خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 30؍ دسمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’صحابہؓ کی جماعت اتنی ہی نہ سمجھو جو پہلے گزر چکے بلکہ ایک اور گروہ بھی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ذکر کیا ہے۔ وہ بھی صحابہؓ ہی میں داخل ہے جو احمدؐ کے بروز کے ساتھ ہوں گے‘‘۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام احمد بھی ہے اور آپ کا بروز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔) آپ فرماتے ہیں۔ ’’چنانچہ فرمایا۔ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ: 4) یعنی صحابہؓ کی جماعت کو اسی قدر نہ سمجھو بلکہ مسیح موعودؑ کے زمانہ کی جماعت بھی صحابہؓ ہی ہو گی‘‘۔ (یعنی وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا۔ آپ کی بیعت کی۔ آپ کی صحبت سے مستفیض ہوئے۔ پھر اپنے ایمان و ایقان میں ترقی کی۔ آپ نے فرمایاکہ یہ جماعت بھی صحابہ کی ہو گی)۔ آپ مزید فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت کے متعلق مفسروں نے مان لیا ہے کہ یہ مسیح موعودؑ کی جماعت ہے۔ مِنْھُمْ کے لفظ سے پایا جاتا ہے کہ باطنی توجہ اور استفاضہ صحابہؓ ہی کی طرح ہو گا‘‘۔ (ملفوظات جلد1صفحہ431 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فیض پایا یقینا اُن کا ایک مقام ہے اور ان میں سے ہر ایک ہمارے لئے ایک نمونہ ہے جن کی نیکی، تقویٰ اور پاک تبدیلیوں کا معیار یقینا قابلِ تقلید ہے۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان صحابہ کی زندگی کے بعض واقعات ہم تک پہنچے ہیں۔ پھر ان صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجالس کے واقعات اور کیفیات بھی ہم تک پہنچی ہیں۔ صحابہ کی روایات کا مَیں وقتاً فوقتاً ذکر کرتا رہتا ہوں۔ آج بھی مَیں چند ایسے واقعات یا روایات پیش کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تربیت کی وجہ سے، اُس نور کی وجہ سے جو آپؑ نے اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا، اللہ تعالیٰ نے آپ کے صحابہ کی ایسی کایا پلٹی کہ ہر ایک، ایک عجیب شان رکھنے والا بن گیا۔ چاہے وہ غریب تھا یا امیر تھا، پڑھا لکھا تھا یا اَن پڑھ تھا، سب کے سب ہمیں ایک غیر معمولی رنگ میں رنگین نظر آتے ہیں۔ توکّل ہے تو وہ اپنی ایک شان رکھتا ہے۔ خدمتِ دین کا جذبہ ہے تو وہ بے لوث اور عجیب شان والا ہے۔ قرآنِ کریم سے تعلق ہے تو اُس میں بھی گہرائی ہے، ایک محبت ہے، ایک پیار ہے۔ اور پھر خدا تعالیٰ کا خود اُن کو قرآن سکھانا اور اُن کے دل و دماغ کو وہ عرفان عطا کرنا جو اُن کے خدا تعالیٰ سے خاص تعلق کی نشاندہی کرتا ہے یہ بھی اُن کا خاصہ ہے۔ اور پھر اسی طرح دوسرے معاملات ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اُن سے ہر معاملے میں ایسا سلوک ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب پانے والوں سے ہی خدا تعالیٰ روا رکھتا ہے۔ پھر ان روایتوں میں ہمیں اپنے صحابہ کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ان کو مسائل کے حل کا طریق سکھانا۔ یہ بتانا کہ فوری طور پر مختصر فقروں میں کس طرح جواب دینا ہے۔ مختصر فقروں میں ایسی تربیت جس سے مقابل کا دلائل و براہین سے مقابلہ کر سکیں۔ پس بہت ہی خوش قسمت تھے وہ لوگ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چودہ سو سال بعد اس غلامِ صادق اور عاشقِ صادق کا زمانہ پایا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا مَیں رجسٹر روایاتِ صحابہ سے بعض روایتیں آج بھی پیش کروں گا۔

حضرت مولوی صوفی عطا محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اخبار میں یہ پڑھا کہ حضرت اقدسؑ جہلم تشریف لا رہے ہیں مگر مجھے تو جہلم جانے کی بھی اجازت نہ مل سکتی تھی۔ ملازم تھے۔ مگرمَیں بہت بیقرار تھا۔ گھر والوں کو میں نے کہا کہ کل اتوار ہے اور حضرت اقدسؑ جہلم تشریف لائے ہیں۔ آپ کسی کو بتائیں نہیں۔ مَیں جاتا ہوں۔ وقت گاڑی کا بالکل تنگ تھا اور تین میل پر سٹیشن تھا۔ رستہ پہاڑی (اور) رات کا وقت۔ دن کو بھی لوگوں کو اس طرف پر چلنا مشکل تھا (لیکن ایک لگن تھی رات کے وقت ہی آپ نکل پڑے)۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے خدا پر توکل کیا اور چل پڑا۔ (اور) اتفاق سے کوئی بتّی تمام راستہ میرے آگے چلتی گئی۔ شاید کوئی اور آدمی بھی کہیں جا رہا ہوگا۔ (اور) خدا خدا کر کے پہاڑی رستہ دوڑتے ہوئے طَے کیا۔ (فرماتے ہیں کہ کوئی بتی آگے چل رہی تھی شاید کوئی انسان جا رہا ہو لیکن اللہ پر توکل کر کے چلے تھے، مسیح و مہدی کو ملنے کے لئے جا رہے تھے تو یقینا اللہ تعالیٰ نے ہی انتظام فرمایا تھا کہ آگے آگے ایک بتی چلتی گئی اور دوڑتے ہوئے وہ رستہ طے کر لیا)۔ کہتے ہیں جب (مَیں ) اسٹیشن پر پہنچا تو گاڑی بالکل تیار تھی۔ ٹکٹ لیا اور جہلم پہنچا۔ حضور کی زیارت سے مشرف ہوا۔ وہاں ایک سیٹھ احمد دین تھے۔ انہوں نے کہا کہ لطف تب ہے کہ آپ آج کوئی نظم سنائیں۔ انہوں نے جب بیعت کی ہے تو اس وقت ایک نظم انہوں نے لکھی تھی جس میں دعائیہ الفاظ تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں انہوں نے بیعت کے خط کے ساتھ پیش کی تھی۔ وہ ایک لمبی نظم تھی، تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ آپ وہ نظم سنائیں۔ تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے اگر حضرت صاحب اجازت دیں تو مَیں سنا سکتا ہوں۔ حضرت اقدس نے اجازت دے دی۔ کہتے ہیں مَیں فوراً کھڑا ہوا اور پورے جوش سے نظم سنائی اور اس نظم کا حاضرین پر ایسا اثر ہوا کہ کسی شخص نے کہا کہ آپ یہ نظم دے دیں تو مَیں نے کہا کہ مَیں نے تو زبانی پڑھی ہے۔ نظم سنانے کے بعد حضور نے جو وظیفہ بتایا وہ بالکل خط والا وظیفہ تھا (جب انہوں نے بیعت کا خط لکھا اور یہ نظم لکھی تو اُس میں ساتھ یہ بھی خط میں لکھا کہ حضور مجھے کوئی وظیفہ بتائیں جومَیں کِیا کروں، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُن کو ایک وظیفہ لکھ کے دیا۔ کہتے ہیں جب مَیں نے زبانی پوچھا تو تب بھی وہی وظیفہ تھا۔ ) مَیں حیران ہوا کہ حضور کا حافظہ کتنا تیز ہے کہ جو وظیفہ لکھنے کے لئے ارشاد فرمایا وہی زبانی بھی فرمایا‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد11صفحہ209-210 روایت حضرت مولوی صوفی عطامحمد صاحبؓ)

اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو وظیفہ یہ لکھا تھا اور وہاں زبانی بھی فرمایا کہ وظیفے کا آپ پوچھ رہے ہیں تو کسی اور وظیفے کی ضرورت نہیں ہے۔ درود شریف کثرت سے پڑھا کریں۔ الحمد شریف کثرت سے پڑھا کریں۔ استغفار کثرت سے کیا کریں اور قرآنِ شریف کا گہری نظر سے مطالعہ کریں اور پڑھیں اور باقاعدہ تلاوت کریں۔ یہی وظیفہ ہے جو کامیابیوں کا راز ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد11صفحہ209-210 روایت حضرت مولوی صوفی عطامحمد صاحبؓ)

بہت سے لوگ مجھے بھی خط لکھتے رہتے ہیں۔ اُن کو اکثر میں اسی رہنمائی کی وجہ سے عمومًا یہ بتاتا رہتا ہوں اور ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی لکھا ہے کسی کو کہ لَاحَوْل بھی پڑھا کریں۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیّ الْعَظِیْم۔ یہ دعا بھی پڑھنی چاہئے۔ (مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 291مکتوب بنام حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ مکتوب نمبر80مطبوعہ ربوہ)

تو یہی ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتے ہیں۔ پھر ایک روایت ہے حضرت خلیفۃ نورالدین صاحب سکنہ جموں کی۔ یہ خلیفہ نورالدین صاحب جمونی تھے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا نام ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اَور صحابی تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ جموں سے پیدل براہ گجرات کشمیر گیا۔ (گجرات کے راستے کشمیر گیا) راستے میں گجرات کے قریب ایک جنگل میں نماز پڑھ کر اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْنِِ والی دعا نہایت زاری سے پڑھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری روزی کا سامان کچھ ایسا کر دیا کہ مجھے کبھی تنگی نہیں ہوئی اور باوجود کوئی خاص کاروبار نہ کرنے کے غیب سے ہزاروں روپے میرے پاس آئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ68روایت حضرت خلیفہ نورالدین صاحب جمونیؓ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد آپ کی قوتِ قدسی سے یہ ایسا انقلاب ان لوگوں میں پیدا ہوا کہ دعائیں کرتے تھے تو دعاؤں کی قبولیت بھی اللہ تعالیٰ حیرت انگیز طور پر دکھاتا تھا۔ اس حالت میں کہ مَیں کبھی کسی سے نہ مانگوں، کبھی مجھے ہم و غم نہ ہو، دعا کی تو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی مجھے مالی تنگی نہیں ہوئی۔

پھر میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ مولوی صاحب متوکّل انسان تھے۔ بیان کیا کرتے تھے کہ ہم کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے خدا تعالیٰ خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔ (عجیب توکّل ہے) ہمیں ضرورت نہیں ہوتی کہ کسی سے کہیں۔ (یہ کبھی نہیں ہوا کہ کسی سے کچھ کہیں ) کہا کرتے تھے کہ مجھے 1918-19ء میں انجمن نے ملازم رکھا۔ بیس پچیس روپے دینے مقرر کئے۔ (انجمن کا جو الاؤنس مقرر ہوا وہ اس وقت بیس پچیس روپے تھا) ان دنوں غلہ بہت گراں تھا۔ (یعنی گندم وغیرہ جو تھی بہت مہنگی ہو گئی تھی۔ ) خانصاحب منشی فرزند علی خان صاحب ناظر بیت المال فیروز پور میں تھے۔ والد صاحب اُن کے ماتحت تھے۔ ایک دن یہ کہہ بیٹھے (یعنی فرزند علی خانصاحب نے مولوی جلال الدین کو کہا) کہ آپ کو تنخواہ ملتی ہے، اس لئے آپ تندہی سے کام کرتے ہیں۔ (بہت محنت سے کام کرتے ہیں تنخواہ کی وجہ سے) والد صاحب کہا کرتے تھے کہ یہ بات مجھے اچھی نہ لگی اور مَیں نے کہہ دیا کہ مَیں نے کیا آپ سے تنخواہ مانگی تھی؟ (مَیں نے تو وقف کیا تھا، دین کی خدمت کے لئے پیش کیا تھا۔ جو الاؤنس مقرر کیا ہے وہ تو خود جماعت نے کیا ہے۔ مَیں نے تو نہیں مانگا، میرا تو کوئی مطالبہ نہیں۔ کہنے لگے مَیں نے ناظر بیت المال کو کہا کہ مَیں یہ الاؤنس) اب نہیں لوں گا۔ خانصاحب فرمانے لگے (ناظر بیت المال تھے) کہ کام پہلے کی طرح کرو گے یا اپنی مرضی سے کرو گے۔ یعنی تنخواہ تو نہیں لو گے لیکن کام بھی اُسی طرح کرو گے کہ نہیں جس طرح پہلے محنت سے کرتے تھے تو مولوی جلال الدین صاحب نے فرمایا کہ پہلے سے بھی زیادہ تندہی سے اور کامل اطاعت سے کام کروں گا۔ محنت بھی پہلے سے زیادہ کروں گا اور پوری اطاعت کے ساتھ کام کروں گا۔ کام اور اطاعت کا تنخواہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ملے نہ ملے مَیں نے تو دین کی خدمت کرنی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ بات کہہ کر مَیں اپنے تبلیغی دورے پر چلا گیا۔ پیدل جا رہا تھا (سواریاں تو اُس وقت ہوتی نہیں تھیں۔ عموماً مبلغین تبلیغی دورے پر جاتے تھے تو پیدل جایا کرتے تھے) کہ رستے میں یہی خیالات آنے شروع ہو گئے کہ ان روپوں سے وقت کٹ جاتا تھا۔ (جو الاؤنس ملتا تھا اُس سے کچھ نہ کچھ ضروریات پوری ہو جاتی تھیں ) آجکل تنگی ہے۔ (گندم وغیرہ جو ہے وہ بھی مہنگی ہے تو) اب کس طرح وقت کٹے گا۔ (یہ خیالات آ رہے تھے۔ پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان خیالات کے آنے بعد پھر اُن سے کیسا سلوک فرمایا۔ کہتے ہیں کہ) والد صاحب بیان کرتے تھے کہ میں انہی خیالات میں جا رہا تھا کہ ناگہاں ایک گرج کی سی آواز آئی۔ (ایک خوفناک گرج کی آواز آئی) جس سے میرا دل دہل گیا۔ (اور آواز کیا تھی؟ اُس زور دار آواز میں ایک پیغام آیا کہ) آگے اتنی مدت تم کو کوئی تنخواہ دیتا آیا ہے۔ کیا تنخواہ لے کر تم اتنے بڑے ہوئے ہویعنی اتنا عرصہ گزر گیا تم تنخواہ میں پلے بڑھے ہو، یہاں تک اس عمر تک پہنچے ہو؟ کہتے ہیں ) اس آواز اور زجر کامیرے کان میں پڑنا ہی تھا کہ میرے تمام ہم و غم کافور ہو گئے اور مَیں نے نہایت ہی عاجزی سے عرض کی کہ یا باری تعالیٰ مجھ کو ان کی تنخواہوں کی کیا ضرورت ہے، تیرے مقابلے میں یہ کیا ہستی رکھتے ہیں۔ اس کے بعد میرا وقت آگے سے بھی اچھا گزرنے لگا۔ (کہتے ہیں اُس کے بعد پھر ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح سنبھالا کہ پہلے سے بھی زیادہ اچھے حالات ہو گئے۔ کہتے ہیں ) مولوی صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ خانصاحب میرے دیرینہ دوست تھے۔ یہ لفظ ویسے (ہی) اُن کی زبان سے نکل گئے (مذاق میں ) جو کہ بعد میں تنخواہ والے شرک کو توڑنے کا باعث بنے۔ (اس وجہ سے یہ شرک بھی میرے سے نکل گیا۔) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ276-277روایت حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ بیان کردہ میاں شرافت احمد صاحب)

پھر حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم، جن کا پہلے ذکر آیا ہے، کے حالات بیان کرتے ہوئے ان کے بیٹے لکھتے ہیں کہ ’’خواب میں دیکھا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب جؤا کھیل رہے ہیں۔ مولوی صاحب نے (جلال الدین صاحب نے) یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کی۔ تو حضور نے فرمایا: مولوی صاحب! (یعنی مولوی جلال الدین صاحب کو کہ) مولوی صاحب جؤا ہی کھیلتے ہیں (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاول حضرت مولانا نورالدین صاحب جؤا ہی کھیلتے ہیں ) مگر خدا سے۔ یہ بھی جؤا کھیلنے والوں کی طرح جس طرح وہ سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے۔ اسی طرح مولوی صاحب بھی سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں داؤ پر رکھ دیتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی راہ پران دونوں فقروں میں سے کوئی انہوں نے کہا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ280-281روایت حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ بیان کردہ میاں شرافت احمد صاحب)

یعنی یہ ایک سودا ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کرتے ہیں اور دنیا دار تو دنیاوی فائدے کے لئے جؤا میں پیسے داؤ پر لگاتے ہیں ناں۔ حضرت خلیفہ اول کے بارے میں فرمایا کہ یہ اپنی دنیا و عاقبت دونوں چیزوں کو سنوارنے کے لئے اپنا پیسہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور پھر جیسا کہ ہم جانتے ہیں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی زندگی کے بیشمار واقعات ہیں۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کی ہر دنیاوی ضرورت پوری کی اور بے انتہا پوری کی اور اسی طرح دین میں جو مقام اُن کو ملا وہ تو سب جانتے ہی ہیں۔ پھر حضرت صوفی غلام محمد صاحب ولد میاں ولی محمد صاحب فرماتے ہیں کہ ’’1912ء میں مَیں نے پنجاب یونیورسٹی سے بی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد مَیں نے حضرت خلیفہ اولؓ سے پوچھا کہ قرآنِ شریف یاد کروں یا ایم۔ اے کا امتحان دوں۔ فرمایاقرآن کریم یاد کرو، ایم۔ اے کیا ہوتا ہے سو میں نے چھ ماہ میں قرآنِ شریف یاد کیا اور جب مَیں نے خلیفہ اوّلؓ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے سجدہ شکر کیا۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ285روایت حضرت صوفی غلام محمدصاحبؓ)

یہ صحابہ کی تربیت تھی۔ یہ اُن کی اطاعت تھی۔ یہ محبت قرآنِ کریم کی تھی کہ دنیا کو چھوڑ کر پہلے قرآنِ کریم حفظ کیا۔ پھر آگے پڑھائی کی۔

پھر حضرت سید اختر الدین احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے۔ لکھتے ہیں کہ ذکرِ حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے۔ محب کا دل اپنے حبیب کی یاد اور ذکر کرنے اور ستانے کی تڑپ رکھتا ہے۔ چہ جائیکہ خداوند رحمان و رحیم کا فرستادہ سردارِ انبیاء ہمارے آقا محبوب و مطاع حضرت نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزِ کامل، مظہرِ جمال، حبیبنا و متاعنا و نبینا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسے عظیم الشان انسان کے ذکر کی تڑپ نہ رکھتا ہو اور آپ کی یاد سے لذت نہ اُٹھاتا ہو۔ لیکن خوف مجھے یہ ہوتا رہا کہ اس عاجز کا حافظہ کمزور اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پاک صحبت پر ایک مدت گزر گئی۔ یعنی 1902ء کے آخر سے لے کے 1903ء کے آخر تک قریباً ایک سال میسر آئی تھی اور اُس وقت میری عمر 24 سال کی تھی۔ اُن دنوں خاکسار اور خاکسار کے ماموں مولوی سید احمد حسین صاحب مرحوم صرف دو کٹکی مہمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تھے، یہ شاید کٹک سے آئے ہوئے تھے ہم دونوں کے لئے کئی ماہ تک چاول کے مکلف کھانے آتے رہے۔ کیونکہ یہ غالباً اُڑیسہ کا چاول کھانے والا علاقہ ہے۔ تو چاول کھانا آتا رہا اور حضور علیہ السلام میاں نجم الدین مرحوم کو اچھی طرح مہمان نوازی کی تاکید فرمایا کرتے تھے جس طرح کہ مرحوم نجم الدین ہم دونوں سے بیان کیا کرتے تھے کہ تم لوگوں کے متعلق حضرت جی کی بڑی تاکید ہے‘‘۔

پھر یہی سید اختر الدین صاحب فرماتے ہیں کہ خاکسار طالبعلمی کی حالت میں تھا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ کے درسوں میں شامل ہوا کرتا تھا۔ آپ یعنی حضرت خلیفہ اوّلؓ اس عاجز سے بہت ہی محبت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت والد ماجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت والدہ ماجدہ مرحومہ ’’رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل: 25)‘‘ نے جبکہ گھر واپسی کا حکم صادر فرمایا تو اسی عاجز کے یہ عرض کرنے پر کہ آمد و رفت میں اخراجات کثیر دارالامان کی مراجعت مشکل۔ حضور رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب یہاں آنے لگو تو لکھنا مَیں زادِ راہ بھیج دوں گا۔ والدین نے جب واپسی کا حکم دیا اور جب مَیں اپنے گھر جانے لگا تو مَیں نے خلیفہ اوّلؓ کو کہا کہ کیونکہ اخراجات کافی ہوتے ہیں اس لئے اب یہاں قادیان میری واپسی مشکل ہو گی۔ تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ جب آنے لگو تو مجھے بتانا مَیں تمہیں سفر خرچ بھیج دوں گا۔ جس وقت اس عاجز سے گھر واپسی کا زمانہ قریب ہونے لگا تھا اُن دنوں چھوٹی مسجد مبارک کے بالائی حصے میں نماز ہوا کرتی تھی۔ آپؓ نے جانبِ مشرق پیچھے سے اپنے مبارک ہاتھوں کو اس عاجز کے کندھوں پر رکھ کر پیار سے فرمایا کہ اختر الدین مَیں نے سنا ہے کہ تم کئی استادان بزرگ سے قرآن مجید بہت پڑھا کرتے ہو۔ (کہتے ہیں اُس وقت مَیں بہت سارے استادوں سے قرآنِ کریم پڑھا کرتا۔) خلیفہ اوّلؓ نے ان کو یہ فرمایا: وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ212-213روایت حضرت سید اخترالدین صاحبؓ)

کہ اللہ کا تقویٰ کا اختیار کرو۔ اللہ تمہیں پڑھائے گا۔ پس قرآنِ کریم سمجھ کر پڑھنے کی بنیادی شرط یہی ہے۔ صحابہ میں قرآنِ کریم پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ سے بھی پڑھا کرتے تھے۔ نوجوانی میں درس لیا کرتے تھے اور دوسرے اساتذہ سے بھی پڑھتے تھے کہ اور مزید سیکھیں۔ اور پھر متقی کو اللہ تعالیٰ خود قرآنِ کریم پڑھاتا ہے، رہنمائی فرماتا ہے اور اسی طرح صحابہ کی زندگیوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ اُن کو ماشاء اللہ قرآنِ کریم کا بڑا علم تھا۔

پھر ایک روایت حضرت خیر دین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب کی ہے۔ ان کی بیعت 1906ء کی ہے اور 1906ء میں ہی ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی توفیق ملی۔ کہتے ہیں کہ ایک دن کی بات ہے کہ حضور مغرب کی نماز کے بعد بیٹھے رہے۔ اتفاقاً اس دن مسجد میں روشنی نہیں تھی۔ حضور کے ارد گرد چند اور لوگ بھی اور خاکسار بھی بیٹھا ہوا تھا۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور مولوی کہتے ہیں یعنی غیر از جماعت مولوی کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام ناصری، حضرت عیسیٰ علیہ السلام جانور بنایا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ شیخ صاحب خدا خالق اور مسیح بھی خالق۔

بس ایک فقرہ فرمایا۔ یہ روایت کرنے والے لکھتے ہیں کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ شیخ صاحب کون تھے (کیونکہ اندھیرا تھا) مگر وہ شیخ صاحب پھر نہیں بولے۔ حضور نے دوبارہ خود ہی فرمایا کہ ہمارے مولویوں کو اتنے اتنے مختصر فقرے بحث میں استعمال کرنے چاہئیں‘‘۔ یعنی انہوں نے کہا عجیب بات ہے کہ مسیح پرندے بنایا کرتا تھا، پیدا کیا کرتا تھا، جانور بنایا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا بھی خالق (خالق ہونا تو خدا کی صفت ہے) اور مسیح بھی خالق۔ کہ تم مسلمان ہو کر بھی اس شرک کے مرتکب ہو رہے ہو۔ پھر فرمایا کہ اتنے مختصر فقرے بعض دفعہ تبلیغ میں کام آتے ہیں۔ فرمایا ’’کیونکہ لمبی بحث میں بات خلط ملط ہو جاتی ہے‘‘۔

اس کے بعد حضرت خیر دین صاحب لکھتے ہیں کہ ’’مَیں اپنے گاؤں واپس چلا گیا۔ مجھے قرآنِ شریف پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ حضور نے ایک دن مجھے رؤیا میں فرمایا (قرآنِ شریف پڑھنے کا شوق تھا ایک دن خواب آئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا) کہ تم قادیان آ جاؤ۔ ہم تم کو قرآنِ شریف پڑھا دیں گے۔ (تو یہ انہوں نے خواب دیکھی اور اُس وقت یہ خواب دیکھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وصال ہو چکا تھا، آپ وفات پا چکے تھے۔ ) کہتے ہیں کہ ’’اس کے بعد مَیں نے ایک اور خواب دیکھا اور وہ یہ کہ مَیں ہجرت کر کے آگیا ہوں اُس جگہ جہاں اب محلہ ناصر آباد بنا ہوا ہے۔ (ہجرت کر کے قادیان آ گیا اور وہاں آ کے اُترا ہوں جہاں آجکل محلہ ناصر آباد ہے۔ ) اس میدان میں مَیں اپنا سامان اتار رہا ہوں اور مَیں نے پوچھا کہ اس جگہ کا نام کیا ہے؟ تو آسمان سے آواز ایک شکل کے رنگ میں آ رہی تھی، گویا کہ وہ کوئی ٹھوس چیز تھی جس کی شکل و صورت فٹبال جیسی تھی اُس میں سے یہ آواز نکل رہی تھی کہ اس جگہ کا نام ابراہیمی جنگل ہے جہاں تم اپنا سامان اُتار رہے ہو۔ گویا خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کا نام ابراہیم بتایا۔ اس وقت مجھے معلوم نہ تھا یہ جو حضرت صاحب نے فرمایا ہے کہ ؎

مَیں کبھی آدم، کبھی موسیٰ، کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار‘‘

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ154روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)

تو یہ کہتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے آواز دے کے یہ پیغام دیا اور تب مجھے پتا لگا یہ نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتوں کی، ناموں کی، الہامات کی تائیدات کے نظارے اللہ تعالیٰ آپ کے صحابہ کے ذریعے سے دکھاتا تھا۔

پھر حضرت خیر دین صاحب مزید فرماتے ہیں کہ ’’مَیں کسرنفسی سے نہیں کہتا بلکہ حقیقت ہے کہ میں گنہگار تھا۔ یہ جو اب بیان کرنے لگا ہوں یہ یقینا یقینا نورِ نبوت سے ہو گا نہ کہ میری طرف سے۔ کیونکہ آپ نے فرمایا ہے کہ ؎

مَیں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار

تو یہ یقینی بات ہے جو نور سے تعلق پیدا کرے گا اُس کو نور سے ضرور حصہ ملے گا۔ ہاں یہ بھی بات نہایت واضح ہے کہ وہ نور اپنی اپنی قابلیت کے مطابق ملتا ہے۔ (مولوی صاحب، حضرت خیر دین صاحب کہتے ہیں کہ) ہمیں یہ معلوم ہی نہ تھا کہ الہام کس کو کہتے ہیں، کشف کس کو کہتے ہیں، رؤیائے صادقہ کیاہوتی ہے۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس فرستادہ خدا کے ہاتھ سے ہاتھ ملانے سے نہ صرف ہم کو الہام کا علم ہوا اور (نہ) صرف کشف کا علم ہوا اور نہ صرف رؤیائے صادقہ کا علم ہوا بلکہ ان تینوں کو ہم نے اپنے اوپر وارد ہوتے دیکھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ154-155روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)

یہ انقلاب تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا فرمایا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے بارے میں بھی آتا ہے ناں، کئی دفعہ ہم سن چکے ہیں کہ جب اُن سے کسی نے پوچھا حضرت مولوی صاحب آپ تو پہلے ہی بڑے بزرگ تھے، آپ کو حضرت مرزا صاحب کی بیعت میں آ کے کیا ملا۔ حضرت خلیفہ اول نے جواب دیا۔ دیکھو اور تو بہت سارے فائدے ہیں وہ تو ہیں ہی، ایک فائدہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔ پہلے مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار خواب میں کیا کرتا تھا، اب کھلی آنکھیں، جاگتی حالت میں، کشفی حالت میں کرتا ہوں تو یہ انقلاب ہے جو مجھ میں مرزا صاحب نے پیدا کیا۔ (ماخوذ ازحیات نور از عبدالقادر (سابق سوداگر مل)صفحہ194مطبوعہ ربوہ)

تو حضرت خیر دین صاحب لکھتے ہیں کہ ’’اب ہم حق الیقین کے طور پر ان باتوں کی حقیقت بیان کر سکتے ہیں۔ مثلاً مَیں نے مبارک مسجد میں بیٹھے ہوئے غالباً ظہر کا وقت تھا، ایک یہ الہام پایا کہ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْن۔ اس میں یہ بتایا کہ اس جماعت کے لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔ سو ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو معمولی سی حیثیت کے لوگ نظر آتے ہیں اُن کا آخری انجام اچھا ہو رہا ہے اور ان سے اچھے اچھے کام بھی ہو رہے ہیں اور اُن کی دعاؤں میں ایک خاص اثر معلوم ہوتا ہے۔

پھر مَیں نے ایک دفعہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تیرا قرب پانے کے لئے کونسا طریق اچھا ہے (یہ دیکھیں ان لوگوں کی کس طرح کی خواہشات تھیں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا اور تعلق کو بڑھانے کے لئے کیا کیا جتن کرتے تھے۔ دعا کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تیرا قرب پانے کے لئے کونسا طریق ہے) تو خاکسار کو اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ ہمارا قرب حاصل کرنے کے دو طریق ہیں۔ یا چندہ دو یا تبلیغ کرو۔ یہ دو طریق ہم کو پسند ہیں۔ (یہ جواب آیا) تو مَیں نے عرض کی کہ اے اللہ! مَیں تو اتنا پڑھا ہوا نہیں۔ (آپس میں بیٹھے اللہ تعالیٰ سے یہ باتیں ہو رہی ہیں، مَیں تو اتنا پڑھا ہوا نہیں۔ ) مَیں تبلیغ کس طرح کروں؟ اللہ تعالیٰ نے پھر جواب دیا اور فرمایا کہ قرآنِ شریف تو تم کو ہم نے پڑھا دیاہے۔ جب یہ فقرہ جنابِ الٰہی نے فرمایا تو مجھ سے اُس وقت یہ آیت حل ہوئی کہ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی۔ کیونکہ جب مَیں اپنے گاؤں میں تھا تو اُس وقت مجھے جناب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خواب میں ملے تھے۔ (اس کا پہلی خواب میں ذکر ہوا تھا اور آپ نے) فرمایا تھا کہ تم قادیان آجاؤ۔ ہم تمہیں قرآن شریف پڑھا دیں گے۔ اب دیکھئے کہ وعدہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا مگر جواب خدا تعالیٰ نے دیا کہ ہم نے تجھے قرآن شریف پڑھا دیا ہے۔ سو خاکسار دیکھ رہا ہے کہ اپنی قابلیت کے مطابق اب خدا تعالیٰ کے فضل سے جو قرآنِ شریف پڑھنا چاہے اُسے پڑھا سکتا ہوں۔ چنانچہ آج کل مہمان خانے میں صبح کے وقت گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ قرآن شریف ترجمے کے ساتھ پڑھاتا ہوں۔ جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ ہم نے تجھے قرآن شریف پڑھا دیا تو ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ تم نے عاد اور ثمود کے قصے قرآن شریف میں نہیں پڑھے؟ ایک رکوع پڑھا اور لوگوں کو سنا دیا کہ نبیوں کی نافرمانی کرنے والوں کا کیا حال ہوتا ہے؟ اسی طرح دعا کے بارے میں جنابِ الٰہی نے یہ فرمایا کہ تم گھی بہت کھایا کرو۔ تو مَیں نے عرض کیا گھی کھانے سے کیا مراد ہے؟ تو جنابِ الٰہی نے تیسرے دن جواب دیا کہ گھی کھانے سے مراد بہت دعا کرنا ہے۔ یہ فقرے پنجابی زبان میں عنایت فرمائے کہ جس گھر میں دعا ہوتی ہے وہ گھر موجوں میں رہتا ہے۔ پھر یہ بھی آواز سنی کہ جس کے ساتھ خدا بولتا نہیں وہ مسلمان نہیں ہے‘‘۔ (پس ہمیں بھی اگر موجیں کرنی ہیں تو اپنے گھروں کو دعاؤں سے بھرنا ہو گا۔ ) فرماتے ہیں: کیا میرے جیسا آدمی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ میری طاقت سے ہیں۔ بلکہ صاف معلوم ہو جائے گا کہ یہ نورِ نبوت سے ہے۔ چنانچہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی فقرہ دہرا دیتا ہوں فرماتے ہیں ؎

مَیں وہ پانی ہوں جو آیا آسماں سے وقت پر

مَیں وہ ہوں نورِ خدا جس سے ہوا دن آشکار‘‘

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ155-156روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)

پھر حضرت حافظ نبی بخش صاحب ولد حافظ کریم بخش صاحب موضع فیض اللہ چک کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت حضرت مسیح موعود کے دعوی سے پہلے ہی کی تھی اور بیعت بھی ابتدائی زمانے میں کی۔ حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ افریقہ جو حافظ صاحب کے بیٹے تھے، وہ لکھتے ہیں کہ ’’آپ کے اندر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ایک عشق موجود ہے اور طبیعت میں احتیاط ایسی ہے کہ جب کبھی کوئی حضور علیہ السلام کے حالات سنانے کے لئے کہے تو یہی جواب دیتے ہیں کہ مجھے اپنے حافظے پر اعتبار نہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی غلط بات حضور کی طرف منسوب کر بیٹھوں۔ آپ محکمہ نہر میں پٹواری تھے اور گرداوری کے دنوں میں قریباً سارا سارا دن گھومنا پڑتا حتی کہ جیٹھ، ہاڑکے مہینوں میں بھی (یعنی مئی جون کے جو سخت گرمی کے مہینے ہوتے ہیں ان میں بھی) گھومنا پڑتا اور اس سے جس قدر تھکاوٹ انسان کو ہو جاتی ہے وہ بالکل واضح ہے۔ مگر رات کو آپ تہجد کے لئے ضرور اُٹھتے اور ہم پر بھی زور دیتے (اپنے بچوں کو بھی کہتے)۔ جب رمضان کے دن ہوتے تو باوجود اس قدر گرمی کے روزے بھی باقاعدہ رکھتے۔ سردی کے دنوں میں تہجد کی نماز بالعموم قراءت جہری سے پڑھ کر بچوں کو ساتھ شامل فرما لیتے۔ (آپ خدا کے فضل سے حافظِ قرآن تھے) ہمیں نماز روزے کی بہت تاکید فرماتے بلکہ کڑی نگرانی فرماتے۔ (اور یہی والدین کا کام ہے) اور سستی پر بہت ناراض ہوتے۔ قرآنِ کریم ہمیں خود پڑھایا۔ جب دن کو اپنے کاروبار میں مشغولیت کے باعث وقت نہ ملتا تو رات کو پڑھاتے۔ ہم تین بھائی تھے۔ ہم سب میں سے بڑا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ قادیان میں تعلیم پانے کی حالت میں ہی غالباً 1907ء میں فوت ہوا اور باقی ہم دونوں کو بھی مجھے اور عزیزم حبیب الرحمن بی اے کو والد صاحب جبکہ ان کی عمر بارہ تیرہ سال تھی۔ حافظ نور محمد صاحب ساکن فیض اللہ چک اور حافظ حامد علی صاحب مرحوم رضی اللہ عنہماکے ساتھ جبکہ حضور براہینِ احمدیہ تصنیف فرما رہے تھے حضور کی خدمت میں پہلی بار حاضر ہوئے اور اس کے بعد عموماً حاضر ہوتے رہے اور بیعت بھی نہایت جلدی کر لی تھی۔ کیونکہ وہ یعنی حافظ صاحب(جو حکیم فضل الرحمن کے والد تھے) دعویٰ سے پہلے ہی بیعت لینے کو عرض کرتے رہتے تھے۔ مجھے اصل سنِ بیعت اور ملاقات کا یادنہیں مگر جب وہ پہلی دفعہ آئے تو پھر حضور کے ہی ہو رہے‘‘۔ پھر لکھتے ہیں کہ ’’مجھے قادیان میں ہی تعلیم دلوائی (یعنی حکیم فضل الرحمن صاحب کو، اپنے بیٹے کو قادیان میں تعلیم دلوائی)۔ آپ صدموں کے وقت رضا بالقضاء کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتے۔ (حکیم صاحب لکھتے ہیں کہ) جب ہمارے بڑے بھائی کی 1907ء میں وفات ہوئی، اُس وقت ہماری دو بڑی بہنوں کی شادی کے دن قریب تھے اور اس غرض کے لئے ہم سب والد صاحب کی ملازمت کی جگہ سے اپنے وطن فیض اللہ چک گئے ہوئے تھے۔ ایک بہن کی بارات راہوں ضلع جالندھر سے آئی تھی۔ جب بارات آنے میں تین دن رہ گئے توان کے بھائی عبدالرحمن صاحب کا قادیان میں جگر کے پھوڑے سے انتقال ہو گیا، اس پر راہوں سے ہمیں تار آئی (لڑکے والوں نے کہاکہ) وہ اس وفات کے پیشِ نظر شادی کی تاریخ تھوڑا سا آگے کر دیتے ہیں۔ خود ہی انہوں نے پیشکش کی۔ حکیم صاحب کے والد صاحب نے کہا کہ وفات ایک قضائے الٰہی تھی وہ ہو گئی۔ آپ اپنے وقت پر بارات لے کر آئیں اور لڑکی کا رخصتانہ لے جائیں۔ چنانچہ اپنے عزیز بچے کی وفات کے تین دن کے اندر دو لڑکیاں بیاہ دیں جو کہ ایک دنیادار شخص کے لئے نہایت کڑا امتحان ثابت ہو۔‘‘

پھر لکھتے ہیں کہ ’’خلافتِ اولیٰ و ثانیہ دونوں کے وقت آپ کو خدا کے فضل سے کبھی کوئی ابتلاء پیش نہیں آیا اور نہ ہی آپ نے دونوں خلفاء کی بیعت میں کوئی تردد کیا۔ خلافت کے ماننے میں اس قدر اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ مَیں دو دفعہ تبلیغ کے لئے مغربی افریقہ میں آیا ہوں، (حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب بڑا لمبا عرصہ مغربی افریقہ میں مبلغ رہے ہیں ) پہلی مرتبہ جب آٹھ برس متواتر رہاتھا اور اب بھی سات برس ہو گئے ہیں، باوجود کئی مختلف حالات میں سے گزرنے کے جن میں دنیاوی سامانوں کے لحاظ سے مَیں اُن کے لئے بہت بڑی مدد کا موجب ہو سکتا تھا آپ نے مجھے ہمیشہ یہی نصیحت فرمائی کہ میں ہرگز کسی قسم کی بے صبری نہ دکھاؤں۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح واپس بلانے کا ارشاد فرمائیں تب ہی واپس آؤں (یعنی خود کچھ نہیں کہنا، کوئی مطالبہ نہیں کرنا) زمانہ ملازمت میں آپ سلسلے کے جملہ اخبارات خریدتے رہے اور چندہ باقاعدہ ادا فرماتے رہے۔ غرباء کی بہت مدد کی۔ مہمان نوازی حد درجہ کی فرماتے۔ آپ نے وصیت کی ہوئی ہے اور ایامِ ملازمت میں حصہ آمد ادا کرتے رہے۔ آپ کی کسی قدر زمین فیض اللہ چک میں ہے جس کے عشر کی آپ نے وصیت کی ہے۔ انجمن کے نام اپنی زمین کرا دی۔‘‘ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ1تا3روایت حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ)

جن صحابہ کا مَیں ذکر کر رہا ہوں ان کے پڑپوتے عزیزم عمیر ابن ملک عبدالرحیم صاحب کو 28؍ مئی کو ماڈل ٹاؤن مسجد میں اللہ تعالیٰ نے شہادت کا مرتبہ بھی عطا فرمایا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے دو بچے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کا حافظ و ناصر ہو۔ تمام شہداء جو ہیں اور جو نوجوان شہداء تھے، اُن کے بچوں اور بیوگان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے اور اسی طرح اُن کے والدین کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کا حامی و ناصر ہو۔ اُن کو صبر اور حوصلہ دے اور بیوگان کے، جو نوجوان بیوگان ہیں اُن کے رشتوں کے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمائے۔

حضرت محمد یعقوب صاحب ولد میاں سراج دین صاحب جن کی بیعت 1900ء کی ہے اور 1904ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی۔ لکھتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی آغوشِ شفقت میں بچوں کو زیادہ جگہ عطا فرماتے۔ بندہ حضور کی گود میں کھیلتا رہتا۔ حضور کا چہرہ انورنُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍتھا۔ ہمیں بچپن میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ماں باپ سے زیادہ محبت ہم سے کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب کبھی لاہور تشریف لے جاتے تو حضور ہمارے غریب خانے کو رونق دے کر فخر بخشتے۔ ایک دفعہ حضور سیر کو حسبِ دستور گئے تو حضور بند گاڑی میں جایا کرتے تھے۔ جب واپسی کا وقت تھا تو میرے خاندان کے بزرگ قبلہ والد میاں سراج الدین صاحب مرحوم اور چچا میاں معراج الدین صاحب عمراور میاں تاج الدین صاحب اور دیگر خاندان کے ممبر حضور کی آمد پر منتظر تھے۔ ہمارے مکانوں کے سامنے سرکاری باغ تھا۔ باغ کی سڑک پر جو ہمارے مکانوں سے متصل تھی، موچی دروازہ، بھاٹی دروازہ کے بدمعاش لوگوں کا بڑا ہجوم تھا۔ جب حضور علیہ السلام تشریف لائے تو وہ سیڑھیوں پر سے مکان میں تشریف لے گئے تو بدمعاش لوگوں نے پتھر برسانے شروع کئے۔ اتنے میں والد صاحب مرحوم اور ہمارے چچا صاحب نے مشورہ کیا کہ کیا تدارک ہونا چاہئے تو والد صاحب نے جو میرے لئے خادم رکھا ہوا تھا اُس کو فرمایا کہ اس کو اُٹھا لوچھوٹے بچے تھے اور اس وقت بندہ کچھ بیمار بھی تھا تو خادم نے بندے کو اُٹھا لیا تو انہوں نے اسی وقت اس ہجوم کا بڑی بہادری سے مقابلہ کیا۔ مقابلہ کے بعد ہجوم منتشر ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اب ان کوجانے دیں۔‘‘

یہ لکھتے ہیں کہ ’’ایک دفعہ بندہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ تھا۔ حضور علیہ السلام مکان پر ٹھہرے۔ جاتے ہوئے ایک جگہ پر کاغذ قلم دوات رکھی ہوئی تھی تو پھر کچھ لکھتے۔ میرے والد صاحب نے عرض کیا کہ لڑکی کا نام پوچھا تو آپ نے ایمنہ بیگم فرمایا۔‘‘

پھر ان کی ایک روایت ہے کہ ’’جب کبھی قادیان اپنے والد صاحب کے ہمراہ بندہ آتا تو بچپن کی عادت پر بندہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطب میں چلا جاتا جہاں آپ حکمت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ بھی گود میں لے لیتے اور محبت کرتے۔ وہ اکثر قرآنِ شریف کی تلاوت کرتے اور بچوں کو پڑھاتے۔ (حضرت خلیفۃ المسیح الاول گود میں بچوں کو لے لیتے، اگر کوئی مریض نہیں ہوتا تھا تو قرآن شریف کی تلاوت کرتے اور بچوں کو بھی پڑھاتے) اور یہاں سے اُٹھا تو جب مسجد مبارک میں بندہ جاتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا موقع ملتا تو حضور اپنے پاس بٹھاتے تو کچھ باتیں دریافت کرتے۔ اُس وقت چند مہمانوں سے مسجد مبارک میں رونق ہوتی تھی۔ قادیان بالکل چھوٹا سا قصبہ تھا۔ یہ ہرگز امیدنہ کی جا سکتی تھی کہ حضور کے الہام ایسے رنگ میں پورے ہوں گے۔ میرے والد صاحب مرحوم حضور کے بہت ہی عاشق تھے۔ پرانے خدام میں سے تھے۔ والد صاحب مرحوم مجھے فرماتے تھے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بابت فتح و نصرت کے زمانے کے متعلق اکثر ایسی باتیں فرماتے جو ہمارے دیکھنے میں آتی ہیں۔ (یعنی جو پہلے انہوں نے بتا دی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یقین تھا اور آپ کے جو الہامات تھے ان پر یقین کی وجہ سے یہ کہا کرتے تھے کہ یہ باتیں پوری ہوں گی اور پھر کہتے ہیں ہم نے وہ پوری ہوتی دیکھیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ128-129روایت حضرت محمد یعقوب صاحبؓ)

پس یہ صحابہ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آکر پاک تبدیلیاں پیدا کر کے خدا تعالیٰ سے تعلق جوڑا اور جو آپ علیہ السلام پر ایمان میں اس قدر پختہ تھے کہ کوئی ان کو اس ایمان سے ہلا نہیں سکتا تھا۔ دینی غیرت قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کرنے والی تھی۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس بات کو پلّے باندھ لیا اور اس کا ادراک حاصل کیا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ’’جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اُس نے ظاہر کئے ہیں اس سے اُس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہؓ کی جماعت ہو اور پھر خیر القرون کا زمانہ آ جاوے۔ جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں، چونکہ وہ آخَرِیْنَ مِنْہُمْمیں داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اتار دیں اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ67۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ نے جیسا کہ میں نے کہا: آپ کی اس تعلیم اور خواہش کو پورا کر کے دکھایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں جاری کرنے اور قائم رکھنے والے بنیں۔ انشاء اللہ پرسوں سے بلکہ کل رات بارہ بجے سے نیا سال بھی شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے یہ سال بھی جماعت کے لئے پہلے سے بڑھ کر برکتیں لانے والا ہو۔ مخالفینِ احمدیت کے ہاتھ اللہ تعالیٰ روکے اور ان میں حق کو پہچاننے کے سامان پیدا فرمائے، توفیق پیدا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی پر ذاتی طور پر اور بحیثیت جماعت بھی بے انتہا برکتیں نازل فرماتا رہے۔ امین

نمازوں کے بعد میں آج ایک جنازہ پڑھاؤں گا جو مکرم جمال الدین صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ہے۔ مکرم جمال الدین صاحب 15؍دسمبر 1938ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ انہوں نے اٹھارہ سال کی عمر میں جماعتی خدمات کا آغاز کیا۔ 27؍دسمبر2011ء کو 73سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی ہے۔ تقریباً پچپن سال اللہ تعالیٰ نے ان کو سلسلے کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی۔ مختلف اوقات میں مختلف دفاتر میں کام کیا جن میں نظامت جائیداد، دفتر وصیت، دارالضیافت، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری، نظارت خدمتِ درویشاں شامل ہیں۔ پھر جولائی 2003ء میں بطور آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ آپ کا تقرر ہوا اور تاوقتِ وفات آپ اسی عہدے پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اپریل 2008ء سے جون 2009ء تک بطور قائمقام افسر محاسب اور پراویڈنٹ فنڈ بھی فرائض انجام دئیے۔ خاموش طبع، سادہ زندگی بسر کرنے والے شریف النفس انسان تھے۔ اپنے کارکنوں کے ساتھ بھی بڑا شفقت کا سلوک فرماتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ ہمدردی اور محبت کے ساتھ پیش آتے تھے۔ عزیز و اقرباء اور بیوی بچوں کے ساتھ ہمیشہ پیار محبت اور نیک سلوک کیا۔ خدا کے فضل سے بہت بہادر اور نڈر تھے۔ نمازوں اور روزے کے پابند، تہجد گزار تھے۔ اِن کوخلافت سے والہانہ عشق تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے کام میں بڑے فعال تھے اور کبھی سستی نہیں دکھائی۔ جماعتی کاموں کو ہمیشہ اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دی اور حقیقی وقف کی روح کے ساتھ انہوں نے ہمیشہ کام کیا اور نہایت عاجزی سے کام کیا۔ جو بھی ان کے افسر تھے ان کے بھی انتہائی اطاعت گزار تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے۔ ان کی اہلیہ پہلے وفات پا چکی ہیں۔ اللہ ان کے بچوں کو بھی صبر اور ہمت اور حوصلہ دے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں