خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 4؍ نومبر 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ عاجز تو محض اس غرض کے لئے بھیجا گیا ہے کہ تا یہ پیغام خلق اللہ کو پہنچا دے کہ دنیا کے تمام مذاہبِ موجودہ میں سے وہ مذہب حق پر اور خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق ہے جو قرآنِ کریم لایا ہے اور دارالنجات میں داخل ہونے کے لئے دروازہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ ہے‘‘۔ (حجۃ الاسلام۔ روحانی خزائن۔ جلد 6صفحہ 53-52)
پس اس زمانے میں جس جری اللہ نے قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا تھا، قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا کے ہر باشندے کو اُس کی زبان میں پہنچانا تھا وہ یہی عاشقِ قرآن اور غلام ِحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کا نام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہے۔ آپ ہی وہ اللہ کے پہلوان ہیں جنہوں نے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا جھنڈا دنیا میں لہرا کر بھٹکی ہوئی انسانیت کو نجات کے راستے دکھانے تھے۔ آپ کا روحانی معارف سے پُر لٹریچر اور کتب اور آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اس بات کے گواہ ہیں کہ آپؑ نے اُس کام کا جو آپ کے سپرد کیا گیا تھا، حق ادا کر دیا۔ اُس زمانے میں جبکہ آپ کے پاس دنیاوی وسائل نہیں تھے، معمولی حد تک بھی نہیں تھے، اتنا بڑا کام کرنا یہ کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فرستادوں کو کامل توکّل کیونکہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے۔ اس لئے آپؑ نے اپنے سپرد کئے گئے اس کام کے لئے کسی دنیاوی وسیلے پر انحصار نہیں کیا بلکہ حسبِ ضرورت خدا سے مانگا اور اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر آپ کی مدد فرمائی۔ گو دنیاوی تدبیر کے لئے، جسے کرنے کا حکم بھی خدا تعالیٰ نے دیا ہے، آپ نے اپنے قریبیوں اور اپنے متبعین کو مختلف موقعوں پر قربانیوں کی تحریک کی جس میں مالی قربانیاں بھی تھیں، لیکن کبھی کسی پر بھروسہ نہیں کیا۔ جیسا کہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کے فرستادوں اور انبیاء کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ اپنے سپرد کئے گئے کاموں کے لئے قربانیوں کی تحریکات بھی کرتے ہیں، آپؑ نے بھی تحریک کی لیکن ہمیشہ یہی فرمایا کہ میرا توکل میرے خدا پر ہے جس نے اس عظیم کام کی، جو میرے سپرد ہے، تکمیل کے لئے میرے سے وعدہ کیا ہوا ہے۔ پس ایک ایسے شخص کا جو برصغیر کے ایک دور دراز علاقے کے چھوٹے سے قصبے میں رہنے والا تھا، یہ اعلان کوئی معمولی اعلان نہیں تھا کہ خدا نے میرے سپرد قرآنِ کریم کی تعلیم کو پھیلانے اور لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کی عظمت دلوں میں بٹھانے کا کام کیا ہے۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ پیغام اُس بستی سے نکل کر نہ صرف ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں اور ہر کونے میں پھیلا بلکہ یورپ اور امریکہ تک پہنچ گیا۔ اسلام کی عظمت دلوں میں قائم ہونے لگی۔ بڑے بڑے پادری یا دوسرے مذاہب کے لیڈر جو اسلام مخالف تھے اور جو اپنے زعم میں طاقتور اور دولتمند تھے، آپ کے مقابلے پر اور آپ کے راستے میں جب آئے تو یا تو ذلیل و رسوا ہوئے یا اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے اُنہیں تباہ و برباد کر دیا اور مخالفینِ اسلام کی ذلت و رسوائی کے یہ نظارے نہ صرف برصغیر پاک و ہند کی زمین نے دیکھے بلکہ یورپ اور امریکہ نے بھی دیکھے۔ لیکن افسوس ہے اُن مسلمان علماء اور پیروں پر جن کی آنکھیں یہ نظارے دیکھ کر بھی نہ کھلیں بلکہ مخالفت میں اور بھی سرگرم ہوئے۔ لیکن خدائی تقدیر کا تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اپنوں اور غیروں کی یہ مخالفتیں اور دشمنیاں تو وہ کام کرتی رہیں اور اب تک کر رہی ہیں جو فصلوں اور درختوں کے لئے کھاد اور پانی کرتے ہیں۔ آج تک ہم یہ نظارے دیکھ رہے ہیں کہ جب بھی جماعت کو کسی بھی جگہ کسی بھی طریق سے دبانے کی کوشش کی گئی تو اس جری اللہ کی جماعت ایک نئی شان سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنتے ہوئے ترقی کی نئی منزلیں دکھانے والی بنی۔ اللہ تعالیٰ کایہ فضل ہمیشہ اس لئے جماعت کے شاملِ حال ہے کہ جماعت نے اُس مقصد کو پیشِ نظر رکھا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔ افرادِ جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کو پیشِ نظر رکھا جو آپ نے رسالہ الوصیت میں فرمایا ہے کہ:
’’خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ اور کیا ایشیا۔ ان سب کو جو نیک فطرت رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دینِ واحد پر جمع کرے۔ یہی خداتعالیٰ کا مقصد ہے جس کیلئے مَیں دنیا میں بھیجا گیا۔ سو تم اس مقصد کی پیروی کرو۔ مگر نرمی اور اخلاق اور دُعاؤں پر زور دینے سے‘‘۔ (ا لوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20۔ صفحہ 307-306۔ مطبوعہ لندن)
پس دنیا کو دینِ واحد پر جمع کر کے توحید پر قائم کرنا، قرآنِ کریم کی حکومت دنیا میں قائم کرنا، اس کی تعلیم کو پھیلانا اور نیک فطرتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کرنا، یہ وہ وسیع اور عظیم کام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے بعد جماعت کے سپرد فرمایا۔ مگر یہ کام اپنی حالتوں میں پاک تبدیلیوں، قربانیوں اور دعاؤں کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اور جب تک ہم اس کے لئے کوشش کرتے رہیں گے ہم یہ ترقیاں دیکھتے رہیں گے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کے لئے مقدر کی ہیں۔ آج تک جماعت کی یہی خوبصورتی اور شان ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرتے ہوئے جماعت من حیث الجماعت آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کر رہی ہے، اس کے لئے قربانیاں دیتی چلی جا رہی ہے۔ اگر اس مقصد کے حصول کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ رہی تو انشاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہم ترقی کے نظارے دیکھتے چلے جائیں گے۔ جب بھی جماعت کو اس مقصد کے حصول کے لئے توجہ دلائی گئی، جماعت نے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لبّیک کہا اور پہلے سے بڑھ کر جماعت اور اسلام کی ترقی کے لئے دعاؤں میں مشغول ہو گئے، باقی قربانیوں میں لگ گئے۔
گزشتہ دنوں جب میں نے نفلی روزوں اور دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تو جو خطوط مجھے آ رہے ہیں اُس سے لگتا ہے کہ بے انتہا شوق سے جماعت نے اس طرف توجہ دی اور لبیک کہا ہے اور ہر ایک دعاؤں میں مصروف ہے۔ جن کو نہیں بھی کہا تھا وہ بھی دعاؤں میں مشغول ہیں۔ صرف پاکستانی نہیں بلکہ افریقہ کے لوگ بھی، یورپ کے لوگ بھی، امریکہ کے لوگ بھی، جو پاکستانی قومیت نہیں رکھتے انہوں نے بھی دعاؤں کی طرف توجہ دی اور اپنے پاکستانی بھائیوں کے لئے اور ہر اُس احمدی کے لئے جو کسی بھی طرح، کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہے یا تکالیف میں مبتلا کیا جا رہا ہے، اُس کے لئے دعاؤں میں مشغول ہو گئے۔ اگر مالی قربانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی تو مالی قربانیوں میں بڑھ گئے اور ایسے ایسے نمونے دکھائے کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح دین کی خاطر قربانیوں میں یہ لوگ بڑھ رہے ہیں۔ فی زمانہ تبلیغِ اسلام کے لئے لٹریچر، کتب کی اشاعت بڑی ضروری ہے۔ مبلغین کا انتظام ہے، مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر ہے اور دوسرے ذرائع جو آجکل کے تیز زمانے میں میڈیا میں ایجاد ہوئے ہیں ان سب کے لئے مالی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ آجکل صرف ایم ٹی اے ہی ایک وسیع تبلیغ کا ذریعہ بنا ہوا ہے جس میں اس وقت چار مختلف سیٹلائٹس سے فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے جس سے اب دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں کہ جہاں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام نہ پہنچ رہا ہو اور پھر سات آٹھ بڑی زبانوں میں یہ پیغام پہنچ رہا ہے۔ پس یہ تبلیغ کا، اسلام کا پیغام پہنچانے کا، اُس مقصد کے حصول کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے۔ اور اس کے لئے مالی قربانی کی ضرورت ہوتی ہے جو جماعت ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر کرتی ہے۔
آج مَیں حسبِ روایت تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان کروں گا۔ جب یہ تحریک حضرت مصلح موعودؓ نے شروع فرمائی تھی اُس وقت مخالفینِ احمدیت نے اس پیغام کو دنیا سے مٹانے کا اعلان کیا تھاجس کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے تھے لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے جب اُس کے جواب میں دنیا کے کونے کونے میں اس پیغام کو پہنچانے کے لئے مالی تحریک کی تو ایک والہانہ لبیک کا نظارہ دنیا نے دیکھا اور آج ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے دو سو ممالک میں موجود ہیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ صرف ایم ٹی اے کے ذریعے ہی ایک انقلاب دنیا میں آرہا ہے۔ پس خلافت کے سائے تلے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا آپ کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے جماعت قربانیاں دے رہی ہے۔ کاش کہ وہ مسلمان جو حبِ پیغمبری کا دعویٰ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی اس تقدیر کو سمجھیں اور توحید کے قیام، قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کے لئے اس جری اللہ کے ساتھ جُڑ کر کام کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور پھر دیکھیں کہ اُن کی کھوئی ہوئی ساکھ کس طرح دوبارہ بحال ہوتی ہے۔ پھر دیکھیں کہ بڑی بڑی طاقتیں کس طرح اُن کی عزت و احترام کرتی ہیں۔ پھر دیکھیں کہ کسی بدبخت کارٹونسٹ اور رسالے کے ایڈیٹر یا کوئی بھی ہو اُس کو کبھی جرأت نہیں ہو گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کسی بھی قسم کی بیہودگی کا اظہار کرے۔ چند دن ہوئے فرانس میں ایک رسالے نے پھر ایک خبیثانہ حرکت کی ہے جس سے ہمارے دل زخمی ہیں۔ فرانس کی جماعت کو تو مَیں نے کہا ہے کہ اس کے خلاف قانون کے اندر رہتے ہوئے احتجاج بھی کریں۔ ان لوگوں کو سمجھائیں بھی اور پبلک کو بھی ہوشیار کریں کہ اس قسم کی حرکتوں سے خدا تعالیٰ کی گرفت اور پکڑ بھی آتی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی گرفت اور پکڑ سے بچو۔ آجکل دنیا تو ویسے ہی تباہی کی طرف جا رہی ہے، کہیں آفات ہیں اور کہیں معاشی تباہی بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجوہات یہی ہیں کہ خدا کو بھول گئے ہیں، اُس کے پیاروں کے متعلق گھٹیا اور اوچھی باتیں کی جاتی ہیں، تضحیک کی جاتی ہے۔ خدا کی غیرت کو یہ لوگ للکار رہے ہیں۔ پس دنیا کو خدا کا خوف دلانے کی ضرورت ہے۔ آج احمدی تو یہ کام کر ہی رہے ہیں لیکن اگر تمام مسلمان بھی اب اس حقیقت کو سمجھ جائیں تو جہاں اپنی دنیا و عاقبت سنواریں گے وہاں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے بھی مورد بنیں گے، وارث بنیں گے۔ کاش ان کو عقل آ جائے۔
بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا جب مسلمانوں کا ایک گروہ احمدیت کو ختم کرنے کے بلند بانگ دعوے کر رہا تھا تو حضرت مصلح موعودؓ نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ایک تحریک کا اعلان کیا۔ اس پر احبابِ جماعت نے، بچوں، عورتوں، مردوں نے لبیک کہا اور لبیک کہتے ہوئے قربانیوں کی مثالیں قائم کیں اور ان قربانیوں کے نتیجے میں آج ہم دنیا میں تحریکِ جدید کے پھل لگے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے پھل دار درخت بلکہ پھلوں سے لدے ہوئے درخت لگے ہوئے دیکھ رہے ہیں، ۔ جہاں مختلف لازمی چندوں اور دوسری تحریکات میں جماعت کے افراد قربانی کر رہے ہیں وہاں تحریکِ جدید میں بھی غیر معمولی قربانیاں ہیں۔ آجکل جبکہ دنیا مالی بحران کا شکار ہے تو یہ قربانیاں جو احمدی کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز کر دیتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ الفاظ یاد آ جاتے ہیں کہ جماعت کا اخلاص و محبت اور جوشِ ایمان دیکھ کر خود ہمیں تعجب اور حیرت ہوتی ہے۔
مالی بحران کے ضمن میں یہ بھی ضمناً کہوں گاکہ ابھی پتہ نہیں کہ کہاں جا کر اس نے ٹھہرنا ہے اور کس حد تک اس میں شدت آنی ہے۔ اس لئے احمدیوں کو گھروں میں ہر وقت کچھ دنوں کی جنس ضرور رکھنی چاہئے۔ غریب ملکوں کو تو ایسے حالات برداشت کرنے کی عادت ہے اور کچھ نہ کچھ انہوں نے رکھا بھی ہوتا ہے لیکن اِن ملکوں میں عادت نہیں ہے۔ اس لئے پتہ ہی نہیں کہ بحران کیا ہوتے ہیں۔ ان لوگوں نے تو آخری بحران دوسری جنگِ عظیم میں ہی دیکھا تھا اُس کے بعد پھر نہیں دیکھا۔ اس لئے ان کی نئی نسل کو تو کوئی احساس ہی نہیں کہ کیا ہو سکتا ہے؟ لیکن کسی panic کی ضرورت نہیں ہے۔ احتیاط کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے احمدیوں کو جس حد تک ہو سکتا ہے کچھ نہ کچھ خشک راشن ضرور گھروں میں رکھنا چاہئے۔ بہر حال یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو توفیق دے کہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچانیں اور خدا تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جائیں، اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
اب مَیں واپس جماعت کے اخلاص و وفا کے اظہار کی طرف آتے ہوئے ان کی مالی قربانیوں کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح دنیا کے ہر کونے میں مختلف قسم کی مالی قربانیوں میں احباب جماعت کس اخلاص و وفا کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایمان میں ترقی کے لئے کس طرح اپنی قربانیوں کے لئے کمر بستہ ہیں۔ جو لوگ جماعت کو ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے وہ تو آج کہیں نظر نہیں آتے، اُن کے چیلے چانٹے اور اُن کی فطرت رکھنے والے ہی یہ دیکھ لیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اسلام کی ترقی کے لئے لوگ غربت کے باوجود قربانیاں دے رہے ہیں اور اخلاص و وفا کے نمونے دکھا رہے ہیں۔ ہمارے آئیوری کوسٹ کے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست آلیڈَو وِدْراگو صاحب (Alido Oudrago) نے 2009ء کے آخر میں بیعت کی اور بیعت کے پہلے دن سے ہی اپنی آمدنی کا حساب کر کے باقاعدہ شرح کے مطابق چندہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران انہوں نے چندے کی بے شمار برکات کا مشاہدہ کیا۔ ایک دن جماعت کے پرانے ممبران کے ساتھ ان برکات کا ذکر کر رہے تھے۔ ان پرانے ممبران میں سے ایک جس نے 2004ء میں بیعت کی تھی، ان واقعات کو سُنتے ہوئے اپنا چندہ دو ہزار فرانک سے بڑھا کر پانچ ہزار فرانک سیفا کرنے کی حامی بھر لی۔ کہتے ہیں کہ ابھی ادائیگی شروع نہ کی تھی کہ انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ان کی آمدنی میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ وہ پرانے ممبر میرے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کرکے کہا کہ انہوں نے پانچ ہزار فرانک سیفاکی حامی بھری تھی مگر آج سے میں پانچ کی بجائے دس ہزار فرانک سیفا ماہانہ ادا کروں گا اور پھر اس کے مطابق ادائیگی بھی شروع کر دی۔ اور اس طرح بے تحاشہ اَور ممبران ہیں جو چندوں میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گنی کناکری کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان محترم محمد ماریگا صاحب (Muhammad Marega) لمبا عرصہ تبلیغ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں داخل ہوئے۔ پیشے کے اعتبار سے یہ ایک آرکیٹکٹ انجنیئر ہیں۔ جب انہوں نے بیعت کی تو یہ کنسٹرکشن کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور معمولی تنخواہ لیتے تھے۔ بیعت کے بعد جب ان کو جماعت کے مالی نظام کا تعارف کروایا تو انہوں نے پوچھا کہ ان چندوں میں سب سے اہم چندہ کونسا ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ چندہ وصیت، چندہ عام اور چندہ جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے جاری کردہ ہیں اور وصیت کی اہمیت کے متعلق انہیں بتایا۔ فوراً کہنے لگے کہ میں آج سے ہی چندہ وصیت ادا کروں گا۔ مبلغ نے انہیں بتایا کہ وصیت کا ایک نظام ہے اُس میں داخل ہونے کے بعد آپ چندہ وصیت ادا کر سکتے ہیں۔ تو کہنے لگے میں اس نظام میں بھی داخل ہوتا ہوں۔ پھر انہوں نے رسالہ الوصیت پڑھا اور اُس کے بعد وصیت کی اور بڑی ایمانداری سے اپنی تنخواہ کا دسواں حصہ چندہ دینا شروع کیا اور وصیت کی منظوری میں کچھ وقت لگتا ہے تو اُس وقت کے آنے تک مسلسل باقاعدگی سے وصیت دیتے رہے، اور پھر کچھ عرصے بعد اس کے علاوہ دوسری مالی تحریکات جو ہیں اُن میں بھی انہوں نے حصہ لیا۔ پھر کچھ عرصے بعد کمپنی چھوڑ دی اور اپنا کاروبار شروع کیا اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی کمپنی کے مالک ہیں اور سارے ملک میں اپنی ایمانداری کی وجہ سے مشہور ہیں اور اُس کی وجہ سے اُن کا کاروبار بھی بڑا چمکا ہے اور سب کے سامنے بیٹھ کر برملا اظہار کرتے ہیں کہ یہ نعمتیں مجھے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہونے اور نظامِ وصیت میں شامل ہونے سے ملی ہیں۔ پھر گھانا سے ہمارے مبلغ جبرئیل سعید صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دوست الحاج محمد اگبوبے میرے ساتھ تبلیغی دورے پر ٹوگو گئے، وہاں ایک جگہ ناجونگ (Najong) میں ہم نے دھوپ میں کھڑے ہو کر نمازظہر ادا کی۔ الحاج محمد اگبوبے نے کہا ان لوگوں کے لئے مسجد بنانا ان کا حق ہے۔ بالکل چھوٹی سی نئی جماعت ہے، چھوٹا گاؤں ہے۔ چنانچہ انہوں نے بڑی مالی قربانی کرتے ہوئے ایک خوبصورت مسجد اُن کے لئے بنوا دی۔ یہ الحاج صاحب اچھے امیر آدمی ہیں اور اس مسجد میں تین سو افرادنماز ادا کر سکتے ہیں، اب اس مسجد کے مینار بھی بن رہے ہیں۔ اور چونکہ یہ جگہ بہت دور دراز علاقے میں ہے، سامان پہنچانا مشکل ہے لیکن پھر بھی یہ الحاج صاحب خود بڑی تکلیف سے اور خرچ کر کے یہ سامان جو تعمیر کا سامان ہے وہاں پہنچا رہے ہیں۔ آئیوری کوسٹ کی صدر لجنہ کہتی ہیں کہ اس سال مجلسِ شوریٰ میں جماعت آئیوری کوسٹ کی پچاس سالہ جوبلی کے موقع پر مرکزی مسجد کی تعمیر کے لئے چندے کی تحریک کی گئی تو لجنہ ممبرات نے اُسی وقت ایک ایک لاکھ فرانک سیفا کا وعدہ لکھوا دیا اور کہتی ہیں کہ ہماری سیکرٹری تحریکِ جدید جو ایک مخلص احمدی ہیں انہوں نے ایک لاکھ فرانک سیفا کی فوری ادائیگی بھی کر دی۔ اُن لوگوں کے لئے یہ بہت بڑی رقم ہے۔ گو ویسے تو ان کی کرنسی میں گوایک لاکھ ہیں لیکن صرف ایک سو پینتیس پاؤنڈ بنتے ہیں، لیکن افریقہ کے لئے بہت بڑی رقم ہے کیونکہ اُس خاتون کی چھوٹی سی سبزی کی ایک دکان تھی اور بڑی عیالدار خاتون ہیں۔ برکینا فاسو کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بادلہ (Badala) نامی جماعت کے ایک دوست واتارا عبدالحئی صاحب نے ہمارے مشنری کی ایک تقریر سن کر عہد کیا کہ بیشک میں غریب ہوں اور سوائے اناج کے یعنی زمیندارہ کے اور کوئی ذریعہ معاش بھی نہیں لیکن عہد یہی ہے کہ اب ہر ماہ سو فرانک چندہ دیا کروں گا۔ ابھی اس بات کو کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ بارشوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑا اور سارے لوگ اس کی وجہ سے پریشان ہونے لگے۔ لیکن یہ کہتے ہیں کہ جو بات سب نے میرے ساتھ مشاہدہ کی وہ میری فصل تھی جو اللہ کے فضل سے بہت اچھی تھی۔ اس بات نے میرا ایمان چندوں کے بارے میں اور بڑھا دیا اور میں نے عہد کیا کہ اب میں چھ ہزار فرانک سیفا تحریکِ جدید میں دوں گا۔ اس عہد پر بھی ابھی کچھ دن ہی گزرے ہوں گے کہ فصل کی کٹائی کی باری آ گئی اور میری فصل کی پیداوار سب سے الگ اور زیادہ تھی۔ اس پر میں نے سوچا کہ جو بھی غیر معمولی فصل ہوئی ہے وہ چندے کی برکت سے ہوئی ہے تو مَیں نے اپنے تحریکِ جدید کے چندے کو بڑھا کر بارہ ہزار فرانک کر دیا۔
برکینا فاسو کے امیر صاحب ہی لکھتے ہیں کہ سوری (Souri) نامی گاؤں کے ایک احمدی بزرگ کابورے (Kabore) صاحب خاندان میں اکیلے احمدی ہیں۔ وہ خود بتاتے ہیں کہ ایک لمبے عرصے سے اپنی ضعیف العمری اور مختلف عوارض کی وجہ سے وہ نمازوں کی ادائیگی میں کمزور تھے اور اس بات کا ہر لمحہ اُنہیں رنج تھا۔ اس سال انہوں نے بیعت کے بعد ستّر ہزار فرانک سیفا چندوں میں ادا کر دیا۔ کہتے ہیں کہ چندہ ادا کرنے کی دیر تھی کہ عرصے سے بگڑی صحت واپس آنے لگی۔ نمازوں کی کھوئی توفیق واپس آنے لگی۔ یہاں تک کہ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری نمازیں مع تہجد ادا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل اور میری مالی قربانی کی برکت سے ہوا ہے کہ چندوں نے نمازوں کی بھی توفیق عطا کی۔
امیر صاحب آسٹریلیا کہتے ہیں کہ نومبر 2010ء میں جب تحریکِ جدید کے لئے نئے سال کا اعلان ہوا تومَیں نے جو اُن کو ہدایت کی تھی اُس کی روشنی میں آسٹریلیا میں شعبہ تحریکِ جدید کی طرف سے تمام جماعتوں کو تحریکِ جدید کی مالی قربانی میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلائی گئی۔ جماعت احمدیہ ملبورن نے وعدہ کیا کہ انشاء اللہ ہم دو گنا کر دیں گے۔ چنانچہ انہوں نے بہت محنت کی اور محض اللہ کے فضل سے پچھلے سال سے ایک سو چونسٹھ فیصد اضافہ کرتے ہوئے اپنا چندہ پیش کیا۔ جماعت احمدیہ کینیڈا نے پچھلے سال سے پچہتّر فیصد اضافہ کرتے ہوئے اپنا چندہ پیش کیا۔ اسی طرح اجتماعی قربانی میں بھی جماعتیں غیر معمولی طور پر آگے بڑھ رہی ہیں۔ ہمارے انسپکٹر تحریکِ جدید انڈیا لکھتے ہیں کہ فروری میں خاکسار وکیل المال صاحب کے ساتھ صوبہ تامل ناڈو کے دورے پر تھا۔ ہم لوگ جماعت احمدیہ کوئمبٹور پہنچے۔ بعدنماز مغرب ایک تربیتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں وکیل المال صاحب نے تحریکِ جدید کے اغراض و مقاصد اور پسِ منظر کے موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اجلاس کے بعد مسجد میں موجود تمام احبابِ جماعت سے نئے سال کے وعدے لئے گئے۔ ایک مخلص دوست کا سابقہ وعدہ بیس ہزار روپیہ تھا۔ اُن کی مالی حالت اچھی تھی۔ عموماً کیرالہ کے علاقے میں امیر لوگ ہیں۔ وکیل المال صاحب نے موصوف کو سالِ نو کے لئے ایک لاکھ روپیہ وعدہ لکھوانے کی تحریک کی۔ پہلے تو موصوف نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا، پھر اس قربانی کے لئے آمادہ ہو گئے۔ اُس وقت ان کے ساتھ ان کی دو واقفاتِ نو بچیاں بھی موجود تھیں۔ انسپکٹرکہتے ہیں کہ مسجد سے نکل کر سیکرٹری صاحب تحریک ِ جدید کے گھر جاتے ہی اُن کو ان صاحب کا فون آیا، جنہوں نے ایک لاکھ وعدہ کیا تھا کہ میری بڑی بیٹی کہہ رہی ہے، واقفاتِ نَو بچیاں جو ساتھ تھیں، کہ ابا جان آپ نے جو تحریکِ جدید کا وعدہ لکھوایا ہے وہ ہمارے لئے کم ہے۔ اس کو اور بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ روپے کر دیں۔ اس لئے میرا وعدہ ڈیڑھ لاکھ لکھ لو۔
پھر تحریکِ جدید کے نمائندے نے جب کشمیر کا دورہ کیا (جو انڈیا کا کشمیر ہے)۔ تو کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ آسنور کے ایک معمر مخلص دوست سے ملاقات ہوئی۔ موصوف کی گزر بسر اور علاج معالجہ کا انحصار محدود سرکاری پنشن پر تھا۔ گزشتہ دنوں دوائیوں کا خرچ پنشن سے بھی زیادہ ہو گیا تھا۔ موصوف کے حالات کو دیکھتے ہوئے مناسب نہیں تھا کہ ہم اُن کے بجٹ میں اضافہ کرتے مگر دعا کے بعد جب ہم اُن سے رخصت ہونے لگے تو موصوف نے فرمایا آپ اپنے آنے کا مقصد تو بتائیں۔ تو یہ نمائندہ کہتے ہیں کہ خاکسار نے اُنہیں بسلسلہ اضافہ چندہ تحریکِ جدید اُن کو جو ہدایت گئی تھی اس سے آگاہ کیا تو موصوف یکلخت تازہ دم ہو کر کہنے لگے کہ جبتک میں زندہ ہوں خلیفۃ المسیح کے فرمان پر لبیک کہتا رہوں گا۔ یہ کہتے ہی اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا کہ جب خدا نے میرا دنیاوی ادویات کا بجٹ بڑھا دیا ہے تو میں آخرت کے بجٹ میں کیوں کمی کروں۔ چنانچہ ان کے ارشاد کی تعمیل میں موصوف نے نہ صرف بجٹ میں اضافہ کیا بلکہ اپنا نصف چندہ اُسی وقت ادا بھی کر دیا۔ ایڈیشنل وکیل المال پاکستان لکھتے ہیں کہ سندھ میں ایک صاحب ہیں (گزشتہ دنوں جو بارشیں ہوئیں اُس کی وجہ سے سندھ کے حالات بڑے خراب ہیں)۔ اُن کا وعدہ پچاس ہزار روپے تھا، کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ فصلوں کو نقصان ہوا ہے مَیں نے اُن کے حالات کو دیکھتے ہوئے کہ وہ امیر آدمی تھے، اُن کو کہا کہ آپ کا وعدہ تو زیادہ ہونا چاہئے۔ اُس پر انہوں نے اپنا وعدہ پانچ لاکھ روپے کر دیا اور اُس کی نقد ادائیگی بھی کردی مگر چند روز کے بعد جبکہ یہ واپس حیدرآباد آ چکے تھے۔ انہوں نے ان کو فون کیا کہ آپ خلیفۃ المسیح کے نمائندے کے طور پر میرے پاس آئے تھے اور پانچ لاکھ کا اُس وقت مَیں نے وعدہ کیا کیونکہ آپ نے میرے حالات دیکھتے ہوئے مجھے اتنا ہی بتایا تھا لیکن مَیں سمجھتا ہوں کہ عہدِ بیعت کا تقاضا ہے کہ اس سے بڑھ کر وعدہ کروں۔ جو موجود ہے اُس میں سے وہ دوں اور انہوں نے وہیں دس لاکھ روپے کا وعدہ کر دیا۔ گھر گئے تو اُن کی اہلیہ نے کہا کہ میرے جوزیورات ہیں وہ مَیں اپنی طرف سے تحریکِ جدید میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔ ان کا فون آیا کہ اب رات کا وقت ہے اور میری اہلیہ کہہ رہی ہیں کہ ابھی جا کر مرکزی نمائندے کو یہ زیورات دے کر آؤ، رات مَیں نہیں رکھوں گی۔ تو انہوں نے ان کی اہلیہ کو فون پر سمجھایاکہ رات کا وقت ہے۔ سندھ کے حالات ایسے ہیں کہ رات کو سفر مناسب نہیں ہے، صبح مل جائے گا۔ لیکن وہ بضد تھیں کہ نہیں ابھی مَیں نے پہنچانا ہے۔ چنانچہ پھر خاوند کو مجبوراً آنا پڑا۔ لیکن جب نیت ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کے حضوروہ چیز پہنچ جاتی ہے۔ حالات کو دیکھتے ہوئے اتنا جذباتی نہیں ہونا چاہئے۔ اگر حالات وہاں خراب ہیں تو رات کے وقت سفرمناسب نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور کچھ نہیں ہوا لیکن بہر حال احتیاط کرنی چاہئے۔ بلا وجہ اپنے آپ کو ابتلا میں بھی نہیں ڈالنا چاہئے۔
قازقستان کے ایک نومبائع دوست کے بارے میں ہمارے مبلغِ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت کی مرکزی مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے ایک قطعہ زمین انہوں نے خرید کر دیا اور اس کے ساتھ ایک دو منزلہ زیرِ تعمیر مکان کی خرید کی۔ پھر دوسرے شہر میں بھی مسجد کی تعمیر کے لئے ایک پلاٹ خرید کر دیا۔ یہ نومبائع دوست ہیں اور مجموعی طور پر انہوں نے اس کے لئے چار لاکھ پچانوے ہزار ڈالر کی قربانی کی۔
جرمنی کے سیکرٹری تحریکِ جدید لکھتے ہیں کہ تحریکِ جدید کے بارے میں ایک جگہ تحریک کی تو اُس کی برکات سننے کے بعد ایک خاتون نے ایک ہزار یورو جو زیور خریدنے کے لئے رکھے تھے وہ اُن کو پیش کر دئیے۔ جماعت جرمنی کی بہت سی لجنات نے اپنا زیور تحریکِ جدید کے لئے دے دیا۔ ایک بہن نے کمیٹی ڈالی ہوئی تھی وہ کمیٹی کی رقم ساری دے دی۔
کہتے ہیں کہ ایک جگہ مَیں دورے پر گیا تو ایک دوست نے ایک پرچی خاکسار کو دی۔ (ان کو جو سیکرٹری تحریکِ جدید تھے)۔ اُس پر لکھا ہوا تھا بیس ہزار یورو چندہ تحریکِ جدید۔ اور اس پرچی کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ میرا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ کہتے ہیں جب مَیں دوسری جگہ گیا تو وہاں مَیں نے یہ مثال پیش کی کہ اس طرح بھی لوگ قربانیاں دیتے ہیں۔ میٹنگ ختم ہوئی تووہاں بھی ایک دوست نے ایک پرچی مجھے دی جس پر لکھا ہوا تھا اکیس ہزار یورو برائے چندہ تحریکِ جدید اور نیچے یہی لکھا ہوا تھا کہ میرا نام ظاہر نہ کریں۔ تو یہ چند واقعات مَیں نے لئے ہیں۔ بیشمار واقعات تھے۔ شاید اس سے بھی زیادہ ایمان افروز بعض واقعات ہوں لیکن مَیں نے کوئی خاص چن کر نہیں لئے بلکہ بغیر غور کئے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔ اب اس کے بعد حسبِ روایت گزشتہ سال کے کوائف پیش کرتا ہوں اور تحریکِ جدید کے اٹھہتّرویں 78) (سال کا اعلان کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس نئے سال کو بھی بیشمار برکتوں اور پھلوں سے نوازے۔
اللہ کے فضل سے گزشتہ سال جو تحریکِ جدید کا ستترواں مالی سال تھا اور اکتیس اکتوبر کو ختم ہوا۔ اب تک جو رپورٹس آئی ہیں اُن کے مطابق تحریکِ جدید کے مالی نظام میں جماعت نے چھیاسٹھ لاکھ اکتیس ہزار پاؤنڈ (£ 6631,000) کی قربانی پیش کی ہے۔ الحمدللہ۔ یہ وصولی گزشتہ سال کی وصولی کے مقابلے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے گیارہ لاکھ باسٹھ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔ صرف ایک سال میں اتنا بڑا اضافہ پہلے کبھی تحریک جدید کے چندوں میں نہیں ہوا اور یہ اضافہ چندہ دینے والوں کی تعداد میں بھی ہوا ہے اور معیارِ قربانی بھی بہت بڑھا ہے جبکہ دنیا کے معاشی حالات اور خاص طور پر یورپ کے جیساکہ مَیں نے کہا ابتر ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس رقم میں بھی برکت ڈالے اور جو جماعتی منصوبے ہیں ان کو پورا کرنے کی توفیق عطافرمائے اور وہ بغیر کسی روک کے مکمل ہوتے چلے جائیں۔ جس طرح دنیا کے مالی بحران نے چندہ میں کمی نہیں کی، قربانیوں میں کوئی کمی نہیں آئی اسی طرح اللہ کرے کہ یہ مالی بحران ہمارے منصوبوں میں بھی کوئی روک نہ ڈال سکے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان نے سخت مالی حالات کے باوجود، معاشی حالات کے باوجود اپنی قربانی کا پہلے نمبر کاجومعیار قائم رکھا ہوا ہے، وہ قائم ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر اس سال امریکہ ہے۔ تیسرے نمبر پر جرمنی ہے اور چوتھے نمبر پر برطانیہ (یوکے) ہے۔
پچھلے سال یوکے کا پاکستان کے بعد دوسرا نمبر تھا۔ تیسرا امریکہ کا تھا اور چوتھا جرمنی کا تھا۔ جرمنی چوتھے سے تیسرے پر آیا ہے اور بہت بڑی قربانی دے کر آیا ہے۔ کینیڈا حسبِ سابق پانچویں نمبر پر، ہندوستان چھٹے نمبر پر۔ انڈونیشیا نے بھی گو مالی لحاظ سے بہت قربانی دی ہے لیکن ہندوستان کی جماعتوں نے بھی بہت زیادہ قربانی دی ہے اس لئے انڈونیشیا ساتویں نمبر پر ہی رہا ہے۔ آسٹریلیا آٹھویں نمبر پر۔ ایک عرب ملک ہے جس کا مَیں نام لینا نہیں چاہتا، نویں نمبر پر۔ سوئٹزرلینڈ دسویں نمبر پر۔
اور فی کس ادائیگی کے لحاظ سے اُس عرب ملک کے علاوہ امریکہ ایک سو اٹھارہ پاؤنڈ فی کس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ پھر سوئٹزرلینڈ ہے، پھر بیلجیم ہے۔
اور اسی طرح مقامی کرنسیوں میں بھی جو اضافہ ہوا ہے اُس میں جرمنی سب سے زیادہ وصولی کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ مَیں نے کہا قربانی کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سال ایک لاکھ نو ہزار نئے چندہ دینے والے شامل ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے پر ایک لاکھ نو ہزار بڑھ گئی اور گو اس میں ابھی بھی بہت گنجائش ہے جیسا کہ مَیں نے افریقن جماعتوں کو کہا تھا اس پر نائیجیریا نے اچھا کام کیا ہے۔
مجموعی وصولی کے لحاظ سے افریقن جماعتوں میں گھانا سرِ فہرست ہے۔ اس کے بعد ماریشس ہے۔ پھر نائیجیریا ہے۔ جنہوں نے نمایاں اضافہ کیا ہے اُن میں گیمبیا اور برکینا فاسو نے اچھی کوشش کی ہے۔
شاملین کی تعداد میں اضافے کے لحاظ سے نائیجیریا دنیا بھر کے ملکوں میں پہلے نمبر پر ہے۔ انہوں نے اس سال چھپن ہزار افراد کا اضافہ کیا ہے اور اس کے بعد پھر سیرالیون، آئیوری کوسٹ، برکینا فاسو وغیرہ ہیں۔ مرکزی ریکارڈ کے مطابق دفتر اول کے کل مجاہدین کی تعداد پانچ ہزار نو سو ستائیس ہے، جس میں سے تین سو چالیس خدا کے فضل سے ابھی زندہ موجود ہیں جو اپنا چندہ خود ادا کر رہے ہیں۔ باقی مرحومین کے چندے اُن کے ورثاء دے رہے ہیں۔ چندوں کے لحاظ سے پاکستان کی تین بڑی جماعتوں میں اول لاہور ہے، دوم ربوہ ہے اور سوم کراچی ہے۔ اوردس شہری جماعتوں میں راولپنڈی نمبر ایک پہ ہے، اسلام آبادنمبردو، کوئٹہ نمبر تین، اوکاڑہ نمبر چار، حیدرآبادنمبرپانچ، پشاور چھ، میر پور خاص سات، بہاولپور آٹھ، ڈیرہ غازی خان نو اور نوابشاہ دس۔
ضلعی سطح پر قربانی کرنے والے پاکستان کے اضلاع میں سیالکوٹ نمبر ایک، عمر کوٹ نمبر دو (اس سال اس ضلع میں میر پور خاص اور عمر کوٹ میں تو بارشوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے اور اکثر جماعتیں زمیندارہ جماعتیں ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی قربانی کو قائم رکھا ہے) سرگودھا نمبر تین، شیخو پورہ نمبر چار، گجرات نمبر پانچ بہاول نگر نمبر چھ، بدین سات، نارووال آٹھ، سانگھڑ نمبر نو اور میر پور آزاد کشمیر اور حافظ آبادنمبر دس پرہیں۔ امریکہ کی پہلی دس جماعتیں۔ Los Angeles اِن لینڈ ایمپائر نمبر ایک۔ پھر Detroit، پھر سیلی کون ویلی، شکاگو ویسٹ، ہیرس برگ، ڈیلس (Dalas)، لاس اینجلس ویسٹ، بوسٹن، سلور سپرنگ (Silver Spring) اور پوٹو میک (Potomac) ہیں۔ (وصولی کے لحاظ سے) جرمنی کی جماعتیں روئیڈر مارک، نوئے ایس، کولون، فلوئرز ہائم، آؤگس بُرگ، نوئے ایزن بُرگ، کارلزروئے، مہدی آباد، آلزائے اور ماربُرگ ہیں۔ وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی جو پہلی دس لوکل امارتیں ہیں ان میں ہیمبرگ، فرینکفرٹ، گروس گیراؤ، ڈارمشٹڈ، ویز بادن، من ہائم، ریڈ شٹڈ، ڈیٹسن باخ، آفن باخ شامل ہیں۔ وصولی کے لحاظ سے یو۔ کے کی پہلی دس بڑی جماعتیں جو ہیں ان میں مسجد فضل لندن، نیو مالڈن، ووسٹر پارک، چیم سکنتھورپ، ماسک ویسٹ، ویسٹ ہل، بیت الفتوح، رینیز پارک اور مانچسٹر ساؤتھ شامل ہیں۔ پہلے تین ریجن جو ہیں ان میں لنڈن ریجن پہلے نمبر پر، پھر نارتھ ایسٹ ریجن اور پھر مڈلینڈ ریجن ہے۔
ادائیگی کے لحاظ سے پہلی پانچ چھوٹی جماعتیں۔ برا ملے اور لیوشم، لیمنگٹن سپا، وولور ہیمپٹن، سپن ویلی اور کیتھلے ہیں۔ وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی جماعتیں ایڈمنٹن، وان ویسٹ، پیس ولیج ویسٹ، سرے ایسٹ اور سسکاٹون ہیں۔ انڈیا کا گو چھٹا نمبر ہے لیکن نام اس لئے لے رہا ہوں کہ یہ وہ جگہ ہے جس میں قادیان بھی ہے اور اس جگہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ آپ کا شہروہاں ہے۔ انڈیا کی جو جماعتیں ہیں اس کے صوبہ جات میں کیرالہ پہلے نمبر پر رہا ہے، تامل ناڈو دو نمبر پر، آندرا پردیش، جموں کشمیر، بنگال، کرناٹک، اڑیسہ، پنجاب، یوپی اور دہلی ہیں۔ جبکہ جماعتوں میں کیرولائی، کالی کٹ، حیدرآباد، کلکتہ، کنانور ٹاؤن، قادیان نمبر چھ پر، کوئمبٹور، چنائی، پینگاڈی اور دہلی ہیں۔ اس دفعہ بعض جماعتوں نے اپنے چندوں میں کیونکہ غیر معمولی اضافے کئے ہیں اس لئے اگرچہ تحریکِ جدید کاجو چندہ ہے یہ مرکزی چندہ ہوتا ہے اس میں مقامی ملکی جماعت کا کوئی حصہ نہیں ہوتا اور مرکز کے جو پراجیکٹ ہیں وہ انڈیا میں بھی ہیں اور باقی غریب ممالک افریقہ میں ہیں یا جو مرکزی اخراجات ہیں وہ اس سے پورے کئے جاتے ہیں لیکن اس دفعہ ان کی غیر معمولی وصولیوں کی وجہ سے جو امریکہ نے بھی تقریباً ایک لاکھ اٹھاسی ہزار پاؤنڈ کا غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ اس لئے ان کی ڈالروں کی جو رقم ہے اس میں سے ویسے تو ان کو حق نہیں لیکن ان کو مَیں اس دفعہ اس میں سے بھی ایک لاکھ ڈالر کا حصہ دے رہا ہوں۔ جرمنی نے تین لاکھ سے اوپر کاغیر معمولی اضافہ کیا ہے، اس لئے ان کو ڈیڑھ لاکھ یورو اس میں سے دیا جا رہا ہے اور یہ اس لئے دیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور جرمنی میں کیونکہ مساجد کی تعمیر ہو رہی ہے یہ رقم وہ مساجد پر خرچ کریں۔ یوکے کا بھی اضافہ کافی ہے لیکن جتنا پہلی دو جماعتوں کا ہے اتنا نہیں۔ اس لئے پچاس ہزار پاؤنڈ ان کو بھی مساجد کی تعمیرکے لئے دئیے جا رہے ہیں کیونکہ اب مساجد کی طرف یہاں بھی توجہ پیدا ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ مبارک کرے اور آئندہ بھی پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے۔ ان سب کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔
ابھی نمازوں کے بعد مَیں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو ہمارے ایک بزرگ مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی کا جنازہ ہے جو تین نومبر کو صبح تین بجے اکانوے سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ پرانے خادمِ سلسلہ تھے۔ واقفِ زندگی تھے۔ ایڈیٹر روزنامہ الفضل رہے ہیں۔ 1920ء میں ان کی دہلی میں پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد صحابی تھے جنہوں نے 1900ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی اور ان کے دادا بھی صحابی تھے جنہوں نے 1890ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی۔ 1944ء میں مکرم دہلوی صاحب نے زندگی وقف کی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے روزنامہ الفضل میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر ان کو مقرر فرمایا اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے جنرل ازم میں پوسٹ گریجویشن کروایا۔ 1946ء سے 71ء تک بطور نائب ایڈیٹر روزنامہ الفضل خدمت کی توفیق پائی۔ 71ء سے لے کے88ء تک ایڈیٹر روزنامہ الفضل کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ اس طرح مجموعی طورپر 43سال تک الفضل قادیان، لاہور اور ربوہ کے ادارے سے وابستہ رہے۔ 46ء میں قائمقام وکیل التبشیر کے طور پر قادیان میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 47ء کے پُر آشوب حالات میں اُس وقت کے ناظر امورِ خارجہ کے ساتھ اسسٹنٹ کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ پھر 1950ء سے 1953ء کے پُر آشوب دور میں آپ نے رپورٹنگ کے حوالے سے بہت خدمات انجام دیں۔ 1960ء سے 73ء تک ماہنامہ انصاراللہ جو انصاراللہ پاکستان کا رسالہ ہے اُس کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 74ء میں بھی صحافتی ذمہ داریاں بڑی خوش اسلوبی سے نبھائیں۔ 75ء، 76ء اور 80ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے یورپ، امریکہ، کینیڈا اور مغربی افریقہ کے دوروں پر آپ کے ساتھ جانے کی توفیق ملی۔ 82ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے ساتھ مسجد بشارت سپین کے افتتاح کے موقع پر گئے۔ 89ء میں خلیفۃ المسیح الرابع کی ہدایت پر جماعت احمدیہ جرمنی میں قضا کا نظام قائم کرنے کی توفیق ملی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی جو کتاب تھی Murder in the name of Allah اُس کے جو باب حضور رحمہ اللہ نے انگریزی میں لکھے تھے ان کا اردو ترجمہ آپ نے کیا۔ اسی طرح، Christianity-A Journey from facts to fiction کا اردو میں ترجمہ کیا۔ دو تین اپنی کتابیں بھی لکھیں جن میں سے ایک سفرِ حیات ہے۔
ان کے بچے عرفان احمد خان صاحب اور عثمان خان صاحب جرمنی میں ہیں اور ڈاکٹر عمران خالد ربوہ میں ہیں۔ بڑے نیک سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہر سال جرمنی جلسہ پر آیا کرتے تھے۔ یہاں بھی آیا کرتے تھے۔ ابھی جب دوبارہ میں گیا ہوں تو ان کی طبیعت بڑی خراب تھی، بیمار تھے، ہسپتال میں تھے لیکن جب میرے آنے کا سنا تو یہی فکر تھی کہ ہسپتال سے مَیں جلدی فارغ ہوں اور جا کے مسجد میں پیچھے نمازیں پڑھنے کا موقع ملے۔ اور پھر بہر حال آئے اور جمعہ والے دن جمعہ بھی پڑھا۔ عموماً جمعہ کے بعد یا کسی بھی نماز کے بعد مَیں مسجد میں نہیں ملا کرتا لیکن اُس دن مجھے بڑا خیال آیا کہ ان سے ملوں۔ چنانچہ جمعہ کے بعد ان سے وہیں آخری ملاقات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے۔