خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 9؍ دسمبر 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
مخالفینِ احمدیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے سے لے کر آج تک نہ کسی دلیل کے ساتھ بلکہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی اور اَنا اور مفادات کی وجہ سے آپ علیہ السلام کے دعوے کو رَد کر رہے ہیں، جبکہ اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہزاروں دلائل ازروئے قرآن، ازروئے حدیث، ازروئے اقوال و تفسیرات صلحاء و علماء گزشتہ ثابت فرمایا کہ آپ ہی وہ مسیح اور مہدی ہیں جس کی پیشگوئی قرآن و حدیث میں موجود ہے۔ پھر آپ نے اپنی تائید میں الٰہی نشانات کی تفصیل بیان فرمائی۔ ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کا آپ کے ساتھ جو سلوک رہا اُس کی روشنی میں واضح فرمایا۔ لیکن جن کے دلوں پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مہر لگ جائے اُن کے دلوں کے قفل کوئی نہیں کھول سکتا۔ جن کو خدا تعالیٰ ہدایت نہ دینا چاہے اُنہیں کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ لیکن سعید فطرت لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا، آپ کی بیعت میں شامل ہوئے۔ اُن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرنے کی سعادت پائی جن کے مقدر میں خدا تعالیٰ نے ہدایت لکھ دی تھی۔ لیکن جو لوگ نام نہاد علماء کے خوف سے یا اُن کے پیچھے چل کر آپؑ کی بیعت میں نہیں آئے وہ باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل کے نازل ہونے کے، روحانی بارش کے برسنے کے اس فضل اور روحانی بارش سے محروم رہے اور اب تک رہ رہے ہیں۔ اس کے مقابل پر جیسا کہ میں نے کہا جن کو اللہ تعالیٰ ہدایت دینا چاہتا ہے، جن میں نیکی اور سعادت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کر رہے ہیں۔ آپ کے وقت میں بھی قبول کیا اور آج تک کرتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زمانے کے فساد کی حالت میں آنے کی تمام نشانیاں پوری ہو چکی ہیں۔ دنیا کی ہوا و ہوس زیادہ ہے اور خدا تعالیٰ کا خوف کم ہو چکا ہے۔ اس کی انتہا یہاں تک ہو چکی ہے کہ یہ نام نہاد مولوی اور اُن کے چیلے اپنی گراوٹوں کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ اس حد تک گر چکے ہیں کہ احمدیوں پر ظلم ڈھانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم اور اُس کے رسول کی ہتک سے بھی باز نہیں آتے اور پھر کہتے ہیں کہ یہ تو قادیانیوں نے کیا ہے۔ خود قرآنِ کریم کے پاکیزہ اور بابرکت اور اق کو، صفحوں کو، زمین پر یا نالی میں پھینک دیں گے، کوڑے کے تھیلوں میں ڈال دیں گے اور پھر کسی احمدی کا نام لگا دیں گے اور احمدی کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ اُسے تو اُس وقت پتہ چلتا ہے جب پولیس اُس کے گھر اُس کو پکڑنے کے لئے آ جاتی ہے یا اُس کے خلاف ان گندہ ذہنوں کے جلوس سڑکوں پر نکل رہے ہوتے ہیں۔ یا پھر ان کا یہ بھی طریق ہے کہ سکولوں میں دیواروں پر، غلط جگہ پر، غلط طریقے سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی عزت و ناموس پر ہر احمدی اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ اپنی اولاد کو بھی قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے، آپؐ کا نام لکھ کر پھر سکول کے احمدی بچوں کا نام لگا دیا جاتا ہے اور اس وجہ سے بچوں کو سکول سے نکال دیا جاتا ہے، اُن پر ظلم کئے جاتے ہیں، اُن کو مارا پیٹا جاتا ہے۔ بلکہ ان معصوم بچوں پر ہتکِ رسول کے مقدمات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی کوئی ضمانت بھی نہیں ہے اور سزا بھی انتہا کی ہے۔ ایسی حرکت ہمارے احمدی معصوم بچوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے جس کے متعلق وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔ پس جب اخلاقی گراوٹ اس حد تک چلی جائے، جب خدا تعالیٰ کا خوف دلوں سے بالکل ہی غائب ہو جائے، جب گھٹیا اور ذلیل حرکتوں کی انتہا ہونے لگے تو پھر مظلوموں کی آہیں اور فریادیں اور پکاریں بھی اپنا کام دکھاتی ہیں۔ پس آجکل خاص طور پر پاکستان میں جو حالات ہیں، جن سے احمدی وہاں گزر رہے ہیں اس حالت میں جیسا کہ میں اکثر پہلے بھی کئی مرتبہ توجہ دلا چکا ہوں ہمیں اپنی دعاؤں کا محور صرف اور صرف احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی کو بنانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی جلد پکڑ کرے جو خدا اور اسلام کے نام پر ظلموں کی انتہا کئے ہوئے ہیں۔ خدا، اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں ان دعاؤں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ ان میں سے جو نیک فطرت ہیں اُن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ زمانے کے امام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانے والے بنیں۔ ہمارے مختلف پروگرام جو ایم ٹی اے پر آتے ہیں ان میں سے جو لائیو پروگرام ہیں ان میں کئی کالرز (Callers) اللہ تعالیٰ کے فضل سے حقیقت کو سمجھ کر پھر بیعت بھی کر لیتے ہیں۔ پس یہ نہیں کہ مسلمانوں میں سے اکثریت اس فساد اور ظلم کا حصہ ہے` لیکن یہ بہر حال ہے کہ ایک اکثریت خوف اور لاعلمی کی وجہ سے احمدیت کے پیغام کو سمجھنا نہیں چاہتی یا اگر سمجھتی ہے تو ملکی قانون کی وجہ سے خوفزدہ ہے اور ملکی قانون ملاں کے خوف سے احمدی کو عام شہری کے حقوق دینے پر بھی تیار نہیں۔ آج کل قانون کی حکمرانی نہیں ہے بلکہ مُلّاں کی حکمرانی ہے۔ مُلّاں نے کم علم مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی ہے کہ نعوذ باللہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو آخری نبی مانتے ہیں جبکہ یہ بالکل غلط ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عاشقِ صادق تمام نبیوں کے حُلَل میں، تمام مذاہب کے ماننے والوں کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنے کے لئے آیا ہے نہ کہ خود مقابلہ کرنے کے لئے اور آپ علیہ السلام نے اپنے دلائل و براہین سے دنیا کے منہ بند کئے ہیں۔ اسلام پر حملے کرنے والوں کے آگے ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح آپؑ کھڑے ہو گئے۔ آپؑ نے دلائل و براہین سے نہ صرف اسلام پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے والوں کو روکا بلکہ اُنہیں پھر پسپا کیا۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان دلائل و براہین کے ساتھ دشمن پر اس طرح حملہ آور ہوئے کہ اُس کو بھاگنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ آپ علیہ السلام کو الہام ہوا کہ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا۔ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 265)۔ یعنی کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور یقینا باطل بھاگنے والا ہی تھا۔ ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے۔ پس مبارک ہے وہ جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔
یہ الہامات اور اس کے ساتھ فارسی اور اردو کے اور الہامات بھی ہیں، انہیں بیان فرمانے کے بعد آپ اپنی کتاب’تریاق القلوب‘میں فرماتے ہیں کہ:
’’ان تمام الہامات میں یہ پیشگوئی تھی کہ خدا تعالیٰ میرے ہاتھ سے اور میرے ہی ذریعہ سے دینِ اسلام کی سچائی اور تمام مخالف دینوں کا باطل ہونا ثابت کر دے گا۔ سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ کیونکہ میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کرسکے۔ میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں۔ اُٹھو اور تمام دُنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دِکھلانے او ر معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کرسکے۔ میں وُہی ہوں جس کی نسبت یہ حدیث صحاح میں موجود ہے کہ اس کے عہد میں تمام ملّتیں ہلاک ہوجائیں گی۔ مگر اسلام کہ وہ ایسا چمکے گا جو درمیانی زمانوں میں کبھی نہیں چمکا ہوگا‘‘۔ (تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 267-268)
پس اسلام کی خوبصورت تعلیم آج دنیا میں ہمیں آپ علیہ السلام کے ذریعے سے پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ آج آپ کی جماعت ہی ہے جو باقاعدہ نظم و ضبط کے ساتھ ایک نظام کے ماتحت خلافت کے سائے تلے تبلیغِ اسلام کا کام سرانجام دے رہی ہے۔ افریقہ میں تبلیغِ اسلام ہو یا یورپ میں یا کسی بھی دوسرے براعظم میں، کسی بھی ملک میں اسلام کی حقیقی تصویر جماعت احمدیہ ہی پیش کر رہی ہے۔
مَیں نے جب جماعتوں کو کہا کہ دشمنانِ اسلام قرآن کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں تو قرآن کی نمائش لگائی جائے، قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم کو واضح کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف جگہوں پر نمائشیں لگیں اور لگ بھی رہی ہیں اور اس کے بعد دنیا سے، ہر جگہ سے یہی رپورٹس آ رہی ہیں کہ جو غیر لوگ آنے والے ہیں وہ دیکھ کے کہتے ہیں کہ جو قرآنی تعلیم اور جو اسلام تم پیش کر رہے ہو یہ تو اتنا خوبصورت اسلام ہے کہ ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ہم اس کی مخالفت کس طرح کر رہے تھے۔ ہمارے سامنے تو اسلام کا یہ خوبصورت پہلو کبھی آیا ہی نہیں۔ یہ ہماری لاعلمی تھی۔ اکثروں کا بڑا معذرت خواہانہ لہجہ ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم اور دوسرا اسلامی لٹریچر لے کر جاتے ہیں۔ ان نمائشوں میں آنے والے پڑھے لکھے، سلجھے ہوئے، تعلیم یافتہ مسلمان بھی ہیں، عیسائی بھی ہیں، دوسرے مذاہب والے بھی ہیں اور سب بلا استثناء اس کام کو سراہ رہے ہیں کہ یہ عظیم کام ہے جو تم لوگ کر رہے ہو۔ لیکن بدقسمتی سے ایک مُلّاں ہے اور ان کا بھی ایک طبقہ ہے جو بعض ملکوں میں اس نمائش کی مخالفت کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم پھیلانے کی مخالفت کرتا ہے۔
مَیں نے شاید پہلے بھی یہاں بتایا تھا کہ ہندوستان میں، دہلی میں ایک بہت بڑے ہال میں جو حکومت سے کرائے پر لیا گیا تھا، ہم نے قرآنِ کریم کی نمائش لگائی تو اُس پر وہاں کے مُلّاں نے اپنے ساتھ چند شر پسندوں کو ملا کر اتنا شور مچایا کہ وہ نمائش جو تین دنوں کے لئے لگنی تھی دو دن میں سمیٹنی پڑی۔ لیکن ان دو دنوں میں بھی اس نے اپنا بھرپور اثر قائم کیا۔ وہاں کے ایک بڑے پڑھے لکھے صاحب ہیں جن کا ایک مقام بھی ہے وہ نمائش کے بعد وہ قادیان آئے اور پھر بتایا کہ میں پہلی مرتبہ قادیان آیا ہوں اور اس طرف سفر کر کے آیا ہوں اور چاہتا تھا کہ قرآنِ کریم اور اسلام کی اتنی عظیم خدمت کرنے والے جہاں رہتے ہیں وہ جگہ بھی دیکھوں اور پھر قادیان کی مختلف جگہیں دیکھیں اور متاثر ہوئے۔
لیکن یہ بھی بڑے افسوس سے مَیں کہتا ہوں کہ یہاں یوکے (UK) میں ایک شہر میں گزشتہ دنوں ہم نمائش لگا رہے تھے تو مُلّاؤں کے شور کی وجہ سے پولیس نے وہاں ہماری انتظامیہ کو نمائش نہ لگانے کی درخواست کی۔ اصول تو یہ ہونا چاہئے کہ ایسی درخواستوں کو ہمیں دلائل سے رَد کر دینا چاہئے لیکن وہاں کی مقامی جماعت یا جماعت کی مقامی انتظامیہ نے اُن کی یہ بات مان لی اور نمائش کینسل کر دی۔ اگر یہاں اس ملک میں یا ان ملکوں میں، یورپ میں، جہاں ہر طرح کی آزادی ہے اور حکومت کی طرف سے آزادی دینے کا اعلان کیا جاتا ہے، اگر ہم نے مُلّاں کو سر پر چڑھا لیا تو ہم اس ملک میں بھی شدت پسندی کو فروغ دینے والے بن جائیں گے۔ یہ بات ہمیں انتظامیہ کو بھی اچھی طرح باور کروانی چاہئے اور اس نمائش کا دوبارہ اہتمام کرنا چاہئے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ خاموشی سے لگا لی جائے۔ اگر خاموشی سے لگانی ہے تو اس کا فائدہ کیا ہو گا؟ ایک طرف دعویٰ ہے کہ ہم نے جری اللہ کے مشن کو آگے بڑھانا ہے اور دوسری طرف پھرہم مداہنت بھی دکھائیں؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ اس ملک میں جیسا کہ مَیں نے کہا قانون کی حکمرانی ہے، حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہے تو قانون سے کہیں کہ تمہارا کام اس کو نافذ کرنا اور ہر شہری کے حق کی ادائیگی کرنا اور اُسے تحفظ دینا ہے اور یہ تم کرو۔
بہر حال یہ حال ہے مُلّاں کا کہ غیر مسلم ممالک میں، جیسے ہندوستان یا یہاں انگلستان میں جب قرآن اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے تو غیر مسلم نہیں بلکہ یہ نام نہاد مسلمان علماء کھڑے ہوتے ہیں کہ ہیں ! یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ ایسا خطر ناک کام، قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم کو پھیلانے کا کام یہ احمدی کر رہے ہیں، یہ ہم کسی طرح برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ہے ان اسلام کے ٹھیکیداروں کی اصل تصویر اور رُخ۔ لیکن ہم نے اپنا کام کئے جانا ہے۔ ہم نے ہر صورت میں اسلام کے مخالفین کے منہ بند کرنے ہیں اور قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ اور ظاہر ہے ہم یہ کرتے چلے جائیں گے تا کہ دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لانے کی کوشش کریں۔ جیسا کہ مَیں نے کہامغربی ممالک کی یہ عمومی خوبی ہے کہ ہر ایک کو قانون کے سامنے ایک نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے یہاں اگر ہمارے کام میں کوئی روک ڈالتا ہے تو ہمیں قانون کی مدد لینی چاہئے۔ یہاں ان کے قانون کی برتری کی ایک مثال بھی پیش کر دیتا ہوں۔ گزشتہ دنوں جب میں یورپ کے دورے پر گیا تھا تو واپسی پر ایک جمعہ ہالینڈ میں بھی پڑھایا تھا اور وہاں میں نے وہاں کے ایک سیاستدان، ممبر آف پارلیمنٹ اور ایک پارٹی کے لیڈر جن کا نام خیرت وِلڈر ہے، کو یہ پیغام خطبہ میں دیا تھا کہ تم لوگ اسلام کے خلاف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو دریدہ دہنی میں بڑھے ہوئے ہو، گھٹیا قسم کی باتیں کر رہے ہو، دشمنی میں انتہا کی ہوئی ہے۔ اس چیز سے باز آؤ، نہیں تو اُس خدا کی لاٹھی سے ڈرو جو بے آواز ہے جو اپنے وقت پر پھر تم جیسوں کو تباہ و برباد بھی کر دیا کرتی ہے۔ وہ خدا یہ طاقت رکھتا ہے کہ تم جیسوں کی پکڑ کرے۔ مَیں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس طاقت تو کوئی نہیں، ہم دعاؤں سے تم جیسوں کا مقابلہ کریں گے۔ اس خطبہ کے خلاصے پر مشتمل پریس ریلیز جو ہمارا پریس سیکشن بھیجتا ہے، اُن کے انچارج جب یہ ریلیز بنا کر میرے پاس لائے تو باقی چیزیں تو انہوں نے لکھی ہوئی تھیں لیکن یہ فقرہ نہیں لکھا تھا۔ پھر اُن کو مَیں نے کہا کہ یہ فقرہ بھی ضرور لکھیں کہ ہمارے پاس کوئی دنیاوی ہتھیار نہیں ہے۔ یہی مَیں نے کہا تھا۔ لیکن ہم دعا کرتے ہیں کہ تم اور تم جیسے جتنے ہیں وہ فنا ہو جائیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارا اپنے تمام مخالفین اور دشمنوں سے مقابلہ یا تو دلائل کے ساتھ ہے یا پھر سب سے بڑھ کر دعاؤں کے ساتھ۔ بہر حال یہ پریس ریلیز جو تھی، یہ خیرت ولڈر جو سیاستدان ہے اس نے بھی پڑھی اور انہوں نے اپنی حکومت کو خط لکھا اور حکومت سے، ہوم منسٹر سے چند سوال کئے۔ جب یہ وہاں پریس میں آئے تو وہاں کی جماعت نے مجھے لکھا کہ اس طرح اُس نے سوال کئے ہیں۔ لگتا تھا کہ جماعت والوں کو تھوڑی سی گھبراہٹ ہے۔ اُس پر مَیں نے اُنہیں کہا تھا کہ اگر ہوم آفس والے پوچھتے ہیں تو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، پریشان بھی ہونے کی ضرورت نہیں، کھل کر اپنا مؤقف بیان کریں۔ بنیاد تو اُس شخص نے خود قائم کی تھی جو غلط قسم کی حرکتیں کر رہا ہے۔ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط فلمیں بھی بنائی ہیں۔ انتہائی سخت زبان اُس نے استعمال کی تھی۔ اسلام کو بدنام کیا تھا۔ ہم نے تو اُس کا جواب دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے نبی کی غیرت رکھنے والا ہے اور وہ پکڑ سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے۔
بہر حال اُس نے یہ سوال جو اپنی حکومت کو بھیجے تھے، اُس کے سوالوں کا کچھ دنوں کے بعد حکومت نے جواب بھی دیا اور یہ وہاں اخبار میں بھی آ گیا۔
وِلڈر نے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ کیا یہ آرٹیکل کہ World muslim leader sends warning to Dutch politician Geert Wilders۔ عالمی مسلمان رہنما کی ہالینڈ کے سیاستدان خیرت ولڈر کو تنبیہ آپ یعنی وزارتِ داخلہ ہالینڈ کے علم میں ہے؟ تو وزیرِ داخلہ نے اُس کو جواب دیا کہ ہاں مجھے علم ہے۔ یہ آرٹیکل مَیں نے پڑھا ہے۔
پھر اگلا سوال اُس کا یہ تھا، (میرا نام لیا تھا) کہ مرزا مسرور احمدنے یہ کہا ہے کہ تم سُن لو کہ تمہاری پارٹی اور تمہارے جیسا ہر شخص بالآخر فنا ہو گا۔ یہ وِلڈر نے منسٹر کو لکھا۔ پھر آگے اس کی تشریح خود کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ اس مفسدانہ بیان پر وزارتِ داخلہ اسلامی تنظیم کے خلاف کیا قدم اُٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ڈچ وزیرِ داخلہ نے جواب دیا کہ پریس ریلیز کے مطابق مرزا مسرور احمدنے کہا ہے کہ ایسے افراد اور گروہ کسی فساد یا دیگر سیکولر حربوں سے نہیں بلکہ صرف دعا کے ذریعے ہلاک ہوں گے۔ اس بیان پر مَیں کوئی ایسی بات نہیں دیکھتا جو کہ فساد کو ہوا دیتی ہو یا باعثِ فساد ہو۔ اس لئے مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ مَیں احمدیہ مسلم جماعت کے خلاف کوئی قدم اُٹھاؤں۔ پھر تیسرا سوال اُس نے کیا تھا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی ہالینڈ کا عالمگیر جماعت احمدیہ مُسلمہ اور مسرور احمد سے کیا تعلق ہے؟ اس کا ڈچ وزیر نے جواب دیا کہ احمدیہ مسلم جماعت ہالینڈ عالمگیر جماعت احمدیہ مُسلمہ کا ہی ایک حصہ ہے۔
تو یہ ہے اُن کا جواب۔ پس یہ اُن لوگوں کی انصاف پسندی ہے۔ ایک سیاستدان، جوپارٹی کا لیڈر بھی ہے، ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہے اور پھر اُن کا اپنا ہم مذہب ہے، جب سوال اُٹھاتا ہے تو اُس کے سوالوں کا انصاف پر مبنی جواب دیا جاتا ہے۔ سنا ہے ولڈر صاحب اب جماعت کے بارے میں مزید تحقیق کر رہے ہیں کہ کس طرح جماعت کے منفی پہلو حاصل کریں۔ لیکن یہ مخالفین جتنا چاہے زور لگا لیں۔ یہ الٰہی جماعت ہے اور ہمیشہ وہی بات کرتی ہے جو حق ہو اور صداقت ہو اور اس میں سے یہی کچھ اُن کو نظر آئے گا۔ پس ہمیں تو اس زمانے کے امام نے اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے اور دشمن کا منہ دلائل سے بندکرنے کا فریضہ سونپا ہے اور اپنی اپنی بساط اور کوشش کے مطابق ہر احمدی اس کام کو سرانجام دے رہا ہے۔ اور جہاں اسلام پر دشمنانِ اسلام کو حملہ آور دیکھتا ہے وہاں احمدی ہے جو دفاع بھی کرتا ہے اور منہ توڑ جواب بھی دیتا ہے۔ دنیا کو سمجھاتا بھی ہے۔ اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی ملی ہوئی علم و معرفت ہے جس کو ہم استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہر احمدی بغیر کسی احساسِ کمتری کے بڑے بڑے لیڈروں اور مذہبی سربراہوں کو بھی اسلام کا پیغام پہنچا رہا ہے۔ دوسرے اگر لیڈروں کو ملنے جاتے ہیں تو مدد لینے جاتے ہیں یا دنیاوی مفادات لینے جاتے ہیں۔ کبھی اسلام کا پیغام پہنچانے کی جرأت نہیں کرتے۔
ابھی گزشتہ دنوں ہمارے کبابیر کے امیر صاحب کو ایک وفد کے ساتھ اٹلی جانے کا موقع ملا۔ جانے سے پہلے انہوں نے مجھے بھی کہا کہ یہ جو وفد جا رہا ہے اس میں کیونکہ ہر مذہب کے لوگ انہوں نے رکھے ہیں اور ایک ایسی مذہبی تقریب پیدا ہو رہی ہے کہ پوپ سے بھی ملاقات ہو گی بلکہ پوپ کے بلانے پر جا رہے ہیں اس لئے اگر مناسب سمجھیں تو آپ کی طرف سے اُسے کوئی پیغام دے دوں اور قرآنِ کریم کا تحفہ بھی دے دوں۔ تو مَیں نے اُنہیں کہا کہ بڑی اچھی بات ہے ضرور دیں۔ چنانچہ اُنہیں میں نے یہاں سے اپنا پیغام لکھ کر بھجوایا کہ پوپ کو جا کے دے دیں۔ اُس کی انہوں نے کاپیاں بھی کروا لیں اور وہاں جب وہ گئے ہیں تو پوپ کو بھی دیا اور ویٹیکن کے اور بڑے بڑے پادری جو تھے اُن کو بھی دیا۔ قرآنِ کریم کا تحفہ بھی پوپ کو دیا۔ اس کی تصویر بھی وہاں اخباروں میں آئی۔ اُن کی رپورٹ کا ایک حصہ میں سناتا ہوں جو اُس کے بعدشریف عودہ صاحب نے لکھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ خاکسار نے اٹلی میں پوپ کی رہائش گاہ ویٹیکن میں مورخہ 10-11-2011کو اُن مذہبی لوگوں کے گروپ کے ساتھ ملاقات کی جن میں اسرائیل کے حاخامِ اعظم جو اُن کے بہت بڑے ربّائی ہیں اور کچھ عیسائی اور یہودی اور مسلمان عہدیداران شامل تھے۔ خاکسار نے پوپ کو (میرا لکھتے ہیں کہ) حضور کا خط پہنچایا اور اُنہیں بتایا کہ اس میں حضرت امام جماعت احمدیہ عالمگیر کا بہت اہم پیغام ہے۔ انہوں نے یہ خط خود اپنے ہاتھ سے وصول کیا۔ اسی طرح میں نے اُنہیں اٹالین ترجمہ قرآن کا بھی ایک نسخہ پیش کیا۔ اٹالین اور اسرائیل ٹی وی نے نیز اٹالین اخبارات اور اسرائیل کے عربی اور عبرانی اخبارات نے خاکسار کی تصویریں پوپ کے ساتھ نشر کیں۔ ملاقات کے بعد ویٹیکن ریڈیو پر ایک پریس کانفرنس تھی میں نے اس میں حضور کے خط کا ذکر کیا اور خلاصہ بیان کیا اور صحافیوں میں اس خط کی کاپیاں تقسیم کیں۔ اسی طرح میں نے ویٹیکن میں مشرقِ وسطی میں موجود چرچز (Churches)کے ذمہ دار کارڈینل وغیرہ کو بھی کاپی مہیا کی۔ میں نے یہاں مذاکرات بین المذاہب کی کمیٹی سے بھی ملاقات کی اور انہوں نے مجھے اپنی کانفرنس میں بلانے کے لئے مجھ سے ایڈریس بھی لیا۔ ان کی اگلی کانفرنس آئندہ سال سرائیوو میں ہو گی۔
جو خط میں نے پوپ کو لکھا تھا اُس کا خلاصہ یہ ہے۔ پہلے کچھ دعائیہ کلمات تھے۔ پھر قرآن کریم کی یہ آیت تھی کہ قُلْ یٰٓاَ ھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْ ااِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَانُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وََّلَایَتَّخِذَ بَعْضُنَابَعْضًااَرْبَابًامِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ (آل عمران: 65) کہ توُکہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیزکو اس کا شریک ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا۔
پھر اس کا مَیں نے ذکر کیا تھا (خلاصہ بیان کر رہا ہوں) کہ آجکل اسلام اس لحاظ سے دنیا کی نظر میں ہے کہ اُس کی تعلیم کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ گو بعض مسلمانوں کے عمل اس کی وجہ ہیں لیکن جس وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے یہ بالکل غلط ہے۔ اور بعض مسلمان لوگوں کے جو غلط عمل ہیں اُن کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ بھی اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کرنے سے نہیں چوکتے۔ جس طرح کہ ہر مذہب کے بانی کی تعلیم ہے یا ہر مذہب کی تعلیم ہے کہ اس کا مقصد بندے کو خدا سے ملانا ہے اسی طرح اسلام کی تعلیم ہے اور بڑھ کر ہے۔ پس چند لوگوں کے غلط عمل کی وجہ سے اسلام پر غلط قسم کے حملے نہیں ہونے چاہئیں۔ اسلام ہمیں تمام انبیاء کی عزت کرنا سکھاتا ہے، اُن انبیاء کا جن کا ذکر بائبل میں بھی ہے اور قرآنِ کریم میں بھی۔ ہم جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجز غلام ہیں، ہمیں بڑی شدید تکلیف پہنچتی ہے جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر حملے کئے جاتے ہیں۔ ہم ان حملوں کا جواب دیتے ہیں لیکن آپؐ کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کر کے اور قرآنِ کریم کی تعلیم دنیا کے سامنے رکھ کر جو پیار محبت اور بھائی چارے کی تعلیم ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ تقویٰ پر قدم مارو اور یہی آواز اس کو پھیلانے کے لئے ہماری مسجدوں سے پانچ وقت گونجتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کی جاتی ہے اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ پھر آگے یہ بھی لکھا کہ آجکل دنیا کے امن کی بربادی اس لئے ہے کہ آزادی خیال اور ضمیر کی آڑ میں بعض لوگ ایک دوسرے کے جذبات سے کھیلتے ہیں اور مذہبی طور پر بھی تکلیف پہنچائی جاتی ہے۔ آجکل دنیا میں چھوٹے پیمانے پر جنگیں شروع ہیں۔ آج دنیا کو ضرورت اس امر کی ہے کہ ان جنگوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ ورنہ عالمی جنگ کی صورت بھی بن سکتی ہے۔ جس کی تباہی ناقابلِ بیان ہو گی۔
پھر مَیں نے اُنہیں لکھا کہ پس ہمیں دنیا کی مادی ترقی کی طرف زیادہ توجہ دینے کی سوچ رکھنے کے بجائے اس کو تباہی سے بچانے کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ تباہی یقینی ہے۔ پس مذہبی لیڈروں کو آپس کی دشمنیوں اور حقوق کی تلفی سے دنیا کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
اور پھر مَیں نے لکھا کہ کیونکہ آپ دنیا میں ایک آواز رکھتے ہیں۔ آپ کی بڑی زیادہ following ہے اس لئے اس امر کی کوشش کریں۔ تمام مذاہبِ عالم کو آج آپس میں تعاون کرتے ہوئے امن کی کوشش کرنی چاہئے اور اس طرح سے اپنے پیدا کرنے والے خدائے واحد کو پہچاننے کی طرف توجہ کریں۔ یہ اُس خط کا خلاصہ ہے جو اُن کو بھیجا گیا تھا۔ اللہ کرے کہ یہ پیغام اُن کی سمجھ میں بھی آ جائے اور پڑھ بھی لیا ہو۔ یہ لوگ انسانیت کی قدروں کو قائم کرنے والے ہوں اور مذاہب کا احترام کرنے والے ہوں اور سب سے بڑھ کر خدائے واحد کو پہچاننے والے ہوں۔ جیسا کہ شریف صاحب کی رپورٹ سے بھی ظاہر ہے کہ اس موقع پر بعض اور مسلمان مذہبی لیڈر بھی تھے یا بڑے لوگ تھے لیکن پوپ کو اسلام کا اور قرآن کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملی تو زمانے کے امام اور جری اللہ کے ایک غلام کو۔ پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ احمدی مسلمان نہیں اور نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کی ہتک کرنے والے ہیں۔ ہم تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جُڑکر اسلام کی آج تک ایک نئی شان سے کامیابیوں کے نظارے دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ غیر جن کے دل میں بُغض اور کینے نہیں ہیں وہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جو کام ہے اس میں یقینا آپ نے اپنے مقصد کوپا لیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف ایک مقدمہ قائم ہوا تھا۔ یہ بڑا مشہور مقدمہ ہے جو ایک پادری ہنری مارٹن کلارک نے قائم کیا تھا۔ اصل میں تو اس کے پیچھے اُس شکست کا بدلہ لینا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور عیسائیوں کے درمیان ایک مباحثے میں عیسائیوں کو ہوئی تھی۔ جس بحث کی تفصیل حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب جنگِ مقدس میں ملتی ہے۔ یہ مقدمہ مارٹن کلارک نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قتل کا جھوٹا مقدمہ قائم کر کے کیا تھا۔ اس کی تفصیل بھی آپ کی کتاب’کتاب البریہ‘ میں ملتی ہے۔ بہر حال اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اُس وقت کے جج کپتان ڈگلس نے باعزت بری کیا تھا۔ آپ نے اس جج کو پیلاطوس ثانی کا خطاب دیا۔ تو یہ بھی ایک لمبی تفصیل ہے۔ ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اُس مقدمے میں بہت ذلیل ہوا تھا۔ بلکہ جج نے کہا تھا آپ ان کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں۔ ان کے خلاف مقدمہ بھی کر سکتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے ہمارے آصف صاحب جو ایم ٹی اے کے ہیں انہوں نے بتایا کہ ہنری مارٹن کلارک کے پڑپوتے سے رابطہ ہوا ہے اور وہ مجھے ملنا چاہتا ہے۔ تومَیں نے اُنہیں کہا کہ بڑی خوشی سے آ جائیں۔ کسی دن اُن کو لے آئیں۔ چنانچہ وہ گزشتہ دنوں مجھے ملے۔ یہ ملنا توشاید اتنا اہم نہیں۔ ایک ملاقات ہوتی ہے لوگ ملنے آتے رہتے ہیں لیکن جو باتیں اُنہوں نے کیں، اُن میں سے چند آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی نشانی ہے۔ کس شان سے اللہ تعالیٰ آج بھی آپ کی تائید فرماتا ہے۔ میں نے باتوں باتوں میں جنگِ مقدس کے حوالے سے بات کی تو کہنے لگے کہ مَیں نے تو اس بارے میں حال ہی میں تحقیق کی ہے لیکن آج مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ہنری مارٹن کلارک ماضی میں کھو گیا ہے۔ یہ اُن کے پڑپوتے کا بیان ہے کہ ہنری مارٹن کلارک ماضی میں کھو گیا ہے جبکہ اُس کے مدِ مقابل جو شخص تھا وہ دنیا بھر میں کامیاب ہے۔ کہنے لگے مجھے خود کچھ سال پہلے تک معلوم نہیں تھا کہ میرے پڑدادا کون ہیں۔ ابھی حال ہی میں مَیں اپنے آباؤ اجداد کی تلاش کر رہا تھا تو مجھے یہ پتہ چلا کہ ہنری مارٹن کلارک میرے پڑدادا ہیں۔ بہر حال تقریباً آدھا گھنٹہ ہماری گفتگو ہوتی رہی۔ بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں اور احتیاط سے میرے ساتھ بات کر رہے تھے۔ میں سمجھا شاید یہ اُن کا انداز ہو گا لیکن بعد میں آصف صاحب کو کہنے لگے کہ ساری ملاقات میں مَیں بڑی جذباتی کیفیت میں رہا ہوں۔ اور اُس کے بعد جب باتیں ہوئیں توآصف صاحب نے انہیں دوبارہ بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہنری مارٹن کلارک کے بارے میں اگربعض سخت الفاظ استعمال کئے ہیں تو وہ اُس مارٹن کلارک کی ضد کی وجہ سے تھا اور اُس مباحثے کی صورتحال کی وجہ سے تھا جو اُس وقت پیدا ہوئی تھی۔ باوجود اس کے کہ بڑا واضح ہے اور سارے مباحثے کو پڑھ کر انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ فتح اسلام کی ہوئی لیکن وہ یہی نعرہ لگاتا رہا اور اس بات پر اصرار کرتا رہا کہ عیسائیت جیت گئی۔ تو پھر آپ نے یہی فرمایا کہ دعا کے ذریعے سے فیصلہ ہو جائے تا کہ اللہ تعالیٰ واضح نشان دکھائے۔ کافی لمبی باتیں کیں۔ اس پر وہ بے ساختہ کہنے لگا، God has certainly shown a sign even today۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یقینی طور پر نشان دکھا دیا بلکہ آج بھی نشان دکھا دیا ہے۔ ملاقات کا بھی اُس نے ذکر کیا۔ اس کی تفصیل تو مَیں نے آصف صاحب کو کہا ہے کہ کسی وقت مضمون بنا کر لکھ دیں۔ بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت آج انہی دشمنانِ اسلام کی اولادوں کے منہ سے اللہ تعالیٰ ظاہر فرما رہاہے۔ اگر سمجھ نہیں آتی تو ان مُلّاؤں کو جو دین کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’میرا انکار میرا نکار نہیں ہے بلکہ یہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے کیونکہ جو میری تکذیب کرتا ہے وہ میری تکذیب سے پہلے معاذاﷲ، اﷲ تعالیٰ کو جھوٹا ٹھہرالیتا ہے جبکہ وہ دیکھتا ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ نے باوجود وعدہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) کے ان کی اصلاح کا کوئی انتظام نہ کیا جب کہ وہ اس امر پر بظاہر ایمان لاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے آیتِ استخلاف میں وعدہ کیا تھا کہ موسوی سلسلہ کی طرح اس محمدیؐ سلسلہ میں بھی خلفاء کا سلسلہ قائم کرے گا۔ مگر اس نے معاذاﷲ اس وعدہ کو پورا نہیں کیا اور اس وقت کوئی خلیفہ اس امت میں نہیں اور نہ صرف یہاں تک ہی بلکہ اس بات سے بھی انکار کرنا پڑے گا کہ قرآن شریف نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ قرار دیا ہے یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ معاذاﷲ۔ کیونکہ اس سلسلہ کی اتم مشابہت اور مماثلت کے لئے ضروری تھا کہ اس چودھویں صدی پر اسی امت میں سے ایک مسیح پیدا ہوتا اسی طرح پر جیسے موسوی سلسلہ میں چودھویں صدی پر ایک مسیح آیا۔ اور اسی طرح پر قرآن شریف کی اس آیت کو بھی جھٹلانا پڑے گا جو وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) میں ایک آنے والے احمدی بروز کی خبر دیتی ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کی بہت سی آیتیں ہیں جن کی تکذیب لازم آئے گی بلکہ مَیں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اَلْحَمْد سے لے کر وَالنَّاس تک سارا قرآن چھوڑنا پڑے گا۔ پھر سوچو کہ کیا میری تکذیب کوئی آسان امر ہے۔ یہ مَیں ازخودنہیں کہتا بلکہ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ حق یہی ہے کہ جو مجھے چھوڑے گا اور میری تکذیب کرے گا وہ زبان سے نہ کرے مگر اپنے عمل سے اس نے سارے قرآن کی تکذیب کردی اور خدا کو چھوڑ دیا۔
اس کی طرف میرے ایک الہام میں بھی اشارہ ہے ’’اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ‘‘۔ بے شک میری تکذیب سے خدا کی تکذیب لازم آتی ہے اور میرے اقرار سے خدا تعالیٰ کی تصدیق ہوتی اور اس کی ہستی پر قوی ایمان پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر میری تکذیب میری تکذیب نہیں یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ اب کوئی اس سے پہلے کہ میری تکذیب اور انکار کے لئے جرأت کرے، ذرا اپنے دل میں سوچے اور اس سے فتویٰ طلب کرے کہ وہ کس کی تکذیب کرتا ہے؟‘‘۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 364-365 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپؑ دوسری کتاب میں ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’پس تم خوب یاد رکھو کہ تم اس لڑائی میں اپنے ہی اعضاء پر تلواریں ماررہے ہو۔ سو تم ناحق آگ میں ہاتھ مت ڈالو ایسا نہ ہو کہ وہ آگ بھڑکے اور تمہارے ہاتھ کو بھسم کر ڈالے۔ یقیناً سمجھو کہ اگر یہ کام انسان کا ہوتا تو بہتیرے اس کے نابود کرنے والے پیدا ہوجاتے اور نیز یہ اس اپنی عمر تک بھی ہرگز نہ پہنچتا۔ …… کیا تمہاری نظر میں کبھی کوئی ایسا مفتری گزرا ہے کہ جس نے خدا تعالیٰ پر ایسا افترا کر کے کہ وہ مجھ سے ہم کلام ہے پھر اس مدّتِ مدید کے سلامتی کو پالیا ہو۔ افسوس کہ تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور قرآن کریم کی ان آیتوں کو یادنہیں کرتے جو خودنبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تو ایک ذرہ مجھ پر افترا کرتا تو میں تیری رگ جان کاٹ دیتا۔ پس نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) سے زیادہ تر کون عزیز ہے کہ جو اتنا بڑا افترا کر کے اب تک بچا رہے بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال بھی ہو۔ سو بھائیو! نفسانیت سے باز آؤ۔ اور جو باتیں خدائے تعالیٰ کے علم سے خاص ہیں ان میں حد سے بڑھ کر ضد مت کرو اور عادت کے سلسلہ کو توڑ کر اور ایک نئے انسان بن کر تقویٰ کی راہوں میں قدم رکھو تاتم پر رحم ہو اور خداتعالیٰ تمہارے گناہوں کو بخش دیوے۔ سو ڈرو اور باز آجاؤ۔ کیا تم میں ایک بھی رشیدنہیں۔ وَاِنْ لَّمْ تَنْتَھُوْا فَسَوْفَ یَأتِی اللّٰہُ بِنُصْرَۃٍ مِنْ عِنْدِہٖ وَیَنْصُرُ عَبْدَہٗ وَیُمَزِّقُ اَعْدَآءَ ہٗ وَلَا تَضُرُّوْنَہٗ شَیْئًا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 54-55)
اگر تم باز نہ آئے تو پس عنقریب اللہ تعالیٰ اپنی خاص نصرت کے ساتھ آئے گا اور اپنے بندے کی مدد کرے گا اور اُس کا دشمن پیسا جائے گا اور اُ سے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکو گے۔
اللہ کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مخالفین کو کچھ عقل آئے اور اس پیغام کو سمجھنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمام احمدیوں کو ہر جگہ ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اپنے آگے جھکنے کی اور دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے۔
اب نمازوں کے بعد مَیں آج بھی چند جنازے پڑھاؤں گا جس میں سے پہلا جنازہ محترمہ مریم خاتون صاحبہ اہلیہ مکرم محمد ذکری صاحب آف چوبارہ ضلع لیہ کا ہے۔ 5؍دسمبر2011ء کو شام تقریباً پانچ بجے جماعت احمدیہ چوبارہ ضلع لیہ میں چند غیر احمدی افرادنے ایک احمدی فیملی پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں موقع پر ہی آپ کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یعنی یہ شہید خاتون ہیں۔ آپ کا گھر مربی ہاؤس سے ملحقہ ہے۔ اس رقبے میں دیگر چند احمدی گھرانے بھی آباد ہیں۔ چند سال قبل اسی جگہ مخالف فریق نے مشترکہ کھاتے سے زمین خریدی اور بعد میں محکمہ مال سے ساز باز کر کے مرحومہ کے خاندان کا انتقالِ اراضی منسوخ کروا دیا۔ مقدمہ عدالت میں زیرِ سماعت بھی ہے۔ پہلے بھی مخالف فریق نے قبضہ کرنے کے لئے حملہ کیا تھالیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ واقع کے روز اس گروہ نے رقبے پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو مزاحمت کرنے پر بظاہر اینٹ مار کر جبکہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق کسی کے دستے کے وار سے یہ شدید زخمی ہو گئیں اور موقع پر ہی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ احمدیت کی وجہ سے ساری مخالفت تھی۔ ان کے خاوند کی دو بہنیں بھی زخمی ہوئی ہیں لیکن اُن کی حالت اب تسلی بخش ہے۔ مرحومہ کی عمر 25، 26سال تھی۔ یہ پورا خاندان پیشے کے لحاظ سے زمیندار ہے۔ ان کے خسر نے 1992ء میں جب یہ رقبہ خریدا تو اُس میں سے احمدیہ مسجد کے قریب واقعہ ایک کنال کا پلاٹ جماعت کو پیش کیا جس پر اب مربی ہاؤس تعمیر ہو چکا ہے۔ مخالف فریق کافی عرصے سے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور ہائی کورٹ تک یہ مقدمہ گیا ہوا تھا۔ ہائی کورٹ میں بھی ناکامی ہوئی اس کے بعد انہوں نے ریکارڈ تبدیل کرنے کی کوشش کی اور وہاں جس طرح کہ پاکستان میں طریق ہے مل کر ساز باز کر کے اُس کے ریکارڈ کو اپنے نام تبدیل بھی کروا لیا۔ لیکن بہر حال مقدمہ ابھی چل رہا تھا۔ کیونکہ کافی ٹینشن تھی۔ اس لئے جب ڈی پی او کو جماعت نے رپورٹ کی تو ڈی پی او نے صاف لفظوں میں معذرت کر لی کہ مَیں مخالف فریق کو ناراض نہیں کر سکتا۔ بہر حال مریم خاتون صاحبہ کی وفات کے بعد قریبی جماعت شیر گڑھ ضلع لیہ میں ان کی تدفین کی گئی ہے۔ اور جو ملزم تھا، جس نے ان کو شہیدکیا، وہ پولیس کی مدد سے ہی فرار ہو چکا ہے۔ ان کے پسماندگان میں خاوند کے علاوہ تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ بڑے بیٹے کی عمر نو سال ہے، اور بچی ماریہ پروین ساڑھے چھ سال کی ہے اور پھر بچہ ساڑھے پانچ سال کا ہے۔
دوسرا جنازہ مکرمہ عظیم النساء صاحبہ اہلیہ مکرم بہادر خان صاحب درویش مرحوم قادیان کاہے۔ یہ تین دسمبر 2011ء کو وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ مونگھیر صوبہ بہار کی رہنے والی تھیں اور حضرت میاں شادی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہو تھیں۔ بچپن سے ہی قادیان جانے کے لئے دعا کرتی تھیں اور اس کے لئے آپ نے ایک لمبی نظم بھی کہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا سنی اور شادی کے بعد 1952ء میں قادیان آ گئیں۔ نظم کا ایک شعر اس طرح سے ہے ؎
دعائے آرزو یا ربّ عاجزہ عظیم النساء کی
دکھا دے جلد بستی قادیان دارالاماں کی
آپ نے خاوند کے ساتھ زمانہ درویشی ہر قسم کے نامساعد اور کٹھن حالات کے باوجودنہایت وفا اور اخلاص کے ساتھ گزارا۔ اور میاں کی وفات کے بعد 29سال کا طویل عرصہ نہایت صبر اور شکر کے ساتھ بیوگی کی حالت میں قادیان کی مقدس سرزمین میں مقیم رہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کا خاص خیال رکھتی تھیں۔ اُنہیں بڑے عمدہ رنگ میں قرآنِ کریم پڑھایا کرتی تھیں۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور تین بیٹے یادگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔
تیسرا جنازہ ہے مکرم سلیمان احمد صاحب مرحوم مبلغ انڈونیشیا۔ ان کی وفات یکم دسمبر 2011ء کو ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ دل کی بیماری کی وجہ سے وفات ہوئی۔ 1953ء کی ان کی پیدائش تھی۔ 1978ء میں انہوں نے بیعت کی۔ 1979ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں فصل الخاص میں داخل ہوئے۔ جولائی 1985ء میں مبشر کا امتحان پاس کیا اور واپس انڈونیشیا آ گئے۔ ان کا تقرر بوگور (Bogor) میں ہوا اور بعد میں ان کو نَو (9) مختلف مقامات پر خدمت کی توفیق ملی۔ وفات کے وقت جماعت بانڈو نگ (Bandung) میں متعین تھے۔ ان کی اہلیہ کے علاوہ ان کے تین بچے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔
چوتھا جنازہ الحاج ڈی ایم کالوں صاحب سیرالیون کاہے۔ یہ 26؍نومبر2011ء کو مختصر علالت کے بعد وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ نے غربت میں آنکھ کھولی تھی اور کہا کرتے تھے کہ پندرہ سال کی عمر تک وہ ننگے پاؤں پھرا کرتے تھے مگر علم سے محبت نے اُن کی کامیابیوں کے قدم چومے اور نوجوانی میں سیرالیون پروڈیوس مارکیٹنگ بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہو گئے۔ خود پڑھے، تعلیم حاصل کی۔ بڑے خوش اخلاق، ملنسار اور مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے مخلص انسان تھے۔ ان کے پسماندگان میں دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں اور آپ کی اہلیہ حاجیہ سلمیٰ کالوں صاحبہ سیرالیون میں بطور نیشنل صدر لجنہ اماء اللہ خدمت کی توفیق پارہی ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے ٹومی کالوں صاحب ہیں جو یہاں رہتے ہیں، سابق صدر خدام الاحمدیہ بھی رہ چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی اولادوں میں بھی جاری رکھے۔ ان سب کی نمازِ جنازہ انشاء اللہ نماز کے بعد ادا ہو گی۔