خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ ستمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ ہفتہ لجنہ اماء اللہ جرمنی اور خدام الاحمدیہ جرمنی کے اجتماعات منعقد ہوئے اور ہمیشہ کی طرح اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دکھانے کا باعث ہوئے۔ مجھے جو خدام اور خواتین کے خطوط آ رہے ہیں، اُن سے لگتا ہے کہ اُن کو جو بھی باتیں مَیں نے کیں، کہیں، ان باتوں نے اُن کے اندر کی جو سعید فطرت تھی اُس کو جھنجوڑا ہے، اور یہی ایک احمدی کی خوبی ہے اور ہونی چاہئے کہ جب بھی اُنہیں اللہ تعالیٰ کے حکم ذَکِّر کے تحت نصیحت کی جائے، یاددہانی کروائی جائے تووہ اُس پر کان دھرتے ہیں۔ اور ایک اچھی تعداد افرادِ جماعت کی نصیحت پر، یاد دہانی پر، مؤمنانہ رویّہ دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی اس تعریف کے تحت آتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًَا (الفرقان: 74) یعنی اور وہ لوگ جب انہیں ان کے رب کی آیات یاد دلائی جائیں تو ان سے وہ بہروں اور اندھوں کا معاملہ نہیں کرتے۔ یہ نہیں کہتے کہ ہم نے تو سنا ہی نہیں کہ کیا کہا ہے اور وہاں کیا ہو رہا تھا، کس قسم کا ماحول تھا۔ بلکہ اگر کمزور ہیں تو ندامت اور احساسِ شرمندگی ہوتا ہے۔ اگر پہلے سے اپنی کوشش نیکیوں میں بڑھنے کی کر رہے ہیں تو ان نصائح اور باتوں کو سن کر ان پر عمل کرنے کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کرتے ہیں۔ اس اجتماع میں دونوں طرف تقریباً نصف جماعت کی حاضری تو تھی۔ اگر حاضر ہونے والوں کی اکثریت اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے والی بن جائے تو جو انقلاب دنیا کی اصلاح کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لانا چاہتے تھے اور جو انقلاب اُن کی جماعت کو لانا چاہئے اُس میں یہ لوگ مددگار بننے کا کردار ادا کرنے والے ہوں گے۔ اکثریت میں نے اس لئے کہا ہے کہ یقینا ایسے بھی بیچ میں بیٹھے ہوتے ہیں جو زیادہ اثر نہیں لیتے، لیکن جنہوں نے اثر لیا ہے، اپنے جائزے لئے ہیں، مجھے خطوط لکھے ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ اگر آپ ان باتوں کی جُگالی نہیں کرتے رہیں گے، اگر ذیلی تنظیمیں میری طرف سے کہی گئی باتوں کی ہر وقت جُگالی نہیں کرواتی رہیں گی تو پھرکچھ عرصہ بعد یہ باتیں، یہ جوش، یہ شرمندگی کے جواظہارہیں یہ ماند پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ذیلی تنظیمیں یاد رکھیں کہ اگر حقیقت میں اجتماع میں شامل ہونے والوں اور ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے سے سننے والوں پر دنیا میں کہیں بھی کوئی اثر ہوا ہے تو یہ لوہا گرم ہے اس کو اُس مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں جس مزاج کو پیدا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو بھیجا ہے۔

ایم۔ ٹی۔ اے پر سننے والوں کی مَیں نے بات کی ہے تو اُن کی طرف سے بھی مجھے اظہارِ جذبات کے خطوط مل رہے ہیں بلکہ بعض بچوں کے والدین کے تاثرات بھی مل رہے ہیں کہ ہمارے بچوں نے، اطفال نے آپ کا خطاب سنا تو اُن دس گیارہ سال کے بچوں کے چہروں پر شرمندگی کے آثار تھے۔ بلکہ ایک بچے کی ماں نے مجھے بتایا کہ میرا بچہ جب خطاب سُن رہا تھا تو اُس نے منہ کے آگے cushion رکھ لیا کہ میں بعض وہ باتیں کرتا ہوں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ میرے متعلق کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ٹی۔ وی پر مجھے دیکھ دیکھ کر یہ باتیں کر رہے ہیں، خطاب کر رہے ہیں تو مَیں نے منہ چھپا لیا کہ نظر نہ آؤں۔ پس یہ سعید فطرت ہے، یہ وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ نے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے بچوں میں بھی پیدا کی ہوئی ہے کہ نصیحتوں پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ شرمندہ ہو کر اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ بعضوں نے اپنے موبائل فون بند کر دئیے ہیں۔ سکول میں بیٹھ کر بجائے پڑھائی پر توجہ دینے کے بعض بچے اس سوچ میں رہتے تھے کہ ابھی بریک ہوئی یا ابھی چھٹی ہو گی تو پھر اپنے موبائل پر کوئی گیم کھیلیں گے یا اور اس قسم کی فضولیات میں پڑ جائیں گے جو فونوں پر آجکل مہیا ہوتی ہیں۔ اب جب میری باتیں سنی ہیں تو انہوں نے کہا یہ سب فضولیات ہیں، ہم اب اس کو استعمال نہیں کریں گے، ان کھیلوں کو نہیں کھیلیں گے۔ یہ کھیلیں ایسی ہیں جو صحت نہیں بناتیں، جو دماغی ورزش بھی نہیں ہے بلکہ ایک نشہ چڑھا کر مستقل انہی چیزوں میں مصروف رکھتی ہیں، ایک پاگل پن (یا انگلش میں جسے craze کہتے ہیں) وہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہم صرف اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے۔ جو ہوشمند اور بڑے ہیں اُن کو تو خود اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور مستقل مزاجی سے ان جائزوں کی ضرورت ہے۔ ان جائزوں کو لیتے چلے جانا ہے اور اسی طرح والدین کو مستقل اپنے بچوں کو یاددہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ جب ایک اچھی عادت تم نے اپنے اندر پیدا کر لی ہے تو پھر اُسے مستقل اپنی زندگی کا حصہ بناؤ۔ ماحول سے متاثر نہ ہو جاؤ۔

پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے لئے عارضی خوشیاں کوئی خوشیاں نہیں ہیں بلکہ جب تک ہماری خوشیاں، ہماری نیکیاں، ہمارے اندر پاک تبدیلیاں، ہمارے اندر مستقل رہنے کا ذریعہ نہیں بنتیں ہم چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ جبتک ہم مستقل اپنی حالتوں کے جائزے نہیں لیتے رہتے، ہم عظیم انقلاب کا حصہ نہیں بن سکتے۔ پس جیسا کہ میں نے اجتماع میں بھی کہا تھا کہ اچھے معیار حاصل کر لینا پہلے سے زیادہ فکر کا باعث بنتا ہے، خود ہر فردِ جماعت پر بھی، ذیلی تنظیموں پر بھی اور نظامِ جماعت پر بھی پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں ڈالتا ہے۔

اس مرتبہ مَیں لجنہ سے اس لحاظ سے بھی متاثر ہوا ہوں کہ بچیاں بھی اور خواتین بھی بڑی خاموشی سے اور توجہ سے میری لجنہ میں جو تقریر تھی اُسے سنتی رہی ہیں۔ عموماً میں عورتوں کے مزاج کی وجہ سے کوشش کرتا ہوں کہ چالیس پینتالیس منٹ میں اپنی بات ختم کر دوں اس سے زیادہ وقت نہ لوں لیکن اس مرتبہ لجنہ کے اجتماع پہ جب میں نے وقت دیکھا تو تقریباً سوا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ لیکن چھوٹی بچیاں بھی، جوان بچیاں بھی، بڑی عمر کی عورتیں بھی پورا وقت بڑے انہماک سے میری باتوں کو سنتی رہی ہیں۔ خدا کرے کہ میری باتیں اُن پر اثر ڈالنے والی بھی ہوں۔ یعنی مستقل اثر ہو اور لجنہ کی تنظیم اس بات پر خوش نہ ہو جائے کہ ہمارا اجتماع بڑا اچھا ہوا اور ہماری تعریف ہو گئی، بلکہ مستقل اور مسلسل عمل کے لئے ان باتوں کو اپنے لائحہ عمل میں شامل کریں۔ عہدیدار اپنے بھی جائزے لیں اور ممبروں کے بھی جائزے لیں تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مددگار بن سکتے ہیں۔ تبھی ہم اُس زمانے میں شمار ہونے والے کہلا سکیں گے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت ایک مبارک اُمت ہے یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اِس کا اوّل زمانہ بہتر ہے یا آخری۔ (ترمذی کتاب الامثال باب 6حدیث نمبر2869) (یعنی دونوں زمانے اپنی الگ الگ شان رکھنے والے ہیں)۔

یہ آخری زمانہ کونسا ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو پہلے زمانے کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوڑا ہے۔ یہ زمانہ جو آخری زمانہ ہے یہ آخرین کا زمانہ ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام صادق نے مبعوث ہو کر آخرین کو اوّلین سے ملانا تھا۔ دین کوثریّا سے واپس لانا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت کو دنیا پر قائم کرنا تھا۔ اس کا نعوذ باللہ یہ مطلب نہیں ہے کہ مقام کے لحاظ سے آنے والا جو نبی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہو گا اور یہ پہچان مشکل ہو جائے گی کہ یہ بہتر ہے یا وہ بہتر ہے۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک آقا ہے اور دوسرا غلام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح مَیں نے اپنے زمانے میں ایک اندھیرے زمانے کے بعد، ہدایت کی روشنی دنیا میں پھیلائی جس کا مسلم کی حدیث میں ایک جگہ یوں ذکر ملتا ہے، بہت ساری حدیثیں ہیں اس بارے میں، ایک حدیث یہ ہے کہ حضرت عمران بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہتر لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد آئیں گے۔ عمران کہتے ہیں کہ مجھے یادنہیں کہ آپ نے دو دفعہ یا تین دفعہ فرمایا۔ بہر حال آپ نے اس کے بعد فرمایا۔ ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو بِن بلائے گواہی دیں گے، خیانت کے مرتکب ہوں گے، دینداری چھوڑ دیں گے، نذریں مان کر پوری نہیں کریں گے۔ عہد کے پابندنہیں رہیں گے اور عیش و آرام کی وجہ سے موٹاپا اُن پر چڑھ جائے گا۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم…حدیث نمبر6475)

پس ایسے لوگوں کے بعد پھر جیسا کہ دوسری حدیثوں سے بھی ثابت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جو اُمّتِ مسلمہ پر سے اندھیروں کے بادل چھٹنے کا زمانہ ہو گا۔ جس میں آخرین میں مبعوث ہونے والا مسیح و مہدی اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے ساتھ جگہ جگہ روشنی کے مینار کھڑا کرتا چلا جائے گا اور ہر طریق سے راہِ ہدایت کے پھیلانے کے سامان کرتا چلا جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ جو دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ہوا، جو ہدایت کی نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنے کمال کو پہنچی وہ اس زمانے میں جبکہ ذرائع اور وسائل نے دنیا کو قریب لا کر جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ Global Village بنا دیا ہے، رابطوں کی وجہ سے تمام کرّہ ارض ایک شہر ہی بن گیا ہے۔ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی کامل ہدایت کی تکمیلِ اشاعت ہو رہی ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تکمیلِ ہدایت کا زمانہ تھا اور مسیح محمدی کا زمانہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا زمانہ ہے۔ پس چاہے اُمت کا اول زمانہ ہو یا اُمت کا آخری زمانہ۔ دونوں زمانے اس لئے مبارک ہیں کہ ان دونوں زمانوں کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلدنمبر2صفحہ 49-50۔ ایڈیشن 2003ء)

پس جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے منسوب ہوتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں تو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہم پر ڈالی جاتی ہے اور اشاعتِ ہدایت اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہم خود بھی اپنی ہدایت کے سامان کرنے والے ہوں۔ ہم اپنے عہدوں کی تجدید کرتے ہوئے اُس دَور کی مثالوں کو دیکھنے والے ہوں جب تکمیلِ ہدایت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور قرونِ اُولی کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو اُس ہدایت اور تعلیم کا نمونہ بنایا تھا۔ اپنے قول و فعل سے اُس کا اظہار کیا تھا اور اُن کے نمونے دیکھ کر، اُن کے عمل دیکھ کر اُن کا خدا تعالیٰ سے تعلق دیکھ کر، اُن کے اعلیٰ اخلاق دیکھ کر ایک زمانہ اُن کا گرویدہ ہو گیا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اسلام پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ تلوار کے زور سے پھیلا، یہ بتاؤ کہ چین میں کونسی فوجیں چڑھی تھیں جہاں اسلام پھیلایا گیا تھا۔ اور یہ مثال دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں۔ وہاں کونسے مسلمان تلواریں لے کر جنگ کے لئے گئے تھے؟ فرمایا کہ تاجروں اور مبلغین اور مختلف کاموں سے منسلک جو صحابہ تھے یا اُن کے قریبی، اُن کے بعد میں آنے والے تابعین جو تھے اُن مسلمانوں نے ہی اسلام کا پیغام وہاں پہنچایا تھا۔ اور اس طرح پہنچایا تھا کہ یہ تاجر لوگ یا مختلف کاروباروں میں ملوث لوگ جو وہاں گئے ہیں تو انہوں نے اپنے نمونے دکھائے، اپنی پاک تعلیم کا اظہار کیا اور اُس کے ذریعے سے وہاں اسلام پھیلا۔ (ماخوذ از پیغام صلح روحانی خزائن جلدنمبر23صفحہ468۔ ایڈیشن 2003ء)

اور آج چین میں ہم دیکھتے ہیں کہ کروڑوں مسلمان بس رہے ہیں۔ پس ہر طبقے کے لوگوں کو اپنی حالتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ مستقل مزاجی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح ہم نے اسلام کا پیغام پہنچانا ہے، کس طرح ہم نے اپنی حالتوں کو بہتر کرنا ہے؟

چین کی مثال لی ہے تو یہ ذکربھی کر دوں کہ آجکل چین میں بدقسمتی سے براہِ راست تبلیغ کر کے مسیح محمدی کا پیغام پہنچانا مشکل ہے۔ لیکن کیونکہ یہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا زمانہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ خود ہی اس پیغام کو پہنچانے کے مختلف ذرائع پیدا کرتا رہتا ہے۔ یہ بھی عجیب توارد ہے کہ جماعت جرمنی کو جہاں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام جرمنی میں پھیلانے کا موقع مل رہا ہے، اشاعت کے مختلف ذرائع اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں وہاں ایک نمائش کے ذریعے چینیوں سے تعارف ہوا اور پھر دو سال سے جماعت جرمنی کو جرمنی سے چین جا کر نمائش میں حصہ لے کر جماعت کے پیغام اور لٹریچر کا سٹال لگا کر چینی زبان میں یہ لٹریچر چینیوں تک پہنچانے کا موقع مل رہا ہے اور نئے راستے کھل رہے ہیں۔ اگر چینی زبان میں لٹریچر مہیا نہ ہوتا تو یہ کام نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کا پہلے سے انتظام کیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارا جوچینی ڈیسک ہے وہ اپنا کام خوب انجام دے رہا ہے۔ مکرم عثمان چینی صاحب اس کے انچارج ہیں اور قرآنِ کریم بھی اور باقی لٹریچر کی اشاعت کا کام ہو رہا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا جرمنی کی جماعت کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس لٹریچرکو وہاں تک پہنچانے کی توفیق مل رہی ہے۔ اسی طرح دنیا کے دور دراز ممالک میں اُن ملکوں کی اپنی زبان میں قرآن کریم اور دوسرا لٹریچر پہنچانے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرما رہا ہے۔ یہ اس زمانے کے مبارک ہونے کی نشانی ہے کہ کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے؟ اور مبارک ہیں وہ لوگ بھی جو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت میں حصہ لے رہے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی سے حصہ پا رہے ہیں، آپ کے دور کی تجدید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس اس بات کو ہر احمدی کو سمجھنے کی ضرورت ہے، صرف وقتی طور پر جذبات کا اظہار کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جو موقعے عطا فرما رہا ہے اُن کو ایک خاص فضلِ الٰہی سمجھ کر اُن سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے حتی المقدور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جیسا کہ میں نے بتایا کہ چین میں جرمنی کی جماعت کو ہی پیغام پہنچانے کا موقع مل رہا ہے، اسی طرح دوسرے ہمسایہ ملک بھی ہیں، ان میں بھی یہ موقع مل رہا ہے۔ پس اس فضل الٰہی کو جذب کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے اگر دو چار کی اس طرف توجہ تھی یا اگر چند سو کی بھی توجہ تھی تو جس طرح اجتماع کے بعد آپ لوگ جذبات کااظہار کر رہے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اپنے پاک نمونوں، اپنے نیک عملوں، اپنے عَہدوں کی تجدید سے اُس انقلاب میں حصہ دار بنیں اور اُن مبارک لوگوں میں شامل ہوں جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری عطا فرمائی تھی کہ آخری زمانہ بھی مبارک ہے۔ پس وہی لوگ اس آخری زمانے کے مبارک ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد کو پورا کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو آپ کی اُمت کے بارے میں خوشخبریاں عطا فرمائی تھیں اُن خوشخبریوں میں ایک خلافت کی خوشخبری بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ کی اُمّت کے بارے میں خلافت کی خوشخبری عطا فرمائی ہے اس خوشخبری پر مرکزیت کا انحصار ہے یا یوں کہہ لیں کہ وہ مرکزی خوشخبری، وہ بنیادی اہمیت کی چیز جس پر اُمت کی ترقی کا مدار ہے وہ خلافت ہے۔ اُمت کی ترقی کا مدار آپ نے اپنے بعد خلافتِ راشدہ کو ہی قرار دیا تھا اور اُس کے بعد پھر ایذاء رساں بادشاہت اور جابر بادشاہت کے دور کا آپ نے ذکر فرمایا تھا جس میں اُمت کے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور دل میں تنگی محسوس کریں گے جو ایک اندھیرا زمانہ ہو گا۔ لیکن پھر ایک وقت آئے گا جب اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا۔ اُمت پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑے گی تو ظلم و ستم کے دور کو اللہ تعالیٰ ختم فرمائے گا اور خلافت علیٰ منھاج نبوت کا قیام ہو گا جس نے دائمی رہنا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلدنمبر6صفحہ 285حدیث النعمان بن بشیر حدیث نمبر18596عالم الکتب بیروت 1998)

اُمّتِ مسلمہ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کے لئے جو خیرِ اُمّت بنایا ہے اس کی تجدید ہو گی۔ آج مختلف مسلمان علماء اور تنظیموں کی طرف سے وقتاً فوقتاً جویہ معاملہ اُٹھایا جاتا ہے کہ اُمّت میں خلافت کا قیام ہو یہ اس لئے ہے کہ یہ سب جانتے ہیں کہ اُمّت کی بقا خلافت کے بغیر نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرستادے کو ماننے کو تیار نہیں جس کے ذریعہ سے خلافت علیٰ منہاج نبوت کا قیام ہوا۔ پس قرآن اور حدیث جو ہیں اس بات کی تائید فرما رہے ہیں کہ اُمّت کی بقا اور اُمّت میں سے ظلموں کا خاتمہ اور اندھیروں کا خاتمہ اُس نظام کو چاہتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کے ذریعے شروع فرمایا۔ آج ہر مسلمان ملک کی اندرونی حالت اس بات کا پکار پکار کر اعلان کر رہی ہے کہ سوچو اور غور کرو کہ تمہارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور اللہ اور اُس کا رسول جس بات کی طرف بلا رہے ہیں اُس کی طرف آؤ کہ یہی حل ہے تمہارے تمام مسائل کا، تمہارے ملکوں کے اندر کی بے چینیوں کا، تمہارے ملکوں کی دولت پر طاقتور قوموں کی للچائی ہوئی نظروں کا صرف ایک حل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آئے ہوئے اس مسیح و مہدی کو مان لو۔ پس یہ پیغام ہے جو دنیا میں ہم نے پہنچانا ہے اور یہی پیغام جرمنی کے لئے بھی ہے، یورپ کے لئے بھی ہے، ایشیا کے لئے بھی ہے، عرب ملکوں کے لئے بھی ہے۔ خاص طورپر مسلمان ملکوں کویہ پیغام ہے کہ جس طرف خدا اور اُس کا رسول تمہیں بلا رہے ہیں اُس طرف آؤ۔ خدا تعالیٰ کے رحم نے جو جوش مارا ہے اور اُس جوش کے تحت اپنے پیارے کوجو مبعوث فرمایا ہے تواُس مسیح و مہدی کی پہچان کرواور اُس کے مددگار بن جاؤ اسی میں تمہاری بقا ہے۔ احمدی باوجود اس کے کہ مسیح موعود کا پیغام پہنچانے سے اکثر مسلمان ممالک میں ظلموں کا نشانہ بنتے ہیں لیکن وہ اُمت کی ہمدردی کے جذبے کے تحت یہ پیغام پہنچاتے چلے جا رہے ہیں۔ دراصل تو یہ پیغام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ہے تا کہ اُمّت کی اکثریت اُن لوگوں میں شامل ہو جو آخرین کا زمانہ پا کر اُمّت کے مبارک لوگوں میں شامل ہوئے۔

پس جب یہ ہر احمدی کا فرض بھی ہے کہ اس پیغام کو پھیلائے تو پھر جیسا کہ مَیں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ ہمیں اپنے جائزے بھی لینے ہوں گے کہ ہم جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ہم میں سے کتنے ہیں جو چوبیس گھنٹے میں ایک مرتبہ یا ہفتے میں ایک مرتبہ یا مہینے میں ایک مرتبہ اس بات پر گہرا غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب سمجھتے ہیں توپھر منسوب ہو تے ہوئے ہماری کیا  ذمہ داریاں ہیں؟ ان پر کبھی غور کیاکہ ہماری عبادتوں کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ ہمارے اخلاق کے معیار کیا ہونے چاہئیں؟ ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں اور فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارے اندر خلافت علیٰ منہاجِ نبوت قائم ہے تو اُس کی مدد کرنے کے لئے ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ پس یہ سوچنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم نے تو جوش مارا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسے عظیم انسان اور آنحضرتؐ کے عاشقِ صادق کو ہماری اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ ہم اُس کی بیعت کر لیں۔ لیکن کیا اس عظیم انسان کی بیعت کر لینا ہی کافی ہے۔

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ بھی پہلے زمانے کی طرح بہتر اور مبارک ہے تو آپ کی اس سے مراد یہ تھی کہ مسیح محمدی کے ماننے والے اُس عظیم انقلاب کے لانے کا باعث بنیں گے جس کے لانے کے لئے مسیح موعود کو بھیجا گیا ہے۔ وہ اس تغیرکو زمانے میں لانے میں حصہ دار بنیں گے جس تغیر کے لانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ وہ جنت دنیا میں پیدا کرنے کا ذریعہ بنیں گے جو آئندہ کی زندگی کی جنت کا وارث بنانے میں بھی مدد گار ہو گی۔ پس آج ہر احمدی کا کام ہے کہ وہ انقلاب لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ زمانے میں ایک عظیم تغیر لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ دنیا کو جنت بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اور اس کے لئے ہمیں قرآنِ کریم کی طرف رجوع کرتے ہوئے اُس کے احکامات پر غور کرنا ہو گا اور جب ہم اپنی زندگیوں کو اُس طرح ڈھال لیں گے جس سے انقلاب پیدا ہوتے ہیں، جس سے تغیر پیدا ہوتے ہیں، جس سے دنیا بھی جنت بن جاتی ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ دنیا ہمارے پیچھے آئے گی اور ضرور آئے گی۔ آج ہم کمزور ہیں، بظاہر دنیا کی نظر میں ہماری کوئی حیثیت نہیں، ہر جگہ ہم ظلموں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن جب ہم اپنی بیعت کی حقیقت کو جانتے ہوئے ایک نئے عزم کے ساتھ اُٹھیں گے تو اگر ان لوگوں کو توفیق نہ ملی تو ان کی نسلیں ضرور ایک دن مسیحِ محمدی کے غلاموں میں شامل ہونا اپنا فخر سمجھیں گی۔ پس اپنے قول و فعل کو اپنی بیعت کا حق دار بنانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے۔ ان مغربی ممالک میں دنیا کی رنگینیوں میں غائب نہ ہو جائیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اجتماعات اور جلسے آپ کی زندگیوں پر اثر ڈالتے ہیں تو اس اثر کو عارضی نہ رہنے دیں بلکہ انہیں زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو اس حقیقت کو سمجھتے ہیں، اپنے نفس کی قربانیاں بھی کرتے ہیں اور اس کی روح کو سمجھ کر کرتے ہیں۔ یہ لوگ نوجوانوں میں بھی ہیں، مَردوں میں بھی ہیں، عورتوں میں بھی ہیں۔ پہلے مجھے واقفینِ نوَنوجوانوں کی یہ فکر ہوتی تھی کہ اُن کو پتہ ہی نہیں تھا کہ وقفِ نَو کیا چیز ہے؟ جوان ہو گئے ہیں لیکن سمجھتے تھے کہ جو واقفینِ نَوجامعہ میں چلے گئے وہی جماعت کاکام کرنے والے ہیں۔ باقی کا کوئی مقصدنہیں ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کام شروع کر دئیے اور مرکز کو پتہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کہاں گیا واقفِ نَو؟ سمجھتے تھے کہ وقفِ نو کا نام ہمیں مل گیا بس یہ کافی ہے۔ لیکن اب یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے جو سٹوڈنٹ ہیں، اُن سے بھی پوچھو تو یہی بتاتے ہیں کہ ہم یہ تعلیم آپ سے پوچھ کر، مرکز سے پوچھ کر حاصل کر رہے ہیں اور ختم کرنے کے بعد مکمل طور پر جماعت کی خدمت کے لئے حاضر ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ پس یہ روح اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ اس ماحول میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو غلط کاموں سے، غلط باتوں سے پاک رکھنے کی کوشش کریں اور یہ لوگ پاک رکھنے کی کوشش کرتے بھی ہیں۔ مالی قربانی کا سوال ہے تو کل ہی ایک خاتون ایک ڈھیر سونے کے زیورات کا مجھے دے گئیں کہ مَیں نے جماعت کو دینے کا عہد کیا ہوا تھا اب یہ مجھ پر حرام ہے۔ باوجود میرے کہنے کے کہ اپنے لئے کچھ رکھ لو یہی کہا کہ جو عہد مَیں نے اپنے خدا سے کیا ہے اس کو پورا کرنے سے مجھے نہ روکیں۔ پس یہ انقلاب ہی تو ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کے افراد میں پیدا کیا ہے۔ یہ لوگ عبادت کرنے میں بھی خشوع و خضوع دکھانے والے ہیں۔ شریعت کے دوسرے احکام میں بھی عمل کرنے والے ہیں۔ چاہے وہ کاروباری معاملات ہوں یا گھریلو معاملات تا کہ گھر بھی اور معاشرہ بھی جنت نظیر بن جائے۔ اس زمانے میں جب ہر طرف دنیا داری اور نفسا نفسی کا غلبہ ہے، نیکیوں کا جاری کرنا اور اُنہیں جاری رکھنا اور پھر اللہ تعالیٰ سے استقامت کی دعا مانگنا، یہ یقینا اللہ تعالیٰ کی رضا کا باعث بناتاہے اور جیسا کہ میں نے کہا، ایسے لوگ تو ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی بہت بڑی اکثریت ہونی چاہئے تا کہ ہمارا پورا ماحول اور ہمارا معاشرہ اس دنیا میں بھی اور آئندہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنتوں کا وارث بنا رہے۔ اور مسیح موعود کے زمانے کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے ویسے بھی فرمایا ہے کہ اُس زمانے میں جنت قریب کر دی جائے گی۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِذَاالْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ (التکویر: 14) اور جب جنت کو قریب کر دیا جائے گا۔ پس خوش قسمت ہیں وہ جو مسیح موعود کی بیعت میں آ کر اس قریب کی ہوئی جنت سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور فکر کا مقام ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے بھر پور فائدہ نہیں اُٹھا رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف ایک قسم کی نیکی کرنے سے تم اللہ تعالیٰ کی مکمل رضا کے حقدار بن جاؤ گے بلکہ تمام نیکیوں کو بجا لانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے (ماخوذ از ملفوظات جلدنمبر3صفحہ615۔ ایڈیشن 2003ء) تا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر تم پر پڑے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر حاصل کرنے کے لئے اپنے تمام اعمال پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جو جنت ہمارے قریب کر دی گئی ہے اُسے پکڑ سکیں۔ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا ہے جس نے ہمیں تقویٰ پر چلنے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف بے انتہا توجہ دلائی ہے۔ ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم ولی اور پیر بنو نہ کہ ولی پرست اور پیر پرست۔ (ماخوذ از ملفوظات جلدنمبر2صفحہ139۔ ایڈیشن 2003ء)

آجکل کے پیروں نے تو دین کو استہزاء کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اب دیکھ لیں یہ بہت بڑی بات ہے کہ آپ ہم سے خواہش رکھتے ہیں کہ ولی اور پیر بنو۔ خود ہر ایک اپنی ذات میں ولی اور پیر ہو۔ لیکن آجکل کے پیروں کی طرح نہیں جنہوں نے اسلام کو استہزاء کا نشانہ بنا لیا ہوا ہے۔ آجکل کے پیر تو لوگوں کو غلط راستے پر ڈال کر جنت کا لالچ دے کر دوزخ کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ اُن کی ایک بہن کسی پیر کی مرید تھی۔ حضرت خلیفہ اول نے اُنہیں کہا کہ تم بھی اب کچھ خوفِ خدا کرو، اب سمجھ جاؤ، اپنی دنیا و عاقبت سنوارو اور احمدی ہو جاؤ۔ تو وہ کہنے لگی کہ مجھے احمدی ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں نے فلاں پیر صاحب کی بیعت کر لی ہے وہ بڑے پہنچے ہوئے پیر صاحب ہیں۔ انہوں نے مجھے کہہ دیا ہے کہ تمہیں کسی قسم کی نیکیاں کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم ہماری سچی مریدنی ہو، جو جی میں آئے کرتی رہو، کوئی نیکی بجا لانے کی ضرورت نہیں، تمہارے سب گناہ ہم نے اُٹھا لئے ہیں۔ گویا کفّارہ کا نظریہ صرف عیسائیوں میں نہیں ہے ان مسلمان پیروں نے بھی پیدا کیا ہوا ہے تو کیا یہ لوگ خیرِ اُمت کہلانے کے حقدار ہیں؟ بہر حال حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی بہن کو کہا کہ دوبارہ اپنے پیر صاحب کے پاس جاؤ تو اُن سے پوچھنا کہ جب قیامت کے دن ایک ایک شخص سے اُس کے عمل کے بارہ میں پوچھا جائے گا اور گناہوں کی وجہ سے جوتیاں پڑنی ہیں تو پھر پیر صاحب کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ نے اپنے مریدوں کے گناہ اُٹھا لئے ہیں آپ کو کتنی جوتیاں پڑیں گی؟ تو بہر حال وہ کہنے لگیں کہ مَیں پیر صاحب سے ضرور پوچھوں گی۔ دوبارہ جب آپ کو ملنے آئیں تو آپ نے فرمایا کہ کیا پیر صاحب سے سوال پوچھا تھا؟ کہنے لگیں مَیں نے پوچھا تھا اور جس بات کو آپ نے بہت بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا تھا، پیر صاحب نے تو اُسے منٹوں میں حل کر دیا۔ آپ نے فرمایا کیسے؟ کہنے لگی میرے سوال پر پیر صاحب کہنے لگے دیکھو جب فرشتے تم سے پوچھیں کہ تم نے فلاں فلاں گناہ کیوں کئے ہیں تو کہہ دینا مجھے تو اس کا کچھ نہیں پتہ۔ یہ پیر صاحب یہاں کھڑے ہیں مجھے تو انہوں نے کہا تھا کہ جو جی میں آئے کرو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ اب یہ پیر صاحب کھڑے ہیں ان سے پوچھ لیں۔ اس پر وہ تمہیں چھوڑ دیں گے، تمہاری طرف نہیں دیکھیں گے۔ جب تمہاری طرف سے نظریں پھیریں تم دوڑ کر جنت میں داخل ہو جانا۔ پیر صاحب کہتے ہیں باقی رہ گیا میرا معاملہ تو جب فرشتے مجھ سے پوچھیں گے تو مَیں اپنی لال لال آنکھیں نکال کر غصے سے کہوں گا کہ کربلا میں ہمارے نانا حضرت امام حسین نے جو قربانیاں دی تھیں کیا وہ کافی نہیں تھیں کہ آج پھر تم لوگ ہمیں تنگ کر رہے ہو۔ دنیا میں دنیا والوں نے ہمارا جینا حرام کر دیا تھا اور آج یہاں آئے ہیں تو تم بھی وہی طریق اختیار کئے ہوئے ہو اور ہمارے اعمال کے بارے میں پوچھ رہے ہو کہ کئے کہ نہیں کئے۔ تو اس پر فرشتے شرمندہ ہو کر ایک طرف ہٹ جائیں گے اور ہم گردن اکڑاتے ہوئے جنت میں بڑے رعب، دبدبے سے داخل ہو جائیں گے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلدنمبر7صفحہ نمبر208-209مطبوعہ ربوہ)

یہ ہے اُس وقت کے پیروں کا حال۔ آجکل کے پیر بھی اس قسم کے ہیں کہ بغیر اعمال کے جنتیں دینے والے ہیں جو حقیقت میں دوزخ کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔ خود بھی دوزخ میں گرنے والے ہیں اور اپنے ماننے والوں کو بھی اس طرف لے جانے والے ہیں۔ حقیقت میں جو جنت اس مبارک زمانے میں انسانوں کے قریب کی گئی ہے وہ وہ جنت ہے جس کے راستے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھائے ہیں۔ قرآن و حدیث کی خوبصورت وضاحت کر کے، اعمال کے بجا لانے کی طرف توجہ دلا کر، لغویات اور بدعات کو ختم کر کے، دنیا کو خدا کے حضور سربسجود ہونے کے طریق بتا کر، یہ راستے ہیں جو جنت میں جانے کے ہیں اور اس طرح جنت قریب کی گئی ہے۔

جہاں تک پیروں کا ذکر ہے یہ صرف اُس زمانے کے پیر نہیں جیسا کہ میں نے کہا جو حضرت خلیفہ اول میں بیان فرمایا ہے، بلکہ آجکل بھی یہی حال ہے۔ ایک بہت بڑا طبقہ پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی بلکہ اکثر مسلمان ممالک میں جاہل لوگوں کا تو ہے ہی، لیکن صرف جاہلوں کاہی نہیں بلکہ ایسے پڑھے لکھے لوگوں کا بھی ہے جو اپنے آپ کو کم از کم پڑھا لکھاسمجھتے توہیں، جن میں ہمارے لیڈر بھی ہیں اور سیاستدان بھی ہیں۔ کئی کا مجھے علم بھی ہے جو نہ نمازیں پڑھیں گے، نہ قرآن پڑھیں گے لیکن پیروں کے مرید ہیں اور اُن کی دعاؤں کو ہی اپنے لئے کافی سمجھتے ہیں۔ اگر جنتیں اس طرح قریب ہونی ہیں اور ملنی ہیں پھر تو قرآنِ کریم کے احکامات کی نعوذ باللہ کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآنِ کریم کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ پس ہم بڑے خوش قسمت ہیں جنہوں نے زمانے کے امام کو مان کر جنت کی حقیقت کا پتہ لگایا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ادراک حاصل کیا ہے۔ کئی لوگ مجھے دعا کے لئے کہتے ہیں، تو جب پوچھا کہ تم نمازوں میں باقاعدہ ہو؟ تو پتہ چلتا ہے کہ نہیں ہیں۔ تو مَیں تو یہی جواب دیا کرتا ہوں کہ پہلے خود دعا کرو اور اپنی دعا سے میری دعا کی قبولیت میں مددگار بنو اور یہ اس سنت کے مطابق ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے قائم فرمائی ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کے لئے عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا مَیں دعا کروں گا لیکن تم بھی اپنی دعاؤں سے میری مدد کرو۔ (مسلم کتاب الصلاۃ باب فضل السجود والحث علیہ حدیث نمبر1094)

پس یہ ہے وہ خوبصورت نقشہ جو ایک مسلمان معاشرے کا ہونا چاہئے کہ اپنے اعمال کی اصلاح کرو، اپنے لئے دعائیں کرو اور جس کو دعا کے لئے کہو اُس کی بھی اپنی دعاؤں کے ذریعے سے مدد کرو۔ دعائیں وہی قبولیت کا درجہ پا سکتی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے آپ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کی جائیں اَور کوئی ذریعہ نہیں ہے اور ان دعاؤں میں بھی دین کی برتری کے لئے دعا کو ترجیح دینی چاہئے۔ جب اس سوچ کے ساتھ زندگی بسر ہو رہی ہو گی اور دعاؤں کی طرف توجہ ہو گی تو پھر وہ عظیم انقلاب بھی پیدا ہو گا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عظیم غلام کو دنیا میں بھیجا تھا اور جس کے آنے سے جنت انسان کے قریب کر دی گئی تھی۔ پس ہر احمدی کو اپنی سوچوں کو اس طریق کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے، اپنے عملوں کو اس نہج پر بجا لانے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دین کے ساتھ دنیا جمع نہیں ہو سکتی۔ ہاں خدمتگار کے طور پر بیشک ہو سکتی ہے۔ لیکن بطور شریک کے ہر گز نہیں ہو سکتی۔ یہ کبھی نہیں سناگیا کہ جس کا تعلق صافی اﷲ تعالیٰ سے ہو وہ ٹکڑے مانگتا پھرے۔ اﷲتعالیٰ تو اس کی اولاد پر بھی رحم کرتا ہے۔ جب یہ حالت ہے تو پھر کیوں ایسی شرطیں لگاکر ضدّیں جمع کرتے ہیں۔ ہماری جماعت میں وہی شریک سمجھنے چاہئیں جو بیعت کے موافق دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص اس عہد کی رعایت رکھ کر اﷲ تعالیٰ کی طرف حرکت کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو طاقت دے دیتا ہے۔ صحابہ کی حالت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو پاک صاف کر دیا۔ حضرت عمر کو دیکھو کہ آخر وہ اسلام میں آکر کیسے تبدیل ہوئے۔ اسی طرح پر ہمیں کیا خبر ہے کہ ہماری جماعت میں وہ کون سے لوگ ہیں جن کے ایمانی قویٰ ویسے ہی نشوونما پائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ ہی عالم الغیب ہے۔ اگر ایسے لوگ نہ ہوں جن کے قویٰ نشوونما پاکر ایک جماعت قائم کرنے والے ہوں تو پھر سلسلہ چل کیسے سکتاہے۔ مگر یہ خوب یاد رکھو کہ جس جماعت کا قدم خد اکے لیے نہیں اس سے کیا فائدہ؟ خدا کے لیے قدم رکھنا امر سہل بھی ہے جبکہ خدا تعالیٰ اس پر راضی ہو جاوے اور روح القدس سے اس کی تائید کرے۔ یہ باتیں پیدا نہیں ہوتی ہیں۔ جبتک اپنے نفس کی قربانی نہ کرے اور نہ اس پر عمل ہو۔ فرمایا وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی۔ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی اور وہ جو اپنے ربّ کے مرتبے سے خائف ہوا اور اُس نے اپنے نفس کو ہوس سے روکا تو یقینا جنت ہی اُس کا ٹھکانہ ہو گی‘‘۔ فرمایا: ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہشتی زندگی اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اگر ہوائے نفس کو روک دیں۔ فرمایاکہ صوفیوں نے جو فنا وغیرہ الفاظ سے جس مقام کو تعبیر کیا ہے وہ یہی ہے کہ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی کہ اپنے نفس کو ہوس سے روکو، اس کے نیچے ہو‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ320۔ ایڈیشن 2003ء)

پھر فرماتے ہیں: ’’مَیں یہ سب باتیں با ر بار اس لیے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی، اُسے دوبارہ قائم کرے۔ عام طور پر تکبر دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ علماء اپنے علم کی شیخی اور تکبر میں گرفتار ہیں۔ فقراء کو دیکھو تو ان کی بھی حالت اَور ہی قسم کی ہو رہی ہے۔ اُن کو اصلاح نفس سے کوئی کام ہی نہیں رہا۔ اُن کی غرض و غایت صرف جسم تک محدود ہے۔ اس لیے اُن کے مجاہدے اور ریا ضتیں بھی کچھ اَور ہی قسم کے ہیں جیسے ذکرِ ارّہ وغیرہ۔ جن کا چشمۂ نبوت سے پتہ نہیں چلتا‘‘۔ ایسی ایسی ریاضتیں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہوتیں، پتہ نہیں چلتا۔ فرمایا ’’مَیں دیکھتا ہوں کہ دل کو پاک کرنے کی طرف ان کی توجہ ہی نہیں۔ صرف جسم ہی جسم باقی رہا ہوا ہے جس میں روحانیت کا کوئی نام و نشان نہیں۔ یہ مجاہدے دل کو پاک نہیں کر سکتے اور نہ کوئی حقیقی نور معرفت کا بخش سکتے ہیں۔ پس یہ زمانہ بالکل خالی ہے۔ نبوی طریق جیسا کہ کرنے کا تھا وہ بالکل ترک کر دیا گیا ہے اور اس کوبھلا دیا ہے۔ اب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ عَہدِ نبوت پھر آجاوے اور تقویٰ اور طہارت پھر قائم ہو اور اس کو اُس نے اِس جماعت کے ذریعہ چاہا ہے‘‘۔ فرمایا ’’پس فرض ہے کہ حقیقی اصلاح کی طرف تم توجہ کرو اسی طرح پر جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح کا طریق بتایا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر4صفحہ213-214۔ ایڈیشن 2003ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ آنے والے اُس انقلاب اور تغیر کا حصہ بن سکیں جو اب آپ کے ذریعہ مقدر ہے انشاء اللہ تعالیٰ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں