(ابو بکر الصدیق اول الخلفاء الراشدین از محمد رضاصفحہ 124،داراحیاء الکتب العربیہ1950ء)

جب ولید بن عقبہ حضرت عیاضؓ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت عیاضؓ نے دشمن کو گھیر رکھا ہے اور دشمن نے انہیں گھیر رکھا ہے اور ان کا راستہ بھی روک رکھا ہے۔ ولید بن عقبہ نے حضرت عیاضؓ سے کہا کہ بعض اوقات فوج کی کثرت تعداد کے مقابلے میں ایک عقل کی بات زیادہ کارگر ہوتی ہے۔ آپ حضرت خالد بن ولید ؓکے پاس قاصد بھیجیے اور ان سے مدد طلب کیجئے۔ حضرت عیاضؓ کے لیے ولید کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ انہیں دومة الجندل پہنچے ہوئے سال بھر ہو چکا تھا اور ابھی تک فتح کی کوئی شکل نہ نظر آتی تھی۔ حضرت عیاضؓ نے ایسا ہی کیا۔ جب ان کا قاصد مدد طلب کرنے کے لیے حضرت خالد ؓکے پاس پہنچا تو اس وقت عین التمر فتح ہو چکا تھا۔ انہوں نے حضرت عیاضؓ کے نام ایک مختصر خط دے کر قاصد کو فوراً واپس کر دیا کہ ان کی پریشانی کچھ کم ہو جائے۔ خط میں لکھا تھا کہ تھوڑا ٹھہریں۔ سواریاں آپ کے پاس پہنچ رہی ہیں جن پر شیر سوار ہوں گے اور تلواریں چمک رہی ہوں گی اور لشکر فوج در فوج پہنچ رہے ہوں گے۔ پھر

حضرت خالد بن ولید ؓکی دومة الجندل روانگی

کے بارے میں آتا ہے کہ جب حضرت خالدؓ عین التمر کی فتح سے فارغ ہوئے تو اس میں عویم بن کاہل اسلمی کو نگران مقرر کیا اور خود اپنی فوج کو جو عین التمر میں تھی لے کر دومة الجندل کی طرف روانہ ہوئے۔ تین سو میل کا یہ فاصلہ حضرت خالد بن ولید ؓ نے دس روز سے بھی کم عرصہ میں طے کیا۔

اہل دومہ کو حضرت خالد ؓکے آنے کی اطلاع ملی تو انہوں نے اپنے حلیف قبائل سے مدد طلب کی۔ یہ قبائل اپنے ساتھ کئی اَور قبائل کو ملا کر دومة الجندل پہنچے اور ان کی تعداد اس وقت سے کئی گنا زیادہ تھی جب ایک سال قبل حضرت عیاضؓ ان کی سرکوبی کے لیے پہنچے تھے۔ دومة الجندل کی فوج دو بڑے حصوںمیں منقسم تھی۔

(ماخوذ از حضرت ابوبکر صدیق از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 290-291 )
(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر جلد 2 صفحہ 324-325 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سیدنا ابوبکرصدیقؓ شخصیت و کارنامے از علی محمد صلابی مترجم اردو صفحہ418فرقان ٹرسٹ مظفرگڑھ)

فوج کے دو سردار تھے۔ ایک اُکیدر بن عبدالملک اور دوسرا جودی بن ربیعہ۔ جب ان کو حضرت خالد ؓکی آمد کی اطلاع ملی تو ان میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ اکیدر نے کہا کہ میں خالد کو خوب جانتا ہوں اس سے بڑھ کر کوئی شخص اقبال مند نہیں ہے اور نہ اس سے زیادہ کوئی جنگ میں تیز ہے۔ جو قوم خالد سے مقابلہ کرتی ہے خواہ وہ تعداد میں کم ہو یا زیادہ ضرور شکست پاتی ہے ۔ تم لوگ میرے مشورے پہ عمل کرو اور ان لوگوں سے صلح کر لو مگر انہوں نے اس کا انکار کر دیا اس پر اکیدر نے کہا میں خالد کے ساتھ لڑنے میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا۔ تم جانواور تمہارا کام جانے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چل دیا۔ اس کی اطلاع حضرت خالدؓ کو ہو گئی۔ انہوں نے اس کا راستہ روکنے کے لیے عاصم بن عمرو کو بھیجا۔ صلح کے لیے راضی نہیں ہوا تھا بلکہ وہاں سے چھوڑکے چلا گیا، اپنے علاقے کی طرف جا رہا تھا۔ عاصم نے اکیدر کو جا پکڑا۔ اس نے کہا تم مجھے اپنے امیر خالد کے پاس لے چلو۔ جب وہ حضرت خالد ؓکے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اکیدر کو قتل کروا دیا اور اس کے تمام سامان پر قبضہ کر لیا۔

(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر جلد 2صفحہ325دارالکتب العلمیۃ بیروت)

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اکیدر کو قید کرنے کے بعد کیوں قتل کیا گیا تھا تو اس کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے کہ حضرت خالدؓ کو غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیدر کی طرف روانہ کیا تھا۔ آپؓ اس کو قید کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر احسان کر کے اسے چھوڑ دیا تھا اور اس سے معاہدہ لکھوایا تھا لیکن اس نے اس کے بعد بدعہدی کی اور اس نے مدینہ کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔

(حضرت ابو بکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 327-328 اسلامی کتب خانہ لاہور)

جس وقت اکیدر کو حضرت خالد ؓکے دومة الجندل آنے کی اطلاع ملی تو یہ اپنی قوم کا ساتھ چھوڑ کر نکل گیا۔ حضرت خالد ؓکو دومة الجندل کے راستے میں اس کی خبر ملی جیسا بیان ہوا ہے۔ آپؓ نے عاصم بن عمرو کو اس کے گرفتار کرنے کے لیے روانہ کیا۔ انہوں نے اسے گرفتار کر لیا اور اس کی سابقہ خیانت کی وجہ سے حضرت خالد ؓنے اس کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اس کو قتل کر دیا گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی خیانت اور غداری کی وجہ سے اسے ہلاک کیا۔

(سیدنا ابو بکر صدیق ؓشخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 419)

بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسے قید کر کے مدینہ بھیج دیا گیا تھا اور حضرت عمرؓ کے عہد میں اسے رہائی ملی اور وہ مدینہ سے عراق چلا گیا۔ وہاں عین التمر کے مقام دومہ ہی میں قیام پذیر ہوا اور آخر تک وہیں رہا۔ (حضرت ابو بکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ328 اسلامی کتب خانہ لاہور) یہ دو روایتیں ہیں۔

بہرحال اہلِ دومہ سے لڑائی کا جو واقعہ ہے اس بارہ میں لکھا ہے کہ حضرت خالد ؓآگے بڑھ کر دومہ پہنچے۔ حضرت خالدؓ نے دومہ کو اپنی اور حضرت عیاضؓ کی فوج کے وسط میں لے لیا۔ نصرانی عرب جو اہلِ دومہ کی امداد کے لیے آئے تھے وہ قلعہ کے اطراف میں بیرونی جانب تھے کیونکہ قلعہ میں ان کی گنجائش نہیں تھی۔ جب حضرت خالدؓ اطمینان سے صف آرائی کر چکے تو دومہ کے سرداروں نے قلعہ سے نکل کر حضرت خالدؓ پر حملہ کر دیا۔ دونوں فریقوں میں گھمسان کی جنگ ہوئی۔ بالآخر حضرت خالدؓ اور حضرت عیاضؓ نے اپنے مدمقابل کو شکست دی۔ حضرت خالدؓ نے ایک سردار جودی اور حضرت اقرع بن حابس ؓنے وَدِیعہ کو گرفتار کر لیا جو قبیلہ کلب کا سردار تھا۔ باقی لوگ پسپا ہو کر قلعہ بند ہو گئے مگر قلعہ میں کافی گنجائش نہیں تھی۔ جب قلعہ بھر گیا تو اندر والوں نے بہت سے لوگوں کو باہر چھوڑ کر قلعہ کا دروازہ بند کر لیا جس کی وجہ سے باہر کے لوگ حیران و پریشان پھرنے لگے۔ عاصم بن عمرو نے کہا اے بنو تمیم! اپنے حلیف قبیلہ کلب کی مدد کرو اور ان کو پناہ دو کیونکہ تمہیں ان کی امداد کا ایسا موقع پھر کبھی نہیں ملے گا۔ یہ سن کر بنو تمیم نے ان کی مدد کی ۔ اس روز عاصم کے امان دینے کی وجہ سے کلب قبیلہ کی جان بچ گئی۔ حضرت خالدؓ نے قلعہ کی طرف پسپا ہونے والوں کا پیچھا کیا اور اتنے آدمی قتل کیے کہ ان کی لاشوں سے قلعہ کا دروازہ مسدود ہو گیا۔ پھر جودی اور اس کے ساتھ باقی قیدیوں کو بھی قتل کر دیا۔ صرف کلب کے قیدی بچ گئے کیونکہ عاصم اور اقرع اور بنو تمیم نے کہہ دیا تھا کہ ہم نے ان کو امان دی ہے۔ پھر حضرت خالدؓ قلعہ کے دروازے پر مسلسل چکر لگاتے رہے یہاں تک کہ اس کو توڑ کر دم لیا۔ مسلمان قلعہ میں گھس گئے۔ جنگجوؤں کو قتل کیا گیا اور نوعمروں کو قیدی بنا لیا گیا۔

(تاریخ طبری از ابو جعفر محمد بن جریر جلد 2صفحہ325دارالکتب العلمیۃ بیروت2012ء )

فتح کے بعد حضرت خالد ؓنے اقرع بن حابس کو انبار واپس جانے کا حکم دیا اور خود دومة الجندل میں قیام کیا۔

( حضرت ابو بکرصدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ 293)

دومة الجندل کے فتح ہونے سے مسلمانوں کو جنگی اعتبار سے بڑا اہم مقام حاصل ہو گیا کیونکہ دومة الجندل ایسے راستے پر واقع تھا جہاں سے تین سمتوں میں اہم راستے نکلتے تھے۔

جنوب میں جزیرہ نمائےعرب اور شمال مشرق میں عراق اور شمال مغرب میں شام۔ طبعی طور پر یہ شہر حضرت ابوبکرؓ اور آپؓ کی فوج کی توجہ اور اہتمام کا مستحق تھا جو عراق میں برسرپیکار تھی اور شام کی سرحدوں پر کھڑی تھی۔ یہی سبب تھا کہ حضرت عیاضؓ نے دومة الجندل سے حرکت نہ کی بلکہ وہاں ڈٹے رہے اور حضرت خالدؓ کے وہاں پہنچنے کا انتظار کیا۔ اگر دومة الجندل مسلمانوں کے قبضہ میں نہ آتا تو عراق میں مسلم فوجوں کے لیے خطرات کا سامنا تھا۔

(سیدنا ابو بکر صدیق ؓ شخصیت اور کارنامے از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ 419-420)

پھر

جنگِ حصید اور خنافس

کا ذکر ہے۔ حصید کوفہ اور شام کے درمیان ایک چھوٹی سی وادی ہے۔ خنافس عراق کی طرف انبار کے قریب ایک جگہ ہے۔لکھاہے کہ حضرت خالد بن ولید ؓدومةالجندل میں مقیم تھے اور عجمی بدستور حضرت خالدؓ کے خلاف، مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ عقہ کے انتقام کے جوش میں جزیرے کے عربوں نے عجمیوں سے ساز باز کر لی تھی۔ چنانچہ بغداد سے زرمہراور اس کے ساتھ روزبہ انبار کی طرف روانہ ہوئے اور دونوں نے حصید اورخنافس پر ملنے کا وعدہ کیا۔ حِیْرَہ میں حضرت خالد بن ولید ؓکے نائب حضرت قعقاع بن عمرؓو نے یہ خبر سنی تو آپؓ نے اعبد بن فدکی کو حصید کی طرف پہنچنے کا حکم دیا اور عروہ بن جعد کو خنافس کی طرف روانہ کیا۔ حضرت خالد بن ولید ؓدومہ سے حِیْرَہ واپس آئے تو آپؓ کو بھی اس کی اطلاع ملی ۔ حضرت خالد ؓکا مدائن پر چڑھائی کا ارادہ تھا مگر یہاں پہنچ کر جب ان واقعات کا علم ہوا تو آپ نے حضرت قعقاع بن عمروؓ اور ابولیلی کو روزبہ اور زرمہر کے مقابلے کے لیے بھیج دیا۔ حضرت خالد بن ولید ؓکے پاس امراء القیس کلبی کا خط آیا۔ یہ قبیلہ قضاعہ اور کلب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عامل تھے۔ حضرت ابوبکرؓ کے دورِ خلافت میں یہ اسلام پر ثابت قدم رہے تھے۔ ان کا خط آیا کہ ھذیل بن عمران نے مصیخ میں اور ربیعہ بن بجیر نے ثنی اور بشر میں فوجیں جمع کی ہیں یہ لوگ عقہ کے انتقام کے جوش میں روزبہ اور زرمہر کے پاس جا رہے ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی حضرت خالد بن ولید ؓنے حِیْرَہ پر حضرت عیاض بن غنم ؓکو اپنا نائب مقرر کیا اور خود وہاں سے روانہ ہوئے۔ آپؓ نے خنافس جانے کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جس سے قعقاع اور ابولیلی گئے تھے۔ آپؓ عین التمر میں ان دونوں سے مل گئے۔ یہاں آ کر آپ نے حضرت قعقاعؓ کو امیرِ فوج بنایا اور ان کو حصیدکی طرف روانہ کیا اور ابو لیلی کو خنافس کی طرف بھیجااور ان دونوں کو حکم دیا کہ دشمن اور ان کے بھڑکانے والوں کو گھیر کر ایک جگہ جمع کرو اور اگر وہ جمع نہ ہوں تو اسی حالت میں ان پر حملہ کر دو۔ حضرت قعقاعؓ نے جب دیکھا کہ زرمہر اور روزبہ کوئی حرکت نہیں کر رہے تو انہوں نے حصید کی طرف پیش قدمی کی۔ اس طرف کی عربی و عجمی فوجوں کا سردار روزبہ تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ قعقاع اس کی طرف آ رہے ہیں تو اس نے زرمہر سے مدد طلب کی۔ زرمہر نے اپنی فوج پر نائب مقرر کیا اور بذات خود روزبہ کی مدد کے لیے آیا۔ حصید میں دونوں فریقوں کا مقابلہ ہوا۔ بڑی شدت کی جنگ ہوئی۔ اللہ نے عجمیوں کی بہت بڑی تعداد کو قتل کرایا۔ قعقاع نے زرمہر کو قتل کیا اور روزبہ بھی مارا گیا۔ اس جنگ میں کثیر مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ حصید کے بھاگے ہوئے لوگ خنافس میں جا کرجمع ہو گئے۔ جنگ خنافس کے بارے میں لکھا ہے کہ ابولیلی اپنی فوج اور جو کمک ان کے پاس آئی تھی ان کو لے کر خنافس کی طرف نکلے۔ حصید کا شکست خوردہ لشکر زرمہر کے نائب کے پاس پہنچا۔ جب اس کو مسلمانوں کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ خنافس چھوڑ کر سب کے ساتھ مصیخ بھاگ گیا۔ وہاں کا افسرھذیل تھا۔ خنافس کی فتح کے لیے ابولیلی کو کچھ دشواری پیش نہ آئی۔ ان تمام فتوحات کی اطلاع حضرت خالد بن ولید ؓکی خدمت میں بھیج دی گئی۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 325-326۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(معجم البلدان جلد 2 صفحہ 307، 446)
(الکامل فی التاریخ جلد 2 صفحہ 205 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

جنگ مصیّخ۔

حضرت خالد بن ولید ؓکو اہلِ حصید اور اہل خنافس کے بھاگنے کی اطلاع ہوئی تو آپؓ نے حضرت قعقاعؓ، ابولیلی اعبد اور عروہ کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے ان کو ایک رات ایک وقت مقرر کر کے مصیخ پر ملنے کا وعدہ کیا۔ مصیخ حوران اور قلت کے درمیان واقع ہے۔ حوران بھی دمشق کے قریب ایک وسیع علاقہ ہے جہاں بیشمار بستیاں اور کھیت ہیں۔حضرت خالد بن ولید ؓعین التمر سے مصیخ روانہ ہوئے اور مقررہ رات کو طے شدہ وقت کے مطابق حضرت خالد بن ولید ؓاور ان کے افسروں نے مصیخ پر ایک دم حملہ کر دیا اور ھذیل اس کی فوج اور تمام پناہ گزینوں پر تین اطراف سے حملہ کر دیا اور ھذیل چند لوگوں کے ساتھ جان بچا کر بھاگ گیا۔

(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 326 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت صفحہ109زوار اکیڈمی کراچی)

اس جنگ کے دوران دو ایسے مسلمان اسلامی فوج کے ہاتھ مارے گئے جو مصیخ میں مقیم تھے اور جن کے پاس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عطا کیا ہوا امان نامہ بھی تھا۔ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓکو ان کے مارے جانے کی اطلاع ملی تو آپ نے ان کا خون بہا ادا کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے اصرار کیا کہ حضرت خالد بن ولید ؓکو ان کے اس فعل کی سزا ملنی چاہیے۔ حضرت عمرؓ بڑے پرجوش تھے کہ کیوں مسلمانوں کو قتل کیا لیکن حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جو مسلمان دشمن کی سرزمین میں دشمن کے ساتھ قیام پذیر ہوں گے ان کے ساتھ ایسی صورتحال پیدا ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ اس طرح ہو جاتا ہے۔ تاہم حضرت ابوبکرؓ نے ان کی اولاد کی پرورش اور ان کا خیال رکھنے کے متعلق وصیت بھی فرمائی۔

(حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ از ہیکل صفحہ 311)
(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ327۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت)

ثنی اور زمیل کا واقعہ۔

زمیل ایک مقام ہے۔ اس کا نام بشر بھی آتا ہے۔ یہ ثنی مقام کے ساتھ ہے۔ عقہ جو معرکہ عین التمر میں مارا گیا تھا اس کے انتقام کے جوش میں ربیعہ بن بجیر اپنی فوج کو لے کر ثنی اور بشر میں اترا اور حضر ت خالدؓ نے مصیخ کے معرکہ کو سر کر کے قعقاع اور ابولیلی کو اپنے آگے روانہ کر دیا اور ایک رات مقرر کر کے طے کیا کہ ہم سب مصیخ کی طرح یہاں بھی تین مختلف سمتوں سے دشمن پر حملہ کریں گے۔ اس کے بعد حضرت خالد ؓمصیخ سے چل کر مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے زمیل آئے۔ حضرت خالدؓنے ثنی سے آغاز کیا۔ یہاں ان کے دونوں ساتھی بھی ان سے مل گئے۔ ان تینوں نے رات کے وقت تینوں اطراف سے ربیعہ کی فوج پر اور ان لوگوں پر جو بڑی شان سے لڑنے کے لیے جمع ہوئے تھے شب خون مارا اور تلواریں سونت کر ان کا ایسا صفایا کیا کہ کوئی بھاگ کر کہیں خبر بھی نہ دے سکا۔ ان کی عورتیں گرفتار کر لی گئیں۔ بیت المال کا خمس حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیا گیا اور باقی مال غنیمت مسلمان لشکر میں تقسیم کر دیا گیا۔ ہذیل جس نے جنگ مصیخ میں بھی شکست کھا کر جان بچائی تھی وہ حسب وعدہ ربیعہ بن بجیر کی فوج میں شامل ہوا۔ اب پھر اس نے بھاگ کر زمیل میںعتاب کے پاس پناہ لی۔ عتاب ایک عظیم الشان لشکر کے ساتھ بشر میں قیام پذیر تھا۔ اس سے پہلے کہ اس تک ربیعہ کے خاتمہ کی خبر پہنچتی حضرت خالدؓ نے اس پر بھی تین اطراف سے حملہ کر دیا۔ اس معرکہ میں بھی کثرت سے آدمی قتل ہوئے اور بےشمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ حضرت خالد ؓنے مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور خُمس حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں بھیج دیا۔ حضرت خالدؓ بشر کے قریب ایک مقام رضاب کی طرف مڑے۔ وہاں کا افسر ہلال بن عقہ تھا۔ اس کی فوج کو جب حضرت خالدؓ کے آنے کی اطلاع ملی تو وہ اس سے الگ ہو گئی۔ مجبورا ًہلال وہاں سے بھاگ نکلا اور مسلمانوں نے بغیر کسی دِقّت کے رضاب کو اپنے قبضہ میں کر لیا۔

(تاریخ الطبری جلد2صفحہ327-328 ، دار الکتب العلمیۃ ، بیروت)
(معجم البلدان جلد 3صفحہ 170، دارالکتب العلمیۃ بیروت )

پھر

جنگ فراض

کے بارے میں آتا ہے۔ فراض بصرہ اور یمامہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ یہاں شام، عراق اور جزیرے کے راستے آ کر ملتے ہیں۔ یہ معرکہ مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان ذی قعدہ بارہ ہجری میں فراض کے مقام پر ہوا۔ اسی نسبت سے یہ جنگ جنگ فراض کے نام سے مشہور ہوئی۔ حضرت خالد بن ولید ؓرضاب پر قبضہ کر کے فراض پہنچے۔ اس سفر میں حضرت خالدؓ کو بہت سی لڑائیاں پیش آئیں۔ یہاں حضرت خالد ؓرمضان کے روزے بھی نہ رکھ سکے۔ خالدؓ کے ان اچانک حملوں اور قبائل کے ان کے مقابل پہ عاجز رہنے کی خبریں عراق بھر میں پھیل چکی تھیں اور صحرا میں رہنے والے تمام قبائل خوفزدہ ہو چکے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈالنے اور ان کی اطاعت قبول کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنی فوجوں کے ہمراہ دریائے فرات کے ساتھ ساتھ شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور وہ جہاں بھی پہنچتے وہاں کے باشندے ان سے مصالحت کر لیتے اور ان کی اطاعت کرنے کا اقرار کرتے۔ آخر وہ فراض پہنچ گئے جہاں شام عراق اور الجزیرہ کی سرحدیں ملتی تھیں۔ فراض عراق اور شام کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اگر عیاض بن غنم کی قسمت ساتھ دیتی اور وہ ابتدا ہی سے دومة الجندل فتح کر لیتے تو غالباً خالدیہاں تک نہ پہنچتے کیونکہ حضرت ابوبکرؓ کا منشا سارے عراق اور شام کو فتح کرنے کا نہ تھا۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان دونوں ملکوں کی سرحدوں پر جو عرب سے ملتی ہیں امن و امان قائم ہو جائے اور ان اطراف سے ایرانی اور رومی عرب پر حملہ آور نہ ہو سکیں لیکن اللہ کو یہی منظور تھا کہ یہ دونوں مملکتیں مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں آ جائیں اس لیے اس نے ایسے اسباب پیدا کر دیے کہ خالد عراقی قبائل کو مطیع کرنے کی غرض سے انتہائی شمال تک چلے گئے اور اس طرح مسلمانوں کے لیے بالائی جانب سے شام پر حملہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔

ایرانی سرحدوں سے رومیوں پر حملہ کا رستہ کھل جانا ایک ایسا معجزہ تھا جس کا خیال حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی نہیں آ سکا

اور یہ کارنامہ ایسے شخص کے ہاتھوں رونما ہوا جس کی نظیر پیدا کرنے سے عرب اور عجم کی عورتیں واقعی عاجز رہیں جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا تھا۔ فراض میں خالد کو کامل ایک مہینے تک قیام کرناپڑا۔ یہاں بھی انہوں نے ایسی جرأت اور عزم و استقلال کا مظاہرہ کیا کہ وہ اپنی نظیر آپ ہے۔ وہ چاروں طرف سے دشمن میں گھرے ہوئے تھے۔ مشرقی جانب ایرانی تھے جو ان کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ مغربی جانب رومی تھے جن کا یہ خیال تھا کہ اگر اس وقت خالد کی جمعیت کو تباہ و برباد نہ کیا تو پھر یہ سیلاب روکے نہ رکے گا۔ رومیوں اور مسلمانوں کے درمیان صرف دریائے فرات حائل تھا۔ ان کے علاوہ چاروں طرف بدوی قبائل آباد تھے جن کے بڑے بڑے سرداروں کو قتل کر کے خالد نے ان کے دلوں میں انتقام کی ایک نہ ختم ہونے والی آگ بھڑکا دی تھی۔ اس نازک صورتحال سے خالد لاعلم نہ تھے۔ اگر وہ چاہتے تو حِیْرَہ واپس آ کر اپنی قوت و طاقت میں اضافہ کرتے ہوئے پھر رومیوں کے مقابلے کے لیے روانہ ہو سکتے تھے۔ انہوں نے ایسا نہ کیا کیونکہ دشمن کو سامنے دیکھ کر خالد کے لیے صبر کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔ طبیعت ایسی تھی ان کی۔ ان کی نظروں میں کیا ایرانی اور کیا اہل بادیہ سب قابل تسخیر تھے۔ ان کی عظیم الشان فوجوں کو وہ نہ پہلے کبھی خاطر میں لائے اور نہ آئندہ خاطر میں لانے کو تیار تھے، اس لیے وہ بڑے اطمینان سے لڑائی کی تیاریوں میں مشغول رہے۔ ادھر رومیوں کو ابھی تک خالد سے واسطہ نہ پڑا تھااور وہ ان کے حملے کی شدت سے ناواقف تھے۔ جب اسلامی فوجیں فراض میں اکٹھی ہو گئیں اور برابر ایک مہینے تک ان کے سامنے ڈیرے ڈالے پڑی رہیں تو انہیں بہت جوش آیا اور انہوں نے اپنے قریب کی ایرانی چوکیوں سے مدد مانگی۔

ایرانیوں نے بڑی خوشی سے رومیوں کی مدد کی کیونکہ مسلمانوں نے انہیں ذلیل و رسوا کر دیا تھا اور ان کی شان و شوکت کو تہ و بالا کر کے ان کا غرور خاک میں ملا دیا تھا۔

ایرانیوں کے علاوہ تغلب، ایاداور نمر کے عربی النسل قبائل نے بھی رومیوں کی پوری پوری مدد کی کیونکہ وہ اپنے رؤوسا اور سربرآوردہ اشخاص کے قتل کو بھولے نہیں تھے۔ چنانچہ رومیوں، ایرانیوں اور عربی النسل قبائل کا ایک بہت بڑا لشکر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے روانہ ہوا۔ دریائے فرات پر پہنچ کر انہوں نے مسلمانوں کو کہلا بھیجا کہ تم دریا کو عبور کر کے ہماری طرف آؤ گے یا ہم دریا کو عبور کر کے تمہاری طرف آئیں۔ حضرت خالدؓ نے جواب دیا تم ہی ہماری طرف آ جاؤ۔ تم لڑنے آئے ہو تو ادھر آ جاؤ۔ چنانچہ دشمن کا لشکر دریا عبور کر کے دوسری جانب اترنا شروع ہوا۔ اس دوران میں حضرت خالد بن ولید ؓ نے اپنے لشکر کی اچھی طرح اور باقاعدہ صفیں قائم کر کے انہیں دشمن سے لڑنے کے لیے پوری طرح تیار کر دیا۔ جب لڑائی شروع ہونے کا وقت آیا تو رومی لشکر کے سپہ سالار نے فوج کو حکم دیا کہ تمام قبائل علیحدہ علیحدہ ہو جائیں تا کہ معلوم ہو سکے کس گروہ نے زیادہ شاندار کارنامہ انجام دیا ہےچنانچہ ساری فوج اپنے اپنے سرداروں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ہو گئی۔ لڑائی شروع ہوئی تو حضرت خالد بن ولیدؓ نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ چاروں طرف سے دشمن کو گھیر لیں اور انہیں ایک جگہ جمع کر دیں۔ اس طرح پے در پے حملے کریں کہ سنبھلنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اسلامی دستوں نے رومی لشکر کو گھیر کر ایک جگہ جمع کر دیا اور ان پر پُرزور حملے شروع کر دیے۔ رومیوں اور ان کے حلیفوں کا خیال تھا کہ وہ قبائل کو علیحدہ علیحدہ مسلمانوں کے مقابلے میں بھیج کر لڑائی کو زیادہ طول دے سکیں گے اور جب مسلمان تھک کر چور ہو جائیں گے تو ان پر بھرپور حملہ کر کے انہیں مکمل طور پر شکست دے دیں گے لیکن

ان کا یہ خیال خام ثابت ہوا اور ان کی تدبیر خود ان پر الٹ پڑی۔

جب مسلمانوں نے انہیں ایک جگہ جمع کر کے ان پر حملے شروع کیے تو وہ ان کی تاب نہ لا سکے اور بہت جلد شکست کھا کر میدان جنگ سے فرار ہونے لگے لیکن مسلمان انہیں کہاں چھوڑنے والے تھے، انہوں نے ان کا پیچھا کیا اور دور تک انہیں قتل کرتے چلے گئے۔ تمام مؤرخین اس امر پر متفق ہیں کہ اس معرکہ میں میدانِ جنگ اور بعد ازاں تعاقب میں دشمن کے ایک لاکھ آدمی کام آئے۔ فتح کے بعد حضرت خالدؓ نے فراض میں دس دن قیام کیا اور پچیس ذی قعدہ بارہ ہجری کو انہوں نے اپنی فوج کو واپس حِیْرَہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔

(حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ از محمد حسین ہیکل مترجم صفحہ312تا 315،بک کارنر شوروم جہلم )
(تاریخ طبری جلد 2صفحہ 328دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(معجم البلدان جلد 4 صفحہ 276)

ایک مصنف اس جنگ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں نے حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں پہلی مرتبہ روم و ایران کی دونوں سپر طاقتوں اور ان کے ہمنوا عرب فوجوں کا مقابلہ کیا۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو زبردست فتح حاصل ہوئی اور بلا شبہ یہ معرکہ تاریخی اور فیصلہ کن معرکوںمیں سے رہا۔ اگرچہ اس کو وہ شہرت حاصل نہ ہوئی جو دیگر بڑے معرکوں کو حاصل ہوئی لیکن بہرحال اس سے کفار کی اندرونی قوت ختم ہو گئی خواہ وہ ایران سے تعلق رکھتے ہوں یا روم سے یا عرب اور عراق سے۔ عراق میں خالد سیف اللہ نے جو معرکے سر کیے یہ اس کی آخری کڑی تھی۔ اس معرکہ کے بعد ایرانیوں کی شان و شوکت خاک میں مل گئی۔ پھر اس کے بعد ان کو ایسی جنگی قوت حاصل نہ ہو سکی جس سے مسلمان خوفزدہ ہوں۔

(سیدنا ابو بکر صدیقؓ شخصیت و کارنامے ازصلابی صفحہ423)

ایک مؤرخ نے

جنگ فراض کی اہمیت

کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ اُلیس میں مسلمانوں کی فتح کے بعد ایرانی لشکر کی کمر ٹوٹ گئی۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے پیش قدمی جاری رکھی اور بالترتیب امغیشیا، حیرہ، انبار، عین التمر اور دومة الجندل کو فتح کر لیا اور بالآخر فراض کے مقام تک جا پہنچے۔ فراض دریائے فرات پر واقع ایک شہر تھا جو کہ سلطنتِ روم کی سرحد سے بہت نزدیک تھا۔ یہاں رومیوں، ایرانیوں اور عیسائی قبائل کا متحدہ لشکر مسلمانوں سے نبرد آزما ہوا لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے کفار کی اس بھاری جمعیت کو بھی شکست فاش دی۔ فاتح عراق سیدنا خالد بن ولیدؓ نے عراق کو ایک سال دو ماہ میں فتح کر لیا۔ ان کے ساتھ کل دس ہزار فوجی تھے اور تقریباً اتنے ہی فوجی دیگر اسلامی سپہ سالاروں کے ساتھ تھے۔ اتنی قلیل فوج نے اس مدت میں جو شاندار کارنامے سرانجام دیے وہ تاریخ میں بے مثال ہیں۔ حضرت خالد بن ولیدؓ ہر معرکہ میں شامل ہوئے، انہیں کسی موقع پر بھی شکست کامنہ نہ دیکھنا پڑا۔ دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؓ کو سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب ملا تھا اور آپؓ نے اس خطاب کا حق ادا کر دیا۔ پھر آپؓ نے جو علاقے فتح کیے ان میں اتنا عمدہ بندوبست کیا کہ لوگ ایرانی حکومت کے مقابلے میں عرب حکومت کو پسند کرنے لگے۔ بہرحال عراق کی آخری فتح فراض مقام کی فتح تھی۔ حضرت خالدؓ دس روز تک فراض میں قیام پذیر رہے۔ پھر نصف لشکر لے کر شام کے محاذ پر روانہ ہو گئے۔

عراق کی فتح پر ایک نظر

ڈالتے ہیں۔ اس بارے میں لکھا ہے کہ عراق پر چڑھائی بہت بڑی کامیابی کی علامت تھی۔ وہاں مسلمانوں نے فارسی افواج کو جو ان سے تعداد اور سامان حرب میں کہیں زیادہ طاقتور تھیں پے در پے تباہ کن شکستیں دیں۔ یاد رہے کہ فارسی لشکر اپنے وقت کا سب سے مہلک جنگی لشکر تھا۔ عہد صدیقی کا یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ عسکری میدان میں تمام تر کامیابی خالد بن ولیدؓ اور ان کے رفقاء و سپہ سالاروں کی مرہون منت ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان فتوحات اور کامیابیوں کو حضرت ابوبکرؓ جیسی عظیم شخصیت کی سرپرستی حاصل تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ

کسی فوج کا کوئی بڑے سے بڑا باصلاحیت سپہ سالار ایسے تیقن اور یکسوئی اور وفاداری اور خلوص کا مظاہرہ نہیں کر سکتا جب تک اسے سربراہ مملکت کی ذاتی خوبیوں اور اعلیٰ کردار نے متاثر نہ کیا ہو۔

منکرین اور ارتداد اور بغاوت کی جنگوں سے لے کر فتح عراق کے تمام مراحل کے دوران جس ذاتی نمونے،حسن انتظام اور استقلال کا مظاہرہ حضرت ابوبکر صدیق ؓنے پیش کیا اس نے امت مسلمہ کے دلوں کو بڑی سے بڑی قربانی کے لیے گرمائے رکھا۔ جہاں ان کے تمام احکامات اور ہدایات جامعیت اور فہم و فراست سے لبریز تھے وہاں ان کا ذاتی کردار ان سے کہیں زیادہ ممتاز تھا۔ کوئی راہنما استقلال اور اولوالعزمی کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا پیش کر سکتا ہے کہ ابتدا سے انتہا تک کوئی ایسا موقع نظرنہیں آیا جہاں انہوں نے اپنے جاری کردہ احکام اور ضوابط کو ذاتی وقار یا کسی شخصی دباؤ کے سامنے جھک کر تبدیل کیا ہو۔ یہی نہیں بلکہ باصلاحیت ماتحتوں کی کارگزاری کے لیے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے کے لیے اور ایثار و قربانی کے جذبے کو فزوں تر کرنے کے لیے جس حسن ظن اور اعتماد کا نمونہ حضرت ابوبکرؓ نے پیش کیا اس کی مثال ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ کیا کوئی ماتحت ایسے راہنما کے احکام کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر اٹھا رکھے گا جو بذات خود اپنے راہنما کے ارشادات و فرمودات اور اقدار کی خاطر انتہائی وفا داری اور بے دریغ قربانی پیش کرنے کا زندہ نمونہ ہو جیساکہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود تھے۔ سیدنا حضرت خالد ؓکی عسکری قابلیت بجا طور پر ان کو دنیا کے عظیم سپہ سالاروں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیتی ہے

اپنے مخالفین کے مقابلے میں جن حکمت حرب کے اصولوں کو سیدنا خالدؓ نے اپنایا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ سیدنا خالدؓ نےجن اصولوں کو مرتب کیا وہ عسکری تاریخ کے درخشندہ باب ہیں۔

سیدنا خالد کی ہمت طلب منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے مسلمانوں کی جنگی صلاحیت اور ان کی فوج کی مسلسل حرکت ان کے سب سے اہم وسیلے تھے۔ ان دونوں چیزوں سے سیدنا خالد نے قوت برداشت کی آخری حد تک استفادہ کیا اور یہ صرف اس لیے ممکن تھا کہ انہوں نے اپنے سپاہ کو کبھی ایسی مشکل میں نہیں ڈالا جس کو انہوں نے خود نہ جھیلا ہو۔ جہاں خلیفہ اول کو تاریخ اسلام میں ایک ممتاز ترین مقام حاصل ہے وہاں پر سیدنا خالد ؓبھی ان نامور سپہ سالاروں میں سے سب سے پہلے تھے جو بیرونی علاقوں کو فتح کرنے اور دنیا کے سیاسی و مذہبی نقشے کو نئی شکل دینے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دست راست تھے۔ جس طرح ہر مسلمان حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سیاسی و روحانی راہنمائی میں اور سیدنا خالدؓ کی عسکری قیادت کے ذریعہ عراق کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک تند طوفان کی طرح چھا گئے اب وہ اسی طرح ایک دوسری سلطنت پر دھاوا کرنے والے تھے اور وہ مشرقی روما تھا۔

(سیرت سیدنا صدیق اکبرؓ از ابو النصر مترجم صفحہ679-681)

بہرحال یہ کچھ تھوڑا سا حصہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے کا ہے۔ بقایا ان شاء اللہ آئندہ پیش ہو گا ۔جیسا کہ میں نے کہا تھا کچھ وقت زائد لگے گا۔ یہ جنگوں کا سلسلہ ختم ہوا۔

اگلے جمعہ ان شاء اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ بھی شروع ہو رہا ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسہ کو بابرکت فرمائے۔

شامل ہونے والے جو آ رہے ہیں وہ بھی، ان کا سفر بھی خیریت سے ہو۔خیریت سے آئیں شامل ہونے کے لیے۔ جو ڈیوٹی دینے والے ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فرائض صحیح طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور کیونکہ دو سال بلکہ تین سال کے وقفہ کے بعد بڑا جلسہ ہو رہا ہے، پچھلے سال ہوا تھا لیکن چھوٹے پیمانے پر،تو مکمل طور پر بڑا جلسہ اب ہو رہا ہے اس لیے بعض دقتیں بھی ہوں گی۔

اللہ تعالیٰ جو بھی انتظامی دقتیں ہیں یا جو بھی دقتیں کسی بھی صورت میں پیدا ہو سکتی ہیں ان کو دور فرمائے۔