خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 12؍ اگست 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (سورۃ البقرۃ: 187)

اس آیت کا ترجمہ ہے۔ اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں، میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔ دنیا کو آج جتنی خدا کی طرف جھکنے کی ضرورت ہے اتنا ہی یہ خدا سے دور جا رہی ہے۔ یعنی اس دنیا میں بسنے والا انسان جو اشرف المخلوقات کہلاتا ہے اسے جس قدر دنیا کے فسادوں اور ابتلاؤں سے بچنے کے لئے اور پھر اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت ہے، اُسی قدر اس تعلق میں کمزوری ہے۔ خدا سے تعلق جوڑنے کا دعویٰ کرنے والے بھی اُن لوازمات کی طرف توجہ نہیں دے رہے یا دینے کی کوشش نہیں کر رہے یا اُن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ خدا سے تعلق جوڑنے کے لئے صرف ظاہری ایمان اور ظاہری عبادت ہی کافی نہیں ہے بلکہ اُس روح کی تلاش کی ضرورت ہے جو ایمان اور عبادات کی گہرائی تک لے جاتی ہے۔ یہ تو ایمان کا دعویٰ کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کا دعویٰ کرنے والوں کا حال ہے۔ لیکن دنیا کاایک بہت بڑا طبقہ ہے (تقریباً تین چوتھائی آبادی) جس نے یا تو خدا تعالیٰ کے مقابلہ پر شریک کھڑے کر کے اپنے آپ کو شرک میں مبتلا کیا ہوا ہے یا پھر خدا کی ہستی پر یقین ہی نہیں ہے۔ خدا کے وجود کے ہی انکاری ہیں، اور نہ صرف آپ خود انکاری ہیں بلکہ ایک دنیا کو بھی گمراہ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑ رہے۔ لیکن اس تمام صورتحال میں ایک چھوٹا سا طبقہ ایسا بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کے وعدے پر یقین کرنے والا، اُس پر ایمان رکھنے والا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے اور اللہ تعالیٰ کے آپ سے وعدوں کے پورا ہونے کی تصدیق کرنے والا ہے۔ جو اس بات پر یقین کرتاہے اور رکھتا ہے کہ اس زمانہ میں جب دنیا اپنے پیدا کرنے والے اور اس زمین و آسمان کے خالق کو بھول رہی ہے یا اُس کی ہستی کا مکمل فہم و ادراک نہیں رکھتی، اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کے اظہار کے لئے، زمانے کو فساد کی حالت سے نکالنے کے لئے، بندے کو خدا کے قریب کرنے کے لئے ایک امام الزمان کو بھیجا ہے۔ اور یہ طبقہ یا گروہ یا جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم احمدیوں کا ہے۔ لیکن کیا اس پر ایمان اور اس یقین پر قائم ہو جاناکہ اللہ تعالیٰ نے بھیجنے والے کو بھیج دیا، کافی ہے؟ اور اب وہ آنے والا یا اُس کے چند حواری ہی خالق و مخلوق کا تعلق جوڑنے اور دنیا کے فسادوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں گے؟ اگر ہم احمدیوں کی یہ سوچ ہے تو ہماری سوچ بھی اُن لوگوں کے قریب ہے جو صرف ایمان لانے کا دعویٰ کرنے والے اور عبادتوں کا دعویٰ کرنے والے ہیں، لیکن عمل سے دور ہیں۔ اگر ہماری اپنی حالتوں پر نظر نہیں، اگر ہم اپنے خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے والے نہیں۔ اگر ہم اپنی نسلوں اور اپنے ماحول کو اِس آنے والے کے پیغام سے روشناس کروانے والے نہیں اور اُس سے آگاہی دلانے والے نہیں تو پھر ہم نے بھی پا کر کھو دیا۔ ہم نے دنیا کی دشمنیاں بھی مول لیں اور خدا کو بھی نہ پایا۔ پس احمدی ہونے کے بعد، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد اُس روح کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی جو ایک حقیقی عبدِ رحمان میں ہونی چاہئے۔ اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا کرنے آئے تھے اور جن کے اُمّت کے اندر سے نکل جانے کی خبر جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ کو اُمّت کے بارے میں فکر پیدا ہوئی، تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو پریشان دیکھتے ہوئے اور آپ کی دعاؤں کو امت کے حق میں قبول کرتے ہوئے فرمایا۔ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ۔ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (الجمعۃ: 4-3)۔ اور اِن کے سوا ایک دوسری قوم بھی ہے جو ابھی تک ان سے ملی نہیں اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پریشانی یہ کہہ کر دور فرما دی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! جس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس جاہل اور مشرک قوم کو باخدا انسان بنا دیا تھا، جس طرح عیاشیوں میں پڑے ہوئے اور خدا کے وجود سے بے بہرہ عبادتوں کے معیار حاصل کرنے والے بن گئے تھے اسی طرح اُمّت کے بگڑنے کے باوجود آخَرِیْن میں تیرا ایک عاشقِ صادق پیدا کر کے اُس کے ذریعہ پھر وہ عبادالرحمن بناؤں گا جو میری بندگی کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! گو ایک عارضی زوال تو ہو گا لیکن غالب اور حکمت والے خدا نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ اب دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تمام انسانیت کے لئے نجات کا دین ہے، اب دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا کے فسادوں کو دور کرنے کے لئے آخری امید گاہ اور علاج ہے۔ اب اس دین نے ہی اپنی خوبصورتی دکھا کر دنیا کے دینوں پر غالب آنا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنے کے لئے مسیح محمدی اور اُس کے ماننے والوں نے ہی کردار ادا کرنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ جو  ربّ العالمین ہے، اُس نے اشرف المخلوقات کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے، خیرِ اُمّت کو اُس کا مقام دلانے کے لئے یہ سامان فرمایا اور آئندہ بھی فرماتا رہے گا۔ اُس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی دلائی کہ یہ عاشقِ صادق آئے گا جو پھر دین کو دنیا میں قائم کرے گا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے ہی یہ آنے والا مسیح موعود آئے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ ربّ العالمین کی ربوبیت کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے قول ربّ العالمین میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اُسی کی طرف سے ہے۔ اور اس زمین پر جو بھی ہدایت یافتہ جماعتیں ہیں یا گمراہ اور خطاکار گروہ پائے جاتے ہیں وہ سب عالَمین میں شامل ہیں۔ کبھی گمراہی، کفر، فسق اور اعتدال کو ترک کرنے کا عالم بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ زمین ظلم وجور سے بھر جاتی ہے اور لوگ خدائے ذوالجلال کے راستوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ نہ وہ عبودیت کی حقیقت کو سمجھتے ہیں اور نہ ربوبیت کا حق ادا کرتے ہیں۔ زمانہ ایک تاریک رات کی طرح ہو جاتا ہے اور دین اس مصیبت کے نیچے روندا جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک اور ’’عالَم‘‘ لے آتا ہے تب یہ زمین ایک دوسری زمین سے بدل جاتی ہے اور ایک نئی تقدیر آسمان سے نازل ہوتی ہے اور لوگوں کو عارف دل (یعنی پہنچاننے والے دل) اور خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے ناطق زبانیں (بولنے والی زبانیں ) عطا ہوتی ہیں۔ پس وہ اپنے نفوس کو خدا تعالیٰ کے حضور ایک پامال راستے کی طرح بنا لیتے ہیں اور خوف اور امید کے ساتھ اُس کی طرف آتے ہیں۔ ایسی نگاہ کے ساتھ جو حیاء کی وجہ سے نیچی ہوتی ہیں اور ایسے چہروں کے ساتھ جو قبلہ حاجات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں (اُس طرف متوجہ ہوتے ہیں جہاں سے اُن کی حاجتیں پوری ہونی ہوں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔) اور بندگی میں ایسی ہمت کے ساتھ جو بلندی کی چوٹی کو دستک دے رہی ہوتی ہے۔ ایسے وقتوں میں اُن لوگوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے جب معاملہ گمراہی کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور حالت کے بدل جانے سے لوگ درندوں اور چوپاؤں کی طرح ہو جاتے ہیں تو اُس وقت رحمتِ الٰہی اور عنایتِ ازلی تقاضا کرتی ہے کہ آسمان میں ایسا وجود پیدا کیا جائے جو تاریکی کو دور کرے اور ابلیس نے جو عمارتیں تعمیر کی ہیں اور خیمے لگائے ہیں اُنہیں منہدم کر دے۔ تب خدائے رحمان کی طرف سے ایک امام نازل ہوتا ہے تا کہ وہ شیطانی لشکروں کا مقابلہ کرے۔ اور یہ دونوں رحمانی اور شیطانی لشکر برسرِ پیکار رہتے ہیں اور ان کو وہی دیکھتا ہے جس کو دو آنکھیں عطا کی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ باطل کی گردنوں میں طوق پڑ جاتے ہیں اور امورِ باطلہ کی سراب نما دلیلیں معدوم ہو جاتی ہیں۔ پس وہ امام دشمنوں پر غالب اور ہدایت یافتہ گروہ کا مددگار رہتا ہے۔ ہدایت کے عَلَم بلند کرتا ہے اور پرہیز گاری کے اوقات و اجتماعات کو زندہ کرنے والا ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ اُس نے کفرکے سرغنوں کو قید کر دیا ہے اور اُن کی مشکیں کَس دی ہیں اور اس نے جھوٹ اور فریب کے درندوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کی گردنوں میں طوق ڈال دئیے ہیں اور اُس نے بدعات کی عمارتوں کو گرا دیاہے اور اُن کے گنبدوں کو توڑ پھوڑ دیا ہے‘‘۔ (اعجاز المسیح روحانی خزائن جلدنمبر18صفحہ131تا134) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ92تا94)

یہ عظیم انقلاب جس کا بیان آپؑ نے فرمایا ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے آ گیا، کیا یہ عارضی انقلاب تھا؟ یہ وقتی ’’عالم‘‘تھا جو پیدا ہوا جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو خاتم الانبیاء تھے۔ آپؐ کا زمانہ تو تا قیامت قائم رہنے والا زمانہ ہے۔ آپ کی اُمّت تو تا قیامت فتحیاب رہنے والی امت ہے اور آپ مسلم اُمّت کے نبی ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے اس انقلاب کے جاری رہنے کے لئے آپ ؐ کو خبر دی تھی کہ آئندہ زمانے میں ایک آدمی آئے گا۔

اس بات کو کھولتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر آگے فرماتے ہیں:

’’پھر اللہ پاک ذات نے اپنے قول ربّ العالمین میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ہر چیز کا خالق ہے اور آسمانوں اور زمینوں میں اُسی کی حمد ہوتی ہے۔ اور پھر حمد کرنے والے ہمیشہ اُس کی حمد میں لگے رہتے ہیں اور اپنی یادِ خدا میں محو رہتے ہیں۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں مگر ہر وقت اُس کی تسبیح و تحمید کرتی رہتی ہے۔ اور جب اُس کا کوئی بندہ اپنی خواہشات کا چولہ اُتار پھینکتا ہے، اپنے جذبات سے الگ ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اور اُس کی راہوں اور اُس کی عبادات میں فنا ہو جاتا ہے۔ اپنے اس ربّ کو پہچان لیتا ہے جس نے اپنی عنایات سے اُس کی پرورش کی۔ وہ اپنے تمام اوقات میں اُس کی حمد کرتا ہے اور اپنے پورے دل بلکہ اپنے (وجود کے) تمام ذرات سے اُس سے محبت کرتا ہے تو اُس وقت وہ شخص عالمین میں سے ایک عالم بن جاتا ہے۔ اسی لئے اعلم العالمین کی کتاب (قرآن کریم) میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام اُمّت رکھا گیا۔ اور عالمین سے ایک عالَم وہ بھی ہے جس میں حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث کئے گئے۔ ایک اور عالَم وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے طالبوں پر رحم کر کے آخری زمانے میں مومنوں کے ایک دوسرے گروہ کو پیدا کرے گا۔ اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام لَہُ الْحَمْدُ فِی الْا ُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ(القصص: 71) میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دو احمدوں کا ذکر فرماکر ہر دو کو اپنی بے پایاں نعمتوں میں شمار کیا ہے۔ ان میں سے پہلے احمد تو ہمارے نبی احمدِ مصطفی اور رسولِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اور دوسرا احمد احمدِ آخرالزمان ہے جس کا نام محسن خدا کی طرف سے مسیح اور مہدی بھی رکھا گیا ہے۔ یہ نکتہ میں نے خدا تعالیٰ کے قول اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن سے اخذ کیا ہے۔ پس ہر غور و فکر کرنے والے کو غور کرنا چاہئے۔ (اعجاز المسیح روحانی خزائن جلدنمبر18صفحہ137تا139) (ترجمہ از تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد اول صفحہ96تا97)

یہ دونوں حوالے آپ کی عربی کتاب ہے اعجاز المسیح کے ہیں۔ پس عبدِ کامل کی کامل پیروی اور اُس کے عشق ومحبت کی انتہا کی وجہ سے اپنی خواہشات کا چولہ اُتار پھینکنے کی وجہ سے اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہو جانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آخری زمانہ میں مسیح موعود کو مبعوث فرمایا جنہوں نے پھر ہمیں اللہ تعالیٰ سے عشق و وفا اور عبودیت کے راستے دکھائے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے وہ انقلاب پیدا فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے منکر اور مشرک باخدا انسان بن گئے اور پھر انہوں نے دنیا کو بھی یہ پیغام دے کر قوموں اور ملکوں کو خدائے واحد و یگانہ کا عبادت گزار بنا دیا ہے لیکن پھر خدا تعالیٰ کو بھولنے اور دنیا داری میں پڑنے کی وجہ سے اپنے مقصدِ پیدائش کو بھول کر اللہ تعالیٰ کے انعامات سے محروم کر دئیے گئے۔ بیشک اُس اندھیرے دَور میں بھی کہیں کہیں اس روحانی نظام کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے مقامی طور پر اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کھڑا کرتا رہا لیکن وہ جاہ و حشمت وہ ساکھ جو مسلمانوں کی تھی، وہ تعلق باللہ جو ابتدائے اسلام میں عموماً نظر آتا تھا وہ غائب ہو گیا۔ پس اب احمدِ ثانی کے ذریعہ سے ربّ العالمین نے جو انقلاب پیدا کرنے کا اعلان فرمایا ہے اُسے آپؑ کے ماننے والوں نے جاری رکھناہے۔ اور جو جاری رکھنے والے ہیں وہی حقیقت میں آپ کے ماننے والے ہیں۔ عبدِ رحمان بننا ہے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے عبدِ رحمان بنانے ہیں۔ تبھی ہم آج دوسرے مسلمانوں سے مختلف کہلانے کا حق رکھتے ہیں ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا صرف ایمان کا دعویٰ تو کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس سے ہم دوسروں سے اپنے آپ کو ممتاز سمجھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے اور اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا عظیم کام کر گئے۔ آپؑ کے صحابہ میں سے وہ عبادالرحمن پیدا ہوئے جو صاحبِ رؤیا و کشوف تھے۔ وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے عبد بننے کا حق ادا کیا۔ پس گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی آخرین کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر آپ کے صحابہ کو وہ مقام ملا جس نے اُن کو پہلوں سے ملایا، لیکن اب یہ نظام اور جماعت کی ترقیات کی پیشگوئیاں تا قیامت ہیں۔ ہم جب بڑے فخر سے اس کا ذکر کرتے ہیں تو صرف ذکر کافی نہیں ہے، ہمیں اس انقلاب کا حصہ بننے کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنا ہو گا۔ صرف اپنے بزرگوں کے حالات پر ہم خوش نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اُس تسلسل کو بھی قائم رکھنے کی ضرورت ہے جو انقلاب کی صورت میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگیوں میں ہمیں نظر آتا ہے۔ آج دنیا کو آفات سے بچانے اور اس کا خدا سے تعلق جوڑنے کی ذمہ داری ہر احمدی پر ہے۔ پس اس کے لئے ہم جب تک انفرادی اور اجتماعی کوشش نہیں کریں گے، ہر ایک اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، ہم احمدِ ثانی کے حقیقی ماننے والوں میں شامل ہونے والے نہیں کہلا سکتے۔ اور ہم یہ  ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے جب تک ہم اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے وہ عباد بننے کی کوشش نہیں کرتے جو فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ کا عملی مظاہرہ کرنے والے ہیں۔ جووَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ کی عملی تصویر بنتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ہماری حالتوں کو سنوارنے کے لئے ایک اور رمضان المبارک سے گزرنے کا ہمیں موقع عطا فرمایا جس میں خدا کا قرب پانے، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر لبیک کہنے، ایمان میں ترقی کرنے کے راستے مزید کھل جاتے ہیں۔ پس ہم میں سے وہ لوگ خوش قسمت ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے پیار سے کہے گئے اس لفظ’’عِبَادِیْ ’’یعنی میرے بندے‘‘ کا اس رمضان میں اعزاز پانے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ ہم ایک شوق، ایک لگن سے اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول کی کوشش کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مہینے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’یہ ماہ تنویرِ قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے‘‘۔ فرمایا’’صلوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ561مطبوعہ ربوہ)

دلوں کو روشنی بخشنے کے لئے یہ مہینہ بڑا اعلیٰ مہینہ ہے۔ کیوں اعلیٰ ہے؟ اس کی ذاتی حیثیت تو کوئی نہیں ہے۔ جس طرح باقی مہینے انتیس یا تیس دن کے ہیں اُسی طرح یہ مہینہ بھی ہے۔ لیکن یہ مہینہ اس لئے عمدہ مہینہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس میں دو عبادتوں کو اکٹھا کیا ہے اور اپنے بندوں کو انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے یا موقع دیاہے۔

آپؑ فرماتے ہیں:

’’تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے (دوری ہو جائے) اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اُس پر کھلے کہ خد اکو دیکھ لے‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ561-562مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہمارا وہ مقصود ہے جسے ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ رمضان میں دو عبادتیں جمع ہو گئیں، جیسا کہ مَیں نے کہا، نماز بھی اور روزہ بھی۔ پس رمضان میں اپنی نمازوں کی بھی خاص حالت بنانے کی ضرورت ہے جس سے ایسا تزکیہ حاصل ہو جو نفس کی برائیوں اور شہوات سے اتنا دور کر دے کہ پھر ہم فَاِنِّیْ قَرِیْب کی آواز سن سکیں۔ ہماری نمازیں، ہمارے روزے صرف رمضان کے مہینے تک ہی محدود رہنے کے جوش میں نہ ہوں بلکہ اس نیت سے ہوں کہ جو تبدیلی ہم نے پیدا کرنی ہے، اُسے دائمی بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات پر ہمیشہ لبیک کہنے والا رہنا ہے۔ اپنے ایمانوں کو مزید صیقل کرنا ہے۔ یہ سب کچھ یہ سوچ کرکرنا ہے کہ آج ہماری بقا بھی اس میں ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے بنیں اور دنیا کی بقا بھی ہم سے وابستہ ہے۔ ہم خود اندھیروں میں ہوں گے تو دنیا کو کیا راستہ دکھائیں گے؟۔ ہم خود عِبَادِیْ کے لفظ کی گہرائی سے ناآشنا ہوں گے تو دوسروں کو عباداللہ بننے کے لئے کیا رہنمائی کریں گے؟ اس زمانہ میں جیسا کہ مَیں نے کہااللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُس کام کے آگے بڑھانے کے لئے بھیجا ہے جس کولے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے، پس جو سوال اللہ کے بندوں نے، اُن بندوں نے جو اللہ تعالیٰ کو پانے کی خواہش رکھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا، وہی سوال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق سے دنیا نے کیا اور آپ نے اُن کو اصلاح کا طریق بتایا، اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کا طریق بتایا اور ایک جماعت اپنے ارد گرد جمع کر لی، اور یہی سوال مومنین کی جماعت سے آج دنیا کا ہے۔ پس مومنین کی جماعت اُس وقت اس کا صحیح جواب دے سکتی ہے جب جماعت کا ہر فرد اُس معیار کو حاصل کرنے والا ہو جو لبیک کہنے والوں اور ایمان لانے والوں کا ہونا چاہئے، ایمان میں ترقی کرنے والوں کا ہونا چاہئے۔ جب خدا تعالیٰ بھی ہماری پکاروں کا جواب دے رہا ہو گا، جب ہمیں فَاِنِّی قَرِیْبٌ کا صحیح ادراک حاصل ہو گا۔ آج دنیا میں ہر جگہ فساد ہی فسادنظر آ رہا ہے۔ مشرق ہو یا مغرب، مسلمان ممالک ہوں یا عیسائی ترقی یافتہ ممالک، ایک بے چینی نے دنیا کو گھیرا ہوا ہے۔ اور گزشتہ دنوں اسی ملک میں جو توڑ پھوڑ اور بے چینی کا اظہار کیا گیا ہے اُس نے ان لوگوں کی بھی آنکھیں کھول دی ہیں کہ صرف غریب ملکوں کا امن ہی خطرے میں نہیں ہے، ان لوگوں کا امن بھی خطرے میں ہے۔ پس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کا عبد بنایا جائے لیکن کس طرح؟ ہمارے پاس تو کوئی طاقت نہیں ہے اور نہ ہی کسی دنیاوی طاقت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی پہچان کروائی جا سکتی ہے۔ دنیاکی حالت کو سنوارنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ ہے جو اس زمانہ کے امام نے ہمیں بتایا ہے کہ جہاں اس امن کا پیغام پہنچاؤ وہاں دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی مدد بھی چاہو۔ دعاؤں کی طرف زیادہ زور دو۔ جہاں کوششیں کرو وہاں کوششوں سے زیادہ دعاؤں پرانحصار کرو۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور دعاؤں کی قبولیت اُنہیں ہی ملتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنیوالے اور اللہ پر اپنے ایمان کو مضبوط کرنے والے ہیں۔ دعاؤں کی قبولیت کے جو طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بتائے ہیں، اُن میں سے بعض کو مختصراً پیش کرتاہوں۔ وہ کونسی باتیں ہیں جن پر لبیک کہلوا کر، اللہ تعالیٰ دعاؤں کے سننے اور جواب دینے کا فرماتا ہے۔ وہ کس قسم کا ایمان ہے جو ہدایت کے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے بندے اور خدا کے تعلق کومضبوط کرتا ہے۔ ایک شرط جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے کہ انسان تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ (ماخوذازملفوظات جلد1صفحہ535مطبوعہ ربوہ)  خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت ہر وقت اُس کے سامنے رہے۔ ہر وقت یہ سامنے رہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت دیکھ رہا ہے۔ میرا ہر حرکت و سکون اُس کے سامنے ہے۔ میرا کوئی عمل ایسا نہیں ہونا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہو۔ جسمانی اعضاء بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق عمل کرنے والے ہوں اور تمام اخلاق اور مخلوق سے تعلق بھی خدا تعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہو۔ اور یہی اصل تقویٰ ہے کہ انسان کی آنکھ، کان، ناک، زبان، ہاتھ، پاؤں سب وہ حرکت کر رہے ہوں جو خدا تعالیٰ کو پسندیدہ ہیں۔ اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین پیدا کرو۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اہم بات یہ بھی فرمائی کہ دعاؤں کی قبولیت کے لئے خدا تعالیٰ کے وجود پر کامل یقین ضروری ہے۔ (ماخوذاز ملفوظات جلدنمبر3صفحہ522مطبوعہ ربوہ) پھر اس بات پر یقین کہ اگر خدا تعالیٰ ہے اور یہ زمین وآسمان اور یہ کائنات اور تمام کائناتیں اور ہر وہ چیز جس کا ہمیں علم ہے یا نہیں، اُس کا پیداکرنے والا خدا ہے اور صرف پیدا کرنے والا ہی نہیں بلکہ وہ تمام قدرتوں کا مالک بھی ہے، وہ تمام طاقتوں اور قدرتوں کا سرچشمہ بھی ہے۔ وہ قدرت رکھتا ہے کہ جس چیز کو پیدا کیا اُس کو فنا بھی کر سکے۔ وہ قدرت رکھتا ہے کہ جس چیز کو چاہے وہ پیدا کر دے۔ وہ زندگی دینے والا بھی ہے اور موت دینے والا بھی ہے۔ مُردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور زندوں کو مارنے والا ہے۔ اور دعائیں جو مُردوں میں نئی روح پھونک دیتی ہیں ان کے ذریعہ سے ایک انقلاب پیدا کرنے والا ہے۔ تو تب یہ ایمان ہو گا کہ وہ سب قدرت رکھتا ہے کہ وہ ہماری دعاؤں کو سن کر قبول کرے، اور وہ اُن دعاؤں کو قبول کرتاہے جسے وہ بہتر سمجھتا ہے۔ (ماخوذاز ملفوظات جلدنمبر2صفحہ267مطبوعہ ربوہ)

آپ نے فرمایا کہ: ’’اُن دعاؤں کو سن کر قبول کرتا ہے جسے وہ بہتر سمجھتا ہے‘‘۔

پھر دعا کے لوازمات میں سے یہ بھی لازمی امر ہے کہ اس میں رِقت ہو۔ (ملفوظات جلد3صفحہ397مطبوعہ ربوہ) جب دعا کی جائے صرف زبانی تھوڑے سے الفاظ دھرا کر نماز سے یا دعاؤں سے فارغ نہ ہو جاؤ، بلکہ ایک رقّت ہو، ایک سوز ہو، دل پگھل جائے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوں۔ جو اس سوچ کے ساتھ بہہ رہے ہوں کہ خدا تعالیٰ ہی وہ آخری سہارا ہے جو میری دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔ ایک اضطراب کی کیفیت طاری ہو جائے۔ ایک بے قراری ہو کہ یہ آخری سہارا ہے، اگر یہ ختم ہو گیا تو میری دنیا و آخرت برباد ہو جائے گی۔ حضور نے فرمایا کہ تمہاری دعاؤں کی یہ حالت ہونی چاہئے۔

پھر ایک شرط دعا کی قبولیت کی عاجزی ہے۔ یہ عاجزی ہی ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک شعر میں فرماتے ہیں ؎

بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں

شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلدنمبر21صفحہ18)

کہ اپنی عاجزی کی انتہا تک پہنچو گے، اپنے آپ کو کمتر سمجھو گے، اپنے نفس کو ہر قسم کے تکبر سے پاک کرو گے تب ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ ورنہ متکبر کا خدا تعالیٰ سے قرب کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ کا وصل اور قرب میسر نہیں تو پھر دعاؤں کی قبولیت بھی نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’جو دعا عاجزی، اضطراب اور شکستہ دلی سے بھری ہوئی ہو وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لاتی ہے اور قبول ہو کر اصل مقصد تک پہنچاتی ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ397مطبوعہ ربوہ)

فرمایا کہ اصل اور حقیقی دعا کے واسطے بھی دعا ہی کی ضرورت ہے۔ انسان مسلسل دعا کرتا رہے کہ مجھے دعاؤں کی توفیق بھی ملے۔ یعنی مقبول دعاؤں کی توفیق ملنے کے لئے بھی دعاؤں کی ہی ضرورت ہے۔ پس جب یہ سوچ ہو گی تو پھر دعاؤں سے غفلت اور اُن اعمال سے دوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جن اعمال کے کرنے اور قربِ الٰہی کا ذریعہ بننے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔

آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’اللہ جل شانہ نے جو دروازہ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لئے کھولا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکاو زاری سے اس دروازے میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولیٰ مولائے کریم اُس کو پاکیزگی اور طہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اُس پر اس قدر کر دیتا ہے کہ بیجا کاموں اور ناکارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد3صفحہ315مطبوعہ ربوہ)

پس وہ خوش قسمت ہیں جو بکاہ و زاری سے اپنے دلوں کو پاک کرتے ہوئے دنیا کی لغویات سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اُن مقربوں میں سے ہو جاتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کا غلبہ فرما دیتا ہے۔ اُن کو برائیوں سے دور کر دیتا ہے۔ لیکن اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے بھی پہلے انسان کو ہی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اُسی کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکناپڑتا ہے۔ یہی قانونِ قدرت ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ قانونِ شریعت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا ہے۔

پھر دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک اہم حکم جس کا پہلے بھی مختصر ذکر ہو چکا ہے، وہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’تم ایسے ہو جاؤ کہ نہ مخلوق کا حق تم پر باقی رہے نہ خدا کا۔ یاد رکھو جو مخلوق کا حق دباتا ہے، اُس کی دعا قبول نہیں ہو گی کیونکہ وہ ظالم ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ195مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کا رحم اُس شخص پر جو امن کی حالت میں اس طرح ڈرتا ہے جس طرح کسی پر مصیبت وارد ہوتی ہو تو وہ ڈرے۔ جو امن کے وقت خدا کو نہیں بھلاتا خدا اُسے مصیبت کے وقت میں نہیں بھلاتا۔ اور جو امن کے زمانے کو عیش میں بسر کرتا ہے اور مصیبت کے وقت میں دعائیں کرنے لگتا ہے تو اُس کی دعائیں بھی قبول نہیں ہوتیں‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ539مطبوعہ ربوہ)

پس فرمایا کہ امن کی حالت میں بھی تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ رکھنی چاہئے۔ اُس سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ یہی دعاؤں کی قبولیت کا راز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کہا ہے کہ میری بات مانو تو یہ اُن باتوں میں سے بات ہے کہ ہر حالت میں اُس سے دعائیں مانگتے رہو۔ صرف رمضان کے مہینے میں نہیں، کسی مشکل کے وقت میں نہیں، کسی مصیبت کی گھڑی میں نہیں بلکہ ہر امن اور سلامتی کے وقت میں، عام حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا ضروری ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’دعاؤں کی قبولیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرے۔ اگر بدیوں سے نہیں بچ سکتا اور خدا تعالیٰ کی حدود کو توڑتا ہے تو دعاؤں میں کوئی اثر نہیں ہوتا‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ21مطبوعہ ربوہ)

پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ۔ پس وہ میری بات پر لبیک کہیں تو اُن تمام باتوں کی تلاش کرنی ہو گی جن کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، تا کہ اُن کو بجا لا کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اور اُن تمام باتوں کو تلاش کر کے اُن باتوں سے بچنے کی کوشش کرنی ہو گی جن سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور قرآنِ کریم میں یہ احکام سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اُس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو، اور یاد رکھو کہ قرآنِ کریم میں پانسوکے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اور ہریک وضع اور ہر یک حالت اور ہر ایک عمر اور ہر یک مرتبۂ فہم اور مرتبۂ فطرت اور مرتبۂ سلوک او رمرتبۂ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو۔ جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کا لائق ہو گا۔ اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ‘‘۔

دین العجائز یہی ہے کہ جو احکامات ہیں اُن پر جس حد تک عمل ہو سکتا ہے کرو۔ اُس کے آگے پھر ترقی کرو گے اور آگے پھر اگلی سلوک کی راہیں ہوں گی۔ لیکن بنیاد یہی ہے کہ جو احکامات ہیں اُن پر جس طرح فرض کئے گئے ہیں، عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ فرمایا کہ:

’’قرآن کریم کا جؤا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنّم میں گرایاجائے گا۔ پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا۔ دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خداتعالیٰ کی عبادت مت کرو کہ ایسے خیال کے لئے گڑھادرپیش ہے۔ بلکہ تم اس لئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے۔ چاہئے پرستش ہی تمہاری زندگی ہوجاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہوکہ وہ محبوب حقیقی اور محسنِ حقیقی راضی ہوجاوے کیونکہ جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے‘‘۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلدنمبر3صفحہ548)

اللہ کرے کہ اس رمضان میں ہم اس نکتے کو بھی سمجھتے ہوئے محسنِ حقیقی کو راضی کرنے والے بن جائیں۔ رمضان کے ساتھ دعاؤں کی قبولیت، احکامات کی پابندی، ایمان میں مضبوطی اور ہدایت کے حصول کو جوڑ کر اللہ تعالیٰ نے جو ہماری اس طرف توجہ مبذول کروائی ہے کہ مَیں تو اپنے بندوں کی بہتری اور اُن کو آفات، مصائب اور عذاب سے بچانے کیلئے ہر وقت تیار ہوں لیکن بندوں کو بھی اپنا حقِ بندگی ادا کرنا ہو گا۔ اپنے آپ کو میرے خالص بندوں کی یا خاص بندوں کی طرف منسوب کر کے تمہیں بھی اُن باتوں کے بجا لانے کی کوشش کرنی ہو گی، اُس تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندے خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے لائے ہیں یا لاتے ہیں۔ تاکہ دنیا میں عبادالرحمن کی کثرت نظر آئے، تا کہ ان عبادالرحمن کی وجہ سے دنیا پیار، محبت اور امن کا گہوارہ بنے۔ تاکہ اس دنیا میں جنت کے نظارے نظر آئیں۔ پس ہمارا ایمان میں مضبوطی کا دعویٰ، زمانے کے منادی کو سننا اور قبول کرنا، مخلوقِ خدا سے ہمدردی کا اہم فریضہ جو الٰہی جماعتوں کے سپرد کیا جاتا ہے، ہم سے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے خالص بندوں میں شامل ہوں۔ اُن بندوں میں شامل ہوں جن کی دعائیں خدا تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ اُن بندوں میں شامل ہوں جو اپنی حالتوں میں انقلاب پیدا کرتے ہیں۔ اُن بندوں میں شامل ہوں جو مخلوق کی ہمدردی کی وجہ سے اُسے برائیوں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچانے کی کوشش کرنے والے ہوتے ہیں۔ پس یہ رمضان ہمیں انہیں باتوں کی ٹریننگ دینے اور ہمیں حقیقی عبد بننے کے معیار حاصل کرنے اور اپنے ایمانوں میں مضبوطی اور جِلا پیدا کرنے کے لئے آیا ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر اس سے بھر پور فائدہ اٹھاویں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آج دنیا کو فسادوں سے بچانے اور تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے کسی دنیاوی سازو سامان کی ضرورت نہیں جیسا کہ مَیں نے کہا اور نہ وہ کام آ سکتا ہے۔ صرف اور صرف ایک ہتھیار کی ضرورت ہے اور وہ دعا کا ہتھیار ہے۔ پس اس رمضان میں جہاں اپنے لئے، اپنی نسلوں کے ایمان اور تعلق باللہ کے لئے دعائیں کریں وہاں اس دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے بھی دعائیں کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ اُن کا خدا دعاؤں کو سننے والا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ148مطبوعہ ربوہ)

لیکن اس بات کا حقیقی ادراک بھی آج صرف احمدیوں کو ہی ہے۔ پس جب ہمارا خدا دعاؤں کا سننے والا ہے تو مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور یقینا ہم مایوس نہیں اور اس یقین پر قائم ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ وہ تمام باتیں ضرور پوری ہوں گی جو جماعت کی ترقی سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتائی ہیں۔ انشاء اللہ۔ اور یقینا وہ دن انشاء اللہ آئیں گے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا پر لہرائے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے اُن بندوں کی اکثریت ہو گی جو رُشد و ہدایت پانے والے ہوتے ہیں۔ پھرمَیں یاددہانی کرواتا ہوں کہ اس دعا کو کبھی نہ بھولیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اُن بندوں میں شامل رکھے جو اُس کے ہدایت یافتہ اور خالص بندے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس رمضان کے فیض سے فیضیاب ہونے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔

آج پھر مَیں نمازِ جمعہ کے بعدکچھ جنازے پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ مکرم صوبیدار ریٹائرڈ راجہ محمد مرزا خان صاحب ربوہ کاہے جن کی 4؍اگست کو نوّے سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ فوج میں رہے اور دوسری جنگِ عظیم میں بھی فوج میں تھے۔ پھر پاکستان بننے سے کچھ عرصہ قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد پر قادیان آ گئے، وہاں رہے اور آپ کی صحبت سے فیض پاتے رہے۔ فرقان بٹالین میں بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملی اور 1953ء میں بھی بعض اہم کام انجام دینے کی توفیق ملی۔ تہجد گزار، تلاوت کے پابند، نمازوں کی پابندی اور قناعت شعار، قناعت کرنے والے اور متوکل انسان تھے اور دعوتِ الی اللہ کا بھی آپ میں ایک جوش تھا۔ خلافت سے بڑا تعلق تھا اور ہر پروگرام کو جو خلیفہ وقت کا ہوتا تھا بڑے غور سے دیکھتے، سنتے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ موصی تھے۔ ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے راجہ منیر احمد صاحب جامعہ احمدیہ ربوہ کے جونیئر سیکشن کے پرنسپل ہیں اور دوسرے راجہ محمد یوسف صاحب جرمنی کے امورِ خارجہ کے سیکرٹری ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

دوسرا جنازہ امینہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ نذیر احمد صاحب دارالرحمت ربوہ کاہے۔ یہ بھی 7؍اگست کو وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ ربوہ کے ابتدائی مکینوں میں سے تھیں جو قادیان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ نیک، خوش اخلاق، خدمتِ دین کا جذبہ رکھنے والی مخلص اور فدائی خاتون تھیں۔ خلافت سے وفا اور عشق کا تعلق تھا۔ محلہ کی سطح پر پچاس سال سے زائد لجنہ کی مختلف شعبوں میں خدمت کی توفیق پائی اور اعلیٰ کارکردگی پر سندات بھی حاصل کیں۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ بچوں محلے کے دوسرے بچے بچیوں کو قرآنِ کریم بھی پڑھاتی رہیں۔ ان کے بیٹے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ناظر بیت المال آمد ربوہ ہیں۔ اور دوسرے شیخ منیر احمد صاحب جرمنی میں ہیں جو انصار اللہ جرمنی کے دعوتِ الی اللہ کے قائد ہیں اور ایک ان کے داماد بھی مربی سلسلہ ہیں۔ ہمسایوں سے بھی ان کا بڑا اچھا تعلق تھا، خلوص تھا۔ انہوں نے وصیت کی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں