خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21؍ اکتوبر 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ یورپ کے مختلف ممالک کے دورے پر رہا ہوں جس میں جرمنی، ناروے، ہالینڈ، ڈنمارک، بیلجیم وغیرہ شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دورے کے دوران ہر آن اللہ تعالیٰ کے فضل دیکھے۔ ہمیشہ کی طرح جہاں جماعتوں کے اندر بھی ایمان و اخلاص اور وفا کے نمونے نظر آئے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیروں میں بھی جماعت کا اثر اور غیروں کی جماعت کے ساتھ تعلق بڑھانے اور قائم کرنے کی کوشش اور اسلام کو سمجھنے کی طرف غیر معمولی توجہ بھی پہلے سے زیادہ نظر آئی۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جماعت کا ہر قدم جو ترقی کی طرف اٹھتا ہے، ہماری کوشش سے بڑھ کرحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو تعارف اور آپ کے حوالے سے اسلام کا جو حقیقی پیغام دنیا کو پہنچ رہا ہے، اُس کے مثبت نتائج نکل رہے ہیں۔ اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر ایک احمدی کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ اگر صرف انسانی کوششوں کا سوال ہو تو ہماری دنیاوی لحاظ سے بالکل چھوٹی سی جماعت کی طرف کبھی کسی کی نظر نہ ہو۔ پس یہ توجہ اور ترقیات کے خدائی وعدے ہیں جو پورے ہو رہے ہیں اور ہمیں نظر آتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’ہماری جماعت کے متعلق خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے وعدے ہیں۔ کوئی انسانی عقل یا دور اندیشی یا دنیاوی اسباب ان وعدوں تک ہم کو نہیں پہنچا سکتے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 333 مطبوعہ ربوہ)
پھر اس بات کا اظہار فرماتے ہوئے کہ جو لوگ ہمارے مخالف ہیں، سمجھتے ہیں کہ اپنے خیال سے اور دنیاداری کی طرز پر یہ بھی کوئی فرقہ بن گیا ہے جیسا کہ آج کل بھی مسلمانوں کی اکثریت جماعت کے متعلق یہ خیال کرتی ہے یا اکثریت کو اُن کے علماء نے اس طرف ڈال دیا ہے کہ شاید یہ بھی کوئی دنیاوی تنظیم ہے اور طرح طرح سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بدنام کیا جاتا ہے، آپ کو طرح طرح کے نام دئیے جاتے ہیں اور ہمارے دلوں پر نیش زنیاں کی جاتی ہیں۔ بہر حال جو بھی یہ لوگ سمجھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں جانتا ہوں کہ خدا نے اس سلسلے کو قائم کیا ہے اور اُسی کے فضل سے اس کا نشوونما ہو رہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کا ارادہ نہ ہو کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور نہ ہی اُس کا نشوونما ہو سکتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کے لئے چاہتا ہے تو وہ قوم بیج کی طرح ہوتی ہے۔ جیسے قبل از وقت بیج کے نشوونما اور اُس کے آثار کو کوئی نہیں سمجھ سکتا اس قوم کی ترقیوں کو بھی محال اور ناممکن سمجھتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 333 حاشیہ، مطبوعہ ربوہ)
پس یہ خدا تعالیٰ کی جماعت ہے۔ ہر آن اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیں جماعت کے ساتھ نظر آتی ہے۔
جماعتی ترقی دیکھ کر دنیا دار اور مخالفینِ احمدیت اور زیادہ بوکھلا گئے ہیں اس لئے جماعت کی دشمنی بھی آجکل زوروں پر ہے۔ میں گزشتہ خطبوں میں اس کی طرف توجہ بھی دلا چکا ہوں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے یہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہے کہ جماعت ترقی کرے اور اسلام کا غلبہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کے ذریعے سے ہو اور یہ ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ ان مخالفین کی تمام کوششیں اور دشمنیاں رائیگاں جائیں گی اور ہر سعید فطرت اس جماعت کی آغوش میں آئے گا۔ انشاء اللہ۔
بہر حال جیسا کہ مَیں ہر سفر کے بعد عموماً سفر کے حالات مختصراً بیان کرتا ہوں آج بھی آپ کے سامنے کچھ بیان کروں گا۔ تفصیلات تو جو رپورٹس الفضل میں شائع ہو رہی ہیں، اُن میں کچھ حد تک آ جائیں گی۔ بعض باتیں مَیں بیان کر دیتا ہوں جس سے اللہ تعالیٰ کے مختلف رنگ میں جو فضل ہو رہے ہیں اُن پر کچھ روشنی پڑتی ہے۔ اپنوں کو، احمدیوں کو تو دوروں کے دوران ملنے سے فائدہ ہوتا ہی ہے۔ غیروں کو، دنیا داروں کو جن کی اسلام کی طرف توجہ ہو رہی ہے اُن کو بھی فائدہ ہو رہا ہوتا ہے۔ اسلام کی اصل تصویر پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔ بعض پڑھے لکھے اور سیاستدان یا حکومت کے سرکردہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید دنیاوی فائدے کی خاطر یا ماحول کو بہتر کرنے کی خاطر اپنے اپنے ماحول میں احمدی اپنے ملنے جلنے والوں کو امن اور محبت کا پیغام دیتے ہیں اور اسلام کی ایک خوبصورت تصویر دکھاتے ہیں۔ اکثر جگہ میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ لوگ میرے سے براہِ راست سننا چاہتے ہیں کہ احمدیت کیا ہے؟ بیشک اُن کو پہلے احمدیوں نے بتایا بھی ہو۔ لیکن اپنی تسلی کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ خود میرے سے سنیں۔ پس ان ملاقاتوں سے جو غیروں کے ساتھ ہوتی ہیں، علاوہ دوسری باتوں اور تعلقات کی وسعت کے، اسلام کے بارے میں خاص طور پر پڑھے لکھے لوگوں کے ذہنوں سے، شکوک و شبہات دور کرنے کا موقع ملتاہے۔
جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا اور بعض موقعوں پر اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں کہ جرمنی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ اور تعلقات کی وسعت میں ایک خاص کوشش کر رہی ہے۔ اب ان کی کوششیں جو ہیں وہ پہلے سے بہت بڑھ کر ہیں اور اس کی وجہ سے اسلام کا پیغام اور جماعت کا تعارف بہت بڑھ کر جرمن قوم میں پہنچ رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے ان تعلقات رکھنے والے بعض پڑھے لکھے لوگوں کو مجھ سے ملوانے کا انتظام کیا ہوا تھا، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اُن کو ہمارے نوجوانوں نے ملوانے کا انتظام کیا تھا۔ چنانچہ فرینکفرٹ میں تو یونیورسٹی کے دو پروفیسر ملنے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں جرمنی میں نوجوانوں میں کچھ عرصے سے کافی بیداری دیکھ رہا ہوں۔ ان کے تعلقات بھی وسیع ہو رہے ہیں اور تبلیغ کی طرف بھی رجحان ہے۔ بہر حال چند ملاقاتوں کا یہاں ذکر کروں گا اور ساتھ ہی جہاں جہاں دوسرے جماعتی پروگرام ہوئے، ان کا بھی ذکر آتا رہے گا۔
جرمنی میں ماربرگ (Marburg) یونیورسٹی ہے، اُس کے دو پروفیسر ملنے آئے تھے۔ دونوں پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ پیری ہیکر (Pierre Hecker) اور البیشٹ فوش (Albpecht Fuess)۔ اور یہ دونوں یونیورسٹی میں اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر ہیں۔ عربی بھی ان کو آتی ہے، اسلام کا علم بھی کافی ہے۔ اور اُن میں سے ایک جو تھے انہوں نے ترکی زبان میں سپیشلائزیشن کی ہوئی ہے۔ ان کے مضامین اسلامی تاریخ کے تھے۔ پھر ان سے اسلامی تاریخ کے بارے میں بھی باتیں ہوئیں۔ ان کو میں نے یہی کہا کہ جو آپ کے مؤرخین ہیں، یا ایسے مؤرخین جو مغربی مؤرخین سے متاثر ہوئے ہوئے ہیں، صرف اُن کی کتابیں نہ پڑھیں بلکہ عربی جانتے ہیں تو بعض دوسرے مؤرخین جن کے اصل ماخذ عربی ہیں یا دوسرے ماخذ ہیں، پھر احادیث ہیں اُن کو بھی آپ کو دیکھنا چاہئے۔ اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی جو سیرۃ النبی کی کتاب ہے اُس کا ایک حصہ ترجمہ ہو چکا ہے، اُن کو میں نے کہا ہے کہ وہ مہیا کی جائے وہ بھی پڑھیں۔ اُس سے آپ کو پتہ لگے گا کہ کس طرح ایک تو سیرت بیان کی گئی ہے۔ دوسرے کچھ اعتراضات کے جواب دئیے گئے ہیں۔ اللہ کرے کہ باقی حصہ بھی اُس کا ترجمہ ہوجائے۔ بہرحال یہ بڑی اچھی کتاب ہے ایسے لوگوں کے لئے جن کو سیرت کے ساتھ ساتھ اسلام پر کئے گئے اعتراضات کے بھی کچھ نہ کچھ جواب مل جاتے ہیں۔ ان کی یونیورسٹی کی لائبریریوں میں Five Volume Commentary بھی اور سیرت کی یہ کتاب جو انگلش میں ترجمہ ہو چکی ہے رکھوانے کا بھی کہا ہے، انشاء اللہ پہنچ جائے گی۔ اُن کو مَیں نے ایم۔ ٹی۔ اے کا بھی کہا کہ دیکھیں۔ اس کو دیکھنے سے بہت سارے سعید فطرت جو ہیں اُن کو اسلام کی حقیقت کے بارے میں پتہ لگ رہا ہے، صحیح تعلیم پتہ لگ رہی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ مصر کی الازہر یونیورسٹی میں آپ کے بارہ میں کیا سوچ ہے۔ وہاں کوئی بات ہوئی؟ تو اُن کو میں نے کہا کہ اُن کے پروفیسروں سے بھی چند سال پہلے بات چیت چلتی رہی اور اس پر پھر ہمارے عربی ڈیسک والوں نے اور شریف عودہ صاحب وغیرہ نے اُن کو بھجوانے کے لئے ایک کتاب تیار کی تھی جو اُن کو بھیجی گئی تھی لیکن ان لوگوں کے دل سخت ہیں، وہ مانتے نہیں لیکن جو سعید فطرت ہیں وہ اگر پڑھیں تو اُن کے دل بہرحال کھلتے ہیں۔ تو یہ لمبی گفتگو تھی جو ایسے لوگوں سے ہوئی اور وہ بعد میں کافی اثر لے کر گئے۔
فرینکفرٹ میں ارد گرد کے ماحول میں کچھ فاصلے پر (کچھ فاصلے سے مراد ہے) ایک ڈیڑھ سو کلو میٹر سے زیادہ اور ایک تقریباً ستّر اسّی کلو میٹر کے اندر دو مساجد کے سنگِ بنیاد رکھنے کا بھی موقع ملا۔ وہاں ایک مسجد کی تقریب سنگِ بنیاد میں میئر کے نمائندے کے طور پر اُن کے ڈپٹی میئر جو تھے وہ آئے ہوئے تھے۔ اس تقریب میں جو انہوں نے بھی کچھ الفاظ کہے، اور میں نے بھی مسجد کے حوالے سے کچھ باتیں کیں لیکن بعد میں باتیں کرتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ میں نے سنا ہے(یہ دیکھیں جہالت کا جو تصور ہے یہ صرف پرانا نہیں ہے بلکہ آج اس پڑھے لکھے زمانے میں اور یورپ میں بھی یہ تصور قائم ہے) کہ غیر مسلم کو قرآنِ کریم کاپڑھنا یا دیکھنا اسلام میں جرم ہے۔ میں نے کہا آپ کو یہ کس نے بتایا؟ ابھی آپ نے تلاوت سنی، اس کا ترجمہ سنا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو تمام دنیا کے لئے آئے تھے، تمام انسانوں کے لئے آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ اعلان کروایا اور قرآنِ کریم تو ہر سعید فطرت کے لئے رحمت اور علاج ہے۔ اس لئے بالکل غلط آپ نے سنا ہے۔ بلکہ ہمارے ترجمے چھپے ہوئے ہیں۔ آپ کو دئیے جائیں گے آپ پڑھیں۔ یہ ہے تصور قرآنِ کریم کی تعلیم کا جو بعض مسلمان حلقوں کی طرف سے آج بھی بعض جگہوں پر پیش کیا جاتا ہے اور احمدی جو قرآنِ کریم کی اشاعت کے لئے کوشش کر رہے ہیں اس میں روکیں ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ضمناً میں ذکر کر دوں کہ گزشتہ دنوں انڈیا میں، دہلی میں بڑے اچھے علاقے میں قرآنِ کریم کی ایک نمائش ہوئی۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کے بارہ میں یہ بڑی وسیع نمائش تھی اور بڑے خوبصورت طریقے سے سجائی گئی تھی۔ ہندو، سکھ، عیسائی اور اچھے پڑھے لکھے مسلمان بھی اُس میں آئے، دیکھتے رہے۔ تین دن کی نمائش تھی۔ پہلے دو دن تو علماء جو نام نہاد علماء ہیں انہوں نے اتنا شور مچایا اور پریشر ڈالا کہ وہاں حکومت کو خیال پیدا ہوا کہ کہیں فسادنہ پیدا ہوجائے۔ اس لئے تیسرے دن حکومت نے جماعت کودرخواست کی کہ یہ نمائش بند کر دی جائے۔ وہاں کے بڑے بڑے اخباروں نے اس کی بڑی تعریف کی کہ بڑی اعلیٰ نمائش تھی اور قرآنِ کریم کی تعلیم اور قرآنِ کریم کی حکمت کے بارے میں ہمیں اب پتہ لگا ہے۔ بعض مسلمانوں نے یہ تبصرے کئے کہ قرآن شریف کی تعلیم کا ایسا خوبصورت علم تو ہمیں پہلے تھا ہی نہیں لیکن یہ مسلمان ہمیشہ روڑے اٹکاتے رہتے ہیں، ایسے ایسے غلط تصور ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
پھر مجھے ایک اور بات یاد آ گئی۔ مَیں کل پرسوں کی ڈاک میں دیکھ رہا تھا۔ ایک شخص نے پاکستان سے لکھا کہ کہیں مَیں اپنے کسی غیر احمدی دوست کے ہاں افسوس کرنے گیا تو وہاں باتیں ہوتی رہیں۔ ایک صاحب وہاں کہنے لگے کہ مَیں نے سنا ہے کہ احمدی ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ احمدی کرنے سے پہلے تمہیں ایک کمرے میں بند کر دیتے ہیں، وہاں الماری پر قرآنِ کریم رکھ دیتے ہیں، پھر اُس کو کہتے ہیں الماری کو ہلاؤ اور دھکے دو، اگر قرآنِ کریم گر جائے تو سمجھو کہ تم پکّے احمدی ہو گئے۔ یہ تصورات ہیں، اس قسم کی جھوٹی باتیں ہیں۔ سوائے اس کے کہ ان لوگوں پر لعنت بھیجی جائے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے اس طرح قوم کو بیوقوف بنا دیا ہے کہ کوئی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی۔
بہر حال جرمنی کے حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں تو جرمنی میں فرینکفرٹ کے قیام کے دوران (جیسا کہ آپ نے ایم۔ ٹی۔ اے کے ذریعے بھی دیکھ لیا کہ) خدام اور اطفال اور لجنہ کے اجتماعات بھی ہوئے، اُن میں شمولیت کی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے وہاں جانے اور اجتماع میں شامل ہونے کے فیصلے میں اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت ڈالی۔ پہلی مرتبہ مَیں نے اجتماع میں اطفال کو اُن کے مطابق کچھ باتیں کہیں اور وہیں مجھے خط آنے لگ گئے کہ ہم اب ان نصائح پر عمل کریں گے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے۔ موبائل فون رکھنے کی اور اس قسم کی باتیں جو بچوں میں پیدا ہو رہی ہیں ان کی میں نے بعض مثالیں بھی پیش کی تھیں۔ ٹی وی یا انٹرنیٹ پر مستقل جو بیٹھے رہتے تھے بلکہ مستقل چمٹے رہتے ہیں انہوں نے اس سے پرہیز کرنے کا وعدہ کیاہے۔ اصل چیز اعتدال ہے۔ ہمارے بچوں اور بڑوں کو پتہ ہونا چاہئے کہ ہر جائز کام بھی اعتدال کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے۔ اور غلط اور ناجائز کے تو قریب بھی نہیں جانا۔ پس یہ روح اگر ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو ان بچوں اور نوجوانوں کا مستقبل بھی محفوظ ہو جائے گا اور جماعت کی مجموعی تربیت میں بھی اس سے ترقی ہوتی ہے۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ نے بھی میری باتیں سُن کر جس طرح مثبت ردّعمل دکھایا ہے اللہ تعالیٰ ان کو اس پر مستقلاً عمل کرنے کی بھی توفیق دے اور ان کو جزا دے کہ فوری طور پر بات سن کر پھر لبیک بھی کہتے ہیں۔ لجنہ میں بھی بڑا اچھا پروگرام ہوا۔ اس کا ذکر بھی پہلے مَیں کر چکا ہوں۔ لیکن ایک بات کی طرف لجنہ کو بلکہ ساری دنیا کی لجنہ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میرے اس خطبے کے حوالے سے ایک خاتون نے لکھا کہ مین ہال میں تو بڑا اچھا ماحول تھا۔ خاموشی سے آپ کا خطاب سنا گیا لیکن جو بچوں کا ہال تھا اُس میں بچوں کا شور تو جو ہوتا ہے وہ تھوڑا بہت ہوتا ہی ہے۔ مائیں خود اس حوالے سے کہ دُور بیٹھی ہیں بے تحاشہ باتیں کر رہی ہوتی ہیں۔ تو لجنہ میں جو علیحدہ مارکی یا علیحدہ ہال ایسی عورتوں کو دیا جاتا ہے جن کے بچے ہیں اُن کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ بچوں کو حتی الوسع اشارے سے خاموش کرانے کی کوشش کریں اور خود تقریر کی طرف توجہ دیا کریں۔ جو پروگرام ہو رہا ہے اُس کی طرف توجہ دیا کریں اور سنا کریں۔ یہ ہال اُن کو اس لئے نہیں دیا جاتا ہے کہ خود بیٹھ کے اپنی گپیں اور اپنی کہانیاں شروع کر دیں۔ آئندہ سے اس بارے میں بھی احتیاط ہونی چاہئے اور انتظامیہ کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔
فرینکفرٹ میں دوسرے جماعتی پروگرام بھی ہوتے رہے ہیں جیسا کہ میں نے کہا رپورٹ میں ان کا ذکر آ جائے گا۔ بہر حال یہ قیام وہاں قریباً دو ہفتے کا تھا۔
اُس کے بعد وہاں سے ناروے روانگی ہوئی۔ جیسا کہ آپ لوگوں نے خطبے میں سن لیا ہے کہ ناروے میں مسجدنصر کا افتتاح ہوا۔ ماشاء اللہ بہت خوبصورت مسجد ہے۔ یہاں سے بھی بعض لوگ گئے ہوئے تھے انہوں نے دیکھی ہے۔ بہت بڑی ہے اور صرف شمالی یورپ کی بہت بڑی مسجدنہیں ہے بلکہ میرا خیال ہے کہ مسجد بیت الفتوح کے بعد (خیال نہیں بلکہ یقین ہے) یقینا یہ مسجد یورپ کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ وہاں کی جماعت تو بہت چھوٹی ہے لیکن اس مسجد کو دیکھ کر لگتا ہے کہ بہت بڑی جماعت ہے یا یہ بہت امراء کی جماعت ہے لیکن دونوں باتیں غلط ہیں۔ نہ یہ بڑی جماعت ہے نہ وہاں امیر لوگ زیادہ ہیں۔ صرف خیال آنے اور احساس پیدا ہونے کی ضرورت تھی۔ وہ جب آیا تو توجہ پیدا ہوئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے زمانے میں اس مسجد کی یہ زمین خریدی گئی تھی اور اُس پر ایک ہال تقریباً بیسمنٹ کی طرز پر بنایا گیا تھا۔ شاید اُس وقت مسجد کی بیسمنٹ (Basement) بنوانا چاہتے تھے۔ بہر حال بعد میں کچھ نقشہ بھی تبدیل ہوا۔ مرکز نے اُس وقت تین چار ملین کرونر یا تقریباً چار پانچ لاکھ پاؤنڈ اُن کی مدد کی تھی۔ پھر اُن کو کہا گیا کہ اپنے وسائل سے یہ مسجد بنائیں۔ 2003ء میں مَیں نے بھی اِن کو توجہ دلائی۔ اُس وقت سے توجہ دلانی شروع کی لیکن ناروے کی جماعت اپنی جگہ سے ہلتی نہیں تھی۔ کبھی یہ مسئلہ آ جاتا تھا، کبھی دوسرا مسئلہ آجاتا تھا۔ مجھے بھی انہوں نے اتنا تنگ کیا کہ مَیں نے ان کو کہہ دیا کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں اس سے کریں۔ اگر بڑی مسجدنہیں بن سکتی تو ایک چھوٹی سی مسجد کہیں اور جا کے، چھوٹی جگہ لے کے، بنا لیں۔ پھر جماعت خود بھی ایک وقت میں سوچنے لگ گئی کہ اس پلاٹ کو بیچ دیا جائے۔ کچھ نے رائے دی کہ نہیں بیچنا چاہئے۔ بہر حال پھر آخر فیصلہ ہوا کہ بڑا باموقع پلاٹ ہے، شہر سے جو سڑک ائیر پورٹ کو جاتی ہے اُس پر واقعہ ہے، اونچی جگہ ہے، اس لئے اس کو بیچنا نہیں چاہئے۔
2005ء میں جب مَیں گیا تو اتفاق سے وہاں جو جمعہ پڑھا گیا، اس کے لئے جو ہال وہاں لیا گیا وہ بھی اس پلاٹ کے بالکل ساتھ تھا۔ تو مَیں نے انہیں اُس خطبہ میں وہاں توجہ دلائی تھی کہ انشاء اللہ ناروے میں مسجدیں تو بنیں گی، ایک دو نہیں بلکہ اس ملک میں ہر جگہ مساجد بنیں گی، یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ اُس نے جماعت کو پھیلانا ہے لیکن آپ کی آئندہ نسلیں جب یہاں سے گزرا کریں گی تو یہ کہا کریں گی کہ یہ جگہ، ایک باموقع پلاٹ، ایک خوبصورت جگہ ایک زمانے میں ہمارے باپ دادا کو ملی تھی جس کو اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے گنوادیا۔ کچھ خوفِ خدا کریں۔ جو عزم کیا ہے، جو ارادہ کیا ہے، اس کو ایک دفعہ پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بہر حال کم و بیش انہی الفاظ میں توجہ دلائی تھی کہ اپنی نسلوں کے سامنے نیک نمونے قائم کریں، اور اُن کی دعاؤں کے بھی وارث بنیں۔ بہر حال یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی خوبصورتی ہے کہ وہ خلیفہ وقت کی طرف سے کئی گئی باتوں کو سنتے ہیں اور پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک جوش اور ولولہ اُن میں پیدا ہو جاتا ہے تبھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر ہمیں بھی بعض دفعہ حیرت ہوتی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 605 مطبوعہ ربوہ)
بہر حال جب ناروے جماعت نے ارادہ کیا اور اس توجہ دلانے پر اُن کی آنکھیں کھلیں تو اُنہوں نے قربانیوں کی مثالیں بھی قائم کیں جن کا اپنا ایک لمبا ذکر ہے۔ پچھلے ناروے کے خطبے میں کچھ مَیں نے بیان بھی کیا تھا اور تقریباً سو ملین کرونر سے زیادہ کی قربانی دے کر اس مسجد کی تکمیل ہوئی ہے۔ کرونر میں بعض دفعہ بعضوں کے علم میں حوالے یا ریفرنس نہیں ہوتے تو یہ تقریباً بارہ ملین پاؤنڈ بنتا ہے۔ بارہ لاکھ نہیں، بارہ ملین پاؤنڈ بلکہ اس سے اوپر رقم بنتی ہے۔ اور یہ لوگ جیسا کہ مَیں نے کہا کوئی غیر معمولی امیر لوگ نہیں ہیں لیکن جب ان کو توجہ دلائی گئی اور ان کو یہ باور کروایا گیا کہ آئندہ نسلوں کے لئے کیا نمونہ چھوڑ کر جانے لگے ہو تو صرف وقتی جذبہ نہیں، انہیں وقتی غیرت نہیں آئی بلکہ وہ نیکی کی رَگ اُبھری جو ایک احمدی میں ہر وقت موجود رہتی ہے۔ اگر وقتی جوش ہوتا تو ایک سال کے بعد تھک کر بیٹھ جاتے۔ گو ایسے موقعے آئے کہ انتظامیہ نے پریشان ہو کر پھر مجھے لکھنا شروع کر دیا لیکن توجہ دلانے پر پھر جُت جاتے تھے۔ آخر پانچ سال یا چھ سال کی قربانی کے بعد وہاں صرف آٹھ نو سو افراد کی جو جماعت ہے، انہوں نے یہ سب سے بڑی مسجد بنا لی۔ ائیر پورٹ سے شہر کوجاتے ہوئے جیسا کہ میں نے کہا یہ ایک خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے۔ وہاں کے وزیرِ اعظم نے بھی یہ اعتراف کیا کہ یہ ایک خوبصورت اضافہ ہے جو اس سڑک پر ہوا ہے۔ روزانہ تقریباً اسّی نوے ہزار گاڑیاں، کاریں وغیرہ وہاں سے گزرتی ہیں جو اس مسجد کو دیکھتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی چیز کی چاٹ لگ جائے تو پھر اس کے حصول کے لئے ہر کوشش ہوتی ہے۔ ہماری ناروے کی جماعت میں بھی لگتا ہے کہ اکثر لوگوں میں یہ صورت پیدا ہو رہی ہے۔ یا تو یہ حال تھا کہ دس سال تک مسجد بنانے کے بہانے تلاش کرتے رہے کہ بن سکتی ہے کہ نہیں بن سکتی؟ مشکلات کی ایک فہرست پیش کرتے رہے یا اب کہتے ہیں کہ وہاں ایک اور شہر ہے جس کا نام کرسچن سانڈ ہے، وہاں چھوٹی سی جماعت ہے، کہ ہم نے وہاں بھی مسجد بنانی ہے اور اُس کے بھی جو اخراجات جو ہیں وہ کافی آ رہے ہیں کیونکہ ناروے میں مہنگائی بھی کافی ہے۔ مَیں نے اُنہیں کہا ہے کہ یہ مسجد تو ابھی آپ نے مکمل کی ہے، فوری طور پر نئی مسجد کس طرح شروع کر دیں گے؟ تو اب ماشاء اللہ اُن کی جرأت اتنی بڑھ گئی ہے کہ عاملہ نے بھی اور بعض لوگوں نے بھی مجھے ذاتی طور پر کہا کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہم بنا لیں گے، اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے۔ پس یہ جوش و جذبہ ہے جو ایک احمدی میں ہے۔ ایک مرتبہ ارادہ کر لیا تو پھر کوئی بندنہیں ہے۔ اگر نیت نیک ہے تو سب بند ٹوٹ جاتے ہیں۔ ہر روک جو ہے وہ ختم ہوجاتی ہے۔ اور یہ سب چیز جو ہے یہ کسی فرد کا یا اُن چند افراد کا کمال نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ برکت ڈالتا ہے اور دلوں کو بدلتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدوں کے پورا ہونے کی یہ دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ فرمایا تھا کہ یَنْصُرُکَ رِجَالٌ نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ مِنَ السَّمَآء کہ وہ لوگ تیری مدد کریں گے جن کو ہم آسمان سے وحی کریں گے۔ پس جب ارادے نیک ہوئے، نیتیں نیک ہوئیں، دعا کی طرف بھی، اور اللہ تعالیٰ کی طرف بھی توجہ ہوئی تو پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اُن کے دلوں کو ایسا کھولا کہ ہر وقت مدد کے لئے تیار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام، آپ کی اس خواہش کو پورا کرنے کا کام کہ اسلام کو متعارف کرانے کے لئے مسجدیں بنا دو۔ یعنی وہ مسجدیں جن کے بنانے والے اور عبادت کرنے والے خدا اور رسول کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوں تو پھر اسلام اس طرح خوبصورت رنگ میں متعارف ہوتا ہے کہ دنیا اس کی خوبصورتی دیکھ کر دَنگ رہ جاتی ہے۔
پس افرادِ جماعت نے نیک کام کے لئے اپنی حالتوں کو بدلنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے بھی غیر معمولی وسعتِ حوصلہ اور توفیق میں وسعت عطا فرما دی اور دنیا میں اور جگہوں پر بھی فرما رہا ہے۔ اس مرتبہ تو دورے کے دوران یہ لوگ مجھے پہلے سے بہت بڑھ کر ایمان و اخلاص میں بڑھے ہوئے نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان و اخلاص کو ہمیشہ بڑھاتا رہے اور ہر احمدی کے ایمان و اخلاص کو بڑھاتا رہے۔
ناروے بھی یورپ کے اُن ممالک میں سے ہے جہاں عموماً تربیت کی طرف بہت توجہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ دنیا داری کی طرف رجحان بھی ہے لیکن اس مرتبہ مجھے وہاں مردوں اور عورتوں کو، بچوں کو، بچیوں کو سمجھانے پر اُن کی نظروں میں شرم و حیا اور افسوس بھی نظر آیا۔ یہ عزم اور ارادہ نظر آیا کہ ہم اپنی کمزوریاں بھی دور کریں گے۔ خاص طور پر واقفینِ نو اور واقفاتِ نونے اس بات کا اظہار کیا۔ جب مَیں نے انہیں اُن کی کلاس کے دوران سمجھایا کہ اُن کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔ واقفاتِ نو نے تو بہت زیادہ عزم کا اظہار کیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ اپنی حالتوں کو بدلیں گی بلکہ اپنے ماحول کی حالتوں کو بدلیں گی اور اس بات پر شرمندگی کا اظہار کیا کہ اُن سے پردے اور لباس اور احمدی لڑکی کے وقارکے اظہار میں جو کمیاں اور کوتاہیاں ہوتی رہی ہیں وہ نہ صرف اُن کو دور کریں گی بلکہ اپنے ماحول میں، جماعتی ماحول میں بھی اور باہر کے ماحول میں بھی ایک نمونہ بن کے دکھائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی توفیق عطا فرمائے اور دنیا کے ہر احمدی بچے کو اور بچی کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ احمدیت کا صحیح نمونہ ہو۔ کیونکہ اگر ہماری لڑکیوں اور عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو آئندہ نسلوں کی اصلاح کی بھی ضمانت مل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی برکت ڈالتا ہے۔ بہر حال ناروے کی جماعت میں مجھے پانچ سال میں بعض لحاظ سے بہت زیادہ بہتری نظر آئی ہے۔
ناروے میں غیروں کے ساتھ جو پروگرام ہوتے رہے اُن کا بھی کچھ ذکر کر دیتا ہوں اور اس سے پہلے ناروے کی حکومت کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے وہاں اپنے حالات کی وجہ سے سکیورٹی کا بڑا انتظام رکھا، کیونکہ جولائی میں وہاں ایک واقعہ ہو گیا تھا اور کچھ ویسے بھی اُن کو شاید کوئی اطلاعیں تھیں، تو انہوں نے مسجد میں مستقل سیکیورٹی رکھی۔ میرے قیام کے دوران میرے ساتھ بھی رہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو اس کی جزا دے۔
وہاں ایک ممبر پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ ہاؤس میں وزٹ کا ایک پروگرام رکھا ہوا تھا جس میں چار پانچ پارلیمنٹ کے ممبر بھی موجود تھے۔ یہاں چھوٹی سی ریسپشن بھی تھی۔ وہاں بھی اچھا پروگرام رہا۔ وہاں کے پارلیمنٹ کے پریذیڈنٹ اینڈرسن (Anderson) جو ہمارے ہاں سپیکر کہلاتے ہیں، اُن سے بھی ملاقات ہوئی۔ اُن کو بھی جماعت کے تعارف کا تفصیل سے موقع ملا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کا مقصد، آپ کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی، اس طرح تفصیل سے ساری باتیں ہوئیں۔ خود ہی مجھے پوچھنے لگے کہ شیعہ سنی اور تم لوگوں میں کیا فرق ہے؟ اس سے پھر آئندہ آگے مزید باتیں کھلتی ہیں تو بہر حال باتیں چلتی رہیں۔ اسی طرح مختلف اخبارات اور ریڈیو اور ٹی وی چینل کے نمائندوں نے بھی انٹرویو لئے۔ ناروے ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ کُل آبادی تو پانچ ملین ہے۔ جس اخبار نے انٹرویو لیا اُس کی سرکولیشن تین لاکھ پچاس ہزار ہے اور اچھے ماحول میں اُس نے انٹرویو لیا۔ مسجد کا مقصد، اسلام کی تعلیم، جماعت احمدیہ کا کیا مقصد ہے، یہ ساری باتیں ان لوگوں نے اپنے انٹرویو میں یا اخباروں میں شائع کیں، یا ریڈیومیں بیان کیں یا ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں بیان کیں اور اچھے وقت لئے بیان کرتے رہے۔ پھر جماعت کا اور خلیفۂ وقت کا کیا تعلق ہے؟ کیا کرنے آئے ہیں؟ اس قسم کے سوالات تھے۔ ان کے بڑے تفصیلی جواب اُنہیں دئیے اور اس کا پھر خود بھی انہوں نے مشاہدہ کیا۔ جب وہ باہر نکلتے تھے تو جماعت کے افراد سے بھی پوچھ لیتے تھے اور پھر افرادِ جماعت کا جو اپنا ایک جذباتی تعلق ہوتا ہے جب وہ بیان کرتے تھے تو اُس سے وہ اور متأثر ہوتے تھے کہ کس طرح ایک جماعت ہے جس میں خلافت اور جماعت کا وجود ایک بنے ہوئے ہیں۔ بہر حال باقی تو مسلمانوں کے حوالے سے باتیں ہوتی رہیں کہ مسلمان کیاکہتے ہیں اور آپ کیا کہتے ہیں اور آپ کو مسجد کیوں نہیں کہتے دیتے اور آپ کو مسلمان کیوں نہیں سمجھتے؟ یہ تو تفصیلی باتیں ہیں جو رپورٹس میں آ جائیں گی۔
ناروے میں جب ہماری مسجد کی reception ہوئی ہے تو اُس میں 120 کے قریب لوکل نارویجین افراد تھے جن میں سے گیارہ پارلیمنٹیرین تھے۔ وہاں کی وزیرِ دفاع خاتون ہیں جو وزیرِ اعظم کی نمائندگی میں وہاں آئی تھیں۔ وزیرِ اعظم کا پیغام بھی انہوں نے پڑھا اور اس سے پہلے اُن سے بھی کچھ تفصیلی باتیں ہوتی رہیں۔ مَیں نے کہا کہ مَیں نے آپ کو پیغام بھی بھیجا تھا اور آپ کے درد کو ہم محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہمارے احمدی بھی اسی طرح شہید کئے جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح اُن کو جو جماعتی خدمات ہیں، انسانی ہمدردی کی خدمات، تعلیمی خدمات، طبی خدمات اُن کے بارے میں تفصیل سے تعارف کروایا تو بڑی حیران تھیں کہ کوئی مسلمان تنظیم ایسی بھی ہے جو اس طرح کام کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مَیں تھوڑے وقت کے لئے آئی ہوں۔ تقریباً رات پونے آٹھ بجے انہوں نے واپس جانا تھا لیکن اتفاق ایسا ہوا کہ جو میرے سے پہلے بولنے والے مقررین تھے اُن کی باتیں کچھ لمبی ہو گئیں تو پونے آٹھ بجے میری تقریر شروع ہوئی اور تقریر بھی کافی لمبی تھی تو وہ آرام سے بیٹھی رہیں۔ عموماً سکینڈے نیوین ملکوں میں مَیں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ تیس پینتیس منٹس (Minutes) سے زیادہ سننے کے عادی نہیں۔ لیکن میری باتیں وہ تقریباً وہ پچاس منٹ تک خاموشی سے سنتی رہیں۔ مَیں نے بعد میں معذرت کی۔ کہنے لگیں کہ نہیں مجھے لگا کہ آج مَیں نے اپنے وقت کا صحیح استعمال کیا ہے اور پھر اُس کے بعد بھی وہ بیٹھیں، کھانا کھایا اور جہاں پونے آٹھ بجے جانا تھا وہاں ساڑھے نو تک بھی اُن کا اُٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔ بہرحال وہاں کافی باتیں ہوتی رہیں۔ کیونکہ reception میں مسجد کے حوالے سے مَیں نے بتایا کہ ہماری مسجد تو اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے، ایک خدا کی عبادت کی جائے۔ اور یہاں جب ایک خدا کی عبادت کے لئے انسان آتا ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی دہشت گردی، کسی قسم کی بدامنی کا خیال بھی پیدا ہو۔ سکینڈے نیوین ممالک میں بھی بعض ایسے طبقے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنی تعلیم پر بہت زیادہ اعتراضات کرتے ہیں اس لئے اُن کو قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کافی وضاحت سے مَیں بتانا چاہتا تھا جو مَیں نے بتایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا کہ آپ کی تڑپ تو یہ تھی اور آپؐ کی حالت یہ تھی کہ آپ کی راتیں بے چین ہوتی تھیں اور تڑپ کے دعا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو سیدھے راستے پر چلائے اور یہ خدا کو پہچان لیں۔ مَیں نے ان کو بتایا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کسی بھی قسم کا ایسا خیال ہوتا کہ دنیا پر قبضہ کرنا ہے تو یہ راتوں کی تڑپ نہ ہوتی۔ راتوں کی یہ تڑپ صرف اس دنیا کے امن کے لئے نہیں تھی بلکہ لوگوں کو آئندہ زندگی میں بھی، جو مرنے کے بعد کی زندگی ہے، اُس کے امن کی ضمانت کے لئے بھی یہ تڑپ اور دعائیں تھیں۔ تو بہر حال قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے حوالے سے ایک بڑا اچھا پروگرام رہا۔ اُن سے کافی تفصیلی باتیں ہوئیں۔ باتیں کیا ہوئیں اُس تقریر میں، اُس reception میں یہ سب کچھ مَیں نے بیان کیا۔
اسی طرح وہاں کالمارکی کاؤنٹی کے پریذیڈنٹ بھی آئے ہوئے تھے۔ سکینڈے نیوین ملکوں میں جو پارٹیاں ہیں وہ آپس میں سسٹر پارٹیاں کہلاتی ہیں یا مختلف ملکوں میں بس ایک ہی نام سے چل رہی ہیں اور وہ لوگ ایک دوسرے کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ تو یہ جو پریذیڈنٹ صاحب تھے یہ بھی موجودہ حکومتی پارٹی کے ممبر ہیں جو اس کے مقابل پر سویڈن میں حکومتی پارٹی ہے۔ بہر حال انہوں نے اپنے اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ یہاں جلسے پر بھی پہلے آ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں جلسے پر جا چکا ہوں اور جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو اسلام کی صحیح تصویر پیش کرتی ہے اور اس سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں۔ یہ حقیقی امن کی عَلم بردار ہے۔
پھر اسی طرح ایک دن پیغام ملا کہ وہاں کے سابق پرائم منسٹر جو ہیں وہ بھی مسجد دیکھنے آرہے ہیں اور ملنا بھی چاہتے ہیں۔ آج کل ناروے کی ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے صدر ہیں۔ اُن سے بھی اچھی تفصیلی گفتگو ہوتی رہی۔ جماعت کی خدمات اور جماعت کے ساتھ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے، ان سے یہ ساری باتیں ہوئیں۔ یہ جو مسجد ہے اس کی وجہ سے جو تعارف ہوا اُس کا بھی ذکر کردوں۔ عالمی دنیا میں ہونے والی تعمیرات سے متعلق جو خبریں شائع ہوتی ہیں، اس کے لئے ایک آن لائن ورلڈ آرکیٹکچر نیوز اخبار ہے۔ اس کو ماہانہ دس یا گیارہ ملین لوگ visit کرتے ہیں۔ اور ان کا ایک ہفت روزہ e.news letterبھی ہے جو 147 ہزار افراد کو ای میل کیا جاتا ہے اور تعمیرات کے حوالے سے دنیا بھر کے جو تعمیر کرنے والے ہیں، سٹوڈنٹ ہیں یا تعمیراتی ادارے ہیں وہ اس کے ممبر ہیں۔ تو اس اخبار نے بھی اور اس ویب سائٹ نے بھی مسجد کی تصویر اور خبر شائع کی کہ شمالی یورپ کی سب سے بڑی مسجد یہاں تعمیر ہوئی ہے اور اس کا افتتاح کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کے سربراہ آئے ہیں اور ایک قومی لینڈ مارک ہے۔ اس طرح کی خبر اور اس کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی اُس میں دی گئی کہ مسجدخاص طور پر اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ امن کی علامت لگے۔ تو اس لحاظ سے مسجد کے مختصر تعارف کے ساتھ جو میں نے بیان کیا ہے اسلام کے تعارف کی بھی کافی لمبی تفصیل پیش ہوئی۔ پھر sys-con media ہے۔ اس کا انٹرنیٹ ٹیکنالوجی اور میگزین پبلشنگ میں بھی ایک اہم نام ہے۔ اس میں ٹیکنالوجی کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اس نے بھی مسجد کے حوالے سے، پھر احمدیت کی اور اسلام کی تعلیم کے حوالے سے، reception کے حوالے سے اور افتتاح کے حوالے سے اُس میں کافی لمبی خبر دی ہے۔ بلکہ اس نے وہاں نارویجین وزیر دفاع کا یہحوالہ بھی کوٹ(Quote) کیا کہ وہ کہتی ہیں کہ نئے ناروے کی تعمیر میں ایک کلیدی کردار مذہب کا بھی ہے۔ اس لئے ہمیں ہر ایک کے لئے اپنے دل کھولنے ہوں گے اور ہر ایک کو ساتھ ملانا ہو گا۔ جیسا کہ ہم آج یہاں یعنی ہماری مسجد کی reception میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ لکھنے والا اخبار میں لکھتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ قطع نظر اس کے کہ یہ میری عبادت گاہ نہیں ہے مَیں یہاں حقیقی خوشی محسوس کر رہی ہوں۔ پھر مَیں نے وہاں جو نارویجین واقعہ ہوا تھا اُس پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔ اُس کی بھی تفصیل اُس نے میرے حوالے سے لکھی۔ ناروے سے پھر ہیمبرگ میں واپسی ہوئی۔ وہاں بھی دو پارلیمنٹیرین تھے وہ ملنے کے لئے آئے۔ ان کی پارلیمنٹ میں اچھی پوزیشن ہے۔ ہیومن رائٹس کے حوالے سے وہ کام کر رہے ہیں۔ اُن سے تفصیلی بات ہوئی تو اُن کو میں نے بتایا کہ ہیومن رائٹس کیا چیز ہیں اور کچھ سوال بھی اُن سے مَیں نے پوچھے۔ کچھ دیر بعد مجھے کہنے لگے کہ جیسا سوال تم پوچھ رہے ہو اس کی تو مَیں تیاری کر کے نہیں آیا۔ اس کے بعد مَیں نے بتایا کہ کس طرح اصل امن دنیا میں قائم کر سکتے ہیں۔ قرآنی تعلیم کیا ہے اور آپ لوگ یعنی بعض مغربی ممالک کیا کر رہے ہیں۔ اس کے بعد باہر جا کے ہمارے جو دو احمدی دوست لے کے آئے تھے، اُن سے کہتے ہیں کہ اس نے تو مجھے سوچنے کے بعض نئے زاویے دئیے ہیں۔ ہماری تو ایک سوچ ہوتی ہے۔ اب ان زاویوں پر مَیں سوچوں گا تا کہ ہمیں پتہ لگے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے کیا طریقے اختیار کرنے چاہئیں اور ان سے باہر آنا چاہئے جو ہم کر رہے ہیں۔ ان کو بھی میں نے کھل کر کہا تھا کہ ایک طرف وہی طاقتیں ہیں جو امن کا نعرہ لگاتی ہیں اور دوسری طرف وہی طاقتیں ہیں جو لڑنے والوں کو اسلحہ بھی دے رہی ہوتی ہیں۔ اس طرح تو امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پھر امن کے نام پر تم لوگ ظلم کرتے چلے جاتے ہو۔ لیبیا وغیرہ کی مثالیں سامنے ہیں۔ بہر حال کچھ نہ کچھ اُن کو سمجھ آ گئی تھی اور مَیں نے کہا کہ قرآنِ کریم کی تعلیم تو یہ ہے کہ جب امن قائم کر جاؤ تو پھر واپس لوٹ آؤ۔ پھر بدلے اور ذاتی اَنائیں اور ذاتی مفادات کی طرف توجہ نہ دو۔ تو یہ قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم ہے جس پر تم عمل کرو گے تو دنیا کا امن قائم ہو سکتا ہے۔ نہیں تو نہیں۔ بہر حال ان کو کچھ نہ کچھ سمجھ آئی۔ انہوں نے کہا کہ میں سوچوں گا بھی اور اپنے حلقے میں بھی یہ باتیں پہنچاؤں گا۔ یہاں سے ایک دن ہم ڈنمارک کا ایک شہر ہے ناکسکو، وہاں بھی گئے تھے۔ وہاں ہمارے البانین اور بوسنین لوگوں کی جماعت ہے۔ تقریباً سو کے قریب افراد ہیں۔ یہاں کوئی پاکستانی نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو ان کی خواہش بھی تھی کہ مَیں وہاں آؤں۔ بڑا اخلاص رکھنے والی جماعت ہے۔ اس کا فائدہ بھی ہوا۔ اُن کے بعض تربیتی مسائل تھے اُن کا پتہ چلا۔ بعض گھرانے تو اخلاص و وفا میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ کبھی پہلے ملے نہیں، دیکھا نہیں۔ بچوں سے لے کر بڑوں تک سب سے ملاقاتیں بھی ہوئیں تو وہاں جانے کا بہت فائدہ ہوا۔ ایک رات وہاں گزاری بھی۔ ایک سینٹر ہے جو جماعت نے کچھ عرصہ ہوا وہاں لیا ہے جہاں اب باجماعت نماز اور جمعہ وغیرہ ہوتا ہے۔ اس کو فی الحال تو مسجد کی شکل دی ہے لیکن وہاں کے میئر کا نمائندہ جو ڈپٹی میئر تھے اور کچھ اور پڑھے لکھے لوگ ملاقات کے لئے آئے تھے تو وہاں مَیں نے کہا کہ اگر ہمیں باقاعدہ مسجد کے لئے جگہ مل جائے تو ہم مسجد بنائیں گے۔ اس پر انہوں نے وعدہ تو کیا ہے کہ کوئی وجہ نہیں کہ جگہ نہ ملے۔ ہم انشاء اللہ تعالیٰ مسجد بنائیں گے کیونکہ ہمیں اب پتہ لگ گیا ہے کہ جماعت ایک پُرامن جماعت ہے۔ یہی شہر جس میں چند مہینے پہلے جو سینٹر بنایا گیا یا مسجد کی شکل دی گئی ہے تو اس میں آکے وہاں کے مقامی لوگوں نے جو اسلام کے خلاف ہیں کچھ پینٹ وغیرہ کئے، کچھ گند وغیرہ پھینکا لیکن بہر حال مقامی انتظامیہ اور پولیس نے کافی ساتھ دیا۔ دشمنی تو وہاں ہے لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کا جو پیغام ہے، اسلام کا جو پیغام ہے وہ پہنچ رہا ہے اور پڑھے لکھے طبقہ کو احساس پیدا ہو رہا ہے کہ احمدیت اسلام کی وہ تصویر پیش کرتی ہے جو حقیقی اسلام ہے اور پُرامن اسلام ہے اور اس کا بڑا فائدہ ہوتا ہے اور دوروں کے دوران جب اخبارات بھی خبریں شائع کرتے ہیں تو مزید لوگوں تک وہ پیغام پہنچتا ہے۔
پھر اسی طرح واپسی پربرسلز (Brussels) بیلجیم میں پہلی مسجد جس کا نام بیت المجیب رکھا گیا ہے اُس کا سنگِ بنیاد رکھنے کی بھی توفیق ملی اور انشاء اللہ یہ مسجد بھی امید ہے کہ اب ایک سال میں بلکہ اس سے پہلے ہی مکمل ہو جائے گی۔ اچھی خوبصورت مسجد بن رہی ہے اور یہبیلجیم کی پہلی مسجد ہو گی۔ وہاں بھی مختلف ممبر آف پارلیمنٹ اور کچھ میئرز آئے ہوئے تھے۔ جس علاقے میں ہمارا پہلے مشن ہاؤس ہے، دلبیکس (Dilbeeks) اس کا نام ہے وہاں کے میئر بھی آئے ہوئے تھے۔ اور کچھ دوسری پارٹیز کے نمائندے بھی تھے۔ تو اُن سب نے اچھے خیالات کا اظہار کیا اور سب نے مسجد کے پروگرام کو، جماعت کی تعلیم کو خوب سراہا، بلکہ میئر نے اپنے تاثرات میں بعد میں ایک تو یہ کہا کہ مجھے اپنی تصاویر دو، اس سارے پروگرام کی سی ڈیز دو، ڈی وی ڈیز دو کہ وہ جماعت احمدیہ کے امن کے اس خوبصورت پیغام اور اس مسجد کو اپنے علاقے کی کونسل اور عوام کو دکھانا چاہتے ہیں اور ان کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں بھی ایسی خوبصورت مسجد اور ماحول کا آغاز جلد ہونا چاہئے۔ دوسرے انہوں نے یہ بھی کہا کہ اُن سے جو میرا خطاب تھا، وہ اس تقریب کی کارروائی اپنی کونسل کی آفیشل ویب سائٹ پر چلانا چاہتے ہیں۔ پھروہاں فؤاد حیدر صاحب جو مراکو کے ہیں اور مسلمان ہیں لیکن برسلز پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ انہوں نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا خلافت کے بغیر کوئی مستقبل نہیں ہے۔ انہوں نے میرے بارے میں یہ بھی کہا کہ وہ میرے خیالات اور جماعت احمدیہ کا امن اور سلامتی کا پیغام اپنے پیشہ ورانہ دوستوں کو بلا امتیاز چاہے وہ مسلمان ہوں یا دوسرے مذہب والے ہوں، سب کو اور اسی طرح اپنے حلقہ احباب میں شامل دوسرے احباب کو ضرور پہنچائیں گے۔ بلکہ انہوں نے ہمارے مبلغ کو کہا کہ اس ہفتے مجھے آکے ملیں۔ یہ پہلے بھی مجھے ایک دفعہ مل چکے ہیں۔ بڑے اچھے شریف النفس انسان ہیں اور جماعت سے اچھا تعلق ہے اور بڑے جرأت والے اور آؤٹ سپوکن (Out Spoken) ہیں۔ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے جانے سے جو اخباروں کی توجہ پیدا ہوتی ہے، ان سیاستدانوں یا لیڈروں کی توجہ پیدا ہوتی ہے، پڑھے لکھے لوگوں کی توجہ پیدا ہوتی ہے تو بہت فوائد ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ ہماری کوششیں ہیں، اصل پھل تو اللہ تعالیٰ نے لگانے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ پھل لگتے چلے جائیں۔ بلکہ ایک اَور علاقے کے میئر بھی وہاں آئے ہوئے تھے انہوں نے کہا کہ اس تقریب میں شامل ہو کر بیحد خوشی ہوئی۔ کہتے ہیں کہ آج ایک منسٹر برائے ایجوکیشن یوتھ پاسکل سمتھ (Pascal Smith) نے ان کے شہر ایک آفیشل دورے پر آنا تھا اور بطور میئر میری وہاں موجودگی ضروری تھی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرا اس تاریخی موقع پر جبکہ خلیفۃ المسیح یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اس تقریب میں شامل ہونا ہی میرے لئے سب سے اہم اور ضروری کام تھا۔ لہٰذا میں آج آپ کے درمیان موجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جزا دے۔
پھر ایک علاقے کے ڈپٹی میئر اور کونسلر ہیں، انہوں نے کہا کہ چونکہ اس مسجد کی منظوری کے لئے میں نے جماعت احمدیہ بیلجیم کو اپنا تعاون اور مدد فراہم کی تھی۔ لہٰذا اب میں اس موقع پر (میرا کہا کہ) خلیفۃ المسیح کا خطاب سننے کے بعد بھی بہت خوش ہوں اور یقین کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں کہ میرا جماعت کی مدد اور تعاون کا فیصلہ بالکل درست تھا اور مجھے خلیفۃ المسیح کی یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی کہ یہ مسجد صرف ایک مسجد ہی نہیں بلکہ یہ مسجد بیلجیم اور اس علاقے کے عوام کے لئے امن اور محبت کا ایک نشان اور علامت بھی ہے۔
پس ہر لحاظ سے یہ دورہ بابرکت ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی برکت ڈالی۔ بیلجیم میں ایک طبقہ جو اسلام کے خلاف ہے انہوں نے کچھ دن پہلے علاقے میں شدید اشتہار بازی کی تھی کہ اس مسجد کو نہیں بننے دینا چاہئے اور پھر جلوس کی تاریخ مقرر کی، دو دن پہلے جلوس نکالا تھا۔ ہفتے کو بنیاد رکھی گئی۔ جمعرات کو جلوس تھا۔ لیکن پھر جلوس میں اس دن تو کوئی چند لوگوں کی معمولی تعداد شامل ہوئی اور کسی نے توجہ نہیں دی۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا ماحول کو پھیرا ہے کہ وہاں کی انتظامیہ کو جوفکر تھی، بالکل غائب ہو گئی۔ بہر حال یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ہماری کوششیں تو بچوں کا کھیل ہے۔ نہ لوگوں کے دلوں سے ہم وہ گندنکال سکتے ہیں جو آجکل دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے، نہ کمال محبتِ الٰہی کا اُن کے اندر بھر سکتے ہیں۔ نہ اُن کے درمیان باہمی کمالِ اُلفت پیدا کر سکتے ہیں جس سے وہ سب مثل ایک وجود کے ہو جائیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں صحابہؓ کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا ہے۔ ھُوَالَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ۔ وَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ۔ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْا َرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِھِمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَھُمْ اِنَّہٗ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (الانفال: 64-63) وہ خدا جس نے اپنی نصرت سے اور مومنوں سے تیری تائید کی اور ان کے دلوں میں ایسی اُلفت ڈالی کہ اگر تو ساری زمین کے ذخیرے خرچ کرتا تو بھی ایسی الفت پیدا نہ کرسکتا، لیکن خدا تعالیٰ نے ان میں یہ الفت پیدا کردی۔ وہ غالب اور حکمتوں والا خدا ہے!۔ جس خدا نے پہلے یہ کام کیا وہ اب بھی کر سکتا ہے۔ آئندہ بھی اسی پر توکل ہے۔ جو کام ہونے والا ہوتا ہے اس میں خدا تعالیٰ کے فضل کی روح پھونکی جاتی ہے۔ جیسا کہ باغبان اپنے باغ کی آبپاشی کرتا ہے تو وہ تروتازہ ہوتا ہے۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ اپنے مرسلین کے سلسلہ کو ترقی اور تازگی عطا فرماتا ہے۔ جو فرقے صرف اپنی تدبیر سے بنتے ہیں ان کے درمیان چند روز میں ہی تفرقے پیدا ہو جاتے ہیں جیسا کہ برہمو تھوڑے دن تک ترقی کرتے کرتے آخررک گئے اور دن بدن نابود ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ان کی بنا صرف انسانی خیال پر ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 332-333 مطبوعہ ربوہ)
پس یہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہے اس نے ترقی کرنی ہے اور کرتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی جو بھی معمولی سی، حقیر سی کوششیں ہیں وہ کرنے کی توفیق دے تا کہ ہم اس ثواب میں حصے دار بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری کوششوں میں برکتیں ڈالے اور ہمیں ان ترقیات کے نظارے بھی دکھائے۔
نماز کے بعد مَیں آج ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرمہ خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری غلام قادر صاحب آف کھیوہ باجوہ ضلع سیالکوٹ کا ہے۔ 4؍اکتوبر کو ان کی وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
بطور صدر لجنہ کھیوہ باجوہ لمبا عرصہ خدمت کی توفیق پائی۔ تہجد گزار خاتون تھیں، صوم صلوۃ کی پابند، قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والی۔ بچوں کو نمازوں کا پابند اور قرآنِ کریم کی تلاوت کا عادی بنایا اور ہمیشہ کوشش رہتی تھی۔ موصیہ تھیں۔ ان کے ایک بیٹے محمد اقبال صاحب ہیں جو مڈغاسکر میں ہمارے مبلغ ہیں۔ یہ جنازے میں بھی شامل نہیں ہوسکے۔ ان کی نمازِ جنازہ غائب انشاء اللہ نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔