خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 7؍ اکتوبر 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جماعت احمدیہ کی مخالفت اور احمدیوں کو تکلیفیں پہنچانا کوئی آج کا یا جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ماضی قریب کا قصہ نہیں ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کے ساتھ ہی اس مخالفت کی بنیاد پڑ گئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض قریبی جو دوستی کا دم بھرتے تھے جن کے نزدیک آپ سے زیادہ اسلام کی خدمت کرنے والا اُس زمانے میں اور کوئی پیدا نہیں ہوا تھا، لیکن جب دعویٰ سنا، جب آپ کا یہ اعلان سنا کہ اللہ تعالیٰ نے بار بار مجھے کہا ہے کہ جو مسیح و مہدی آنے والا تھا وہ تم ہی ہو، اس زمانے میں بندے کو خدا سے ملانے والے اور خدا کے اس زمانے میں محبوب تم اس لئے ہو کہ آج تم سے بڑھ کر حبیبِ خدا سے محبت کرنے والا اور کوئی نہیں ہے، تم ہی ہو جو وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) کے مصداق ہو، تو ان سب لوگوں نے جو آپ کو اسلام کا پکا اور سچا مجاہد سمجھتے تھے کہ اس وقت زمانے میں آپ جیسی کوئی مثال نہیں ہے تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ آپ سے آنکھیں پھیر لیں بلکہ آپ کو تکالیف پہنچانے اور آپ کی ایذا رسانی کے لئے غیر مسلموں کے ساتھ مل کر، اُن لوگوں کے ساتھ مل کر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین میں پیش پیش تھے آپؑ کے خلاف قتل تک کے ناجائز مقدمات کروائے اور اُن میں بڑھ بڑھ کر اپنی گواہیاں اور شہادتیں پیش کیں۔ پس یہ مخالفت جس کا آج تک ہم سامنا کر رہے ہیں یہ کوئی جماعت احمدیہ میں نئی چیز نہیں ہے۔ آپؑ کو بذاتِ خود جب آپ کے ساتھ چند لوگ تھے، جیسا کہ مَیں نے کہا، اس ظالمانہ مخالفت سے گزرنا پڑا۔ مقدمے بھی قائم ہوئے۔ پھر آپ کی زندگی میں ہی آپ کے ماننے والوں کو دنیاوی مال و اسباب سے محروم ہونے کی سزا سے گزرنا پڑا۔ بیوی بچوں کی علیحدگی کی سزا سے گزرنا پڑا، یہاں تک کہ اپنے مریدوں میں سے دو وفا شعاروں کی زمینِ کابل میں شہادت کی تکلیف دہ اور بے چین کرنے والی خبر بھی آپ کو سننا پڑی۔ اُن میں سے ایک شہید وہ تھے جو رئیسِ اعظم خوست تھے، جن کے اپنے مرید ہزاروں میں تھے، جو بادشاہ کے دربار میں بڑی عزت کا مقام رکھتے تھے۔ پس آپ کو ایسے وفا شعار، فرشتہ صفت، بزرگ سیرت مرید کی شہادت کی خبر کا صدمہ سہنا پڑا۔ آپ نے اس شہید کی شہادت پر تفصیل سے ایک کتاب ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ لکھی۔ اُس میں اُن کی نیکی، تقویٰ، قبولِ احمدیت اور سعادت اور غیر معمولی ایمانی حالت کا ذکر کرنے کے ساتھ شہادت کے واقعات بھی مختلف خطوط سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اُن کے مریدوں نے لکھے تھے اُن میں سے خلاصۃً لے کر اُن واقعات کا بھی ذکر کیا، اور آخر میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اے عبداللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ60)
پھر اُسی کتاب میں آپؑ ہمیں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس قسم کا ایمان‘‘ (یعنی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف جیسا ایمان) ’’حاصل کرنے کے لئے دعا کرتے رہیں، کیونکہ جب تک انسان کچھ خدا کا اور کچھ دنیا کا ہے تب تک آسمان پر اُس کا نام مومن نہیں‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ60)
پس یہ دعا ہے جو ہر احمدی کو کرنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے عملوں کو ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ انبیاء کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اُن پر اُن کے ماننے والوں پر سختیاں اور تنگیاں وارد کی گئیں اور یہاں تک کہ ہمارے آقا و مولیٰ محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کی خاطر میں نے زمین و آسمان پیدا کئے، آپ کو اور آپ کے ماننے والوں کو بھی ان مصائب سے اور تکالیف سے گزرنا پڑا۔ تاریخ اکثر لوگ پڑھتے ہیں پتہ ہے، علم ہے۔ مال، اولاد کی قربانی کے ساتھ سینکڑوں کو جان کی قربانی دینی پڑی۔
پس جب بھی جماعت پر ابتلا کے دور کی شدت آتی ہے انبیاء کی تاریخ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا دور ہمیں استقامت کے نمونے دکھانے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ساتھ ہی اس یقین پر بھی قائم کرتا ہے کہ یہ ابتلا اور امتحان کے دور آئندہ غلبہ کی راہ ہموار کرنے کے لئے آتے ہیں۔ ہمیں ایمان میں ترقی کی طرف بڑھاتے چلے جانے کے لئے آتے ہیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مزید مضبوط کرتے چلے جانے کے لئے آتے ہیں۔ ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلانے کے لئے آتے ہیں۔ بیشک صحابہ رضوان اللہ علیہم نے جان، مال، وقت کی قربانیاں اسلام کی ترقی کے راستے میں دینے سے دریغ نہیں کیا لیکن اسلام کا غلبہ اور فتوحات صرف اس امتحان کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ اُن مسلمانوں کا جو خدا تعالیٰ سے خاص تعلق تھا، دعاؤں کے لئے جس طرح خدا تعالیٰ کے آگے جھکتے تھے، اور سب بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو رات کو اپنی دعاؤں سے عرش کے پائے ہلا دیا کرتے تھے اُس نبی کی دعائیں جو خدا تعالیٰ میں فنا ہو چکا تھا، جس نے اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے قربان کر دیا تھا، اصل میں اُس فانی فی اللہ کی دعاؤں نے وہ عظیم انقلاب پیدا کیا تھا۔ لیکن کیا اللہ تعالیٰ کے اس پیارے کی دعاؤں کی قبولیت کے ذریعے اسلام کی تاریخ کا غلبہ اور فتوحات کا زمانہ صرف پچاس ساٹھ سال یا پہلی چند صدیوں کا تھا؟ یقینا نہیں۔ آپؐ جب تا قیامت خاتم الانبیاء کا لقب پانے والے ہیں تو یہ غلبہ بھی تاقیامت آپ کے حصے میں ہی آنا تھا۔ بیشک ایک اندھیرا زمانہ بیچ میں آیا اور گزر گیا لیکن آخرین کے ملنے سے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کے بعد پھر وہ دور شروع ہونا تھا جس نے اسلام کی ترقی کے وہی نظارے دیکھنے تھے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے دیکھے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے سب سے بڑھ کر اور پھر اُس کے بعد تابعین نے، وہ لوگ جنہوں نے صحابہ سے فیض پایا اور پھر وہ لوگ جنہوں نے اُن سے فیض پایا، اُن سب کا انحصار سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا، نہ کہ اپنی کوششوں پر، اور اس کے لئے وہ دعاؤں پر زور دیتے تھے، اپنی راتوں کو دعاؤں سے سجاتے تھے۔
پس آخرین کے دور میں تو خاص طور پر جب تلوار کی جنگ اور جہاد کا خاتمہ ہو گیا، دعاؤں کی خاص اہمیت ہے اور اس کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ بیشک یہ زمانہ علمی جہاد کا ہے اور براہین اور دلائل کی اہمیت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان براہین و دلائل سے جماعت کو لَیس کر دیا ہے اور دنیا کا کوئی دین اسلام کی، قرآن کی عظیم الشان تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اصل یہی ہے کہ علم و براہین بھی تب کام آئیں گے جب اللہ تعالیٰ کا فضل ہو اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے اُس کے حضور جھکنا اور دعاؤں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
اس وقت جماعت احمدیہ جہاں دوسرے مذاہب کے سامنے اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے سینہ سپر ہے اور دونوں طرف سے ظاہری اور چھپے ہوئے مخالفین کا سامنا کر رہی ہے۔ دنیا کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ اور آپ کی سیرت کے حسین پہلو پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دشمن کے آپؐ پر حملوں کے نہ صرف جواب دے رہی ہے۔ بلکہ آپؐ پر اعتراض کرنے والوں کو اُن کا اپنا چہرہ بھی دکھا رہی ہے۔ قرآنِ کریم پر اعتراضات کے جواب دے رہی ہے۔ بلکہ قرآنِ کریم کی برتری دنیا کی دوسری مذہبی کتابوں پر ثابت کر رہی ہے۔ چند سال پہلے جب یہاں جرمنی میں ہی پوپ نے اسلام اور قرآنی تعلیم پر اعتراض کیا تھا تو مَیں نے جرمنی کی جماعت کو کہا تھا کہ اُس کا جواب کتابی صورت میں شائع کریں اور جرمن جماعت کے بہت سارے لوگوں نے مل کے یہ جواب تیار کیا اور اللہ کے فضل سے بڑا اچھا جواب تیار کیا۔ کسی اور مسلمان فرقے کو اس طرح تفصیلی جواب کی بلکہ مختصر جواب کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ پھر امریکہ میں جو پادری اسلام کی تعلیم کے خلاف بڑا شور مچاتا رہتا ہے، اس کے علاوہ بعض اور جو اسلام پر اعتراض کرنے والے ہیں اور لکھنے والے ہیں، اُن کے اعتراضات کے جواب دئیے، اُن کو چیلنج دیا لیکن مقابلے پر نہیں آئے۔ ہالینڈ، ڈنمارک وغیرہ میں اعتراضات کے جواب دئیے بلکہ اُن کو اُن کا آئینہ دکھایا کہ وہ کیا ہیں۔ پس اسلام مخالف طاقتوں سے تو ہم نبرد آزما ہیں ہی لیکن اس کے ساتھ ہمارے اپنے بھی ہمارے مخالف ہیں اور مخالفت میں تمام حدوں کو پھلانگ رہے ہیں۔ مسلمان کہلا کر پھر اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے نام پر آپ کے عاشقِ صادق پر ظالمانہ حملے کر رہے ہیں۔ آپ کی جماعت پر ظالمانہ اور بہیمانہ حملے کر رہے ہیں اور پاکستان کے نام نہاد علماء اس میں سب سے پیش پیش ہیں، آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تذکرۃ الشہادتین میں یہ لکھا ہے کہ امیرِ کابل بھی مولویوں سے خوفزدہ ہے اور مولویوں کے کہنے پر صاحبزادہ صاحب کی شہادت بھی ہوئی۔ شاید اُس کے دل میں اُن کا کوئی احترام تھا۔ باوجود یکہ وہ وہاں کابادشاہ تھا مگر اس امیر کی ڈور اُن مولویوں کے ہاتھ میں تھی۔ ۔ (ماخوذ از تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20صفحہ60) بعینہٖ اسی طرح آج پاکستان میں حکومت اور اس کی وجہ سے عوام بھی، کیونکہ عوام توخوفزدہ رہتے ہیں، ان ظالم علماء کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ یا یہ حکومتی کارندے اکثروہ لوگ ہیں جو اِن مولویوں کی انسانیت سوز باتوں کو ماننے پر مجبور ہیں۔ بہر حال آج پاکستان میں بسنے والا احمدی صرف اپنی جان و مال کے نقصان کی وجہ سے ہی پریشان نہیں ہے یا فکر مندنہیں ہے۔ بہت سے احمدی لکھتے ہیں کہ اب تو لگتا ہے کہ یہ ہماری زندگیوں کا حصہ ہے۔ ہم تو اپنی جانیں ہتھیلی پر لئے پھر رہے ہیں۔ اب تو یہ معمول بن گیا ہے۔ یہ خوف تو کوئی اتنا زیادہ نہیں رہا لیکن ہمیں زیادہ بے چین کرنے والی چیز یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق انتہائی نازیبا الفاظ میں اشتہار چھاپ کر تقسیم کرتے ہیں۔ بڑے بڑے پوسٹر لگاتے ہیں اور سرکاری عمارتوں پر لگا دیتے ہیں بلکہ نازیبا تو ایک عام لفظ ہے، انتہائی گٹھیا اور لچر الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کو ایک شریف آدمی پڑھ اور سُن بھی نہیں سکتا۔ یہ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ یہ الفاظ جو ہیں، یہ اشتہارات جو شائع ہوتے ہیں یہ ہمارے نقصانوں سے زیادہ ہمارے دلوں کو زخمی کرنے والے ہیں۔ ہمیں بے چین کر رہے ہیں۔ یہ گندی زبان لاؤڈ سپیکروں پر سُن کر اور گندہ لٹریچر دیکھ کر ہمارا دل خون کے آنسو روتا ہے اور جب حکومتی کارندوں اور اربابِ حکومت کو کہو تو یا سُن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتے ہیں یا پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، مجبوریاں ہیں۔ بہر حال صبر اور حوصلے کی بڑی عظیم اور نئی داستانیں ہیں جو پاکستان میں رہنے والے احمدی رقم کر رہے ہیں۔ پس ان صبر کے جذبات کو نتیجہ خیز بنانے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائیں۔ دعاؤں سے اپنی سجدہ گاہیں تَر کر لیں۔ اللہ تعالیٰ کے عرش کے پائے ہلانے کے لئے وہ حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس نے صحابہ رضوان اللہ علیہم کے لئے فتوحات کے دروازے کھول دئیے تھے۔ آج دعائیں ہی ہیں جو ہمارے دلوں کو ان لوگوں کے چَرکے لگانے اور حملوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ یہ دعائیں ہی ہیں جو ہمیں ان لوگوں سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ مخالفین کی اسلام کے نام پر، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر، احمدیت دشمنی میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اُسی قدر تیزی سے ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہونی چاہئے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلد جذب کرنے والے بنیں۔ پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو مَیں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دعاؤں کی طرف، صرف عام دعائیں نہیں بلکہ خاص دعاؤں کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں بلکہ ان دعاؤں کے ساتھ ہفتے میں ایک نفلی روزہ بھی رکھنا شروع کر دیں۔ اسی طرح دنیا میں بسنے والے پاکستانی احمدی بھی اپنے پاکستانی احمدی بھائیوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں کریں۔ اسی طرح دنیا بھر کے احمدی بھی جو پاکستانی نہیں ہیں اپنے پاکستانی احمدی بھائیوں کے لئے بہت دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ان ظلم کرنے والوں کی جلد صفیں لپیٹ دے تا کہ ملک میں جلد امن و سکون قائم ہو سکے، تا کہ خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے متعلق جھوٹ اور مغلظات کے جو طومار باندھے جا رہے ہیں اُن کا خاتمہ ہو اور ملک بچ جائے ورنہ ملک کے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں۔ یقینا پاکستانی احمدیوں کا یہ حق ہے کہ اُن کے لئے غیر پاکستانی احمدی بھی دعائیں کریں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام آپ تک پہنچایا ہے۔ یقینا جب اضطراری کیفیت میں دعائیں کی جائیں تو خدا تعالیٰ سنتا ہے اور آج جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دریدہ دہنی کی انتہا ہو رہی ہے، اس سے زیادہ اور کونسی تکلیف ہے جو ہم میں اضطرار پیدا کرے گی۔ پس آج ہر احمدی کو مضطر بن کر دعا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مضطر کی دعا خدا تعالیٰ کبھی ردّنہیں کرتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں ایک جگہ پر اپنی شناخت کی یہ علامت ٹھہرائی ہے کہ تمہارا خدا وہ خدا ہے جو بیقراروں کی دعا سنتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے، اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (سورۃ النمل آیت 63: )‘‘۔ (ایّام الصلح، روحانی خزائن جلدنمبر14صفحہ259-260)
پھر فرماتے ہیں: ’’یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہویا کسی پر سخت مقدمہ آ جاوے تو ان باتوں کے واسطے اُس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے جیسا کہ فرمایا اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ …‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر5صفحہ455مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن 2003ء)
پس آج ہر احمدی کو خاص طور پراضطراری حالت میں یہ دعائیں کرنی چاہئیں اور پھر پاکستان کے احمدیوں کو تو پاکستان کے حالات کے حوالے سے خاص طور پر بہت زیادہ کرنی چاہئیں۔ احمدیوں پر ظلم کی انتہا سے نجات کے لئے بہت زیادہ اور اضطراب سے دعاؤں کی ضرورت ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا پاکستان کے رہنے والے بعض احمدی تو، تمام نہیں، اس اضطراب کا اظہار بعض جگہ کر بھی رہے ہیں۔ اس کا مزید اظہار ہونا چاہئے۔ مزید اس کا اظہار کریں اور ہر احمدی خالص ہو کر ظالموں اور ظلموں سے نجات کے لئے دعا کرے۔ یہی ہمارے ہتھیار ہیں اور اسی کی طرف بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں توجہ دلائی ہے۔ مجھے یاد ہے خلافتِ رابعہ میں جب مَیں ربوہ میں تھا توخلیفۂ رابعؒ نے مجھے ناظرِ اعلیٰ مقرر کر دیا تھا۔ پاکستان کے حالات کے متعلق اُس وقت دعا کی، حالانکہ اُس وقت حالات آجکل کے حالات کے عُشر عشیر بھی نہیں تھے، کوئی نسبت بھی نہیں تھی تو خواب میں مجھے یہ آواز آئی کہ اگر سو فیصد پاکستانی احمدی خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جُھک جائیں تو ان حالات کا خاتمہ چند راتوں کی دعاؤں سے ہو سکتا ہے۔
مَیں پہلے دن سے ہی جماعت کو اپنی حالتوں کی درستی کی طرف اور دعاؤں کی طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ بہت توجہ کریں۔ پاکستان میں جماعت کو دعاؤں کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ لاشعوری طور پر میرا ہر مضمون اسی طرف پھر جاتا ہے۔ پس یہ تو یقینی بات ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کا غلبے کا وعدہ ہے وہ تو پورا ہونا ہی ہے اور نہ صرف پورا ہونا ہے بلکہ ہو رہا ہے۔ اس وعدہ کے پورا ہونے کا نظارہ ہم پاکستان میں بھی دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجودنامساعد حالات کے وہاں جماعت ترقی کی طرف قدم بڑھا رہی ہے۔ دشمن کا ہر حربہ اور ہر حملہ جس شدت اور جس نیت سے کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمن کو وہ نتائج حاصل نہیں کرنے دیتا۔ دشمن کے بڑے خطرناک عزائم ہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی حفاظت فرماتا چلا جا رہا ہے لیکن یہ ابتلا ہمیں اس طرف شدت سے راغب کرنے والے ہونے چاہئیں کہ ہم پہلے سے بڑھ کر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔ ہمارا ہر بچہ، جوان، بوڑھا، مرد اور عورت اپنے نفسانی جذبات و خواہشات کوپرے پھینک کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کے آگے مکمل طورپر گردن جھکا کر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی مکمل کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے تو پھر یہ ظالم اور ظلم ہماری آنکھوں کے آگے انشاء اللہ تعالیٰ فنا ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے تو انشاء اللہ تعالیٰ غالب آنا ہے لیکن اس تقدیر کے غالب آنے میں جلدی یا دیر بعض دفعہ بندوں کے اعمال اور دعاؤں پر بھی منحصر ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ایک نسل کو بھی انتظار کرناپڑتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ یہ اشارہ کرے کہ مَیں نے تو اس کام کو کرنا ہی ہے لیکن اگر تمہیں جلدی ہے تو پھر اپنے اندر اس فیصلہ کے، جو مَیں نے مقدر کیا ہوا ہے، جلد پورا کرنے کے لئے ایک انقلاب پیدا کرو، اپنی طبیعتوں میں ایک انقلاب پیدا کروتوہمیں خدا تعالیٰ کے پیغام کو سمجھنا چاہئے۔
پس آئیں اور آج اپنی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے عرش کے پائے ہلانے کی کوشش کریں۔ ہم میں سے ہر ایک خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت جو یقینا ہمارے لئے جوش میں ہے پہلے سے بڑھ کر جوش میں آئے اور ہمیں ان ظالموں سے نجات دلوائے۔ اگر سو فیصد میں انقلاب پیدا نہیں ہوتا تو ہمارے میں سے اکثریت میں اگر یہ انقلاب پیدا ہو جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ ہم پہلے سے بڑھ کر فتوحات کے نظارے دیکھیں گے۔
اللہ کرے کہ ہم دعا کی روح کو سمجھنے والے اور اس کے آداب کو بھی مدّنظر رکھنے والے ہوں تا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کو جلد سے جلد جذب کرنے والے بن سکیں۔ کبھی یہ احساس ہمارے دل میں نہ آئے کہ ہم اتنی دعائیں کر رہے ہیں پھر بھی خدا تعالیٰ قبول نہیں کر رہا یا وہ نظارے نہیں دکھا رہا۔ اوّل تو اللہ تعالیٰ دعائیں قبول فرما رہا ہے۔ بلکہ ہماری معمولی دعاؤں کو، ہماری معمولی کوششوں کو اپنی رحمتِ خاص سے اتنے پھل لگا رہاہے کہ اُنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر یقین بڑھتا ہے۔ ایک تو جیسا کہ میں نے کہا کہ پاکستان میں جس طرح دشمن کے منصوبے ہیں اور اُن میں روز بروز جس طرح تیزی آ رہی ہے اس کے مقابلے میں اُن کی کامیابی کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر پاکستان میں ہی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں ترقی کر رہی ہے اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل ہیں جو وہ دیکھ رہی ہے اور پھر دنیا میں جس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو متعارف کروا رہا ہے اور ترقیات دکھا رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہماری معمولی کوششوں اور معمولی دعاؤں کے پھل ہیں۔ دوسری بات یہ کہ اگر کسی کے ذہن میں یہ ہلکا سا بھی شائبہ ہے کہ نعوذ باللہ ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ نہیں سنتا تو اُسے استغفار کرنی چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اور ہمارا کام مالک سے مانگتے چلے جانا ہے۔ اس کے بھی کچھ آداب ہیں اور یہ آداب ادا کرنا ہمارا کام ہے جنہیں ہم نے پوری طرح ادا کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کے آداب کے بارے میں ہمیں خاص طور پر توجہ دلاتے ہیں۔ آپ نے ہمیں بتایا کہ دعا کرتے ہوئے کبھی تھک کر مایوس نہیں ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ پر کبھی بدظنی نہیں کرنی چاہئے کہ وہ سنتا نہیں۔ ایک تو دعاؤں کی قبولیت قانونِ قدرت کے تحت اپنا وقت لیتی ہے، دوسرے قبولیت کے نظارے ضروری نہیں کہ اُسی صورت میں نظر آئیں جس صورت میں دعا میں مانگا جا رہا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ اور صورتوں میں اپنے پیار کا اظہار فرماتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلدنمبر2صفحہ693مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن 2003ء) جیسا کہ مَیں نے کہا کہ دنیا کی ترقیات میں، پاکستان کے احمدیوں کی قربانیوں اور دعاؤں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ تیسری یہ بات کہ بندے کو اپنے حال پر بھی غور کرنا چاہئے کہ کیا اُس نے خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرتے ہوئے اپنے سر کو اللہ تعالیٰ کے آستانے پر جھکایا ہے؟ پس غور کریں گے تو قصور بندے کا ہی نکلے گا۔
پھر ایک جگہ دعا کے آداب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ سے مانگنے کے واسطے ادب کا ہونا ضروری ہے اور عقلمند جب کوئی شے بادشاہ سے طلب کرتے ہیں تو ہمیشہ ادب کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اسی لئے سورۂ فاتحہ میں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے کہ کس طرح مانگا جاوے اور اس میں سکھایا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الفاتحہ: 2)۔ یعنی سب تعریف خدا کو ہی ہے جو ربّ ہے سارے جہان کا۔ اَلرَّحْمٰن۔ یعنی بلا مانگے اور سوال کئے کے دینے والا۔ الرَّحِیْمِ۔ یعنی انسان کی سچی محنت پر ثمراتِ حسنہ مرتب کرنے والا ہے۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ(الفاتحہ: 4)۔ جزا سزا اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے رکھے چاہے مارے‘‘۔ فرمایا ’’اور جزا سزا آخرت کی بھی اور اس دنیا کی بھی اُسی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ ایک جزا سزا اس دنیا کی ہے اور ایک آخرت کی، دونوں اُسی کے ہاتھ میں ہیں۔ فرمایا کہ’’جب اس قدر تعریف انسان کرتا ہے تو اُسے خیال آتا ہے کہ کتنا بڑا خدا ہے جو کہ ربّ ہے، رحمن ہے، رحیم ہے۔ اُسے غائب مانتا چلا آ رہا ہے‘‘۔ یعنی یہ دعا جب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر ایمان بالغیب ہوتا ہے’’اور پھر اُسے حاضر ناظر جان کر پکارتا ہے‘‘۔ یہ پہلی حالتیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ان پر ایمان بالغیب ہوتا ہے اور اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ کو وہ حاضر ناظر جانتا ہے، اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھتا ہے اور پھر پکارتاہے کہ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْن۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(الفاتحۃ: 6-5)۔ یعنی ایسی راہ جو کہ بالکل سیدھی ہے اس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے۔ ایک راہ اندھوں کی ہوتی ہے کہ محنتیں کر کے تھک جاتے ہیں اور نتیجہ کچھ نہیں نکلتا اور ایک وہ راہ کہ محنت کرنے سے اس پر نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ پھر آگے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ: 7) یعنی اُن لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا اور وہ وہی صراط مستقیم ہے جس پر چلنے سے انعام مرتب ہوتے ہیں۔ پھرغَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ۔ نہ اُن لوگوں کی جن پر تیرا غضب ہوا اور وَ لَاالضَّآلِّیْن۔ اور نہ اُن کی جو دُور جا پڑے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر2صفحہ679-680مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن 2003ء)
پس دعا کے آداب کا بھی ہمیں کچھ پتہ ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی بنیادی صفات جو ربّ، رحمان، رحیم، مالک یوم الدین ہے اُن پر کامل ایمان ہو اور جب ان صفات پر کامل اور مکمل ایمان ہو گا تو پھر ہی عبادت اور دعا کی طرف توجہ ہوتی ہے اور بندہ عاجزی سے اُس سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے۔ اُن انعامات کے حصول کے لئے اُسے پکارتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ اپنے خالص بندوں کو نوازتا ہے۔ یہ خوف رہنا چاہئے کہ میرا کوئی فعل کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والا نہ ہو۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں قائم ہو۔ ہمیشہ ایک عاجز بندہ اس کوشش میں ہوتا ہے کہ کبھی مَیں اپنے خدا سے دور نہ ہوں۔ کبھی وہ وقت نہ آئے جب مَیں خدا کو بھلانے والا بنوں۔ پس جب ایسی حالت ہوتی ہے تو دعائیں قبول ہوتی ہیں اور انعامات نزدیک کر دئیے جاتے ہیں، فتوحات کے نظارے دکھائے جاتے ہیں، دشمن کی تباہی اور بربادی نظر آتی ہے۔
پس جیسا کہ مَیں نے کہا آئیں اب پہلے سے بڑھ کر اپنے ایمان کو مضبوط کریں، خالص ہو کر اُس کے آگے جھکیں۔ اگر ہمارا دشمن انتہا تک پہنچ گیا ہے تو ہم بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مصرعے کے مصداق بننے کی کوشش کریں کہ ’نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں‘۔ (درثمین اردو، بشیر احمد، شریف احمداور مبارکہ کی آمین صفحہ58۔ الحکم 10دسمبر1901ء شمارہ نمبر45جلدنمبر5صفحہ 3کالم نمبر2)
یقینا جب ہم اپنے خدا کی مدد اُس میں ڈوب کر اُس سے مانگیں گے تو وہ دوڑتا ہوا آئے گا اور ہمارے مخالفین کو تباہ و برباد کر دے گا۔ اگر ایک بندہ جو اللہ تعالیٰ سے خالص تعلق رکھنے والا تھا بادشاہ کے درباریوں کو رات کے تیروں سے، رات کی اُن دعاؤں سے جو عرش کے پائے ہلا دیا کرتی ہیں، اُن دعاؤں سے شکست دے سکتا ہے اُنہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے، اُن درباریوں کو یہ کہنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ ہم ان تیروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ (ماخوذ از تعلق باللہ صفحہ نمبر 2-3 تقریر حضرت مصلح موعودؓ جلسہ سالانہ 28؍دسمبر1952ء) تو یقینا ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی تھی کہ مَیں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں۔ (تذکرہ صفحہ نمبر630مطبوعہ ربوہ ایڈیشن چہارم 2004ء) اگر ہم دعائیں کریں گے، رات کے تیروں سے دشمن کا مقابلہ کریں گے تو یقینا ہماری کامیابی ہے۔ لیکن شاید اُن درباریوں کے اندر کوئی نیکی کی رَمق تھی جس کی وجہ سے اُن درباریوں نے اُس بزرگ کو رات کے تیروں کے خوف سے تنگ کرنا، خوف کی وجہ سے تنگ کرنا چھوڑ دیا اور اپنی جگہ بدل لی، گانے بجانے چھوڑ دئیے۔ لیکن ان لوگوں کو جو آج مولوی کہلاتے ہیں، علماء کہلاتے ہیں، جو رسول کے نام پر، اُس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جو رحمت للعالمین ہے، ظلم کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں اِن میں تو کوئی نیکی کی رَمق نہیں ہے۔ انہیں تو نہ خدا پر یقین ہے نہ رسول پر یقین ہے۔ ان سے تو کوئی بہتری کی امیدنہیں کی جا سکتی۔ ان کا مقدر تو اب لگتا ہے کہ صرف تباہی ہے جو صرف اور صرف ہمارے رات کے تیروں سے ہو سکتی ہے۔ ہم اُس مسیح محمدی کے غلام ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے تسلی دی تھی، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ، ’’مَیں تیرے اور تیرے پیاروں کے ساتھ ہوں‘‘۔ پس جب ہم اپنے پیارے خدا کو خالص ہو کر پکاریں گے، اپنی راتوں کے تیروں کو دشمن پر چلائیں گے تو یقینا خدا اپنی قدرت کے خاص نشان دکھائے گا۔ پس دعا ایک ایسا ہتھیار ہے کہ اگر کوئی اس سے کامل یقین اور خالص ہو کر کام لے تو کوئی اس کے مقابلے پر ٹھہر نہیں سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اور اُس کے فرستادے ہیں اور وہ عظیم ہستی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس زمانے میں بندے کو خدا سے ملانے کے لئے آئے تھے تو پھر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آپ سے جو وعدے ہیں وہ پورے ہوں گے اور ضرور پورے ہوں گے انشاء اللہ۔ کیونکہ ہمیں اس بارے میں ہلکا سا بھی شک نہیں کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے پورے نہیں فرماتا۔ وہ اپنے وعدے پورے فرماتا ہے اور ضرور فرماتا ہے، وہ سچے وعدوں والا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ سے لے کر آج تک مخالفتوں کی آندھیاں چلتی رہی ہیں یہاں تک کہ ایک وقت میں خلافتِ ثانیہ میں قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی احراریوں نے بَڑ ماری تھی۔ پھر ایک شخص نے حکومت کے نشے میں جماعت احمدیہ کے ہاتھوں میں کشکول پکڑانے کی بَڑ ماری تھی۔ پھر کسی نے اپنی حکومت کے نشے میں احمدیت کو کینسر کہہ کر اُسے جڑ سے اکھیڑنے کی قسم کھائی تھی لیکن نتیجہ کیا ہوا کہ آج احمدیت دنیا کے دو سو ممالک میں پھیل چکی ہے۔ پس یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کاپیارا سلسلہ ہے جس نے اپنے پیارے کو اس زمانے میں بھیج کر اسلام کی آبیاری کے لئے اس سلسلے کو جاری فرمایا ہے۔ اور ہر آن ہم اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نظارے دیکھتے ہیں۔ پس اگر فکر کی کوئی بات ہو سکتی ہے تو یہ نہیں کہ حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا کے سچے اور فرستادے نہیں۔ یا یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنے وعدوں کو نعوذ باللہ پورا نہیں فرما رہا بلکہ فکر صرف اس بات پر ہونی چاہئے کہ ہم اپنے فرض کو احسن طورپر ادا کرنے والے ہیں یا نہیں؟ ہم دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہیں یا نہیں، ہم انابت الی اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں یا نہیں؟ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے جھکنے والے ہیں یا نہیں؟ پس اب یہ ہمارا کام ہے کہ اپنا فرض ادا کریں۔ اپنے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ظالمانہ الفاظ سُن کر اور پڑھ کر صرف افسوس کرنے والے اور دلوں کی بے چینی کا ظاہری اظہار کرنے والے نہ ہوں بلکہ اپنی راتوں کی دعاؤں سے خدا تعالیٰ کی تقدیر کو جلد تر اپنے حق میں پورا کروانے کی کوشش کرنے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں انفرادی طورپر اور اجتماعی طور پر بھی ایسی دعاؤں کی توفیق دے جو اُس کے رحم اور فضل کو کھینچنے والی ہوں۔ ہم ایسی دعائیں کرنے والے ہوں جو عرشِ الٰہی کو ہلا دیں اور اللہ تعالیٰ اپنی فوجوں کو حکم دے، اپنے فرشتوں کو حکم دے کہ جاؤ اور جا کر ان مظلوموں کی مدد کرو۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کویہ کہے کہ جو مجھے اس دعا کے ساتھ پکار رہے ہیں کہ اِنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ۔ (تذکرہ صفحہ نمبر71مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن چہارم 2004ء) اے میرے خدا! میں مغلوب ہوں میرا انتقام دشمنوں سے لے۔ فَسَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔ (تذکرہ صفحہ نمبر426مطبوعہ ربوہ۔ ایڈیشن چہارم 2004ء) پس ان کو پیس ڈال۔ پس جاؤ اور ان مظلوموں اور بے کسوں کی مدد کرو جن کو اکثریت اپنی اکثریت کے زعم میں ظلموں کا نشانہ بنا رہی ہے۔ جن کو حاکم ظالمانہ قوانین کے تحت ہر حق سے محروم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جن کو مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار اسلام کے نام پر صفحہ ہستی سے مٹانے کے دعوے کر رہے ہیں۔ جن کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے میرے فرستادے کی آواز پر یہ اعلان کیا کہ ہم نے منادی کی آواز کو سنا اور ہم ایمان لائے۔ پس اے فرشتو! جاؤ اور دنیا کو ان کی مدد کر کے بتا دو کہ یہ لوگ میری آواز پر لبیک کہنے والے ہیں۔ پس مَیں ان کا والی ہوں اور میں ان کو حامی و مددگار ہوں۔ آج بھی میرا یہ اعلان سچ ہے کہ نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْر(الانفال: 41)۔ پس کیا ہی اچھا آقا ہے اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔ پس جو بھی ان سے ٹکرائے گا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ میری گرفت میں آئے گا۔
پس خدا تعالیٰ کے اس پیار کے سلوک کو حاصل کرنے کے لئے ہر احمدی خدا تعالیٰ کے آگے جھک جائے، دعائیں کرے، یہاں تک کہ عرشِ الٰہی سے ہمارے دشمنوں کے خلاف ہماری مدد کا حکم جاری ہو جائے۔ ہم کمزور ہیں، ہم ان حرکتوں کا بدلہ نہیں لے سکتے جو یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کر کے کر رہے ہیں۔ پس ایک ہی علاج ہے کہ اپنی سجدہ گاہوں کو تَر کریں۔ اپنے مولیٰ، بے کسوں کے والی اور مظلوموں کے حامی کو پکاریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کو پکاریں جس نے کمزور اور نہتے مسلمانوں کو محکوم سے حاکم بنا دیا، جس نے دشمن کا ہر مکر اُن پر الٹا دیا۔
پس اے خدا! آج ہم تجھ سے تیری رحمت اور جلال کا واسطہ دے کر یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ زمین جو تیرے پیارے رسول کے ماننے کا دعویٰ کرنے والوں نے اپنے ملکوں میں، اپنے مفادات اور اَناؤں کی تسکین کے لئے تیرے مظلوم بندوں پر تنگ کی ہوئی ہے، یہ لوگ اسے ہمارے لئے خاردار اور جنگل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اپنی رحمتِ خاص سے اسے ہمارے لئے جنت بنا دے۔ ہمارے لئے اسے گل و گلزار کر دے۔ ہمیں تقویٰ میں ترقی کرنے والا بنا دے۔ ہمیں اپنا نہ ختم ہونے والا وصال عطا فرما۔ ہماری دعاؤں کو ہمیشہ قبولیت بخش۔ ہمیں اُمّتِ مسلمہ کی اکثریت کو نام نہاد علماء کے چُنگل سے نکال کر اپنے حبیب کے عاشقِ صادق کی جماعت میں شامل کرنے کی توفیق عطا فرما ئے تا کہ اُمت مسلمہ خیرِ اُمّت ہونے کا حق ادا کرنے والی بن جائے اور دنیا کو ظلم سے پاک کرے۔ اے ارحم الراحمین خدا! تُو ہم پر رحم فرماتے ہوئے ہمیں اس کی توفیق عطا فرما۔
اس وقت ایک افسوسناک خبر ہے، پاکستان میں انہی ظالموں کے ظلم کا نشانہ ایک اور احمدی بنے ہیں، جن کو چند دن ہوئے شہید کر دیا گیا۔ مکرم ماسٹر رانا دلاور حسین صاحب شہید ابن محمد شریف صاحب، شیخوپورہ کے تھے۔ ماسٹر دلاور حسین صاحب کی 25؍مئی 1969ء کی پیدائش ہے۔ شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی۔ پھر بی۔ اے کیا۔ ٹیچر ٹریننگ کورس کیا اور یکم اکتوبر 2011ء کو ہفتے کے دن دوپہر ساڑھے بارہ بجے نامعلوم قاتل افراد سکول میں کلاس روم کے اندر آئے جبکہ آپ کلاس میں پڑھا رہے تھے اور آپ پر فائر کئے۔ ایک گولی گردن پر لگی اور پیٹ میں لگی اور آپ کو شہید کر دیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
سکول میں تو زخمی حالت میں تھے کافی حالت خراب تھی، ہسپتال لے جایا جا رہا تھا رستے میں شہادت ہو گئی۔ یہ نو احمدی تھے۔ طبیعت میں شروع ہی سے دینی امور میں دلچسپی اور حق کی تلاش اور جستجو تھی۔ آپ مختلف علماء سے ملتے تھے اور کتب کے مطالعہ میں مصروف رہتے تھے۔ اسلامی فرقوں کے متعلق ریسرچ آپ کا معمول تھا۔ چنانچہ سعید فطرت ہونے اور ذاتی تحقیق کی بنا پر آپ ان باتوں کو (جو آج کل بدعات پھیلی ہوئی ہیں، علماء پھیلاتے ہیں) بیعت سے پہلے ہی ترک کر چکے تھے۔ جو باتیں آج رسم و رواج کی صورت میں اسلام میں راہ پا گئی ہیں ان سے آپ کو نفرت تھی مثلاً قُل ہے، تعویذ گنڈے، ختم وغیرہ اور بیعت سے پہلے ہی اپنے عزیزوں کو بھی یہ کہا کرتے تھے کہ چھوڑو یہ فضولیات ہیں۔ احمدیت کا پیغام آپ تک آپ کے بعض عزیزوں کی طرف سے پہنچا جس پر آپ جماعت کے متعلق تحقیقات کی غرض سے متعدد بار اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ ربوہ بھی آئے اور مختلف جماعتی رسائل اور کتب کے مطالعہ کے علاوہ ایم ٹی اے پر نشر ہونے والے پروگرام سنتے رہے۔ اسی دوران آپ کی ملاقات وہیں ایک معروف احمدی سے ہوئی۔ اُن کے رابطہ میں رہنے لگے اور کچھ عرصے بعد آپ نے بیعت کا ارادہ کر لیا۔ جب آپ کو کہا گیا کہ ابھی کچھ وقت مزید تحقیق کر لیں اور تسلی کر لیں پھر آپ کی بیعت لیں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ بس اب میری بیعت لے لیں۔ کیا پتہ کس دوران میری موت آئے اور میں جہالت کی موت نہیں مرنا چاہتا اس لئے آپ میری بیعت لیں۔ چنانچہ 29؍ستمبر 2010ء کو یہ اپنے بیوی بچوں سمیت احمدیت کی آغوش میں آگئے اور بیعت کرنے کے بعد غیر معمولی اخلاقی اور روحانی تبدیلی رونما ہوئی۔ نہ صرف یہ کہ نمازوں میں مزید توجہ پیدا ہوئی۔ قرآنِ کریم کی تلاوت کے پابند ہو گئے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے۔ گھر پر نماز باجماعت کا اہتمام کرواتے تھے۔ خلافت سے بھی آپ کو والہانہ عشق تھا۔ بیعت کے فوراً بعد گھر میں ایم ٹی اے کا انتظام کروا لیا۔ نہ صرف خود دیکھتے تھے بلکہ بچوں کو بھی ساتھ لے کے دکھاتے تھے۔ ایم ٹی اے کے اکثر پروگرام سنتے تھے۔ دعوت الی اللہ کا جذبہ اور شوق غیر معمولی طور پر بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ اپنے عزیزوں اور ساتھی ٹیچرز کی دعوتوں کا اہتمام فرماتے تھے اور مقامی مربی سے ان کا رابطہ مسلسل کرواتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ جماعتی سی ڈیز اور ایم ٹی اے اور جماعتی کتب و رسائل ان تک پہنچاتے تھے اور خود بھی مختلف کتب اپنے زیرِ مطالعہ رکھتے تھے۔ ایک مربی صاحب نے مجھے لکھا کہ تبلیغ کرنے کے معاملے میں بڑے نڈر تھے۔ اسی طرح خلافت سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب نام آتا یا ان کی تصویریں دیکھتے تھے تو بڑا عقیدت و احترام ان کی آنکھوں میں نظر آتا تھا۔ مربیان اور معلمین اور جماعتی عہدیداروں سے غیر معمولی اخلاص و وفا کا تعلق رکھتے تھے۔ مہمان نوازی کی صفت ان میں بہت نمایاں تھی۔ جمعہ پڑھنے کے لئے باقاعدگی سے جاتے اور اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے کر جاتے۔ انہیں اپنے بچوں کی تربیت کی بہت فکر تھی اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا چھوٹا بیٹا مربی بنے۔ ہر قربانی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ بیعت کے فوراً بعدجماعتی چندہ جات میں بھی شامل ہوئے۔ آپ کو بیعت کے بعد بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ عزیزوں رشتہ داروں نے آپ کا بائیکاٹ کر دیا لیکن اس بائیکاٹ کے باوجود آپ ایمان میں پختہ ہوتے چلے گئے۔ آخر ان کے گھر والے بعض مولویوں سے ان کے بحث مباحثہ بھی کرواتے رہے لیکن مولویوں کے پاس تو کوئی دلیل نہیں وہ عاجز آ جاتے تھے۔ مولویوں نے ان کے گھر کے سامنے ایک جلسہ کیا، اکیلے اُس میں چلے گئے اور جب مولویوں کو کچھ بات نہ بنی تو کفر کے فتوے اور واجب القتل کے فتوے دینے لگے لیکن آپ بلا خوف اس جلسے میں شامل رہے اور اُن مولویوں کے ساتھ دلائل کے ذریعہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن مولویوں کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی آخر وہ گالیاں دے کر وہاں سے چلے گئے۔
آپ کی پہلے ایک شادی ہوئی تھی لیکن وہ بیوی وفات پا گئی تھیں۔ پھر 93ء میں پہلی بیوی کی دوسری بہن سے شادی ہوئی، اُن سے آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں جن کی عمریں 17سال، 15سال، 9 سال، 5سال ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بیوی بچوں کو بھی استقامت عطا فرمائے۔ ایمان میں ترقی دے اور ان کا حامی و ناصر ہو۔ صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کا جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد ادا کروں گا انشاء اللہ۔
ایک دوسرا جنازہ غائب ہے جو ہمارے فضلِ عمر ہسپتال کے بہت پرانے کارکن عبدالجبار صاحب ابن مکرم فضل دین صاحب کاہے۔ 4؍اکتوبر کو صبح آٹھ بجے 69 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ کافی لمبے عرصے سے بیمار تھے۔ دل کی تکلیف تھی۔ ان کاعلاج تو بہرحال ہو رہا تھا۔ لیکن اس تکلیف کے باوجود اپنے فرائض بڑی خوش اسلوبی سے انجام دیتے تھے۔ تقریباً پینتالیس سال تک فضلِ عمر ہسپتال میں ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ انہوں نے پرانے بزرگوں کی خدمات کی ہیں۔ ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی کافی خدمت کا موقع ملا۔ بڑے ملنسار اور منکسر المزاج تھے بلکہ مَیں نے دیکھا ہے کہ ہسپتال کے عملے میں سب سے زیادہ خوش اخلاق یہی تھے اور مریض ان کو پسند بھی بہت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
تیسرا جنازہ ناصر احمد ظفر صاحب ابن مکرم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب کاہے۔ یہ بھی گو سرکاری ملازم تھے لیکن مختلف موقعوں پر ان کو جماعتی خدمات کرنے کی توفیق ملی اور ریٹائرمنٹ کے بعد مستقل وقف کی طرح انہوں نے جماعت کی خدمات انجام دی ہیں اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ ان کا اچھا میل جول تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث بھی، خلیفۃ المسیح الرابع بھی، اور ان کے بعد مَیں بھی مختلف لوگوں سے تعلق کی وجہ سے ان کو مختلف کاموں کے لئے بھیجتا رہتا تھا۔ علاقے کے ایک اچھے شوشل ورکر بھی تھے اور تعلقات بھی ان کو رکھنے آتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور ہمت عطا فرمائے۔
یہ تمام جنازے ابھی انشاء اللہ نمازوں کے بعد ادا ہوں گے۔