خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 28؍ اکتوبر 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جو جماعت قائم فرمائی اور اُس کو یہ اعزاز بخشا کہ وہ پہلوں کے ساتھ ملا دی گئی یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے، یہ کوئی معمولی جماعت نہیں ہے۔ ہزاروں لاکھوں نیک فطرت مسلمان اس زمانے کے پانے کی خواہش میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے منسوب کرتا ہے اُن باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن پر پہلوں نے عمل کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیعت کا تعلق جوڑا۔ آپ کی امت میں شامل ہوئے اور آپؐ کی تربیت کے زیرِ اثر اللہ تعالیٰ سے ایسا پختہ تعلق جوڑا کہ ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ (البقرۃ: 208) جو اپنی جان کواللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بیچ ڈالتے ہیں۔ پس انہوں نے خدا کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی کی۔ اپنی جان کو بھی مشکل میں ڈالا اور اُس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ اُن کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ بھی اُنہیں بے انتہا نوازتا رہا۔ صحابہ کرام قرآنِ کریم کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے بلکہ اُنہیں اس حد تک اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا شوق تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے کہ کس طرح نیکیاں کریں۔ بعض اس حد تک سوال پوچھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں روک دیا کہ شریعت نازل ہو رہی ہے تم سوال نہ کرو۔ کیونکہ اگربعض تمہارے سوالات پرتمہیں احکامات مل جائیں تو تمہیں مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ رَؤوْفٌ بِالْعِبَاد ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔ اپنی خاص رحمت کی نظر رکھتا ہے جو بندے کو تکلیف سے بچاتی ہے، اُس بندے کو جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر تکلیف کو اُٹھانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے، اُس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اُس پر خاص شفقت فرماتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ سے پختہ تعلق جوڑنے والے بھی اپنے ماحول میں خدا تعالیٰ کی صفات کے پرتَو بنتے ہیں۔ اُن تمام احکامات کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے بھی شفقت کا سلوک کرتے ہیں۔ اُن کے حق ادا کرتے ہیں۔ پس یہ وہ حقیقی اسلام ہے جو بندے کا خدا سے تعلق جوڑ کر پھر حقوق العباد کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے۔ اور یہی حقیقی اسلام صحابہ نے پایا اور سیکھا اور عمل کر کے دکھایا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں سکھانے آئے ہیں، ہمیں بتانے آئے ہیں، ہمیں اُن راستوں پر چلانے آئے ہیں۔ پس اس کے لئے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اس سلسلے میں مَیں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات پیش کروں گا جو ہمیں اپنے جائزوں کی طرف، اپنی حالتوں کی طرف توجہ دلانے والے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں نے جو اقتباس لیا ہے اس میں آپ نے اس زمانے کا نقشہ کھینچا ہے اور پھر بتایا کہ جماعت کو کیسا ہونا چاہئے؟
آپؑ عام علماء کے بارے میں جو اس زمانے کے علماء ہیں جنہوں نے آپ کو نہیں مانا فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ اس وقت قریباً علماء کی یہی حالت ہو رہی ہے لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْن (الصف: 03)‘‘ (قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ علماء کی آجکل یہی حالت ہے کہ تم وہ کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں فرمایا کہ یہ اس) کے مصداق اکثر پائے جاتے ہیں اور قرآنِ شریف پر بگفتن ایمان رہ گیا ہے؛ ورنہ قرآن شریف کی حکومت سے لوگ بکلّی نکلے ہوئے ہیں۔ احادیث سے پایا جاتا ہے کہ ایک وقت ایسا آنے والا تھا کہ قرآنِ شریف آسمان پر اُٹھ جائے گا۔ میں یقینا جانتاہوں کہ یہ وہی وقت آگیا ہے۔ حقیقی طہارت اور تقویٰ جو قرآن شریف پر عمل کرنے سے پید اہوتا ہے آج کہاں ہے؟ اگر ایسی حالت نہ ہو گئی ہوتی تو خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو کیوں قائم کرتا۔ ہمارے مخالف اس بات کو نہیں سمجھ سکتے لیکن وہ دیکھ لیں گے کہ آخر ہماری سچائی روزِ روشن کی طرح کھل جائے گی‘‘۔ فرماتے ہیں ’’خدا تعالیٰ خود ایک ایسی جماعت تیار کر رہا ہے جو قرآنِ شریف کی ماننے والی ہوگی‘‘۔ (اب یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے جو آپ نے جماعت پر ڈالی ہے۔ آپ نے توقع رکھی ہے کہ قرآنِ کریم کی ماننے والی ہو گی۔ قرآنِ کریم کو ماننا صرف ایک کتاب کو ماننا نہیں بلکہ اُس کے احکامات پر عمل کرنا ہے) فرمایا: ’’ہر ایک قسم کی ملونی اس میں سے نکال دی جائے گی‘‘ (ہمیں اپنے یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایک قسم کی ملونی جو دنیاوی ملونی ہے اس میں سے نکال دی جائے۔) ’’اور ایک خالص گروہ پیدا کیا جاوے گا اور وہ یہی جماعت ہے۔ اس لیے مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تم خدا تعالیٰ کے احکام کے پورے پابند ہو جاؤ اور اپنی زندگیوں میں ایسی تبدیلی کرو جو صحابہ کرامؓ نے کی تھی۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دیکھ کر ٹھوکر کھاوے‘‘۔ (ہر احمدی کو نمونہ ہونا چاہئے) فرمایا: ’’ہاں مَیں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہر شخص کافرض ہے کہ وہ افتراء اور کذب کے سلسلہ سے الگ ہو جاوے۔ پس تم دیکھو اور منہاجِ نبوت پر اس سلسلہ کو دیکھو‘‘۔ (جو سلسلہ نبوت کے طریق پر چل رہا ہے۔ جو نبوت چلانا چاہتی ہے اُس پر چلو) ’’یہ مَیں جانتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور زمین پر بارش ہوتی ہے تو جہاں مفید اور نفع رساں بوٹیاں اور پودے پیدا ہوتے ہیں اُس کے ساتھ ہی زہریلی بوٹیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں‘‘۔ (اس بارے میں آپ نے بتایا کہ کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوں گے جو غلط قسم کے دعوے کرنے والے ہوں گے۔ بہر حال پھر آپ فرماتے ہیں) ’’پس ہر شخص کا فرض ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ سے کشودِ کار کے لیے دعا کرے‘‘ (کہ جو کام ہیں وہ پورے ہوں۔ جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے ہیں وہ پورے ہوں) ’’اور دعاؤں میں لگا رہے۔ ہمارے سلسلہ کی بنیادنصوصِ قرآنیہ اور حدیثیہ پر ہے۔ پھر اس سلسلہ کی تائید اور تصدیق کے لیے اﷲ تعالیٰ نے آیاتِ ارضیہ اور سماویہ کی ایک خاتَم ہم کو دی ہے‘‘۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کے جو زمینی اور آسمانی نشانات ہیں وہ دئیے ہیں اور ایک ایسی مہر دی ہے جو تمام لوگوں پر آپ کی صداقت کی حجت ہے) فرمایا’’یہ بخوبی یاد رکھو کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اسے ایک مہر دی جاتی ہے اور وہ مہر محمدی مہر ہے جس کو ناعاقبت اندیش مخالفوں نے نہیں سمجھا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 468-467۔ ایڈیشن 2003ء)
اب اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو بھی آئے گا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آئے گا اور وہ آپ کی ہی مہر ہے جس کے تحت وہ کام کرے گا لیکن لوگ نہیں سمجھتے۔ لیکن فرمایا تم اپنے نمونے قائم کرو تا کہ دنیا سمجھے کہ یہ سلسلہ قائم ہوا ہے جو خدا تعالیٰ سے خاص تعلق جوڑنے والا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اے میری جماعت !خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفرِ آخرت کے لئے ایسا طیار کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب طیار کئے گئے تھے۔ خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے۔ لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لئے ہے اور بدقسمت ہے وہ جس کا تمام ہم ّو غم دنیا کے لئے ہے۔ ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 63)
پھر ہماری اصلاح اور استقامت کے لئے صحیح طریق بتاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’پس میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے۔ نہ علمی، نہ خاندانی، نہ مالی‘‘۔ (اس قسم کے تکبر جو ہیں یہ عموماً انسانوں میں پائے جاتے ہیں۔ کسی کو علم کا فخر ہے۔ کسی کو اپنے خاندان کا، کسی کو مال کا۔ فرمایا کسی قسم کا تکبر نہ کرے) ’’جب خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ عطا کرتا ہے تو وہ دیکھ لیتا ہے کہ ہر ایک روشنی جو ان ظلمتوں سے نجات دے سکتی ہے وہ آسمان سے آتی ہے اور انسان ہر وقت آسمانی روشنی کا محتاج ہے۔ آنکھ بھی دیکھ نہیں سکتی جبتک سورج کی روشنی جو آسمان سے آتی ہے نہ آئے۔ اسی طرح باطنی روشنی جو ہر ایک قسم کی ظلمت کو دور کرتی ہے اور اس کی بجائے تقویٰ اور طہارت کا نور پیدا کرتی ہے آسمان ہی سے آتی ہے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ انسان کا تقویٰ، ایمان، عبادت، طہارت سب کچھ آسمان سے آتا ہے۔ اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے وہ چاہے تو اس کو قائم رکھے اور چاہے تو دور کردے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 213۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس ہر قسم کی جو عنایات ہیں اللہ تعالیٰ کی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیں۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو قائم رکھتا ہے، چاہے تو ختم کر دیتا ہے تو پھر تکبر کس بات کا؟ نہ کسی کو اپنے تقویٰ پر زعم ہونا چاہئے، نہ اپنی ایمانی حالت پر، نہ اپنی عبادتوں اور دعاؤں پر زعم ہو، نہ اپنی پاکیزگی پر زعم ہو، اسی طرح جیسا کہ پہلے بیان ہوا ہے نہ ہی دنیاوی معاملات میں۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی طرف ہمیشہ جھکے رہنا چاہئے۔
فرمایا: ’’پس سچی معرفت اسی کا نام ہے کہ انسان اپنے نفس کو مسلوب اور لاشئے محض سمجھے‘‘ (یعنی اس کے نفس کی کوئی ہستی ہی نہیں ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں ہے) ’’اور آستانۂ الوہیت پر گر کر انکسار اور عجز کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے۔ اور اس نورِ معرفت کو مانگے جو جذبات نفس کو جلا دیتاہے اور اندر ایک روشنی اور نیکیوں کے لیے قوت اور حرارت پیدا کرتا ہے۔ پھر اگر اس کے فضل سے اس کو حصہ مل جاوے اور کسی وقت کسی قسم کا بسط اور شرح صدر حاصل ہو جاوے‘‘ (دل کھل جائے۔ دعاؤں کی قبولیت کا، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے کھلنے کا شرح صدر حاصل ہو جائے) ’’تو اس پر تکبر اور ناز نہ کرے بلکہ اس کی فروتنی اور انکسار میں اَور بھی ترقی ہو‘‘۔ (جب اللہ تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلیں اور اس کو احساس ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل مجھ پر نازل ہو رہے ہیں تو مزید عاجزی پیدا ہو) ’’کیونکہ جس قدر وہ اپنے آپ کو لاشئی سمجھے گا اسی قدر کیفیات اور انوار خدا تعالیٰ سے اتریں گے جو اس کو روشنی اور قوت پہنچائیں گے۔ اگر انسان یہ عقید ہ رکھے گا تو امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اس کی اخلاقی حالت عمدہ ہو جائے گی۔ دنیا میں اپنے آپ کو کچھ سمجھنا بھی تکبر ہے اور یہی حالت بنا دیتا ہے۔ پھر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ دوسرے پر لعنت کرتا ہے اور اُسے حقیر سمجھتا ہے‘‘۔ (جب تکبر پیدا ہو جائے تو دوسرے کی کوئی حیثیت نہیں سمجھتا)۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 213۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے اس عمدہ طریق پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
’’اے سعادتمند لوگو! تم زور کے ساتھ اُس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے۔ تم خدا کو واحد لا شریک سمجھو اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو۔ نہ آسمان میں سے، نہ زمین میں سے۔ خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے۔ قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں۔ سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصّوں سے الگ ہو جاؤ‘‘ (یہ کینے اور غصے بھی انسان کو کھا جاتے ہیں۔ اُس کے اخلاق تباہ و برباد کر دیتے ہیں) فرمایا: ’’کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ۔ انسان کے نفسِ امّارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے‘‘۔ (تکبر سب سے بڑا گند اور گناہ ہے۔) ’’اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا۔ سو تم دل کے مسکین بن جاؤ۔ عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ جبکہ تم اُنہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو‘‘۔ (اب ہمارے علماء بھی ہیں، ہمارے داعیان بھی ہیں، اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں، بڑی بڑی خدمات کر رہے ہیں لیکن بعض دفعہ ایسے معاملات آتے ہیں جو جب ذاتیات پر آتے ہیں تو پھر بھول جاتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ تکبر سامنے آ جاتا ہے۔ اپنی اَنائیں سامنے آ جاتی ہیں۔ فرمایا کہ تم جو بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو) ’’سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو‘‘ (جب اپنے معاملات آ جائیں تو پھر وہاں خیر خواہی نہ ہو بلکہ بدخواہی سامنے آ جائے) ’’خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم اُن سے پوچھے جاؤ گے‘‘ (اللہ تعالیٰ نے جو فرائض عائد کئے ہیں اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس کے لئے دل میں ایک خوف پیدا کرو۔) فرمایا: ’’نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے۔ ہر ایک بدی جو دُور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دُور ہوتی ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دُور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانے پر گر جائیں اور خدا اور اُس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 63)
آج کل ہر احمدی کو تو خاص طور پریہ حالت اپنے اوپر طاری کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ہم زیادہ سے زیادہ سمیٹنے والے بنیں۔ فرمایا:
’’اے میری عزیز جماعت! یقینا سمجھو کہ زمانہ اپنے آخر کو پہنچ گیا ہے اور ایک صریح انقلاب نمودار ہو گیا ہے سو اپنی جانوں کو دھوکہ مت دو اور بہت جلد راستبازی میں کامل ہو جاؤ‘‘۔ (یہ بہت اہم بات ہے۔ سچائی کو اختیار کرو۔ سچائی اللہ تعالیٰ کے تعلق میں ہے۔ عبادات میں خالص ہو کر عبادات کرنا ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے د و ہی اہم حکم ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد، ان میں راستبازی اور سچائی ہونی چاہئے۔ جماعتی خدمات ہیں، آپس کے تعلقات ہیں، ان میں راستبازی اور سچائی ہونی چاہئے۔)
پھر فرمایا: ’’قرآنِ کریم کو اپنا پیشوا پکڑو اور ہر ایک بات میں اس سے روشنی حاصل کرو۔ اور حدیثوں کو بھی ردّی کی طرح مت پھینکو کہ وہ بڑی کام کی ہیں اور بڑی محنت سے اُن کا ذخیرہ طیار ہوا ہے۔ لیکن جب قرآن کے قصوں سے حدیث کا کوئی قصہ مخالف ہو تو ایسی حدیث کو چھوڑ دو تا گمراہی میں نہ پڑو۔ قرآنِ شریف کو بڑی حفاظت سے خدا تعالیٰ نے تمہارے تک پہنچایا ہے سو تم اس پاک کلام کی قدر کرو۔ اس پر کسی چیز کو مقدم نہ سمجھو کہ تمام راست روی اور راست بازی اسی پر موقوف ہے‘‘۔ (سچائی اور سچائی پر چلنا، عمل کرنا قرآن شریف کی تعلیم پر ہی موقوف ہے) ’’کسی شخص کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اُسی حد تک مؤثر ہوتی ہیں جس حد تک اُس شخص کی معرفت اور تقویٰ پر لوگوں کو یقین ہوتا ہے‘‘۔ (تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 64)
پس معرفت اور تقویٰ جب بڑھے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری باتوں کا اثر بھی ہو گا۔
پھر اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یقینا سمجھو کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہ لوگ پیارے نہیں ہیں جن کی پوشاکیں عمدہ ہوں اور وہ بڑے دولتمند اور خوش خور ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ پیارے ہیں جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اور خالص خدا ہی کے لیے ہو جاتے ہیں۔ پس تم اس امر کی طرف توجہ کرو، نہ پہلے امر کی طرف‘‘۔ (یعنی دنیا کی طرف نہ پڑو بلکہ دین کو دنیا پر مقدم کرو۔ آپ کے اپنے وقت میں جو جماعت کی حالت تھی اس کا ذکر فرما رہے ہیں حالانکہ اُس وقت لوگوں میں بڑی پاک تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں۔ لیکن آپ فرماتے ہیں کہ) ’’اگرمَیں جماعت کی موجودہ حالت پر ہی نظر کروں تو مجھے بہت غم ہوتا ہے کہ ابھی بہت ہی کمزور حالت ہے اور بہت سے مراحل باقی ہیں جو اس نے طے کرنے ہیں۔ لیکن جب اﷲ تعالیٰ کے وعدوں پر نظر کرتا ہوں جو اس نے مجھ سے کئے ہیں تو میرا غم امید سے بدل جاتا ہے۔ منجملہ اس کے وعدوں کے ایک یہ بھی ہے جو فرمایا: وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ‘‘ (اور اُن لوگوں کو جنہوں نے تیری پیروی کی ہے اُن لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا ہے قیامت کے دن تک بالا دست کرنے والا ہوں۔ اگر اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کویہ فکر تھی اور آپ نے اپنے ماننے والوں کو توجہ دلائی تو اب ایک زمانہ گزرنے کے بعد توہمیں اور بھی زیادہ اس کی فکر ہونی چاہئے کہ جوں جوں ہم دور جا رہے ہیں ہماری حالتیں کہیں بگڑتی نہ جائیں۔ پس بہت غور کرنے کی ضرورت ہے، بہت زیادہ جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ فرمایا) ’’یہ تو سچ ہے کہ وہ میرے متبعین کو میرے منکروں اور میرے مخالفوں پر غلبہ دے گا۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ متبعین میں سے ہر شخص محض میرے ہاتھ پر بیعت کرنے سے داخل نہیں ہوسکتا۔ جب تک اپنے اندر وہ اتباع کی پوری کیفیت پیدا نہیں کرتا متبعین میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پوری پوری پیروی جب تک نہیں کرتا ایسی پیروی کہ گویا اطاعت میں فنا ہو جاوے اور نقشِ قدم پر چلے، اس وقت تک اِتّباع کا لفظ صادق نہیں آتا‘‘۔ (فرمایا): ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسی جماعت میرے لیے مقدر کی ہے جو میری اطاعت میں فنا ہو اور پورے طور پر میری اتباع کرنے والی ہو۔ اس سے مجھے تسلی ملتی ہے اور میرا غم امید سے بدل جاتا ہے‘‘۔
فرماتے ہیں: ’’بہر حال خد اتعالیٰ کے وعدوں پر میری نظر ہے اور وہ خدا ہی ہے جو میری تسکین اور تسلی کا باعث ہے۔ ایسی حالت میں کہ جماعت کمزور اور بہت کچھ تربیت کی محتاج ہے یہ ضروری امر ہے کہ مَیں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرو اور اسی کو مقدم کر لو اور اپنے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک جماعت کو ایک نمونہ سمجھو۔ ان کے نقش قدم پر چلو‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 597-596۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
آپ نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے بارے میں فرمایاکہ:
’’یاد رکھو اب جس کا اصول دنیا ہے اور پھر وہ اس جماعت میں شامل ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ اس جماعت میں نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی اس جماعت میں داخل اور شامل ہے جو دنیا سے دست بردار ہے۔ یہ کوئی مت خیال کرے کہ میں ایسے خیال سے تباہ ہو جاؤں گا۔ یہ خدا شناسی کی راہ سے دور لے جانے والا خیال ہے۔ خدا تعالیٰ کبھی اس شخص کو جو محض اسی کا ہو جاتا ہے ضائع نہیں کرتا بلکہ وہ خود اس کا متکفّل ہو جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کریم ہے جو شخص اس کی راہ میں کچھ کھوتا ہے وہی کچھ پاتا ہے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں کو پیار کرتا ہے اور انہیں کی اولاد بابرکت ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے حکموں کی تعمیل کرتا ہے۔ اور یہ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہوگا کہ خدا تعالیٰ کا سچا فرماں بردار ہو وہ یا اس کی اولاد تباہ و برباد ہو جاوے۔ دنیا ان لوگوں ہی کی برباد ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور دنیا پر جھکتے ہیں۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہر امر کی طناب اﷲ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے بغیر کوئی مقدمہ فتح نہیں ہو سکتا۔ کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی اور کسی قسم کی آسائش اور راحت میسر نہیں آسکتی۔ دولت ہوسکتی ہے مگر یہ کون کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد یہ بیوی یا بچوں کے ضرور کام آئے گی۔ ان باتوں پر غور کرو اور اپنے اندر ایک نئی تبدیلی پیدا کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 595۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
جماعت کوخاص نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو، ہمدردی کرو اور بلا تمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔ وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا (الدھر: 9)۔‘‘ (اور وہ کھانے کو اُس کی چاہت ہوتے ہوئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں۔)
’’وہ اسیر اور قیدی جو آتے تھے اکثر کفار ہی ہوتے تھے۔ اب دیکھ لو کہ اسلام کی ہمدردی کی انتہا کیا ہے۔ میری رائے میں کامل اخلاق کی تعلیم بجز اسلام کے اور کسی کو نصیب ہی نہیں ہوئی‘‘۔ (آپ نے جب یہ بیان کیاتو اس وقت آپ کی طبیعت خراب تھی۔ فرمایا جب مجھے صحت ہو جاوے تو مَیں ایک کتاب لکھوں گا جو اخلاق کے بارے میں ہوگی۔ بہر حال پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں چاہتا ہوں کہ جو کچھ میر امنشا ء ہے وہ ظاہرہو جاوے اور وہ میری جماعت کے لیے ایک کامل تعلیم ہو اور ابتغاء مرضات اﷲ کی راہیں اس میں دکھائی جائیں۔ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں آئے دن یہ دیکھتا اور سنتا ہوں کہ کسی سے یہ سرزد ہوا اور کسی سے وہ۔ میری طبیعت ان باتوں سے خوش نہیں ہوتی۔ میں جماعت کو ابھی اس بچہ کی طرح پاتا ہوں جو دو قدم اُٹھتا ہے تو چار قدم گرتا ہے۔ لیکن مَیں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس جماعت کو کامل کردے گا۔ اس لیے تم بھی کوشش، تدبیر، مجاہدہ اور دعاؤں میں لگے رہو کہ خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے کیونکہ اس کے فضل کے بغیر کچھ بنتا ہی نہیں۔ جب اس کا فضل ہوتا ہے تو وہ ساری راہیں کھول دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 219۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
بعض لحاظ سے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور توجہ سے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ نے پورا فرمایا، آپ نے اپنے صحابہ کے پاک نمونے دیکھے اور اِس زمانے میں بھی خدا تعالیٰ پورا فرما رہا ہے۔ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض لحاظ سے بالغ ہو چکی ہے لیکن زمانے کے ساتھ ساتھ بعض برائیاں بھی جڑ پکڑ رہی ہیں۔ تکبر، نفس کی انائیں وغیرہ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے بعض جگہ بہت زیادہ نظر آنے لگی گئی ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات، لڑائیاں، رنجشیں بہت زیادہ بڑھ رہی ہیں۔ اس طرف ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پس اگر ہم نے آپ کی حقیقی جماعت میں ہونے کا حقدار کہلانا ہے تو ہمیں اپنی حالتوں کی طرف ہر لمحہ اور ہر آن نظر رکھنی ہو گی۔ ہمارا علم کس کام کا ہے اگر موقع پر وہ ہمارے اخلاق کو ظاہر نہیں کرتا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم تبلیغ کرتے ہو، دوسروں کو نصیحت کرتے ہو لیکن جب موقع آئے تو تمہارے سے وہ ظاہر نہیں ہوتا، تمہاری اپنی حالتوں پر اُس کا اظہار نہیں ہو رہا ہوتا۔ پس علم وہی کام کا ہے جس کا سایہ ہمارے اوپر بھی نظر آتا ہو۔ جب تک ہمارے آپس کے تعلقات کا اظہار ہمارے اندر اور باہر کو ایک کر کے نہیں دکھاتا اُس وقت تک ہمارا علم بے فائدہ ہے۔ آج کے دور میں جبکہ جماعت کے خلاف مخالفت بھی شدت کو پہنچی ہوئی ہے ہمیں ہر سطح پر اپنی ذاتی خواہشوں اور اناؤں کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہونے کی اعلیٰ ترین مثال قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو صحابہ کے نمونے پر چلانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
گزشتہ جمعہ، خطبہ ثانیہ کے دوران میری ذرا لمبی کھانسی کی وجہ سے بعض لوگوں کو پریشانی بھی ہوئی تھی۔ عرب ملکوں سے بھی بعض اَور جگہوں سے بھی بڑی فیکسیں اور خط بھی آئے کہ ہم انتظار نہیں کر سکتے۔ اور اس کے ساتھ نسخے بھی اتنی بڑی تعداد میں آئے ہیں کہ اگر مَیں اُن کو استعمال کرنا شروع کر دوں تو شاید مزید بیمار ہو جاؤں۔ بہر حال لوگوں نے اپنی طرف سے نیک جذبات کا اظہار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔ اور یہ جو وبائی بیماریاں ہوتی ہیں اپنا وقت تو لیتی ہی ہیں۔ علاج مَیں اپنے طور پر ہومیو پیتھی کا کرتا ہوں۔ باقی ڈاکٹروں کی مدد سے بھی کچھ نہ کچھ کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ بس دعاؤں میں یاد رکھیں۔