خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍ دسمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

مسلمانوں میں سے ایک طبقہ تو ایسا ہے جو نام نہاد علماء جن کا کام فساد پیدا کرنا ہے اُن کے پیچھے چل کر بغیر سوچے سمجھے احمدیت کی مخالفت کرنے والا ہے۔ بعض ایسے ہیں اور بڑی کثرت سے ایسے ہیں جو مذہب سے لاتعلق ہیں۔ صرف عید کی نماز پڑھنے والے ہیں یا زیادہ سے زیادہ کبھی کبھار جمعہ پڑھ لیا۔ کچھ ایسے ہیں جو باوجود مذہب میں کسی بھی قسم کی سختی کو ناپسند کرنے کے اور تکفیر کے فتووں سے جو ان علماء کی طرف سے لگائے جاتے ہیں بیزاری کا اظہار کرنے کے خوف کی وجہ سے چپ رہتے ہیں۔ لیکن ایک ایسی تعداد بھی ہے جو گو اسلام کا اور مذہب کا زیادہ علم تو نہیں رکھتے، دین کا زیادہ علم تو نہیں رکھتے لیکن خواہش رکھتے ہیں کہ غیر کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر جو انگلی اٹھتی ہے، اعتراضات ہوتے ہیں اُن کا تدارک کیا جائے۔ اُن کو کسی طرح سے روکا جائے۔ اُن کو جواب دیا جائے۔ اُن کے منہ بند کروائے جائیں۔ اُن کی خواہش ہے کہ اسلام کے تمام فرقے ایک ہو کر دشمنانِ اسلام اور دجالیت کا مقابلہ کریں۔ اس گروہ میں پاکستان، ہندوستان کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں، عرب ممالک کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں اور دوسرے مسلمان ممالک کے رہنے والے مسلمان بھی ہیں۔ ان لوگوں کی طرف سے جو اسلام کو صرف اسلام کے نام سے جاننا چاہتے ہیں نہ کہ کسی فرقے کے نام سے، جماعت احمدیہ پر بھی یہ اعتراض ہوتا ہے اور مختلف موقعوں پر سوا ل اُٹھاتے ہیں کہ کیا پہلے اسلام میں فرقے کم ہیں جو آپ نے بھی ایک فرقہ بنا لیا۔ ہمیں کہتے ہیں کہ اگر آپ لوگ اسلام کے ہمدرد ہیں تو مسلمانوں کو فرقہ بندیوں سے آزاد کرانے کی کوشش کریں۔ سب سے پہلے تو مَیں ایسے سوال کرنے والوں کا اس لحاظ سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ کم از کم وہ ہمیں مسلمانوں کا ایک فرقہ تو سمجھتے ہیں، مسلمان تو سمجھتے ہیں۔ بلا سوچے سمجھے تکفیر کا فتویٰ نہیں لگا دیتے۔ ایسے لوگوں سے مَیں یہ عرض کروں گا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلم اُمّہ پر رحم کھاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اور اپنے وعدے کے عین مطابق حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر اس لئے بھیجا ہے کہ فرقوں کا خاتمہ ہو۔ جو مسلمان جماعت احمدیہ میں شامل ہو کر مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچا رہے ہیں وہ اسلام کے مختلف فرقوں میں سے آ کر فرقہ بندی کو ختم کرتے ہوئے حقیقی اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے لئے ہی جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُن پر فضل کرتے ہوئے اُن کی بصیرت کی آنکھ کو کھولا ہے تو انہوں نے فرقہ بندی کو خیر باد کہہ کر حقیقی اسلام کو قبول کیا ہے۔ اُس حَکَم اور عَدَل کی بیعت میں آ گئے ہیں جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی تا کہ جو غلط روایات، تعلیمات اور بدعات مختلف فرقوں میں راہ پا گئی ہیں اُن کو حقیقی قرآنی تعلیم کی روشنی کے مطابق دیکھا جائے اور حقیقی قرآنی تعلیم کے مطابق اُن کو اختیار کیا جائے اور اُن پر عمل کیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی اسلامی تعلیم کی حقیقی روشنی اور تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہر کلمہ گو کو مسلمان سمجھتی ہے۔ کسی مسلمان شخص کے لئے، کسی شخص کے مسلمان ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا اقرار کرتا ہو اور یہی حدیث سے ثابت ہے۔ (مسلم کتاب الایمان باب بیان الایمان و الاسلام والاحسان…حدیث نمبر93)۔ لیکن اس کے مقابلے پر دوسرے فرقوں کو دیکھیں تو ہر ایک دوسرے کے بارے میں تکفیر کے فتوے دیتا ہے۔

پس ان اسلام کا درد رکھنے والوں کی یہ غلط فہمی کہ امت مسلمہ پہلے ہی فرقوں میں بٹی ہوئی ہے، جماعت احمدیہ نے ایک اور فرقہ بنا کر فساد کی ایک اور بنیاد رکھ دی ہے، قرآن و حدیث کے علم میں کمی کا نتیجہ ہے۔ کسی بھی دوسرے فرقے کے لٹریچر کا مطالعہ کر لیں تو تکفیر کے فتوؤں کے انبار ایک دوسرے کے خلاف نظر آئیں گے۔ اگر جماعت احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ کریں تو غیر مذاہب کے اسلام پر حملوں کا دفاع نظر آئے گا۔ یا مسلمانوں سے یہ درخواست نظر آئے گی کہ اس تکفیر بازی کے زہروں سے بچیں اور خدمتِ اسلام کے لئے کمربستہ ہو جائیں۔ یا یہ نظر آئے گا کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ یا اس بات پر زور نظر آئے گا کہ دنیا میں محبت، پیار، صلح اور آشتی کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے اور نفرتوں کے انگاروں کو بجھانے کے لئے ہمیں کیا کوشش کرنی چاہئے۔ یا یہ نظر آئے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا مقام کیا تھا اور ہر ایک اُن میں سے ایک روشن ستارہ ہے جو قابلِ تقلید ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے۔

پس جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں تو یہ خوبصورت باتیں نظر آتی ہیں نہ کہ تکفیر کے فتوے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ تکفیر کے فتووں کے انبار ہیں، کسی بھی فرقے کے فتووں کی کتاب کو اُٹھا لیں ایک دوسرے کے خلاف فتوے نظر آئیں گے۔

اس آخری بات کو جو مَیں نے کہی کہ صحابہ کا کیا مقام ہے؟ اس بات کو مَیں لیتا ہوں۔ اگر دیکھیں تو اسلام میں دو بڑے گروہ ہیں۔ اُن کی آگے فرقہ بندیاں ہیں۔ شیعہ اور سُنی۔ اور شیعہ اور سُنی دونوں نے غلو اور زیادتی سے کام لیتے ہوئے ان صحابہ کے مقام کو گرانے سے بھی گریز نہیں کیا جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابتدائی زمانے میں بے انتہا قربانیاں دیں۔ انہوں نے ایک دوسرے پر اس غلو کی وجہ سے تکفیر کے فتوے بھی لگائے ہیں اور لگاتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر ایک نے غلو سے کام لیتے ہوئے حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ کے مقام کو غیر معمولی بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور دوسرے کبار صحابہ اور خلفائے راشدین کے مقام کو انتہائی ظلم کرتے ہوئے گرانے کی کوشش کی ہے تو دوسروں نے بھی اس کے جواب میں کمی نہیں کی۔ پھر ان بڑے گروہوں کے اندر مزید فرقہ بندیاں ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ اور اس فرقہ بندی نے ایک اور فساد برپا کیا ہوا ہے۔ غرض کہ لگتا ہے کہ ان سب کی غرض نعوذ باللہ اسلام کو متشدد، کفر کے فتوے لگانے والا اور فساد برپا کرنے والا مذہب قرار دینا ہے۔

لیکن جیسا کہ مَیں نے ابھی بیان کیا، جماعت احمدیہ کا مقصد تو ایک خوبصورت مقصد ہے۔ اسلام کا حسن اور خوبصورت تصویر پیش کرنے والا مقصد ہے۔ اس لئے جماعت احمدیہ کو ان گروہوں اور فرقوں کی طرح تصور کرنا جماعت احمدیہ پر ایک زیادتی ہے۔

آجکل ہم محرم کے مہینے سے گزر رہے ہیں اور ہر سال اس مہینے سے ہم گزرتے ہیں تو جن جن ممالک میں سنیوں اور شیعوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں ہمیں محرم کے مہینے میں دونوں طرف کا جانی اور مالی نقصان نظر آتا ہے۔ پاکستان ہو یا عراق ہو یا کوئی ملک ہو، ہر طرف ہم یہی دیکھتے ہیں کہ محرم میں کوئی نہ کوئی فساد برپا ہوتا ہے، جان اور مال کا نقصان کیا جا رہا ہوتا ہے۔ گو کہ اب تو یہ نقصان ایک روزانہ کا معمول بن گیا ہے لیکن محرم میں خاص طور پر زیادہ ہو رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ان لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کے فتوؤں کے انبار لگائے ہوئے ہیں۔ مَیں نے جب دیکھا تو بہت سارا مواد اکٹھا ہو گیا لیکن اتنے اتنے غلیظ فتوے ہیں اور گالیاں ہیں کہ مَیں مثال کے طور پر بھی وہ یہاں پیش نہیں کرنا چاہتا۔

آج مَیں صرف اس زمانے کے حَکَم اور عَدَل مسیح و مہدی معہود کے حکیمانہ ارشاد جو آپ علیہ السلام نے خلفائے راشدینؓ، صحابہ کرامؓ اور حضرت امام حسینؓ وغیرہ کے متعلق بیان فرمائے ہیں، پیش کرتا ہوں جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس خوبصورت طریقے سے آپؑ نے فساد کی بنیاد کو ختم کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ جب مَیں نے یہ ارشادات جمع کروائے تواس کے سینکڑوں صفحات بن گئے ہیں، لیکن وقت کے لحاظ سے اس وقت صرف چند ایک آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جماعت احمدیہ میں بھی مختلف فرقوں سے بیعت کر کے آنے والے جن کی ابھی صحیح طرح تربیت نہیں ہوئی، ان کے لئے بھی یہ ارشادات سننا ضروری ہیں اور بعض وہ لوگ جن کی مثال مَیں نے دی ہے کہ بعض دفعہ ایم ٹی اے دیکھ لیتے ہیں یا کبھی خطبہ سن لیتے ہیں اور جماعت میں دلچسپی لیتے ہیں یا اسلام سے اُن کو ہمدردی ہوتی ہے لیکن اُن کے ذہن میں ایک سوال پھرتا ہے کہ جماعت احمدیہ بھی ایک ایسا فرقہ ہے جو دوسرے عام فرقوں کی طرح ہے۔ اُن کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات آ جائیں تا کہ اُنہیں بھی پتہ چلے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو اسلام کے مختلف فرقوں کو اکٹھا کر نے آئے تھے اور ہر قسم کی زیادتی سے پاک کرنے آئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک کرنے کا کام سپرد کرتے ہوئے الہاماً فرمایا ہے کہ ’’سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو۔ عَلٰی دِیْنٍ وَاحِدٍ‘‘۔ (تذکرہ صفحہ نمبر490ایڈیشن چہارم 2004ء مطبوعہ ربوہ)

پس آپ تو فرقوں کو ختم کرنے کے لئے اور تمام مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر، ایک دین پر اکٹھا کرنے کے لئے آئے ہیں۔ اس لحاظ سے جیسا کہ مَیں نے کہا بعض اقتباسات مَیں پیش کروں گا۔ سب سے پہلے مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ اقتباس سامنے رکھتا ہوں جس میں آپ نے خلفائے راشدین کے طریق پر چلنے کو مومن ہونے اور مسلمان ہونے کی نشانی بتایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں تو یہ جانتا ہوں کہ کوئی شخص مومن اور مسلمان نہیں بن سکتا جب تک ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اللّٰہ عَلَیْھِم اَجْمَعِیْن کا سا رنگ پیدا نہ ہو۔ وہ دنیا سے محبت نہ کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کی ہوئی تھیں‘‘۔ (لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلدنمبر20صفحہ نمبر294)

خلفائے راشدین کے مقام کے بارے میں پھر ایک اور جگہ سر الخلافہ کے صفحہ 328 میں آپ فرماتے ہیں۔ یہ صفحہ نمبر مَیں نے اس لئے بولا ہے کہ یہ عربی کی کتاب ہے اور عربی والوں کو صبح میں نے حوالے کا صفحہ نمبر دے دیا تھا تا کہ اُن کو ترجمے میں آسانی رہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو زبان ہے، اُسی کے اصل الفاظ میں اگر یہ (تحریر) عربوں کے بھی سامنے آئے تو زیادہ اثر رکھتی ہے کیونکہ ترجمان ترجمے کے اُس مقام تک نہیں پہنچ سکتے چاہے وہ عربی دان ہی ہوں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ بہرحال آپ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا کی قسم ! (یہ خلفائے کرام) وہ لوگ ہیں جنہوں نے سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و اعانت میں موت کے منہ میں بھی جانے سے دریغ نہ کیا اور خدا کی خاطر اپنے والدین اور اپنی اولاد تک کو چھوڑنا اور اُن سے قطع تعلق کرنا گوارا کر لیا۔ انہوں نے اپنے دوستوں سے لڑائی مول لے لی۔ خدا تعالیٰ کی خاطر اپنے اموال و نفوس کو قربان کر دیا۔ اس کے باوجود وہ نادم و ماتم کناں رہے کہ وہ کما حقہٗ اعمال بجا نہ لا سکے۔ اُن کی آنکھیں اکثر خوابِ راحت کی لذت سے نا آشنا رہیں اور اپنے نفسوں کے آرام کا خیال بھی نہ کیا۔ وہ تن آسان و عافیت کوش نہ تھے۔ پس تم نے کیسے گمان کر لیا کہ یہ لوگ ظالم و غاصب، جادہ عدل کے تارک اور جور و جفا کے خوگر تھے حالانکہ اُن کے متعلق ثابت ہے کہ وہ بندہ حرص و ہوا نہ تھے اور آستانہ الٰہی پر گرے رہتے تھے۔ یہ ایک قوم تھی جو خدا میں فنا ہو گئی‘‘۔ (سر الخلافہ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 328۔ عربی عبارت کا اردو ترجمہ)

پس فرمایا کہ یہ لوگ جو خلفائے راشدین تھے انہوں نے اپنا سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی خاطر قربان کر دیا اور اللہ تعالیٰ میں فنا ہو گئے۔ پھر سر الخلافۃ کے ہی صفحہ 355میں آپ حضرت ابوبکرؓ کے متعلق فرماتے ہیں کہ:

’’آپ مکمل معرفت والے، عارف، حلیم اور رحیم فطرت والے تھے اور آپ انکسار اور غربت کی حالت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ آپ بہت زیادہ عفو، شفقت اور رحم کرنے والے تھے۔ اور آپ اپنی پیشانی کے نور سے پہچانے جاتے تھے۔ اور آپ کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے گہرا تعلق تھا۔ اور آپ کی روح خیر الوریٰ کی روح سے ملی ہوئی تھی۔ اور اس نور سے ڈھانپ دی گئی تھی جس نور سے اُن کے پیش رَو اور محبوبِ الٰہی کو ڈھانپ دیا گیا تھا۔ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانائی کے نُور کے نیچے اور آپ کے عظیم فیوض کے نیچے چھپا دی گئی تھی۔ اور آپ فہمِ قرآن اور سیدالرسل اور فخرِ نوع انسانی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سب سے ممتاز تھے۔ اور جب آپ پر نشأۃ اخروی اور اسرارِ الٰہی کا ظہور ہوا تو آپ نے تمام دنیاوی تعلقات کو توڑ دیا اور جسمانی تعلقات کو چھوڑ دیا اور محبوب کے رنگ میں رنگین ہو گئے۔ اور مطلوبِ واحد کے لئے تمام مرادیں ترک کر دیں۔ اور آپ کا نفس جسمانی کدورتوں سے خالی ہو گیا۔ اور سچے خدا کے رنگ میں رنگین ہو گیا۔ اور رب العالمین کی رضا میں غائب ہو گیا۔ اور جب صادق حُبِّ الٰہی آپ کے رگ و ریشہ میں اور آپ کے دل کی تہہ میں اور آپ کے وجود کے ذرّات میں متمکن ہو گئی اور اُس کے انوار اِس کے اقوال و افعال اور قیام و قعود میں ظاہر ہو گئے تب آپ کو صدیق کا لقب دیا گیا‘‘۔ (سر الخلافہ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 355۔ عربی عبارت کا اردو ترجمہ) یعنی کہ جب آپ مکمل طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں فنا ہو گئے تو پھر آپ کو صدیق کا لقب ملا۔ یہ آپ کا مقام ہے۔

پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ کے مقامِ صدیقیت کی مزید تصویر کشی کرتے ہوئے کہ کیوں اور کس طرح آپ کو یہ مقام ملا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو صدیق کا خطاب دیا تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپؓ میں کیا کیا کمالات تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فضیلت اس چیز کی وجہ سے ہے جو اُس کے دل کے اندر ہے۔ اور اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت میں حضرت ابوبکرؓ نے جو صدق دکھایا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ہر زمانہ میں جو شخص صدّیق کے کمالات حاصل کرنے کی خواہش کرے اُس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ابوبکری خصلت اور فطرت کو اپنے اندر پیدا کرنے کے لئے جہاں تک ممکن ہو مجاہدہ کرے اور پھر حتی المقدور دعا سے کام لے۔ جب تک ابوبکری فطرت کا سایہ اپنے اوپر ڈال نہیں لیتا اور اسی رنگ میں رنگین نہیں ہو جاتا، صدیقی کمالات حاصل نہیں ہو سکتے‘‘۔ فرماتے ہیں۔ ’’ابوبکری فطرت کیا ہے؟ اس پر مفصل بحث اور کلام کا یہ موقع نہیں کیونکہ اس کے تفصیلی بیان کیلئے بہت وقت درکار ہے‘‘۔ فرمایا کہ’’مَیں مختصراً ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوں اور وہ یہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اظہار فرمایا۔ اُس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کی طرف سوداگری کرنے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ جب واپس آئے تو ابھی راستے ہی میں تھے کہ ایک شخص آپؓ سے ملا۔ آپؓ نے اُس سے مکّہ کے حالات دریافت فرمائے اور پوچھا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ۔ جیسا کہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان سفر سے واپس آتا ہے تو راستہ میں اگر کوئی اہلِ وطن مل جائے تو اُس سے اپنے وطن کے حالات دریافت کرتا ہے۔ اُس شخص نے جواب دیا کہ نئی بات یہ ہے کہ تیرے دوست محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پیغمبری کا دعویٰ کیا ہے۔ آپؓ نے یہ سنتے ہی فرمایا کہ اگر اُس نے یہ دعویٰ کیا ہے تو بلا شبہ وہ سچا ہے۔ اسی ایک واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آپؓ کو کس قدر حسنِ ظن تھا۔ معجزے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معجزہ وہ شخص مانگتا ہے جو مدعی کے حالات سے ناواقف ہو اور جہاں غیریت ہو اور مزید تسلّی کی ضرورت ہو۔ لیکن جس شخص کو حالات سے پوری واقفیت ہو تو اُسے معجزہ کی ضرورت ہی کیا ہے۔ الغرض حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ راستہ میں ہی آنحضرتؐ کا دعویٰ نبوت سن کر ایمان لے آئے۔ پھر جب مکّہ میں پہنچے تو آنحضرتؐ کی خدمتِ مبارک میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ کیا آپؐ نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ درست ہے۔ اس پر حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا آپ گواہ رہیں کہ مَیں آپؐ کا پہلا مُصدّق ہوں۔ آپؓ کا ایسا کہنا محض قول ہی قول نہ تھا بلکہ آپؓ نے اپنے افعال سے اسے ثابت کر دکھایا اور مرتے دم تک اسے نبھایا اور بعد مرنے کے بھی ساتھ نہ چھوڑا۔ (ملفوظات جلد اول۔ صفحہ248-247۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ سے اس وفا اور قربانیوں کا اظہار کس طرح ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’ایک دفعہ چند دشمنوں نے آپؐ کو تنہا پا کر پکڑ لیا اور آپؐ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اُسے مروڑنا شروع کیا۔ قریب تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان نکل جائے کہ اتفاق سے ابوبکرؓ آ نکلے اور انہوں نے مشکل سے چھڑایا۔ اس پر (ان دشمنوں نے) ابوبکرؓ کو اس قدر مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑے‘‘۔ (سوانح عمری حضرت محمد صاحب بانی اسلام مرتبہ شردھے پرکاش دیوجی صفحہ 37پبلشر نرائن دت سہگل اینڈ سنز لاہور۔ بحوالہچشمہ ٔمعرفت۔ روحانی خزائن جلد 23۔ صفحہ258-257)

پھر اُمّت پر حضرت ابوبکر صدیق کے ایک بہت بڑے احسان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’ایسا ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس آیت سے استدلال کرنا کہ وَمَامُحَمَّدٌاِلَّارَسُوْلٌ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ (آل عمران145) صاف دلالت کرتاہے کہ اُن کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے تھے کیونکہ اگر اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ پہلے نبیوں میں سے بعض نبی تو جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے پیشتر فوت ہو گئے ہیں مگر بعض اُن میں سے زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک فوت نہیں ہوئے تو اس صورت میں یہ آیت قابلِ استدلال نہیں رہتی کیونکہ ایک ناتمام دلیل جو ایک قاعدہ کلیہ کی طرح نہیں اور تمام افراد گزشتہ پر دائرہ کی طرح محیط نہیں وہ دلیل کے نام سے موسوم نہیں ہو سکتی۔ پھر اُس سے حضرت ابوبکرؓ کا استدلال لغو ٹھہرتا ہے۔ اور یاد رہے کہ یہ دلیل جو حضرت ابوبکرؓ نے تمام گزشتہ نبیوں کی وفات پر پیش کی کسی صحابی سے اس کا انکار مروی نہیں حالانکہ اُس وقت سب صحابی موجود تھے اور سب سُن کر خاموش ہو گئے۔ اس سے ثابت ہے کہ اس پر صحابہ کا اجماع ہو گیا تھا اور صحابہ کا اجماع حجت ہے جو کبھی ضلالت پر نہیں ہوتا۔ سو حضرت ابوبکرؓ کے احسانات میں سے جو اس اُمّت پر ہیں ایک یہ بھی احسان ہے کہ انہوں نے اس غلطی سے بچنے کے لئے جو آئندہ زمانے کے لئے پیش آنے والی تھی اپنی خلافتِ حقہ کے زمانے میں سچائی اور حق کا دروازہ کھول دیا اور ضلالت کے سیلاب پر ایک ایسا مضبوط بند لگا دیا کہ اگر اس زمانے کے مولویوں کے ساتھ تمام جنّیات بھی شامل ہو جائیں تب بھی وہ اس بند کو توڑ نہیں سکتے۔ سو ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت ابوبکرؓ کی جان پر ہزاروں رحمتیں نازل کرے جنہوں نے خدا تعالیٰ سے پاک الہام پا کر اس بات کا فیصلہ کر دیا کہ مسیح فوت ہو گیا ہے‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلدنمبر15صفحہ461-462حاشیہ)

پھر ایک عظیم فتنے کے دور کرنے کے لئے، فرو کرنے کے لئے جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عظیم کارنامہ ہے، اُس کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں:۔ ’’اُس زمانے میں بھی مسیلمہ نے اِباحتی رنگ میں لوگوں کو جمع کر رکھا تھا۔ ایسے وقت میں حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو انسان خیال کر سکتا ہے کہ کس قدر مشکلات پیدا ہو ئی ہوں گی۔ اگر وہ قوی دل نہ ہوتا اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان کا رنگ اُس کے ایمان میں نہ ہوتا تو بہت ہی مشکل پڑتی اور گھبرا جاتا۔ لیکن صدیقؓ نبیؐ کا ہم سایہ تھا‘‘ (یعنی سائے کے نیچے تھا۔ اُسی سائے میں تھا۔) ’’آپؐ کے اخلاق کا اثر اُس پر پڑا ہوا تھا اور دل نورِ یقین سے بھرا ہوا تھا اس لئے وہ شجاعت اور استقلال دکھایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اُن کی زندگی اسلام کی زندگی تھی۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اُس پر کسی لمبی بحث کی حاجت ہی نہیں۔ اُس زمانے کے حالات پڑھ لو اور پھر جو اسلام کی خدمت ابوبکررضی اللہ عنہ نے کی ہے اُس کا اندازہ کر لو۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام کے لئے آدمِ ثانی ہیں۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکرؓ کا وجودنہ ہوتا تو اسلام بھی نہ ہوتا۔ ابوبکرصدیقؓ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے اسلام کو دوبارہ قائم کیا۔ اپنی قوتِ ایمانی سے کُل باغیوں کو سزا دی اور امن کو قائم کر دیا۔ اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے فرمایا اور وعدہ کیا تھا کہ مَیں سچے خلیفہ پر امن کو قائم کروں گا۔ یہ پیشگوئی حضرت صدیق ؓ کی خلافت پر پوری ہوئی اور آسمان نے اور زمین نے عملی طور پر شہادت دے دی۔ پس یہ صدیق کی تعریف ہے کہ اس میں صدق اس مرتبہ اور کمال کا ہونا چاہئے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 252-251۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پھر خلیفہ ثانی حضرت عمرؓ کے مقام حُبِّ رسول اور اخلاص کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے گھر میں گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں اور آپ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں۔ تب عمرؓ کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا۔ آپ نے فرمایا کہ اے عمرؓ ! تو کیوں روتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ آپ کی تکالیف کو دیکھ کر مجھے رونا آ گیا۔ قیصر اور کسریٰ جو کافر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ ان تکالیف میں بسر کرتے ہیں۔ تب آنجناب نے فرمایا کہ مجھے اس دنیا سے کیا کام۔ میری مثال اُس سوار کی ہے جو شدتِ گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جا رہا ہے اور جب دوپہر کی شدت نے اُس کو سخت تکلیف دی تو وہ اُسی سواری کی حالت میں دَم لینے کے لئے ایک درخت کے سایہ کے نیچے ٹھیر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اُسی گرمی میں اپنی راہ لی‘‘۔ (چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 300-299)

حضرت عمرؓ کے رتبہ و مقام کے بارے میں ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت عمررضی اللہ عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہ میں کس قدر بڑا ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اُن کی رائے کے موافق قرآنِ شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور اُن کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمرؓ کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ دوسری یہ حدیث ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی اُمّتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں۔ اگر اس اُمّت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے‘‘۔ (ازالہ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 219)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ

’’بعض واقعات پیشگوئیوں کے جن کا ایک ہی دفعہ ظاہر ہو نا امید رکھا گیا ہے وہ تدریجاً ظاہر ہوں یا کسی اَور شخص کے واسطہ سے ظاہر ہوں جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی کہ قیصر وکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپؐ کے ہاتھ پر رکھی گئی ہیں۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے ظہور سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے تھے۔ اور آنجنابؐ نے نہ قیصر اور کسریٰ کے خزانہ کو دیکھا اور نہ کنجیاں دیکھیں۔ مگر چو نکہ مقدر تھا کہ وہ کنجیاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملیں کیو نکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وجود ظلّی طور پرگو یا آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تھا اس لیے عالمِ وحی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ قرار دیا گیا‘‘۔ (ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14۔ صفحہ 265)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’جبتک امام کی دستگیری اِفاضہ علوم نہ کرے تب تک ہرگز ہرگز خطرات سے امن نہیں ہوتا۔ اس امر کی شہادت صدر اسلام میں ہی موجود ہے‘‘ (اسلام کے شروع میں موجود ہے) ’’کیونکہ ایک شخص جو قرآنِ شریف کا کاتب تھا اُس کو بسا اوقات نورِ نبوت کے قرب کی وجہ سے قرآنی آیت کا اُس وقت میں الہام ہو جاتا تھا جبکہ امام یعنی نبی علیہ السلام وہ آیت لکھوانا چاہتے تھے۔ ایک دن اُس نے خیال کیا کہ مجھ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا فرق ہے؟ مجھے بھی الہام ہوتا ہے۔ اس خیال سے وہ ہلاک کیا گیا اور لکھا ہے کہ قبر نے بھی اُس کو باہر پھینک دیا‘‘۔ (فوت ہوا اور دفنایا گیا تو قبر نے بھی باہر پھینک دیا) ’’جیسا کہ بلعم ہلاک کیا گیا‘‘(اُس کو بھی اپنی نیکی کا اور وحی کا یہی زعم تھا)۔ فرماتے ہیں: ’’مگر عمرؓ کو بھی الہام ہوتا تھا انہوں نے اپنے تئیں کچھ چیز نہ سمجھا اور امامتِ حقہ جو آسمان کے خدا نے زمین پر قائم کی تھی اُس کا شریک بننا نہ چاہا بلکہ ادنیٰ چاکر اور غلام اپنے تئیں قرار دیا۔ اس لئے خدا کے فضل نے اُن کو نائب امامتِ حقّہ بنا دیا‘‘۔ (ضرورۃ الامام، روحانی خزائن جلد 13صفحہ473-474) (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر اپنے آپ کو حقیر سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے، فضل کرتے ہوئے پھر اُن کو خلیفہ بنا دیا جو نبی کا نائب ہے۔ )

پھر سر الخلافہ کے صفحہ 326میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ:

’’میرے ربّ نے مجھ پر ظاہر فرمایا ہے کہ ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور عثمان (رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین) غایت درجہ ایماندار اور رُشد و ہدایت سے معمور تھے۔ وہ اُن لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے فضیلت بخشی ہے اور جو خاص طور پر موردِ افضالِ الٰہیہ ہوئے ہیں۔ عارفوں کی ایک بڑی جماعت اُن کی خصوصیات کی گواہ اور اُن کی خوبیوں کی معترف ہے۔ انہوں نے محض رضائے الٰہی کی خاطر اپنے وطنوں کو چھوڑا اور ہر معرکے میں بلا دریغ داخل ہو گئے۔ انہوں نے شدتِ گرمی کا خیال کیا نہ ہی سرد ترین راتوں کی پرواہ کی بلکہ مردِ میدان بن کر دین کی راہ میں قدم مارتے چلے گئے۔ اس راہ میں نہ کسی قرابت دار کی پرواہ کی، نہ کسی اور کی اور رب العالمین کی خاطر سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔ اُن کے اعمالِ حسنہ سے بوئے خوش آتی اور ان کے افعالِ پسندیدہ سے خوشبو کی لپٹیں آتی ہیں۔ اُن سے اُن کے باغِ درجات، اُن کے گلستانِ حسنات کی طرف رہنمائی ہوئی ہے۔ اُن کی بادِ نسیم اپنے ہی عطر بیز جھونکوں سے اُن کے اسرار کی خبر دیتی ہے اور اُن کے انوار ہم پر ضوفگن ہوتے ہیں۔ سو اُن کی خوشبو سے اُن کی نیک شہرت کی طرف رہنمائی ہو سکتی ہے‘‘۔ (سر الخلافہ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 326۔ عربی عبارت کا اردو ترجمہ)

پھر آپؑ نے ایک جگہ فرمایا:

’’یہ عقیدہ ضروری ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاروق عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ (یعنی حضرت عثمان) اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب کے سب واقعی طور پر دین میں امین تھے۔ ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ جو اسلام کے آدمِ ثانی ہیں اور ایسا ہی حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنھما اگر دین میں سچے امین نہ ہوتے تو آج ہمارے لئے مشکل تھا جو قرآنِ شریف کی کسی ایک آیت کو بھی منجانب اللہ بتا سکتے‘‘۔ (مکتوبات احمد جلدنمبر2صفحہ نمبر151مکتوب نمبر2 بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحب مطبوعہ ربوہ)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت علیؓ کے مقام و مرتبہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یہ بھی سر الخلافہ کا صفحہ 358ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ

’’آپ (یعنی حضرت علیؓ ) بڑے متقی اور پاک صاف تھے اور اُن لوگوں میں سے تھے جو خدائے رحمان کے سب سے پیارے ہیں اور اچھے خاندانوں والے تھے اور زمانے کے سرداروں میں سے تھے۔ غالب خدا کے شیر اور مہربان خدا کے نوجوان تھے۔ بہت سخی اور صاف دل تھے۔ آپ وہ منفرد بہادر تھے جو مرکزِ میدان سے نہیں ہٹتے تھے خواہ آپ کے مقابل پر دشمنوں کی ایک فوج ہی کیوں نہ ہو۔ آپ نے کسمپرسی کی زندگی بھی بسر کی اور نوعِ انسانی کی پرہیز گاری میں مقامِ کمال تک پہنچے۔ اور آپ مال و دولت عطا کرنے، غم و ہمّ دور کرنے اور یتیموں، مسکینوں اور پڑوسیوں کی دیکھ بھال کرنے والے پہلے شخص تھے اور مختلف معرکوں میں آپ سے بہادری کے کارنامے ظاہر ہوتے تھے۔ اور آپ تلوار اور نیزے کی جنگ میں عجائب باتوں کے مظہر تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی آپ شیریں بیان اور فصیح اللسان تھے۔ (بڑے خوبصورت انداز میں بات بیان کرتے تھے) اور آپ اپنے کلام کو دلوں کی تہ میں داخل کرتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ اس ذریعے سے ذہنوں کے زنگ کو دور کرتے اور اُس کے مطلع کو دلیل کے نور سے منور کرتے تھے اور آپ ہر قسم کے اسلوب میں قادر تھے۔ اور جو کوئی آپ سے کسی معاملے میں فاضل ہوتا تو وہ بھی آپ کی طرف مغلوب کی طرح معذرت کرتا ہوا نظر آتا‘‘۔ (یعنی پڑھے لکھے لوگ بھی آپ کے سامنے کچھ حیثیت نہیں رکھتے تھے)’’اور آپ ہر خوبی اور فصاحت و بلاغت کی راہوں پر کامل تھے اور جس نے آپ کے کمال کا انکار کیا تو گویا وہ بے حیائی کے رستے پر چل پڑا‘‘۔ (سر الخلافہ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 358۔ عربی عبارت کا اردو ترجمہ)

پھر صحابہ رضوان اللہ علیھم کا مجموعی طورپر ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

’’مَیں پھر صحابہؓ کی حالت کو نظیر کے طور پر پیش کر کے کہتا ہوں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنی عملی حالت میں دکھایا کہ وہ خدا جو غیب الغیب ہستی ہے اور جو باطل پرست مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ اور نہاں ہے۔ انہوں نے اپنی آنکھ سے، ہاں آنکھ سے، ہاں آنکھ سے دیکھ لیا ہے۔ ورنہ بتاؤ تو سہی کہ وہ کیا بات تھی جس نے اُن کو ذرا بھی پرواہ نہیں ہونے دی کہ قوم چھوڑی، ملک چھوڑا، جائیدادیں چھوڑیں، احباب اور رشتہ داروں سے قطع تعلق کیا۔ وہ صرف خدا ہی پر بھروسہ تھا اور ایک خدا پر بھروسہ کر کے انہوں نے وہ کر کے دکھایا کہ اگر تاریخ کی ورق گردانی کریں تو انسان حیرت اور تعجب سے بھر جاتا ہے۔ ایمان تھا اور صرف ایمان تھا اور کچھ نہ تھا۔ ورنہ بالمقابل دنیا داروں کے منصوبے اور تدابیر اور پوری کوششیں اور سرگرمیاں تھیں پر وہ کامیاب نہ ہوسکے‘‘۔ (یعنی دنیا دار کامیاب نہ ہو سکے۔) ’’ان کی تعداد، جماعت، دولت سب کچھ زیادہ تھا مگر ایمان نہ تھا‘‘۔ (غیروں میں) ’’اور صرف ایمان ہی کے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے اور کامیابی کی صورت نہ دیکھ سکے۔ مگر صحابہؓ نے ایمانی قوت سے سب کو جیت لیا۔ انہوں نے جب ایک شخص کی آواز سنی جس نے باوصفیکہ اُمّی ہونے کی حالت میں پرورش پائی تھی مگر اپنے صدق اور امانت اور راستبازی میں شہرت یافتہ تھا۔ جب اُس نے کہا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں۔ یہ سنتے ہی ساتھ ہو گئے اور پھر دیوانوں کی طرح اُس کے پیچھے چلے۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ وہ صرف ایک ہی بات تھی جس نے اُن کی یہ حالت بنا دی اور وہ ایمان تھا۔ یاد رکھو! خدا پر ایمان بڑی چیز ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ408-407۔ ایڈیشن2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا خلفائے راشدین یا صحابہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد سے تعلق اور محبت کا اظہار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے تھا۔ اور جیسا کہ مَیں پہلے ذکر کر چکا ہوں اسے آپ ایمان کا جزو سمجھتے تھے۔

ایک دوسری جگہ آپ اس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’ہمارا ایمان ہے کہ بزرگوں اور اہل اللہ کی تعظیم کرنی چاہئے لیکن حفظِ مراتب بڑی ضروری شیٔ ہے‘‘۔ (تعظیم تو کرنی چاہئے لیکن ہر ایک کا اپنا اپنا مرتبہ اور مقام ہے اُس کے مطابق) ’’ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ حد سے گزر کر خود ہی گناہگار ہو جائیں‘‘(۔ غلو سے کام نہیں لینا چاہئے۔) ’’اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے نبیوں کی ہتک ہو جائے۔ وہ شخص جو کہتا ہے کہ کُل انبیاء علیھم السلام حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی امام حسینؓ کی شفاعت سے نجات پائیں گے اُس نے کیسا غلو کیا ہے جس سے سب نبیوں کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ نمبر269-268حاشیہ مطبوعہ ربوہ ایڈیشن 2003ء)

پھر حضرت علیؓ اور حضرت حسینؓ سے اپنی مناسبت بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اور مجھے علی اور حسین کے ساتھ ایک لطیف مناسبت حاصل ہے۔ اور اس راز کو مشرقین اور مغربین کے ربّ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور مَیں علیؓ اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت کرتا ہوں۔ اور جو اُن سے عداوت رکھتا ہے اُن سے مَیں عداوت رکھتا ہوں۔ اور بایں ہمہ میں جوروجفا کرنے والوں میں سے نہیں۔ اور یہ میرے لئے ممکن نہیں کہ مَیں اس سے اعراض کروں جو اللہ نے مجھ پر منکشف فرمایا۔ اور نہ ہی میں حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہوں۔ (سر الخلافہ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 359۔ عربی عبارت کا اردو ترجمہ)

یہ بھی سر الخلافہ کا ترجمہ ہے۔ پھر اس مناسبت کو مزید کھول کر آپ فرماتے ہیں کہ:

’’اسلام میں بھی یہودی صفت لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنی غلط فہمی پر اصرار کر کے ہر ایک زمانے میں خدا کے مقدس لوگوں کو تکلیفیں دیں۔ دیکھو کیسے امام حسین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ہزاروں نادان یزید کے ساتھ ہو گئے‘‘۔ (امام حسین کو چھوڑ کر ہزاروں نادان یزید کے ساتھ ہو گئے)’’اور اس امام معصوم کو ہاتھ اور زبان سے دکھ دیا۔ آخر بجز قتل کے راضی نہ ہوئے اور پھر وقتاً فوقتاً ہمیشہ اس امت کے اماموں اور راستبازوں اور مجددوں کو ستاتے رہے اور کافر اور بے دین اور زندیق نام رکھتے رہے۔ ہزاروں صادق ان کے ہاتھ سے ستائے گئے اور نہ صرف یہ کہ ان کا نام کافر رکھا بلکہ جہاں تک بس چل سکا قتل کرنے اور ذلیل کرنے اور قید کرانے سے فرق نہیں کیا۔ یہانتک کہ اب ہمارا زمانہ پہنچا اور تیرھویں صدی میں جا بجا خود وہ لوگ یہ وعظ کرتے تھے کہ چودھویں صدی میں امام مہدی یا مسیح موعود آئے گا اور کم سے کم یہ کہ ایک بڑا مجدد پیدا ہوگا۔ لیکن جب چودھویں صدی کے سر پر وہ مجدد پیدا ہوا۔ اور نہ صرف خدا تعالیٰ کے الہام نے اُس کا نام مسیح موعود رکھا بلکہ زمانے کے فتن موجودہ نے بھی بزبانِ حال یہی فتویٰ دیا‘‘ (جو فتنے زمانے میں پھیلے ہوئے تھے) ’’کہ اس کا نام مسیح موعود ہونا چاہئے تھا۔ تو اُس کی سخت تکذیب کی اور جہاں تک ممکن تھا اُس کو ایذا ء دی اور طرح طرح کے حیلوں اور مکروں سے اُس کو ذلیل اور نابود کرنا چاہا‘‘۔ (ایام الصلح، روحانی خزائن جلدنمبر14صفحہ254-255)۔ جھٹلایا، تکلیفیں دیں اور ذلیل و نابود کرنے کی کوشش کی۔

ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں نے اس قصیدہ میں جو امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت لکھا ہے یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت بیان کیا ہے یہ انسانی کارروائی نہیں۔ خبیث ہے وہ انسان جو اپنے نفس سے کاملوں اور راستبازوں پر زبان دراز کرتا ہے۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ کوئی انسان حسین جیسے یا حضرت عیسیٰ جیسے راستباز پر بدزبانی کر کے ایک رات بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ اور وعید مَنْ عَادَ وَلِیًّا لِیْ۔ دست بدست اُس کو پکڑ لیتا ہے۔ پس مبارک وہ جو آسمان کے مصالح کو سمجھتا ہے اور خدا کی حکمت عملیوں پر غور کرتا ہے۔ (اعجاز احمدی(ضمیمہ نزول المسیح)۔ روحانی خزائن جلد19صفحہ149)

یہ حدیث ہے کہ مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیّٰا فَقَدْ اٰذَنتہُ بِالْحَرب کہ جس نے میرے ولی سے دشمنی اختیار کی تو میں نے اُس کے ساتھ اعلانِ جنگ کر دیا۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع حدیث نمبر6502)

تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں جو کچھ مَیں لکھتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے اور مرضی سے اور حکم سے لکھتا ہوں۔ پھر آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال اُن کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اُس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں۔ اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اُس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں۔ اور ہر ایک چیز جو بت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کسل ہو سب سے اپنے تئیں دور تر لے جاتے ہیں۔ لیکن بدنصیب یزید کو یہ بات کہاں حاصل تھیں۔ دنیا کی محبت نے اُس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہّر تھا اور بلا شبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے۔ اور بلا شبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے۔ اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اُس سے موجبِ سلبِ ایمان ہے۔ اور اس امام کی تقویٰ اور محبتِ الٰہی اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اور ہم اس معصوم کی ہدایت کے اقتداء کرنے والے ہیں جو اُس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اس کا دشمن ہے۔ اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اُس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اُس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبتِ الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندرلیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے اُن کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں۔ دنیا کی آنکھ اُن کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اُس کے زمانے میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امرنہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے اور جو شخص حسین رضی اللہ عنہ یا کسی بزرگ کی جو ائمہ مطہّرین میں سے ہے، تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اُس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ اُس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اُس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے‘‘۔ (مجموعہ اشتہارات۔ جلد سوم صفحہ 545-546۔ اشتہار تبلیغ حق۔ 8؍اکتوبر1905ء)

پس یہ ہے وہ خوبصورت اور انصاف پر مبنی تعلیم اور مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر جمع کرنے اور فرقہ بندی کو ختم کرنے کی تعلیم جو اللہ تعالیٰ کے اس بھیجے ہوئے اور فرستادے نے ہمیں دی ہے جو اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا غلامِ صادق بن کر صلح اور سلامتی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ خدا کرے کہ مسلم اُمّہ اس پیغام کو سمجھے اور فرقہ بندیوں اور فسادوں اور ایک دوسرے کے قتل و غارت سے بچے تا کہ اسلام ایک نئی شان سے دنیا کے کونے کونے تک اپنی چمک اور دمک دکھائے۔

اللہ کرے یہ محرم کا مہینہ ہر جگہ امن و امان اور سلامتی کے ساتھ گزرے۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو اپنی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رکھنے والا ہو۔

مسلمان ملکوں کی عمومی حالت اور فسادات سے بچنے کے لئے بھی بہت زیادہ دعا کریں۔ اکثر ملک آجکل بہت بُرے حالات میں سے گزر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شر پسندوں کے شر سے اسلام اور مسلمانوں کو محفوظ رکھے۔ اکثر مسلمان ملکوں میں جیسا کہ میں نے کہا اندرونی فساد اور شر بھی ہیں جن سے وہاں امن برباد ہو رہا ہے اور بجائے ترقی کے تیزی سے پیچھے کی طرف جا رہے ہیں۔ دنیا کی عمومی معاشی حالت بھی بے چینیاں پیدا کر رہی ہے جس کا اگر یہاں مغرب پہ اثر ہے تو مسلمان ملکوں پہ مشرق میں بھی اور ہر جگہ اثر ہے۔ اور پھر ایک تیسری بڑی گھمبیر صورتحال جو پیدا ہو رہی ہے اور ہونے والی ہے وہ بظاہر جو لگ رہا ہے کہ دنیا عالمی جنگ کی طرف بھی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ انسانیت پر رحم کرے۔ اُن کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے۔ ہمیں اِن دنوں میں بہت زیادہ دعائیں بھی کرنی چاہئیں اور ہر قسم کی احتیاطی تدابیر بھی کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں