خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ نومبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ جمعہ کو مَیں نے حدیث کی ایک روایت بیان کی تھی کہ جنگِ احزاب میں ایک دن ایسا آیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو پانچوں نمازیں دشمن کے لگاتار حملوں کی وجہ سے جمع کر کے پڑھنی پڑیں۔ اس پر ہمارے عربی ڈیسک کے (محمد احمد) نعیم صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کاایک حوالہ مجھے بھجوایا جو اس روایت کی نفی کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے بعد کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی۔ آپ اس زمانے کے امام ہیں۔ بلکہ روایات کے متعلق آپ نے بیان فرمایا کہ مَیں نے خود رؤیا میں یا کشف کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں یا آپ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ (ماخوذ از اصحاب احمد جلد 10حصہ اول صفحہ نمبر262روایت حضرت مولوی عبدالواحد خان صاحبؓ ضیاء الاسلام پریس ربوہ)

پس اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جو روایت مَیں نے بیان کی تھی یہ حدیث کی بعض کتب میں ہے۔ لیکن اصل واقعہ اس طرح نہیں تھا اور احادیث کی سب کتب اس پر متفق بھی نہیں ہیں۔ جو روایت ہے وہ پانچ نمازوں کی نہیں۔ جن حدیثوں میں بھی ہے، پانچ نمازوں کی نہیں بلکہ چار نمازوں کی ہے۔ لیکن اس پر بھی اختلاف ہے اور زیادہ معتبر یہی ہے کہ صرف عصر کی نماز ہی مغرب کے ساتھ پڑھی گئی یا تنگی وقت کے ساتھ ادا کی گئی۔

اس بارے میں علم کی خاطر بعض روایات بھی پیش کر دیتا ہوں، بعض لوگوں کا شوق بھی ہوتا ہے۔ جہاں تک چار نمازوں کے جمع کرنے کا سوال ہے، یہ سنن ترمذی کی روایت ہے اور وہ حدیث اس طرح ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ابو عبیدہ بن عبداللہؓ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ عبداللہؓ بن مسعودنے فرمایا کہ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خندق کے روز چار نمازوں سے روکے رکھا، یہاں تک کہ جتنا اللہ نے چاہا رات کا حصہ چلا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو ارشاد فرمایا تو انہوں نے اذان دی پھر اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ پھر اقامت کہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی۔ اور پھر اقامت کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پڑھائی۔ پھر اقامت کہی گئی تو آپؐ نے عشاء کی نماز پڑھائی۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہ سنن ترمذی کی کتاب، کتاب الصلوۃ میں ہے۔ (سنن ترمذی کتاب الصلوٰۃ باب ما جاء فی الرجل تفوتہ الصلوات بایتھن یبدء حدیث 179)

اور اسی طرح بیہقی نے بھی اس روایت کو لکھا ہے اور سعودی عرب میں کوئی مکتبہ، مکتبۃ الرشد ہے انہوں نے 2004ء میں یہ شائع کی تھی، وہاں سے بھی یہ ملتی ہے۔ (السنن الکبرٰی از امام بیھقی کتاب الصلاۃ، ذکر جماع ابواب الاذان و الاقامۃباب صحۃ الصلاۃ مع ترک الاذان والاقامۃ او ترک احدھما حدیث 1954 جلد 1 صفحہ 540-541، مکتبۃ الرشد سعودی عرب 2004ء)

لیکن صحیح بخاری، مسلم اور سنن ابی داؤد میں حضرت علیؓ کے حوالے سے جو حدیث ہے وہ اس طرح ہے کہ حضرت علیؓ بیان فرماتے ہیں کہ خندق کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر ے۔ انہوں نے ہمیں صلوۃِ وُسطیٰ سے روکے رکھا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ (صحیح بخاری کتاب الجھاد و السیر باب الدعاء علی المشرکین بالھزیمۃ و الزلزلۃ حدیث 2931) (مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب التغلیظ فی تفویت صلاۃ العصر حدیث 1420) (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی وقت صلاۃ العصر حدیث 409)

تو اس سے یہی استدلال کیا جاتا ہے کہ یہ نماز عصر تھی۔ بہر حال جو مَیں بیان کرنا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازوں کے ضائع ہونے کی اس قدر تکلیف تھی کہ آپ نے دشمن کو بددعا دی۔ یہاں تو پھراس کی اہمیت اس مضمو ن کے تحت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ ایک وقت کی نماز کا ضائع کرنا بھی آپ کو برداشت نہیں تھا اور آپ نے دشمن کو سخت کہا۔

اس بارے میں صحیح بخاری کی ایک روایت ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور کفارِ قریش کو برا بھلا کہنے لگے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! مجھے تو عصر کی نماز بھی نہیں ملی یہاں تک کہ سورج غروب ہونے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخدا! مَیں نے بھی نہیں پڑھی۔ اس پر ہم اُٹھ کر بُطحان کی طرف گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لئے وضو کیا اور ہم نے بھی اس کے لئے وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد آپؐ نے عصر کی نماز پڑھی۔ پھر اس کے بعد آپؐ نے مغرب کی نماز پڑھی۔ (صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ باب من صلی بالناس جماعۃ بعد ذھاب الوقت حدیث 596)

علامہ ابن حجر عسقلانی ؒ بخاریؒ کی شرح فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ ابنِ عربیؒ نے اس بات کی تصریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نماز جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو روکے رکھا گیا تھا وہ صرف ایک نماز تھی یعنی نمازِ عصر۔ اس نماز کی ادائیگی یا تو اُس وقت کی گئی تھی جب مغرب کی نماز کا وقت ختم ہو گیا تھا یا یہ ہے کہ سورج کے غروب ہونے کا آخری وقت تھاجب عصر کی نماز ادا کی گئی۔ (فتح الباری شرح صحیح بخاری لعلامہ ابن حجر عسقلانی جلد 2صفحہ 88-89 کتاب مواقیت الصلاۃ باب من صلی بالناس جماعۃ بعد ذھاب الوقت حدیث 596۔ قدیمی کتب خانہ کراچی)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پرجو تفصیل سے روشنی ڈالی ہے وہ اب پڑھ دیتا ہوں۔ ایک عیسائی پادری فتح مسیح صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادہ اعتراض کئے اور ایک بڑا گندہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا تو اس کا جواب آپ نے نور القرآن حصہ دوم میں دیا ہے۔ مختلف قسم کے اعتراضات ہیں، اُن کے جواب ہیں۔ اُس میں ایک یہ اعتراض بھی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن چار نمازیں نہیں پڑھیں۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو جواب فرمایا وہ اُس میں لکھا ہوا یہ ہے کہ آپ فتح مسیح کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اور آپ کا یہ شیطانی وسوسہ‘‘ (یعنی فتح مسیح کا یہ شیطانی وسوسہ) ’’کہ خندق کھودتے وقت چاروں نمازیں قضا کی گئیں۔ اول آپ لوگوں کی علمیت تو یہ ہے کہ قضا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اے نادان قضا نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں۔ ترکِ نماز کا نام قضاہرگز نہیں ہوتا۔ اگر کسی کی نماز ترک ہو جاوے‘‘ (چھٹ جاوے) ’’تو اُس کا نام فوت ہے۔ اسی لئے ہم نے پانچ ہزار روپے کا اشتہار دیا تھا کہ ایسے بیوقوف بھی اسلام پر اعتراض کرتے ہیں جن کو ابھی تک قضا کے معنی بھی معلوم نہیں‘‘۔ اس بارے میں عموماً ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ قضا کا مطلب یہی ہے کہ نماز ضائع ہو گئی۔ حالانکہ قضاکا مطلب ہے ادائیگی کی گئی۔ اور کچھ وقت کے بعدنماز کی ادائیگی ہو گئی۔

فرماتے ہیں کہ’’جو شخص لفظوں کو بھی اپنے محل پر استعمال نہیں کر سکتا وہ نادان کب یہ لیاقت رکھتا ہے کہ امورِ دقیقہ پر نکتہ چینی کر سکے‘‘۔ (یہ جو گہرے امور ہیں ان پر کسی قسم کا اعتراض کرے۔) ’’باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں۔ اس احمقانہ وسوسے کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے‘‘۔ (یعنی کسی قسم کی کوئی تنگی اور سختی نہیں) ’’یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو۔ اس لئے اُس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کرنے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے۔ مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں‘‘۔ (یعنی چار نمازیں جمع کرنے کا ذکر نہیں ہے) ’’بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلٰوۃُ العَصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔ اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم آپ کو ذرا بٹھا کر پوچھتے کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہو گئی تھیں‘‘ (یعنی ادا ہی نہیں کی گئی تھیں۔) ’’چار نمازیں تو خود شرع کی رُو سے جمع ہو سکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر۔ اور مغرب اور عشاء۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کر کے پڑھی گئی تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو رَد کرتی ہیں اور صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی‘‘۔ (نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 389-390)

پس آپ علیہ السلام کے اس فیصلہ کے بعد، اس مہر ثبت کرنے کے بعد یہ چار نمازیں پڑھنے والی بھی جو حدیث ہے وہ بھی غلط ہے۔ صرف عصر کی نماز کا ہوا تھا لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اُس پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا دُکھ تھا کہ آپ نے دشمن کو برا کہا اور کہا کہ ہماری نمازیں ضائع کر دی ہیں۔ بہر حال یہ حدیث جو مَیں نے پچھلی دفعہ خطبہ میں پڑھی تھی اس کو پڑھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ہمارے لٹریچر میں بھی جہاں اس کا ذکر ہے وہاں اصلاح ہو جائے گی۔ ایک تو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی سیرۃ النبیؐ کی جوکتاب ہے اُس میں بیان ہوئی ہے لیکن وہاں صحیح رنگ میں بیان ہوئی ہے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا۔ اور وہاں آپ نے ولیم میور کے الفاظ لکھے ہیں جس نے چار نمازیں جمع کرنے کا ذکر کیا ہے۔ لیکن حضرت میاں صاحب نے (مرزا بشیر احمد صاحب نے) وہاں اس کے بیان کی نفی کر دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو فیصلہ ہے کہ صرف عصر کی نماز بے وقت ادا ہوئی تھی، جو حدیثوں میں بھی ملتا ہے، بخاری سے ہی ملتا ہے، اُسی کے مطابق اُس کی وضاحت کی ہے۔ (ماخوذاز سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے ؓ صفحہ588ایڈیشن سوم 2003)

لیکن ایک اور جگہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 23؍ مئی 1986ء میں اپنے ایک خطبے میں پانچ نمازوں کے جمع ہونے کا بیان فرمایا ہے اور مسند احمد بن حنبل کے حوالے سے بھی یا بخاری کے حوالے سے بیان فرمایا ہے۔ لیکن طاہر فاؤنڈیشن نے جو خطبات شائع کئے ہیں اُس میں بخاری کتاب المغازی کا حوالہ دیا ہوا ہے حالانکہ وہاں بخاری میں اس کتاب المغازی کے تحت یہ اس طرح بیان نہیں ہوئی۔ (خطبات طاہر جلدنمبر5صفحہ نمبر377تا379۔ (خطبہ جمعہ 23مئی 1986ء)طاہر فاؤنڈیشن ربوہ)

مَیں عموماً اصل حدیثیں خود دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن مَیں نے حدیث کا یہ حوالہ کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے اُس خطبہ میں دیکھا تھا اس لئے مَیں نے چیک نہیں کیا۔ اور پھر یہ حوالہ بھی (درج) تھا اس لئے غلطی بھی بہر حال ہوئی۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا اس غلطی کا فائدہ ہوا۔ ایک تو لٹریچر میں جہاں کہیں بھی اگرہے تو درستی ہو جائے گی۔ دوسرے مجھے خود بھی احساس ہو گیا ہے کہ بعض دفعہ جو حوالے کہیں سے لیتا ہوں اُن کو مزید چیک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

تیسرے یہ کہ ہمارے ادارے یہ خیال رکھیں کہ جب پہلے خلفاء کی بھی تقریر یا خطبہ شائع کر رہے ہوں تو اصل حوالہ اور اگر اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی ارشاد ہو تو اُسے ضرور دیکھنا چاہئے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ خلیفہ ٔ وقت کے الفاظ کو خود کوئی ٹھیک نہیں کرے گا بلکہ خلیفہ ٔوقت سے ہی پوچھنا چاہئے۔ اور پہلے خلفاء کا اگر کہیں بیان ہوا ہے تو اُن حوالوں کی صحیح روایت احادیث میں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب میں کہیں ملتی ہے تو اُس کے مطابق درستی ہونی چاہئے لیکن وہ خلیفہ ٔ وقت سے پوچھ کر درستی ہو گی۔ اس لئے طاہر فاؤنڈیشن والوں کو بھی اس خطبے میں جو 1986ء کا خطبہ ہے، جہاں پانچ نمازوں کے جمع ہونے کی یہ مثال دی گئی ہے، اس کی اصلاح کرنی چاہئے تھی۔ اب آئندہ ایڈیشنوں میں اس کی اصلاح کریں۔ کس طرح کرنی ہے؟ وہ مجھے لکھ کر بھجوائیں گے توپھر اُن کی رہنمائی کی جائے گی کہ کس طرح اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اور آئندہ بھی یہی اصول ہے۔ جو بھی خلفاء ہوں گے وہ پچھلے خلفاء کی(تحریر میں ) اگر کہیں غلط روایت آ جاتی ہے تو وہ اپنی ہدایت کے مطابق ٹھیک کریں گے لیکن من و عن اُس کو بغیر تحقیق کے شائع کر دینا غلط طریق ہے جبکہ دوسری روایات موجود ہوں یا بعض روایات مشکوک ہوں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اس کے بارے میں فیصلہ ہوتوپھر پوری تحقیق ہونی چاہئے۔ بہر حال اس وضاحت کو مَیں ضروری سمجھتا تھا اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس کا یہ فائدہ سب کو ہو گیا ہے کہ واقعاتی اور علمی صورت بھی سامنے آ گئی ہے۔ اُس کی بھی اصلاح ہو گئی اور بعض ضمنی علمی باتیں بھی سامنے آ گئیں اور انتظامی رہنمائی بھی ہو گئی۔

اب اس کے بعدمَیں جس مضمون کی طرف آنا چاہتا ہوں وہ گزشتہ دنوں وفات پانے والے چند بزرگان کا ذکرِ خیر ہے جن میں سے سب سے پہلے مَیں بیان کروں گاکہ گزشتہ ہفتہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی صاحبزادی امۃ النصیر بیگم صاحبہ جو میری خالہ بھی تھیں اُن کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وفات کے وقت آپ کی عمر 82سال تھی اور ماشاء اللہ آخر وقت تک ایکٹو (Active) تھیں۔ تین چار دن پہلے دل کی تکلیف ہوئی۔ ہسپتال میں داخل ہوئیں۔ ڈاکٹر نوری صاحب نے علاج کیا۔ ایک نالی کی

اینجو پلاسٹی وغیر ہ بھی ہوئی۔ اُس کے بعد ٹھیک بھی ہو رہی تھیں لیکن لگتا ہے کہ پھر دو تین دن بعد دوبارہ اچانک ہارٹ اٹیک ہوا ہے جو جان لیوا ثابت ہوا۔ ہسپتال میں ہی تھیں۔ اور اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ مرحومہ بہت ہنس مکھ، خوش مزاج اور دوسروں کا ہر طرح سے خیال رکھنے والی تھیں۔ ظاہری مالی مدد بھی اور جذبات کا خیال رکھنا بھی آپ کا خاص وصف تھا۔ ان کے جاننے والوں کے جو تعزیت کے خط مجھے آ رہے ہیں، اُن میں یہ بات تقریباً اُن کے ہر واقف نے لکھی ہے کہ اُن جیسے بے نفس اور دوسروں کے احساسات اور جذبات کا گہرائی سے خیال رکھنے والے ہم نے کم دیکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری ان خالہ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور اپنے پیاروں میں اُنہیں جگہ دے۔

ان کی پیدائش اپریل 1929ء میں حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے بطن سے ہوئی تھی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی حرمِ ثالث تھیں، تیسری بیوی تھیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کی وفات جب ہوئی ہے تو صاحبزادی امۃ النصیر بیگم صرف ساڑھے تین سال کی تھیں۔ تو آپ کے بچپن کے جذبات اور احساسات کا نقشہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنے ایک مضمون میں کھینچا ہے۔ وہ ایسا نقشہ ہے جسے پڑھ کر انسان جذبات سے مغلوب ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ مَیں اپنے آپ پربڑا کنٹرول رکھتا ہوں۔ کم از کم علیحدگی میں جب پڑھ رہا تھا تو کنٹرول کرنامشکل ہو جاتا ہے۔ بہر حال اُس میں سے کچھ حصے جو ان کے بچپن سے ہی اعلیٰ کردار کے متعلق ہیں مَیں بیان کروں گا۔ اور اس میں بھی ہر ایک کے لئے بڑے سبق ہیں۔ جیساکہ مَیں نے کہا کہ ان کی عمر صرف ساڑھے تین سال تھی جب ان کی والدہ فوت ہوئیں۔ لیکن اُس بچپنے میں بھی ایک نمونہ قائم کر گئیں۔ اور وہ مضمون جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے لکھا ہے بڑا تفصیلی مضمون ہے۔ بہر حال مَیں اُس کے کچھ حصے، ایک دو باتیں بیان کروں گا۔ جب اس مضمون کو انسان پڑھ رہا ہو تو اُس موقع کی ایک جذباتی حالت ہے اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا بیان ہوتو عجیب کیفیت ہو جاتی ہے۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا ایک مضمون کا کچھ حصہ آگے جا کے پیش کروں گا۔ مختصراً پہلے ان کی سیرت کے بارے میں مختلف لوگوں نے جو مجھے لکھا ہے وہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ بلکہ میری والدہ بتایا کرتی تھیں کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمہاری خالہ کو اُن کی والدہ کی وفات کے بعد حضرت امِ ناصررضی اللہ تعا لیٰ عنہا کے سپرد کر دیا تھا اور اس کا ذکر حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فرمایا ہے۔ ا ور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اُس وقت میری والدہ کو یہ ہدایت فرمائی تھی کہ ان کا خیال رکھنا۔ میری والدہ ان سے تقریباً 19سال بڑی تھیں اور بچوں والا تعلق تھا۔ جب میری والدہ کی شادی ہوئی ہے تو اُس وقت ہماری یہ خالہ سات آٹھ سال کی یا زیادہ سے زیادہ نو سال کی ہوں گی۔ جب میری والدہ کی رخصتی ہونے لگی تو خالہ نے ضد شروع کر دی کہ مَیں باجی جان کے بغیر نہیں رہ سکتی مَیں نے بھی ساتھ جانا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے پھر سمجھایا توخیر سمجھ گئیں۔ خاموش تو ہو گئیں اور بڑی افسردہ رہنے لگیں لیکن وہی صبر اور حوصلہ جو ہمیشہ بچپن سے دکھاتی آئی تھیں اُس کا ہی مظاہرہ کیا۔ بہر حال پھر بعد میں حضرت اماں جان اُمُّ المؤمنین کے پاس رہیں۔ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربوہ میں اپنے بچوں کے جو گھر بنا کر دئیے ہوئے ہیں ان میں خالہ کا اور ہماری والدہ کا گھر ساتھ ساتھ ہیں۔ دیوار سانجھی ہے۔ جب تک گھروں کے نقشے نہیں بدلے تھے اور مزید تعمیر نہیں ہوئی تھی، بعد میں کچھ مزید تعمیر ہوتی رہی تو بیچ میں دروازے بھی تھے، ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تھا اور بڑی بے تکلفی ہوتی تھی۔ مَیں نے خالہ کو ہمیشہ ہنستے اور خوش دلی سے ملتے اور اپنے گھر میں ہر بڑے چھوٹے کا استقبال کرتے دیکھا ہے۔ مہمان نوازی آپ میں بہت زیادہ تھی۔ امیر ہو یا غریب ہو، بڑا ہے یا چھوٹا ہے، اپنے گھر آئے ہوئے کی خاطر کرتی تھیں۔ ان کے میاں، ہمارے خالو مکرم پیر معین الدین صاحب جو پیر اکبر علی صاحب کے بیٹے تھے، ان کے خاندان کی اکثریت غیر از جماعت تھی۔ خالہ نے اُن کے ساتھ بھی بڑا تعلق نبھایا۔ مکرم پیر معین الدین صاحب کی ایک بھتیجی نے لکھا کہ ہمارے ددھیال والے غیر از جماعت ہیں لیکن اُن کے ساتھ بھی ہماری چچی کا سلوک بہت محبت اور پیار اور احترام کا تھا اور سب ان کی بہت قدر کرتے اور محبت سے ان کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ پیار کا سلوک اللہ کرے کہ قریب لانے کا باعث بھی بنے، ان کی دعائیں بھی قریب لانے کا باعث بنیں اور ان لوگوں کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہچاننے اور ماننے کی توفیق ملے۔

اپنے بھانجے بھانجیوں، بھتیجے بھتیجیوں سے بڑی بے تکلفی اور پیار کا تعلق تھا اور وہ سب ان سے راز داری بھی کر لیتے تھے اور اسی بے تکلفی کی وجہ سے اُن کی نصیحت کو سنتے بھی تھے اور برا نہیں مناتے تھے۔ ڈانٹ بھی اُن کی پیار اور ہنسی کے ساتھ ہوتی تھی۔ اگر نصیحت کرنی ہوتی تو ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت اماں جان (اُمّ المومنینؓ) اور حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعات سنا کر تنبیہ اور نصیحت فرمایا کرتی تھیں۔ اُن کی ایک بھانجی نے مجھے بتایا کہ ایک موقع پر اُن سے اور ایک کزن سے غیر ارادی طور پر ایک ایسی غلطی ہوئی جس غلطی میں لطیفہ بھی تھا۔ دونوں بے چین تھیں کہ کسی بڑے کو بھی اس میں شامل کیا جائے لیکن جس طرف نظر دوڑاتے تھے یہی نظر آتا تھا کہ ڈانٹ پڑے گی۔ آخر دونوں ان کے پاس آئیں۔ انہوں نے بڑے تحمل سے ان کی بات سنی۔ لطیفہ بھی ایسا تھا کہ ہنسی بھی آئی اور پھر اُن کو پیار سے ڈانٹا بھی اور بتایا کہ ایسے موقع پر اسلامی تعلیم اس طرح کی ہے۔ تو کوئی موقع بھی اسلامی تعلیم کا، احمدیت کی روایات بیان کرنے کا ضائع نہیں کرتی تھیں۔ جب بھی موقع ملتا اس لحاظ سے سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ اور ان کی یہ ساری باتیں اسی کے گرد گھومتی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی خاندان کی بچیوں کوسمجھاتیں کہ تمہارا اپنا ایک وقار ہے۔ تم لوگوں کو اُس کے اندر رہنا چاہئے۔ مَیں پہلے بھی جب اُن کے گھر گیا ہوں توہمیشہ خوب خاطر مدارات کی جس طرح کہ بڑوں کی کی جاتی ہے۔ اور خلافت کے بعد تو اُن کا تعلق پیار اور محبت کا اور بھی بڑھ گیا۔ اطاعت اور احترام بھی اُس میں شامل ہو گیا۔ باقاعدہ دعا کے لئے خط بھی لکھتی تھیں، پیغام بھی بھجواتی تھیں۔ خلافت کے ساتھ اظہار غیر معمولی تھا۔ یہاں دو مرتبہ جلسے پر آئی ہیں۔ انتہائی ادب اور احترام اور خلافت کا انتہا درجے میں پاس جو کسی بھی احمدی میں ہونا چاہئے وہ اُن میں اُس سے بڑھ کر تھا۔ اس حد تک کہ بعض دفعہ اُن کے سلوک سے شرمندگی ہوتی تھی۔ جب بھی آتی تھیں تو یہی فرمایا کہ ہر سال آنے کو دل چاہتا ہے لیکن عمر کی وجہ سے سوچتی ہوں اور پھر بعض دفعہ پروگرام بنا کے پھر عمل درآمدنہیں ہوتا تھا۔

جیسا کہ مَیں نے کہا، حضرت امّاں جان (اُمّ المومنینؓ ) کے پاس بڑا عرصہ رہی ہیں۔ جب میری والدہ کی شادی ہو گئی تو زیادہ عرصہ پھر حضرت اماں جانؓ کے پاس ہی رہی ہیں۔ بہت روایات اور واقعات حضرت اماں جانؓ کے اُن کو یاد تھے۔ یہاں بھی جب ایک سال ایک جلسے پر آئی تھیں تو لجنہ یوکے کو کچھ ریکارڈ کروائے تھے، صدر صاحبہ لجنہ نے اس کا انتظام کیا تھا۔ وہ واقعات جو حضرت اماں جان کے ہیں اگران کے حوالے سے شائع نہیں ہوئے تو لجنہ کو شائع کرنے چاہئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک مرتبہ اپنی دو بیویوں کی حضرت امّاں جانؓ کے ہاں رات کی ڈیوٹی لگائی کہ باری باری جایا کریں۔ جب اُن کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو حضرت امّاں جانؓ نے فرمایا کہ میرے لئے تو یہ بچی ٹھیک ہے۔ مجھے اسی کی عادت ہو گئی ہے۔ کسی اور کو میرے پاس بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت اماں جانؓ بھی آپ سے بہت محبت اور پیار کا سلوک کرتی تھیں۔ جب آپ کی شادی ہوئی تو حضرت اماں جانؓ بہت اداس رہنے لگی تھیں۔ جب کچھ دنوں کے بعد ملنے واپس آئی ہیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ان کو بازو سے پکڑ کر حضرت امّاں جانؓ کے پاس لے گئے اور کہا یہ لیں آپ کی بیٹی ملنے آئی ہے۔ تو حضرت امّاں جان کا بھی بہت پیار کا سلوک تھا۔

خلافت کے تعلق میں بات کر رہا تھا۔ خلافت سے محبت اور وفا کے ضمن میں یہ بھی بتا دوں کہ وہ اس میں اس قدر بڑھی ہوئی تھیں کہ کسی بھی قریبی رشتے کی پرواہ نہیں کرتی تھیں اور اس وجہ سے بعض دفعہ اُن کو بعض پریشانیاں بھی اُٹھانی پڑیں لیکن ہمیشہ خلافت کے لئے وہ ایک ڈھال کی طرح کھڑی رہیں۔ اُن کے گھر میں پلنے بڑھنے والے لڑکے نے جو جوان ہے بلکہ بڑی عمر کا ہو گا، اُس نے مجھے لکھا کہ محترمہ بی بی جان کی وفات پر ہمارے دل کو بہت صدمہ پہنچا ہے کیونکہ ہم ایک نہایت نیک، دعا گو اور بزرگ ہستی سے محروم ہو گئے۔ پھر آگے لکھتے ہیں کہ بی بی جی نہایت نیک دعا گو، غریبوں اور مستحق لوگوں کی مدد کرنے والی، خدا ترس عورت تھیں۔ ہمیشہ سے ہمیں خلافت سے چمٹے رہنے کی تلقین کیا کرتی تھیں اور خلیفہ وقت کے احکامات کی تکمیل کے لئے موقع ڈھونڈھتی رہتی تھیں۔ پھر کہتے ہیں کہ محلے میں لجنہ کے کام بھی کرتی تھیں تو اکثر لجنہ کا جو ’مصباح‘ رسالہ ہے، اُس کا چندہ وغیرہ لینے کے لئے جو ممبرات تھیں اُن کے پاس مجھے بھیجا کرتی تھیں اور اگر کسی کے گھر سے دیر ہو جاتی یا چندہ نہیں آتا تھا تو اپنے پاس سے دے دیا کرتی تھیں اور یہی فکر رہتی تھی کہ چندے جمع کروانے میں لیٹ نہ ہوں۔ پھر یہ لکھا کہ کبھی کبھی بازار سے سودا لینے بھیجتیں تو پیسے تھوڑے ہو جاتے۔ مَیں اپنی طرف سے خرچ کر لیتا تو کہتیں فوراً میرے سے لے لیا کرو۔ مَیں کسی کا مقروض نہیں رہنا چاہتی۔ اسی طرح یہ لکھنے والے (ممتاز نام ہے اس کا) لکھتے ہیں کہ پھر جس مہینے کوئی زیادہ شادی کارڈ آتے تو مجھے فرماتیں کہ ان تمام کارڈ کی لسٹ بناؤ اور مجھے یاد کرا دینا اور بتاتی تھیں کہ خاندان کی یا بزرگوں کی جوسابقہ خادمہ یاپرانی خادمائیں تھیں اُن کے ضرور جاتی تھیں، یا کہتیں کہ ایک غریب لڑکی کی شادی ہے یہ ضرور یاد کرانا اور بعض اوقات دن میں تین تین بار کہتی تھیں کہ مَیں نے اس غریب لڑکی کی شادی پر ضرور جانا ہے، تیار رہنا۔ اور اسی طرح اُن کی اور نصیحتیں ہیں۔ ان کے داماد سید قاسم احمدنے لکھا ہے کہ خلیفہ ٔ وقت سے محبت اور اطاعت میں خالہ نے محلے کی لجنہ میں جس کی وہ صدر رہی ہیں بہت غیر معمولی اثر پیدا کیا تھا۔ اس معاملے میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں تھی بلکہ ایک فطری جذبہ تھا۔ جس دن وفات ہوئی ہے صبح بار بار کہہ رہی تھیں کہ حضور کی خدمت میں میرے لئے دعا کی درخواست کر دو۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُنہیں اپنی وفات کا اندازہ تھا کیونکہ اپنی ایک نواسی کو انہوں نے اپنی فوت شدہ ایک بھابھی کے بارے میں کہا کہ وہ آئی ہیں۔ بیٹیوں کو بلا کر پیار کیا اور کہا کہ مجھے معاف کر دینا۔ بے شمار خوبیاں تھیں۔ بطور ماں اور ساس اور بیوی کے ان کا نمونہ نہایت اعلیٰ تھا۔ اپنے میاں مرحوم کے مزاج کے مطابق اُن کا ہمیشہ خیال رکھا اور کبھی کوئی شکوے کا موقع نہیں دیا۔

یہ جو پرانے بزرگ ہیں ان کی مثالیں مَیں اس لئے بھی پیش کرتا ہوں کہ ہمارے نئے جوڑوں کو، ایسے خاندانوں کو، میاں بیوی کو جن کے مسائل پیدا ہوتے ہیں ان پر بھی غور کرنا چاہئے۔ خاص طور پر لڑکیوں کو، عورتوں کو اس بات کا خوب خیال رکھنا چاہئے کہ اُن کی سب سے پہلی ذمہ واری اپنے گھروں کو سنبھالنا ہے۔

پھر لکھتے ہیں اپنے میاں کی کامل اطاعت کی اور بیٹیوں کو بھی اپنے خاوندوں کے بارے میں یہی نصیحت کی کہ اپنے خاوندوں کا خیال رکھا کرو۔ کبھی اپنے میاں سے اُن کو بحث کرتے نہیں دیکھا۔ نصیحت کرتیں تو اکثر حضرت مسیح موعودؑ، حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت اماں جان کا ذکر ہوتا۔ غصہ اگر کبھی آیا بھی تو بہت تھوڑی دیر کے لئے اور پھر وہی شفقت والا انداز ہوتا۔ اور لڑکیوں کو، خاندان کی لڑکیوں کو ہمیشہ نصیحت کیا کرتی تھیں کہ ان کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم سے کسی کو ٹھوکر نہیں لگنی چاہئے۔ اللہ کرے کہ اُن کی یہ دعائیں اور یہ نصیحتیں اُن کی بچیوں کے بھی اور خاندان کی دوسری بچیوں کے بھی کام آنے والی ہوں۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ ملازموں کے ساتھ بھی بہت شفقت کا سلوک تھا۔ جو بچیاں گھر میں پل بڑھ کے جوان ہوئیں، اُن کا جہیز چھوٹی عمر سے ہی بنانا شروع کر دیا۔ شادیوں کے اخراجات بھی ادا کئے۔ بعض دفعہ دیکھنے میں آیا کہ کام کرنے والی خاتون اور اُن کی بیٹیوں نے انتہائی بدتمیزی کی۔ بعض نے مشورہ دیا کہ فوراً فارغ کر دینا چاہئے مگر فرماتی رہیں کہ ابھی تو مَیں نے ان کی شادیاں کرنی ہیں۔ شادی کے بعد اُن کے دکھ سکھ میں شامل ہوتی تھیں۔ آج کل جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان میں رشتوں کو نبھانے کے لئے یہ نصیحت بھی بڑی کام کی ہے کہ اکثرکہا کرتی تھیں کہ بہو کو سمجھانا ہو تو بیٹے کو نصیحت کرنی چاہئے اور اگر داماد کو سمجھانا ہو تو بیٹی کو نصیحت کرنی چاہئے۔ احسان کرتے وقت طریق ایسا اختیار کرتیں کہ اگلے کو محسوس نہ ہو۔ عبادات اور چندوں میں غیر معمولی باقاعدگی تھی اور کوشش ہوتی تھی کہ اپنے اوپر اگر تکلیف بھی وارد کرنی پڑے تو زیادہ سے زیادہ کریں اور ان فرائض کو کبھی پَرے نہ کریں۔ 1944ء میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے جائیدادیں وقف کرنے کی تحریک کی تو آپ نے اپنا تمام زیور اس میں پیش کر دیا۔ تیرہ سال کی عمر میں قادیان میں منتظمہ دارالمسیح کا فریضہ انجام دیا۔ سیکرٹری ناصرات قادیان بھی رہیں۔ ہجرت کے بعد رَتن باغ اور پھر ربوہ میں خدمات سرانجام دیں۔ اُن کو ہر طرح مختلف موقعوں پر خدمت کا موقع ملا اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ اُن کو کسی عہدے کی خواہش ہو۔ عہدہ رکھتے ہوئے بھی اگر ایک معمولی سا کام کہا گیا تو فوراً اُس کے لئے تیار ہو جاتی تھیں۔ علمی اور انتظامی لحاظ سے، دینی تعلیم کے لحاظ سے بڑی باصلاحیت تھیں۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ رَتن باغ لاہور میں ممانی جان حضرت صالحہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ساتھ رات کو دورہ کرتی تھیں اور جن کے پاس اوڑھنے کو کپڑا نہیں ہوتا تھا اُن کو کمبل دیا کرتی تھیں۔ یہ بھی ان کا تاریخی واقعہ ہے کہ 1949ء میں حضرت مصلح موعودؓ اور حضرت امّاں جانؓ کے ساتھ اُن کی گاڑی میں ربوہ آنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ فرمایا کرتی تھیں کہ یہ میری زندگی کا یادگار واقعہ ہے۔ مسجد مبارک ربوہ کی سنگِ بنیاد کی تقریب میں ایک اینٹ پر دعا کرنے والی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواتین میں شامل تھیں۔ جب ربوہ آباد ہوا تو کچے مکان تھے۔ ان کو وہاں بھی ربوہ کے کچے مکانوں میں لجنہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر ان کو صدر لجنہ حلقہ دارالصدر شمالی بڑا لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی۔ 1973ء سے 1982ء تک نائب صدر لجنہ ربوہ رہیں۔ جب میری والدہ وہاں صدر لجنہ ربوہ تھیں تو اُس وقت اُن کے ساتھ کام کرنے کی توفیق ملی۔ پھر 82ء کے بعد ایک دو سال خدمتِ خلق کی سیکرٹری لجنہ رہیں۔ سیکرٹری ضیافت بھی رہیں۔ اور اسی طرح محلے کے علاوہ مختلف عہدوں پر کام کرتی رہیں۔ اور ہر موقع پر جو بھی خدمت ان کے سپرد ہوئی، جو بھی عہدہ تھا بڑی عاجزی سے خدمت کیا کرتی تھیں۔ ان کی ایک بیٹی نے لکھا کہ اُمی کی بیماری میں اگر کوئی آپ سے ملاقات کے لئے آتا اور ملاقات نہ ہو سکنے کی وجہ سے واپس چلا جاتا تو آپ کو بہت زیادہ افسوس ہوتا تھا۔ ہمیں بار بار سمجھاتی تھیں کہ کوئی بھی جو ملاقات کے لئے آئے اُسے نہ روکا کرو۔ کبھی منع نہ کیا کرو۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ڈیوڑھی سب کے لئے کھلی رہتی تھی، ہر کوئی مل سکتا تھا تو پھر میری طرف سے کیسے انکار ہو سکتا ہے۔ پھر ایک بیٹی اُن کی لکھتی ہیں کہ اُمی کو اپنے سب بہن بھائیوں سے بہت محبت تھی۔ یہ بات مذاق میں بھی برداشت نہیں تھی کہ اُن کے بہن بھائیوں کے بارے میں کوئی بات کرے یا سوال کرے کہ فلاں آپ کا سگا بہن بھائی ہے یا سوتیلا۔ (حضرت مصلح موعودؓ کی بیویاں تھیں۔ ہر بیوی سے مختلف اولاد تھی تو سگے سوتیلے کا بھی وہاں سوال نہیں اُٹھا) اور اگر کبھی کوئی پوچھ بھی لیتا تو فوراً کہتیں کہ یہ سگے سوتیلے کی باتیں نہیں کرنی کیونکہ یہ بات اباجان کویعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو سخت ناپسند تھی۔ لکھتی ہیں کہ ہمارے ایک غیر احمدی چچا نے کہا کہ بھابھی ہمیشہ بہت وقار کے ساتھ رہتی ہیں۔ پھر والدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ خالہ اُمی سے بہت محبت تھی اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ باجی جان نے مجھے پالا ہے۔ ایک دفعہ ابا جان نے مجھے باجی جان کے سپرد کر دیا اور باجی جان نے اُسے ہمیشہ نبھایا۔ (ہماری والدہ کو چھوٹے بہن بھائی باجی جان کہتے تھے)۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اپنی ایک خواب کا ذکر کیا۔ بڑی لمبی خواب ہے جس میں حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ آئی ہیں اور اَور باتوں کے علاوہ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کو کہا کہ آپ مجھ سے خفا ہو گئے ہیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں اُن کو جواب دیا کہ تم نے تو مجھے چھیرو (صاحبزادی امۃ النصیر کو گھر میں پیار سے چھیرو کہتے تھے) جیسی بیٹی دی ہے مَیں کیسے خفا ہو سکتا ہوں۔ (ماخوذاز رؤیا و کشوف سیدنا محمود صفحہ568رویا نمبر598زیر اہتمام فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)

اس بات کا بہت خیال رکھتی تھیں کہ آپ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی ہیں اور یہ کہ آپ کی وجہ سے حضور رضی اللہ عنہ کی ذات پر کوئی حرف نہ آئے۔ ایک واقعہ جو آپ نے کئی اجلاسات میں بھی سنایا کہ ایک دفعہ آپ اپنے بھائی کے گھر جا رہی تھیں جو سڑک کے دوسری طرف تھا۔ یعنی ادھر ان کا گھر ہے اور سڑک کے پار بھائی کا گھر تھا کہ سامنے تو بھائی کا گھر ہے جہاں جانا ہے تو آپ نے بجائے اس کے کہ باقاعدہ برقعہ پہنیں اور نقاب باندھیں برقعہ کا نچلا حصہ سر پر ڈال لیا۔ برقعہ کا جو کوٹ ہوتا ہے وہ سر پر ڈال کے گھونگٹ نکال کے چل پڑیں۔ جب گھر سے باہر نکلیں اور سڑک کے درمیان میں پہنچیں تو دیکھا کہ حضرت مصلح موعودؓ بھی سڑک پر تشریف لا رہے ہیں۔ پرانے زمانے کی بات ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ قصرِ خلافت سے اس طرف آ رہے تھے۔ فرماتی ہیں کہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ چنانچہ مَیں اسی طرح اپنے گھر آ گئی۔ میرا خیال تھا کہ حضور کا دھیان میری طرف نہیں ہو گا۔ اگلے روز جب مَیں ناشتے کے وقت حضور سے ملنے گئیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے فرمایا۔ دیکھو تم ایک قدم آگے بڑھاؤ گی تو لوگ دس قدم آگے بڑھائیں گے۔ پس پردے کا خیال، لحاظ رکھو۔ اس طرح حضرت مصلح موعودؓ تربیت فرمایا کرتے تھے۔ اللہ کرے ان کے بچوں میں بھی اور خاندان کی باقی بچیوں میں بھی اور جماعت کی بچیوں میں بھی پردے کا احساس اور خیال ہمیشہ رہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے جو مضمون لکھا جس کا مَیں نے ذکر کیا تھا اُس میں آپ لکھتے ہیں کہ امۃ النصیر جو تین ساڑھے تین سال کی عمر کی بچی ہے اور ہر وقت اپنی ماں کے پاس رہنے کے سبب اس سے بہت زیادہ مانوس تھی۔ اپنے بھائی کے سمجھانے کے بعد وہ خاموش سی ہو گئیں جیسے کوئی حیران ہوتا ہے۔ وہ موت سے ناواقف تھیں۔ وہ موت کو صرف دوسروں سے سن کر سمجھ سکتی تھیں۔ نامعلوم اُس کے بھائی نے اُسے کیا سمجھایا کہ وہ نہ روئی، نہ چیخی، نہ چلاّئی، وہ خاموش پھرتی رہی اور جب سارہ بیگم کی لاش کو چارپائی پر رکھا گیا اور جماعت کی مستورات جو جمع ہو گئی تھیں، رونے لگیں تو (صاحبزادی امۃ النصیر) کہنے لگی کہ میری اُمی تو سو رہی ہیں یہ کیوں روتی ہیں؟ میری اُمی جب جاگیں گیں تو مَیں اُن سے کہوں گی کہ آپ سوئی تھیں اور عورتیں آپ کے سرہانے بیٹھ کر روتی تھیں۔ جب ان کی والدہ کی وفات ہوئی ہے تو حضرت مصلح موعودؓ سفر پر تھے اور پیچھے سے اُن کی تدفین ہو گئی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ جب مَیں سفر سے واپس آیا اور امۃ النصیر کو پیار کیا تو اُس کی آنکھیں پُر نم تھیں لیکن وہ روئی نہیں۔ مَیں نے اُسے گلے لگا کر پیار کیا مگر وہ پھر بھی نہیں روئی۔ حتی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اُسے نہیں معلوم کہ موت کیا چیز ہے۔ مگر نہیں یہ میری غلطی تھی۔ یہ لڑکی مجھے ایک اور سبق دے رہی تھی۔ سارہ بیگم دارالانوار کے نئے مکان میں فوت ہوئیں۔ جب ہم اپنے اصلی گھر دارالمسیح میں واپس آئے تو معلوم ہوا اُس کے پاؤں میں بوٹ نہیں۔ ایک شخص کو بوٹ لانے کے لئے کہا گیا۔ وہ بوٹ لے کر دکھانے کے لئے لایا تو میں نے امۃ النصیر سے کہا تم پسند کر لو۔ جو بوٹ تمہیں پسند ہو وہ لے لو۔ وہ دو قدم تو بے دھیان چلی گئی پھر یکدم رکی اور ایک عجیب حیرت ناک چہرے سے ایک دفعہ اُس نے میری طرف دیکھا اور ایک دفعہ اپنی بڑی والدہ کی طرف (یعنی حضرت اُم ناصر کی طرف) جس کا یہ مفہوم تھا کہ تم تو کہتے ہو جوبوٹ پسند ہو وہ لے لو مگر میری ماں تو فوت ہو چکی ہے۔ مجھے بوٹ لے کر کون دے گا؟ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اُس حالت میں وفور جذبات سے اُس وقت مجھے یقین تھا کہ مَیں نے بات کی، یہاں وہاں ٹھہرا رہا تو آنسو میری آنکھوں سے ٹپک پڑیں گے۔ اس لئے مَیں نے فوراً منہ پھیر لیا اور یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا کہ بوٹ اپنی اُمی جان کے پاس لے جاؤ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ لکھتے ہیں کہ ہمارے گھر میں سب بچے اپنی ماؤں کو اُمی کہتے ہیں اور میری بڑی بیوی اُم ناصر کو اُمی جان کہتے ہیں تو مَیں نے جاتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو امۃ النصیر اپنے جذبات پر قابو پا چکی تھیں۔ وہ نہایت استقلال سے بوٹ اُٹھائے اپنی امی جان کی طرف جا رہی تھی۔ بعد کے حالات نے اس امر کی تصدیق کر دی کہ وہ اپنی والدہ کے وفات کے حادثے کو باوجود چھوٹی عمر کے خوب سمجھتی ہے۔ (ماخوذ ازمیری سارہ, انوار العلوم جلدنمبر13صفحہ186-187)

پھر حضرت خلیفہ ثانیؓ اُن کے لئے دعا کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ننھی سی کلی کو مرجھا جانے سے محفوظ رکھے۔ وہ اس چھوٹے سے دل کو اپنی رحمت کے پانی سے سیراب کرے اور اپنے خیالات اور اچھے افکار اور اچھے جذبات کی کھیتی بنائے جس کے پھل ایک عالم کو زندگی بخش، ایک دنیا کے لئے موجب برکت ثابت ہوں۔ ارحم الراحمین خدا تُو جو دلوں کو دیکھتا ہے، جانتا ہے کہ یہ بچی کس طرح صبر سے اپنے جذبات کو دبا رہی ہے تیری صفات کا علم تو نا معلوم اسے ہے یا نہیں مگر تیرے حکم پر تو وہ ہم سے بھی زیادہ بہادری سے عامل ہے۔ اے مغیث! مَیں تیرے سامنے فریادی ہوں کہ اس کے دل کو حوادث کی آندھیوں کے اثر سے محفوظ رکھ۔ جس طرح اُس نے ظاہری صبر کیا ہے اسے باطن میں بھی صبر دے۔ جس طرح اُس نے ایک زبردست طاقت کا مظاہرہ کیا ہے تُو اُسے حقیقی طاقت بھی بخش۔ میرے ربّ! تیری حکمت نے اُسے اس کی ماں کی محبت سے اس وقت محروم کر دیا ہے جبکہ وہ ابھی محبت کا سبق سیکھ رہی تھی۔ عشق و محبت کے سرچشمے! تُو اُسے اپنی محبت کی گود میں اُٹھا لے اور اپنی محبت کا بیج اُس کے دل میں بو دے۔ ہاں ہاں تو اسے اپنے لئے وقف کر لے۔ اپنی خدمت کے لئے چن لے۔ وہ تیری، ہاں صرف تیری محبت کی متوالی، تیرے در کی بھکارن اور تیرے دروازے پر دھونی رَمانے والی ہو اور تو اُسے دنیاکی نعمت بھی دے تا وہ لوگوں کی نظروں میں ذلیل نہ ہو۔ باوجود ہر قسم کی عزت کے اُس کا دنیا سے ایسا تعلق ہو جیسا کہ کوئی شخص بارش کے وقت ایک کمرے سے دوسرے کمرے کی طرف جاتے وقت دوڑتا ہوا گزر جاتا ہے۔ (ماخوذ از میری سارہ, انوار العلوم جلدنمبر13صفحہ187-188)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی جو ساری زندگی تھی اس میں نظر آتا تھا کہ یہ دعا حضرت مصلح موعود کی بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے۔ اللہ کرے کہ ان کے بچے بھی اس دعا کے مصداق بنیں بلکہ خاندان کے تمام افراد اور جماعت کے تمام افراد اس دعا کے مصداق بننے والے ہوں۔ پھر اپنے تمام بچوں کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک دعا کی جو مَیں سمجھتا ہوں بیان کرنی ضروری ہے۔ مَیں پڑھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس کا مصداق پوری جماعت کو بھی بنائے۔ کیونکہ آجکل یہ زمانہ ہے جس میں انشاء اللہ ہم آئندہ فتوحات کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ تو اگر یہ ہماری حالت رہے گی تب ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔ آپ کی یہ دعا ہے کہ:

’’اے میرے ربّ! اپنے باقی بچوں کو بھی تیرے سپرد کرتا ہوں۔ یہ دنیا کے کُتّے نہ ہوں، یہ تیری جنت کے پرند ہوں۔ یہ دین کے ستون ہوں اور بیت اللہ کے محافظ۔ آسمان کے ستارے جو تاریکی میں گمراہوں کے رہنما ہوتے ہیں۔ چمکنے والا سورج جو تاریکی کو پھاڑ کر محنت، ترقی اور کسب کے لئے راستہ کھول دیتا ہے۔ سوتوں کو جگاتا اور بچھڑوں کو ملاتا ہے۔ یہ محبت کے درخت ہوں جن کے پھل بغض و حسد کی کڑواہٹ سے کلی طور پر پاک ہوتے ہیں۔ یہ راستے کا کنواں ہوں جو سایہ دار درختوں سے گھرا ہوا ہو جس پر ہر تھکا ہوا مسافر ہر واقف اور ناواقف آرام کے لئے ٹھہرتا ہو۔ جس کا ٹھنڈا پانی ہر پیاسے کی پیاس بجھاتا اور جس کا لمبا سایہ ہر بے کس کو اپنی پناہ میں لیتا ہو۔ یہ ظالموں کو ظلم سے روکنے والے، مظلوموں کے دوست، خود موت قبول کر کے دنیا کو زندہ کرنے والے، خود تکلیف اُٹھا کر لوگوں کو آرام دینے والے ہوں۔ وہ وسیع الحوصلہ، کریم الاخلاق اور طویلُ الاَیادی ہوں۔ جن کا دستر خوان کسی کے لئے ممنوع نہ ہو۔ وہ سابق بالخیرات ہوں۔ ان کا ہاتھ نہ گردن سے بندھا ہوا ہو نہ اس قدر کھلا کہ ندامت و شرمندگی اس کے نتیجے میں پیدا ہو۔ اے میرے ہادی! وہ دین کے مبلغ ہوں۔ اسلام کی اشاعت کرنے والے، مردہ اخلاق کو زندہ کرنے والے، تقویٰ کے مٹے ہوئے راستوں کو پھر روشن کرنے والے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلوان، لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے مصداق، ابنائے فارس کی سنت کو قائم رکھنے والے، تیرے لئے غیرت مند، تیرے دین کے لئے سینہ سپر، تیرے رسولوں کے فدائی، پاک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے سردار کے حقیقی فرزند، عاشقِ صادق جن کے عشق کی آگ کبھی دھیمی نہ ہوتی ہو۔ اے میرے مالک! وہ تیرے غلام ہوں، ہاں صرف تیرے غلام۔ دنیا کے بادشاہوں کے سامنے اُن کی گردنیں نیچی نہ ہوں لیکن تیرے دربار میں وہ سب سے زیادہ منکسر المزاج ہوں۔ پاک نسلوں کے چھوڑنے والے، دنیا کو معرفت کی راہوں پر چلانے والے، ایک نہ مٹنے والی نیکی کا بیج بونے والے۔ نیکوں کو اور اونچا لے جانے والے، بدوں کی اصلاح کرنے والے، مردہ دلی سے متنفر اور روحانی زندگی کے زندہ نمونے۔ اے میرے حيّ و قیوم خدا! وہ اور ان کی اولادیں اور ان کی اولادیں ابد تک دنیا میں تیری امانت ہوں جس میں شیطان خیانت نہ کر سکے۔ وہ تیرا مال ہوں جسے کوئی چُرا نہ سکے۔ وہ تیرے دین کی عمارت کے لئے کونے کا پتھر ہوں جسے کوئی معمار رَدنہ کر سکے۔ وہ تیری کھنچی ہوئی تلواروں میں سے ایک تلوار ہوں جو ہر شر کو جڑ سے کاٹنے والی ہو۔ وہ تیرے عفو کا ہاتھ ہوں جو گناہگاروں کو معاف کرنے کے لئے بڑھایا جائے۔ وہ زیتون کی شاخ ہوں جو طوفان کے ختم ہونے کی بشارت دیتی ہے۔ ہاں اے حيّ و قیوم خدا! وہ تیرا بگل ہوں جو تُو اپنے بندوں کو جمع کرنے کے لئے بجاتا ہے۔ غرضیکہ وہ تیرے ہوں اور تُو اُن کا ہو یہاں تک کہ اُن میں سے ہر ایک اس وحدت کو دیکھ کر کہہ اُٹھے کہ

من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی

تا کس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری

آمین ثُمَّ آمِیْن وَ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْث یَا رَبّ الْعَالَمِیْن۔ (میری سارہ، انوار العلوم جلد 13 صفحہ188-189)

یہ وہ دعا ہے جو اللہ کرے کہ پوری جماعت کے ہر فرد پر پوری ہو۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے اور ان کے بچوں کو ان کی نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے۔

دوسرا ذکر ہمارے سلسلے کے ایک بزرگ کا ہے جو مکرم مولانا عبدالوہاب احمد صاحب شاہد مربی سلسلہ ابن مکرم مولانا عبدالرحمن صاحب مرحوم ہیں۔ عبدالوہاب احمد شاھد صاحب 11؍ستمبر 2011ء کو ڈیڑھ ماہ شدید بیمار رہنے کے بعد بقضائے الٰہی وفات پا گئے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ عبدالوہاب شاہد صاحب مربی سلسلہ مؤرخہ 5؍ستمبر 1943ء کو گوئی ضلع کوٹلی آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔ وہیں تعلیم حاصل کی۔ 1967ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے پاکستان میں دس مختلف جگہوں پر خدمات سرانجام دیں۔ اس کے بعد 1991ء تا 1999ء نظارت دعوتِ الی اللہ کے تحت مختلف اضلاع میں دعوتِ الی اللہ کے اہم فریضے کی نگرانی کا کام سرانجام دیتے رہے۔ بیرونِ ملک تنزانیہ میں مارچ 1976ء سے اکتوبر 1979ء تک خدمت کی توفیق پائی۔ دوسری دفعہ تنزانیہ میں ہی جولائی 1986ء تک بطور امیر و مشنری انچارج خدمت کی توفیق پائی۔ 1999ء تا دسمبر 2006ء بطور مربی دارالضیافت ربوہ خدمت کی توفیق پائی اور اب اُس کے بعد سے دفتر اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں خدمت سرانجام دے رہے تھے۔ آپ نہایت خوش مزاج، ملنساراور ہنس مکھ انسان تھے۔ خلافت کے ساتھ والہانہ عشق و محبت کا تعلق تھا۔ مہمان نواز اور غریبوں کے ہمدرد تھے۔ ہر دلعزیز اور پسندیدہ شخصیت تھے۔ علم سے شغف تھا۔ الفضل اور دیگر جرائد میں مضامین لکھتے رہتے تھے۔ چار کتب کے مصنف تھے۔ آپ کے خاندان کے مورث اعلیٰ اور جد امجد دہلی کے پرانے گدی نشین تھے جنہوں نے ہندوستان میں اسلام پھیلایا۔ اُن کی نسل سے حضرت مولانا محبوب عالم صاحب پیدا ہوئے۔ آپ دہلی سے گجرات ہجرت کر کے چک میانہ ڈھلوں میں فروکش ہوئے۔ پھر یہاں سے درس و تدریس کے سلسلے میں کشمیر گئے۔ آپ گوئی کے علاقہ میں تھے جب آپ کو حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا علم ہوا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ یہ ایک مصلح ربانی کی آمد کا وقت ہے۔ امام مہدی کو آ ہی جانا چاہئے۔ اسی خیال میں مستغرق تھے کہ رؤیا میں دیکھا کہ مسیح اور مہدی موعود کا ظہور ہو چکا ہے۔ چنانچہ آپ بغرضِ تحقیق روانہ ہوئے اور اپنے استاد حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی سے جا کر ملے اور اپنی رؤیا کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ آپ بھی علامات کے مطابق پَرکھ لیں۔ ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں جلوہ افروز تھے۔ آپ لاہور پہنچے اور دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ بیعت کر کے جب واپس لوٹے تو آپ کی بہت مخالفت ہوئی لیکن کئی سعید فطرت لوگوں نے آپ کے ذریعے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی۔

تیسرا وفات یافتہ کا جو ذکر ہے وہ مکرم عبدالقدیر فیاض صاحب چانڈیو مربی سلسلہ ابن مکرم ماسٹر غلام محمد صاحب چانڈیومرحوم ہیں۔ 8؍ ستمبر کو ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم بچوں کو سکول چھوڑنے جا رہے تھے کہ راستے میں ہارٹ اٹیک ہوا۔ ہسپتال پہنچایا گیا لیکن اللہ کی تقدیر غالب آئی اور وفات پا گئے۔ یکم مئی 1974ء کو شاہد کی ڈگری حاصل کی اور میدانِ عمل میں قدم رکھا۔ پاکستان میں اصلاح و ارشاد مقامی، مرکزیہ اور وقفِ جدید کے تحت چودہ مختلف مقامات پر خدمتِ دین کی خدمت پائی۔ دو مرتبہ بیرونِ ملک تنزانیہ میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ آپ نے مٹھی نگر پارکر میں بطور نائب ناظم وقفِ جدید خدمت کی توفیق پائی اور آجکل کراچی میں تعینات تھے۔ مرحوم نہایت خوش مزاج، نیک سیرت، ہنس مکھ اور بااخلاق انسان تھے۔ جس جماعت میں جاتے ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتے۔ مہمان نواز، غریبوں کے ہمدرد اور ان سے گھل مل کر رہتے تھے۔ آپ کی نمایاں خوبی یہ تھی کہ نہایت صابر و شاکر تھے۔ برداشت کا مادہ بہت زیادہ تھا۔ اگر کوئی تکلیف بھی دیتا تو اُس سے ہمیشہ حسنِ سلوک کرتے اور کبھی بدلہ نہ لیتے۔ خلافتِ احمدیہ سے والہانہ محبت اور عشق کا تعلق تھا اور خلیفہ وقت کے ہر حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے اور مکمل اطاعت کرتے اور جماعتوں سے بھی اطاعت کروانے کی کوشش کرتے رہتے۔ مرحوم کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ اپنے حلقے میں ہر دلعزیز اور پسندیدہ شخصیت تھے۔ جن جماعتوں میں آپ نے خدمت کی توفیق پائی وہ آج بھی آپ کو بہت اچھے لفظوں میں یاد کرتی ہیں۔ آپ سندھ کے مشہور چانڈیو قبیلے سے پہلے واقفِ زندگی تھے اور سندھی مربیان میں تیسرے واقفِ زندگی تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔

چوتھا ذکر مکرم منیر احمد خان صاحب ابن مکرم عبدالکریم خان صاحب کراچی کا ہے جو7؍ نومبر کو چھہتر سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت حکیم مولوی انوار حسین خان صاحب کے پوتے اور حضرت عبدالرحیم نیر صاحب کے نواسے اور مکرم یحي خان صاحب پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے بھتیجے تھے۔ آپ ایک ذہین اور قابل انجنیئر تھے۔ ربوہ میں جو جلسہ ہوتا تھا اس جلسہ سالانہ پر خدمات بجا لاتے رہے۔ ربوہ میں جب پہلا روٹی پلانٹ لگا تو آپ کو اس موقعے پر بھی نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔ آپ جلسہ سالانہ برطانیہ کے ٹرانسلیشن اور کمیونی کیشن سیٹ اپ میں بھی اپنی خدمت پیش کرتے رہے۔ آپ نے کشتی نوح کے بار ے میں تحقیق کی اور اس پر قرآن، بائبل اور زمانہ قدیم کی دیگر کتب کی روشنی میں ایک کتاب مرتب کرنے کی توفیق پائی جو ابھی شائع نہیں ہو سکی۔ کشتی نوح کے متعلق ان کی ریسرچ کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے درس القرآن اور سوال و جواب کی مجالس میں بھی بیان فرمایا ہوا ہے۔ بڑے مخلص، باوفا اور غیروں کی فراخدلی سے مدد کرنے والے نیک انسان تھے۔ موصی تھے۔ ان کی اہلیہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ماموں زاد بہن ہیں۔ یعنی یہ حضرت سید عبدالرزاق صاحب کے داماد تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے، مغفرت کا سلوک فرمائے۔

تمام مرحومین جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے، نمازوں کے بعد، انشاء اللہ اُن کا جنازہ غائب بھی ادا کروں گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں