خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 6؍ مئی 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ  (البقرۃ: 256)

کچھ عرصہ ہوا، مَیں نے اپنے ایک خطبہ میں اس حوالے سے بات کی تھی کہ آج کل عموماً مسلمان اپنی توجہ نیکیوں کی طرف رکھنے اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے اور اس میں بڑھنے کی بجائے پیروں فقیروں کے پاس جانے یا اُن کی قبروں پر منتیں مانگنے یا پُرانے بزرگوں اور اولیاء کی قبروں اور مزاروں پر جا کر اُن سے اس طرح مانگنے میں لگے ہوئے ہیں جس طرح خدا تعالیٰ سے مانگا جاتا ہے۔ پاکستان ہندوستان وغیرہ کی اکثریت تعلیم کی کمی کی وجہ سے اور نسلاً بعدنسلاً پیر پرستی کے تصور کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ یہ پیر یا فقیر یا بزرگ اور اولیاء ہماری مرادیں پوری کر سکتے ہیں، ہماری داد رَسی کر سکتے ہیں۔ اس لئے اُن سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ اور بعض تو شرک میں اس حد تک بڑھے ہوئے ہیں کہ قبروں پر سجدے بھی کر دیتے ہیں۔ بلکہ ایسے واقعات بھی ہیں کہ عورتیں کہتی ہیں کہ یہ بیٹا ہمیں خدا تعالیٰ نے نہیں دیا بلکہ داتا صاحب نے دیا ہے۔ تو اس حد تک شرک بڑھا ہوا ہے۔ پس ایسے وقت میں جب مسلمان جو سب سے بڑھے موحّد کہلانے چاہئیں کہ اُن کی تعلیم ہی یہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی بات پر زور دیتے رہے، قرآنِ کریم ہمیں اِسی بات کی تعلیم دیتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہ موحّد بھی اس شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ان میں ایسے شرک کی باتیں ہو رہی ہیں جو بعض دفعہ اِن کو اسلام کے بجائے مشرکین کے زیادہ قریب کر رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہم پر احسان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو بھیجا تا کہ اس زمانہ میں اس غلط تعلیم کو اور اس بگاڑی ہوئی تعلیم کوجو پیروں فقیروں کی وجہ سے بگڑ گئی ہے، اُس کی صحیح طرف رہنمائی فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے، زمانے کے حَکم اور عَدل، مسیح و مہدی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے ہمیں اس شرک کے گند سے نکالنے کے لئے وہ رہنمائی فرمائی ہے جو عین اُس تعلیم کے مطابق ہے جو قرآنِ کریم کی تعلیم ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت قائم ہوتی ہے۔ جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیم کا پتہ لگتا ہے۔ جس سے آپ کی بڑائی اور برتری ثابت ہوتی ہے۔ جس سے تمام مذاہب پر اسلام کی برتری ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے مذاہب والے جتنا بھی چاہیں یہ کہتے پھریں کہ ہمارے مذہب میں نجات ہے اور خاص طور پر عیسائیت کا یہ دعویٰ ہے کہ مسیح نے صلیبی موت سے ہمارے لئے کفارہ ادا کر دیا ہے۔ اب مسیح ہی ہمارے لئے راہِ نجات ہے اور پھر اس لئے بھی کہ وہ خدا کا بیٹا ہے اور اِس کے ماننے والے ہر قسم کے گناہوں سے پاک ہو جاتے ہیں تو اس وجہ سے وہ بلکہ عیسائیت میں جو سینٹس (Saints) کہلاتے ہیں وہ بھی شفاعت کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں سابقہ پوپ جان پال دی سیکنڈ جو تھے، اُن کے بارہ میں بھی عیسائی دنیا میں کہا گیا کہ اُس کے بعض معجزات کی وجہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ اُسے بھی شفاعت کا مقام مل گیا ہے کیونکہ ایک خاص مقام پر وہ فائز ہو گیا ہے۔ اُس کو ایسا قرب مل گیا ہے جہاں وہ شفاعت کر سکتا ہے اور وہاں جنت میں بیٹھ کر وہ یہ کام کر سکتے ہیں۔ بہر حال یہ تو اُن کے نظریات ہیں۔ اُن کی جو غلط تعلیم ہے اُس کے مطابق وہ کرتے ہیں۔ جووہ سمجھتے ہیں سمجھتے رہیں۔ اصل تو یہ ہے کہ اُن کی تعلیم ہی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے مکمل طور پر خلاف چلتے ہوئے شرک پر بنیاد کر رہی ہے۔ لیکن اس تعلیم کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں عیسائیت کے اِن غلط نظریات کے بارہ میں بتایا۔ اِس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’سو یاد رکھو کہ خدائی کے دعویٰ کی حضرت مسیح پر سراسر تہمت ہے۔ انہوں نے ہرگز ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ جو کچھ اُنہوں نے اپنی نسبت فرمایا ہے وہ الفاظ شفاعت کی حد سے بڑھتے نہیں۔ سو نبیوں کی شفاعت سے کس کو انکار ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی شفاعت سے کئی مرتبہ بنی اسرائیل بھڑکتے ہوئے عذاب سے نجات پاگئے اور مَیں خود اس میں صاحبِ تجربہ ہوں‘‘۔ فرمایا’’اور میری جماعت کے اکثر معزز خوب جانتے ہیں کہ میری شفاعت سے بعض مصائب اور امراض کے مبتلا اپنے دُکھوں سے رہائی پاگئے اور یہ خبریں اُن کو پہلے سے دی گئی تھیں۔ اور مسیح کا اپنی امت کی نجات کے لئے مصلوب ہونا اور اُمت کا گناہ اُن پر ڈالے جانا ایک ایسا مہمل عقیدہ ہے جو عقل سے ہزاروں کو س دور ہے۔ خدا کی صفاتِ عدل اور انصاف سے یہ بہت بعید ہے کہ گناہ کوئی کرے اور سزا کسی دوسرے کو دی جائے۔ غرض یہ عقیدہ غلطیوں کا ایک مجموعہ ہے‘‘۔ (لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلدنمبر20صفحہ نمبر236)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’حقیقی اور سچّی بات یہ ہے…… کہ شفیع کے لئے ضروری ہے کہ اوّل خدا تعالیٰ سے تعلق کامل ہو تاکہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کر ے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہو تاکہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتاہے مخلوق کو پہنچاوے۔ جب تک یہ دونوں تعلق شدیدنہ ہوں شفیع نہیں ہوسکتا۔

پھر اسی مسئلہ پر تیسری بحث قابلِ غور یہ ہے کہ جب تک نمونے نہ دیکھے جائیں کوئی مفیدنتیجہ نہیں نکل سکتا اور ساری بحثیں فرضی ہیں‘‘۔ (یعنی خدا تعالیٰ کا تعلق اور پھر مخلوق سے تعلق اور اُس کا فیض، اللہ تعالیٰ کے تعلق کا فیض بھی مخلوق کو پہنچانا، اِس کے نتیجے ہونے چاہئیں۔ اگر یہ نہیں تو فرضی بحثیں ہیں )۔ فرمایا کہ ’’مسیح کے نمونہ کو دیکھ لو کہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے۔ ہمیشہ اُن کو سُست اعتقاد کہتے رہے بلکہ بعض کو شیطان بھی کہا اور انجیل کی رو سے کوئی نمونہ کامل ہونا ثابت نہیں ہوتا‘‘۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ انجیل یہ کہتی ہے کہ اپنے حواریوں کو بھی درست نہیں کیا اور اُنہیں بُرا بھلا کہا) فرمایا کہ ’’بالمقابل ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں کہ کیسے روحانی اور جسمانی طور پر انہوں نے عذابِ الیم سے چھڑایااورگناہ کی زندگی سے اُن کو نکالاکہ عالَم ہی پلٹ دیا۔ ایساہی حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی فائدہ پہنچا۔ عیسائی جو مسیح کو مثیل موسیٰ قراردیتے ہیں تو یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ موسیٰ کی طرح اُنہوں نے گناہ سے قوم کو بچایا ہو‘‘۔ (بائبل میں Old Testament میں حضرت موسیٰ کی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن حضرت عیسیٰ کے بارے میں نہیں۔ جو بھی کہا ہے پولوس (Paul) نے کہا ہے یا کچھ اور لوگوں نے جن کے نام تعارف میں نہیں دئیے جاتے۔ ) فرمایا ’’بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے بعد قوم کی حالت بہت ہی بگڑ گئی اور اب بھی اگر کسی کو شک ہو تولنڈن یا یورپ کے دوسرے شہروں میں جا کردیکھ لے کہ آیا گناہ سے چھڑادیا ہے یا پھنسادیا ہے‘‘۔ (اب جو گناہ ہے، گناہ کی تعریف ہے، جو برائی ہے۔ اگر اُس کی تعریف بدل دی جائے، برائیاں آزادی اور نیکیاں شمار ہونے لگیں تو پھر تو بے شک اِن کی تعلیم یا جو عمل ہے وہ ٹھیک ہے۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ جو حقیقی برائیاں ہیں، اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں ہیں، انسان کا انسانیت سے یا اخلاقی لحاظ سے باہر نکلنا وہ برائیاں تو یورپ میں بہت زیادہ ہیں۔ اس لئے یہ گناہ سے نکالنا نہیں ہے بلکہ گناہ میں اور ڈبونا ہے) فرمایا کہ’’…نِرے دعوے ہی دعوے ہیں جن کے ساتھ کوئی واضح ثبوت نہیں ہے۔ پس عیسائیوں کایہ کہنا کہ مسیح چھوڑانے کے لئے آیا تھا ایک خیا لی بات ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے بعد قوم کی حالت بہت بگڑگئی اور روحانیت سے بالکل دور جاپڑی‘‘۔ (بلکہ چرچ تو اب خود کہتے ہیں کہ روحانیت سے ہم بہت دور ہٹتے چلے جا رہے ہیں) فرمایا کہ’’ہاں سچا شفیع اور کامل شفیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے قوم کو بت پرستی اور ہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنادیا اور پھر اس کاثبوت یہ ہے کہ ہر زمانہ میں آپؐ کی پاکیزگی اور صداقت کے ثبوت کے لیے اللہ تعالیٰ نمونہ بھیج دیتاہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ نمبر159,160مطبوعہ ربوہ)

تو یہ ہے اصل تصویر جو ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیت کی دکھائی ہے کہ بائبل کی رُو سے حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنی زندگی میں اپنے حواریوں کی اصلاح نہ کر سکنا ثابت ہے۔ پھر صلیبی موت جو اُن کے نزدیک لعنتی موت بھی ہے۔ یہ بھی یہودیوں کے نزدیک تو ایک برائی تھی گو اُس کی جو مرضی تاویلیں اب پیش کی جائیں۔ گو ہم احمدی مسلمان اس بات کو نہیں مانتے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس نبی کو بھی اپنے اُن تمام الزامات سے بچایا جو یہودی آپ پر لگانا چاہتے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک لمبی عمر پائی اور اپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔ اُس مقصد میں کامیاب ہوئے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے اُن کو بھیجا تھا۔ پوپ کے حوالے سے یہ وضاحت، یہ بیان جو مَیں نے کیا ہے، اس لئے بھی بیان کیا ہے کہ آج کل سکولوں میں بھی کافی discussion ہو رہی ہے اور بچے اور نوجوان معجزہ کے بارے میں باتیں سنتے ہیں، ذکر سنتے ہیں اور پھر بعض دفعہ متأثر بھی ہو جاتے ہیں۔ تو انہیں یہ پتہ چلے کہ حقیقت کیا ہے؟

ہمیشہ یاد رکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کاجو مقام ہے وہی اصل مقام ہے، بلند مقام ہے۔ اور آپ کی زندگی سے لے کر آج تک آپ کے وصال کے بعد بھی یہ معجزات ہوتے چلے جا رہے ہیں اور نمونے قائم ہو رہے ہیں۔ آپ کے ماننے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو معجزات دکھانے والے ہیں۔ ہم احمدی تو بڑے وثوق سے اس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تعالیٰ آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے طفیل اپنی قدرت کے نظارے دکھاتا چلا جا رہا ہے۔ اور اس یقین پر بھی ہم قائم ہیں اور اس ایمان پر قائم ہیں کہ کسی سینٹ (Saint) کی کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی پیروی سے خدا ملتا ہے۔ عیسائی تو یہ خاص مقام کسی کو کسی کے مرنے کے بعد دلوا رہے ہیں اور وہ بھی خدا تعالیٰ نہیں دے رہا بلکہ لوگ دے رہے ہیں۔ یہ مقام، جس کی حقیقت بھی اب پتہ نہیں کہ وہ معجزات تھے کہ نہیں تھے۔ بلکہ پولینڈ کے ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھا ہے اور اس پر اعتراض کیا ہے کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹروں کی جو ٹیم بعض معجزات کے فیصلے کرتی ہے، اُن کی تشخیص صحیح بھی ہو کہ نہیں۔ جس عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس کو پارکنسن (Parkinson) تھی، ہو سکتا ہے اُس سے ملتی جلتی کوئی اور بیماری ہو جس کی اصلاح بھی ہو جاتی ہے اور جو تھوڑے عرصے بعد خود ہی ٹھیک بھی ہو جاتی ہے۔

بہر حال اس وقت مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شفاعت کا صحیح اسلامی نظریہ کیا ہے؟ ایک مسلمان کے نزدیک شفاعت کیا ہے؟ اور کیا ہونی چاہئے؟ قرآنِ شریف میں اس بارہ میں کئی آیات ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بہت جگہ پر مختلف آیات کے حوالے سے کھول کر یہ بیان فرمایا ہے کہ شفاعت کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام یا عیسائیت کے نظریہ کے تعلق میں دو مثالیں مَیں پیش کر چکا ہوں۔ ابھی جو مَیں نے آیت تلاوت کی ہے، یہ آیۃ الکرسی کہلاتی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے اور ہم عموماً پڑھتے بھی رہتے ہیں۔ اکثروں کو یہ ترجمہ آتا بھی ہو گا۔ لیکن بہر حال ترجمہ سُن لیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: اللہ! اُس کے سوا اور کوئی معبودنہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا اور قائم بالذات ہے۔ اُسے نہ تو اُونگھ پکڑتی ہے، نہ نیند۔ اُسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور شفاعت کرے مگر اُس کے اِذن کے ساتھ۔ وہ جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے۔ اور وہ اُس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ اور وہ بہت بلند شان اور بڑی عظمت والا ہے۔

اِس آیت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمام آیات کی سردار ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ و آیۃ الکرسی حدیث نمبر2878)

بلکہ یہ بھی روایت ہے کہ سورۃ بقرۃ کی پہلی چار آیات اور آیۃ الکرسی اور اس کے ساتھ کی دو آیات اور آخری تین آیات پڑھنے والے کے گھر سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ (سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فضل أول سورۃ البقرۃ و أیۃ الکرسی حدیث3383)

یعنی اگر انسان اِن کو پڑھے، اس پر غور کرے، اس کو سمجھے، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو شیطان ویسے ہی دور چلا جاتا ہے۔

پس اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی ہے کہ اسلامی تعلیم پر عمل ہو۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کا ادراک ہو اور دل کو ہمیشہ پاک رکھنے کی کوشش ہو۔ یہ عمل ہیں جن کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل ہوتے ہیں۔ اور ایسے لوگوں کے بارہ میں احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انسانی بشری کمزوریوں سے صرفِ نظر فرماتا ہے۔ لیکن عمل کچھ نہ ہوں، اللہ تعالیٰ پر یقین نہ ہو، نمازوں کی طرف توجہ نہ ہو، خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف بے رغبتی ہو تو صرف پیروں فقیروں یا اولیاء کی قبروں پر دعاؤں پر ہی انحصار کرنے سے بخشش اور شفاعت کے سامان نہیں ہوتے۔ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے کہ صرف پیروں فقیروں پر انحصار کیا جائے۔ عیسائیوں کا ظاہری شرک ہے تو یہاں مسلمانوں میں ظاہری بھی اور چھپا ہوا بھی، دونوں طرح کا شرک ملتا ہے۔ بہر حال اس آیت میں جو پیغام ہے، اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفاسیر کی روشنی میں ہی بیان کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ۔ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ایک ایسی ذات ہے جو جامع صفات ِ کاملہ اور ہر ایک نقص سے منزّہ ہے۔ (ہر ایک نقص سے پاک ہے) وہی مستحقِ عبادت ہے۔ اُسی کا وجود بدیہی الثبوت ہے کیونکہ وہ حيّ بالذّات اور قائم بالذّات ہے‘‘ (زندہ رہتا ہے۔ اپنی ذات میں زندہ ہے۔ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا) اور بجز اس کے اور کسی چیز میں حیّ بالذات اور قائم بالذات ہونے کی صفت نہیں پائی جاتی‘‘۔ (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897مرتبہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 138۔ مطبوعہ قادیان 1899)

پھر آپ نے وضاحت فرمائی کہ باقی تمام چیزوں میں جومخلوق ہیں، جو بھی ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ ہی موجود ہو اور پھر قائم بھی رہے۔ (ماخوذازرپورٹ جلسہ سالانہ 1897مرتبہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 138مطبوعہ قادیان 1899)

یہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ باقی سب اُس کی مخلوق ہیں۔ اُن کو ایک وقت میں زندگی ملتی ہے یا وجود میں آتی ہیں اور پھر ختم ہو جاتی ہیں، قائم نہیں رہ سکتیں، ہمیشہ نہیں رہ سکتیں۔ اور جس کی زندگی ہی تھوڑی ہے اور قائم نہیں رہ سکتا اُس نے دعائیں کیا سننی ہیں۔ اُس نے کسی کی دعا کی قبولیت کیا کرنی ہے اور کسی کو اولاد کیا دینی ہے؟ پس اللہ ہی ایک ذات ہے جو سب طاقتوں کی مالک ہے۔ ہمیشہ سے ہے، ہمیشہ رہے گی۔

اس آیت میں ابتدا میں ہی پہلی یہ بات بتا دی کہ اللہ ہی تمہارا معبود ہے، اس کے علاوہ کوئی معبودنہیں۔ اس لئے اگر اس کی صفات سے فیض پانا ہے تو ظاہری شرک اور مخفی شرک ہر ایک سے بچو۔

پھر فرمایا یہ بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے کہ اسے نیندنہیں آتی نہ اُونگھ آتی ہے۔ اُس کی ہر وقت اپنی مخلوق پر نظر ہے اور تمام نظام جوہے وہ اس کو وہ چلا رہا ہے اور اس نظام کو چلانے سے تھکتا نہیں۔ ہمارے پیر فقیر تو تھک جاتے ہیں بلکہ اکثر تو آج کل کے، آجکل کیا، جو بھی گدی نشین پیر بنے ہوئے ہیں وہ تو نمازوں اور عبادتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے اور اُن کا کام تو صرف کھانا پینا، عیاشیاں کرنا، اور پُر خوری کرنا ہے۔

پھر اس آیت میں شفاعت کے پہلو کو بیان کیا گیا ہے۔ گو شفاعت کا مسئلہ صحیح ہے۔ شفاعت ہوتی ہے۔ پچھلے خطبہ کا جو مَیں نے ذکر کیا تو اُس کے بعد مجھے کسی نے پوچھا تھا کہ اس طرح آپ نے ظاہر کیا کہ جس طرح کسی قسم کی شفاعت ہو ہی نہیں سکتی۔ شفاعت ہوتی ہے لیکن ان پیروں فقیروں کو اللہ تعالیٰ نے حق نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بِاِذْنِہٖ۔ اللہ تعالیٰ کے اِذن سے شفاعت ہو سکتی ہے۔ آج مسلمانوں میں بھی کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے۔ بیشک اسلام خدا تعالیٰ کا آخری اور مکمل دین ہے لیکن نہیں کہہ سکتے کہ اُس پر پورا عمل کرنے والے کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاعت کا اِذن ہے۔ جنہوں نے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانا وہ تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ویسے ہی باہر نکل رہے ہیں۔ جو احمدی ہیں، کتنے بھی بڑے بزرگ ہوں، اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو لیکن کوئی شفاعت کے اِذن کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خود اپنا یہ حال ہے۔ ایک واقعہ آپ نے بیان فرمایا کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بیٹے ایک دفعہ شدید بیمار ہو گئے۔ انہوں نے دعا کی درخواست کی تو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی قربانیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اُن کے لئے جب صحت کی دعاکی تو یہی جواب ملا کہ صحت نہیں ہو سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ دعا نہیں تو مَیں شفاعت کرتا ہوں۔ اُس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملا کہ تم کون ہوتے ہو بغیر اِذن کے شفاعت کرنے والے۔ کہتے ہیں اس بات پرمَیں کانپ کر رہ گیا اور پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ حالت دیکھی تو تھوڑی دیر کے بعد ہی فرمایا کہ اِنَّکَ اَنْتَ الْمَجَاز۔ کہ تجھے اس شفاعت کی اجازت دی جاتی ہے۔ اور پھر انہوں نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے وہ بیٹے بڑا لمبا عرصہ زندہ رہے۔ (ماخوذاز حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ229)

ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اِذن ہو گا تب آپ شفاعت کریں گے۔ ایک لمبی حدیث ہے اس کا ایک حصہ ہے۔ (سنن الدارمی کتاب الرقاق باب فی الشفاعۃ حدیث 2806)

اور پھر ایک روایت ہے۔ زیاد بن ابی زیاد جو بنی مقسوم کے غلام تھے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک خادم مرد یا عورت سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خادم سے دریافت فرماتے رہتے تھے کہ کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ راوی کہتے ہیں کہ ایک روز اُس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میری ایک حاجت ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا تمہاری حاجت کیا ہے؟ خادم نے عرض کی۔ میری حاجت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز میری شفاعت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اس بات کی طرف کس نے توجہ دلائی؟ خادم نے عرض کیا میرے ربّ نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیوں نہیں، پس تم سجدوں کی کثرت سے میری مدد کرو۔ مسند احمد بن حنبل کی یہ حدیث ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلدنمبر5صفحہ 517حدیث خادم النبیؐ حدیث نمبر16173عالم الکتب بیروت 1998)

پس شفاعت اگر چاہتے ہو تو پھر سجدوں کی کثرت کی بھی ضرورت ہے۔ ایک آدھ نماز پڑھ لینے سے، پیروں کی قبروں پر سجدے کر لینے سے شفاعت نہیں ہو گی بلکہ سجدوں کی کثرت کرنے سے شفاعت ہو گی اور سجدے بھی وہ چاہئیں جو خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور کئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو واحد و یگانہ اور سب طاقتوں کا مالک سمجھتے ہوئے کئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو تمام حاجات کا پورا کرنے والا سمجھا جائے۔

پھر ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ آپؐ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! قیامت کے روز لوگوں میں سے وہ کون خوش قسمت ہے جس کی آپ سفارش فرمائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابو ہریرہ! مجھے یہی خیال تھا کہ تم سے پہلے یہ بات مجھ سے اور کوئی نہیں پوچھے گا کیونکہ مَیں دیکھ چکا ہوں جو حِرص تمہیں حدیث کے متعلق ہے۔ قیامت کے روز میری شفاعت کے ذریعے لوگوں میں سے خوش قسمت وہ شخص ہو گا جس نے اپنے دل یا فرمایا اپنے نفس کے اخلاص سے یہ کہا۔ اللہ کے سوا اور کوئی معبودنہیں۔ (صحیح البخاری کتاب العلم باب الحرص علی الحدیث حدیث: 99)

پس اَللّٰہُ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُو‘‘جو اخلاص سے کہا گیا، دل سے کہا گیا، نفس کی کسی ملونی کے بغیر کہا گیا، وہی اصل چیز ہے، اور یہی اَصل ہے جو شفاعت کا حقدار ٹھہراتی ہے۔ اور ایسے لوگوں کی شفاعت کرنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار فرمایا۔ ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ آپ سے یہ اعلان کرواتا ہے کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران: 32) کہ توُکہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْم۔ یہ آیت جہاں عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے ایک کھلا اعلان ہے کہ تمہارے یہ دعوے کہ تم خدا کے پیارے ہو اور اُس کے بچے ہو، خاص طور پر عیسائی جو کہتے ہیں کہ ہم خدا کے بیٹے کے ماننے والے ہیں، اس لئے خدا کے پیارے ہو گئے یا وہ ہمارے لئے نجات کا باعث بن گئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے دعوے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع ہی اللہ تعالیٰ کا پیارا بنا سکتی ہے۔ یہ تمام مذہب والوں کو ایک چیلنج ہے۔ اسی طرح ہمارے لئے بھی اس میں یہی حکم ہے کہ نام کا اسلام ہی نہیں بلکہ پیرویٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت ہے۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم وہ وجود ہیں جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو جاننے والے ہیں اور اُس کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے والے تھے۔ پس اگر آپ کی شفاعت سے حصہ لینا ہے تو پھر آپ کی سنت پر عمل کرنا ہو گا، آپؐ کے عمل کو دیکھنا ہو گا۔ اپنے اوپر قرآنِ کریم کی حکومت کو لاگو کرنا ہو گا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہی فرمایا ہے کہ کَانَ خُلُقُہٗ اَلْقُرْاٰن۔ یہی آپ کا امتیاز اور آپ کی شان تھی کہ آپ کا ہر فعل، ہر قول، ہر عمل قرآنِ کریم کے مطابق تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’اور قرآنِ شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے بارے میں مختلف مقامات میں ذکر فرمایا گیا ہے جیسا کہ ایک جگہ فرماتا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ ترجمہ: کہہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے اور تمہارے گناہ بخشے۔ اب دیکھو کہ یہ آیت کس قدر صراحت سے بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا جس کے لوازم میں سے محبت اور تعظیم اور اطاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس کا ضروری نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں یعنی اگر کوئی گناہ کی زہر کھا چکا ہے تو محبت اور اطاعت اور پیروی کے تریاق سے اس زہر کا اثر جاتا رہتا ہے اور جس طرح بذریعہ دوا مرض سے ایک انسان پاک ہو سکتا ہے ایسا ہی ایک شخص گناہ سے پاک ہو جاتا ہے اور جس طرح نور ظلمت کو دور کرتا ہے اور تریاق زہر کا اثر زائل کرتا ہے اور آگ جلاتی ہے ایسا ہی سچی اطاعت اور محبت کا اثر ہوتا ہے‘‘۔ (عصمت انبیاء علیہم السلام۔ روحانی خزائن جلدنمبر18صفحہ680)

پس یہ سچی اطاعت اور پیروی جو ایک مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کرنی چاہئے۔ اسی سے آپ کا اُمتی ہونے کا صحیح حق ادا ہوتا ہے اور اسی وجہ سے ایک انسان، ایک مسلمان، ایک حقیقی مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے کی گئی دعاؤں کا وارث بنتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو مزید کھول کر اور اس کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ ہرگز نہ سمجھنا چاہئے کہ شفاعت کوئی چیز نہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ شفاعت حق ہے اور اس پر یہ نص صریح ہے وَ صَلِّ عَلَیْھِم۔ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبہ: 103)۔ یہ شفاعت کا فلسفہ ہے۔ یعنی جوگناہوں میں نفسانیت کا جوش ہے وہ ٹھنڈا پڑ جاوے۔ شفاعت کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ گناہ کی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور نفسانی جوشوں اور جذبات میں ایک برودت آ جاتی ہے۔ جس سے گناہوں کا صدور بند ہو کر اُن کے بالمقابل نیکیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ پس شفاعت کے مسئلہ نے اعمال کو بیکار نہیں کیا بلکہ اعمالِ حسنہ کی تحریک کی ہے‘‘۔ شفاعت کے مسئلے سے نیک اعمال بجا لانے کی مزید تحریک پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا: ’’شفاعت کے مسئلہ کے فلسفہ کو نہ سمجھ کر احمقوں نے اعتراض کیا ہے۔ اور شفاعت اور کفّارہ کوایک قرار دیا۔ حالانکہ یہ ایک نہیں ہو سکتے ہیں۔ کفّارہ اعمالِ حسنہ سے مستغنی کرتا ہے‘‘۔ (فلاں شخص نے جو کفارہ ادا کر دیا اور میرا جرم لے لیا، اس لئے مجھے نیکیاں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تو یہ کفارہ ہے۔ اب عیسائی جو مرضی کرتے رہیں۔ حضرت عیسیٰ اُن کی خاطر لعنتی موت مر گئے (نعوذ باللہ) تو کفّارہ ہو گیا۔ اس لئے کفّارے نے تو اعمالِ حسنہ سے ایک انسان کو فارغ کر دیا)۔ فرمایا: ’’اور شفاعت اعمالِ حسنہ کی تحریک‘‘ (کرتی ہے)۔ ’’جو چیز اپنے اندر فلسفہ نہیں رکھتی ہے وہ ہیچ ہے۔ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہ اسلامی اصول اور عقائد اور اُس کی ہر تعلیم اپنے اندر ایک فلسفہ رکھتی ہے اور علمی پیرایہ اس کے ساتھ موجود ہے جو دوسرے مذاہب کے عقائد میں نہیں ملتا‘‘۔

فرمایا: ’’شفاعت اعمالِ حسنہ کی محرّک کس طرح پر ہے؟‘‘ (یہ سوال اُٹھتا ہے) ’’اس سوال کا جواب بھی قرآنِ شریف ہی سے ملتا ہے اور ثابت ہوتا ہے کہ وہ کفّارہ کا رنگ اپنے اندر نہیں رکھتی‘‘ (جو عیسائی مانتے ہیں )۔ ’’کیونکہ اس پر حصر نہیں کیا جس سے کاہلی اور سستی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (یہ جو کفارہ ہے اگر اس پر انحصار کریں تو کاہلی اور سستی پیدا ہوتی ہے) ’’بلکہ فرمایا اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ (البقرۃ: 187)۔ یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں تجھ سے سوال کریں کہ وہ کہاں ہے؟ تُو کہہ دے کہ مَیں قریب ہوں۔ قریب والا تو سب کچھ کر سکتا ہے۔ دور والا کیا کرے گا؟ اگر آگ لگی ہوئی ہو تو دور والے کو جب تک خبر پہنچے اُس وقت تک تو شاید وہ جل کر خاک سیاہ بھی ہو چکے۔ اس لئے فرمایا کہہ دو مَیں قریب ہوں۔ پس یہ آیت بھی قبولیتِ دعا کا ایک راز بتاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور طاقت پر ایک ایمانِ کامل پیدا ہو اور اُسے ہر وقت اپنے قریب یقین کیا جاوے‘‘۔ اور ایمان ہو کہ وہ ہر پکار کو سنتا ہے۔ ’’بہت سی دعاؤں کے ردّ ہونے کا یہ بھی سِرّ ہے کہ دعا کرنے والا اپنی ضعیف الایمانی سے دعا کو مسترد کرا لیتا ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ دعا کو قبول ہونے کے لائق بنایا جاوے۔ کیونکہ اگر وہ دعا خدا تعالیٰ کی شرائط کے نیچے نہیں ہے تو پھر اس کو خواہ سارے نبی بھی مل کر کریں توقبول نہ ہو گی اور کوئی فائدہ اور نتیجہ اس پر مرتب نہیں ہو سکے گا‘‘۔ (اس کو دعا قبول کروانے کے لئے اپنے آپ کو ان شرائط کے نیچے بھی لانا ہو گا اور شرائط وہی ہیں۔ فَاتَّبِعُوْنِیْ۔ میری پیروی کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرو۔ قرآنِ کریم پر عمل کرو)۔ فرمایا: ’’اب یہ بات سوچنے کے قابل ہے کہ ایک طرف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا: صَلِّ عَلَیْہِمْ۔ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ (التوبۃ: 104)۔ تیری صلٰوۃ سے اُن کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے‘‘۔ (تیری دعا سے اُن کو ٹھنڈ پڑ جاتی ہے) ’’اور جوش اور جذبات کی آگ سرد ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف  فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ (البقرۃ: 189) کا بھی حکم فرمایا۔ ان دونوں آیتوں کے ملانے سے دعا کرنے اور کرانے والے کے تعلقات پھر اُن تعلقات سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں، اُن کا بھی پتہ لگتا ہے‘‘۔ (ایک تو آپس میں دعا کرنے اور کرانے والے کے تعلقات کا پتہ لگتا ہے۔ پھر اُن کے نتائج کا بھی پتہ لگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے انسان مانگے، مکمل پیروی کرے، مکمل ایمان دکھائے تو پھر انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے لئے کی گئی دعاؤں کا بھی وارث بنتا ہے۔ اس کے یہ نتائج پیدا ہوتے ہیں اور پھروہ نتائج نظر آتے ہیں۔) ’’کیونکہ صرف اسی بات پر منحصر نہیں کر دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور دعا ہی کافی ہے اور خود کچھ نہ کیا جاوے۔ اور نہ یہی فلاح کا باعث ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور دعا کی ضرورت ہی نہ سمجھی جائے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ 701تا703مطبوعہ ربوہ)

پس انسان کے اپنے عمل، اُس کا اللہ تعالیٰ کے حضور خالص ہو کر جھکنا، اُس کی عبادت کرنا، اُس سے اپنی حاجات مانگنا یہ چیزیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حقیقی فرد بناتی ہیں۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اور چھوٹا سا اقتباس ہے۔ آپ نے فرمایا:

’’دعا اُسی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے جو خود بھی اپنی اصلاح کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے سچے تعلق کو قائم کرتا ہے۔ پیغمبر کسی کے لئے اگر شفاعت کرے لیکن وہ شخص جس کی شفاعت کی گئی ہے اپنی اصلاح نہ کرے اور غفلت کی زندگی سے نہ نکلے تو وہ شفاعت اُس کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ 172مطبوعہ ربوہ)

ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ایک خاص دعا ہوتی ہے جو کہ وہ نبی مانگتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ مَیں اپنی اس خاص دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لئے قیامت تک بچا کر رکھوں گا۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان بَابُ اخْتِبَاء ِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَعْوَۃَ الشَّفَاعَۃِ لِأُمَّتِہِ حدیث487)

اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری تا قیامت آنے والی نسلوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں حقیقی رنگ میں شامل ہونے والا بنائے تا کہ شفاعت سے فیض پانے والے ہوں۔ اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شفاعت کے تعلق سے بعض دعائیں پیش کرتا ہوں جو آئینہ کمالاتِ اسلام میں درج ہیں۔ آپ فرماتے ہیں۔ رَبِّ اِجْزِ مِنَّا ھٰذَا الرَّسُوْلَ الْکَرِیْمَ خَیْرَ مَا تَجْزِی اَحَدًا مِنَ الْوَریٰ۔ وَتَوَفَّنَا فِی زُمْرَتِہٖٖ وَاحْشُرْنَا فِی اُمَّتِہٖ وَاسْقِنَا مِنْ عَیْنِہٖ وَاجْعَلْھَا لَنَا السُّقْیَا وَاجْعَلْہُ لَنَا الشَّفِیْعَ الْمُشَفَّعَ فِی الْاُوْلیٰ وَالْاُخْرٰی۔ رَبِّ فَتَقَبَّلْ مِنَّا ھٰذَا الدُّعَائَ وَاٰوِنَا فِی ھٰذَا الذُّرٰی۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلدنمبر5صفحہ366-365)

اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس معزز رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری طرف سے وہ بہترین جزا عطا فرما جو مخلوق میں سے کسی کو دی جا سکتی ہے اور ہم کو اس کے گروہ میں سے ہوتے ہوئے وفات دے اور ہم کو اس کی امت میں سے ہوتے ہوئے قیامت کے دن اُٹھا اور ہم کو اس کے چشمے سے پِلا۔ اور اس چشمے کو ہمارے لئے سیرابی کا ذریعہ بنا دے اور اُسے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ہمارے لئے شفاعت کرنے والا اور جس کی شفاعت قبول کی جائے، بنا دے۔ اے ہمارے رب! ہماری یہ دعا قبول فرما اور ہم کو اس پناہ گاہ میں جگہ دے۔

پھر ایک جگہ آپؑ فرماتے ہیں

اَللّٰھُمَّ فَصَلِّ وَسَلِّمْ عَلَی ذٰلِکَ الشَّفِیْعِ الْمُشَفَّعِ الْمُنَجِّی لِنَوْعِ الْاِنْسَانِ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلدنمبر5صفحہ5)

اے اللہ! پس تو فضل اور سلامتی نازل فرما اس شفاعت کرنے والے پر، جس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے اور جو نوعِ انسان کا نجات دہندہ ہے۔ اور نوعِ انسان کا نجات دہندہ اب صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں:

رَبِّ یَا رَبِّ اِسْمَعْ دُعَائِیْ فِی قَوْمِیْ وَ تَضَرُّعِیْ فِیْ اِخْوَتِیْ۔ اِنِّی اَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّّکَ خَاتَمِ النَّبِیِّیْن۔ وَ َشَفِیْعٍ وَ مُشَفَّعٍ لِلْمُذْنِبِیْنَ۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلدنمبر5صفحہ22)

اے میرے ربّ! تو میری قوم کے بارے میں میری دعا اور میرے بھائیوں کے بارے میں میری تضرعات کو سن۔ میں تیرے نبی خاتم النبیین اور گناہگاروں کی مقبول شفاعت کرنے والے کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں فرماتے ہیں۔ یہ آخری اقتبا س پیش کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ:

’’نوعِ انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے۔ اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اُس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دُنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کیلئے ضروری تھا۔ کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دُنیا ختم نہ ہو جب تک کہ محمدی سلسلہ کیلئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کیلئے دیا گیا تھا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ: 7-6)‘‘۔ (کشتی ٔنوح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 14-13)

پس اب ہمیشہ رہنے والا اور زندہ نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہے اور پھر آپ کے فیض سے فیض پا کر اللہ تعالیٰ نے جس مسیح و مہدی کو بھیجا ہے اُس کے ساتھ جڑنا ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں اس تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مسیح و مہدی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں آنے والے اس نبی اللہ کی جماعت کے ساتھ تعلق کو مضبوطی سے ہمیشہ جوڑے رکھنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے اور ہمیشہ ہم منعم علیہ گروہ میں شامل ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں