رمضان سے پہلے غزوات کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلو بیان ہو رہے تھے اور اس ضمن میں

خیبر کی جنگ کے واقعات

کا ذکر ہو رہا تھا۔ آج بھی میں اسی حوالے سےکچھ بیان کروں گا۔ خیبر کی فتح کی خوشی کے ساتھ ہی انہی دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک اَور خوشی کی بات ہوئی۔ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھے خیبر کی فتح کی زیادہ خوشی ہوئی یا اس بات کی۔ اور وہ تھی

حضرت جعفرؓ  کی مہاجرین حبشہ کے ساتھ حبشہ سے واپسی۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ مکہ والوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر وہاں کے کچھ مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد حضرت جعفر بن ابوطالبؓ بھی تھے۔ صلح حدیبیہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عَمرو بن اُمَیّہ ضَمْرِیؓ  کو نجاشی کی طرف ایک خط دے کر حبشہ بھیجا جس میں لکھا تھا کہ اب جتنے مہاجر مسلمان وہاں رہ گئے ہیں ان کو مدینہ میرے پاس بھیج دیا جائے۔ چنانچہ پردیس میں چودہ پندرہ سال بسر کرنے کے بعد یہ لوگ دو کشتیوں میں سوار ہو کر مدینہ پہنچے اور جب انہیں معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف گئے ہوئے ہیں تو یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جلد سے جلد ملنے کی تڑپ میں بےقرار مدینہ رکنے کی بجائے خیبر کی طرف چلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفرؓ کو دیکھا تو کھڑے ہو کر اپنے گلے لگایا۔ دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا کہ

مَا أَدْرِي بِأَيِّهِمَا أَنَا أُسَرُّ: بِفَتْحِ خَيْبَرَ، أَمْ بِقُدُومِ جَعْفَرٍ ۔کہ معلوم نہیں کہ ان دونوں باتوں میں سے مَیں کس بات پر زیادہ خوش ہوں خیبر کی فتح ہونے پر یا جعفر کے آنے پر۔

ان لوگوں کے ساتھ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ بھی اپنی قوم کے پچاس سے زائد لوگوں کے ساتھ پہنچے تھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری کا نام عبداللہ بن قیس تھا اور یہ اشعری قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ اپنی قوم کے کچھ لوگوں کے ساتھ مکے آئے اور اسلام قبول کرنے کے بعد واپس اپنی قوم کے پاس چلے گئے اور پھر کچھ عرصہ بعد اپنے دو بھائیوں اور قوم کے پچاس کے قریب لوگوں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کے لیے بحری سفر پر روانہ ہوئے لیکن دوران سفر طوفانی ہواؤں کی وجہ سے ان کی کشتی حبشہ کے ساحل پر جا لگی اور حبشہ میں ان کی ملاقات حضرت جعفرؓ سے ہوئی اور یہ بھی وہیں رہنے لگے اور اب جب جعفر مدینہ کی طرف آنے کے لیے تیار ہوئے تو اشعری قبیلے کے یہ مسلمان بھی ساتھ تھے۔

انہی کے ہوتے ہوئے قبیلہ دَوس سے کچھ افراد بھی آ گئے۔ ان میں حضرت ابوہریرہؓ اور طفیل بن عمرو اور اس کے ساتھی تھے۔ قبیلہ اشجع کے بھی کچھ لوگ آ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب آنے والوں کو بھی اموال خیبر میں سے کچھ نہ کچھ عطا کیا۔

(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 8صفحہ 402تا 404دارالسلام)
(اسدالغابہ جلد3صفحہ364،جلد6صفحہ299دارالکتب العلمیۃبیروت)
( صحیح بخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، حدیث4230)
(فتح خیبر از باشمیل صفحہ 200مطبوعہ نفیس اکیڈمی)
(الطبقات الکبریٰ جلد اوّل صفحہ265دارالکتب العلمیۃ بیروت)

کشتی والوں کی فضیلت

کے حوالے سے مزید تفصیل یوں بیان ہوئی ہے۔ حضرت جعفرؓ اور ان کے ساتھ دوسرے مسلمان کشتی کے ذریعہ سفرکر کے پہنچے تھے اس لیے ان کو اَصْحَابُ السَّفِیْنَۃ، کشتی والے کہا جاتا تھا۔ جب یہ مدینہ پہنچے تو پندرہ برس کا عرصہ گزر چکا تھا اور یہاں کے مہاجر مسلمان کئی جنگوں میں شامل ہو چکے تھے اور ہجرت میں بھی سبقت لیے ہوئے تھے۔ اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں یہ ذکر بھی ہونے لگا کہ ہم ان سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔ یعنی جو حبشہ میں ہجرت کرنے والے تھے ان سے یہاں کے رہنے والے مہاجر جو مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت جعفرؓ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عُمَیس ام المومنین حضرت حفصہؓ سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئیں۔ وہاں حضرت عمر ؓبھی گئے تو پوچھا کہ یہ کون خاتون ہیں؟ تو حضرت حفصہؓ نے بتایا کہ اسماء بنت عمیس ہیں۔ حضرت عمرؓ  کہنے لگے کہ اچھا وہ حبشہ والی۔ سمندر کا سفر کرنے والی۔ حضرت اسماء بولی جی ہاں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہم نے ہجرت مدینہ میں تم سے سبقت حاصل کی ہے۔ اس لیے ہم تمہاری نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ قریب ہیں۔ یہ سن کر حضرت اسماء رنج اور غصہ سے بولیں۔ اللہ کی قسم !ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ تم لوگ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا کرتے تھے وہ تمہارے بھوکے کو کھانا دیتے۔ تمہارے کم علم کو نصیحت کرتے جبکہ ہم اپنے وطن سے دور پردیس میں دُور دراز دشمن ملک میں تھے۔ ہمیں وہاں طرح طرح کے ڈر اور خوف لاحق ہوتے تھے ہم نے یہ سارے دکھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر برداشت کیے۔ کہنے لگیں کہ بخدا میں اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گی جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ نہ لوں۔ ہاں میں اتنی ہی بات کروں گی جتنی آپ نے کی ہے نہ کم کروں گی نہ زیادہ۔ پوری بات بتاؤں گی جا کے۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور یہ ساری بات بیان کی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ، وَلَهٗ وَلِأَصْحَابِهٖ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ،
وَلَكُمْ أَنْتُمْ أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ

وہ تم سے زیادہ حق نہیں رکھتے بلکہ ان کی اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تمہاری یعنی حبشہ کی طرف کشتی کے ذریعہ سفر کرنے والوں کی دو ہجرتیں ہیں۔

اس طرح آپؐ نے ان کی دلجوئی فرمائی اور ان کا غم جو تھا وہ دور ہوا۔ حضرت اسماء نے جب یہ سنا تو فخر و سعادت کا یہ اعزاز اپنے ساتھیوں کو بتایا۔ حضرت اسماء بیان فرماتی ہیںکہ پھر حبشہ والے افراد گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور بڑے اشتیاق سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک مجھ سے سنتے اور دنیا میں کوئی چیز انہیں اتنی خوشی نہ دیتی تھی اور نہ ان کے لیے کوئی اور بات اتنے مرتبہ والی تھی جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ بعض تو بار بار میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سننے کے لیے آتے۔

(صحیح بخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر حدیث 4231،4230)

یہاں

ایک حبشی غلام کا بھی ذکر ملتا ہے جو مسلمان ہوا تھا اور اس کی شہادت بھی ہوئی۔

روایت میں ہے کہ خیبر کے ایک شخص کا حبشی غلام یسار تھا وہ اس کا ریوڑ چرایا کرتا تھا۔ اس نے جب خیبر والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لیے ہتھیار اٹھائے دیکھا تو اس نے اہل خیبر سے سوال کیا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا ہم اس آدمی سے جنگ کریں گے جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے۔ اس کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر بیٹھ گیا یعنی یہ بات اس کے دل میں گڑھ گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے اور نبی کا دعویٰ ہے تو یقیناً کوئی بات ہو گی۔ وہ اپنی بکریوں کو لے کر نکلا تا کہ ان کو چرائے۔ مسلمانوں نے اسے پکڑ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔

دوسری روایت ذرا تھوڑی سی تفصیلی ہے اور وہ یہ ہے۔ اس کے مطابق وہ غلام خود بکریاں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے گفتگو کی۔ اس نے کہا آپؐ کس چیز کی طرف بلاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اسلام کی طرف بلاتا ہوں اور یہ کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں اور تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے۔ اس غلام نے کہا کہ اگر میں اس کی گواہی دے دوں تو مجھے کیا ملے گا اور میں اللہ پر ایمان لے آؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم اس پر ایمان لے آؤ تو تیرے لیے جنت ہو گی۔ پس وہ غلام اسلام لے آیا اور اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !بیشک میں ایسا آدمی ہوں جس کا رنگ سیاہ ہے اور چہرہ بھی خوبصورت نہیں ہے۔ بدبو والا بھی ہوں اور میرے پاس مال بھی نہیں ہے۔ اگر میں ان سے قتال کروں اور میں قتل کر دیا جاؤں تو کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔ حبشی غلام نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ بکریاں میرے پاس امانت ہیں ان کا کیا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو لشکر سے نکال کر لے جاؤ اور خالی میدان میں چھوڑ دو۔ بیشک اللہ تعالیٰ تیری امانت تیری طرف سے ادا کر دے گا۔ یعنی یہ ان تک پہنچ جائیں گی۔

وہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اموالِ غنیمت حاصل کرنے کے لیے جنگیں کیں۔ اور خاص طور پر خیبر کے حوالے سے بھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہود کے اموال پر ناجائز قابض ہونے کے لیے یہ ظلم کیے گئے تھے۔ اگر یہ بات درست ہوتی تو عین جنگ کی حالت میں دشمن کی بکریوں کا ایک ریوڑ اور خیبر میں صحابہ کی بھوک سےجو حالت تھی کہ بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے ۔کھانے کو کچھ نہیں تھا تو یہ بکریاں تو مفت کا مالِ غنیمت تھا۔ استعمال کر سکتے تھے لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی حالت میں بھی امانت کا حق ادا کرتے ہوئے بکریاں واپس کرنے کا ارشا د فرمایا۔

بہرحال اس نے ایسا ہی کیا۔ وہ بکریاں اکٹھی ہو کر نکلیں گویا کہ کوئی ہنکانے والا ان کو ہنکا رہا ہو یہاں تک کہ ہر بکری اپنے مالک کے پاس پہنچ گئی۔ پھر وہ آگے بڑھا اور اس نے قتال کیا۔ جنگ میں شامل ہوا۔ یہاں تک کہ ایک تیر اس کو آ لگا اور وہ شہید ہو گیا۔ حالانکہ اس نے ایک سجدہ بھی نہیں کیا تھا۔ ابھی تو نیا نیا مسلمان ہوا تھا۔ کوئی نمازیں وغیرہ بھی نہیں پڑھی تھیں۔ اور مسلمان اس کو اٹھا کر اپنے لشکر میں لے آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو خیمہ میں داخل کرو۔ صحابہؓ نے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ میں داخل کر دیا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اس کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور وہ شہید ہو گیا تھا۔

آپؐ نے فرمایا کہ اللہ نے تیرے چہرے کو خوبصورت بنا دیا اور تیری بدبو کو خوشبو دار بنا دیا اور تیرے مال کو زیادہ کر دیا۔ اس کے لیے دعا کی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تو اس کو جنت میں پہنچا دیا۔

(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ 129 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(طبقات الکبریٰ جلد2 صفحہ82 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

حضرت مصلح موعودؓ نے بھی یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ’’خیبر کے محاصرہ کے دنوں میں ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا مسلمان ہو گیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے کہا یا رسول اللہؐ! میں اب ان لوگوں میں تو جا نہیں سکتا اور یہ بکریاں اس یہودی کی میرے پاس امانت ہیں۔ اب میں ان کو کیا کروں ؟ آپ نے فرمایا: بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف کر دو اورا ن کو دھکیل دو۔ خدا تعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا۔ چنانچہ اس نے اسی طرح کیا اور بکریاں قلعہ کے پاس چلی گئیں جہاں سے قلعہ والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن،انوارالعلوم جلد 20 صفحہ 327)

خیبر کے موقع پر بعض فقہی مسائل

کا بھی ذکر ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا۔

(صحیح بخاری،کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر،حدیث 4218)

اسی طرح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت علیؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے دن گھریلو گدھے کے گوشت اور متعہ سے منع فرما دیا۔

(صحیح بخاری کتاب الذبائح والصید باب لحوم الحمر الانسیۃ حدیث 5523)

اہل فَدَکْ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت

کا بھی ذکر ہے۔ فَدَکْ مدینہ سے چھ رات کی مسافت پر خیبر کے قریب واقع ہے۔

(فرہنگ سیرت صفحہ225 زوار اکیڈمی کراچی)

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے قریب پہنچے تو آپؐ نے مُحَیِّصَہ بن مسعود کو فَدَک کی طرف روانہ فرمایا کہ ان کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور ان کو ڈرائیں کہ تم پر بھی حملہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی شرارتیں کرنے میں کافی بڑھے ہوئے تھے یا کسی نہ کسی طریقے سے مسلمانوں کو تنگ کرتے تھے یا کوئی ایسی بات کرتے تھے جس سے کسی نہ کسی رنگ میں نقصان پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ تم پر بھی حملہ ہو سکتا ہے جیسے خیبر پر ہم کر رہے ہیں۔ حضرت مُحَیِّصَہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان کے پا س گیا اور ان کے پاس دو دن رہا لیکن وہ پس و پیش کرتے رہے اور کہنے لگے کہ خیبر میں دس ہزار جنگجو ہیں اور ان میں عامر، یاسر، حارث اور یہودیوں کے سردار مَرْحَب جیسے لوگ شامل ہیں۔ ہم نہیں سمجھتے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان تک پہنچ سکیں گے۔ حضرت محیصہ بیان کرتے ہیں کہ جب مَیں نے ان کی شرارت اور ہٹ دھرمی کو دیکھا تو میں نے لوٹنے کا ارادہ کیا۔ کہتے ہیں پھر اس قبیلے کے لوگوں نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ اپنے چند آدمی بھیجتے ہیں جو ہماری طرف سے صلح کا پیغام لے کر جائیں گے اور گمان کر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کو فتح نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے کہہ تو دیا کہ ٹھیک ہے ہم آدمی بھیجتے ہیں لیکن خیال ان کا یہی تھا کہ خیبر تو فتح نہیں ہونا۔ پس وہ اسی طرح کرتے رہے۔ ٹال مٹول کر رہے تھے، یہ باتیں کر رہے تھے کہ اچھا بھیجتے ہیں آدمی حتّٰی کہ ان کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے انہیں خبر دی کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قلعہ ناعم کو فتح کر لیا ہے تو اس پر فدک والے سہم گئے اور انہوں نے اپنے سرداروں میں سے ایک شخص کو ایک جماعت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا جس کو نُون بن یُوشَع کہا جاتا تھا۔ اس نے حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم سے اس بات پر صلح کر لی جائے کہ ہماری جان بخشی ہو جائے اور ہم لوگ اپنا مال و متاع لے کر فدک سے چلے جائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست قبول کر لی۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ فدک والوں نے اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کی تھی کہ آدھی زمینیں ان کے لیے چھوڑ کر باقی آدھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے لیں۔ چونکہ یہ بستی بغیر جنگ کے حاصل ہوئی تھی۔ لہٰذا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فَے کا مال تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی آمد میں سے خرچ کیا کرتے تھے۔

(سبل الھدی جلد5 صفحہ138 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سیرت الحلبیہ جلد3 صفحہ74 دار الکتب العلمیۃ بیروت)

خیبر کے اموالِ غنیمت اور اس کی تقسیم

کے بارے میں ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف چلے اور غنیمت میں ہم کو سونا اور چاندی نہ ملا۔ صرف اونٹ، مویشی، سامان اور باغات ملے اور ایک روایت میں ہے کہ اموال کپڑے اور سامان تھے۔

صرف چند قلعوں سے ملنے والا جو اسلحہ تھا اس کی تفصیل یہ ہے جس میں ایک ہزار نیزے، چار سو تلواریں اور پانچ سو کمانیں ملیں۔ بُشَیر بن یَسَار سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو مجموعی طور پر چھتیس حصوں میں تقسیم فرمایا۔ آپؐ نے ان میں سے نصف یعنی اٹھارہ حصے مسلمانوں کے لیے محفوظ فرمائے جن میں سے ہر ایک سو حصوں پر مشتمل تھا یعنی ایک ہزار آٹھ سو حصے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ایک حصہ ان میں سے کسی ایک حصے کی طرح تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا حصہ بھی ان کے برابر ہی تھا جتنا باقیوں کا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ گھوڑ سوارکے تین حصے تھے اور پیدل چلنے والے کا ایک حصہ تھا۔

آپؐ نے باقی نصف، آئندہ حالات و معاملات و حوادث اور مسلمانوں کو پیش آنے والے امور کے لیے مخصوص کر دیا تھا۔ وہ reserve فنڈ میں چلا گیا اور یہ وَطَیِحْ، کَتِیْبَہ اور سُلَالِمْ اور اس کے متعلقات تھے۔ یہ وہاں کی جائیدادیں تھیں۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر حدیث4228)
(سنن ابو داؤد باب ماجاء فی ارض خیبر حدیث3012 ،3014)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد5 صفحہ141 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فتح خیبر از باشمیل صفحہ 188 مطبوعہ نفیس اکیڈمی )

ایک روایت میں ہے کہ کَتِیْبَہ سے اللہ تعالیٰ کا خُمُس اور نبی کا حصہ اور قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کا حصہ اور نبی کی ازواجِ مطہرات کا خرچ تھا اور ان لوگوں کا حصہ نکالا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ فدک کے درمیان سفارت کاری کا کام کرتے تھے۔ ان میں سے ایک حضرت مُحَیِّصَہ بن مسعود تھے۔ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تیس وسق جَو اور تیس وسق کھجور دی۔ ایک وسق میں ساٹھ صاع ہوتے ہیں اور ایک صاع کم از کم اڑھائی کلو کا ہوتا ہے۔ یوں اندازاً چار ہزار پانچ سو کلو جَو اور چار ہزار پانچ سو کلو کھجور دی گئی۔

خیبر کے اموالِ غنیمت عمومی طور پر صرف انہی لوگوں میں تقسیم کیے گئے جو صلح حدیبیہ میں حاضر تھے۔ البتہ استثنائی طور پر ان کے علاوہ حضرت جابر بن عبداللہ بن عمروؓ کو حصہ دیا گیا۔ اور اسی طرح حبشہ سے واپس آنے والے اور حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ کچھ اور لوگوں کو بھی مال غنیمت میں سے دیا گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جو خُمُس تھا اس سے ہتھیار اور کپڑے وغیرہ خریدتے تھے اور اس سے اہلِ بیت کو دیتے اور بنو مُطَّلِب کو بھی دیتے تھے اور ان کی یتیم عورتوں اور سائل کو بھی دیتے تھے۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ خیبر میں تقسیم کے متولی جَبَّار بن صَخْر انصاری جو بنو سلمہ کے فرد تھے اور زید بن ثابت بنو نجار سے تھے یہ دونوں حساب کر کے تقسیم کرنے والے تھے۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت کے جمع کرنے کا حکم دیا تو مال جمع کر دیا گیا۔ اس پر فَرْوَہ بن بَیَّاضِی کو نگران مقرر فرمایا اور شمار کرنے کی ذمہ داری حضرت زید بن ثابتؓ کے ذمہ لگائی۔ حضرت عبداللہ بن مُغَفَّل ؓبیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک توشہ دان ملا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ توشہ دان چربی سے بھرا ہوا تھا۔ میں نے کہا میں اس سے کسی کو کچھ نہ دوں گا۔ میں آپ کے سامنے سے گزرا۔ میں نے شرم محسوس کی تو میں اس کو بغل میں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا اور چھپا لیا۔ راستہ میں مجھے مالِ غنیمت کا نگران ملا۔ اس نے اس کا کنارہ پکڑا اورکہا کہ ادھر لے آؤ۔ ہم اس کو تقسیم کریں گے۔ میں نے کہا ہرگز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی قَسم! میں تجھ کو یہ ہرگز نہ دوں گا۔ اس نے مجھ سے وہ تھیلی کھینچنا شروع کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا۔ آپ مسکرانے لگے اور نگران کو فرمایا: اس کو چھوڑ دو تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا تو میں اپنا سامان لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس گیا۔ پھر ہم نے اس کو کھا لیا۔ یہ تھا آپؐ کا شفقت کا اظہار اپنے صحابہ کے ساتھ۔ ٹھیک ہے اس نے لے لیا تو جانے دو۔ اس کو لے جانے دو۔

ابن اسحاق نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ لُقَیْم کو پالتو مرغیاں اور پالتو جانور عطا کیے۔ یعنی جو کچھ بھی تھا ہر چیز تقسیم ہوتی تھی۔

خیبر میں شریک ہونے والی عورتوں کو بھی دیا گیا۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر میں مسلمانوں کی بعض عورتیں حاضر تھیں تو آپ نے ان کو مال فے میں سے کچھ عطا فرمایا۔ البتہ مال غنیمت میں باقاعدہ حصہ نہ نکالا۔ بنو غِفَار کی ایک عورت کہتی ہے کہ میں بنو غِفَار کی چند عورتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔ ہم سب نے کہا: اے اللہ کے رسول!ہم آپ کے ساتھ نکلنا چاہتی ہیں اور اس وقت آپؐ خیبر کی طرف جا رہے تھے۔ عورتوں نے کہا ہم زخمیوں کا علاج کریں گی اور مسلمانوں کی مدد کریں گی۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت کے ساتھ چلو۔ ٹھیک ہے اجازت ہے۔ ہم آپؐ کے ساتھ نکل پڑیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو فتح کیا تو مال میں سے آپ نے ہمیں بھی دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہار پکڑا اور میری گردن میں پہنایا۔ یہ روایت کرنے والی کہتی ہیں۔ خدا کی قسم !وہ ہار ہر وقت میرے ساتھ یعنی گردن میں آویزاں رہتا ہے۔ میں ایک لمحے کے لیے بھی اس کو اپنے سے جدا نہیں کرتی۔ یہاں تک کہ اس صحابیہ نے وصیت کی تھی کہ اس ہار کو میرے ساتھ ہی دفن کیا جائے اور اس ہار کو جو گرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لگائی ہے کوئی ہاتھ اس گرہ کو نہ کھولے۔ قبیلہ بنو غِفَار کی اس عورت کا نام اُمَیَّہ بنت قَیْس اَبُوصَلْت بیان کیا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن اُنَیس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں خیبر کی طرف نکلاا ور میرے ساتھ میری بیوی بھی تھی وہ حاملہ تھی۔ راستے میں ہی بچہ پیدا ہو گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ نے فرمایا اس کے لیے کھجوریں بھگو دو اور جب وہ اچھی طرح تر ہو جائیں تو ان کو پینے کا حکم کرو۔ یعنی پانی میں بھگو دو اور اس میں جو پانی ہو گا وہ رس نکلا ہوا وہ اس کو پلاؤ۔ میں نے ایسا کیا تو اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ کمزوری دور ہو گئی جو بچے کی پیدائش پہ تھی۔ جب ہم نے خیبر کو فتح کیا تو ان کے لیے حصے نہیں نکالے گئے مگر آپ نے عورتوں کو بھی مال فَے میں سے، فَدَک کے مال میں سے دیا۔ میری بیوی کو بھی دیا اور میرے اس بچے کو بھی دیا جو راستے میں پیدا ہوا تھا۔

(سبل الھدی والرشاد جلد5 صفحہ141 تا 144 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(طبقات الکبریٰ جلد اوّل صفحہ 265، جلد 8صفحہ 227-228 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 648، جلد 4 صفحہ 487 مطبوعہ نعمانی کتب خانہ)

یہاں

تورات کے صحیفے یہودیوں کو واپس کرنے کا ذکر

بھی ملتا ہے۔ خیبر کے قلعوں سے جب مال غنیمت اکٹھا کیا گیا تو اس میں تورات کے کچھ صحائف بھی ملے۔ یہود نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی واپسی کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بحفاظت ان کے صحائف واپس کرنے کا حکم دیا۔ (سیرت حلبیہ جلد3 صفحہ62 دار الکتب العلمیۃ بیروت) جو تورات لکھی ہوئی تھی اُسے واپس کر دیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مذہبی رواداری اور مذہبی جذبات اور احساسات کی پاسداری کا کمال تھا کہ ان کی تورات کو بحفاظت واپس کرنے کا حکم دیا۔ آجکل کی طرح یہ نہیں کہ جلائے جائیں۔ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی میں قرآن کریم کو جلایا جائے۔ آپؐ نے تو یہ نمونہ دکھایا تھا کہ ان کے جو صحیفے ہیں ان کومحفوظ رکھو اور ان کو واپس کر دو۔

خیبر سے واپسی پر

غزوۂ وادی القُریٰ

کا بھی ذکر ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد چند دن وہاں قیام کیا۔ پھر آپؐ اسلامی لشکر کے ساتھ واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو وادی القریٰ میں یہود سے مقابلہ ہوا۔ تَیْمَاء اور خیبر کے درمیان ایک وادی ہے جس میں بہت سی بستیاں آباد ہیں۔اس کو وادی القریٰ کہتے ہیں۔ قدیم زمانے میں عاد اور ثمود یہاں آباد تھے۔ یہ دو قومیں ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں بھی ملتا ہے۔ یہ قومیں آباد تھیں۔ اسلام سے پہلے یہود ان بستیوں میں آ کر آباد ہوئے اور زراعت اور آب رسانی کو بہت ترقی دی اور یہود کا یہ ایک مرکز بن گیا۔

(سیرت النبی ﷺ،شبلی،جلد 1صفحہ 288مکتبہ رحمانیہ)

اس موقع پر حضرت ابوہریرہؓ کی ایک روایت ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے خیبر فتح کیا۔ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی القریٰ میں آئے اور آپؐ کے ساتھ آپؐ کا ایک غلام تھا جسے مِدْعَم کہتے تھے۔ جسے بَنُو ضِبَاب میں سے کسی نے آپ کو بطور ہدیہ پیش کیا تھا۔ اس اثنا میں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کجاوہ اتار رہا تھا اس کی طرف ایک نامعلوم شخص کا تیر آیا یہاں تک کہ وہ اس غلام کو لگا اور وہ فوت ہو گیا۔ لوگ کہنے لگے کہ اس کے لیے شہادت مبارک ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے !وہ چادر اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے جو اس نے خیبر کے دن غنیمت کے مال سے لے لی تھی جبکہ ابھی اس کے حصے تقسیم نہیں ہوئے تھے۔ یعنی مال غنیمت جو اکٹھا ہو رہا تھا اس میں سے اس نے وہ چادر چرا لی تھی۔ تو ایک شخص نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا کہ یہ تو بڑی خطرناک بات ہے۔ یہ تو اس چادر کو چرانے کی وجہ سے جہنم میں جا رہا ہے تو وہ ایک تسمہ یا دو تسمے لے کر آیا اور عرض کیا یہ وہ چیز ہے جس کو میں نے لے لیا تھا۔ میں نے بھی اسے پہلے اٹھا لیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک تسمہ ہےیا دو تسمے وہ آگ میں لے جانے کا موجب ہوتے ہیں۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر حدیث 4234)

چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اگر چوری کی ہے تو وہ تمہارے لیے سزاکا باعث بنے گی۔ بہرحال

اس جنگ کی تفصیل

میں مزید لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں کے یہود سے جنگ کے لیے صحابہؓ کی صف آرائی کی اور ایک جھنڈا حضرت سعد بن عُبَادہؓ کو، ایک جھنڈا حضرت حُبَاب بن مُنذِرؓ کو، ایک جھنڈا حضرت سہل بن حُنَیفؓ کو اور ایک جھنڈا حضرت عَبَّاد بن بِشرؓ کو دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو اسلام کی دعوت دی اور انہیں بتایا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیں گے تو اپنی جانیں اور اموال بچا لیں گے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہو گا لیکن یہود نے انکار کر دیا اور جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔

سب سے پہلے ایک یہودی مبارزت کے لیے نکلا تو حضرت زبیرؓ نے اسے قتل کر دیا۔ پھر ایک اَور یہودی نکلا تو حضرت علیؓ نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد ایک یہودی نکلا تو حضرت ابودُجَانہ ؓنے اسے قتل کر دیا۔ اس طرح رات تک لڑائی ہوتی رہی یہاں تک کہ یہود کے کُل گیارہ آدمی مارے گئے۔

جب اگلا دن آیا تو ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ یہود نے ہتھیار ڈال دیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی القریٰ کو فتح کر لیا۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں کے یہود کے اموال بطور غنیمت آپؐ کو دیے اور مسلمانوں کو اس سے بہت سا مال و متاع حاصل ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی القریٰ میں ہی مسلمانوں کے درمیان مال غنیمت تقسیم کیا اور زمینیں اور نخلستان یہود کے ہاتھوں میں ہی دے کر انہیں ان پر عامل بنا دیا۔ جس طرح خیبر کے یہود کو ان کا عامل بنایا تھا کہ اچھا تم یہ اپنے پاس رکھو اور کمائی کرو اور دیتے رہا کرو۔

علامہ بلاذری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن سعید بن عاصؓ کو وادی القریٰ کا والی مقرر کیا۔ آپؐ نے چار دن تک وادی القریٰ میں قیام فرمایا۔ پھر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔

(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد5صفحہ 149مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ86دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(لؤلؤالمکنون،جلد3صفحہ465دارالسلام)

اس کی مزید تفصیل ان شاء اللہ آئندہ۔ اس وقت میں

کچھ مرحومین کا ذکر

کروں گا اور پھر ان کے جنازہ غائب بھی ان شاء اللہ نماز کے بعد ہوں گے۔

پہلا ذکر

مکرم مولانا محمد کریم الدین شاہد صاحب کا ہے
جو صدر۔ صدر انجمن احمدیہ قادیان تھے۔

گذشتہ دنوں رمضان کے دنوں میں ستاسی سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم موصی بھی تھے۔

ان کے والد بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے تھے اور مختلف جگہوں پر وہ پرائیویٹ ملازمت کیا کرتے تھے۔ گاؤں میں یہ لوگ رہتے تھے وہاں تعلیم کا مناسب انتظام نہیں تھا تو حیدر آباد کلکتہ کے چنتہ کُنٹہ کے محترم سیٹھ محمد معین الدین صاحب نے حصول تعلیم کے لیے کریم الدین صاحب کو قادیان بھجوایا۔ 1954ء میں مدرسہ احمدیہ میں حصول تعلیم کے لیے داخل ہوئے۔ 1957ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔ پھر مولوی فاضل کی تیاری کر کے 1960ء میں پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں مزید تعلیم کے لیے ربوہ بھی گئے، وہاں دو سال جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی اور شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ اس طرح انڈیا میں شاہد کی ڈگری حاصل کرنے والے آپ پہلے مربی تھے۔

قادیان میں مختلف خدمات کا ان کو موقع ملتا رہا اور اس دوران یہ ممبر صدر انجمن احمدیہ قادیان بحیثیت عالم مقرر ہوئے اور 2021ء تک یہ ممبر رہے۔ پھر ایڈیشنل ناظم ارشا د وقف جدیدبیرون کی خدمت کی توفیق بھی ان کو ملی۔ صدر عمومی کے طور پر بھی ان کو کام کرنے کی توفیق ملی۔ صدر مجلس وقفِ جدید کے طور پہ بھی خدمت کی توفیق ملی۔ پھر جامعہ میں پرنسپل بھی رہے۔ یہ دو دفعہ بنے۔ دارالقضاء میں صدر قضاء بورڈ بھی رہے۔ صدر مجلس کارپرداز بھی تھے۔ پھر 2021ء میں ان کو میں نے صدر۔ صدر انجمن احمدیہ مقرر کیا تھا اور وفات تک وہ اسی عہدے پر فائز رہے۔

انعام غوری صاحب ناظر اعلیٰ قادیان کہتے ہیں کہ مرحوم نہایت سادہ طبیعت اور انتہائی قناعت کے ساتھ زندگی بسر کرنے والے انسان تھے اور یہ حقیقت ہے۔ میں نے بھی یہ دیکھا ہے۔ مرحوم کو سلسلہ کی طرف سے جو وظیفہ ملتا یا آمد ہوتی اسی میں سفید پوشی کے ساتھ گزارہ کرتے اور قرضہ اٹھا کر اخراجات کرنے کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ نہایت خوش خط اور اعلیٰ درجہ کے کاتب تھے۔ جب تک کمپیوٹر پر کمپوزنگ کا سلسلہ شروع نہیں ہوا اخبار بدر اور سلسلہ کی کتب اور رسائل کی کتابت کی توفیق ان کو ملتی رہی۔ اچھے مقرر تھے۔ مضمون نگار تھے۔ جلسہ قادیان اور دیگرجماعتی تقاریب اور تربیتی جلسوں میں تقریر کرنے کا موقع ملتا رہا۔ قادیان سے ایم ٹی اے پر لائیو نشر ہونے والے راہ ہدیٰ پروگرام میں لمبا عرصہ سوالوں کے جواب دینے کی بھی توفیق ان کو ملی۔ گردوں کی بیماری تھی ۔کمزور بھی ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود بڑی ہمت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کا نمونہ واقعی قابل تقلید تھا۔ قادیان کے گذشتہ جلسہ 2024ء کی صدارت بھی کی۔ بیماری کے باوجود اور کمزور صحت کے باوجود بڑی ہمت سے انہوں نے تین دن یہ صدارت کی۔ افتتاح کیا۔ اسی طرح انہوں نے گذشتہ شوریٰ کی بھی صدارت کی۔

اللہ تعالیٰ نے باسٹھ سال کا لمبا عرصہ ان کو خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائی۔ زندگی کے آخری دنوں میں گھر والوں کو اس بات کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میری پیدائش رمضان کے مہینے میں ہوئی ہے یہ دیکھنا کہ میری وفات بھی رمضان میں ہوگی۔ چنانچہ ستائیس رمضان المبارک میںان کی وفات ہوئی۔ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے

بہت محنتی اور عاجز انسان تھے۔ ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ اپنے کام خود کریں۔ کسی پر بوجھ نہ بنیں بلکہ اپنے ذاتی کام بھی خود کیا کرتے تھے۔ عالم باعمل انسان تھے۔ وقف کاجو عہد کیا تھا اس کو نبھانے کا انہوں نے حق ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔

ان کی پہلی شادی اقبال بیگم صاحبہ سے ہوئی تھی جن سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کی وفات ہو گئی تو پھر ان کی دوسری شادی ہوئی۔ ان کے بچے بیٹیاں داماد وغیرہ سب کو خدمت دین کی توفیق مل رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نسلوں میں بھی ان کی خدمت دین کا جذبہ قائم رکھے۔

دوسرا ذکر عبد الرشید یحییٰ صاحب کا ہے جو صدر قضاء بورڈ کینیڈا تھے۔

گذشتہ دنوں میں انہوں نے ریٹائرمنٹ لی تھی۔ پچھتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔مرحوم بھی موصی تھے۔

ان کے والد نے 1945ء کے قریب مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا محمد علی صاحب ایم اے کے ساتھ کافی طویل گفتگو اور تحقیق اور بحث مباحثے اور پوری اتمامِ حجت کے بعد حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دست مبارک پر بیعت کی تھی۔ پورے گاؤں میں اکیلے احمدی تھے اور گاؤں والے باوجود مذہبی اختلاف کے آپ کا بےحد احترام کرتے تھے۔

تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی اے کی ڈگری لینے کے بعد جامعہ میں داخلہ لیا۔ پھر اپنی زندگی وقف کی اور 1975ء میں میدانِ عمل میں آئے۔ مقامی طور پر پاکستان میں شروع میں تقرریاں ہوتی رہیں۔ پھر امریکہ، کینیڈا اور گوئٹے مالا میں خدمت کی توفیق پائی۔ جنوبی افریقہ میں بحیثیت نیشنل پریذیڈنٹ اور مشنری انچارج خدمت کی توفیق پائی۔ گوئٹے مالا اور جنوبی کوریا میں بحیثیت مبلغ انچارج و نیشنل صدر کے خدمت کی توفیق ملی۔ جامعہ احمدیہ کینیڈا میں وائس پرنسپل کی توفیق ملی۔ اس کے ساتھ آپ وہاں کلاسیں بھی لیا کرتے تھے۔ طلبہ کو تفسیر القرآن اور علم الکلام پڑھاتے تھے۔

2017ء میں ان کی تقرری صدر قضاء بورڈ کینیڈا کے طور پر ہوئی تھی۔ 2023ء تک اس خدمت پر مامور رہے۔ گوئٹے مالا میں جب آپ تھے تو وہاں بدھ مذہب کے روحانی راہنما دلائی لامہ سے بھی ان کی گفتگو ہوئی اور اس کو اسلام کا پیغام پہنچایا۔ ان کے پسماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

ان کے بیٹے قاسم رشید صاحب کہتے ہیں کہ جماعت کا بےحد احترام تھا۔ اس کے خلاف کوئی بات بھی آپ کے لیے ناقابل برداشت ہوتی تھی اور نظام جماعت پر ہونے والے کسی بھی اعتراض کا پوری طرح سے جواب دیتے۔ معترض کی پوری طرح بات سن کر اس کو غلطی کا احساس دلاتے۔ ساری زندگی کہتے ہیں مَیں نے اپنے والد کو نماز باجماعت اور خصوصیت سے تہجد کا التزام کرتے دیکھا۔ بیماری کتنی ہی شدید ہوتی تھی نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کرتے۔ آخری بیماری میں بھی یہی حال تھا۔ ہمیشہ بیماری کو بھی انہوں نے الحمدللہ ہی کہتے گزارا۔ آخری سال میں کافی بیمار ہو گئے تھے لیکن بڑے صبر شکر سے بیماری گزاری ہے اور یہی کوشش تھی اور اس بات کی طرف انہوں نے اپنی اولاد کو بھی بار بار تلقین کی کہ خلافت سے وابستہ رہنا۔ اور کہتے ہیں کہ مجھے ہمیشہ حوصلہ دیتے کہ میں سوشل میڈیا پر خلافت کے بارے میں فخر اور بے خوفی سے لکھوں کیونکہ یہی مسلم دنیا اور تمام انسانیت کے اتحاد کا حقیقی حل ہے۔

انہوں نے بھی وقف کو وفا سے نبھایا۔

1980ء اور 90ء میں جب ایم ٹی اے وغیرہ باقاعدہ شروع نہیں تھا اس دہائی میں حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ کے خطبات اور حضرت خلیفہ ثالثؒ کے خطبات کاپی کر کے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ خود کاپی کرتے اور اس کی ڈپلیکیٹ بناتے اور پھر لوگوں تک چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر پہنچاتے تاکہ خلیفہ وقت کا پیغام لوگوں تک پہنچ جائے اور ایک تعلق جو ہے وہ قائم رہے۔

ان کے بھانجے منصور نور الدین صاحب ہیں۔ وہ بھی ربوہ میں مربی سلسلہ ہیں۔ کہتے ہیں تقریباً ترپن برس تک وقف کی ذمہ داریوں کو نہایت اخلاص و وفا داری کے ساتھ انہوں نے نبھایا۔ کہتے ہیں میں نے ان کو یہی دیکھا ہے کہ وقف کے ساتھ بے لوث وابستگی اور نظام جماعت کے شایان شان نمائندہ ہونے کا حق ادا کیا اور خلیفہ وقت کا مطیع و فرمانبردار اور محبت کرنے والا ان کو دیکھا۔

جامعہ میں تقرر ہوا تو وہاں اپنے مضمون کی، لیکچر کی اس لیے تیاری کرتے تھے کہ جامعہ کے طلبہ بہترین طالب علم، بہترین مربی، بہترین مبلغ بن کے نکلیں اور یہ کہا کرتے تھے کہ خلیفہ وقت نے مجھ پہ جامعہ کے طلبہ کو پڑھانے کا اعتماد کیا ہے مجھے اس اعتماد پر پورا اترنا چاہیے۔

مرزا محمد افضل صاحب بھی مربی تھے۔ کہتے ہیں کہ مزاج کے بہت شستہ اور خوشگوار تھے۔ بہت محنتی اور سنجیدہ واقف زندگی تھے۔ خدمت سلسلہ کو ہر کام پر ترجیح دیتے اور تعاون کرنے میںبھی کبھی دریغ نہیں کیا۔

عبدالنور عابد صاحب نے کہا کہ ہمیں تفسیر القرآن پڑھایا کرتے تھے۔ نہایت محبت اور محنت سے ہمیں پڑھاتے تھے اور نوٹس بڑے لکھواتے تھے اور پھر بڑے غور سے چیک بھی کرتے تھے۔ کہتے ہیں ان کے پڑھائے ہوئے نوٹس آج بھی ہمارے کام آ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا ذکر

مرزا امتیاز احمد صاحب امیر ضلع حیدرآباد سندھ

ابن مرزا نذیر احمد صاحب کا ہے۔ گذشتہ دنوں میں ان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا مکرم علم دین صاحب مرحوم کے ذریعہ آئی جنہوں نے خلافت اولیٰ کے زمانے میں پہلے تحریری اور پھر جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر قادیان جا کر دستی بیعت کی سعادت حاصل کی۔ مرحوم مرزا امتیاز احمد صاحب نے بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ میڈیکل سٹورکھولا۔ مرحوم کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نوجوانی سے زندگی کے آخری لمحے تک خدمت دین کی توفیق اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔ باقاعدہ تہجد ادا کرنے والے، غرباء اور ضرورتمندوں کی کسی کو بتائے بغیر غائبانہ بہت مدد کرنے والے انسان تھے۔ ان کے بیٹے نے یہ لکھا ہے۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں ہمارے والد صاحب کے جنازے پر سنجرچانگ سے آنے والے ایک شیعہ دوست نے کہا کہ مجھے نماز کا طریقہ نہیں آتا تھا اور نہ ہی روزے کا کچھ علم تھا۔ اسلامی تعلیم اور آداب کا مجھے پتہ ہی نہیں تھا تو مجھے تو نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا امتیاز صاحب نے سکھایا ہے لیکن آج ہم ہی وہاں غیر مسلم کہلاتے ہیں ۔ کہتے ہیں جس کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی اور باقاعدہ عبادت کرتا ہوں ۔

مرزا مشہود صاحب مربی ہیں۔ کہتے ہیں کہ نیک فطرت، ایمانداری اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے علاقے کے بہت سے سندھی وڈیروں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور غیر از جماعت لوگ آپ کے پاس امانتیں رکھوایا کرتے تھے۔

شہباز صاحب حیدر آباد ضلع کے سابق قائد ہیں۔ کہتے ہیں دیانتدار، عاجز، دوسروں کا درد رکھنے والے خلافت سے بےحد پیار اور محبت کرنے والے اور نظام جماعت کے لیے غیرت رکھنے والے وجود تھے۔ مریضوں کے پاس اگر پیسے نہ ہوتے تو اپنی طرف سے مفت دوائیاں دے دیا کرتے تھے۔ ان کی وفات پر ایک کثیر تعداد جو ہے افسوس کرنے آئی تھی اور سب کا یہی کہنا تھا کہ ان کے جانے سے ہمارے علاقے میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ رحم کا سلوک فرمائے۔

اگلا ذکر

مکرم الحاج محمد بِلْعَرَبِی صاحب، الجزائر

کا ہے۔ گذشتہ دنوں میں ان کی 82سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا تعلق الجزائر سے تھا۔ آجکل فرانس میں رہتے تھے۔

2015ء کے جلسہ سالانہ یوکے میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ بطورمہمان یہاں آئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت کر کے واپس گئے۔ جلسہ کے پہلے دن ہی انہیں اس جگہ سے ایک عجیب انس کا احساس ہوا جیسے وہ پہلے بھی یہاں آ چکے ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے اس جگہ اور اس کے ماحول کے خواب دیکھ رہے تھے۔ بیعت سے ایک دن پہلے بھی انہوں نے اسی طرح کا ایک خواب دیکھا جس کی بناپہ انہوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔

اس جلسہ میں فرانس سے ان کے خاندان کے احمدی اور غیر احمدی ٹوٹل پینتیس افراد موجود تھے جن میں سے آٹھ نے ان کی پیروی میں جلسہ کے دوران ہی بیعت کر لی۔ اپنے بچوں کو دینی اقدار سکھانے کی بہت کوشش کرتے تھے۔ نماز اور قرآن پاک کی تعلیم دینے کے لیے دینی سکولوں میں داخل کرایا۔ ان کے بچوں کو ان سے پہلے قبول احمدیت کی توفیق ملی۔ بچے کہتے ہیں کہ والد صاحب نے ہمیں دینی تعلیم سکھائی تھی جو ہمارے دلوں میں دین کی گہری محبت اور اطاعت کا جذبہ پیدا کرنے والی تھی اور اس کی وجہ سے ہمارے لیے احمدیت قبول کرنا آسان ہو گیا۔ آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے بڑے بیٹے محمد بِلْعَرَبِی کے ذریعہ آئی جو ایک روز سیٹلائٹ چینل کوایڈجسٹ کر رہے تھے تو ایم ٹی اے اچانک سامنے آ گیا اور وہاں حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒکو انہوں نے دیکھا۔ انہوں نے بعد میں احمدیت اور خاص طور پہ حضرت عیسیٰ ؑکی وفات کے موضوع پر گہری تحقیق کی اور بالآخر 1995ء کے جلسہ سالانہ یوکے کے موقع پر انہوں نے بیعت کر لی۔ والد نے بعد میں کی۔ بیس سال بعد تقریباً لیکن بیٹے نے پہلے کر لی تھی۔ مرحوم اکثر فرانس سے الجزائر آتے جاتے رہتے تھے۔ 2017ء میں پولیس نے الجزائر میں مرحوم کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے بچوں کو احمدی ہونے کے الزام میں حراست میں لے لیا۔ اس پر انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ جب وہ پولیس سٹیشن گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ احمدی ہیں تو انہوں نے فوراً اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا کہ ہاں الحمد للہ میں احمدی ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ قانون کا احترام کرتے ہیں تاہم جس دن حکام اجازت دیں گے ان کا گھر جماعت احمدیہ کا پہلا مرکز ہو گا۔ بڑا کھل کے جرأت سے کہا۔

مرحوم کو خلافت اور خلیفہ وقت سے بے انتہا محبت کا تعلق تھا۔ جماعتی خدمت کا ایک جوش تھا۔ کئی سالوں تک فرانس میں ان کا گھر مختلف میٹنگز اور نماز جمعہ کا مرکز رہا۔ الحاج محمد بِلْعَرَبِی صاحب نے اپنے پیچھے اپنی اکیاسی سالہ بیوہ اور آٹھ بچے چھوڑے ہیں۔ جن میں سے سات اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی ہیں۔ ان کے ایک بیٹے سیکرٹری تبلیغ اور عربی ڈیسک فرانس کے انچارج ہیں۔ بیٹیاں ہیں وہ بھی خدمت دین کی توفیق پا رہی ہیں۔

الجزائر کے ایک احمدی لکھتے ہیں کہ الحاج محمد صاحب بہت نیک دل اور فیاض انسان تھے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا اس بات پہ شکر ادا کرتے کہ انہیں امام الزمان علیہ السلام کو پہچاننے اور اس پر ایمان لانے کی توفیق ملی۔ کہتے تھے کہ امام الزمان کی بیعت کے بعد میرا ایمان پختہ اور یقین مزید گہرا ہو گیا ہے۔

صدر انصار اللہ الجزائر کہتے ہیں کہ ہر جماعتی پروگرام یا میٹنگ کے لیے اپنا گھر پیش کیا بلکہ اپنے گھر کے ایک حصہ کو نماز سینٹر کے طور پر وقف کر دیا تھا۔ الجزائر سے ایک احمدی ہیں۔ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا تعلق خاص اور تقویٰ کی ایک مثال تھا۔ وہ ہر حال میں وقت پر نماز ادا کرنے کے لیے بے چین رہتے تھے حتّٰی کہ بیماری کی شدید گھڑیوں میں بھی وہ تہجد کی پابندی کرتے اور نہایت خشوع و خضوع اور پختہ یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔

اگلا ذکر

مکرم محمد اشرف صاحب، کوٹری ضلع حیدرآباد

کا ہے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں ستر سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ نوید اشرف صاحب مربی سلسلہ کانگو کے والد تھے اور مربی صاحب میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے اپنے والد کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکے۔ ان کے خاندان میں احمدیت حضرت نور الٰہی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے آئی تھی جو ان کے دادا تھے۔

نوید اشرف صاحب مربی سلسلہ کانگو لکھتے ہیں۔والد صاحب کو دین سے محبت اپنے آباؤاجداد سے ہی خون میں ودیعت ہوئی تھی۔ نہایت ہی نیک، شریف النفس، انتہائی دعا گو اور خلافت سے بہت تعلق رکھنے والے وجود تھے۔ جماعتی خدمات کی ہمیشہ مختلف حیثیتوں میں توفیق ملتی رہی۔ انتہائی محنتی اور بہت ہی مہمان نواز تھے۔ 1992ء میں چند روز کے لیے اسیر راہ مولیٰ رہنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ قرآن پاک کی تلاوت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کے کلام کو بڑی محبت سے پڑھتے تھے کہ ہر سننے والے کے دل میں وہ کلام اتر جاتا تھا۔ آواز بڑی اچھی تھی۔ ان کی وفات پر ایک شدید معاند بھی افسوس کرنے آیا اور اس نے یہ کہا کہ بہت نیک اور اچھے انسان تھے۔ ایسا انسان کبھی نہیں دیکھا۔

1992ء میں کوٹری میں ہونے والی شدید مخالفت کے دوران مخالفین جماعت کے سامنے انہوں نے نہایت بہادری اور ایمانی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ وفات سے ایک دن پہلے بھی عاملہ کی میٹنگ میں شرکت کی۔ اپنا چندہ ادا کیا اور وفات والے دن نماز تہجد ادا کی۔ قرآن کریم کی تلاوت کی۔ نماز فجر ادا کی اور پھر اس کے بعد پونے آٹھ بجے کے قریب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔

شہباز احمد صاحب سابق قائد حیدرآباد کہتے ہیں۔ انتہائی خدمت کرنے والے، جماعت کے لیے غیرت رکھنے والے، انتہائی بہادر انسان اور تبلیغ کا انتہائی جنون رکھنے والے انسان تھے۔ کہتے ہیں سب سے بڑی بات جو میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ خدمت ایسے کیا کرتے تھے جیسے روزانہ کی بنیاد پر ایک انسان اپنے ذاتی کام کرتا ہے۔ اس طرح دین کی خدمت کرتے تھے۔ کہتے ہیں ایک کمپنی میں ہم ملازم تھے ایک موقع پر جماعت کی مخالفت بہت بڑھ گئی۔ مولویوں نے انتظامیہ کو کہا اور بہت پریشر ڈالا کہ ان کو ملازمت سے نکالیں۔ جو جنرل مینیجر تھا اس نے مولویوں سے کہا کہ آپ یہ بات چھوڑیں کہ یہ احمدی ہے، یہ قادیانی ہے، مرزائی ہے۔ مجھے ایک بات بتا دیں ،کوئی ایک خامی ایسی بتا دیں جس کی بنیاد پر میں اس کو کمپنی سے نکال دوں۔ اس کا مولوی کوئی جواب نہ دے سکے اور اس طرح ان کی ملازمت جاری رہی ۔

پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ آگے ان کی نسلیں بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔