خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍ مئی 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ میں فرماتے ہیں کہ
’’خدا نے ابتداء سے لکھ چھوڑا ہے اور اپنا قانون اور اپنی سنت قرار دے دیا ہے کہ وہ اور اُس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے۔ پس چونکہ مَیں اُس کا رسول یعنی فرستادہ ہوں مگر بغیر کسی شریعت اور نئے دعویٰ اور نئے نام کے بلکہ اُسی نبی کریم خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پا کر اور اُسی میں ہو کراور اُسی کا مظہر بن کر آیا ہوں۔ اِس لئے مَیں کہتا ہوں کہ جیسا کہ قدیم سے یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک ہمیشہ مفہوم اس آیت کا سچا نکلتا آیا ہے اب بھی میرے حق میں سچا نکلے گا۔‘‘ (نزول المسیح روحانی خزائن جلد 18صفحہ380,381)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں جس آیت کا حوالہ دے رہے ہیں وہ سورۃ مجادلہ کی یہ آیت ہے کہ: کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ۔ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (المجادلہ: 22)
چند دن ہوئے مجھے پاکستان سے کسی نے لکھا، گو کہ مَیں لکھنے والے سے متفق نہیں ہوں کیونکہ جس طرح اس لکھنے والے نے تصویر کھینچی ہے، میرے نزدیک اس بات کو عموم کا رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ لکھنے والا لکھتا ہے کہ اس بات کو بہت زیادہ جماعت کے لٹریچر اور اشاعت کے ذرائع میں اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی اللہ ہیں۔ کیونکہ لوگ آپؑ کو نبی کہنے سے جھجکتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ افرادِ جماعت پر بدظنی ہے۔ اس کو عموم کا رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس لکھنے والے کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے حالات کی وجہ سے مداہنت کا مظاہرہ کرتے ہوں۔ لیکن یہ وہ چند لوگ ہیں جن پر دنیا داری غالب آ جاتی ہے۔ وہ مصلحتوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو نہ کبھی دیکھا ہے، نہ پڑھا ہے۔ بلکہ میرے خطبات بھی نہیں سنتے کیونکہ مَیں تو یہ کوشش کرتا ہوں کہ کسی طرح بات سے بات نکلے اور بات سے بات نکالتے ہوئے آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام واضح کروں۔ بہر حال اگر کسی کے دل میں یہ بات ہے تو ہر اُس شخص کو جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے یہ واضح ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق نبی اللہ ہیں۔ اور اس بارہ میں اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے شخص کے دل میں، جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے، انقباض ہے تو اُس کو دور کر لینا چاہئے۔ جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اس اقتباس میں فرمایا ہے جو میں نے پڑھا ہے کہ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں مگر بغیر کسی شریعت کے اور نبی کریم اور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں اور آپ کا نام پا کر اور وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4)کی قرآنی پیشگوئی کے مطابق۔
جہاں تک پاکستان کے احمدیوں کا سوال ہے یا انڈونیشیا کے احمدیوں کا سوال ہے اُن کو تو ظلم کی چکی میں پیسا ہی اس لئے جا رہا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی کیوں کہتے ہیں، نبی کیوں سمجھتے ہیں؟ اس لئے سوائے اِکّا دکّا مداہنت اختیار کرنے والے کے عموم کے رنگ میں پاکستانی احمدیوں کے بارہ میں یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی نہیں سمجھتے۔ بلکہ ہمارے مخالفین تو مبالغہ کرتے ہوئے احمدیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ نعوذ باللہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آخری نبی مانتے ہیں۔ حالانکہ کوئی احمدی کبھی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور آخری شرعی نبی ہو سکتا ہے اور آپ سے بڑھ کر کسی کا مقام ہو سکتا ہے۔ یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان ہے جو احمدی بیان کرتے ہیں اور جو ہر احمدی کے ایمان کا حصہ ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے وہ بلند مقام عطا فرمایا ہے اور وہ مرتبہ عطا فرمایا ہے جس کے ماننے والے کو اور جس سے عشق کرنے والے کو اور جس کی حقیقی رنگ میں پیروی کرنے والے کو اور جس کا اُمّتی بننا فخر سمجھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے نبوت کا مقام عطا فرمایا۔
بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ ہی کی پیروی میں نبی اللہ ہیں۔ اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی اللہ نہ مانیں تو پھر ہمارا یہ دعویٰ بھی غلط ہو گا کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور اسلام کا غلبہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے ذریعے ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا غلبہ کا وعدہ رسول کے ساتھ ہے جیسا کہ اس آیت میں ظاہر کیا گیا ہے۔ کسی مجدد یا کسی مصلح کے ساتھ نہیں ہے۔ اسلام کے آخری زمانہ میں غلبہ کا وعدہ مومنین کی اُس جماعت کے ساتھ ہے جو ’’وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4)‘‘ کی مصداق بننے والی ہے۔ تبھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کو تاکید فرمائی تھی اور یہ نصیحت فرمائی تھی کہ جب مسیح و مہدی کا ظہور ہو تو خواہ برف کی سِلوں پر سے بھی گزر کر جانا پڑے تو جانا اور جا کر میرا سلام پہنچانا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس سے اپنے ایمان کو بھی مضبوط کرو گے اور اسلام کے غلبہ کی جو آخری جنگ لڑی جانے والی ہے، جو تلوار سے نہیں، جو توپ سے نہیں بلکہ دلائل و براہین سے لڑی جانے والی ہے، اُس میں حصہ دار بن کر میری حقیقی پیروی کرنے والے بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جاؤ گے۔ حقیقی مومن کہلانے والے بن جاؤ گے۔
پس احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس لئے ایمان لائے کہ آپ کے ساتھ جُڑ کر ہم اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان میں بھی مزید پختہ ہوں اور اسلام کے غلبہ کے نظارے بھی دیکھیں۔ پھر یہ بھی یاد رہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی نہیں تو پھر خلافت بھی نہیں۔ کیونکہ خلافت کا اس لئے نبوت کے ساتھ تعلق ہے کہ خلافت نے منھاجِ نبوت پر چلنا ہے۔ آپ علیہ السلام خاتم الخلفاء تھے اور اس خاتم الخلفاء ہونے کی وجہ سے آپ کو نبی کا درجہ ملا اور اس کے بعد پھر آپ کے ذریعہ سے سلسلہ خلافت شروع ہوا۔ پس جماعت احمدیہ کے نظام خلافت کا جو ہر ایک تسلسل ہے اس کا تعلق اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کونبی تسلیم کر یں، مانیں اور یقین رکھیں۔ ایک مرتبہ کچھ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کے لئے حاضر ہوئے تو آپ نے اُن کے ایمان کی مضبوطی کے لئے مختلف تفصیلی نصائح فرمائیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ فرمایا کہ:
صرف زبان سے بیعتِ توبہ نہ ہو، بلکہ دل سے اقرار ہو، اور جب یہ ہو گا تو پھر خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے نظارے بھی دیکھو گے۔ بیعت کرنے والا چاہتا ہے (اور حقیقت میں کا اُس کی یہ خواہش ہوتی ہے) کہ وہ بیعت کر کے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔ اور یہ نظارے آجکل بھی بیعت کرنے والے دیکھتے ہیں۔ روحانیت میں بڑھتے جاتے ہیں۔ کئی بیعت کرنے والے جو ہیں وہ اپنے خطوط میں یہ ذکر کرتے ہیں بلکہ ایک پاک تبدیلی جو اُن میں پیدا ہوتی ہے، اُسے دوسرے بھی دیکھ کر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ بیوی بچے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا تھا اور ابھی کیا ہو گیا ہے؟۔ یہ کیا انقلاب ہے جو اس میں پیدا ہوا ہے۔ تو یہ سچی بیعت ہے جو اس قسم کی پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔
پھر ان بیعت کرنے والوں کو آپ نے یہ نصیحت بھی فرمائی کہ کبھی اپنی بیعت کو کسی دنیاوی مقصد سے مشروط نہ کرنا بلکہ اپنے اعمال میں بہتری پیدا کرو اور پھر دیکھو اللہ تعالیٰ بغیر انعام اور اجر کے نہیں چھوڑتا۔ پھر فرمایا کہ بیعت کر کے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ تکالیف آتی ہیں مگر آہستہ آہستہ حقیقی مومن دشمنوں پر غالب آتے جاتے ہیں کیونکہ اُس کا وعدہ ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ (ماخوذازملفوظات جلدنمبر3صفحہ219تا221)
پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’ہمارے غالب آنے کے ہتھیار، استغفار، توبہ، دینی علوم کی واقفیت، خدا تعالیٰ کی عظمت کو مدّنظر رکھنا اور پانچوں وقت کی نمازوں کو ادا کرنا ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’نماز دعا کی قبولیت کی کنجی ہے۔ جب نماز پڑھو تو اُس میں دعا کرو اور غفلت نہ کرو اور ہر ایک بدی سے خواہ وہ حقوقِ الٰہی کے متعلق ہو، خواہ حقوق العباد کے متعلق ہو، بچو‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ221,222)
پس ہمیں ہمیشہ اِن اہم باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ یہ نصائح صرف نئے احمدیوں کے لئے نہیں تھیں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے یاجو آج نئی بیعتیں کرتے ہیں بلکہ ہر احمدی کے لئے ہیں اور جتنا پُرانا احمدی ہو اُس کے ایمان میں زیادہ ترقی ہونی چاہئے۔ اس میں اِن باتوں پر عمل کرنے کی کوشش اُن سے بڑھ کر ہونی چاہئے جو نئے آنے والے ہیں۔ استغفار کیا ہے؟ اپنے اگلے پچھلے گناہوں سے بخشش طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا تا کہ گناہوں سے بچتا بھی رہے۔ توبہ یہ ہے کہ جن غلط کاموں میں پڑا ہوا ہے اُن سے کراہت کرتے ہوئے اُن سے بچے رہنے کا پکّا اور پختہ اور مصمّم ارادہ کرنا۔ اور پھر اُس ارادے پر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے کاربند رہنا، اُس پر عمل کرناکہ کوئی بھی چیز اُس کو اُس سے ہلا نہ سکے۔ پھر دینی علوم کی واقفیت ہے۔ اس میں سب سے پہلے قرآنِ کریم ہے۔ پھر قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ہے۔ آپ کی کتب ہیں۔ آپ کی مختلف تحریرات و ارشادات ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیم کی برتری دنیا پر دلائل و براہین سے ثابت کرتے ہیں، جس کے مقابل پر کوئی اور دین کھڑا نہیں رہ سکتا کیونکہ اسلام ہی آخری، کامل اور مکمل دین ہے۔ پھر خدا تعالیٰ کی عظمت ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی عظمت مدّنظر رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ یقین اور ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو ہر چیز کو پیدا کرنے والی ہے اور تمام ضروریات کو پورا کرنے والی ہے اور زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کے کامل علم نے اُس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ وہ ہمارا ربّ ہے۔ زندگی اور موت بھی اُس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر آن ہمیں دیکھ رہا ہے۔ تو پھر ایک انسان کبھی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے خلاف ہو۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی یہ عظمت دلوں میں قائم ہو جائے گی تو پھر پانچ وقت نمازوں کی طرف بھی خود بخودتوجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ دعاؤں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس بڑھتے ہوئے تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے پر یقین پیدا ہوتا چلا جائے گا بلکہ اس میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ اور نماز کے بارہ میں یہ فرمایا کہ یہ تمام دعاؤں کی کنجی ہے۔ نماز ہی وہ اصل دعا ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ اور بندے کا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑتی ہے۔ پس نمازوں کو سنوار کر اور وقت پر پڑھنے کی قرآنی تعلیم بھی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اُمّت کو خاص طور پر اس طرف متوجہ فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس پر بہت زور دیا ہے۔ پس جب انسان ان باتوں پر عمل کرے گا تو حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر یہ انقلاب تم اپنے اندر پیدا کر لو تو پھر اُس غلبے میں تم بھی حصہ دار بن جاؤ گے جو مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے مقدر ہے، جس کا مقدر اس سے جُڑا ہوا ہے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا فرمانا ہے لیکن ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار تو یہ باتیں ہیں۔ اگر تم اِن باتوں کو اختیار کر لو تو غلبے میں تم بھی حصہ دار بن جاؤ گے۔ ورنہ نام کے احمدی تو ہو لیکن عملی احمدی نہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو وہ عملی احمدی بننے کی کوشش کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلبے کی مہم کا حصہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بے شمار جگہ پر اس غلبے کی بشارات دی ہوئی ہیں۔ اور ہر دن جو جماعت پر چڑھتا ہے ہم اِن بشارات کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔ جس شدت سے جماعت کی مخالفت کی جا رہی ہے اگر یہ کسی انسان کا کام ہوتا تو ایک قدم بھی آگے بڑھنا تو دور کی بات ہے، ایک لمحہ بھی زندہ رہنا مشکل ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اس لئے تمام روکوں، تمام مخالفتوں کے باوجود جماعت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو الہامات کے ذریعے اس ترقی کی بشارتیں دی تھیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔
ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی بشارات بالکل حق ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا مقدر یقینا غلبہ ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے تو ماننے والوں پر بھی بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اُن پر بھی کچھ فرائض لاگو ہوتے ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔ (تذکرہ صفحہ 260ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
یقینا یہ کام خدا تعالیٰ ہی کر رہا ہے۔ اور آج کل اِس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ایم۔ ٹی۔ اے کو اس کا بہت بڑا ذریعہ بنایا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام زمین کے کناروں تک پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جویہ پیغام ہے یہ زمین کے کناروں تک پہنچے اور ایم۔ ٹی۔ اے اس کا حق ادا کر رہا ہے۔ لیکن اگر ہم ایم۔ ٹی۔ اے کی مشینیں لگا کر آرام سے بیٹھ جائیں، کوئی کام نہ کریں، پروگرام نہ بنیں، کسی قسم کی ریکارڈنگ نہ ہو، جو مختلف تبلیغی پروگرام ہوتے ہیں وہ نہ ہوں توجو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا ہے اُس کا استعمال نہ کر کے ہم اپنے آپ کو اس سے محروم کر رہے ہوں گے اور اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے ہوں گے۔ جو لٹریچر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مہیا فرمایا ہے اُس سے استفادہ کر کے اگر ہم آگے نہیں پہنچاتے، اُس کو پھیلاتے نہیں تو ہم اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے ہوں گے اور پھر گناہگار بن رہے ہوں گے۔ گو اللہ تعالیٰ نے یہ کام تو کرنے ہیں۔ ہمارے سے نہیں تو کسی اور ذریعے سے کروا دے گا۔ لیکن ہم اگر ان ذرائع کو استعمال نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم گناہگار ہیں۔ دنیا میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ نبی یا اُس کی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے بعد سب کام چھوڑ دئیے ہوں اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون اللہ تعالیٰ کا پیارا ہو سکتا ہے؟ لیکن جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے مغلوب ہونے کی بشارت دی تو آپ کے صحابہ کو کوشش بھی کرنی پڑی، قربانیاں بھی دینی پڑیں۔ دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر اُن کو کچلنا چاہاتو دنیا کی نظر میں انہیں بظاہر حقیر لوگوں نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جو ایمان کی دولت سے مالا مال تھے، جو توبہ استغفار کرنے والے تھے، جو نمازوں کو اس خوبصور تی سے ادا کرنے والے تھے کہ اُن پر رَشک آتا تھا، جو اللہ تعالیٰ کی عظمت دلوں میں بٹھائے ہوئے تھے، کوئی دنیاوی شان و شوکت اور بادشاہوں کی جاہ و حشمت اُن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اُن کی حکومتوں کو پاش پاش کر دیا۔ محنت کی، قربانیاں کیں تو تب یہ کچھ حاصل ہوا۔ یہ یقین اور ایمان تھا جس نے اُن میں یہ ایمانی مضبوطی پیدا کی کہ بیشک دنیاوی جاہ و حشمت اور طاقتیں ان لوگوں کے پاس ہیں، اِن بادشاہوں کے پاس ہیں۔ کثرتِ تعداد اُن کی ہے لیکن یہ ساری چیزیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ ملنا ہے اور ہم نے کوشش کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔ پس ایک پیشگوئی تھی جو پوری ہونی تھی اور ہوئی لیکن اُن کی یہ کوشش تھی کہ اگر ہمارے ہاتھ سے پوری ہو جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ پس یہی حالت آج ہماری ہونی چاہئے۔ ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے یقینا پورے ہونے ہیں۔ اگر ہم ان وعدوں کو پورا کرنے میں اپنی حقیر کوشش شامل کر لیں، اگر ہم اپنی ذمہ داری کی اہمیت کو سمجھنے والے بن جائیں تو ہم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ ہر احمدی کو، ہر کارکن کو اس ذمہ داری کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض پیشگوئیاں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ بے شمار پیشگوئیاں ہیں جوواضح ہیں۔ تذکرۃ الشہادتین میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اے تمام لوگو سُن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا‘‘۔ فرمایا ’’یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلادے گا۔ اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دِن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے، نامراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گایہاں تک کہ قیامت آجائے گی‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلدنمبر20صفحہ66)
پس یہ ہے یقین جس کا اظہار آپ نے کیا ہے اور اس یقین پر آپ قائم تھے۔ یہ یقین اس لئے ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے کہہ دیا کہ مَیں یہ کروں گا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ضرور کرے گا۔ اور اسلام کا غلبہ اب صرف جماعت احمدیہ کے ذریعے سے ہو گا اور یقینا انشاء اللہ ہو گا۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو پورا کیا اور پورا فرماتا چلا جا رہا ہے۔
1903ء کا یہ اقتباس ہے۔ گو ہندوستان سے باہر اُس وقت جماعت کا تعارف ہو گیا تھا لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ جماعت پھیل رہی ہے۔ لیکن آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے 198ممالک میں جماعت کی نمائندگی موجود ہے اور دنیا کے تقریباً ہر ملک میں کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کا تعارف پہنچ چکا ہے۔ پس جس خدا نے دنیا میں احمدیت کے ذریعے اسلام کے پیغام کو پہنچایا ہے اور پہنچا رہا ہے وہ اس پیشگوئی کے اگلے حصے کو بھی پورا فرمائے گا۔ کہیں مخالفینِ احمدیت، احمدیت کے پیغام پہنچانے میں وجہ بن رہے ہیں، اور اس مخالفت کی وجہ سے سعید روحوں میں احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ بظاہر تو وہ مخالفتیں کر رہے ہیں تا کہ لوگوں کو احمدیت سے دور ہٹائیں لیکن جو سعید فطرت لوگ ہیں اُن میں اس سے توجہ پیدا ہو رہی ہے اور کہیں احمدیت کا محبت، پیار کا پیغام جو ہے وہ دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ کہیں ہمارے عاجزانہ اور نہایت معمولی خدمتِ خلق کے جوکام ہیں اُس سے لوگوں کی جماعت کی طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے۔ اور کہیں اللہ تعالیٰ رؤیا و کشوف کے ذریعے لوگوں کو احمدیت سے متعارف کروا رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا پہچان رہی ہے۔ پھر جو دلائل جماعت کے پاس ہیں، جو براہِ راست اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں سکھائے ہیں، یہ دلائل اور براہین جب ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے دنیا دیکھتی ہے تو اُن کی توجہ ہوتی ہے۔ دشمنانِ احمدیت بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ لوگ ایم۔ ٹی۔ اے نہ دیکھیں۔ بلا استثناء آج کل ہر اسلامی ملک میں مولوی اور نام نہاد علماء جو ہیں لوگوں کو یہ کہتے ہیں کہ ایم۔ ٹی۔ اے نہ دیکھو۔ اس سے تمہارے ایمان پر زَد آئے گی۔ تم اُن کے کفر اور دَجل سے نعوذ باللہ متاثر ہو جاؤ گے۔ لیکن جن پر حق کھل گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ غلط ہیں تو دلیل سے ان کو ردّ کرو۔ زبردستی منع کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ تمہارے پاس دلیل نہیں ہے اور اسلامی تعلیم ایسی نہیں کہ جو بغیر عقل اور دلیل کے بات کرے۔
پس یہ ہے شان اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کی کہ آہستہ آہستہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ذریعے اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں تلے لا رہا ہے، توحید پر قائم کر رہا ہے۔ پس ہر احمدی کا کام ہے کہ اپنی ذمہ داری کو سمجھے۔ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور پورا ہو جائے گا ہمیں کیا ضرورت ہے؟ جتنا بڑا وعدہ ہے، جتنی بڑی خوشخبریاں ہیں اُن میں حصہ دار بننے کے لئے ہماری بھی اُتنی بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں ہمیں خالص ہو کر کوشش کرتے ہوئے حصہ لینا ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں ہمیں تمام نفسانی خواہشات اور ترجیحات سے بچتے ہوئے حصہ لینا ہے۔ دعوتِ الی اللہ کے لئے ہم نے اپنی طاقتوں، اپنے علم، اپنی کوششوں کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ حصہ لینا ہے، تبھی ہم اس عظیم مہم اور اُس کی عظیم برکات سے فائدہ اُٹھانے والے بن سکیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ ایک جگہ خوشخبری دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ لاَ تَیْئَسُوْا مِنْ خَزَائِنِ رَحْمَۃِ رَبِّی، اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر۔ کہ اللہ کی رحمت کے خزانوں سے ناامید مت ہو، ہم نے تجھے خیرِ کثیر دیا ہے۔ (تذکرۃ صفحہ نمبر440ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پس مسلمانوں کی حالت پر یا اسلام کی حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوجو بے چینی تھی اس کو دُور فرماتے ہوئے یہ تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانوں سے ناامید مت ہو۔ ہم نے خیرِ کثیر تجھے دے دیا ہے، تیرے لئے مقدر کر دیا ہے۔ جو خیرِ کثیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا تھا وہ آخرین کو بھی تیرے ذریعہ سے مل رہا ہے اور ملے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض کا چشمہ اب پھر تیرے ذریعہ سے جاری ہو گیا ہے۔ پس خوش ہو اور خوشی سے اُچھلو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے خزانوں نے پھر ایک نئی شان سے دروازے کھول دئیے ہیں۔ اُن کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں اور جو اِن دروازوں سے خزانے کے حصول کے لئے داخل ہوں گے وہ اپنے آپ کو مالا مال کر لیں گے۔
آج کل مسلمانوں میں جو بے چینی ہے اور دین کی مدد کا بعض میں احساس بھی ہے، بعض سنجیدہ بھی ہیں لیکن رہنمائی نہیں، اُن کو راستہ نظر نہیں آتا اور پھر مایوسی چھا جاتی ہے۔ اور پھر یہ مایوسی بے چینی میں مزید اضافہ کرتے ہوئے غلط طریق پر چلاتی ہے۔ تو ایسے لوگوں کوسمجھنا چاہئے اور ہمارے لوگ جو اُن تک پیغام پہنچا سکتے ہیں اُن کو پہنچانا چاہئے کہ یہ کوثر کا چشمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادے، اپنے محبوب کے عاشق اور عاشقِ صادق، جسے اس عشق کی وجہ سے اُمّتی نبی ہونے کا مقام ملا ہے کے ذریعے سے پھر جاری فرما دیا ہے۔ پس اگر مایوسی کو ختم کرنا ہے تو اس مسیح و مہدی کی آغوش میں آ کر، اُس سے جُڑ کر اپنی اس مایوسی کو ختم کرو۔ کیونکہ یہی وہ اللہ تعالیٰ کا تائید یافتہ ہے جس کا تم انتظار کر رہے ہو۔ غور کرو اور دیکھو کہ تمام طاقتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز کو دبانے اور ختم کرنے کے لئے متحد ہو گئیں۔ گزشتہ سوسال سے زیادہ عرصہ سے متحد ہیں۔ لیکن کیا اس آواز کو خاموش کیا جا سکا؟ جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا ہے کہ یہ آواز دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہے اور بڑی شان کے ساتھ دنیا میں گونج رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ گونجتی چلی جائے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے حق میں زلزلوں کے نشان کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رہے کہ ان نشانوں کے بعد بھی بس نہیں ہے بلکہ کئی نشان ایک دوسرے کے بعد ظاہر ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ انسان کی آنکھ کھلے گی اور حیرت زدہ ہو کر کہے گا کہ کیا ہوا چاہتا ہے؟ ہر ایک دن سخت اور پہلے سے بدتر آئے گا۔ خدا فرماتا ہے کہ میں حیرت ناک کام دکھلاؤں گا اور بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کر لیں‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات جلدنمبر2’’النداء من وحی السّماء‘‘صفحہ 638مطبوعہ ربوہ)
آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کا ہر ملک قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے۔ اگر دنیا اس کو صرف ایک قدرتی عمل سمجھ کر، جو سائنسدانوں کے نزدیک یا دنیا داروں کے نزدیک ہر کچھ عرصہ کے بعد ہوتا ہے، نظر انداز کرتی رہے گی اور اپنے پیدا کرنے والے خدا کی طرف توجہ نہیں دے گی تو یہ یاد رکھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے ساتھ ان آفات اور زلازل کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ یہ آفات دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی رہیں گی۔ پس دنیا کو ہوشیار کرنے کے لئے ہر احمدی کا بھی کام ہے کہ جہاں وہ اپنی اصلاح اور اپنے ایمان کی پختگی کی طرف توجہ دے وہاں اس پیغام کے پہنچانے کے لئے بھر پور کوشش کرے۔ دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب لانے کی کوشش کرے کہ یہ ایک انتہائی اہم کام ہے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے۔ جہاں جماعت کا تعارف محبت، امن اور پیار کے حوالے سے کروا دیا گیا ہے وہاں اگلا پیغام یہ ہے کہ یہ ہمارے دل کی محبت، پیار اور امن کی آواز ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم انسانیت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے کوشش کریں۔ دنیا کو خدا تعالیٰ کی پہچان کروائیں اور اُس مقصد کی پہچان کرائیں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے تا کہ وہ ان آفات سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ اُس کے مقصدِ پیدائش کی طرف توجہ دلانے کے لئے یہ آفات جو ہیں وقتاً فوقتاً بھیجتا رہتا ہے۔ اگر انسان توجہ نہیں کرے گا تو یہ آفات آتی چلی جائیں گی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے۔ دنیا کو ہوشیار کرنے کا یہ کام آج ہمارا ہی ہے۔ یہ جماعتِ احمدیہ کا ہی کام ہے۔ کوئی اور اس کو کرنے والا نہیں۔ کیونکہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرما دیا ہے جو خدا تعالیٰ کے خاص قرب اور پیار کا مقام ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک الہام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فرزندی کا مقام عطا فرمایا۔ فرمایا۔ اِنِّی مَعَکَ یَابْنَ رَسُوْلِ اللّٰہ۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ 569)
کہ مَیں تیرے ساتھ ہوں اے رسول اللہ کے بیٹے۔
پس آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ روحانی فرزند ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو پورا کرنا ہے اور یہی آپ کے ماننے والوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل کرنی ہے، اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بننا ہے تو تبلیغ کے کام کو پہلے سے بڑھ کر کریں۔ جس شدت اور جس تعداد میں گزشتہ چند سالوں میں دنیا میں آفات آئی ہیں، اس شدت سے اور کوشش سے دنیا کو ہوشیار کرنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر مسلمانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس الہام کے ساتھ جو دوسرا الہام ہے وہ یہ ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلٰی دِیْنٍ وَاحِدٍ۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ 569)
گو یہ حکم اور الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا، براہِ راست آپ کا کام تھا اور آپ نے کیا لیکن یہ آپ کے ماننے والوں کا بھی کام ہے۔ ہمارا بھی یہ کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچائیں۔ گو بعض مسلمان ممالک میں احمدیوں پر پابندیاں اور سختیاں ہیں۔ ہم پیغام پہنچا نہیں سکتے، کھلے عام تبلیغ نہیں کرسکتے۔ نام نہاد علماء لوگوں کو پیغام سننے کے لئے روکیں کھڑی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک ذریعہ بند ہو تو حکمت سے دوسرا ذریعہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ ایک علاقے میں بند ہو، ایک ملک میں بند ہو تو دوسرے ملکوں کی طرف توجہ دی جا سکتی ہے۔ اگر ان ملکوں میں احمدیوں کو براہِ راست تبلیغ کی اجازت نہیں ہے تو ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے انتظام فرما دیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ذریعہ سے باوجود تمام روکوں کے تبلیغ کا پیغام پہنچ بھی رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔ پھر بعض ایسے ممالک ہیں جہاں ایسی کوئی قانونی پابندیاں تو نہیں ہیں لیکن بعض علماء کی طرف سے مخالفتیں ہوتی ہیں لیکن اُن میں سے ہی بعض ایسے سعید فطرت بھی ہیں، ایسے نیک فطرت بھی ہیں جو ہماری مجالس میں آ کر ہمارے پروگرام دیکھ کر احمدیت کی طرف مائل بھی ہو رہے ہیں۔ پھر ایسی جگہوں پر جہاں کوئی قانونی روکیں نہیں اور کچھ لوگوں کی توجہ بھی پیدا ہو رہی ہے تو ایسے مسلمان ملکوں میں خاص طور پر افریقہ میں ہماری کوششیں پہلے سے زیادہ تیز ہونی چاہئیں۔ یہ ہر جگہ کے جماعتی نظام کا کام ہے۔ افریقہ کے بعض ممالک میں امام جو ہیں اپنے ماننے والوں کے ساتھ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور یہ بھی ایک الٰہی تصرف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو دلوں کو پھیر رہا ہے۔ ہماری تو حقیر کوششیں ہوتی ہیں۔ یہ الہام جو ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں، جمع کرو عَلیٰ دِیْنٍ وَاحِدٍ۔ یہ ایک خاص قسم کا امر ہے۔ احکام اور امر دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک شرعی رنگ میں ہوتے ہیں جیسے نماز پڑھو، زکوۃ دو، خون نہ کرو وغیرہ۔ اس قسم کے اوامر میں ایک پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ گویا بعض ایسے بھی ہوں گے جو اس کی خلاف ورزی کریں گے‘‘۔ یہ حکم جو ہیں یہ حکم تو ہیں لیکن یہ ایسے حکم ہیں جن میں چھپی ہوئی یہ پیشگوئی بھی ہوتی ہے کہ ایسے لوگ ہوں گے جو یہ نہیں کریں گے اس لئے حکم دیا کہ کرو۔ خاص توجہ دلائی گئی ہے۔ فرمایا کہ’’جیسے یہود کو کہا گیا کہ توریت کو محرف مبدل نہ کرنا۔ یہ بتاتا تھا کہ بعض اُن میں سے کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ غرض یہ امر شرعی ہے اور یہ اصطلاحِ شریعت ہے‘‘۔ فرمایا ’’دوسرا امر کَونی ہوتا ہے اور یہ احکام اور امر قضا و قدر کے رنگ میں ہوتے ہیں، جیسے قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرَاھِیْمَ (الانبیاء: 70)۔ (کہ ہم نے کہا اے آگ! تو ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم علیہ السلام پر)۔ اور وہ پورے طور پر وقوع میں آ گیا‘‘۔ (اسی طرح ہو گیا)۔ ’’اور یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اس قسم کا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ روئے زمین عَلیٰ دِیْنٍِ وَاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے۔ ہاں اس سے یہ مرادنہیں ہے کہ اِن میں کوئی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے۔ اختلاف بھی رہے گا مگر وہ ایسا ہو گا جو قابلِ ذکر اور قابلِ لحاظ نہیں‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ 569,570)
پس اس الہام کی جو وضاحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے یہ ہمیں خوشخبری دیتی ہے کہ یہ امر اللہ تعالیٰ کے کَونی امر میں سے ہے۔ یعنی جس کے بارے میں خدا تعالیٰ جب کُنْ کہتا ہے(جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب مَیں کُنْ کہوں تو وہ ہو جاتا ہے) تو وہ ہو جاتی ہے۔ تو یہ وہ امر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہہ دیا۔ کُنْ کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کُنْ کہا اور فوری ہو جائے گا، جب اعلان ہوا تو ساتھ شروع ہو گیا۔ بلکہ قانونِ قدرت کے تحت جو عرصہ درکار ہے وہ لگتا ہے یا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے تحت جتنا عرصہ لگنا ہے وہ لگتا ہے۔ لیکن نتیجہ ضرور اس کے حق میں ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے کُنْ کہنے سے جب بچے کی پیدائش کی بنیاد پڑتی ہے تو ہر جانور یا انسان کو جتنا عرصہ اُس بچے کی پیدائش میں قانونِ قدرت کے مطابق لگنا ہے وہ لگتا ہے۔ یہ نہیں ہو جاتا کہ کُنْ ہوا اور ایک دو دن میں یا دو منٹ میں بچہ پیدا ہو جائے۔ جتنا عرصہ لگنا ہے وہ لگتا ہے اور یہ سب کچھ پراسس (Process) جوہوتاہے وہ اللہ کے کُنْ سے ہی ہوتا ہے۔ پس یہاں بھی کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ لکھ چھوڑا ہے کہ مسلمان دینِ واحد پر جمع ہوں گے، اور وہ پراسس (Process) شروع ہو چکا ہے۔ اور آہستہ آہستہ مسلمانوں میں سے بھی اور مسلمانوں کے ہر فرقے میں سے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس لئے اس پریشانی کی ضرورت نہیں کہ مسلمان ملکوں میں سے بعض ملکوں میں تو ہم احمدیوں سے تیسرے درجہ کے شہریوں کا سلوک کیا جاتا ہے تو اُن میں سے مسلمان ہمارے اندرکس طرح شامل ہوں گے؟ یا اِن ملکوں کے مسلمان کس طرح ہم میں شامل ہوں گے؟ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے، اس طرح ہو گا اور انشاء اللہ ضرور ہو گا۔ ہمیں بیشک آج تکلیفیں پہنچائی جا رہی ہیں، مسلمانوں کی طرف سے ہی تکلیفیں پہنچائی جا رہی ہیں لیکن انشاء اللہ تعالیٰ انہی میں سے قطراتِ محبت بھی ٹپکیں گے اور انشاء اللہ ہم دیکھیں گے۔ پس جو کمزور طبع لوگ ہیں وہ بھی اس یقین پر اور اس ایمان پر قائم رہیں اور جن میں دنیا داری ہے یا اُن کو دنیا داری نے کچھ حد تک گھیر رکھا ہے وہ بھی اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے غالب آنا ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم کہیں بھی، کسی بھی جگہ مداہنت دکھائیں، کمزوری دکھائیں یا شرمائیں یا مخالفین کی مخالفتوں سے پریشان ہوں کہ پتہ نہیں اگر ہم نے اپنے ایمان کا اظہار کر دیا تو ہمارے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟ یہ تکلیفیں تو ہوتی ہیں اور ایک مومن تو ایسی تکلیفوں کو سُوئی کی چبھن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ ان سُوئیاں چبھونے والوں سے خوفزدہ ہو کر ہم اپنے کام بندنہیں کر سکتے، ہم اپنے ایمان کو چھپا نہیں سکتے۔ پاکستان کے احمدیوں کی اکثریت بلکہ ننانوے اعشاریہ نو نو (99.99) فیصد تو مخالفتوں کی شدید آندھیوں کے باوجود ان کا بڑی جوانمردی سے مقابلہ کر رہے ہیں اور پاکستان کے احمدیوں اور انڈونیشیا کے احمدیوں اور جہاں بھی جماعت کے خلاف مخالفتوں کے طوفان کھڑے کئے جاتے ہیں وہاں کے احمدیوں کی قربانیاں ہی ہیں جو دنیا میں نئے نئے تبلیغی راستے بھی کھول رہی ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن مسلم دنیا بھی اور غیر مسلم دنیا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق جوڑ کر ہی امتِ واحدہ کا نظارہ پیش کرے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا۔ اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنے سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے‘‘۔ (تجلیات الہٰیہ روحانی خزائن جلدنمبر20صفحہ409)
پس یہ زبر دست بشارت ہے جو اصل میں اسلام کے دنیا پر غالب آنے سے تعلق رکھتی ہے۔ پس ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے ایمانوں میں مزید پختگی پیدا کرتے چلے جائیں۔ اپنی عبادتوں کو سنوارتے چلے جائیں۔ اپنے تعلق باللہ کو بڑھاتے چلے جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا کام ہونا ہے اور ہو رہا ہے اُس میں آپؑ کے ممد و معاون بنتے چلے جائیں تا کہ ہم اور ہماری نسلیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی بنتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آج نمازِ جمعہ کے بعد میں چند جنازے پڑھاؤں گا۔
ایک جنازہ مکرم صاحبزادہ راشد لطیف صاحب راشدی امریکہ کا ہے۔ جن کی 27؍اپریل کو لاس انجلیس میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے اور صاحبزادہ محمد طیب لطیف صاحب کے صاحبزادے تھے۔ ابتدائی تعلیم بنّوں میں حاصل کی۔ پھر تعلیم الاسلام کالج لاہور میں پڑھتے رہے۔ پھر افغانستان چلے گئے۔ کچھ عرصہ وہاں رہے۔ جماعت سے نہایت اخلاص کا تعلق تھا۔ ان کے گھر میں آ کر احبابِ جماعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ 65ئمیں یہ امریکہ چلے گئے۔ وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ پھر امریکہ میں سیٹل (Settle) ہو گئے۔ امریکہ کی سیاٹل (Seattle) جماعت کے صدر بھی رہے۔ کافی عرصہ سے کیلیفورنیا میں رہائش پذیر تھے۔ جماعت کے جلسہ سالانہ میں تقاریر بھی کرتے رہے۔ 2005ء میں قادیان جلسے پر گئے تو وہاں بھی ان کو تقریر کا موقع ملا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے کہنے پر تذکرۃ الشہادتین کا ’’درّی‘‘ جوافغان کی افغانستان کی زبان ہے۔ اس زبان میں انہوں نے ترجمہ بھی کیا۔ ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور دو بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔
دوسرا جنازہ مکرم مبارک محمود صاحب مربی سلسلہ کاہے۔ 4؍مئی کو بڑی لمبی علالت کے بعد 42سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1989ء میں جامعہ سے فارغ ہوئے تھے۔ نو سال تک پاکستان کے مختلف شہروں میں مربی رہے۔ پھر 1998ء میں تنزانیہ چلے گئے۔ آٹھ سال وہاں خدمت انجام دی۔ تنزانیہ میں ان کو کینسر ہو گیا تھا۔ وہاں سے پھر واپس پاکستان آئے۔ علاج ان کا ہوتا رہا اور پھر سواحیلی ڈیسک میں وکالتِ تصنیف میں انہوں نے کام کیا۔ باوجود بیماری کے بڑی جانفشانی سے کام کرتے رہے۔ بڑی تکلیف دہ بیماری ہے اس تکلیف کا بھی بڑے صبر سے مقابلہ کیا۔ کبھی کوئی ناشکری یا بے صبری کا کلمہ زبان پر نہیں آیا۔ مسکراتے تھے۔ خندہ پیشانی سے ہمیشہ ہر ایک سے بات کرتے رہے۔ یہ موصی تھے۔ آپ کی اہلیہ اور تین بیٹیوں کے علاوہ ان کے والدین بھی ہیں۔ چار بھائی ہیں۔ سیف علی شاہد صاحب امیر ضلع میر پور خاص کے بیٹے، حیدر علی ظفر صاحب مبلغ انچارج جرمنی کے بھتیجے ہیں۔
تیسرا جنازہ مظفر احمد صاحب ابن مکرم میاں منور احمد صاحب سید والا شیخو پورہ کاہے۔ مظفر احمد صاحب، فرزانہ جبین صاحبہ، عزیزہ امۃ النور صاحبہ، عزیزم ولید احمد، عزیزم تصور احمد۔ یہ پوری فیملی ہے جو موٹر سائیکل پر فیصل آباد سے چنیوٹ آ رہے تھے۔ راستے میں ایکسیڈنٹ ہوا ہے تو پوری فیملی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ چھ سال، چار سال، دو سال کے ان کے تین بچے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں شعبان احمد صاحب کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے قادیان جا کر خواب کے ذریعہ سے احمدیت قبول کی تھی۔ مظفر احمد صاحب قائد خدام الاحمدیہ تھے۔ نگران حلقہ اور سیکرٹری نو مبائعین کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق پائی۔ وفات سے قبل سیکرٹری تحریکِ جدید اور سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور ناظم اطفال کے طور پر خدمت بجا لا رہے تھے۔ انتہائی صاف گو، انصاف پسند اور مخلص انسان تھے۔ سید والا کی مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی تو اُس وقت بھی آپ نے اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں بڑا کردار ادا کیا کیونکہ کافی پابندیاں رہتی ہیں اور احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ اس مسجد کو پھر بعد میں، 2001ء میں شہید بھی کیا گیا۔ آپ کچھ عرصہ اسیرِ راہِ مولیٰ بھی رہے ہیں۔ موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں دو بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ اسی طرح اہلیہ کے پسماندگان میں والد ہیں شیخ فضل کریم صاحب (لاہور) اور چھ بہنیں اور چار بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔