خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ مئی 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ اَمَرۡتَہُمۡ لَیَخۡرُجُنَّ ؕ قُلۡ لَّا تُقۡسِمُوۡا ۚ طَاعَۃٌ مَّعۡرُوۡفَۃٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ۔وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۔وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ۔ (سورۃالنور آیات 54 تا 57)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے:

اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق اطاعت کرو۔ یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔

کہہ دے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم پِھر جاؤ تو اُس پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے جو اُس پر ڈالی گئی ہے اور تم پر اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم پر ڈالی گئی ہے۔ اور اگر تم اُس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے۔ اور رسول پر کھول کھول کر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ ذمہ داری نہیں۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے ان کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔

یہ آیات جو میں نے پڑھی ہیں، ان میں سے ایک آیت جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور ترجمہ بھی آپ نے سُنا، آیتِ استخلاف کہلاتی ہے۔ یعنی وہ آیت جس میں مومنین سے خدا تعالیٰ نے خلافت کا وعدہ کیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی مختلف کتب میں اس آیت کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ اور تفصیل بیان فرماتے ہوئے مختلف طریق پر اُس کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اپنی ایک مختصر سی کتاب یا رسالہ ’’الوصیت‘‘ میں اس حوالے سے اپنے بعد جماعت احمدیہ میں نظامِ خلافت جاری ہونے کی خوشخبر ی عطا فرمائی۔ یہ رسالہ آپ نے دسمبر 1905ء میں تصنیف فرمایا جس میں تقویٰ، توحید، اپنے مقام، خلافت اور قربِ الٰہی کے حصول کے لئے جماعت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے، مالی قربانی کے جاری رکھنے کے لئے وصیت کا عظیم الٰہی منصوبہ بھی پیش فرمایا جو درحقیقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ایک ایسا نظام ہے جس کے سامنے تمام معاشی نظام بے حقیقت ہیں کیونکہ وہ تقویٰ سے عاری اور صرف چند لوگوں یا چند ظاہری پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ بہر حال اس کی تفصیلات اور جزئیات تو بہت سی ہیں لیکن میں آپ علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں، جو آپ نے اس رسالہ میں بیان فرمائے تھے، کچھ اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا۔

وصیت کا نظام تو جیسا کہ میں نے کہا کہ 1905ء میں جب یہ کتاب لکھی گئی تھی، اُس وقت سے جاری ہو گیا تھا۔ لیکن آیتِ استخلاف کے حوالے سے جو بات آپ علیہ السلام نے اس کتاب میں بیان فرمائی ہے یعنی خلافتِ احمدیہ۔ وہ اس رسالے کے لکھے جانے کے تین سال بعد آج سے ایک سو تین سال پہلے آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد آج کے روز 27؍مئی 1908ء کو جاری ہوئی۔ اور یہ نظامِ خلافت وہ نظام ہے جو چودہ سو سال کی محرومی کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ آپ کے سامنے رکھوں یا اقتباسات پیش کروں، اِن آیات کی مختصر وضاحت پیش کروں گا تا کہ نظامِ خلافت سے متعلقہ قرآنی احکام بھی سامنے رہیں۔ اِن آیات میں اللہ اور رسول کو ماننے والوں کے لئے اور خلفاء کی بیعت کرنے والوں کے لئے بھی ایک مکمل لائحہ عمل سامنے رکھ دیا ہے۔ اور پہلی بات اور بنیادی بات یہ بیان فرمائی کہ اطاعت کیا چیز ہے اور اس کا حقیقی معیار کیا ہے؟ اطاعت کا معیار یہ نہیں ہے کہ صرف قسمیں کھا لو کہ جب موقع آئے گا تو ہم دشمن کے خلاف ہر طرح لڑنے کے لئے تیار ہیں۔ صرف قسمیں کام نہیں آتیں۔ جب تک ہر معاملے میں کامل اطاعت نہیں دکھاؤ گے حقیقت میں کوئی فائدہ نہیں۔ کامل اطاعت دکھاؤ گے تو تبھی سمجھا جائے گا کہ یہ دعوے کہ ہم ہر طرح سے مر مٹنے کے لئے تیار ہیں حقیقی دعوے ہیں۔ اگر اُن احکامات کی پابندی نہیں اور اُن احکامات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول نے دئیے ہیں تو بسا اوقات بڑے بڑے دعوے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں۔ پس اصل چیز اس پہلو سے کامل اطاعت کا عملی اظہار ہے۔ اگر یہ عملی اظہار نہیں اور بظاہر چھوٹے چھوٹے معاملات جو ہیں اُن میں بھی عملی اظہار نہیں تو پھر دعوے فضول ہیں۔ إِنَّ اللَّہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ کہہ کر یہ واضح فرما دیا کہ انسانوں کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے، ہر مخفی اور ظاہر عمل اُس کے سامنے ہے، اس لئے اُس کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔ پس ہمیشہ یہ سامنے رہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ اور ایک حقیقی مومن کو اس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ اور جب ایک انسان کو اس بات پہ یقین قائم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے تو پھر صرف قَسمیں ہی نہیں رہتیں بلکہ دستور کے مطابق اطاعت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر معروف فیصلے کی کامل اطاعت کے ساتھ تعمیل ہوتی ہے۔ اللہ اور رسول کی اطاعت بجا لانے کے لئے انسان حریص رہتا ہے۔ اُس کے لئے کوشش کرتا ہے۔ أَطِیْعُوا اللّٰہ وأَطِیْعُوا الرّسُول کے ساتھ وَاُوْلِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ بھی یعنی امیر اور نظامِ جماعت کی اطاعت بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ خلیفہ وقت کی اطاعت بھی ضروری ہو جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو یہ کامل اطاعت نہیں دکھاتے اور اپنی مرضی کرتے ہیں، فرماتا ہے کہ تمہارے ان احکامات پر عمل نہ کرنے اور پھر جانے کا گناہ جو ہے، یہ بَار جو ہے یہ تم پر ہے اور تمہی اس کے بارے میں پوچھے جاؤ گے۔ رسول سے اس کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔ اللہ کے رسول پر اس کی ذمہ داری نہیں ہو گی۔ جو احکامِ شریعت تھے وہ اللہ کے رسول نے پہنچا دئیے اور پھر رسول کی اتباع میں خلیفۂ وقت نے اللہ اور رسول کے احکام پہنچا دئیے۔ پس نصیحت کرنے والے، شریعت کے احکام دینے والوں نے تو اپنا کام کر دیا۔ اُن پر عمل نہ کر کے عمل نہ کرنے والے جوابدہ ہیں۔ یہاں جو مَیں رسول کے ساتھ خلیفہ کی بات بھی جوڑ رہا ہوں تو ایک تو مَیں نے بتایا ہے قرآنِ کریم میں اُوْلِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ آتا ہے۔ دوسرے خلافتِ راشدہ جو ہے وہ رسول کے کام کو ہی آگے بڑھانے کے لئے آتی ہے اور یہی نبوت کا تسلسل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نصیحت فرماتے ہوئے فرمایا کہ میری سنت پر چلنا اور پھر خلفاء راشدین کے طریق پر چلنا۔ یہ آپ نے اس لئے فرمایا کہ خلفاء راشدین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور سنت اور شریعت کو لے کر ہی آگے بڑھنے والے ہیں۔ یہ جو حدیث ہے یہ پوری اس طرح ہے۔

حضرت عبدالرحمن بن عمرو سُلَمیؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسا پُر اثر وعظ کیا کہ جس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بَہ پڑے، دل ڈر گئے۔ ہم نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! یہ تو ایسی نصیحت ہے جیسے ایک الوداع کہنے والا وصیت کرتا ہے۔ ہمیں کوئی ایسی ہدایت فرمائیے کہ ہم صراطِ مستقیم پر قائم رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں تمہیں روشن اور چمکدار راستے پر چھوڑے جا رہا ہوں۔ اس کی رات بھی اُس کے دن کی طرح ہے۔ سوائے بدبخت کے اس سے کوئی بھٹک نہیں سکتا۔ یعنی یہ بڑے واضح راستے ہیں۔ اور تم میں سے جو شخص رہا وہ بڑا اختلاف دیکھے گا۔ (ساتھ انذار بھی کر دیا کہ باوجود اِن واضح راستوں کے اختلافات پیدا ہو جائیں گے۔ ) ایسے حالات میں تمہیں میری جانی پہچانی سنت پر چلنا چاہئے اور خلفاء ِ راشدین مہدیّین کی سنت پر چلنا چاہئے۔ تم اطاعت کو اپنا شعار بناؤ خواہ حبشی غلام ہی تمہارا امیر مقرر کر دیا جائے۔ اس دین کو تم مضبوطی سے پکڑو۔ مومن کی مثال نکیل والے اونٹ کی سی ہے۔ جدھر اُسے لے جاؤ وہ اُدھر چل پڑتا ہے اور اطاعت کا عادی ہوتا ہے۔

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اطاعت ہے یہ تمہارے لئے ضروری ہے۔ وَان تطیعوہ تھتدوا۔ کہ اگر تم اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور ہدایت پاتے رہو گے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے خلافت سے متعلق احکام دئیے جو آیتِ استخلاف میں درج ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللَّہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ۔ کہ اللہ تعالیٰ کا اُن لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ ہے جو ایمان لائے اور اعمالِ صالحہ بجا لائے۔ ایمان اور عمل صالح کا معیار جو ہے وہ پہلی آیت میں بیان فرما دیا کہ کامل اطاعت کا جُؤآ اپنی گردن پر رکھو، تبھی حقیقی مومن کہلاؤ گے۔ کامل اطاعت کا جُؤآ اپنی گردن پر رکھ کر تبھی نیک اعمال بجا لانے کی طرف بڑھنے والے ہو گے۔ اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا تو پھر خلافت کی نعمت سے فیض پاؤ گے ورنہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ضرور مسلمانوں میں خلافت جاری رہے گی بلکہ وعدہ فرمایا ہے جو بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے اور اُن میں سے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ کامل اطاعت ہو۔ پہلی خلافتِ راشدہ کا تسلسل تبھی ٹوٹا تھا کہ مسلمان اطاعت سے باہر ہوئے۔ مسلمان حقیقی خلافت سے اُس وقت محروم کئے گئے جب وہ اطاعت سے باہر ہوئے۔ اطاعت سے باہر نکل کر بعض گروہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم اپنی بیعت کو بعض شرائط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں جن میں ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لینا تھا یا بعض فتنہ پردازوں کی باتوں میں آ کر اطاعت سے باہر نکلنے والے بنے۔ باوجود اس کے کہ اُس وقت صحابہ بھی موجود تھے لیکن جب کامل اطاعت سے باہر نکلے تو خلافت سے محروم کر دئیے گئے۔ اور کیونکہ خلیفہ بنانے کا فیصلہ خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے تو پھر اختلافات کے بعد، اطاعت سے نکلنے کے بعد خلیفہ بننے یا بنانے کی ان کی سب کوششیں ناکام ہو گئیں۔ اور خلافت نے ملوکیت کی شکل اختیار کر لی۔

اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ جس طرح نظامِ خلافت پہلے اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا تھااس طرح جاری کرے گا، تو اللہ تعالیٰ نے پہلا نظامِ خلافت نبوت کی صورت میں جاری فرمایا تھا۔ اور پہلی قوموں میں نبی خود خدا تعالیٰ بھیجتا تھا۔ اب کیونکہ شریعت کامل ہو گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تا قیامت شرعی نبی ہیں اس لئے خلافتِ راشدہ کا اجراء فرما دیا جس کا ظاہری طور پر چناؤ کا طریق تو بیشک لوگوں کے ہاتھ میں رکھا لیکن اپنی فعلی شہادت اور تائیدات سے اللہ تعالیٰ نے اس خلافت کو اپنی پسند کی طرف منسوب فرمایا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے کیونکہ آخری غلبہ اور کامل شریعت اسلام کے ذریعے سے ہی قائم فرمانی تھی اس لئے یہ پیشگوئی بھی فرما دی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں ایک نبی مبعوث ہو گا جس کی تفصیل وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ: 4)۔ میں بیان فرما دی اور جس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر فرما دی کہ میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مسیح و مہدی بھی ہیں، نبی بھی ہیں اور خاتم الخلفاء بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال کے بعد مومنین کے ساتھ اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لئے پھر اس خلیفہ کو بھیجا جو اُمتی ہونے کی وجہ سے نبوت کا اعزاز پا کر پھر خلافت جاری کرنے کا ذریعہ بن گیا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بیشک دینِ اسلام تو تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا ہے لیکن خوف کو امن کی حالت میں بدلنے کے لئے کامل اطاعت کے ساتھ اور خلافت کے نظام کے ساتھ جُڑ کر ہی تم اس کا حقیقی فیض حاصل کر سکو گے اور یہ ضروری ہے۔ اور جو اس نظام سے جڑے رہیں گے اُن کے حق میں اس کے ذریعے سے ہر خوف کی حالت امن میں بدلتی چلی جائے گی اور اُن خلفاء کے ذریعے سے ہی غلبہ اسلام کے دن بھی قریب آتے چلے جائیں گے۔ لیکن یہاں یہ فرما دیا کہ خلیفۂ وقت اور خلافت سے منسلک ہونے والوں کا یہ کام ہے اور اُن کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف خالص ہو کر توجہ دینے والے بنیں۔ نمازوں کا قیام اور توحیدِ خالص کا قیام اور اس کے لئے کوشش اُن کو خلافت کے انعام سے فیضیاب کرتی رہے گی۔ اُن کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ سنے گا۔ اُن کی پریشانیوں کو دور فرمائے گا۔ اپنے انعامات سے انہیں نوازے گا۔ لیکن جو یہ سب دیکھ کر پھر بھی خلافتِ حقہ کے ساتھ منسلک نہیں ہوں گے، فرمایا وہ نافرمان ہیں۔ اُن کی نافرمانی کی سزا ملے گی۔ وہ اُن انعامات سے محروم ہوں گے جو مومنین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مَیں اکثر کہا کرتا ہوں اور آج آپ عامۃ المسلمین کو دیکھ لیں کہ بے چینیوں نے انہیں گھیرا ہوا ہے اور غیروں کے دباؤ میں آ کر اتنی بے حسی طاری ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کو مروانے کے لئے مسلمان خود غیروں کی مدد حاصل کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُمت کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔

پھر اس تسلسل میں جو آخری آیت مَیں نے پڑھی ہے، اُس میں پھر تین باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نماز کا قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی اور کامل اطاعت تاکہ اللہ تعالیٰ رحم فرماتے ہوئے اپنے انعام جاری رکھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ جو اپنے انعام کا سلسلہ جاری فرمایا ہے، اس سے فیض پانے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو یاد رکھنا چاہئے کہ اُس کا وعدہ کامل اطاعت کرنے والوں کے ساتھ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ کیونکہ کامل اطاعت کرنے والا وہی ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھے اور اُس کی عبادت کرنے والا ہو۔ اور عبادت کرنے کے لئے بہترین ذریعہ جو ہمیں بتایا گیا وہ نمازوں کا قیام ہے۔ پس الٰہی جماعت کا حقیقی حصہ وہی بن سکتا ہے جو نمازوں کے قیام کی بھرپور کوشش کرتا ہو۔

نمازوں کے قیام کی ایک بڑی اعلیٰ تشریح اور وضاحت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح فرمائی ہے کہ صلوٰۃ کا بہترین حصہ جمعہ ہے جس میں امام خطبہ پڑھتا ہے اور نصائح کرتا ہے۔ اور خلیفہ وقت دنیا کے حالات دیکھتے ہوئے دنیا کی مختلف قوموں کی وقتاً فوقتاً اُٹھتی ہوئی اور پیدا ہوتی ہوئی ضروریات کے پیشِ نظر نصائح کرتا ہے جس سے قومی وحدت اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ سب کا قبلہ ایک طرف رکھتا ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اصل تصویر ہمارے سامنے ہے۔ اور جماعت احمدیہ میں یہ تصویر ہمیں نظر آتی ہے۔ جبکہ خلیفہ وقت کا خطبہ بیک وقت دنیا کے تمام کونوں میں سُنا جا رہا ہوتا ہے۔ اور مختلف مزاج اور ضروریات کے مطابق بات ہوتی ہے۔ میں جب خطبہ دیتا ہوں، جب نوٹس لیتا ہوں تو اُس وقت صرف آپ جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں، وہی مدّ نظر نہیں ہوتے۔ بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کی جو مجھے رپورٹس آتی ہیں اُن کو سامنے رکھتے ہوئے کبھی زیادہ زور یورپ کے حالات کے مطابق خطبہ میں ہو۔ کبھی ایشیا کے کسی ملک کے حالات کے مطابق ہو یا عمومی طور پر اُن کے حالات کے مطابق ہو۔ کبھی افریقہ کے مطابق ہو۔ کبھی جزائر کے مطابق ہو۔ لیکن اسلام چونکہ ایک بین الاقوامی مذہب ہے اس لئے ہر بات جو بیان ہو رہی ہوتی ہے وہ ہر ملک اور ہر طبقے کے احمدیوں کے لئے نصیحت کا رنگ رکھتی ہے۔ چاہے کسی کو بھی مدّنظر رکھ کر بات کی جارہی ہو کچھ نہ کچھ پہلو اُن کے اپنے بھی اُس میں موجود ہوتے ہیں۔ مجھے خطبے کے بعد دنیا کے مختلف ممالک سے خط بھی آتے ہیں، روس کی ریاستوں کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں، افریقہ کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں اور دوسرے ممالک کے مقامی باشندوں کی طرف سے بھی آتے ہیں اور یہ اظہار ہوتا ہے کہ یوں لگتا ہے یہ خطبہ جیسے ہمارے لئے ہے۔ بہر حال اقامت صلوٰۃ کی ایک تشریح یہ بھی ہے جو خلافت کے ذریعہ سے آج دنیائے احمدیت میں جاری ہے۔

پھر زکوٰۃ کی ادائیگی ہے یا تزکیہ اموال ہے، جس میں زکوۃ بھی ہے اور باقی مالی قربانیاں بھی ہیں۔ یہ بھی آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں صرف جماعت احمدیہ کے ذریعے سے ہی جاری ہے اور خلیفۂ وقت کی ہدایت کے ماتحت دنیا میں چندے کے نظام کے ذریعے سے افرادِ جماعت اور جماعتوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ ایک مُلک میں اگر کمی ہے تو دوسرے ملک کی مدد سے اُس کمی کو پورا کیا جاتا ہے۔ ایک جگہ اگر زیادہ مالی کشائش ہے تو غریب ملکوں کی تبلیغ کی، اشاعتِ لٹریچر کی، مساجد کی تعمیر کی جو ضروریات ہیں وہ اَور مختلف طریقوں سے پوری کی جاتی ہیں۔ تو یہ ایک نظام ہے جو خلیفۂ وقت کے تحت چل رہا ہوتا ہے۔ کہیں غریبوں کی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ کہیں طبی ضروریات پوری ہو رہی ہوتی ہیں۔ کہیں تعلیمی ضروریات پوری کی جا رہی ہوتی ہیں۔ کہیں تبلیغِ اسلام کی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو نظامِ وصیت اور نظامِ خلافت کو اکٹھا بیان فرمایا ہے تو اس میں ان تمام ضروریات کو پورا کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اور پھر لوگ جو چندہ دیتے ہیں وہ خلافت کے نظام کی وجہ سے اس اعتماد پر بھی قائم ہیں کہ اُن کا چندہ فضولیات میں ضائع نہیں ہو گا بلکہ ایک نیک مقصد کے لئے استعمال ہو گا۔ بلکہ غیر از جماعت بھی یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ اگر ہم زکوٰۃ احمدیوں کو دیں تو اِس کا صحیح مصرف ہو گا۔ گھانا میں مجھے کئی لوگ اپنی فصلوں کی زکوٰۃ دے کر جایا کرتے تھے کہ آپ صحیح استعمال کریں گے یا وہاں مشن میں جمع کرا دیا کرتے تھے۔ کئی زمیندار میرے واقف تھے وہ جنس کی صورت میں مجھے دے جایا کرتے تھے کہ آپ جمع کروا دیں۔ کیونکہ وہ کہتے تھے کہ ہم اگر یہ زکوٰۃ اپنے مولویوں کو دیں گے، اماموں کو دیں گے تو وہ کھا جائیں گے اور اس کا صحیح استعمال نہیں ہو گا۔ بلکہ آج بھی مختلف جگہوں سے مجھے جماعتوں کی طرف سے یہ خط آتے ہیں کہ غیرازجماعت زکوٰۃ یا صدقہ دینا چاہتے ہیں تو اس بارے میں کیا ہدایت ہے۔ جہاں تک زکوٰۃ اور صدقات کا تعلق ہے جماعت اُن کو لے سکتی ہے اور لیتی ہے لیکن دوسرے طوعی اور لازمی چندے جو ہیں وہ صرف احمدیوں سے لئے جاتے ہیں۔ بہر حال زکوٰۃ کا نظام بھی خلافت کے نظام سے وابستہ ہے۔

آخر پر اس میں پھر اطاعت کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے حقیقی تعلق اور اُس کے نتیجے میں خلافت سے تعلق کا نقطہ اور محور کامل اطاعت ہے، جب یہ ہو گی تو مومن انعامات کا وارث بنتا چلا جائے گا۔

اب میں رسالہ الوصیت کے حوالے سے کچھ بیان کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے اس وعدے اور اس پیشگوئی کا اعلان فرما رہے ہیں کہ یہاں یہ وعدہ بھی ہے اور پیشگوئی بھی کہ آپ کی وفات قریب ہے۔ ایک پیشگوئی تھی کہ آپ کی وفات قریب ہے۔ آپ کو اطلاع دی جا رہی تھی اور ساتھ یہ پیشگوئی تھی اور اطلاع کے ساتھ وعدہ کیا جا رہا تھا کہ وفات کا وقت تو قریب ہے لیکن ہم ایسے تمام اعتراض دُور اور دفع کر دیں گے جن سے آپ علیہ السلام کی رسوائی مطلوب ہو۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں تجھ سے راضی ہوں گا۔ پھر فرمایا کھلے کھلے نشان تیری تصدیق کے لئے ہمیشہ موجود رکھیں گے۔ دنیا نے دیکھا کہ آپؑ کی رسوائی کے جو طلبگار تھے اور کوشش کرنے والے تھے وہ رسوا ہوئے۔ اُن کا نام و نشان دنیا سے مٹ گیا۔ آج اُن کو یاد کرنے والا کوئی نہیں۔ گالیاں دینے والے، الزام لگانے والے مَر کھپ گئے لیکن آپ کی جماعت دنیا میں پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ نشانات کا جو سلسلہ آپ کی زندگی میں شروع ہوا تھا آج بھی جاری ہے۔ لاکھوں بیعتیں جو ہر سال ہوتی ہیں اُن میں سے اکثر خدا تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ملنے پر ہوتی ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشانات ہیں۔ پس یہ خدا تعالیٰ کی تائیدات ہیں جو آپ کی صداقت کا ثبوت ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ

’’خدا تعالیٰ کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اتریں گی۔ کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آ جائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی۔ اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 303-304)

پس یہ وعدہ ہم آج تک پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ پیشگوئی ہم پوری ہوتی دیکھ رہے ہیں۔ آفات کا زور بھی اب زیادہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ روزانہ خبروں میں کسی نہ کسی ملک میں قدرتی آفات کی خبر ہوتی ہے۔ کوئی نہ کوئی ملک قدرتی آفات کا نشانہ بن رہا ہوتا ہے۔ اِن آفات کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیشگوئی فرما چکے ہیں کہ یہ آئیں گی۔ کیا یہ باتیں عقل رکھنے والوں کے لئے کافی نہیں۔ سوچیں کہ ایک دعویدار نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر یہ اطلاع دی کہ اس طرح آفات آئیں گی، زلازل آئیں گے اور آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کی آفات نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ آج اُن لوگوں کو جو مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کرنے والے ہیں چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے اس فرستادہ کی باتوں پر غور کریں۔ پھر اُن لوگوں کے لئے یہ خاص طور پر سوچنے کا مقام ہے جو ہر وقت جماعت احمدیہ کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں کہ باوجود اُن کی تمام تر کوششوں کے جماعت کا ہر قدم ہر لمحے ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کیا یہ کسی انسان کاکام ہو سکتا ہے کہ اس طرح ترقی ہو رہی ہے اور لوگوں کے دلوں پر اثر ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو دلوں کو زمانے کے امام کی طرف پھیر رہا ہے۔ آخر کب تک یہ لوگ خدا تعالیٰ سے لڑیں گے۔ سوائے اس کے کہ اپنی دنیا و عاقبت خراب کریں ان کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ بڑے واضح طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرما چکے ہیں۔ تمہاری آنکھیں گل جائیں، تمہارے ناک زمین پر رگڑ رگڑ کر گل جائیں تب بھی تم میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’یہ خدا تعالیٰ کی سنّت ہے اور جب سے کہ اُس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنّت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے کَتَبَ اللّٰہ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22)۔ اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہو جائے اور اُس کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوں کے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی اُنہی کے ہاتھ سے کر دیتا ہے لیکن اس کی پوری تکمیل اُن کے ہاتھ سے نہیں کرتا، بلکہ ایسے وقت میں وہ اُن کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتاہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقعہ دے دیتا ہے۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کر چکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر ناتمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 304)

اور پھر آگے اپنی تحریر میں اللہ تعالیٰ کی اس دوسری قدرت کے بارے میں فرمایاکہ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے۔

آج جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا ہے، جو پیشگوئی فرمائی ہے، جس کا اعلان زمانے کے امام کے ذریعہ سے کروایا وہ ہر آن اور ہر لمحہ ایک نئی شان سے پورا ہو رہا ہے۔ چاہے وہ خلافتِ اولیٰ کا دَور تھا جس میں بیرونی مخالفتوں کے علاوہ اندرونی فتنوں نے بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا تھا۔ یا خلافت ثانیہ کا دَور تھا جس میں انتخابِ خلافت سے لے کر تقریباً آخر تک جو خلافتِ ثانیہ کا زمانہ تھا، مختلف فتنے اندرونی طور پر بھی اُٹھتے رہے۔ جماعت کا ایک حصہ علیحدہ بھی ہوا۔ پھر بیرونی مخالفتوں نے بھی شدید حملوں کی صورت اختیار کر لی لیکن جماعت کی ترقی کے قدم نہیں رُکے۔ پھر خلافتِ ثالثہ میں بھی بیرونی حملوں کی شدت اور بعض اندرونی فتنوں نے سر اُٹھایا لیکن جماعت ترقی کرتی چلی گئی۔ اور جماعت کو خلافتِ احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے ہی بڑھاتی رہی۔ پھر خلافتِ رابعہ کا دور آیا تو دشمن نے ایسا بھر پور وار کیا کہ اُس کے خیال میں اُس نے جماعت کو ختم کرنے کے لئے ایسا پکا ہاتھ ڈالا تھا کہ اُس سے بچنا ناممکن تھا، کوئی راہِ فرار نہیں تھی۔ لیکن پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ اپنی شان کے ساتھ پورے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور ظاہر کرے گا اور وہ ہوئی۔ اور اُس زبردست قدرت نے اُن مخالفین کی خاک اُڑا دی۔

پھر خلافتِ خامسہ کا دَور ہے۔ اِس میں بھی حسد کی آگ اور مخالفت نے شدت اختیار کر لی۔ کمزور اور نہتے احمدیوں پر ظالمانہ حملے کر کے خون کی ایسی ظالمانہ ہولی کھیلی گئی جنہیں دیکھ کر یہ فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ انسانوں کا کام ہے یا جانوروں سے بھی بد تر کسی مخلوق کاکام ہے۔ پھر اندرونی طور پر جماعت کے ہمدرد بن کر جماعت کے اندر افتراق پیدا کرنے کی بھی بعض جگہ کوششیں ہوتی رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق، اللہ تعالیٰ کی تائید یافتہ خلافت کی زبردست قدرت اس کا مقابلہ کرتی رہی اور کر رہی ہے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی اس کا مقابلہ کر رہا ہے۔ میں تو ایک کمزور ناکارہ انسان ہوں۔ میری کوئی حیثیت نہیں لیکن خلافتِ احمدیہ کو اُس خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے جو قادر و توانا اور سب طاقتوں کا سرچشمہ ہے۔ اور اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی وعدہ کیا ہے کہ میں زبردست قدرت دکھاؤں گا۔ اور وہ دکھا رہا ہے اور دکھائے گا۔ اور دشمن ہمیشہ اپنی چالاکیوں، اپنی ہوشیاریوں، اپنے حملوں میں خائب و خاسر ہوتا چلا جائے گا اور ہو رہا ہے۔ آج کل دشمن نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لئے الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ وغیرہ کے جو بھی مختلف ذرائع ہیں، اُن کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ تو خلافت کی رہنمائی میں دنیا کے ہر ملک میں اللہ تعالیٰ نے نوجوانوں کی ایک ایسی فوج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرما دی ہے جو حضرت طلحہ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہیں۔ بلکہ ایسے ایسے جواب دے رہے ہیں کہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمد دل میں پیدا ہوتی ہے اور اُس کے وعدوں پر یقین اور ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ قدرتِ ثانیہ کے جاری رہنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیں تسلی دلاتے ہوئے پھر فرماتے ہیں کہ:

’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنّت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلادے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنّت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جومَیں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو‘‘ یعنی اپنی وفات کی اطلاع دی تھی ’’اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسریـقدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔ اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک مَیں نہ جاؤں۔ لیکن مَیں جب جاؤنگا تو پھر خدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اِس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے۔ وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچّا اور وفادار اور صادق خدا ہے۔ وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا ہے۔ اگرچہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 305-306)

پس خلافتِ احمدیہ کا وعدہ دائمی ہے اور بعد میں آنے والوں کے لئے ہے۔ جو نظامِ خلافت سے جڑے رہیں گے، اپنی کامل اطاعت کا اظہار کرتے رہیں گے، خلافت سے اخلاص و وفا کا تعلق رکھیں گے وہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوتا دیکھتے رہیں گے۔ دشمن اور بد فطرت انسانوں کی آنکھیں تو اندھی ہیں جو انہیں خدا تعالیٰ کی تائیدات کے نظارے نظر نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم تو ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے دیکھ رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہماری نسبت جو وعدہ فرمایا ہے اُس کی نئی شان ہمیں ہر روز نظر آتی ہے۔ دشمن کا زیادتی پر اُتر آنا اور نہتوں پر ہتھیاروں سے حملے کرنااس بات کی دلیل ہے کہ دشمن کے پاس دلیل سے مقابلہ کرنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اور جماعت احمدیہ کا دلائل سے لوگوں کا منہ بند کرنا اللہ تعالیٰ کے وعدے کے پورا ہونے کی بھی دلیل ہے۔ اُس نے فرمایا کہ میں اس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔ یہ غلبہ اُن دلائل سے ہے جن کے ردّ کرنے کی کسی مخالف میں طاقت نہیں ہے۔

پھر خلافتِ احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے دوبارہ آپ نے قدرتِ ثانیہ کا آنا بیان فرما کر اس کے قائم ہونے کا طریق بتایا ہے۔ فرمایا کہ:

’’مَیں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور مَیں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں۔ اور میرے بعد بعض اَور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہونگے۔ سو تم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دُعا کرتے رہو۔ اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دُعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھاوے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے۔ اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آجائیگی‘‘۔ فرمایا ’’اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں۔ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ یہی خدا تعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دُعاؤں پر زور دینے سے۔ اور جب تک کوئی خدا سے رُوح القدس پاکر کھڑا نہ ہو سب میرے بعد مل کر کام کرو‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 306-307)

پس اس میں اپنے وصال کے بعد خلیفہ کے انتخاب تک اور ہر خلیفہ کے بعد اگلے خلیفہ کے انتخاب تک کا عرصہ بیان کر کے اس بات کی تلقین کی کہ یہ جو درمیانی عرصہ ہے، یہ جو چند دن، ایک دو دن بیچ میں وقفہ ہو، اس میں بگڑ نہ جانا۔ اگر دوسری قدرت کا فیض پانا ہے تو پھر اس عرصے میں اکٹھے رہو، دعائیں کرتے رہو اور خلیفہ کو منتخب کرو۔ اس بات سے یہ غلطی نہیں لگنی چاہئے کہ آپ نے فرمایا کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر لوگوں سے بیعت لیں۔ گویا خلافت ایک شخص سے وابستہ نہیں بلکہ افراد کے مجموعے سے وابستہ ہے۔ اس کو بہانہ بنا کر غیر مبائعین انجمن کو بالا سمجھنے لگ گئے تھے جبکہ اس کی وضاحت آپ علیہ السلام نے اسی کے حاشیہ میں فرمادی ہے کہ ’’ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہوگا‘‘۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کا انتخاب مومنوں کے اتفاق رائے پر ہو گا۔ ’’پس جس شخص کی نسبت‘‘ (یہاں پھر واحد کا صیغہ آ گیا) ’’جس شخص کی نسبت چالیس مومن اتفاق کریں گے کہ وہ اس بات کے لائق ہے کہ میرے نام پر لوگوں سے بیعت لے وہ بیعت لینے کا مجاز ہو گا‘‘۔ (یہاں جمع نہیں آئی۔ پھر آگے ہے کہ وہ شخص بیعت لے گا) ’’اور چاہئے کہ وہ اپنے تئیں دوسروں کے لئے نمونہ بناوے‘‘۔ کسی انجمن کے نمونہ بنانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ وہ شخص نمونہ بنے۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 حاشیہ صفحہ 306)

پس جہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا وہاں کوئی انجمن نہیں ہے بلکہ خلفاء کے بارے میں فرمایا ہے کہ جو آئندہ آنے والے خلفاء ہیں وہ یہ بیعت لیں گے۔ پھر اس اصول کو مدّنظر رکھتے ہوئے جماعتی نظام میں انتخابِ خلافت کے لئے انتخابِ خلافت کی ایک مجلس قائم ہے جس کے تحت خلافتِ ثانیہ کے بعد اب تک انتخابِ خلافت عمل میں آتا ہے۔ اب اگر یہ سوال ہے کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ یہ انتخاب اللہ تعالیٰ کا ہے؟ تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت اور تائیدات اور افرادِ جماعت کے رؤیائے صالحہ جو مختلف افراد کو اللہ تعالیٰ دکھاتا ہے وہ کافی ہیں۔ پھر خلیفۂ وقت کے حکموں پر عمل کرنا اور دل سے عمل کرنا، اور دلوں کا خلیفہ وقت کی تائید میں پھرنا یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی دلیل ہیں۔ پہلے میں اس ضمن میں مثالیں بھی دے آیا ہوں کہ دشمن کی کیا کوشش رہی ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ کی زبردست قدرت نے کیا نشان دکھائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے رسالے میں مزیدنصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے رُوح القدس سے حصہ لو کہ بجز رُوح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور نفسانی جذبات کو بکلّی چھوڑ کر خدا کی رضا کیلئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو۔ دنیا کی لذّتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جدا کرتی ہیں اور خدا کیلئے تلخی کی زندگی اختیار کرو۔ وہ درد جس سے خدا راضی ہو اُس لذّت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے۔ اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجبِ غضب الٰہی ہو۔ اس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے۔ اگر تم صاف دل ہو کر اس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذّات چھوڑ کر، اپنی عزّت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اُٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے۔ لیکن اگر تم تلخی اُٹھا لوگے تو ایک پیارے بچّے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم اُن راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 307)

پھر آپؑ نے فرمایا:

’’یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردیگا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٔ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔ وہ جو کسی ابتلا سے لغزش کھائے گا وہ کچھ بھی خدا کا نقصان نہیں کرے گا اور بدبختی اس کو جہنم تک پہنچائے گی۔ اگر وہ پیدا نہ ہوتا تو اس کیلئے اچھا تھا۔ مگر وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی وہ آخر فتحیاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے۔ خدانے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 309)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جماعت احمدیہ میں دنیا کے ہر کونے میں، ہر ملک میں قربانیوں کے معیار بڑھتے چلے جارہے ہیں، اور اللہ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے جو وعدے ہیں اُن کو ہم پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ احمدی کس جرأت سے اور کس قربانی کے جذبے سے اور کس ہمت سے جانی قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں اور مالی قربانیاں بھی پیش کرتے چلے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ جو آپؑ کے اقتباسات ہیں، ان میں بعض انذار بھی ہیں اور خوشخبریاں بھی ہیں جو آپ نے خلافت اور جماعت سے منسلک رہنے والوں کو دی ہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کا کام ہے کہ ان خوشخبریوں سے حصہ پانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے وعدے سے فیض اُٹھانے کے لئے خدا کی عظمت دلوں میں بٹھانے والے بنیں۔ عملی طور پر خدا تعالیٰ کی توحید کا اظہار کرنے والے ہوں۔ بنی نوع سے سچی ہمدردی کرنے والے ہوں۔ دلوں کو بُغضوں اور کینوں سے پاک کرنے والے ہوں۔ ہر ایک نیکی کی راہ پر قدم مارنے والے ہوں۔ اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنے والے ہوں۔ کامل اطاعت کا نمونہ دکھانے والے ہوں۔ ایمان میں ترقی کرتے چلے جانے والے ہوں تا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ہمارے قدم صدق کے قدم شمار ہوں اور ہم اُس کے وعدوں سے فیض پانے والے بنیں۔ اس کتاب ’’رسالہ الوصیت‘‘ کے آخر میں آپ نے اُن تقویٰ شعار لوگوں اور ایمان میں بڑھنے والوں کے لئے جنہوں نے اعلیٰ ترین معیار کے حصول کے لئے کوشش کی اور اُس مالی نظام کا حصہ بنے جو آپؑ نے جاری فرمایا تھا، اور جس کا اعلان آپؑ نے فرمایا تھاکہ جو اپنی آمد اور جائیدادوں کی وصیت کریں گے، اس سے ترقی اسلام اور اشاعتِ علم قرآن اور کتبِ دینیہ اور سلسلہ کے واعظوں کے لئے خرچ ہوں گے۔ آپ نے فرمایا ان اموال میں سے اِن خرچوں کے علاوہ ’’اُن یتیموں اور مسکینوں اور نو مسلموں کا بھی حق ہو گا جو کافی طور پر وجوہِ معاش نہیں رکھتے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہیں‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 319)

آپؑ نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے یہ اموال جمع ہوں گے اور کام جاری ہوں گے کیونکہ یہ اُس خدا کا وعدہ ہے جو زمین و آسمان کا بادشاہ ہے۔ آپ نے ایسے لوگوں کو جو اس وصیت کے نظام میں شامل ہوں گے اور دین اور مخلوق کی مالی اعانت کریں گے، دعاؤں سے بھی نوازا۔

یہ وصیت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو مقبرہ موصیان یا بہشتی مقبرے میں دفن ہوں گے فرمایا: ’’اے میرے قادر کریم! اے خدائے غفور و رحیم! تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچّا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنّی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجا لاتے ہیں‘‘۔ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلدنمبر 20 صفحہ 317)

پس جو لوگ نظامِ وصیت میں شامل ہیں اُن کے ایمان، اطاعت اور قربانیوں کے معیار بھی ہمیشہ بڑھتے چلے جانے چاہئیں۔ انہوں نے ایک عہد کیا ہے۔ اس لئے وصیت کرنے کے بعد پھر تقویٰ میں بڑھنے کی کوشش بھی پہلے سے زیادہ ہونی چاہئے۔ خلافت سے وفا کا تعلق بھی پہلے سے بڑھ کر ہونا چاہئے۔ خدا تعالیٰ ہر احمدی کو اس میں ترقی کرتے چلے جانے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔ نظامِ خلافت کے الٰہی وعدوں سے فیض پانے کی ہر احمدی کو توفیق ملتی رہے تا کہ یہ نظام ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس سے فیض پاتے چلے جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں