خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 20؍ مئی 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق، غلامِ صادق، امام الزمان اور آپؐ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح و مہدی کو اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے اندھیرے زمانے کے بعد بھیج کر ہم پر جو احسان کیا ہے اس پر ہم اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے۔ اور شکر کا بہترین ذریعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس فرستادہ کے اقوال، ارشادات اور تحریرات کو پڑھ کر غور کریں اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جو یہ فرمایا ہے کہ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبۃ: 119) صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ صادقین کی صحبت سے فیض پاؤ۔ اس کے سب سے خوبصورت نظارے تو ہمیں اُس وقت ملتے ہیں جب صحابہ رضوان اللہ علیہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے فیض پاتے ہوئے آپ کی مجالس اور صحبت کا بھر پور فائدہ اُٹھایا اور ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پہنچائے۔ آپؐ کی مجالس کے تذکرے سنائے۔ آپؐ کی نصائح ہم تک پہنچائیں، پھر یہ دوسرا زمانہ ہے جس میں آپؐ کے غلامِ صادق کا ظہور ہوا۔ آپ علیہ السلام نے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور قرآنِ کریم کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بے شمار کتب تحریر فرمائیں۔ اسلام کی بالا دستی اور برتری دنیا پر ثابت کی۔ لیکن آپ کی بہت سی مجالس ایسی بھی ہیں جو صحابہ کے ساتھ لگتی تھیں۔ بعض چھوٹی، بعض بڑی اور بعض جلسوں کی تقاریر کی صورت میں ایسی بھی ہیں جو ان کتب میں نہیں ہیں، جن میں آپ کے صحابہ اس صحبت سے فیض پاتے تھے جو اس زمانے کے صادق اور غلامِ صادق کے وجود سے برکت یافتہ تھی۔ ان مجالس کو اُس زمانے میں جماعت کے اخباروں نے محفوظ کیا۔ کتنے خوش نصیب تھے وہ لوگ جنہوں نے امام الزمان کی مجالس سے فیض پایا اور صحبتِ صادقین کے قرآنی حکم پر عمل پیرا ہوئے۔ ہم اُس مجلس میں بیٹھنے والوں اور مختلف قسم کے سوال کرنے والوں اور پھر اُن پُرحکمت باتوں کو محفوظ کرنے والوں کے بھی شکر گزار ہیں کہ اُن کے ذریعہ سے آج سو سال گزرنے کے بعد بھی ہم ان باتوں کو پڑھ اور سُن سکتے ہیں۔ اور اِن کو سُن کر، پڑھ کر چشمِ تصور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس غلامِ صادق کی مجلس میں اپنے آپ کو بیٹھا ہوا محسوس کر سکتے ہیں۔ آج مَیں نے ایسی ہی مجالس میں سے نماز، دعا اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کے ضمن میں آپ نے جو نصائح فرمائیں اُن میں سے چند ارشادات کو، چندنصائح کو لیا ہے۔
1907ء کے جلسے کی اپنی ایک تقریر میں جو ایک لمبی تقریر ہے، ایک جگہ دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’یاد رکھو کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآنِ مجید کی ابتداء بھی دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا پرہی کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا۔ اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب مُردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے۔ اور سب گمراہ ہیں مگر جس کو خدا ہدایت دے۔ اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بینا کرے۔ غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حاصل نہیں ہوتا تب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہار رہتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 10صفحہ 62۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
یہ جو دنیا کی محبت کا پھندا پڑا ہوا ہے یہ گلے میں پڑا رہتا ہے۔ وہی اس سے خلاصی پاتے ہیں جن پر خدا اپنا فضل کرتا ہے۔ مگر یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کا فیض بھی دعا سے ہی شروع ہوتا ہے۔ اگر فضل حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے بھی دعا مانگو۔
پھر نماز میں وساوس کو دور کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ:
’’یہ کیا دعا ہے کہ مُنہ سے تو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم (الفاتحہ: 6) کہتے رہے اور دل میں خیال رہا کہ فلاں سودا اس طرح کرنا ہے۔ فلاں چیز رہ گئی ہے۔ یہ کام یوں چاہئے تھا۔ اگر اس طرح ہو جائے تو پھر یوں کریں گے۔ یہ تو صرف عمر کا ضائع کرنا ہے۔ جب تک انسان کتاب اللہ کو مقدم نہیں کرتا اور اسی کے مطابق عمل درآمدنہیں کرتا تب تک اُس کی نمازیں محض وقت کا ضائع کرنا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 10صفحہ 63-62۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء) اس کے لئے پھر وہی آپ نے بتایا کہ دعا کرو۔
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک بزرگ تھے وہ کسی مسجد میں گئے۔ وہاں کا جو امام الصلوۃ تھا وہ نماز پڑھاتے ہوئے اپنے کاروبار کے متعلق سوچ رہا تھا کہ مَیں یہ مال امرتسر سے خرید لوں گا، پھر دہلی لے کر جاؤں گا۔ وہاں سے اتنا منافع کماؤں گا۔ پھر اس کو کلکتہ لے جاؤں گا وہاں سے اتنا منافع ہو گا۔ پھر آگے چلوں گا۔ تو وہ بزرگ جو پیچھے نماز پڑھ رہے تھے انہوں نے نماز توڑ دی اور علیحدہ ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ کشفی طور پر اُن کو اللہ تعالیٰ نے اُس کے امام کے دل کی حالت بتا دی۔ بعد میں مقتدیوں نے شکایت کی مولوی صاحب! اس نے آپ کے پیچھے نماز نہیں پڑھی، توڑ دی تھی۔ بڑے غصّہ میں انہوں نے پوچھا کہ بتاؤ کیا وجہ ہے؟ تم نے کیوں نماز توڑی؟ تمہیں پتہ ہے یہ کتنا گناہ ہے۔ اُس نے کہا مولوی صاحب! مَیں کمزور بوڑھا آدمی ہوں۔ آپ نے سفر شروع کیا امرتسر سے اور کلکتہ پہنچ گئے، ابھی آپ نے بخارا تک جانا تھا۔ مَیں اتنی دور آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا۔ تو بعض دفعہ نماز پڑھانے والوں کا بھی یہ حال ہوتا ہے۔
پھر 1906ء کی ایک تقریر میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’نماز کیا ہے؟ یہ ایک دعا ہے جس میں پورا درد اور سوزش ہو۔ اسی لئے اس کا نام صلوٰۃ ہے۔ کیونکہ سوزش اور فرقت اور درد سے طلب کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بد ارادوں اور بُرے جذبات کو اندر سے دور کرے اور پاک محبت اس کی جگہ اپنے فیضِ عام کے ماتحت پیدا کر دے‘‘۔ فرمایا ’’صلوٰۃ کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نِرے الفاظ اور دعا ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک سوزش، رقّت اور درد ساتھ ہو۔ خدا تعالیٰ کسی دعا کو نہیں سنتاجب تک دعا کرنے والا موت تک نہ پہنچ جاوے۔ دعا مانگنا ایک مشکل امر ہے اور لوگ اس کی حقیقت سے محض ناواقف ہیں۔ بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت فلاں امر کے لئے دعا کی تھی مگر اس کا اثر نہ ہوا اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ سے بدظنّی کرتے ہیں اور مایوس ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جب تک دعاکے لوازم ساتھ نہ ہوں وہ دعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ دعا کے لوازم میں سے یہ ہے کہ دل پگھل جاوے اور روح پانی کی طرح حضرتِ احدیت کے آستانہ پر گرے اور ایک کرب اور اضطراب اس میں پیدا ہواور ساتھ ہی انسان بے صبر اور جلد باز نہ ہوبلکہ صبر اور استقامت کے ساتھ دعا میں لگا رہے۔ پھر توقع کی جاتی ہے کہ وہ دعا قبول ہو گی‘‘۔ فرمایا’’نماز بڑی اعلیٰ درجہ کی دعا ہے مگر افسوس لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہی سمجھتے ہیں کہ رسمی طور پر قیام، رکوع، سجود کر لیا اور چند فقرے طوطے کی طرح رٹ لئے، خواہ اُسے سمجھیں یا نہ سمجھیں‘‘۔ فرمایا کہ’’… یاد رکھو کہ ہمیں اور ہر ایک طالبِ حق کو نماز ایسی نعمت کے ہوتے ہوئے‘‘ (یعنی نماز جیسی نعمت کے ہوتے ہوئے) ’’کسی اور بدعت کی ضرورت نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی تکلیف یا ابتلا کو دیکھتے تو فوراً نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور ہمارا اپنا اور اُن راستبازوں کا جو پہلے ہو گزرے ہیں ان سب کا تجربہ ہے کہ نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں۔ جب انسان قیام کرتا ہے تو وہ ایک ادب کا طریق اختیار کرتا ہے۔ ایک غلام جب اپنے آقا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ دست بستہ کھڑا ہوتا ہے۔ پھر رکوع بھی ادب ہے جو قیام سے بڑھ کر ہے اور سجدہ ادب کا انتہائی مقام ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو فنا کی حالت میں ڈال دیتا ہے اُس وقت سجدہ میں گر پڑتا ہے۔ افسوس اُن نادانوں اور دنیا پرستوں پر جو نماز کی ترمیم کرنا چاہتے ہیں اور رکوع سجود پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہ تو کمال درجہ کی خوبی کی باتیں ہیں۔ … جب تک انسان اُس عالم میں سے حصہ نہ لے جس سے نماز اپنی حد تک پہنچتی ہے تب تک انسان کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ مگر جس شخص کا یقین خدا پر نہیں وہ نماز پر کس طرح یقین کر سکتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 9صفحہ 111-109۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پھر آپ نے فرمایا ’’پس مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہئے کہ جس طرح اور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذّتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزا چکھا دے۔ کھایا ہوا یاد رہتا ہے۔ دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کو ایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تو وہ اسے خوب یاد رہتا ہے۔ اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت اُس کے بالمقابل مجسّم ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یادنہیں رہتا۔ اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اُٹھ کر، سردی میں وضو کر کے، خوابِ راحت چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشوں کو چھوڑ کر پڑھنی پڑتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اُسے بیزاری ہے۔ وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذّت اور راحت سے جو نماز میں ہے اُس کو اطلاع نہیں ہے۔ پھر نماز میں لذت کیونکر حاصل ہو‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 9صفحہ 7۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پھر 1906ء کی ایک مجلس میں آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ: ’’دعا کے معاملہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے خوب مثال بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک قاضی تھا جو کسی کا انصاف نہ کرتا تھا اور رات دن اپنی عیش میں مصروف رہتا تھا۔ ایک عورت جس کا ایک مقدمہ تھا وہ ہر وقت اُس کے دروازے پر آتی اور اُس سے انصاف چاہتی۔ وہ برابر ایسا کرتی رہتی یہاں تک کہ قاضی تنگ آ گیااور اُس نے بالآخر اس کا مقدمہ فیصلہ کیا اور اُس کا انصاف اُسے دیا‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’دیکھوکیا تمہارا خدا قاضی جیسا بھی نہیں کہ وہ تمہاری دعا سنے اور تمہیں تمہاری مراد عطا کرے۔ ثابت قدمی کے ساتھ دعا میں مصروف رہنا چاہئے۔ قبولیت کا وقت بھی ضرور آ ہی جائے گا۔ استقامت شرط ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 9صفحہ 41۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پھر ایک جگہ آپ نے ایک مجلس میں فرمایا کہ دیکھو: ’’نماز کو رسم اور عادت کے رنگ میں پڑھنا مفیدنہیں بلکہ ایسے نمازیوں پر تو خود خدا تعالیٰ نے لعنت اور وَیْل بھیجا ہے چہ جائیکہ اُن کی نماز کو قبولیت کا شرف حاصل ہو۔ وَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ(الماعون: 5) خود خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ یہ اُن نمازیوں کے حق میں ہے جو نماز کی حقیقت سے اور اُس کے مطالب سے بے خبر ہیں۔ صحابہ (رضوان اللہ علیہم) تو خود عربی زبان رکھتے تھے اور اُس کی حقیقت کو خوب سمجھتے تھے مگر ہمارے واسطے یہ ضروری ہے کہ اس کے معانی سمجھیں اور اپنی نماز میں اس طرح حلاوت پیدا کریں۔ مگر اِن لوگوں نے تو ایسا سمجھ لیا ہے جیسے کہ دوسرا نبی آ گیا ہے اور اس نے گویا نماز کو منسوخ ہی کر دیا ہے‘‘۔ (یعنی بجائے اس کے کہ نماز کو سمجھیں، صرف رسمی چیزیں رہ گئی ہیں اور نماز کو اب اس طرح بنا لیا ہے جیسا کہ حکم ہی نئے آگئے ہیں اور کسی نئے نبی نے حکم دے دئیے ہیں )۔ فرمایا: ’’دیکھو! خدا تعالیٰ کا اس میں فائدہ نہیں، بلکہ خود انسان ہی کا اس میں بھلا ہے کہ اُس کو خدا تعالیٰ کی حضوری کا موقعہ دیا جاتا ہے اور عرض معروض کرنے کی عزّت عطا کی جاتی ہے جس سے یہ بہت سی مشکلات سے نجات پا سکتا ہے۔ مَیں حیران ہوں کہ وہ لوگ کیونکر زندگی بسر کرتے ہیں جن کا دن بھی گزر جاتا ہے اور رات بھی گزر جاتی ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ اُن کا کوئی خدا بھی ہے۔ یاد رکھو کہ ایسا انسان آج بھی ہلاک ہوا اور کل بھی‘‘۔ فرمایا: ’’مَیں ایک ضروری نصیحت کرتا ہوں کاش لوگوں کے دل میں پڑ جاوے۔ دیکھو عمر گزری جا رہی ہے۔ غفلت کو چھوڑ دو اور تضرع اختیار کرو۔ اکیلے ہو ہو کر خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ خدا ایمان کو سلامت رکھے اور تم پر وہ راضی اور خوش ہو جائے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 10صفحہ 413-412۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
مارچ 1907ء کی ایک مجلس میں تشریف فرما تھے تو وہاں دو احباب کی آپس کی ناراضگی کاذکر ہوا کہ اُن میں ناراضگی ہو گئی ہے۔ اِس بارہ میں بھی آپ نے مختلف نصائح اُس مجلس میں فرمائیں اور پھر یہ بھی فرمایا کہ: ’’جب تک سینہ صاف نہ ہو، دعا قبول نہیں ہوتی۔ اگر کسی دنیوی معاملہ میں ایک شخص کے ساتھ بھی تیرے سینہ میں بغض ہے تو تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی‘‘۔ فرمایا کہ یہ جو آپس میں لڑائیاں اور رنجشیں اور جھوٹی اَناؤں کی وجہ سے ایک دوسرے سے ناراضگیاں ہیں اِن کو چھوڑ دو اور دلوں کے بغض اور کینے نکال دو۔ کیونکہ اگر سینے میں یہ بُغض اور کینے ہیں تو فرمایا تیری دعا قبول نہیں ہو سکتی۔ فرمایا کہ ’’اس بات کو اچھی طرح سے یاد رکھنا چاہئے اور دنیوی معاملہ کے سبب کبھی کسی کے ساتھ بُغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اور دنیا اور اُس کا اسباب کیا ہستی رکھتا ہے کہ اس کی خاطر تم کسی سے عداوت رکھو‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 9صفحہ 218-217۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
آپ صبح سیر کو تشریف لے جاتے تھے۔ بعض احباب بھی آپ کے ساتھ ہوتے تھے۔ کسی نہ کسی موضوع پر گفتگو ہو رہی ہوتی تھی۔ 1908ء کی ایک صبح کی سیر کا ذکر ہے۔ یہ لمبی گفتگو تھی اس کا ایک حصہ مَیں نے لیاہے فرمایا ’’بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف نکال دیتے ہیں۔ ان باتوں کو دل میں نہیں اتارتے۔ چاہے جتنی نصیحت کرو مگر اُن کو اثر نہیں ہوتا۔ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اُس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ (سورۃ النمل آیت :63)‘‘ (ملفوظات جلدنمبر 10صفحہ 137۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء) (کہ کون کسی کی دعا کو سنتاہے جب وہ اُس سے دعا کرتا ہے اور تکلیف کو دور کر دیتا ہے۔ کسی بے کس کی دعا اور مضطر کی دعا کو وہ سنتا ہے)۔ آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اِن دعاؤں کو سنتا ہے۔
لاہور میں ایک مجلس میں جس میں غیر احمدی احباب بھی شامل تھے آپ نے ایک لمبی تقریر فرمائی جس میں دعا کے بارہ میں فرمایا کہ’’اسلام سے سچی مراد یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع اپنی رضا کر لے‘‘۔ فرمایا ’’مگر سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مل سکتا۔ ہاں اس میں کلام نہیں‘‘۔ (اس میں کوئی شک نہیں ) ’’کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے۔ لیکن اس مقام کے حصول کا اَصل اور سچا ذریعہ دعا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ جب تک دعا سے قوت اور تائیدنہیں پاتا اس دشوار گزار منزل کو طے نہیں کر سکتا۔ خود
اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کے ضُعفِ حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النسآء: 29) یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے۔ پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سراسر خام خیالی ہے۔ اس کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طے کر لیتا ہے۔ کیونکہ دعا اُس فیض اور قوت کے جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے۔ جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پا لیتا ہے۔ ہاں نری دعا خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے‘‘۔ (پوری کوشش کرے)’’اور اُس کے ساتھ دعاسے کام لے۔ اسباب سے کام لے۔ اسباب سے کام نہ لینا اور نری دعا سے کام لینا، یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے۔ اور نرے اسباب پر گر رہنا اور دعا کو لاشیئی محض سمجھنا، یہ دہریت ہے۔ یقینا سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اُس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔ وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے ارد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جو دعاؤں سے لاپروا ہے وہ اُس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور موذی جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی خیر ہرگز نہیں ہے۔ ایک لمحے میں وہ موذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا۔ اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔ اس لئے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اُس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔ یہی دعا اُس کے لئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اُس میں لگا رہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 7صفحہ 193-192۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پھر ایک مجلس میں جو لاہور میں ہی تھی آپ نے فرمایا کہ’’درستی اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کی جاوے‘‘۔ (اپنے اخلاق درست کرو۔ اُس کے بعد دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی پاک محبت حاصل کرنے کی کوشش کرو۔) ’’ہر ایک قسم کے گناہ اور بدی سے دور رہے اور ایسی حالت میسّر ہو کہ جس قدر اندرونی آلودگیاں ہیں اُن سب سے الگ ہو کر ایک مصفّٰی قطرہ کی طرح بن جاوے۔ جب تک یہ حالت میسّر نہ ہو گی تب تک خطرہ ہی خطرہ ہے۔ لیکن دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لئے فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا(النازعات: 6) کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے۔ جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لئے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اُس کو حارج ہیں اُن سب کو ترک کر دے گا اور رسم، عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہو گا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کر لے گا۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ کچھ عرصہ دعا کر کے پھر رہ جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس قدر دعا کی مگر قبول نہ ہوئی۔ حالانکہ دعا کا حق تو اُن سے ادا ہی نہ ہوا تو قبول کیسے ہو؟۔ اگر ایک شخص کو بھوک لگی ہو یا سخت پیاس ہو اور وہ صرف ایک دانہ یا ایک قطرہ لے کر شکایت کرے کہ مجھے سیری حاصل نہیں ہوئی تو کیا اُس کی شکایت بجا ہو گی؟ ہرگز نہیں۔ جب تک وہ پوری مقدار کھانے اور پینے کی نہ لے گا تب تک کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ یہی حال دعا کا ہے۔ اگر انسان لگ کر اُسے کرے اور پورے آداب سے بجا لاوے۔ وقت بھی میسّر آوے تو امید ہے کہ ایک دن اپنی مراد کوپا لیوے۔ لیکن راستہ میں ہی چھوڑ دینے سے صدہا انسان مر گئے(گمراہ ہو گئے) اور صدہا ابھی آئندہ مرنے کو تیار ہیں‘‘۔ (اگر رستے میں چھوڑ دیں گے تو گمراہ ہونے کو تیار رہیں )۔ فرمایا’’اسی طرح وہ بد اعمالیاں جن میں لوگ سر سے پاؤں تک غرق ہیں اُن کے ہوتے ہوئے چند دن کی دعا کیا اثر دکھا سکتی ہے۔ پھر عُجب، خود بینی، تکبر اور ریاء وغیرہ ایسے امراض لگے ہوئے ہوتے ہیں جو عمل کو ضائع کر دیتے ہیں۔ نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اُسے قید رکھو گے تو وہ رہے گا ورنہ پرواز کر جائے گا۔ اور یہ بجز خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا (الکہف: 111)۔ عملِ صالح سے یہاں یہ مراد ہے کہ اس میں کسی قسم کی بدی کی آمیزش نہ ہو۔ صلاحیت ہی صلاحیت ہو۔ نہ عُجب ہو، نہ کبر ہو، نہ نخوت ہو، نہ تکبر ہو، نہ نفسانی اغراض کا حصہ ہو، نہ رُو بخلق ہو‘‘۔ (یعنی لوگوں کی طرف توجہ رہے کہ اُن سے اُمیدیں رکھیں ) حتّٰی کے دوزخ اور بہشت کی خواہش بھی نہ ہو۔ صرف خدا تعالیٰ کی محبت سے وہ عمل صادر ہو۔ جب تک دوسری کسی قسم کی غرض کو دخل ہے تب تک ٹھوکر کھائے گا اور اس کا نام شرک ہے۔ کیونکہ وہ دوستی اور محبت کس کام کی جس کی بنیاد صرف ایک پیالہ چائے یا دوسری خالی محبوبات تک ہی ہے۔ ایسا انسان جس دن اُس میں فرق آتا دیکھے گا اُسی دن قطع تعلق کر دے گا۔ جو لوگ خدا تعالیٰ سے اس لئے تعلق باندھتے ہیں کہ ہمیں مال ملے یا اولاد حاصل ہو یا ہم فلاں فلاں امور میں کامیاب ہو جاویں اُن کے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ایمان بھی خطرے میں ہے۔ جس دن ان کے اغراض کو کوئی صدمہ پہنچا‘‘۔ (یعنی اپنی ذاتی خواہشات کو کوئی نقصان پہنچا، نہ پوری ہوئیں) ’’اُسی دن ایمان میں فرق آ جائے گا۔ اس لئے پکا مومن وہ ہے جو کسی سہارے پر خدا تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتا‘‘۔ (خدا تعالیٰ کی عبادت اس لئے نہیں کرتا کہ یہ ہو گا تو تب میں عبادت کروں گا)۔ (ملفوظات جلدنمبر 7صفحہ 132-131۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پھر 1904ء کے اگست میں لاہور کی ہی ایک مجلس ہے۔ یہاں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ اُن کے اندر دہریت ہے کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اُس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغیر اُس کے یقین کامل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ وہ اُس وقت حاصل ہو گا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔ گناہ سے بچنے کے لئے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو‘‘ (گناہ سے بچنے کے لئے دعا کرو، ساتھ تدبیر بھی کرو۔) ’’اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے، اُن کو ترک کرو‘‘۔ (یہ نوجوانوں کے لئے خاص طور پر بڑا ضروری ہے کہ تمام محفلیں، مجلسیں، دنیاوی لغویات جن سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے، اُن کو ترک کریں)۔ ’’اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو۔ اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضا و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں، جبتک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔ نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اُسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہیں ہو گی۔ نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ نماز وہ شئی ہے جس سے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانہ الوہیت پر گر پڑے۔ جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اور تضرع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں۔ اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے۔ اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفسِ امّارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے۔ جیسے اژدہا میں ایک سَمّ قاتل ہے، اسی طرح نفسِ امارہ بھی سَمّ قاتل ہوتا ہے۔ اور جس نے اُسے پیدا کیا اُسی کے پاس اُس کا علاج ہے‘‘۔ (یعنی خدا تعالیٰ نے بنایا ہے تو جتنے گناہ ہیں، جو نقصان دہ چیزیں ہیں، اِن کا علاج بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو لیکن خالص ہو کر، خود کوشش کرتے ہوئے)۔ (ملفوظات جلدنمبر 7صفحہ123۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پھر 1904ء میں ایک مجلس میں جہاں نئے بیعت کرنے والے شامل تھے آپ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’دعا کے لئے انسان کو اپنے خیال اور دل کو ٹٹولنا چاہئے کہ آیا اُس کا میلان دنیا کی طرف ہے یا دین کی طرف؟ یعنی کثرت سے وہ دعائیں دنیاوی آسائش کے لئے ہیں یا دین کی خدمت کے لئے؟۔‘‘ (یہ بڑی نوٹ کرنے والی چیز ہے۔ یہ دیکھو تمہارا میلان کس طرف ہے۔ دنیا کی طرف یا دین کی طرف؟ اور اس کا معیار کیا بنایا۔ فرمایا کہ یہ دیکھو تم جو دعائیں کرتے ہو اُن میں زیادہ تر دعائیں تمہاری دنیاوی آسائشوں کے لئے ہیں، دنیاوی ضروریات کے لئے ہیں یا دین کے لئے ہیں، یا دین کی خدمت کے لئے)۔ ’’پس اگر معلوم ہو کہ اُٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اُسے دنیاوی افکار ہی لاحق ہیں اور دین مقصودنہیں تو اُسے اپنی حالت پر رونا چاہئے‘‘۔ (اگر صرف دنیاوی فکریں ہی ہیں اور دین اس کا مقصدنہیں ہے تو فرمایا کہ اُسے اپنی حالت پر رونا چاہئے)۔ ’’بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کمر باندھ کر حصولِ دنیا کے لئے مجاہدے اور ریاضتیں کرتے ہیں۔ دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طرح طرح کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ بعض مجنون ہو جاتے ہیں۔ ، لیکن سب کچھ دین کے لئے ہو تو خدا تعالیٰ اُن کو کبھی ضائع نہ کرے۔ قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے۔ اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اُسے لے جا کر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اُسے پڑے پڑے گُھن لگ جاوے گا۔ ایسے ہی اگر قول ہو اور اُس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا۔ اس لئے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہئے‘‘۔ (یعنی اعمال کی طرف بڑھنے کی کوشش کرو۔ ایک دانے کو اُگاؤ گے تو اس میں سے پودا پھوٹ پڑے گا۔ رکھ دو گے تو گُھن لگ جائے گا)۔ (ملفوظات جلدنمبر 7صفحہ117۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پھر جنوری 1908ء کی ایک مجلس میں گفتگو فرماتے ہوئے کہ حقیقی دعا کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ’’دعا دو قسم (کی) ہے۔ ایک تو معمولی طور سے، دوم وہ جب انسان اُسے انتہا تک پہنچا دیتا ہے۔ پس یہی دعا حقیقی معنوں میں دعا کہلاتی ہے۔ انسان کو چاہئے کہ کسی مشکل پڑنے کے بغیر بھی دعا کرتا رہے‘‘۔ (یہ ضروری نہیں ہے کہ جب مشکلات آئیں تبھی دعائیں کرنی ہیں بلکہ عام حالات میں بھی دعا کرتا رہے) ’’کیونکہ اسے کیا معلوم کہ خدا تعالیٰ کے کیا ارادے ہیں؟ اور کل کیا ہونے والا ہے؟ پس پہلے سے دعا کرو تا بچائے جاؤ۔ بعض وقت بلا اس طور پر آتی ہے کہ انسان دعا کی مہلت ہی نہیں پاتا۔ پس پہلے اگر دعا کر رکھی ہو تو اُس آڑے وقت میں کام آتی ہے‘‘۔ (یہ ہے دعا کی اہمیت)۔ (ملفوظات جلدنمبر10صفحہ123 -122۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پھر اپنی ایک تقریر کے دوران آپ نے فرمایا کہ’’انسان کی ظاہری بناوٹ، اُس کے دو ہاتھ، دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا رہنما ہے۔ جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ: 3) کے معنی سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے‘‘۔ (یعنی انسانی جسم کے ہاتھ ہیں، پاؤں ہیں، یہ جو انسانی جسم کی بناوٹ ہے۔ جسم کا جو ہر عضو ہے ایک دوسرے کی مددکرنے کے لئے ہے)۔ تو فرمایا اسی طرح ’’تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ: 3) کے معنی سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے۔ ہاں مَیں یہ کہتا ہوں کہ تلاشِ اسباب بھی بذریعہ دعا کرو‘‘۔ (یعنی جو دنیاوی سامان ہے اُس کی تلاش کرنی ہے تو بھی دعا کے ذریعہ کرو)۔ ’’امدادِ باہمی میں نہیں سمجھتا کہ جب مَیں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل رہنما سلسلہ دکھاتا ہوں تم اس سے انکار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت اُن رسولوں کو باقی نہ رہنے دے۔ مگر پھر بھی ایک وقت اُن پر آتا ہے کہ وہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیا وہ ایک ٹکڑگدا فقیر کی طرح بولتے ہیں؟ نہیں۔ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو رعایتِ اسباب سکھانا چاہتے ہیں‘‘۔ (انبیاء جب مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ (سورۃ آل عمران: 53) کہ کون ہیں اللہ کے لئے میرے مدد گار؟ کہتے ہیں۔ تو وہ اُن کو ضرورت نہیں ہوتی)۔ فرمایا’’وہ دنیا کو رعایتِ اسباب سکھانا چاہتے ہیں‘‘۔ (یہ بھی دنیا کو سکھانے کے لئے ہے) ’’جو دعا کا ایک شعبہ ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ پر اُن کو کامل ایمان اُس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا(المومن: 52)۔ ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مدد دے سکتا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل وَنِعْمَ النَّصِیْر۔ دنیا اور دنیا کی مددیں اِن لوگوں کے سامنے کا لمیّت ہوتی ہیں اور مُردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔ لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ وہ حقیقت میں اپنے کاروبار کا متولّی خداا تعالیٰ ہی کوجانتے ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے۔ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ(الاعراف: 197)۔ اللہ تعالیٰ اُن کو مامور کر دیتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو دوسروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مقامات پر مدد کا وعظ کرتے تھے۔ اسی لئے کہ وہ وقت نصرتِ الٰہی کا تھا، اُس کو تلاش کرتے تھے کہ وہ کس کے شامل حال ہوتی ہے۔
یہ ایک بڑی غور طلب بات ہے۔ دراصل مامور من اللہ لوگوں سے مددنہیں مانگتا بلکہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ کہہ کر وہ اس نصرت الٰہیہ کا استقبال کرنا چاہتا ہے اور ایک فرطِ شوق سے بے قراروں کی طرح اس کی تلاش میں ہوتا ہے۔ نادان اور کوتاہ اندیش لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں سے مدد مانگتا ہے بلکہ اس طرح پر اس شان میں وہ کسی دل کے لئے جو اس نصرت کا موجب ہوتا ہے ایک برکت اور رحمت کا موجب ہوتا ہے۔ پس مامور من اللہ کی طلب امداد کا اصل سرّ اور راز یہی ہے جو قیامت تک اسی طرح رہے گا۔ اشاعت دین میں مامور من اللہ دوسروں سے امداد چاہتے ہیں مگر کیوں؟ اپنے ادائے فرض کے لئے تاکہ دلوں میں خدا تعالیٰ کی عظمت کو قائم کریں۔ ورنہ یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ قریب بہ کفر پہنچ جاتی ہے اگر غیراللہ کو متولّی قرار دیں۔ اور ان نفوس قدسیہ سے ایسا امکان محال مطلق ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 9صفحہ 12-14 مطبوعہ لندن 1984ء)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔ وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے۔ جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بدمعاشی میں میسر آ سکتا ہے، ہیچ ہے۔ بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے۔ دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا اور اُسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جب مو من کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کو بھی اُس پر رحم آ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کا متولّی ہو جاتا ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الٰہی تولّی کے بغیر انسانی زندگی قطعاً تلخ ہو جاتی ہے۔ دیکھ لیجئے جب انسان حدّ بلوغت کو پہنچتا ہے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگتا ہے تو نامرادیوں ناکامیابیوں اور قسما قسم کے مصائب کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اُن سے بچنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتا ہے۔ دولت کے ذریعہ، تعلق حکام کے ذریعہ، قسما قسم کے حیلہ و فریب کے ذریعہ‘‘۔ (جب دنیا میں مصائب شروع ہو جائیں تووہ بچنے کے لئے کیا کرتا ہے۔ اگر اُس کے پاس دولت ہے، پیسہ ہے، تواُس سے بچنے کے لئے اُس کو استعمال کرتاہے۔ اگر اُس کے بڑے افسران سے تعلقات ہیں تو اُن تعلقات کو استعمال کرتا ہے یا مختلف قسم کے حیلے اور فریب، دھوکے کے ذریعہ سے، کسی نہ کسی طریقے سے) ’’وہ بچاؤ کے راہ نکالتا ہے، لیکن مشکل ہے کہ وہ اُس میں کامیاب ہو۔ بعض وقت اُس کی تلخ کامیوں کا انجام خود کشی ہو جاتی ہے۔ اب اگر اِن دنیا داروں کے غموم و ہموم اور تکالیف کا مقابلہ اہل اللہ یا انبیاء کے مصائب کے ساتھ کیا جاوے تو انبیاء علیہم السلام کے مصائب کے مقابل اوّل الذکر جماعت کے مصائب بالکل ہیچ ہیں۔ لیکن یہ مصائب و شدائد اُس پاک گروہ کو رنجیدہ یا محزون نہیں کر سکتے‘‘۔ (انبیاء اور اولیاء کو جو مشکلات آتی ہیں وہ انہیں رنجیدہ نہیں کرتیں، افسردہ نہیں کرتیں۔) ’’اُن کی خوشحالی اور سرور میں فرق نہیں آتا کیونکہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ کی تولّی میں پھر رہے ہیں۔ دیکھو اگر ایک شخص کا ایک حاکم سے تعلق ہو اور مثلاً اُس حاکم نے اُسے اطمینان بھی دیا ہو کہ وہ اپنے مصائب کے وقت اس سے استعانت کر سکتا ہے تو ایسا شخص کسی ایسی تکلیف کے وقت جس کی گرہ کشائی اُس حاکم کے ہاتھ میں ہے، عام لوگوں کے مقابل کم درجہ رنجیدہ اور غمناک ہوتا ہے تو پھر وہ مومن جس کا اس قسم کا بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط تعلق اَحکم الحاکمین سے ہو، وہ کب مصائب و شدائد کے وقت گھبراوے گا؟ انبیاء علیہم السلام پر جو مصیبتیں آتی ہیں اگر اُن کا عشرِ عشیر بھی ان کے غیر پر وارد ہو تو اُس میں زندگی کی طاقت باقی نہ رہے۔ یہ لوگ جب دنیا میں بغرضِ اصلاح آتے ہیں تو اُن کی کُل دنیا دشمن ہو جاتی ہے۔ لاکھوں آدمی اُن کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ خطرناک دشمن بھی اُن کے اطمینان میں خلل انداز نہیں ہوسکتے۔ اگر ایک شخص کا ایک دشمن بھی ہو تو وہ کسی لمحہ بھی اُس کے شر سے امن میں نہیں رہتا۔ چہ جائیکہ ملک کا ملک اُن کا دشمن ہو اور پھر یہ لوگ باامن زندگی بسر کریں۔ ان تمام تلخ کامیوں کو ٹھنڈے دل سے برداشت کر لیں۔ یہ برداشت ہی معجزہ و کرامت ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت اُن کے لاکھوں معجزوں سے بڑھ کر ایک معجزہ ہے۔ کُل قوم کا ایک طرف ہونا، دولت، سلطنت، دنیاوی وجاہت، حسینہ جمیلہ بیویاں وغیرہ سب کچھ کے لالچ قوم کا اس شرط پر دینا کہ وہ اعلائے کلمۃ اللہ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سے رُک جاویں۔ لیکن ان سب کے مقابل جناب رسالت مآب کا فرمانا کہ میں اگر اپنے نفس سے کرتا تو یہ سب باتیں قبول کرتا۔ میں تو حکمِ خدا کے ماتحت یہ سب کچھ کر رہا ہوں اور پھر دوسری طرف سب تکالیف کی برداشت کرنا، یہ ایک فوق الطاقت معجزہ ہے۔ یہ سب طاقت اور برداشت اُس دعا کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جو مومن کو خدا تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ اِن لوگوں کی دردناک دعا بعض وقت قاتلوں کے سفاکانہ حملہ کو توڑ دیتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے جانا آپ لوگوں نے سُنا ہو گا۔ ابوجہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالت مآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہو گا۔ حضرت عمرؓ نے مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے ابوجہل سے معاہدہ کیا اور قتلِ حضرت کے لئے آمادہ ہو گیا۔ اُس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی، دریافت پر اُسے معلوم ہوا کہ حضرت‘‘ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) ’’نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرضِ نماز آتے ہیں۔ یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سرِ شام خانہ کعبہ میں جا چھپے۔ آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آواز آنا شروع ہوئی۔ حضرت عمر نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گریں تو اُس وقت قتل کروں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمدِ الٰہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ کا دل پسیج گیا۔ اُس کی ساری جرأت جاتی رہی اور اُس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہو گیا۔ نماز ختم کر کے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر کو چلے تو اُن کے پیچھے حضرت عمرؓ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آہٹ پا کر دریافت کیا اور معلوم ہونے پر فرمایا کہ اے عمر! کیا تو میرا پیچھا نہ چھوڑے گا؟ حضرت عمر بددعا کے ڈر سے بول اُٹھے کہ حضرت! مَیں نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا۔ میرے حق میں بددعا نہ کیجئے گا۔ چنانچہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 7صفحہ 61-59۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
دورانِ گفتگو مجلس میں آپؑ نے فرمایا کہ: ’’دشمن بد اندیش صرف عداوت کے سبب ہماری ہر بات اور ہر فعل پر اعتراض کرتا ہے، کیونکہ اُس کا دل خراب ہے۔ اور جب کسی کا دل خراب ہوتا ہے تو پھر چاروں طرف اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔ یہ نادان کہتے ہیں کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے ہیں اور کچھ کام نہیں کرتے‘‘۔ (یعنی آپ کے متعلق کہا کہ اپنی جگہ پر بیٹھا ہے کوئی کام نہیں کرتے) ’’مگر وہ خیال نہیں کرتے کہ مسیح موعود کے متعلق کہیں یہ نہیں لکھا کہ وہ تلوار پکڑے گا اور نہ یہ لکھا ہے کہ وہ جنگ کرے گا بلکہ یہی لکھا ہے کہ مسیح کے دَم سے کافر مریں گے۔ یعنی وہ اپنی دعا کے ذریعے سے تمام کام کرے گا۔ اگر مَیں جانتا کہ میرے باہر نکلنے سے اور شہروں میں پھرنے سے کچھ فائدہ ہو سکتا ہے تو مَیں ایک سیکنڈ بھی یہاں نہ بیٹھتا۔ مگر مَیں جانتا ہوں کہ پھرنے میں سوائے پاؤں گھسانے کے اور کوئی فائدہ نہیں ہے اور یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعہ سے حاصل ہو سکیں گے۔ دعا میں بڑی قوتیں ہیں‘‘۔ فرمایا’’کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ ایک ملک پر چڑھائی کرنے کے واسطے نکلا۔ راستے میں ایک فقیر نے اُس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا کہ تم آگے مت بڑھو ورنہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اُس سے پوچھا کہ تو ایک بے سروسامان فقیر ہے تُو کس طرح میرے ساتھ لڑائی کرے گا؟ فقیر نے جواب دیا کہ مَیں صبح کی دعاؤں کے ہتھیار سے تمہارے مقابلہ میں جنگ کروں گا۔ بادشاہ نے کہا، مَیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا۔ غرض دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ اُس کو ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے۔ گزشتہ انبیاء کے زمانے میں بعض مخالفین کو نبیوں کے ذریعہ سے بھی سزا دی جاتی تھی مگر خدا جانتا ہے کہ ہم ضعیف اور کمزور ہیں۔ اس واسطے اُس نے ہمارا سب کام اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خشک مُلّا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لئے تمام سامان بھی مہیا ہو جاتے۔ جب ہماری دعائیں ایک نقطہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ نادان دشمن جو سیاہ دل ہے وہ کہتا ہے کہ اُن کو سوائے سونے اور کھانے کے اور کچھ کام ہی نہیں ہے۔ مگر ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں۔ سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر 9صفحہ28-27۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)
پس یہ دعا کے مضمون کے چندنمونے ہیں جو مَیں نے آج آپ کے سامنے پیش کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی دعاؤں کے مضمون کو سمجھنے اور اپنی زندگیوں میں لاگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیشہ ہمارے پیشِ نظر خدا تعالیٰ کی ذات ہو، اُس کی رضا کا حصول ہو۔ ہر آسائش میں بھی اور ہر مشکل میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے اور اُس سے دعائیں مانگنے کی اہمیت کو سمجھنے والے ہوں۔ ہم اُس روح کو سمجھنے والے ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ رشتہ بیعت جوڑ کر ہم پر کیا ذمہ واریاں عائد ہوتی ہیں۔ اور یہ بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اب ہمارا ہر قول اور فعل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں اور اس کے لئے دعائیں کرنے والے ہوں۔ ان دنوں میں جب مخالفینِ احمدیت کی طرف سے حملے شدت اختیار کر رہے ہیں، جماعت کی حفاظت کے لئے بھی بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ دشمن کا ہر شر اُس پر الٹائے اور جماعت کی ہر آن حفاظت فرمائے۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِم۔
اے اللہ! ہم ان مخالفین کے مقابلہ میں تجھے لاتے ہیں اور ان کے شر سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔
رَبِّ اِنِّی مَظْلُوْمٌ فَانْتَصِرْ۔ اے میرے رب! مجھ پر ظلم کیا گیا ہے۔ تُو ہی انتقام لے۔
رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ اے میرے رب! ہر چیز تیری خادم ہے۔ پس مجھے حفاظت میں رکھ۔ میری مدد فرما اور میری حفاظت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خاص دعا ہے
رَبِّ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَالْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ۔ کہ اے میرے خدا! اسلام پر مجھے وفات دے اور نیکو کاروں کے ساتھ مجھے ملا دے۔
ہمیشہ ہم صالحین کے ساتھ شامل ہونے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول فرمائے۔ ہمیں اُس طریق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں چلانا چاہتے ہیں۔