اس میں ایک مصری دوست مکرم عبدہ بکر محمد بکر صاحب نے فون کر کے بتایا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان فرمودہ طریق کے مطابق استخارہ کیا اور یہ دعا کی تو اُسی رات رؤیا میں دیکھا کہ مَیں اپنے ایک سلفی رشتے دار کو اپنے ہاتھ کی انگلی ہوا میں لہراتے ہوئے بڑے جوش سے کوئی بات کہہ رہا ہوں لیکن میرے الفاظ مجھے سنائی نہیں دیتے۔ جب مَیں خواب سے بیدار ہوا تو اگلے دن پھر اسی طریق پر دعا کی اور ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ اے اللہ! مجھے کوئی واضح چیز دکھا جس سے انشراحِ صدر ہو جائے۔ چنانچہ مَیں نے دوبارہ وہی رؤیا دیکھا کہ مَیں اپنے اُسی رشتے دار کے سامنے کھڑا ہوں اور اپنے ہاتھ کی انگلی لہراتے ہوئے تین بار کہتا ہوں کہ وَاللّٰہِ الْعَظِیْم۔ اِنَّ الْجَمَاعَۃَ الْاَحْمَدِیَّۃَ جَمَاعَۃُ الْحَقِّ۔ یعنی خدائے عظیم کی قسم ہے کہ جماعت احمدیہ ہی سچی جماعت ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بیعت کی توفیق دی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ ایک دن دعا کر کے نہ بیٹھ جاؤ بلکہ کم از کم اس سنجیدگی سے دو سے تین ہفتے یا زیادہ دعا کرو۔ جب اللہ تعالیٰ سے رہنمائی چاہو تو اللہ تعالیٰ ایک وقت میں رہنمائی فرمائے گا۔ (ماخوذاز نشان آسمانی روحانی خزائن جلد4صفحہ 401)
پھر ہمارے امریکہ کے ایک مبلغ لکھتے ہیں کہ عبدل سلیم صاحب پچیس، تیس سال پہلے فجی سے لاس انجلیس امریکہ آئے تھے اور عیسائی ماحول ہونے کی وجہ سے عیسائیت قبول کر لی مگر بعد ازاں ایک مسلمان کی تبلیغ سے پھر اسلام کی طرف رجوع کیا۔ کہتے ہیں اُن کی دوستی خاکسار (یعنی ہمارے جومبلغ ہیں انعام الحق کوثر اُن) سے ہو گئی اور یہ ہماری مسجد میں آنے لگے۔ انہیں احمدیت کے متعلق تفصیل بتائی۔ مطالعہ کے لئے لٹریچر دیا اور یہ مشورہ دیا کہ وہ دعا کر کے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کریں۔ اور دعائے استخارہ کا مسنون طریقہ بتایا۔ چنانچہ انہوں نے استخارے کی دعا کی اور خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نظر آئے۔ اگلے روز وہ حسبِ عادت غیر احمدیوں کی مسجد میں گئے۔ وہاں عرب سے کوئی شَیخ آئے ہوئے تھے۔ اُس شَیخ نے حاضرین کو سوال کرنے کی دعوت دی تو عبدل سلیم صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ قرآن و حدیث کے مطابق یہ زمانہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کی آمد کا ہے۔ چنانچہ مَیں نے دعا کی کہ اے خدا! تو مجھے بتا۔ کیا امام مہدی آ گئے ہیں؟ اور اگر آ گئے ہیں تو کون ہیں؟ تو کہتے ہیں مَیں نے اُن کو بتایا کہ میری خواب میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام آئے۔ اس پر شیخ نے کہا کہ یہ شیطانی خواب ہے اور اس میں کوئی صداقت نہیں۔ تم کثرت سے تعوّذ پڑھو اور درُود شریف پڑھو۔ چنانچہ انہوں نے پھر دعا کی۔ کثرت سے درود شریف پڑھا۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو خواب میں نظر آئے۔ چنانچہ یہ پھر دوبارہ شَیخ کی مجلس سوال و جواب میں گئے اور وہاں ذکر کیا۔ اُس شیخ نے پھر کہا کہ یہ شیطانی خواب ہے۔ عبدل سلیم صاحب نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ رات کو مَیں کثرت سے تعوذ پڑھتا ہوں۔ درود شریف پڑھتا ہوں۔ پھر دعا کرتا ہوں کہ اے خدا! تو مجھے امام مہدی علیہ السلام کی آمد کے بارے میں بتا۔ مگر بقول آپ کے خدا تعالیٰ مجھے جواب نہیں دیتا مگر صرف شیطان جواب دیتا ہے۔ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ یہ جواب سن کر مسجد میں شور مچ گیا اور انہوں نے کہا اس کو یہاں سے باہرنکالو۔ یہ کافر ہے۔ یہ پلید ہے۔ کہتے ہیں یہاں تک کہ عورتوں کی طرف جو سائڈ سکرین تھی، وہاں سے بھی سکرین پیٹی جانے لگی کہ اسے باہر نکالو۔ یہ کافر ہے۔ بہر حال یہ کہتے ہیں مَیں وہاں سے اُٹھ کر آ گیا اور یہ سارا واقعہ انہوں نے ہمارے مبلغ کوسنایا اور پھر کہا کہ اب مجھے شرح صدر ہو گئی ہے کیونکہ شَیخ کے پاس تو اس کا کوئی جواب نہیں اور اب میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کی۔ جس دن بیعت کی تو اسی روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکمل طور پر خواب میں اُن پر ظاہر ہوئے اور اُن کو سلام کیا اور مصافحہ کیا اور احمدیت قبول کرنے پر مبارکباد دی۔ اور کہتے ہیں اگلے دن مَیں بڑا خوش تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس طرح مَیں نے مصافحہ کیا۔
تو یہ لوگ جو گزشتہ ایک سو بیس سال سے شیخ ہیں یا نام نہادعلماء ہیں، اسی طرح عوام الناس کو، مسلمانوں کو ورغلاتے چلے جا رہے ہیں۔ اور آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ بڑی شان سے پورے ہو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ’’مَیں دیکھتا ہوں اور آپ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ کافر کہنے والے موجودنہیں اور خدا تعالیٰ نے مجھے اب تک زندہ رکھا ہے اور میری جماعت کو بڑھایا ہے‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلدنمبر20صفحہ نمبر249,250)
اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام گو اپنے وجود کے ساتھ ہم میں موجودنہیں لیکن جماعت کا بڑھنا، آپ کا لوگوں میں خوابوں کے ذریعے سے آ کے اپنی سچائی ثابت کرنا یہی زندگی کا ثبوت ہے۔
پھر انڈونیشیا سے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ڈیڈی سناریہ (Dedi Sunarya) صاحب جماعت احمدیہ سیانجوڑ (Cianjur) ویسٹ جاوا کے ممبر ہیں۔ ان تک جماعت کا پیغام 2006ء تک پہنچ چکا تھا۔ انہوں نے جماعتی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔ اُن کی پسندیدہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی معرکۃ الآراء کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ تھی۔ وہ کہتے ہیں بارہا اس کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی انہیں احمدیت قبول کرنے میں ہچکچاہٹ تھی۔ ایک دن انہیں کہا گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے استخارہ کریں۔ چنانچہ وہ مسلسل دعا کرتے رہے اور فروری 2008ء میں انہوں نے خواب میں ایک زبان میں ایک جملہ سُنا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اگر تم وہاں جانا چاہتے ہو تو پہلے تمہیں مضبوط ہونا ہو گا‘‘ اس کے بعد جلد ہی اُنہیں ایک اور خواب آئی جس میں اُنہیں کہا گیا کہ وہ چالیس دن روزے رکھیں۔ ان روزوں میں اُنیسویں اور اکیسویں رات انہیں کشف دکھایا گیا جس میں ایک سفید لباس میں ملبوس شخص یہ کلمات دہرا رہا تھا کہ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُُوْل اللّٰہ۔ احمدیت سچی ہے، تمہیں یقینا لیلۃ القدر حاصل ہو گئی ہے اور حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہی امام مہدی ہیں۔ کہتے ہیں یہ کشف مجھے کئی مرتبہ ہوا۔ بالآخر 2008ء میں انہوں نے اپنی اہلیہ سمیت احمدیت قبول کر لی اور اس کے بعد کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام مشکلات کو انہوں نے بڑے صبر اور حوصلے سے برداشت کیا۔
کینیڈا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ سینٹ تھامس (اونٹاریو) کے رہائشی ایک مقامی لوکل شخص بل روبنسن (Bill Robinson)تھے جو بڑے پُرجوش عیسائی تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ عیسائیت سے بیزار ہو گئے اور خدا سے دعا کرنے لگے کہ اے خدا! صحیح راستہ مجھے دکھا۔ کہتے ہیں ایک شب نہایت شدت سے مَیں نے دعا کی کہ اگر خدا موجود ہے تو مجھے صحیح راستہ دکھا۔ صبح کو اُس نے دیکھا کہ اس کے میل باکس میں جماعت احمدیہ کا پمفلٹ پڑا ہوا ہے۔ بِل نے اُسے خدائی نشان سمجھتے ہوئے جماعت سے رابطہ کیا اور مارچ 2011ء میں بیعت کر لی۔ اُن کا کہنا تھا کہ مسلمان ہونے کے بعد جب وہ نہائے تو محسوس کیا کہ اُن کے سارے گناہ دُھل کر بہہ گئے ہیں اور وہ نئے انسان بن گئے ہیں۔ تو جو نیک فطرت ہیں اُن کومعجزوں کی کثرت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اُنہوں نے صرف اپنے پوسٹ باکس میں ایک پمفلٹ دیکھ کے اس کو بھی خدائی تائید سمجھتے ہوئے احمدیت کا مطالعہ کیا اور پھر احمدیت قبول کر لی۔
پھر قزاقستان سے وہاں کے ہمارے مقامی معلم روفات توکاموف صاحب لکھتے ہیں کہ گل سیزم آئمہ کینا صاحبہ نے 2010ء میں بیعت کی۔ اس سے قبل وہ صوفی ازم سے منسلک رہیں۔ اُن کا پہلا سوال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تھا۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کے بارے میں ہم سے سُن کر بہت حیران ہوئیں۔ اُس نے بتایا کہ جماعت میں داخل ہونے سے تقریباً تین چار ماہ پہلے اُس نے خواب دیکھا کہ گویا کسی نے بورڈ پر عربی زبان میں کچھ لکھا ہے جسے وہ نہ پڑھ سکیں۔ تا ہم اُس کا مفہوم اُسے یہ بتایا گیا کہ امام مہدی آپ کے درمیان موجود ہے۔ اس کے تقریباً دو ہفتے بعد اُس نے وہاں ایم۔ ٹی۔ اے پر جلسہ سالانہ جرمنی میں مجھے خطاب کرتے ہوئے دیکھا تو اُس پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ وہ کہتی ہیں مجھے پہلے ہی دکھایا گیا تھا کہ امام مہدی آ چکے ہیں اور امام مہدی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اُس کے بعد اُس نے احمدیت قبول کر لی۔
سیرالیون کے ہمارے مشنری انچارج لکھتے ہیں کہ کینیما ڈسٹرکٹ کے بنڈوما (Gbandoma) گاؤں میں ڈاکٹر تامو صاحب مشنری صالح لہائے صاحب اور معلم مصطفی فوفانا، تینوں داعیانِ الی اللہ تبلیغ کے لئے گئے۔ تبلیغ کرنے کے بعد انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رہنمائی حاصل کرنے کے لئے الحاجی مصطفی تامو کو استخارہ کرنے کا طریق بتایا کہ اس طرح آپ احمدیت کی صداقت معلوم کر سکتے ہیں۔ اگلی صبح الحاجی مصطفی تامو صاحب جو ابھی احمدی نہ تھے۔ انہوں نے مسجد میں نمازِ فجر کے بعد خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ نے اُن پر حق کھول دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رات خواب میں دیکھا کہ وہ بائیسکل پر شہر جانا چاہتے ہیں۔ (اب افریقنوں کو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کو سمجھ نہیں آتی اور ہم زیادہ ترقی پسند، ترقی پذیر اور علم دوست ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے جب رہنمائی فرمانی ہو، جس کو ہدایت دینی ہو، اُس کے لئے چھوٹی سی چیز میں ہی ایک رہنمائی فرما دیتا ہے جو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔ اور یہ دیکھیں کہتے ہیں کہ خواب میں دیکھا کہ) بائیسکل پر شہر جانا چاہتے ہیں اور اِن کے پاس بھاری سامان ہے۔ فکر مند ہیں کہ کس طرح بھاری سامان لے کر شہر پہنچیں؟ اتنے میں ایک لڑکے نے آ کے پیغام دیا کہ تمہارا بھائی صالح (جو ہمارے معلم ہیں) تمہیں بلا رہے ہیں کہ تم میرے ساتھ گاڑی پر آ جاؤ۔ مَیں نے جب پیچھے مُڑ کر دیکھا تو میرا بھائی صالح جو احمدی ہے ایک خوبصورت پگڑی پہنے ہوئے ہے اور کہہ رہا ہے کہ آؤ کار پر چلیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے فوراً سمجھ لیا کہ میری مشکلات سے نجات احمدیت میں ہی ہے۔ اور حقیقی عزت اسی میں ہے۔ اس خواب بیان کرنے کے بعد وہ آئے کہ میری بیعت لے لیں۔ شام سے ہمارے ایک دوست ہیں یاسر برہان الحریری صاحب۔ وہ کہتے ہیں مَیں نے اپنے کزن رتیب الحریری صاحب سے جماعت کا ذکر سنا تو سنتے ہی میرے دل میں حق راسخ ہو گیا اور مَیں بیعت کرنے پر بھی رضا مند ہو گیا۔ دو روز قبل مَیں نے دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کی کہ اے اللہ! مجھے حق کے بارے میں کھول کر بتا دے اور پھر اس کی اتباع کی توفیق عطا فرما۔ کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ مَیں ایک اَن پڑھ انسان ہوں۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچے چلا جا رہا ہے۔ مَیں کافی دور تک اُس کے ساتھ چلتا رہا۔ پھر پوچھا کہ تم مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو؟ اُس نے کہا کچھ دیر بعد تم خود ہی دیکھ لو گے۔ چنانچہ مَیں نے آگ کے بلند شعلے اور بہت کثرت سے لوگ دیکھے۔ یہ دیکھ کر مَیں نے خوفزدہ ہوتے ہوئے اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اُسی وقت آسمان سے نور نازل ہوا اور جب مَیں نے اُسے دیکھا تو اُس شخص کو کہا کہ اب مَیں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ اس نور کو دیکھ کر مجھے راحت و اطمینان اور سکینت مل گئی ہے۔ اس رؤیا کے بعد مجھے انشراح صدر ہو گیا۔ الحمد للہ اُس کے بعد بیعت کر لی۔
مکرمہ رنا محمد البواعنہ صاحبہ اُردن کی ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ میرا جماعت سے تعارف اپنے خاوند کے ذریعے ہوا۔ انہوں نے تین سال ایم۔ ٹی۔ اے دیکھنے کے بعد چند ماہ قبل بیعت کر لی تھی۔ مَیں نے بیعت کے بعد اپنے میاں میں خدا تعالیٰ سے تعلق میں نمایاں تبدیلی دیکھی۔ اُن کی دعا کا انداز اور نمازوں کی پابندی اور خشوع و خضوع نمایاں طور پر بدل گیا۔ وہ مجھ سے بھی جماعتی عقائد کی بات گاہے بگاہے کرتے اور مجھے امام الزمان کی کتابوں کے مطالعہ کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ خصوصاً ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ پڑھنے کے لئے دی جو مجھے بہت پسند آئی اور اس کے بعد مَیں نے عربی کتاب ’’التبلیغ‘‘ کا مطالعہ کیا اور وہ بھی بہت عمدہ تھی۔ اس پر مَیں نے خدا تعالیٰ کے حضور انشراحِ صدر کے لئے دعا کی۔ چنانچہ مجھے بہت سی خوابیں آئیں جن میں سے ایک یہ تھی۔ کہتی ہیں مَیں نے دیکھا کہ میرے میاں مختلف رنگوں کے گلاب کے پھولوں سے سجے ہوئے ایک اونچے ٹیلے پر کھڑے ہیں اور آپ کے ساتھ بہت زیادہ لوگ موجود ہیں جو بہت خوش ہیں۔ جبکہ مَیں نیچے پستی میں کھڑی ہوں اور اُن کی طرف دیکھ رہی ہوں اور خواہش کرتی ہوں کہ اُن کے ساتھ مل جاؤں۔ چنانچہ مَیں نے اُن کی طرف چڑھنا شروع کیا۔ اوپر کی طرف راستہ بہت خوبصورت اور ہر طرف سے سبز و شاداب اور دیدہ زیب رنگ برنگے پھولوں سے سجا ہوا تھا۔ جب میں اوپر چڑھتے چڑھتے تھک جاتی تو مختلف پھولوں سے سجائے ہوئے بہت دلکش گھڑوں سے پانی پیتی جو بہت شیریں اور اس قدر مزے دار تھا کہ اس جیسا مَیں نے پہلے کبھی نہیں پیا۔ کہتی ہیں اس کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ جو کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام نے بیان فرمایا ہے وہی حقیقی رنگ میں اسلام کی دلکش اور خوبصورت تعلیم ہے۔ لہٰذا مَیں نے اپنے میاں سے کہا کہ میری بیعت بھی ارسال کر دیں۔ پھر الجزائر کی ایک فتیحہ صاحبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں مَیں نے ایم۔ ٹی۔ اے کے بہت سے پروگرام دیکھنے کے بعد خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی تو خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک بہت بڑی جماعت میں شامل ہوں جس کی رہنمائی (میرا لکھا کہ) خلیفۃ المسیح الخامس اپنے روایتی لباس میں کر رہے ہیں۔ اور ایک مسجد کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں جس کے دروازے کھلے ہیں اور اس مسجد کے اندر نور چمک رہا ہے۔ اس خواب کے بعد 9؍فروری 2010ء کو کہتی ہیں مَیں نے بیعت ارسال کر دی اور بڑی شدت سے جواب کا انتظار کرنے لگی۔ اُسی رات مَیں نے دیکھا کہ میں ایک فریم کئے ہوئے آئینے میں دیکھ رہی ہوں۔ اچانک مجھے اپنی شکل فریم میں نظر آنے لگی اور وہ شکل بہت چمکدار، روشن تھی۔ مَیں نے زندگی بھر اپنی شکل اتنی خوبصورت نہیں دیکھی۔ پھر اچانک وہ تصویر غائب ہو گئی اور آئینہ میں میری بچپن کی تصویر اسی طرح روشن اور نہایت خوبصورت شکل میں ظاہر ہوئی۔ مَیں اُسے دیکھ کر خواب میں بہت زیادہ خوش تھی اور اچانک مَیں نے اپنے بائیں طرف دیکھا تو میرا ایک اسسٹنٹ نظر آیا جس نے کہا کہ دیکھو، احمدیت کے آثار کس طرح میرے اندر منعکس ہو رہے ہیں۔ محمد یحيٰ سیہوب الجزائر کے ہیں۔ کہتے ہیں مَیں نے چند ماہ قبل بیعت کی توفیق پائی۔ اس کا سہرا میرے بیٹے سلیم کے سر ہے جسے مختلف چینل دیکھنے کا شوق ہے۔ اور اسی تلاش میں اُسے ایم۔ ٹی۔ اے مل گیا جہاں پروگرام حوارِ مباشر جاری تھا۔ چنانچہ اس نے کئی پروگرام دیکھے اور پروگرام کے درمیان فون بھی کئے اور عربی ویب سائٹ پر موجود مواد کا مطالعہ بھی کیا۔ جب کوئی بات خلافِ شریعت نظر نہ آئی اور واضح دلائل سنے تو بیعت کر لی۔ لیکن مَیں نے بیعت سے قبل استخارہ کیا اور خدا تعالیٰ سے التجا کی کہ مجھے اس شخص یعنی سیدنا احمد علیہ السلام کی حقیقت بتا دے۔ تو مَیں نے خواب میں کچھ لوگوں کو اُن کے گھروں میں دیکھا کہ وہ شدید آندھی کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ اپنے گھر کے باہر والے اُس پردہ کو پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو باہر سے اُن کے برآمدے کو ڈھانکتا ہے لیکن وہ اُسے پکڑ نہیں سکتے اور پردہ اوپر ہوا میں اُٹھ جاتا ہے اور وہ بے پردہ ہو جاتے ہیں اور گھر کے اندر سے چیزیں نظر آنے لگتی ہیں۔ اس کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ جیسے حقیقت میں ایک بڑا زلزلہ برپا ہو گیا ہے۔ اس پر مَیں نے بے ساختہ ڈر کرنہایت مرعوب آواز میں کلمہ شہادت پڑھا اور دل کی گہرائیوں سے تین بار دہرایا۔ اس کے بعد سکون ہو گیا اور کہتے ہیں مَیں نے مؤذن کی آواز سنی اور یہ سب کچھ فجر سے پہلے ہوا۔ جب مَیں بیدار ہوا تو میری آنکھیں خدا تعالیٰ سے ڈر کی وجہ سے آنسوؤں سے تَر تھیں۔ پھر نماز کے لئے اُٹھا تو میرا یہ ڈر ختم ہو گیاتھا اور سکینت میرے دل پر اترتی محسوس ہوئی۔ یہ کہتے ہیں کہ اس خواب سے مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی صداقت مجھ پر واضح ہو گئی، سمجھ آ گئی کیونکہ مَیں دعا کر رہا تھا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالنے کے لئے تشریف لائے ہیں۔ ہانی طاہر صاحب لکھتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل لبنان سے ایک دوست مکرم جمیل صاحب نے بیعت کی تھی۔ انہوں نے اپنی بہن یاسمین کو تبلیغ کرنی شروع کی لیکن وہ قائل نہ ہوتی تھی۔ آج انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اب اس نے ایک خواب کی بنا پر بیعت کا فیصلہ کیا ہے۔ لکھتی ہیں کہ ہفتہ کے روز نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے طلبِ ہدایت کے لئے بہت دعا کی۔ رات کو سونے سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پڑھ رہی تھی۔ (بیعت تو نہیں کی تھی لیکن دشمنی ایسی بھی نہیں تھی کہ کتابیں نہ پڑھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت پڑھ رہی تھیں) اسی دوران نیند آ گئی اور خواب میں حضورِ انور کو بعض اَورلوگوں کے ساتھ بیٹھے دیکھا۔ حضور نے پوچھا کہ کیوں بیعت کرنا چاہتی ہو؟ مَیں نے عرض کیا کہ آپ کی باتیں درست اور معقول ہیں۔ اس لئے بیعت کرنا چاہتی ہوں۔ اس کے بعد خواب میں ہی بیعت کر لی۔ بیدار ہونے کے بعد محسوس ہوا کہ خواب حقیقت سے بھی زیادہ واضح تھی۔
محمود یحيٰ علی صاحب یمن کے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مَیں نے مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت جاننے کے لئے استخارہ کیا تو خواب میں آپؑ کو دیکھا کہ آپ خانہ کعبہ کے دروازے کے پاس ایک سفید شاخوں والے درخت کے پاس کھڑے ہیں جس کی بلندی تقریباً دو میٹر ہے اور کوئی کتاب پڑھ رہے ہیں، اس کے بعد آنکھ کھل گئی لیکن حضور کے الفاظ یادنہیں رہے۔ کہتے ہیں کچھ دنوں کے بعد پھرمَیں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خانہ کعبہ میں منبرِ رسول پر کھڑے خطاب فرما رہے ہیں۔ اس پر آنکھ کھل گئی۔ اس کے بعد لوگوں کو جماعت کے افکار و عقائد کی تبلیغ میں نے شروع کی تو اُن کی طرف سے ہنسی مذاق کا نشانہ بننا پڑا۔ انہوں نے مجھے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تم ذہنی مریض ہو گئے ہو۔ بعض نے بدزبانی کی۔ بعض نے بات کرنا ہی چھوڑ دی۔ لیکن الٰہی جماعتوں کے ساتھ تمسخر اور استہزاء تو لوگوں کی پرانی عادت ہے جس کا قرآنِ کریم میں بھی ذکر ہے۔ بہر حال میں نے مع اہلیہ و بچے بیعت کر لی۔
مکرم عبدالقاعد احمد صاحب یمن سے لکھتے ہیں کہ دو سال سے ایم۔ ٹی۔ اے دیکھ رہا ہوں۔ اُن سارے سوالوں کے جواب مل گئے ہیں جن کا جواب جماعت احمدیہ کے علاوہ کسی کے پاس نہ تھا۔ پہلی دفعہ ایم۔ ٹی۔ اے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دیکھ کر دل کو تسلی ہو گئی کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ اس کے بعد متعدد مبشر خوابیں دیکھی ہیں۔ چند ایک عرض ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ دیکھا کہ حضرت عزرائیل مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ تمہاری عمر ختم ہو چکی ہے۔ پھر مجھے ایک خوبصورت اور خوشنما جگہ پر لے گئے جہاں غیر عرب لوگ سفید لباس اور پگڑیاں پہنے ہوئے ہیں۔ پھر عزرائیل نے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بسم اللہ اور سورۃ فاتحہ پڑھی۔ اس کے بعد مجھے بیہوشی کی سی کیفیت محسوس ہوئی (یہ خواب میں ہو رہا تھا)اور پھر کہتے ہیں پھر میری آنکھ کھل گئی۔ غالباً اس سے مراد یہ تھی کہ جماعت احمدیہ سے تعارف کے بعد ایک پاک زندگی کی طرف میرا سفر شروع ہو گیا۔ خواب میں مسیح الدجال کو دیکھا جو بیساکھیوں کے سہارے چل رہا تھا۔ مَیں نے بڑھ کر اس کی گردن توڑ دی۔ اس کی تعبیر میرے ذہن میں آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کے بعد مجھے اور میرے ایمان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ کہتے ہیں کچھ مدت کے بعد پھر خواب میں حضرت مسیح بن مریم علیہ السلام کو پیٹھ پھیر کر جاتے دیکھا اور اُس کی تعبیر یہ سمجھ آئی کہ اب مسیحی عقیدے کے ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں اور ہم آپ کا نورانی چہرہ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کا رنگ مرجان کے موتیوں کی طرح ہے۔ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور حضور سے ملتے ہی آپ کے ہاتھ چوم کر مَیں رونے لگ گیا۔ آپ نے کمال شفقت سے فرمایا۔ ’’آؤ نماز پڑھیں‘‘ تب ہم نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد انہوں نے بیعت کر لی۔
نائیجیریا سے ہمارے مبلغ ندیم صاحب لکھتے ہیں کہ بینوے سٹیٹ (Benue State) کے ایک امام خالد شعیب صاحب سے ہمارے ایک معلم کا رابطہ قائم ہوا۔ اُن کو جماعت کا لٹریچر پڑھنے کے لئے دیا گیا۔ اُن کی دلچسپی بڑھی اور یہ جماعت کے ہیڈ کوارٹر ابوجا آئے اور مبلغِ سلسلہ سے کافی سوال و جواب ہوئے۔ اور مزید عربی لٹریچر حاصل کیا۔ کچھ دنوں کے بعد امام صاحب نے بتایا کہ اب مجھے مکمل تسلی ہے اور مَیں نے ایک خواب بھی دیکھی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نائیجیریا میں ایک بہت بڑے مجمع سے خطاب فرما رہے ہیں۔ اور مَیں ہاؤسا زبان میں اس خطاب کا ترجمہ کر رہا ہوں۔ خطاب کے اختتام پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے دو قلم اور ایک کتاب عطا فرمائی۔ اس لئے اب میری تسلی ہے اور مَیں دل سے احمدی ہو چکا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی طرف سے ہی ہاؤسا زبان میں ایک خط تیار کیا جس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کا ذکر کیا ہے اور انہوں نے بتایا کہ انہوں نے جماعت کی کتابیں پڑھی ہیں جس میں ’’اَلْمَسِیْحُ النَّاصری فی الھِند‘‘ اور ’’القولُ الصَّرِیح فِی ظہورِ المہدی والمَسیح‘‘ شامل ہیں۔ اور میں اس بات پر ایمان لا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود ہی وہ مسیح ہیں جن کا ہم انتظار کر رہے تھے۔ لہٰذا مَیں نے جماعت کو قبول کر لیا ہے۔ نیز خط میں لکھا ہے کہ باقی ائمہ کرام کو بھی اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ اس جماعت کو قبول کر لیں۔ اور امام صاحب نے یہ بھی لکھا کہ انہوں نے اپنی طرف سے ’’القولُ الصَّرِیح فِی ظہورِ المہدی والمَسیح‘‘ کا ہاؤسا زبان میں ترجمہ شروع کر دیا تھا لیکن چند روز قبل کہتے ہیں مَیں نے خواب دیکھی کہ ایک سفید آدمی جو سفید لباس میں ملبوس ہیں میرے پاس آئے اور کہا کہ پہلے ’’اَلْمَسِیْحُ النَّاصری فی الھِند‘‘ کا ترجمہ کریں۔ یہ میری کتاب ہے اور اس ترجمے کو کوگی سٹیٹ (Kogi State) میں اپنے لوگوں تک پہنچائیں۔ لہٰذا مَیں نے اس کتاب کا ترجمہ شروع کر دیا ہے جو اَب مکمل ہونے والی ہے۔ کہتے ہیں میرے کئی شاگرد ہیں اُن تک بھی مَیں انشاء اللہ احمدیت کا پیغام پہنچاؤں گا۔
برکینا فاسو سے ہمارے مشنری انچارج لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک معلم نے اپنے ایک زیرِ تبلیغ دوست زَیلا ابوبکر کو کہا کہ اگر تم جماعتِ احمدیہ کی سچائی پرکھنا چاہتے ہو تو مَیں ایک نسخہ بتاتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ تم روزانہ بلا ناغہ دو نوافل ادا کرو اور اس میں صرف اور صرف خدا تعالیٰ سے جماعتِ احمدیہ کی سچائی دریافت کرو۔ انشاء اللہ خدا تعالیٰ تمہاری رہنمائی فرمائے گا۔ چنانچہ اُس نے ایسا ہی کیا اور ایک دن زَیلا ابوبکر صاحب نے خواب دیکھا کہ ایک آدمی جو سفید فام ہے آیا اور کہا کہ اوپر چڑھ آؤ۔ لگتا تھا کہ وہ سفید فام زمین سے اوپر کی طرف کرسی پر ہے اور ہمیں بلا رہا ہے۔ زَیلا ابوبکر صاحب کہتے ہیں خواب میں خاکسار اور ہمارے گاؤں کا امام ساتھ تھے۔ جب اس سفید فام آدمی نے ہمیں اوپر چڑھنے کی دعوت دی تو خاکسار تیزی کے ساتھ اوپر چلا گیا اور امام صاحب نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور کہا کہ مَیں نہیں جاتا۔ جب اُن کو تصاویر دکھائی گئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے جو اِن کی خواب میں آئے تھے اور جو ہمیں ایمان لانے کی طرف بُلا رہے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔
محمود عیسیٰ صاحب شام کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میرا ایم۔ ٹی۔ اے سے تعارف میرے ایک کزن کے ذریعے ہوا جو ڈاکٹر ہے اور مکذِبین میں شامل ہے۔ اُس نے بطور تمسخر بتایا کہ ایک شخص امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے اور اس کے متبعین ہر جگہ موجود ہیں اور اُس کی وفات پر سو سال گزر چکے ہیں۔ مَیں نے اُس سے ایم۔ ٹی۔ اے کے بارے میں معلومات لیں۔ شروع میں مجھے بہت دھکا لگا اور مایوسی ہوئی کہ امام مہدی آ کر چلا بھی گیا اور ہمیں کوئی خبر نہ ہوئی۔ جبکہ مَیں خاص طور پر انتظار کر رہا تھا کہ وہ آ کر اُمّتِ مسلمہ عربیہ کو آزادی دلائیں۔ میں نے دل میں کہا کہ یہ شخص امت کو آزاد کرانے والا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اس کی کسی نے بیعت نہیں کی۔ بہر حال میں نے اپنے کزن سے کہا کہ شاید یہ لوگ سچے ہوں لیکن اس نے میری بات نہیں سنی۔ لکھتے ہیں کہ مَیں کوئی صالح انسان نہیں۔ کوئی نیک انسان نہیں ہوں۔ بلکہ مَیں لامذہب آدمی تھا۔ نماز بھی نہ پڑھتا تھا اور شراب بھی پی لیتا تھا لیکن اس کے باوجود مجھے ہمیشہ حق وعدل کی تلاش رہی۔ چار سال قبل مَیں نے خواب میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے خیمے میں تشریف فرما ہیں اور آپ کے گرد صحابہ کرام جمع ہیں۔ مَیں نے آگے ہو کے دیکھا تو ایک چمکتے دمکتے چہرے والا انسان ہے۔ جب مَیں نے ارد گرد کے لوگوں سے پوچھا کہ اس شخص کی تو داڑھی نہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ بعثت سے پہلے رسول کی شکل ہے۔ مَیں جب بیدار ہوا تو بہت خوش تھا۔ پھر دو سال قبل جب مَیں نے ایم۔ ٹی۔ اے دیکھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ وہ شکل جومَیں نے خواب میں دیکھی تھی وہ سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہیں۔ مَیں نے بڑے تعجب سے اپنی بیگم کو بتایا کہ فرق یہ تھا کہ حضور کی داڑھی ہے۔ باقی شکل وہی تھی۔ کہتے ہیں مَیں نے بیعت میں تاخیر اس لئے کی کہ میرے اعمال اچھے نہیں تھے اور مَیں جماعت میں شامل ہو کر جماعت کو بدنام نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ سوچ ہے نئے آنے والوں کی اور یہ لمحہ فکریہ ہے ہم پرانوں کے لئے بھی۔ کہتے ہیں مَیں ایک لبنانی رسالہ’’عشتروت‘‘ میں لکھتا ہوں اور شعر بھی کہتا ہوں۔ میرا ارادہ تھا کہ دیوان نشر کروں۔ لیکن جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار پڑھے ہیں میری زندگی کلیۃً بدل گئی ہے۔ آپ کے شعر غیر معمولی ہیں۔ قرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں۔ ایک نوجوان تنچ تک (Tinchtik) صاحب ہیں۔ اپنا واقعہ وہ تنچ تک صاحب خود بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مَیں کچھ عرصے سے جماعت احمدیہ کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا تھا لیکن تاحال بیعت کے لئے شرح صدر نہیں تھا۔ انہی ایام میں ایک رات خاکسار نے خواب دیکھا کہ چھت پر ایک کالی شبیہ نظر آتی ہے۔ اُس وقت مَیں فوراً سورۃ فاتحہ اور لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کا ورد کرتا ہوں۔ اُس کے بعد خواب میں مجھے ایک سفید صاف ورق دکھایا جاتا ہے جس کے اوپر عربی میں کچھ لائنیں لکھی ہوئی ہیں۔ اُن کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں لیکن مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ اس کے فوراً بعد دیکھتا ہوں کہ بائیں طرف اوپر کونے میں رشین میں لکھا ہوا تھا ’’اسلام حقیقی دین‘‘ اور اونچی آواز آ رہی تھی کہ ’’احمدیت حقیقی اسلام‘‘۔ اس خواب کے بعد میرا دل مطمئن ہو گیا اور مَیں نے فوراً بیعت کر لی۔
انڈونیشیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ مکرم رونی پسارونی (Roni Psaroni) جو کہ جماعت احمدیہ ویسٹ جکارتہ کے ممبر ہیں۔ انہوں نے احمدیت قبول کرنے سے قبل خواب میں سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نورانی وجود دیکھا جس نے سر پر پگڑی بھی پہنی ہوئی تھی۔ اس خواب نے ان صاحب پر بڑا گہرا اثر چھوڑا۔ چند دن بعد یہ صاحب ایک دوست کے گھر گئے اور تصویر میں وہی وجود دیکھا جو انہیں خواب میں دکھایا گیا تھا۔ اس تصویر کے بارے میں پوچھا تو ان کے دوست نے بتایا کہ یہ تصویر امام مہدی بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی ہے۔ اس کے بعد رونی صاحب نے جماعتی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور ان کی اہلیہ کا بیان ہے کہ بعض اوقات وہ درجنوں جماعتی کتب، چھوٹی چھوٹی کتابیں صرف دو دن میں پڑھ لیتے تھے۔ آخر 2008ء میں انہوں نے بیعت کی۔ اور گزشتہ دنوں انڈونیشیا میں جو اکٹھی تین شہادتیں ہوئی ہیں، اُن میں سے ایک یہ بھی تھے۔
بینن کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ باسلہ ریجن کے گاؤں ’’اِکوکو‘‘ (Ikoko) میں ہمارے لوکل مشنری حسینی علیو صاحب کئی بار تبلیغ کے لئے گئے۔ وہاں کے امام مولوی عبدالصمد صاحب جماعت کے اشد مخالف تھے۔ وہاں بیعتوں کے حصول میں رکاوٹ بنتے تھے۔ اس امام سے بھی کئی بار بات چیت ہوئی لیکن وہ مخالفت پر قائم رہے۔ معلم علیو صاحب بتاتے ہیں کہ پھر تقریباً آٹھ مہینے سے ان مولوی صاحب سے رابطہ منقطع تھا۔ ایک دن صبح کے وقت مذکور مولوی صاحب نے فون کیا اور گاؤں آ کر ملنے کے لئے کہا۔ جب ان کے پاس گئے تو انہوں نے بتایا کہ رات خواب میں آپ کے اِمام خلیفۃ المسیح الخامس (میرا بتایاکہ وہ) آئے ہیں۔ اُن کومَیں نے خواب میں دیکھا اور کہتے ہیں کہ کس چیز کا انتظار کر رہے ہو؟ جماعت میں داخل ہو جاؤ۔ یہ الفاظ کئی بار دہرائے۔ تو کہتے ہیں مَیں رعب کی وجہ سے اُن کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکا۔ اس میں مجھے سمجھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واضح نشان ہے کہ احمدیت سچی ہے، قبول کر لو۔ اس کے بعد مولوی صاحب نے مخالفت چھوڑ دی اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو بھی جماعت کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ سب کو لے کر انشاء اللہ میں جماعت میں شامل ہوں گا۔ بہر حال ان کی مخالفت چھوڑنے کی وجہ سے وہاں بیعتیں بھی ہوئی ہیں اور اکاون بیعتیں پھر مذکورہ امام کی وجہ سے حاصل ہوئیں۔ امیر صاحب انڈونیشیا لکھتے ہیں کہ عزیزہ اِدّہ سکندیانہ (Ida Skandiana) جو جماعت احمدیہ پارونگ (Kimang Parnung) کی ممبر ہیں۔ اگرچہ وہ نوعمر بچی تھی لیکن اس کے باوجود کئی خوابوں میں امام مہدی علیہ السلام سے ملاقات کر چکی تھی۔ وہ جانتی نہ تھی کہ امام مہدی کون ہیں؟ انہوں نے نقشبندی تحریک میں شمولیت اختیار کی لیکن وہ امام مہدی جو انہیں خواب میں دکھائے گئے تھے اُن کی تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ مئی 2007ء میں ایک دن انہیں ان کے نئے ہمسائے نے دعوت پر بلایا۔ یہ صاحب ہمارے مبلغ ظفراللہ پونتو صاحب تھے۔ جب ادّہ سکندیانہ ان کے گھر داخل ہوئیں تو اُن پر ایک لرزہ طاری تھا۔ وہاں ایم۔ ٹی۔ اے لگا ہوا تھا اور اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کا پروگرام آ رہا تھا تو اِدّہ قائل ہو گئی کہ یہ وہی شخص ہے جس کو مَیں دیکھا کر تی تھی۔ چنانچہ 24؍مئی 2007ء کو انہوں نے بیعت کر لی۔
قرغزستان کے سلومت کشتوبوئیو (Salmat Kyshtobaev) صاحب نے چند سال پہلے لندن میں بیعت کی۔ آج کل جماعت قرغزستان کے صدر ہیں۔ کہتے ہیں بیعت سے پہلے مَیں اسلام سے متنفر ہو چکا تھا۔ دین کے ساتھ کسی قسم کا کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ احمدی ہونے سے تقریباً دو سال قبل ایک خواب دیکھا جو میرے خیال میں اب مکمل ہوا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک رات خواب آئی۔ خواب دیکھتا ہوں کہ میرا بڑا بھائی نورلان (Nurlan) مجھے کہہ رہا ہے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر بن کر آیا ہوں۔ مجھ پر یقین کرو۔ کہتے ہیں مَیں یقین کر لیتا ہوں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ آپ سب لوگ بہشت میں جائیں گے لیکن بہشت میں جانے کے لئے اللہ کی راہ میں رقم دینی ضروری ہے۔ اِن کاخواب ختم ہو جاتا ہے۔ پھر دو سال کے بعد یہ احمدیت قبول کرتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب’’رسالہ الوصیت‘‘ کا جب قرغیز میں ترجمہ ہوا تو یہ پڑھ کر انہوں نے وصیت کی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے دو سال پہلے جوخواب دیکھا تھا آج پورا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی صداقت مجھے پہلے ہی بتا دی تھی کہ وصیت ایک الٰہی نظام ہے۔ اس میں شامل ہونا میرے لئے باعثِ برکت ہے۔
عبدالقادر حداد صاحب الجزائر کے ہیں، یہ کہتے ہیں 2004ء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دو شخصیتوں میں دیکھا۔ اک بڑھاپے کی عمر میں اور ایک پینتالیس سالہ انسان کی حالت میں، ۔ جس میں لمبی داڑھی ہے اور اُن کے سر پر پگڑی ہے۔ پھر مجھے 2006ء میں دوبارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، دو شخصیتوں کی صورت میں۔ حضور کا چہرہ مبارک سفید اور نورانی تھا اور آپ نے فرمایا ’’خوش ہو جاؤ یہ خدا کا رسول ہے‘‘۔ اس کے دو ماہ بعد مَیں نے ایم۔ ٹی۔ اے پر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تصویر دیکھی جو وہی دوسری شخصیت کی تھی۔ اس کے بعد مَیں نے پندرہ بیس دن تک مسلسل گھر میں بیٹھ کر ایم۔ ٹی۔ اے کے پروگرام دیکھے اور بیعت کر لی۔
امیر صاحب کانگو کنشاسا لکھتے ہیں کہ ’’دیدی کی گنگالہ (DIdI Kikangala) صاحب‘‘ ’’لوبو مباشی‘‘ شہر میں وکیل ہیں۔ مذہباً عیسائی تھے۔ چند ماہ سے زیرِ تبلیغ تھے۔ تاہم بیعت نہیں کرتے تھے۔ ایک رات انہوں نے خواب دیکھا کہ بہت سے خطر ناک قسم کے جنگلی جانور اور درندے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان کو اور کچھ نہیں سوجھا لیکن وہ صرف ’’اللہ‘‘ کا لفظ کہہ کر ان پر پھونک مارتے ہیں۔ اس پر وہ جانور گرتے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ خواب بھی بہت دیر تک چلتا رہا۔ صبح ہوتے ہی وہ مشن ہاؤس آئے۔ بہت پُرجوش تھے اور باقی افراد جو وہاں موجود تھے اُن کو بھی بڑے جوش سے خواب سنا رہے تھے اور گواہی دینے لگے کہ اسلام سچا مذہب ہے اور جماعت احمدیہ برحق ہے۔ چنانچہ اُسی روز بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے۔ اور بڑے اخلاص و وفا سے یہ جماعت سے چمٹے ہوئے ہیں۔ سامِح محمد عراقی صاحب مصر کے ہیں۔ تین سال سے زائد عرصہ قبل کی بات ہے۔ کہتے ہیں کہ مَیں ایک معروف عیسائی پادری کے اسلام پر حملوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تفصیل سنتا اور دل ہی دل میں کُڑھتا تھا کیونکہ مَیں خود کو اس کا جواب دینے سے عاجز پاتا تھا۔ یہ احساس مجھے اندر ہی اندر مارے جا رہا تھا۔ چونکہ مَیں مصر کی ایک مسجد میں خطیب تھا اس وجہ سے مجھے اسلامی علوم کا بہت حد تک ادراک تو تھالیکن اس بات کی کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ ایک مسلمان کیونکر ان افتراؤں کا جواب دینے سے بے بس اور عاجز ہے؟ جب انٹر نیٹ پر اس بارہ میں کچھ ریسرچ کی تو اسی نتیجہ پر پہنچا کہ گزشتہ تفاسیر اور علماء کا طریق اس پادری کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔ بلکہ اُنہی کی وجہ سے تو پادری کو اعتراضات کرنے کی جرأت ہوئی ہے۔ پھر اچانک مجھے مصطفی ثابت صاحب کی کتاب ’’اجوبہ عن الایمان‘‘ مل گئی۔ آپ کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کی تو مجھے جماعت کی ویب سائٹ اور ایم۔ ٹی۔ اے سے تعارف ہو گیا۔ چنانچہ جب مَیں نے مزید مطالعہ کیا اور ایم۔ ٹی۔ اے کے پروگرام دیکھے تو یقین ہو گیا کہ یہ علوم کسی انسان کی ذاتی کوشش کا نتیجہ نہیں ہوسکتے۔ بہر حال میں نے دو سال تک کسبِ فیض کیا۔ جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ مجھے قرآنِ کریم مل گیا۔ پھر مَیں نے خواب میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کو دیکھا۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور ایک جگہ لے گئے جہاں برادران ہانی طاہر صاحب، تمیم أبودقّہ، طاہر ندیم صاحب ایک دستر خوان کے گرد بیٹھے تھے، آپ نے مجھے بھی اُن کے ساتھ بٹھا دیا اور اس رؤیا کے بعد خدا تعالیٰ نے بیعت کے لئے میرا سینہ کھول دیا۔
ایک رشین خاتون صفیہ اُولگا صاحبہ نے 2009ء میں بیعت کی۔ وہ اپنی خواب بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں اُنہیں خواب آئی کہ گویا اس کی زندگی شطرنج کی طرح دو حصوں میں تقسیم ہے گویا بہت مشکل ہے۔ پھر اُسے کوئی کہتا ہے کہ درمیان میں پہنچنے تک سب بدل جائے گا۔ پھر جیسے دوسرے حصے میں پہنچتے ہی ایک صاف سرسبز گھاس والا لان نمودار ہوتا ہے جہاں روشن سورج چمکتا ہے (اُس لان کے اوپر ایک روشن سورج چمکتا ہے)۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ یہ بھارت ہے، انڈیاہے۔ وہاں وہ تباہ شدہ قلعہ دیکھتی ہیں لیکن انہیں وہاں تک جانے نہیں دیا جاتا۔ کہا جاتاہے کہ وہاں جانے کے لئے کچھ کرنا ہو گا جس کے بعد اُسے وہاں جانے دیا جاتا ہے۔ اس خواب کے تقریباً تین چار ہفتے بعد اُسے ایک امام جو احمدی نہیں تھے لیکن جماعت احمدیہ کے مبلغ سے علم حاصل کرتے رہے ہیں وہ احمدیہ سنٹر میں ہمارے مبلغ طاہر حیات صاحب کے پاس لے کر آئے۔ یہاں اس خاتون کو جماعت کا تعارف کروایا گیا تو اُسے سن کر بہت حیرانگی ہوئی کہ امام مہدی ہندوستان میں آئے ہیں اور مجھے خواب میں چمکتا ہوا روشن سورج بھی ہندوستان میں ہی دکھایا گیا ہے۔ پھر اُس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر لی۔
توبہت سارے واقعات میں سے یہ چند واقعات مَیں نے لئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اب وقت آ گیا ہے کہ پھر اسلام کی عظمت و شوکت ظاہر ہو اور اس مقصد کو لے کر میں آیا ہوں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ جو انوار اور برکات آسمان سے اُتر رہے ہیں، وہ اُس کی قدر کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر کریں کہ وقت پر اُن کی دستگیری ہوئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے وعدے کے موافق اس مصیبت کے وقت اُن کی نصرت فرمائی۔ لیکن اگر وہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ اُن کی کچھ پرواہ نہ کرے گا۔ وہ اپنا کام کر کے رہے گا مگر اِن پر افسوس ہو گا‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلدنمبر20صفحہ نمبر290)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے سینے کھولے اور وہ حقیقت کو پہچاننے کے لئے اپنے خدا سے حقیقی رنگ میں مدد مانگنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو بھی مضبوط کرتا چلا جائے۔
ابھی جمعہ کی نماز کے بعد میں چند جنازہ غائب پڑھاؤں گا جن میں سے ایک ہمارے احمدی دوست سیریا کے ہیں احمد باکیر صاحب۔ 5؍مارچ کو کینسر کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ کو بچپن سے ہی مسجد سے لگاؤ تھا۔ (غیر احمدیوں کی مسجدوں سے لگاؤ تھا) لیکن اپنی سعید فطرت کے سبب جلد پہچان گئے کہ مولوی جو کچھ کہتے ہیں وہ خودنہیں کرتے۔ ان کا عمل کچھ اور ہے اور ان کا کہنا کچھ اور ہے۔ خدا تعالیٰ نے انہیں مولویوں سے متنفر کر دیا لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ دنیا داری میں نہیں پڑے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اِن کا تعارف جماعت احمدیہ سے کروا دیا۔ اُنہوں نے جماعت کے بارے میں استخارہ کیا۔ جو مضمون بیان ہو رہا ہے یہ بھی اُسی کاہی تسلسل ہے۔ دیکھیں کہ استخارہ کیا تو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کو دیکھا کہ آپ ایک مشہور سلفی مولوی کی طرف گئے ہیں اور قریب پہنچنے پر وہ مولوی غائب ہو گیا۔ حضور علیہ السلام اس مرحوم نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا یہ مولوی دور کر دیا گیا ہے۔ اس پر یہ نوجوان خواب سے بہت متاثر ہوئے اور 15؍جولائی 2009ء کوجب صرف17 سال ان کی عمر تھی، اس میں انہوں نے بیعت کر لی۔ باوجود اس کے کہ آپ کینسر کے مریض تھے۔ تبلیغ کا بڑا جوش تھا، ۔ جو مولوی بھی آپ کو مرتد کرنے کے لئے آیا وہ آپ کے سامنے کھڑا نہ ہو سکا۔ بڑی سچی خوابیں آتی تھیں۔ بعض دوستوں نے بتایا کہ آجکل جو ملک کے، سیریا کے حالات ہیں، اس بارے میں بھی انہوں نے ایک سال قبل ہی خواب کی بنا پر بعض دوستوں کو بتا دیا تھا۔ تو ایک تو اِن کا جنازہ ہو گا۔
دوسرا تامر الراشد صاحب کا ہے۔ یہ 8؍اپریل 2011ء کو سیریا کے شہر حمص کے مختلف گلی محلوں میں جو جلوس نکالے جا رہے ہیں، شور شرابہ ہو رہا ہے، اندھا دُھند فائرنگ ہو رہی ہے تو عمارتوں کی چھتوں سے بھی لوگ فائرنگ کر رہے ہیں۔ اس فائرنگ کے دوران تامر الراشد صاحب کی شہادت ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں ان کے بھائی بیان کرتے ہیں کہ فائرنگ کے وقت مَیں گھر سے باہر تھا۔ چنانچہ میرے بھائی فائرنگ کی آواز سن کر مجھے تلاش کرنے گھر سے باہر نکلے اور تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ مجھے دیکھ لیا تو فوراً گھر پہنچنے کو کہا اور یہ کہہ کر جب خود واپس مُڑے تو ایک گولی کا نشانہ بن گئے جو انہیں دل پر لگی اور فوری وفات ہو گئی، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُون۔ انہوں نے کچھ دن پہلے میرا بتایاکہ مَیں نے خاص طورپریکم اپریل کا جوخطبہ دیا تھا، ا س سے مَیں وہ پیغام سب کچھ سمجھ گیاتھااور ہڑتالوں میں شامل ہونے کا سوال نہیں تھا۔ بہر حال باہر نکلے ہیں اور وہاں فائرنگ ہو رہی تھی اس میں یہ گولی کا نشانہ بن گئے۔ بڑے خوش مزاج اور محبت کرنے والی شخصیت تھے۔ آپ کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ آپ کی عمر صرف اکتیس سال تھی۔ بیعت سے قبل شیخ عبدالہادی البانی کے متبعین میں سے تھے جس کا دعویٰ ہے کہ امام مہدی ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق میں موجود اس شخص کی مسجد میں نزول فرمائیں گے۔ پھر جب انہوں نے وفاتِ مسیح کے دلائل سُنے تو 2008ء میں یہ بیعت کر کے احمدی ہو گئے۔
تیسرا جنازہ محمد مصطفی رعد صاحب سیریا کا ہے۔ یہ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد اپنے گھر کی چھت پر کچھ آرام کر رہے تھے اور نیچے گلی میں لوگ مظاہرہ کر رہے تھے۔ ان کا بیٹا چھت کی منڈیر کے قریب ہو کر دیکھنے لگا تو یہ اُسے پیچھے کرنے کے لئے بڑھے۔ لیکن اسی اثناء میں ایک گولی آئی اور ان کی آنکھ پر لگ گئی اور وہیں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُون۔ 1971ء میں یہ پیدا ہوئے تھے اور ائیر پورٹ میں ملازمت کرتے تھے۔ ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے احمدیت کاپتہ چلا۔ پھر تحقیق کے بعد 2008ء میں انہوں نے بیعت کی۔ ان کی اہلیہ غیر احمدی ہیں لیکن احمدیت کی صداقت سے مطمئن ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ احمدیت قبول کریں۔ ان کے بیٹے اور بیٹی کے علاوہ ان کے دو بھائی اور بعض اور افراد بھی جماعت میں داخل ہو چکے ہیں۔ بڑے مخلص، مطیع، بااخلاق اور خلافت سے بہت زیادہ محبت رکھتے تھے۔ یہی حال اِن کے بچوں کا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو حوصلہ اور صبر دے۔
ایک جنازہ ہمارے مکرم لُطف الرحمن صاحب شاکر کا ہے۔ اِن کی ایک طویل علالت کے بعد 27؍اپریل کو وفات ہوئی ہے۔ تقریباً اسّی سال کی عمر تھی۔ یہ مولانا عبدالرحمن انور صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے ہوئے ہیں بلکہ تحریکِ جدید کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔ اُن کے بڑے بیٹے تھے۔ یہ خودواقفِ زندگی تھے اور فضلِ عمر ہسپتال میں ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کے ساتھ ڈسپنسر کے طور پر کام کرتے تھے۔ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ساتھ ان کو افریقہ اور یورپ کے سفر کا بھی موقع ملا۔ اِن کا خلافت کے ساتھ بڑا گہرا تعلق تھا۔ ربوہ کے لوگوں کی خدمت کرنے والے تھے۔ حضرت امّاں جان حضرت امّ المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت مصلح موعودؓ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ، سب کی خدمت کا ان کو موقع ملا۔ بلکہ جو ٹیکے لگاتے تھے اُن کی سرنجیں یا سوئیاں بھی، حضرت امّاں جان کی، حضرت خلیفہ ثانی کی، حضرت خلیفہ ثالث کی سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ ان کو بہر حال انہوں نے ایک تبرک سمجھ کر رکھا تھا۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے فضلِ عمر ہسپتال اور گائنی کا وِنگ اور ہارٹ انسٹیٹیوٹ دونوں کی طبّی سہولتوں میں بہت ساری وسعت پیدا ہوچکی ہے۔ ربوہ میں ابتدائی طور پر اُس وقت صرف ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ہوتے تھے اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے بیٹے ڈاکٹر محمد احمد صاحب ہوتے تھے۔ اور جو لیبارٹری تھی وہ ساری لُطف الرحمن صاحب شاکر ہی چلایا کرتے تھے۔ اور اس کے علاوہ جب بھی ضرورت پڑے، لوگ گھروں میں بلا لیا کرتے تھے۔ جو بھی طبی سہولت تھی فوری طور پر خوش اخلاقی سے مہیا کیا کرتے تھے۔ تو یہ جو ربوہ کے فضلِ عمر ہسپتال کے ابتدائی کارکنان ہیں اُن میں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ اِن کے بھی درجات بلند فرمائے۔ آپ کی اہلیہ حضرت خان صاحب قاضی محمد رشید خان صاحب کی بیٹی ہیں۔ مرحو م موصی تھے۔ آجکل جرمنی میں تھے۔ اِن کے بچے بھی جرمنی میں ہیں اور شاید ربوہ ان کے جنازہ کے لئے لے جائیں گے۔ بہر حال ان سب مرحومین کے مَیں جنازہ غائب ابھی پڑھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ اِن سب کے درجات بلند فرمائے اور آئندہ نسلوں میں بھی سب کا احمدیت اور خلافت سے وفا کا تعلق رہے۔