خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 16؍ دسمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

ہمارے بچے عموماً ماشاء اللہ بڑی چھوٹی عمر میں قرآنِ کریم ختم کر لیتے ہیں۔ جن کی ماؤں کو زیادہ فکر ہوتی ہے کہ ہماری اولاد جلد قرآنِ کریم ختم کرے وہ اُن پر بڑی محنت کرتی ہیں۔ یہاں بھی اور مختلف ملکوں میں جب مَیں جاتا ہوں تو وہاں بھی بچوں اور والدین کو شوق ہوتا ہے کہ میرے سامنے بچوں سے قرآنِ کریم پڑھوا کر اُن کی آمین کی تقریب کروائیں۔ لیکن مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک مرتبہ قرآنِ کریم ختم کروانے کے بعد پھر اُن کی دہرائی اور بچے کو مستقل قرآنِ کریم پڑھنے کی عادت ڈالنے کے لئے عموماً اتنا تردّد اور کوشش نہیں ہوتی جتنی ایک مرتبہ قرآنِ کریم ختم کروانے کے لئے کی جاتی ہے۔ کیونکہ مَیں جب پوچھتا ہوں کہ تلاوت باقاعدہ کرتے ہو یا نہیں (بعضوں کے پڑھنے کے انداز سے پتہ چل جاتا ہے) تو عموماً تلاوت میں باقاعدگی کا مثبت جواب نہیں ہوتا۔ حالانکہ ماؤں اور باپوں کو قرآنِ کریم ختم کروانے کے بعد بھی اس بات کی نگرانی کرنے چاہئے اور فکر کرنی چاہئے کہ بچے پھر باقاعدہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کی عادت ڈالیں۔ پس اپنی فکریں صرف ایک دفعہ قرآنِ کریم ختم کروانے تک ہی محدودنہ رکھیں بلکہ بعد میں بھی مستقل مزاجی سے اس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔ یقینا پہلی مرتبہ قرآنِ کریم پڑھانا اور ختم کروانا ایک بہت اہم کام ہے۔ بعض مائیں چار پانچ سال کے بچوں کو قرآنِ کریم ختم کروا دیتی ہیں اور یقینا یہ بڑا محنت طلب کام ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا کہ مستقل مزاجی سے اسے جاری رکھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ گزشتہ دنوں ایک خاتون کا مجھے خط ملا جس میں میری والدہ کا ذکر تھا اور لکھا کہ ایک بات جو انہوں نے مجھے کہی اور آج تک میں اس پر اُن کی شکر گزار ہوں کہ ایک دفعہ میں اپنی بچی یا بچے کو لے کر گئی جس نے قرآنِ کریم ختم کیا تھا تو مَیں نے بڑے فخر سے انہیں بتایا کہ اس بچے نے چھ سال کی عمر میں قرآنِ کریم ختم کر لیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ چھ سال یا پانچ سال میں قرآنِ کریم ختم کرنا تو اتنے کمال کی بات نہیں ہے۔ مجھے تم یہ بتاؤ کہ تم نے بچے کے دل میں قرآنِ کریم کی محبت کتنی پیدا کی ہے؟ تو حقیقت یہی ہے کہ قرآنِ کریم پڑھانے کے ساتھ ہی قرآنِ کریم کی محبت پیدا کرنی بھی ضروری ہے۔ اور تبھی بچے کو خود پڑھنے کا شوق بھی ہو گا۔ اور جس زمانے اور دَور سے ہم گزر رہے ہیں جہاں بچوں کے لئے متفرق دلچسپیاں ہیں۔ ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے، دوسری کتابیں ہیں۔ ان دلچسپیوں میں بچے کا خود صبح باقاعدہ تلاوت کرنا اور پڑھنا اُسے قرآنِ کریم کی اہمیت کا احساس دلائے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس زمانے میں جب مختلف قسم کی دلچسپیوں کے سامان ہیں، مختلف قسم کی دلچسپی کی کتابیں موجود ہیں، مختلف قسم کے علوم ظاہر ہو رہے ہیں، اس دور میں قرآنِ کریم پڑھنے کی اہمیت اور زیادہ ہو جاتی ہے اور ہمیں اس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ پس اس کو پڑھنے کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بچوں میں قرآنِ کریم کی محبت اُس وقت پیدا ہو گی جب والدین قرآنِ کریم کی تلاوت اور اُس پر غور اور تدبر کی عادت بھی ڈالنے والے ہوں گے۔ اُس کے پڑھنے کی طرف زیادہ توجہ دیں گے۔ جب ہر گھر سے صبح کی نماز کے بعد یا آجکل کیونکہ سردیوں میں نماز لیٹ ہوتی ہے، اگر کسی نے کام پر جلدی نکلنا ہے تو نماز سے پہلے تلاوت باقاعدہ ہو گی تو وہ گھر قرآنِ کریم کی وجہ سے برکتوں سے بھر جائے گا اور بچوں کو بھی اس طرف توجہ رہے گی۔ بچے بھی اُن نیکیوں پر چلنے والے ہوں گے جو ایک مومن میں ہونی چاہئیں۔ اور جوں جوں بڑے ہوتے جائیں گے قرآنِ کریم کی عظمت اور محبت بھی دلوں میں بڑھتی جائے گی۔ اور پھر ہم میں سے ہر ایک مشاہدہ کرے گا کہ اگر ہم غور کرتے ہوئے باقاعدہ قرآنِ کریم پڑھ رہے ہوں گے تو جہاں گھروں میں میاں بیوی میں خدا تعالیٰ کی خاطر محبت اور پیار کے نظارے نظر آ رہے ہوں گے، وہاں بچے بھی جماعت کا ایک مفید وجود بن رہے ہوں گے۔ اُن کی تربیت بھی اعلیٰ رنگ میں ہو رہی ہو گی۔ اور یہی چیز ہے جو ایک احمدی کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے پوری توجہ اور کوشش سے کرنی چاہئے۔

اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کو ہم میں پید اکرنے کے لئے بہت کوشش فرمائی ہے اور آپؑ کے آنے کا مقصد بھی یہی تھاکہ قرآنِ کریم کو دنیا میں ہر چیز سے اعلیٰ مقام دینے والے بنیں اور اسے وہ عزت دیں جس کے مقابلے میں کوئی اور چیز نہ ہو۔ قرآنِ کریم کی عزت کو ہم صرف اس حد تک ہی نہ رکھیں جو عموماً غیر از جماعت کرتے ہیں کہ خوبصورت کپڑوں میں رکھ لیا، خوبصورت شیلف میں رکھ لیا، خوبصورت ڈبوں میں رکھ لیا۔ قرآنِ کریم کی اصل عزت یہ ہے اور اس کی محبت یہ ہے کہ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کی جائے۔ اُس کے اوامر اور نواہی کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ جن چیزوں سے خدا تعالیٰ نے روکا ہے اُن سے انسان رُک جائے اور جن کے کرنے کا حکم ہے اُن کو انجام دینے کے لئے اپنی تمام تر قوتوں اور استعدادوں کو استعمال کرے۔ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اس کی تلاوت کی جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے بیشمار جگہ اپنی کتب میں، اپنی مجالس میں، ملفوظات میں قرآنِ کریم کی اہمیت بیان فرمائی ہے اور ان باتوں کا ذکر فرمایا ہے۔ ان توقعات کا ذکر فرمایا ہے جوایک احمدی سے اور ایک بیعت کنندہ سے آپ کو ہیں۔ پس ہمیں اپنے گھروں کو تلاوتِ قرآنِ کریم سے بھرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ تلاوت کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی پڑھیں تا کہ اُس کے احکام سمجھ میں آئیں۔ گھروں میں بچوں کے سامنے قرآنِ کریم کی تلاوت کے ساتھ اس کے سمجھنے اور اس کے ترجمے کے تذکرے اور کوشش بھی ہو۔ صرف تلاوت کی عادت نہ ڈالی جائے بلکہ ایسی مجلسیں ہوں جہاں قرآنِ کریم سے چھوٹی چھوٹی باتیں نکال کر بچوں کے سامنے بیان کی جائیں تاکہ اُن میں بھی شوق پیدا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نماز اور قرآن کے ترجمے کو سمجھنا اور پڑھنا بڑا ضروری قرار دیا ہے۔ لیکن صرف ترجمہ پڑھنا اور اصل عربی متن یا عبارت نہ پڑھنا اس کی اجازت نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ:

’’ہم ہرگز فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کا صرف ترجمہ پڑھا جاوے۔ اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے (کہ صرف ترجمہ پڑھنا کافی ہے) وہ چاہتا ہے کہ قرآن دنیا میں نہ رہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 265۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہی قرآنِ کریم کا اعجاز ہے اور یہ ایک بہت بڑا اعجاز ہے کہ اب تک اپنی اصلی حالت میں ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر: 10) کہ یقینا ہم نے ہی یہ ذکر اتارا ہے اور یقینا ہم اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘۔

اور یہ اعجاز جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ یہ اصلی عربی عبارت میں آج تک چلا آ رہا ہے اور شدید سے شدید معترضین اور مخالفینِ اسلام جو ہیں وہ بھی اعتراف کئے بغیر نہیں رہتے کہ قرآنِ کریم اپنی اصلی شکل میں اپنی اصلی حالت میں آج تک محفوظ ہے۔ اگر صرف ترجموں پر انحصار شروع ہو جائے تو ترجمے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو رہے ہیں۔ بلکہ جب ہم اپنا ترجمہ دنیا کے سامنے رکھتے ہیں تو وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ترجمہ بالکل مختلف ہے کیونکہ غیروں نے صحیح ترجمے نہیں کئے ہوئے۔ اسلام پر اعتراض کرنے والے ایک بہت بڑے پادری نے امریکہ میں قرآنِ کریم کے کچھ ترجموں پر (صرف ترجمے لئے تھے، عربی ٹیکسٹ نہیں لیا تھا، متن نہیں لیا تھا) اعتراض کر دیا کہ اسلام یہ کہتا ہے، اسلام یہ کہتا ہے اور قرآن یہ کہتا ہے۔ اُس کو جب ہم نے اپنی تفسیر بھجوائی تو اُس کا جواب بھی اُس نے دیا اور بڑا پیچھا کرنے کے بعد یہی جواب تھا کہ میں نے جو ترجمے کئے ہیں وہ بھی مسلمانوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ بہر حال یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جنہوں نے ہمیں ترجمے میں بھی عربی متن کے قریب تر کر دیا اور اُس کے صحیح معنی اور معارف سکھائے ہیں۔ یہاں ضمناً یہ بھی بتا دوں کہ گزشتہ دنوں احمدیت پر کسی اعتراض کرنے والے کا اعتراض نظر سے گزرا جس میں اُس نے کہا تھا کہ اگر مرزا صاحب نبی تھے تو پھر انہوں نے اپنی جماعت کو یہ کیوں کہا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی پیروی کرو۔ تو اس کا جواب تو آپ کی تحریر کی رو سے بہت جگہ آیا ہوا ہے۔ یہ قطعًاکبھی کہیں نہیں کہا گیا کہ پیروی کرو۔ لیکن قرآنِ کریم کے حوالے سے بات کرتا ہوں۔ یہ ایک حوالہ ہے۔ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں ذکر کیا کہ حنفی مذہب میں صرف ترجمہ پڑھنا کافی سمجھا گیا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا’’اگر یہ امام اعظم کا مذہب ہے تو پھر اُن کی خطا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 265۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

ان کی وہ بات غلط تھی۔ بیشک وہ امام ہیں انہوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے، بہت سارے مسائل اکٹھے کئے ہیں لیکن اگر انہوں نے یہ کہا ہے کہ صرف ترجمہ پڑھنا کافی ہے تو یہ غلط ہے۔

بہر حال اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی اصل حفاظت کرنے کا ذریعہ بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔ آپ نے اپنی جماعت کو قرآنِ کریم سمجھنے اور اس سے محبت کرنے کی بیشمار جگہ تلقین فرمائی ہے۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’قرآنِ شریف قانونِ آسمانی اور نجات کا ذریعہ ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 130۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

گو اس فقرہ کے سیاق و سباق میں ایک بحث کا ذکر چل رہا ہے جو آپ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قرآنِ شریف سے وفات ثابت کرنے کے لئے بیان فرما رہے ہیں لیکن یہ عمومی اصول بھی ہے کہ قرآنِ شریف قانونِ آسمانی ہے اور اس لحاظ سے نجات کا ذریعہ ہے۔ ہم اگر دیکھیں تو دنیاوی قانون بھی صرف قانون بن جانے سے فائدہ نہیں دیتا جبتک کہ اُسے لاگو نہ کیاجائے، اُس پر عمل درآمدنہ کروایا جائے۔ اسی طرح قرآنِ کریم کا قانون بھی اُس وقت فائدہ مند ہے اور نجات دلانے والا ہے جب اُس پر عمل کیا جائے۔ اگر اُس پر عمل نہیں ہو گا تو یہ نجات دلانے کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ صرف پڑھ لینے اور عمل نہ کرنے سے نجات نہیں ہو سکتی۔ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور انعامات کے ہم وارث نہیں بن سکتے۔ پس قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھنا اور اُس پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے۔

آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’یاد رکھو قرآنِ شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ ہے اور نجات کا ذریعہ ہے۔ یہ اُن لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآنِ شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ تو بہت دور پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفا بخش نسخہ ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ ان میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اُسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں، اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفّٰی اور شیریں اور خنک ہے اور اس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفا ہے۔ یہ علم اُس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اُس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے۔ اُسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمہ پر مُنہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اُس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظّ اُٹھاتا۔ مگر وہ باوجود علم کے اُس سے ویسا ہی دور ہے جیسا ایک بے خبر‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 140۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ ہمیں اس پیغام کو، ان درد سے بھرے الفاظ کو سمجھتے ہوئے قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ اسے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہماری بیعت کا حقیقی حق اسی صورت میں ادا ہو گا جب ہم قرآنِ کریم کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کریں گے اور قرآنِ کریم کی تعلیم یہ ہے، جیسا کہ پہلے بیان ہوا، کہ قرآنِ کریم میں بیان ہوئی ہوئی ہر برائی سے رُکنا اور اس میں بیان شدہ ہر نیکی کو اختیار کرنا اور اس کو اختیار کرنے کی بھر پور کوشش کرنا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’قرآنِ شریف صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ انسان ترکِ شر کر کے سمجھ لے کہ بس اب مَیں صاحبِ کمال ہو گیا، بلکہ وہ تو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات اور اخلاقِ فاضلہ سے متصف کرنا چاہتا ہے کہ اس سے ایسے اعمال و افعال سر زد ہوں جو بنی نوع کی بھلائی اور ہمدردی پر مشتمل ہوں اور اُن کا نتیجہ یہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 208۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس اگر ایک مومن کوقرآنِ کریم سے حقیقی محبت ہے تو وہ اس معیار پر خود بھی پہنچنے کی کوشش کرے گا اور کرتا ہے اور اپنے بچوں کو بھی وہاں تک لے جانے کی کوشش کرے گا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ شر اور برائی سے رکنا کوئی کمال نہیں۔ کسی بری حرکت سے رکنا، کسی شر سے رکنا یہ تو کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ ہمارا مطمحِ نظر نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمیں اپنے ٹارگٹ بڑے رکھنے چاہئیں اور اُس کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے کہ قرآنِ کریم میں بیان ہوئی ہوئی تمام قسم کی نیکیوں کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں۔ جب یہ کوشش ہر مرد، عورت اور بچے سے ہو رہی ہو گی تو ایک پاک معاشرے کا قیام ہو رہا ہو گا۔ اُس معاشرے کا قیام ہو گا جس کو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ آئے دن جو اسلام اور قرآنِ کریم پر اعتراض کرنے والے ہیں اُن کے منہ بھی بند ہوں گے۔

یہاں دو عورتوں کا آجکل بڑا شُہرہ ہے جو اسلامی قوانین پر اعتراض میں حد سے بڑھی ہوئی ہیں۔ مختلف جگہوں پر وہ لیکچر وغیرہ دیتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں خدام الاحمدیہ یوکے (UK) کی کوشش سے یو سی ایل (UCL) میں ایک مباحثہ ہوا۔ ان کے ساتھ ایک ڈیبیٹ (Debate) کی صورت پیدا ہوئی جو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے آرگنائز کی تھی۔ جس میں ان دو خواتین نے، جو اُن کا طریقہ کار ہے اپنی طرف سے اسلام پر اعتراضات کی بڑی بھر مار کی۔ لیکن ہمارے خدام جن میں سے ایک پاکستانی اور یجن (Origion) کے ہیں اور یہاں ہمارے یوکے (UK) کے جامعہ میں پڑھتے ہیں، جامعہ کے طالبعلم ہیں، اور دوسرے ایک انگریز نو احمدی۔ ان دونوں نے اُن کو ایسے مُسکت اور مدلّل جواب قرآنِ کریم سے اور قرآنِ شریف کی تعلیم کی رو سے دئیے۔ اسلام کی حقیقی تعلیم کی رو سے دئیے کہ وہ اُس وقت غصہ سے پیچ و تاب کھاتی رہیں بلکہ اُن کے حمایتیوں نے بھی اُن کی اس حالت پر جس طرح وہ اعتراض کر رہی تھیں بڑھ بڑھ کے افسوس کا اظہار کیا۔ اور یوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی نوجوانوں کے ذریعہ سے اسلام کی تعلیم کی فتح ہوئی۔

پس ہمیں قرآنِ کریم سمجھنے کی بہت زیادہ کوشش کرنی چاہئے، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، تبھی ہمارے اپنے گھر بھی جنت نظیر بنیں گے اور اپنے معاشرے اور ماحول میں بھی ہم تبلیغ کا حق ادا کر نے والے بن سکیں گے۔

قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے کا طریق سکھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’قرآنِ شریف تدبر و تفکّر و غور سے پڑھنا چاہئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْاٰن۔ یعنی بہت سے ایسے قرآنِ کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآنِ کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اُس پر عمل نہیں کرتا اُس پر قرآنِ مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآنِ کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر و غور سے پڑھنا چاہئے اور اس پر عمل کیا جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 157۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یہ صورت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب اس کی اہمیت کا اندازہ ہو، اس سے خاص تعلق ہو۔ پس یہ اہمیت اور خاص تعلق ہم نے اپنے دلوں میں قرآنِ کریم کے لئے پیدا کرنا ہے۔ بعض لوگوں کے اس بہانے اور یہ کہنے پر کہ قرآنِ شریف سمجھنا بہت مشکل ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’بعض نادان لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم قرآنِ شریف کو نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ (اس واسطے) ’’اس کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے کہ یہ بہت مشکل ہے۔ یہ اُن کی غلطی ہے۔ قرآنِ شریف نے اعتقادی مسائل کو ایسی فصاحت کے ساتھ سمجھایا ہے جو بے مثل اور بے مانند ہے اور اس کے دلائل دلوں پر اثر ڈالتے ہیں۔ یہ قرآن ایسا بلیغ اور فصیح ہے کہ عرب کے بادیہ نشینوں کو جو بالکل اَن پڑھ تھے سمجھا دیا تھا تو پھر اب کیونکر اس کو نہیں سمجھ سکتے‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 177۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اس زمانے میں تو ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کرتے ہوئے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے جنہوں نے ہمیں ظاہری احکام ہی نہیں بتائے بلکہ قرآنِ کریم کے گہرے حقائق و معارف ہمیں کھول کر بیان کر دئیے۔ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) کا فیض ہمیں پہنچایا ہے۔ پس اس خزانے سے ہمیں جواہرات جمع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دئیے۔ اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جبتک ہم اس سے حقیقی محبت کرنے والے نہیں بنیں گے۔ جماعت سے باہر مسلمانوں میں، دنیا میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی قراءت بڑی اچھی ہے، انعامات حاصل کرتے ہیں، بڑی بڑی ریکارڈنگ کی کیسٹس اُن کی دنیا میں چلتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اچھی قراءت کرنے والوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جن کو قرآنِ کریم کے معانی اور مطالب کا نہیں پتہ۔ بلکہ بڑے بڑے علماء کو نہیں پتہ لگتا تبھی تو اسلام میں بہت عرصہ آیات کے ناسخ و منسوخ کا ایک مسئلہ چلتا رہا ہے اور پھر ابھی بھی بعض آیتوں کی ان کو سمجھ نہیں آتی جس میں ایک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ بھی ہے۔ بہرحال یہ ان کے معانی و مطالب سے نا آشنا ہیں۔ اس بارے میں بڑی انذار کرنے والی ایک حدیث ہے جو حضرت عباسؓ بن عبد المطلب روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والے ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو ڈینگیں ماریں گے کہ ہم سے بڑا قاری کون ہے؟ ہم سے بڑا عالم کون ہے؟ پھر آپؐ نے صحابہؓ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں ایسے لوگوں میں کوئی بھلائی والی بات دکھائی دیتی ہے؟ صحابہؓ نے عرض کیا: ہرگز نہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ یہ لوگ تم میں سے اور اسی اُمّت میں سے ہی ہوں گے لیکن وہ دوزخ کی آگ کا ایندھن ہوں گے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد کتاب العلم باب کراھیۃ الدعوی حدیث 876 جلدنمبر 1 صفحہ 251-252۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء۔ مسند البزار۔ مسند العباس بن عبدالمطلب۔ جلد 2 صفحہ 218)

پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی اور اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی اور دوزخ کی آگ سے بچانے والی اصل چیز عاجزی سے قرآنِ کریم کی تعلیم کو سمجھ کر اُس پر عمل کرنا ہے۔ اس کو پیشہ بنانا نہیں ہے بلکہ اس سے محبت کرنا ہے۔ اور آج ہم میں سے ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ اس پر توجہ دے۔ اس کے حصول کی کوشش کرے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام’کشتی ٔ نوح‘میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’تم ہوشیار رہو اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اُٹھاؤ۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔ حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظلّ تھے۔ سو تم قرآن کو تدبّر سے پڑھو اور اُس سے بہت ہی پیار کرو۔ ایسا پیار کہ تم نے کسی نے نہ کیا ہو۔ کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الُقُرْاٰنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں۔ یہی بات سچ ہے۔ افسوس اُن لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اُس پر مقدم رکھتے ہیں۔ تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن میں ہے۔ کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی۔ تمہارے ایمان کا مصدّق یا مکذّب قیامت کے دن قرآن ہے۔ اور بجز قرآن کے آسمان کے نیچے اور کوئی کتاب نہیں جو بلا واسطہ قرآن تمہیں ہدایت دے سکے۔ خدا نے تم پر بہت احسان کیا ہے جو قرآن جیسی کتاب تمہیں عنایت کی۔ مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ کتاب جو تم پر پڑھی گئی اگر عیسائیوں پر پڑھی جاتی تو وہ ہلاک نہ ہوتے۔ اور یہ نعمت اور ہدایت جو تمہیں دی گئی اگر بجائے توریت کے یہودیوں کو دی جاتی تو بعض فرقے اُن کے قیامت سے منکر نہ ہوتے۔ پس اِس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے۔ یہ بڑی دولت ہے۔ اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی‘‘ (گندے لوتھڑے کی طرح تھی) ’’قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26-27)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے۔ جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عز ّت پائیں گے۔ جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا۔ نوع انسان کیلئے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی۔ بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کیلئے زندہ ہے اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا‘‘ (یعنی اس کا شریعت اور روحانیت کا فیض جو ہے وہ قیامت تک جاری ہے)’’اور آخر کار اُس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دُنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کیلئے ضروری تھا۔ کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دُنیا ختم نہ ہو جب تک محمدی سلسلہ کیلئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا جیسا کہ موسوی سلسلہ کیلئے دیا گیا تھا۔ اسی کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 6)‘‘۔ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13-14)

اللہ کرے کہ ہم اور ہماری اولادیں اور آئندہ تا قیامت جو بھی آنے والی نسلیں ہوں، جنہوں نے مسیح محمدی کو مانا ہے، وہ قرآنِ کریم سے حقیقی رنگ میں محبت رکھتے ہوئے اس کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہوں، اور اس کی برکات سے ہر دم فیض پاتے چلے جانے والے ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں