خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍ ستمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُوْلٰئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ (التوبۃ: 18)

الحمد للہ آج ایک لمبے انتظار کے بعد جماعت احمدیہ ناروے کو اپنی اس خوبصورت مسجد کے افتتاح کی توفیق مل رہی ہے۔ جس طرح اس مسجد کی تعمیر نے ایک لمبا عرصہ لیا اُسی طرح بعض روکیں پڑنے کی وجہ سے اس کے رسمی افتتاح میں آپ لوگوں کو کچھ انتظار کرنا پڑا۔ لیکن یہ رسمی افتتاح تو صرف شکرانے کا ایک مزید اور دنیا کے سامنے اظہار ہے ورنہ مساجد کی تعمیر کا ان رسمی افتتاحوں سے کوئی ایسا تعلق نہیں کہ جس کے بغیر مسجد مکمل نہ کہلائی جا سکے۔ پس آج میرا یہاں آنا اور نماز جمعہ پڑھانا، یہ خطبہ دینا اور غیروں کے ساتھ، مہمانوں کے ساتھ، شام کو انشاء اللہ مسجد کی تقریب میں، افتتاح کی تقریب میں شامل ہونا، اس احسان کی شکر گزاری کے طور پر ہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ ناروے پر اس مسجد کی صورت میں فرمایا ہے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اُس کی نعمتوں کو اُس کا شکر ادا کرتے ہوئے بیان کرو تا کہ اس شکر گزاری کے نتیجے میں جو ایک مومن کے دل سے اللہ تعالیٰ کے لئے پیدا ہو رہی ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ مزید فضلوں اور انعاموں کا وارث بنائے۔ ایک شکر گزاری تو ہماری یہاں نمازیں پڑھ کر اس مسجد کو آباد کر کے ہو گی۔ اور ایک شکر گزاری افتتاح کے اعلان سے یا اس ظاہری اظہار کے ذریعہ سے بھی ہے جو مہمانوں کے لئے reception یا اُن کا آنا ہے۔ لیکن حقیقی شکر گزاری مسجد کی آبادی کا حق ادا کرنے سے ہی ہے۔ پس یہ اہم بات ہر احمدی کو ہمیشہ اپنے پیشِ نظر رکھنی چاہئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ اس ادائیگی حق کو بدلے کے بغیر نہیں چھوڑتا۔ بدلہ بھی اتنا زیادہ ہے کہ اس دنیا میں انسان اُس کا تصور اور احاطہ بھی نہیں کر سکتا۔ ایک حدیث میں ایسے لوگوں کا ذکر اس طرح آیا ہے، جو مسجد کو آباد رکھنے کے لئے، مسجد کا حق ادا کرنے کے لئے اُس میں جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسجد کو صبح شام جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت میں اپنی مہمان نوازی کا سامان تیار کرتا ہے۔ (بخاری کتاب الاذان باب فضل من غدا الی المسجد ومن راح حدیث نمبر662)

پس اللہ تعالیٰ کی خاطر مسجد میں آنے والوں کے لئے جنت میں مہمان نوازی کے سامان تیار ہو رہے ہیں۔ روزانہ پانچ مرتبہ یہ مہمان نوازی کے سامان تیار ہو رہے ہیں۔ اور پھر جو چالیس، پچاس، ساٹھ سال زندہ رہتا ہے یا اس سے بھی زیادہ لمبی عمر زندہ رہتاہے اور نمازیں ادا کرتاہے تو اُس مہمان کے لئے اللہ تعالیٰ نے کس قدر سامان تیار کئے ہوں گے، یہ تو ایک انسان کے تصور سے بھی باہر ہے۔ دنیا میں ہمارا کوئی پیارا مہمان آئے تو ہم مہمان کے آنے کا پتہ چلتے ہی انتظامات شروع کر دیتے ہیں اور اس مہمان سے جتنا جتنا پیار اور تعلق ہو اُس کے مطابق اپنی مہمان نوازی کی انتہا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس تو وسائل بھی محدود ہوتے ہیں لیکن خدا جس کے وسائل کی بھی کوئی حدنہیں، جس کی رحمت کی بھی کوئی حدنہیں، جس کی مہمان نوازی کی بھی کوئی حدنہیں ہے وہ کس طرح اپنے عابد بندے کے لئے مہمان نوازی کے سامان کرتا ہوگا۔ یہ چیز انسانی سوچ سے بھی بالا ہے۔ پس ہمیں ایسی مہمان نوازی کے مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مجھے امید ہے کہ یہاں رہنے والا ہر احمدی اس مسجد کا انشاء اللہ اس سوچ کے ساتھ حق ادا کرنے والا ہو گا کہ حق کی یہ ادائیگی جہاں اللہ تعالیٰ سے اس کے تعلق کو مضبوط کرنے والی اور اُس کا پیارا بنانے والی ہووہاں اپنوں اور غیروں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلانے والی ہو۔ گویا ایک مومن اگلے جہان کی جنت کے لئے اور اُس کی مہمان نوازی کے حصول کے لئے اس دنیا کو بھی جنت بنانے کی کوشش کرتا ہے یا کر رہا ہوتا ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا، اس کے لئے ظاہری شکر گزاری بھی ہونی چاہئے۔ یہ ظاہری شکر گزاری اُس حسین معاشرے کے قیام کے لئے بھی ایک کوشش ہے جو اس دنیا کو بھی جنت نظیر بنانے والا ہو۔

گزشتہ دو دنوں میں ریڈیو، ٹی وی اور اخباری نمائندوں نے مختلف وقتوں میں میرے انٹرویو لئے ہیں۔ اُس میں ہر ایک متفرق سوالوں کے علاوہ اس بات میں بھی دلچسپی رکھتا تھا کہ مسجد کا مقصد کیا ہو گا اور اس میں بھی کہ مسجد بنائی ہے تو یہاں کیا ہو گا؟ آپ کے احساس و جذبات کیا ہیں؟ تو میرا یہی جواب تھا کہ ماحول کو پُر امن اور ایک دوسرے کے لئے محبت بھرے جذبات سے بھر کر اس دنیا کو جنت نظیر بنانا، ایک خدا کی عبادت کے ساتھ ساتھ اسلام کی خوبصورت تعلیم کا اپنی زندگیوں میں اظہار کر کے دنیا کو امن، صلح اور آشتی کا گہوارہ بنانا، یہ اس کا مقصد ہے۔ پس اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اس مسجد کے ماحول میں، اس شہر میں، اس ملک میں محبت اور پیار کو فروغ دینے کا کام یہاں کے احمدیوں کی پہلے سے بڑھ کر ذمہ داری بن گئی ہے۔ یہ میڈیا کا آنا، انٹرویو لینا، اخبار، ریڈیو، ٹی وی وغیرہ کا مثبت انداز میں اس مسجد کی تعمیر کا ذکر کرنا پھر ہمیں، جیسا کہ مَیں نے کہا، مزید شکر گزاری کی طرف مائل کرتا ہے اور اس طرف ہی لے جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانیوں کا بدلہ اس صورت میں بھی عطا فرمایا ہے کہ میڈیا کو توجہ پیدا ہوئی اور عموماً اچھے رنگ میں جماعت کا اور مسجد کا ذکر ہوا ہے۔

پس یہ دنیاوی سطح پر بھی جماعت کے مخلصین کی قربانیوں کا ذکر انہیں دوبارہ شکر گزاری کے مضمون کی طرف لوٹاتا ہے۔ اور پھر اس شکر گزاری کا حق ادا کر کے انسان اللہ تعالیٰ کے مزید انعامات سے فیض پاتا ہے۔ گویا یہ ایک ایسا فیض کا دائرہ ہے جو اپنے دائرے کے اندر ہی نہیں رہتا بلکہ لہروں کے دائرے کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے۔ آپ پانی میں کنکر پھینکیں یا کوئی چیز پھینکیں تو دائرہ بنتا ہے۔ چھوٹا دائرہ، بڑا دائرہ، بڑا دائرہ اور پھر وہ دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ لیکن اِس دائرے کی یہ بھی خوبی ہے کہ جب یہ دائرہ انتہا کو پہنچتا ہے تو ختم نہیں ہو جاتا بلکہ انسان کی زندگی میں اگر نیکیاں جاری ہیں تو دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور جب انسان کی زندگی ختم ہوتی ہے تو اگلے جہان میں خدا تعالیٰ اس میں مزید وسعت پیدا کرتا چلا جاتا ہے۔ پس یہ مسجد اس کو آباد کرنے والوں کے لئے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کے سامان لے کر آئی ہے۔ اور ہر مسجد جو ہم تعمیر کرتے ہیں اُس کا یہی مقصد ہے۔ اُسے بے انتہا فضلوں اور برکتوں کے سامان لے کر آنا چاہئے۔ اب ان فضلوں اور برکتوں کو سمیٹنا یہاں کے رہنے والوں کا کام ہے۔ جتنی محنت سے اس کو سمیٹنے کی کوشش کریں گے اسی قدر فیض پاتے چلے جائیں گے، یہاں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ قرآنِ کریم میں مسجد کو آباد کرنے والوں کا ذکر اُس آیت میں ایک جگہ آیا ہے جو مَیں نے تلاوت کی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔ اب اللہ پر ایمان کی شرط سب سے ضروری ہے جو پہلے رکھی گئی ہے۔ یہ ایمان صرف منہ سے کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کی اور مومن کی بعض نشانیاں بتائی ہیں۔ صرف اسلام میں شامل ہونا مومن نہیں بنا دیتا، جب تک مومنانہ اعمال بجا لانے کی بھی کوشش نہ ہو۔ جب عرب کے دیہاتی آتے تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لائے تو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا (الحجرات: 15) یہ نہ کہو کہ تم ایمان لے آئے ہو بلکہ یہ کہو کہ ہم نے ظاہری طور پر اسلام قبول کر لیا ہے، فرمانبرداری اختیار کر لی ہے۔ اور ایمان کی یہ نشانی بتائی کہ تم اللہ اور اُس کے رسول کی سچی اطاعت کرو۔

آج مسلمانوں میں سے غیرہمیں اس بات کا نشانہ بناتے ہیں کہ تم مسلمان نہیں ہو حالانکہ ہم تو وہ ہیں جنہوں نے اللہ اور رسول کی اطاعت کرتے ہوئے زمانے کے امام کو مانا ہے اور یہ کامل اطاعت ہمیں پکا مسلمان اور حقیقی مومن بناتی ہے۔ گو ہمیں دوسرے مسلمان فرقے بیشک غیر مسلم کہتے رہیں لیکن اس اطاعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے اس حکم کی وجہ سے ہم پکّے مومن ہیں۔ آج احمدی ظلموں کا نشانہ بنائے جاتے ہیں لیکن پھر بھی احمدیت سے منحرف نہیں ہوتے تو حقیقی مسلمان ہم ہوئے یا دوسرے؟ ہم کسی کلمہ گو کو غیر مسلم نہیں کہتے لیکن ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ قرآنِ کریم نے حقیقی مسلمان اُس کو قرار دیا ہے جو ہر طرح کی اطاعت کر کے اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنے والا ہو اور مضبوطی پیدا کرتا چلا جائے۔ ہر دن اُس کے لئے ایمان میں اضافے کا باعث ہو۔ اور جب تک ہم اس کی کوشش کرتے رہیں گے، نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرتے رہیں گے ہم مومنین اور حقیقی مسلمانوں کے زمرے میں شمار ہوتے رہیں گے۔ پس ہمیں کسی مولوی، مفتی کے فتوے یا کسی حکومت کے فیصلے نے مومن ہونے اور حقیقی مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دینا۔ نہ کسی کی سند چاہئے، نہ ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہمارے ایمان پر اصل مہر ہماری اللہ اور اُس کے رسول کے احکامات پر چلنے کی کوشش نے لگانی ہے۔ جس قدر ہم کوشش کرنے والے ہوں گے اُسی قدر ہماری مہریں لگتی چلی جائیں گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کا عمل جو اُسے انعامات کا وارث بنائے گا صرف یہ نہیں کہ ایک دو یا چند ایک نیک عمل کر لئے بلکہ تمام اعمالِ صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ ہو گی تو حقیقی مومن انسان بن سکتا ہے۔

پس ہمیں صرف اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ ہم نے زمانے کے امام اور مسیح موعود کو مان لیا اور یہ کافی ہے۔ بیشک ہم نے دوسرے مسلمانوں کی نسبت خدا اور رسول کی اطاعت میں ایک قدم آگے اُٹھا لیا ہے لیکن یہ زندگی تو مسلسل کوشش اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی تلاش اور ایمان میں بڑھتے چلے جانے کے لئے ہے اور یہی مقصد اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا بتایاہے کہ عبادت کرو اور اُس میں بڑھتے چلے جاؤ۔ پس ایک مومن ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں آپ کے سامنے اُن میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ(البقرۃ: 166) کہ سب سے بڑھ کر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے۔ یہ تو ایک ایسے شخص کو جس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اُسے بھی پتہ ہے کہ جس سے شدید محبت ہو اُس کے لئے کیا کچھ نہیں کیا جاتا۔ پس ایک مسلمان جب اپنے ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو اُس کی اللہ تعالیٰ سے محبت تمام محبتوں پر حاوی ہونی چاہئے۔ پھرجب یہ صورتحال ہوتو دنیا کی دولت، دنیاوی چمک دمک، دنیا کی مصروفیات، اولاد، بیوی، خاندان سب خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلے میں ہیچ ہو جاتے ہیں اور ہونے چاہئیں۔ اور جب اس کی یہ محبت خدا تعالیٰ کے لئے پیدا ہو گی تو ایسے شخص کی عبادت بھی خالص ہو گی۔ اُس کی عبادت کی طرف بھی خاص توجہ ہو گی۔ اور جب عبادت کی طرف توجہ پیدا ہو گی تو انشاء اللہ پھر آپ کی یہ مسجد، یہ نماز سینٹر جہاں بھی ہیں اور آئندہ بننے والی مساجد بھی آباد رہیں گی اور ان کی یہ آبادی حقیقی آبادی کہلائے گی۔ جب ہمارے اپنے دل میں خدا تعالیٰ سے محبت کا اظہار ہو رہا ہو گا تو ہماری اولادیں بھی اُس کے اثر لے رہی ہوں گی۔ بہت سے لوگ اولاد کے لئے دعا کے لئے کہتے ہیں تو اس کے لئے انہیں اپنے نمونے دکھانے ہوں گے اور جب یہ اثر اولادوں میں جا رہا ہو گا تونتیجۃً نسلاً بعدنسلٍ اللہ تعالیٰ سے محبت کا اظہار اور مساجد کی آبادی ہوتی رہے گی اور ہم پر فرض ہے کہ جہاں ہم خدا تعالیٰ سے یہ محبت اپنے اندر پیدا کریں اور اُس کے لئے کوشش کریں وہاں اپنی اولادوں اور نسلوں کو بھی اس محبت کی چاٹ لگانے کی کوشش کریں اور جب یہ ہو گا تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ مخالفتیں اور مخالفین کی کوششیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی موت آپ مر جائیں گی۔ کیونکہ جب بندہ خدا سے محبت کرتا ہے تو خدا اُس سے بڑھ کر اُس سے محبت کرتا ہے اور اپنے بندے کا مولیٰ اور ولی ہو جاتا ہے اور جس کا ولی خدا ہو جائے اُس کو یہ عارضی مخالفتیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ چند اوباش لوگ یا بڑوں کے بھڑکانے پر چند چھوٹے بچے جو پتھر مار کر مسجد کے شیشے توڑ جاتے ہیں، یا گند پھینک جاتے ہیں وہ یا توخود تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے یا آپ کا خدا سے تعلق دیکھ کر اِن میں سے سعید فطرت خود آپ میں شامل ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ

پس جیسا کہ مَیں نے کہا یہ مسجد بنانا آپ کے کام کی انتہا نہیں ہے بلکہ اس کے بعد مزید اپنی حالتوں کی طرف دیکھنے اور جائزے لیتے رہنے کی ضرورت ہے۔ اپنے خدا سے اپنی محبت کے معیار دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ماحول میں خدا تعالیٰ سے محبت کے اظہار کی اس لئے ضرورت ہے تا کہ دنیا کو پتہ لگے۔ دنیا کو یہ پتہ چلے کہ خدا تعالیٰ کی محبت کی خاطر قربانیاں کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے۔ پس یہ چھوٹا موٹا پتھراؤ یا گند پھینکنا یا نعرے لگانا اللہ والوں کی ترقی میں کبھی روک نہیں بنا اور نہ بن سکتا ہے۔ پس مسجدیں آباد کرنے والوں کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں اور اپنے ایمان اور ایقان میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومن کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جب اُنہیں اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو اُن کا جواب سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا (البقرہ: 286) ہوتا ہے۔ یعنی ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا۔ اللہ تعالیٰ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کا جواب دینے والوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (آل عمران: 105) کہ یہ لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ پس اللہ اور رسول کے نام پر جو احکامات دئیے جائیں ان کو سنتے ہی اطاعت کرنے کانتیجہ کامیابی ہے۔ اور یہ سننا اور اطاعت کرنا اُن تمام باتوں کے لئے ہے جن کے کرنے اور نہ کرنے کا قرآنِ کریم میں ذکر ہے۔ مثلاً قرآن کریم فرماتا ہے کہ ’’اپنی امانتوں کا حق ادا کرو۔‘‘ آپ کی امانتیں آپ کی ذمہ داریاں ہیں۔ ایک ذمہ داری جس طرح پڑتی ہے انسان اسے ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ امانتیں جو آپ کے سپرد کی گئی ہیں وہ بھی اُسی طرح کی ذمہ داری ہے جن کے کرنے کا آپ کو حکم ہے۔ عہدیدار ہیں تو اُن کا جماعت کے لئے وقت دینا اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنا۔ افرادِ جماعت کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش کرنا، یہ امانتیں ہیں۔ ایک (جماعتی) عہدیدار کوئی دنیاوی عہدیدار نہیں ہے جس نے طاقت کے بل پر اپنے کام کروانے ہیں بلکہ وہ خادم ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ (الجامع الصغیر حرف السین صفحہ نمبر292حدیث نمبر4751دار الکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

پس اس خدمت کے جذبے کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تبھی جو خدمت، جو امانت آپ کے سپرد ہے آپ اُس کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ میرے پاس جب بعض لوگ آ کر یہ کہتے ہیں کہ میرے پاس فلاں فلاں عہدہ ہے تو میں عموماً یہ کہا کرتا ہوں کہ یہ کہو کہ فلاں خدمت میرے سپرد ہے۔ دوسرا تو بیشک عہدیدار کہے لیکن خود اپنے آپ کو خادم سمجھنا چاہئے اور یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے خدمت کا موقع دیا ہوا ہے۔ کیونکہ عہدہ کہنے سے سوچ میں فرق پڑ جاتا ہے۔ ایک بڑے پن کا احساس زیادہ ہو جاتا ہے، بڑے پن کا احساس اس طرح کہ دماغ میں ایک افسرانہ شان پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ عہدیدار، جماعتی عہدیدار ایک خادم ہوتا ہے اور جب عہدیدار اپنی امانتوں کے حق ادا کر رہے ہوں گے تبھی وہ خلافت کے، خلیفۂ وقت کے حقیقی مددگار بن رہے ہوں گے۔ عہدیداروں کی عزت اور احترام افرادِ جماعت پر یقینا فرض ہے۔ لیکن وہ یہ صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اُن کی، افرادِ جماعت کی، خلافتِ احمدیہ سے وابستگی ہے اور کسی عہدیدار کے حکم کی نافرمانی کر کے وہ خلیفہ وقت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ پس ہر سطح کے عہدے داروں کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کے حق صحیح طور پر ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ہر عہدیدار کا رَکھ رکھاؤ، بول چال، عبادت کے معیار دوسروں سے مختلف ہونے چاہئیں، ایک فرق ہونا چاہئے۔

لجنہ کی عہدیدار ہیں تو اُنہیں مثلاً قرآنی حکم میں ایک پردہ ہے اُس کا خیال رکھنا ہو گا ورنہ وہ اپنی امانت کا حق ادا نہیں کر رہی ہوں گی۔ باقی احکام تو ہیں ہی، لیکن مَردوں سے زیادہ عورتوں کو ایک زائد حکم پردے کا بھی ہے۔ ناروے کے بارے میں پردے کی شکایات وقتاً فوقتاً آتی رہتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی ایک وقت میں بڑی سخت تنبیہ کی تھی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع بھی سمجھاتے رہے۔ لیکن آپ جو عہدیداران ہیں اگراب بھی آپ کے پردے کے معیار نہیں ہیں، عورتوں مردوں میں میل جول آزادانہ ہے، ایک دوسرے کے گھروں میں بغیر پردے کے آزادانہ آنا جانا ہے اور مجلسیں جمانا ہے جبکہ کوئی رشتے داری وغیرہ بھی نہیں ہے، صرف یہ کہہ دیا کہ فلاں میرا بھائی ہے اور فلاں میرا منہ بولا چچا یا ماموں ہے اور اس لئے حجاب کی ضرورت نہیں یا اور اسی طرح کے رشتے جوڑ لئے تو قرآن اس کی نفی کرتا ہے اور ایک مومنہ کو تاکیدی حکم دیتا ہے کہ تمہارے پر پردہ اور حجاب فرض ہے۔ حیا کا اظہار تمہاری شان ہے۔ اگر لجنہ کی ہر سطح کی عہدیدار خواہ وہ حلقہ کی ہوں، شہر کی ہوں یا ملک کی ہوں، اگر عہدیدار اپنے پردے ٹھیک کر لیں اور اپنے رویے اسلامی تعلیم کے مطابق کر لیں تو ایک اچھا خاصہ طبقہ باقیوں کے لئے بھی، اپنے بچوں کے لئے بھی اور اپنے ماحول کے لئے بھی نمونہ بن جائے گا۔ ایک لجنہ کی عہدیدار کا امانت کا حق تبھی ادا ہو گا جب وہ اَور باتوں کے ساتھ ساتھ اپنے پردہ کا حق بھی ادا کر رہی ہو گی۔ مجھے بعض کے پردہ کا حال تو ملاقات کے دوران پتہ چل جاتا ہے جب اُن کی نقابیں دیکھ کر یہ ظاہر ہو رہا ہوتا ہے کہ بڑے عرصے کے بعد یہ نقاب باہر آئی ہے جس کو پہننے میں دقت پیدا ہو رہی ہے۔ پس عہدے داربھی اور ایک عام احمدی عورت کا بھی یہ فرض ہے کہ اپنی امانتوں کا حق ادا کریں۔ آج کل اپنے زعم میں بعض ماڈرن سوچ رکھنے والے کہہ دیتے ہیں کہ پردے کی اب ضرورت نہیں ہے یا حجاب کی اب ضرورت نہیں ہے اور یہ پرانا حکم ہے۔ لیکن میں واضح کر دوں کہ قرآنِ کریم کا کوئی حکم بھی پرانا نہیں ہے اور نہ کسی مخصوص زمانے اور مخصوص لوگوں کے لئے تھا۔ احمدی مرد اور عورتیں خلافت سے وابستگی کا اظہار بڑے شوق سے کرتے ہیں، جہاں اللہ تعالیٰ نے خلافت جاری رہنے کا قرآنِ کریم میں ارشاد فرمایا ہے وہاں عبادتوں اور اعمالِ صالحہ سے اس کو مشروط بھی کیا ہے۔ سورۃ نور میں جہاں یہ آیت ہے اس سے دو آیات پہلے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ دعویٰ نہ کرو کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے بلکہ فرمایا طَاعَۃٌ مَعْرُوْفَۃٌ کا اظہار کرو۔ ایسی اطاعت کرو جو عام اطاعت ہے۔ ہر اُس معاملے میں اطاعت کرو جو قرآن اور رسول کے حکم کے مطابق تمہیں کہا جائے۔ اُس پر عمل کرو اور اس کے مطابق اطاعت کرو۔ قرآن اور رسول کا حکم جب پیش کیا جائے تو فوراً مانو۔ اس بارے میں مَیں بہت مرتبہ کھل کر بتا بھی چکا ہوں۔ پس جہاں مردوں کے ساتھ عورتیں اپنے عبادتوں کے معیار بلند کریں، اپنے ایمان میں ترقی کی کوشش کریں وہاں وہ خاص حکم جو عورتوں کو ہیں اُن پر بھی عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہاں یہ بھی واضح کر دوں کہ پردے کے بارہ میں اپنے آپ کو ڈھانکنے کا حکم گو عورت کو ہے لیکن اپنی نظریں نیچی رکھنے کا اور زیادہ بے تکلفی سے بچنے کا حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے۔ بلکہ اپنی نظریں نیچی رکھنے کا حکم پہلے مَردوں کو ہے پھر عورتوں کو ہے تا کہ مَرد بے حجابی سے نظریں نہ ڈالتے پھریں۔ پھر امانتوں میں ووٹ کے حق کا صحیح استعمال ہے، جہاں بھی استعمال ہونا ہو۔ پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے عہدِ بیعت کا حق ادا کرنا ہے، اس کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ جس کے سپرد جو بھی امانتیں ہیں تم اُس کے لئے پوچھے جاؤ گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نیک اعمال میں تکبر سے بچنے اور عاجزی اختیار کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ ہمارے ہاں اکثر مسائل اور جھگڑے تفاخر اور تکبر سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنی حیثیت پر غور کرتا رہے تو ہمیشہ عاجزی کا اظہار ہو اور اس کے جائزے سب سے زیادہ انسان خود لے سکتا ہے۔ دوسرے کے کہنے پر تو بعض دفعہ غصہ بھی آ جاتا ہے چِڑ بھی جاتا ہے لیکن خود اپنا جائزہ لینے کی عادت ڈالیں تو یہ سب سے بہترین طریقہ ہے۔ ایمانداری سے قرآنی احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزے لیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا خوف ہو اور یقینا ہر احمدی میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہے، صرف ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے تو یہ جائزے بڑی آسانی سے لئے جا سکتے ہیں۔ پس قرآنِ کریم کو پڑھتے وقت اللہ تعالیٰ کے حکموں پر غور کرنے کی عادت ڈالیں۔ آج مختصر وقت میں میں تمام احکامات کی تفصیلات تو آپ کے سامنے نہیں رکھ سکتا، جیسا کہ مَیں نے کہا خود ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور یہ تبھی ہو گا جب قرآنِ کریم کی ہر گھر میں باقاعدہ تلاوت بھی ہو، اُس کو سمجھنے کی کوشش بھی ہو اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو۔ بچوں کی بھی نگرانی ہو کہ وہ نمازوں کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں، قرآنِ کریم کوپڑھنے کی طرف بھی توجہ دے رہے ہیں۔ ہر احمدی کو جس کا ایمان لانے کا دعویٰ ہے یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان کا دعویٰ تبھی مکمل ہوتا ہے جب یومِ آخرت پر بھی ایمان ہو اور یقین ہو اور یہ واضح ہو کہ مرنے کے بعد کی ایک زندگی ہے جس میں اس دنیا کے کئے گئے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔ جہاں آخری فیصلہ ہو گا، جہاں جزا سزا کا فیصلہ ہو گا۔

پس اللہ تعالیٰ نے مساجد آباد کرنے والوں کی یہ نشانی بھی بتائی ہے کہ اُن کو آخرت پر بھی ایمان ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد کی زندگی اور وہاں حساب کتاب کو بھی وہ برحق سمجھتے ہیں اور جب برحق سمجھتے ہیں تو جہاں مسجد میں عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات پر بھی عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں، اُس کے انعامات کے وارث بنیں۔ اور پھر فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل ہو گا، اس یقین پر انسان قائم ہو گا کہ آخرت کے سوال جواب سے بھی گزرنا پڑناہے تو پھر انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے گا۔ اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عبادت کرے گا اور حدیث میں آیا ہے کہ بہترین عبادت نماز ہے۔ (جامع الأحادیث از جلال الدین سیوطی باب الھمزہ مع الفاء جلد 5صفحہ186حدیث نمبر3952بحوالہ المکتبۃ الشاملۃCD)

جب مومنین کی جماعت نماز کے لئے جمع ہوتی ہے تو پھر جہاں خدا تعالیٰ کی وحدت کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے وہاں ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات اور جماعتی وابستگی اور وحدت کا بھی اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ پھر اُن تمام نیک اعمال بجا لانے کی طرف بھی توجہ جاتی ہے جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حق سے ہے یا اُس کی مخلوق کے حق سے ہے۔

اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلانے کا حق ادا کرنے کے لئے اور مخلوق کا حق ادا کرنے کے لئے کیونکہ ہمیشہ وسائل کی ضرورت ہے اس لئے مساجد آباد کرنے والوں کے عملوں کے ذکر میں یہ اہم بات بھی اللہ تعالیٰ نے ذکر فرما دی کہ وہ زکوۃ دینے والے ہوتے ہیں، مالی قربانی کرنے والے ہوتے ہیں۔ اپنے مال کو اپنے تک محدودنہیں رکھتے بلکہ دین اور مخلوق کے حق کی ادائیگی کے لئے اپنے مالوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہاں زکوۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور قرآنِ کریم میں دوسرے کئی مقامات پر نماز کے قیام کے ساتھ عمومی مالی قربانی کا ذکر کیا گیا ہے تا کہ جہاں دینی ضروریات پوری ہوتی ہوں وہاں محروم طبقہ کی ضرورت بھی پوری ہو رہی ہو۔

پس مسجدیں اور اُنہیں آباد کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کا اُٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے۔ اُن کے دل میں خدا کا خوف اور خشیت ہوتی ہے۔ اُس پیار کی وجہ سے جو اُنہیں خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور پھر یہ خوف اور خشیت مزیدنیکیوں کی طرف لے جا رہی ہوتی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں اور جنہیں اللہ تعالیٰ ہدایت یافتوں میں شمار کرتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ناروے کی جماعت نے بڑی قربانی دی ہے اور مسجدنصر کے لئے تقریباً ایک سو چار (104) ملین کرونر خرچ جماعت نے اُٹھایا ہے۔ کچھ ابتدائی خرچ مرکز نے دیا تھا باقی جماعت نے اُٹھایا ہے۔ گو کہ اس میں بڑا لمبا عرصہ لگ گیا جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا لیکن جب مَیں نے جماعت کو دوہزار پانچ 2005) (میں اس طرف توجہ دلائی ہے، تو فوری توجہ پیدا ہوئی پہلے توجہ بھی کم تھی۔ اُس وقت کسی نے اپنا مکان بیچ کر وعدہ کیا اور اس کی ادائیگی کی۔ مجھے لکھامَیں مکان بیچ رہا ہوں، کسی نے کار بیچ کر رقم مسجد کو ادا کی، کسی نے زائد کام کیا کہ اللہ تعالیٰ کا گھر تعمیر ہو جائے اور میں زیادہ سے زیادہ چندہ دے سکوں۔ اللہ کے فضل سے بعض عورتوں نے قربانیاں دیں، بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے کاروبار بند ہونے کے باوجود بھی اپنے وعدے پورے کئے۔ اللہ تعالیٰ تمام قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ آج کل حالات کی وجہ سے اُن کے کاروبار میں کچھ نقصان ہے تو اللہ تعالیٰ اُن میں برکت ڈالے۔

مَیں امید کرتا ہوں کہ یہ سب قربانیاں اس سوچ کے ساتھ ہوئی ہوں گی کہ ہم نے مسجد کو آباد کرنا ہے اور آباد اُس طریق پر کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے۔ اپنے ایمان میں کامل ہونے کی کوشش کرتے ہوئے، اپنے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا کرتے ہوئے، حقوق العباد کی ادائیگی کی سوچ رکھتے ہوئے، اعمالِ صالحہ بجا لانے کے معیار حاصل کرتے ہوئے، اپنے بچوں اور نسلوں میں بھی مسجد اور خدا کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، پھر اسی طرح اس زمانے میں جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو بھیجا ہے، اُس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے، اُس کے مشن کو آگے چلانے کے لئے بھر پور کوشش کرتے ہوئے یہ پیغام پہنچانے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، دعوتِ الی اللہ کی طرف توجہ دیتے ہوئے اسے آباد کرناہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے، یہ مسجد ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ڈال رہی ہے۔ ہم نے مسجد بنا کر اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کو بہت وسعت دے دی ہے۔ اگر اس ذمہ داری کو ادا نہ کر سکے تو خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر سے محروم ہو سکتے ہیں۔ اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو۔

پس جہاں ہمارے لئے یہ ایک بہت بڑی خوشی ہے کہ ناروے میں پہلی احمدیہ مسجد تعمیر ہوئی ہے وہاں فکر کا مقام بھی ہے۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی اس فکر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے والا ہو، اپنی ذمہ داریاں نبھانے والا ہو۔ بڑی بڑی خطیر رقمیں پیش کر کے اس مسجد کی جو تعمیر کی گئی ہے اور اُسے خوبصورت بنایاہے اور کسی نے لاکھوں کرونر خرچ کر کے کارپٹ ڈلوا دیا۔ کسی نے لاکھوں کرونر خرچ کر کے فرنیچر دے دیا۔ تمام مسجد کے کمپلیکس کے لئے فرنیچر مہیا کر دیا تویہ ایک دفعہ کی قربانی نہ ہو یا ایک دفعہ کی قربانی پریہ لوگ خوش نہ ہو جائیں۔ صرف خوبصورت فرنیچر اور سجاوٹ دیکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارے لئے کافی ہو گیا ہے بلکہ اس کی اصل خوبصورتی کو قائم رکھنے والے ہوں جو پانچ وقت کی نمازوں سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے مسجدوں کی تعمیر کا ذکر ہو رہا تھا تو آپ نے فرمایا کہ:

’’مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اُن نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں‘‘۔ (اُس زمانے میں ویران تھیں ) ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے‘‘۔ فرمایا ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیاداروں نے ایک مسجد بنوائی تھی۔ وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرادی گئی۔ اس مسجد کا نام مسجدِ ضرار تھا۔ یعنی ضرر رساں۔ اس مسجد کی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 491۔ مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن 2003ء)

پس یہ تقویٰ ہے جو ہم نے اپنے اندر پیدا کرنا ہے اور اس کا بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اظہار فرمایا ہے۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’قرآنِ شریف تقویٰ ہی کی تعلیم دیتا ہے اور یہی اس کی علّتِ غائی ہے‘‘۔ (یعنی یہی اس کا مقصد ہے) ’’اگر انسان تقویٰ اختیار نہ کرے تو اس کی نمازیں بھی بے فائدہ اور دوزخ کی کلید ہو سکتی ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر 2 صفحہ 390 مطبوعہ ربوہ۔ ا یڈیشن 2003ء)

فرمایا کہ تقویٰ نہیں ہے تو نمازیں بے فائدہ ہیں بلکہ نمازیں دوزخ کی طرف لے جانے والی ہوں گی۔

پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’ساری جڑھ تقویٰ اور طہارت ہے۔ اسی سے ایمان شروع ہوتا ہے اور اسی سے اس کی آبپاشی ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ551-550۔ مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن 2003ء) پھر فرمایا: ’’اس سلسلے کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ ہی کے لئے قائم کیا ہے‘‘۔ (یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ نے ہم پر ڈالی) ’’کیونکہ تقویٰ کا میدان بالکل خالی ہے‘‘۔ فرماتے ہیں ’’جو تقویٰ اختیار کرتا ہے وہ ہمارے ساتھ ہی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ649مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن 2003)

پس ہمیں ہمیشہ یہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ ہم نے اپنے عہدِ بیعت کو نبھاتے ہوئے وہ نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے جو تقویٰ پر چلتے ہوئے ادا ہوں۔ آج احمدی ہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جڑ کر اس عرفان کو حاصل کر سکتا ہے۔ پس اگر ہم نے بیعت کا دعویٰ بھی کیا اور تقویٰ کے خالی میدان کو بھرنے کی کوشش نہ کی تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے کے مقصد کو پورا کرنے والے نہیں ہو سکتے کیونکہ جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اس سلسلے کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے ہی قائم کیا ہے۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی اس اہم ذمہ داری کو سمجھنے والا ہو۔ ان ممالک میں جو شرک کے گڑھ ہیں اگر ہم نے تقویٰ سے کام لیتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کیں اور اپنی بیعت کے مقصد کو نہ پہچانا تو ہم اللہ تعالیٰ کی نظر میں قابلِ مؤاخذہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں اپنے اُن بندوں میں شامل رکھے جن پر اُس کے پیار کی نظر پڑتی ہے۔

یہاں مَیں مسجدنصر کی تعمیر اور تکمیل کے بارے میں بھی کچھ کوائف بیان کروں گا۔ مسجد کے پلاٹ کا کُل رقبہ نوہزار پانچ سو تریسٹھ مربع میٹر ہے اور مسجد کے پلاٹ کا رقبہ 7759 مربع میٹر ہے۔ مسجد کے مردانہ حصے کا رقبہ 880 مربع میٹر ہے اور تقریباً چودہ سو نمازیوں کی گنجائش ہے۔ گیلری میں جو 298مربع میٹر ہے، پانچ سو نمازیوں کی گنجائش ہے۔ زنانہ مسجد میں 850 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ پھر نیچے بھی ایک ہال بنایا گیا ہے جو سب سے پہلے بنا تھا اور بغیر مزید تعمیر کے کافی دیر پڑا رہا، اُس میں آٹھ سو پچاس نمازیوں کی گنجائش ہے۔ پھر اسی طرح ایک مشن ہاؤس اپارٹمنٹ بھی ہے۔ اُس میں تین بیڈ روم ہیں، ڈرائنگ روم ہے، سیلف کنڈیکٹ پورا گھر ہے ماشاء اللہ۔ اسی طرح مسجد بیت النصر کے مزید کوائف یہ ہیں کہ کُل ملا کے 2250 افرادنماز ادا کر سکتے ہیں۔ اور اسی طرح جو نیچے ہال ہے اُس کی چھت جو ٹیرس (Terrace) کے طور پر استعمال ہو رہی ہے اُس میں بھی اگر موسم کھلا ہو، رَش ہو تو قریباً آٹھ سو سے ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد کے مینار کی اونچائی اکیس میٹر ہے۔ گنبد کی اونچائی پانچ میٹر ہے۔ ایک لائبریری بھی ہے۔ ذیلی تنظیموں کے بھی اور مرکزی جماعتی دفاتر بھی ہیں۔ اسی طرح مسجد کا جو لجنہ کا حصہ ہے اس کی اپنی ایک الگ لائبریری ہے اور نیچے اُس کے ساتھ اُن کا دفتر بھی ہے۔ ایک بڑا اور کافی وسیع کچن بھی ہے ماشاء اللہ۔ اسی طرح کونسل سے ایک مسئلہ چل رہاتھا اور لمبے عرصہ سے جو مسجد کی اجازت نہیں مل رہی تھی تو اس کی وجہ وہ سڑک بنانے کا معاملہ تھا جو مسجد کے ایک سائیڈپرہے تو جماعت نے لوگوں کی سہولت کے لئے، بہتری کے لئے، رفاہِ عامہ کے لئے وہ سڑک بھی بنا کے دی ہے اور فٹ پاتھ بھی بنا کے دیا ہے۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا کُل ایک سو چار ملین کا اس میں خرچ ہوا۔ ہماری مسجد مین سڑک کے اوپر ہے جو اوسلو ائیر پورٹ جانے والی سڑک ہے۔ اور شہر میں آتے جاتے یہ نظر آتی ہے۔ اس کا بڑا خوبصورت نظارہ ہے۔ یہ E-6 موٹروے پر واقع ہے۔ روزانہ اسّی ہزار گاڑیاں اس سڑک سے گزرتی ہیں۔ یہاں انڈر گراؤنڈ سروس اور بس سروس بھی مہیا ہے۔ گویا ایک مرکزی جگہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو عطا فرمائی ہے۔ خدا کرے کہ اس کی آبادی بھی اسی جذبے سے ہو جو عموماً یہاں کے احمدیوں نے اس کی تعمیر میں دکھایا ہے۔

اللہ کرے کہ یہ مسجد اس علاقے کے لوگوں کے دل کھولنے کا ذریعہ بنے۔ مقامی لوگ تو عموماً خوش ہیں لیکن اس علاقے میں جو مسلمان آباد ہیں جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا وہ مُلّاؤں کے غلط اور ظالمانہ الزامات کی وجہ سے مخالفت میں بڑھے ہوئے ہیں۔ اس لئے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مسجد کی تعمیر کے دوران یہاں توڑ پھوڑ کی کوششیں ہوتی رہیں لیکن ہم تو صبر اور دعا سے کام لینے والے ہیں اور لیتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کے لئے یہ دعا کرتے رہیں گے کہ خدا تعالیٰ اُن کو صراطِ مستقیم کی طرف لے کر آئے، اُن کی رہنمائی فرمائے۔ جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے گو وہ خوش تو ہیں لیکن ہماری خوشی تب ہو گی جب ان کے دل اسلام کی خوبصورت تعلیم کے قبول کرنے کے لئے کھلیں گے لیکن اس کے لئے ہمیں اس پیغام کے پھیلانے کے لئے بھر پور کوشش کرنی ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جہاں مسلمانوں کو کوئی نہ جانتا ہو وہاں مسجد بنا دو تو تمہارا تعارف خود بخود ہو جائے گا (ماخوذ ازملفوظات جلدنمبر4صفحہ93مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن2003ء) اور اللہ کے فضل سے یہ مسجد کی تعمیر ثابت کر رہی ہے کہ اس علاقے میں اس ملک میں جماعت کا تعارف ہو رہاہے۔ ہمیں ان لوگوں کو یہ بتانا ہو گا کہ مساجد وہ جگہیں ہیں جہاں خدائے واحد کی عبادت کی جاتی ہے اور خدا کے حقیقی عبادت گزار کبھی اُس کی مخلوق کا بُرا نہیں چاہ سکتے۔

پس ہماری مسجدیں اور یہ مسجد بھی ہر جگہ ہمیشہ امن اور محبت اور پیار کا نعرہ بلند کرے گی۔ خدا کرے کہ ہم مسجد کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرتے ہوئے اپنے تقویٰ میں، اپنی روحانیت میں بھی ترقی کرنے والے ہوں، اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کر کے سکونِ قلب کے سامان پیدا کرنے والے ہوں اور ہم میں سے ہر ایک محبت، پیار اور بھائی چارے کا ایک نمونہ بننے والا ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’جس قدر تم آپس میں محبت کرو گے اُسی قدر اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ537-538مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن 2003ء)

اللہ کرے کہ ہم آپس کی محبت میں بڑھتے چلے جانے والے ہوں، کیونکہ جب تک آپس کی محبت میں اعلیٰ معیار حاصل نہیں کریں گے تو غیروں کو بھی محبت کی صحیح تعلیم نہیں پہنچا سکتے۔ اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اس کے بعدایک افسوسناک اطلاع بھی ہے، مَیں ابھی جمعہ کی نماز کے بعد یا نمازوں کے بعد ایک جنازہ غائب پڑھوں گا جو مکرم سفیر احمد بٹ صاحب ابن مکرم حمید احمد بٹ صاحب کراچی کا ہے۔ یہ سندھ کے رہنے والے تھے۔ 1972ء میں وہاں پیدا ہوئے۔ وہیں ایف۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ اِن کے دادا حافظ عبدالواحد صاحب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے محافظ تھے جو کہ واقفِ زندگی تھے۔ سفیر بٹ صاحب حافظ عبدالواحد صاحب کے پوتے تھے۔ ان کے والد حمید احمد بٹ صاحب، تعلیم الاسلام پرائمری سکول بشیر آباد کے ٹیچر تھے۔ 25؍ ستمبر کو نامعلوم افرادنے مکرم سفیر احمد بٹ صاحب پر فائرنگ کر دی جس سے وہ وفات پا گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ پولیس میں اے ایس آئی تھے۔ اچھے بہادر اور جرأت مند پولیس والوں میں شمار ہوتے تھے۔ کسی کی فون کال آئی جس پر یہ موٹر سائیکل لے کر چل پڑے۔ اور جہاں جانا تھا، جاتے ہوئے راستے میں ان پر فائرنگ ہوئی۔ ایک عرصے سے ان کو پولیس میں سپیشل ڈیوٹی پر دہشت گردوں اور جو نشہ آور چیزیں بیچتے ہیں، ان کے خلاف مہم میں استعمال کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے کافی کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ بظاہر وجہ یہی لگتی ہے کہ اس وجہ سے ان کو شہید کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ احمدی ایک تو احمدیت کی وجہ سے بھی، مذہب کی وجہ سے بھی پاکستان میں شہید ہوتے ہیں اور وہاں جو عمومی لاقانونیت ہے اُس کی وجہ سے بھی احمدیوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ اور پھر احمدی جو حکومتی محکموں میں فرائض ادا کر رہے ہیں، ملک کی بہتری کے لئے کوشش کر رہے ہیں، وہ ملک کی خاطر بھی قربان ہو رہے ہیں۔ اُس کے باوجود یہ شکوہ ہے کہ احمدی ملک کے وفا دار نہیں ہیں۔ جہاں کہیں کسی خاص جگہ پر کسی بہادر ہمت والے اور انصاف پسند کی ضرورت پڑے تو وہاں احمدی ہی کی تعیناتی کی جاتی ہے۔ یہ موصی بھی تھے۔ ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی۔ گو پولیس نے آکے بڑا آنردیااور اپنی روایات کے مطابق ان کا جنازہ وغیرہ بھی پڑھا۔ لیکن جب یہ قربانیاں ہوجائیں تو پھر بھی علماء اور نام نہاد ملاّں یہی الزام دیتے ہیں کہ احمدی ملک کے وفا دار نہیں، جبکہ آج حقیقی وفاداری کا نمونہ دکھانے والے صرف احمدی ہیں۔ بہر حال جو ہمارا کام ہے ہم نے کئے جانا ہے۔ اللہ ان لوگوں کو بھی عقل اور سمجھ دے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند کرے۔ ان کے بچے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے بیوی بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ دے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں