خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ11؍ اپریل 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
غزوۂ خیبر کے بعد کے کچھ واقعات بیان ہو رہے ہیں جن میں سے ایک اہل تَیْمَاء کی مصالحت کا واقعہ بھی ہے۔ تَیْمَاء مدینہ سے شام کے راستے میں ایک معروف شہر تھا جو مدینہ سے تقریباً چار سو کلو میٹر پر واقع تھا۔ (شرح زرقانی جلد 3صفحہ 303دار الکتب العلمیۃ بیروت) تیماء کے یہود کو جب خیبر، فدک اور وادی القریٰ کے حالات کی خبر ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کی محاذ آرائی کرنے کی بجائے از خود آدمی بھیج کر صلح کی پیشکش کی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا اور تیماء کے یہود کو اپنے مال و متاع کے ساتھ اپنے علاقے میں رہنے کی اجازت دے دی۔ (البدایۃ والنہایۃ جلد6 صفحہ 352دار الکتب العلمیۃ بیروت) اسی موقع پر نماز فجر کی تاخیر سے ادائیگی کا بھی واقعہ بیان ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ خیبر سے لوٹے تو ساری رات چلتے رہے۔ پھر جب آپؐ کو نیند آئی تو مدینہ کے قریب آرام کے لیے پڑاؤ کیا اور بلال سے فرمایا کہ آج رات ہماری نماز کے وقت کی حفاظت کرو یعنی تم دیکھتے رہنا نماز کے وقت جگا دینا۔ پھر حضرت بلالؓ نے جتنی ان کے لیے مقدر تھی نماز پڑھی۔ وہ جاگنے کے لیے ساری رات نفل پڑھتے رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ سو گئے۔ جب فجر کا وقت قریب آیا تو بلال نے صبح پھوٹنے کی سمت رخ کرتے ہوئے اپنی سواری کا سہارا لیا تو بلال پر بھی نیند غالب آ گئی جبکہ وہ اپنی اونٹنی سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ پس نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے، نہ بلال اور نہ آپؐ کے صحابہ میں سے کسی میں سے کوئی، یہاں تک کہ دھوپ ان پر پڑی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے سب سے پہلے جاگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند ہوئے اور فرمایا اے بلال! بلال نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ میری روح کو بھی اسی ذات نے روکے رکھا جس نے آپؐ کو روکے رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے روانگی کا حکم فرمایا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی سواریوں کو تھوڑا سا چلایا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دور جا کے قیام کیا، وہاں وضو کیا اور بلال کو حکم فرمایا۔ انہوں نے نماز کی اقامت کہی۔ پھر آپ نے انہیں صبح کی نماز پڑھائی۔اس جگہ پہ جہاں آپؐ سوئے تھے وہاں نہیں پڑھائی بلکہ آگے جا کے کھلی جگہ پر باجماعت پڑھائی۔ جب آپؐ نماز پڑھ چکے تو آپؐ نے فرمایا کہ جو نماز بھول جائے یعنی جو شخص نماز بھول جائے تو اسے چاہیے کہ جب یاد آئے اسےپڑھ لے کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ نماز کو میرے ذکر کے لیے قائم کرو۔ (صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلوٰۃ باب قضاء الصلوٰۃ … 680) یہ بھی یہاں واضح ہو کہ نمازِ فجر کی تاخیر کا واقعہ کئی غزوات کے سفر میں بیان ہوا ہے۔ بعض اس کو تبوک کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ بعض نے حدیبیہ کے موقع پر بیان کیا ہے۔ (تاریخ الخمیس جزءثانی صفحہ437دار الکتب العلمیۃ بیروت) ممکن ہے کہ راوی کو سہو ہو گیا ہو اور کسی دوسری جنگ کا واقعہ اس کے ساتھ بیان کر دیا ہو یا ممکن ہے کہ ایک سے زائد مرتبہ یہ واقعہ ہوا ہو۔ بہرحال اللہ بہتر جانتا ہے۔ مدینہ سے واپسی کے دوران صحابہؓ بلند آواز سے تکبیر کہہ رہے تھے۔ اس بارے میں حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے بیان کیا کہ مدینہ سے واپس آتے ہوئے لوگ ایک وادی پر چڑھے۔ انہوں نے اپنی آوازیں تکبیر سے بلند کیں۔ اللّٰهُ أَ كْبَرُ اللّٰهُ أَ كْبَرُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ۔ یہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا آواز کو دھیما رکھو۔ تم کسی بہرے کو نہیں بلا رہے اور نہ غیر حاضر کو۔ اللہ تعالیٰ سننے والا بھی ہے اور حاضر بھی ہے۔ اس لیے درمیانی آواز رکھو۔ تم تو اس کو بلا رہے ہو جو بہت سننے والا اور نہایت قریب ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔راوی کہتے ہیں کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے پیچھے تھا تو آپؐ نے مجھے سن لیا اور میں کہہ رہا تھا کہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ۔ جب میں نے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آواز سن لی۔ اس پر آپؐ نے مجھے فرمایا اے عبداللہ بن قیس! میں نے عرض کیا: میں حاضر ہوں۔ ابوموسیٰ اشعری کا نام عبداللہ بن قیس تھا۔ تو مَیں نے عرض کیا کہ مَیں حاضر ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپؐ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک کلمہ کا پتہ نہ دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ضرور بتائیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ۔ فرمایا یہ کلمہ ہے کہ نہ بدی سے بچنے کی طاقت ہے انسان میں اور نہ نیکی کرنے کی قوت ہے کسی انسان میں مگر اللہ کی توفیق سے یہ ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خیبر حدیث 4205) پس اس طرف آپؐ نے توجہ دلائی اور فرمایا تم وہ کلمہ پڑھ رہے تھے اور یہ تو بڑا اعلیٰ کلمہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے۔ بہرحال مدینہ کی طرف سفر جاری رہا اور اسلامی لشکر جو مدینہ سے محرم سات ہجری کو روانہ ہوا تھا خدا تعالیٰ کے افضال اور کامیابیوں کو بھرپور انداز میں سمیٹتے ہوئےصفر کے آخری ایام میں یا ربیع الاول کے ابتدا میں واپس مدینہ پہنچ گیا۔ (غزوات و سرایا صفحہ 388فریدیہ پبلیشرز ساہیوال) خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدتِ اقامت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبرمیں چھ ماہ قیام فرمایا۔ آپ اس دوران میں دو نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھاتے تھے اور بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں چالیس دن تک رہے۔ (سبل الھدیٰ جلد 5صفحہ 156 دار الکتب العلمیۃ بیروت)زیادہ تر روایات کم قیام کی بابت ہی ملتی ہیں۔ فتح خیبر کے مسلمانوں کے حق میں بہت سے اثرات ظاہر ہوئے۔ خیبر کی فتح کا ایک بنیادی اثر یہ ہوا کہ عرب میں ارد گرد کے بہت سے قبائل جو پہلے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی کرنے میں مصروف تھے وہ خوفزدہ ہو گئے اور کچھ نے تو صلح کا ہاتھ بڑھایا۔ کچھ نے اطاعت قبول کرنے میں عافیت جانی اور اس طرح مسلمانوں کے سیاسی وقار میں اضافہ ہوا۔ فتح خیبر کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ جزیرۂ عرب میں یہود کی طاقت تقریباً ختم ہو کر رہ گئی۔ مدینہ کے یہود اور خیبر کے یہود عرب کے خطے میں بڑی حد تک اقتصادی اور فوجی طاقت کی ایک علامت سمجھے جاتے تھے اور اسلام کے خلاف خاص طور پر عداوت و بغض میں اس حد تک بڑھے ہوئے تھے کہ کم و بیش ہر بڑی جارحیت میں دشمن کو ان کی پشت پناہی حاصل ہوتی تھی۔ مدینہ کے مسلمانوں کی اپنی معیشت پر بہت مثبت رنگ میں ہوا۔ حضرت عائشہؓ ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور دیگر صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ خیبر کی فتح تھی کہ جس کے بعد ہمیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوا۔ اس سے پہلے تو پیٹ بھر کر کھانا بھی نہیں کھا سکتے تھے۔ خیبر کے بعد مسلمانوں کے پاس کھانے پینے کا سامان اس قدر ہو گیا تھا کہ اب انہوں نے اپنے انصار بھائیوں کو وہ ساری جائیدادیں اور حصے واپس لوٹا دیےجو انہوں نے اپنے مہاجر بھائیوں کو اس وقت عطا کیے تھے جب یہ غربت اور تنگی کے ساتھ مکہ سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ اس ضمن میں حضرت انسؓ کی ایک بہت دلچسپ روایت ہے جس میں یہ ساری تفصیل بھی آ جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ آئے تو وہ اس حال میں تھے کہ ان کے پاس کچھ نہ تھا اور مدینہ کے انصار زمین اور مال مویشی والے تھے تو انصار نے اس طرح تقسیم کی کہ وہ ہر سال اپنی پیداوار کا نصف پھل ان مہاجرین کو دیتے۔ حضرت انسؓ کی والدہ نے اپنا پھلدار کھجور کا درخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ درخت ام ایمن کو دے دیا۔ خود نہیں رکھا ام ایمن کو دے دیا۔ اب جب خیبر سے واپسی پر مہاجرین نے انصار کو ان کے اموال واپس لوٹا دیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انسؓ کی والدہ کو کھجور کا درخت واپس لوٹا دیا۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں میں نے جب ام ایمن کو بتایا کہ یہ درخت اب ہمیں واپس مل گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ میں ہرگز یہ واپس نہیں کروں گی۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا ہے۔ شاید وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی وجہ سے آپ کی دی ہوئی چیز واپس دینا نہیں چاہتی تھیں بہرحال جو بھی وجہ تھی۔ انہوں نے کہا میں نے تو اب یہ واپس نہیں کرنا۔ حضرت انس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر ساری بات بتائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ایمنؓ سے فرمایا کہ ام ایمن! تم یہ درخت دے دو۔ اس کے بدلے میں اتنے اتنے درخت آپ کو دوں گا لیکن وہ نہیں مان رہی تھیں۔وہ کہتی ہیں یہ شروع میں آپ نے دیا ہے۔ بڑی برکت والا ہے میں تونہیں دیتی۔ یہاں تک کہ آپﷺنے اس کے بدلے دس گنا درخت دیےتب انہوں نے وہ درخت واپس کر دیا۔ (بخاری کتاب الھبۃ و فضلھا … باب فضل المنیحۃ حدیث 2630) تاریخ میں ایک غزوہ کا ذکر ملتا ہے جو غزوۂ ذات الرّقاع کہلاتا ہے اس غزوے کو غزوہ مُحَارِبْ، غزوہ بنو ثَعْلَبَہ اور غزوہ بنو اَنْمَار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان قبائل کی طرف یہ غزوہ ہوا تھا۔ (سیرت الحلبیہ جلد 2صفحہ 366دارالکتب العلمیۃ بیروت) ایک اور وجہ تسمیہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے بیان کی ہے کہ صحابہ کے پاس سواریاں بہت تھوڑی تھیں۔ یہ خود بھی چھ افراد تھے جنہیں صرف ایک سواری میسر تھی۔ اس پر وہ باری باری سوار ہوتے تھے۔ سنگلاخ زمین پر چلنے کی وجہ سے، پتھریلی زمین تھی اس پر چلنے کی وجہ سے صحابہؓ کے پاؤں زخمی ہو گئے تھے اور وہ پھٹے پرانے کپڑوں کو پاؤں پر لپیٹ لپیٹ کر چلتے تھے۔ خود حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے بھی نہ صرف یہ کہ پاؤں زخمی تھے بلکہ ناخن تک زخمی ہو گئے تھے، ناخن اکھڑ گئے تھے۔ کپڑے کی پٹیوں کو چونکہ رِقَاع کہا جاتا ہے اس لیے اس غزوہ کا نام غزوہ ذاتُ الرِّقاع یعنی پٹیوں والا غزوہ مشہور ہو گیا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع حدیث نمبر 4128) بہرحال یہ اس کے مختلف نام ہیں۔ ایک اَور جگہ یہ لکھا ہے کہ جس سرزمین پر یہ غزوہ ہوا اس زمین کے کئی رنگ تھے۔ بعض نے لکھا ہے کہ اس جنگ میں مختلف رنگ کے گھوڑے تھے۔ بعض نے یہ لکھا ہے کہ اس جنگ میں جھنڈوں میں پٹیاں بنائی گئی تھیں یا مختلف پٹیوں کو جوڑ کر جھنڈے بنائے گئے تھے۔ اس کو ذاتُ الرِّقاع کہا گیا۔ بعض نے کہا کہ ان سب مختلف امور کے اکٹھے ہونے کی وجہ سے اس کو ذات الرقاع کہا گیا ہے۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ371 دارالکتب العلمیۃ بیروت) اس غزوہ کا ایک نام غزوہ صلوٰة الخوف بھی ہے کیونکہ اس غزوہ میں نمازِ خوف ادا کی گئی تھی۔ (شرح زرقانی جلد2صفحہ 521 دار الکتب العلمیۃ بیروت) اس غزوہ کی تاریخ کے متعلق اختلاف ہے۔ کتب تاریخ و سیر کے مطابق غزوۂ ذات الرقاع چار یا پانچ ہجری میں ہوا تھا۔ چنانچہ ابن ہشام نے ابن اسحاق سے روایت کرتے ہوئے غزوۂ ذات الرقاع کو چار ہجری میں غزوۂ بنونضیر کے تین ماہ بعد قرار دیا ہے۔ ابن سعد کے نزدیک یہ پانچ ہجری کو ہوا۔ (سیرت ابن ہشام صفحہ 614دارالکتب العلمیۃ بیروت) جبکہ امام بخاری نے ایک قوی شہادت کے ذریعہ اس غزوہ کو فتح خیبر کے بعد سات ہجری کا غزوہ بیان کیا ہے۔ وہ شہادت یہ ہے کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ اس غزوہ میں شامل تھے اور چونکہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ غزوہ خیبر کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔ وہاں خیبر میں آ کے آپ (حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ) شامل ہوئے تھے اس لیے سات ہجری کی تاریخ اس غزوے کی زیادہ قرین قیاس ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے سیرت خاتم النبیینؐ کے آخر میں اپنی کتاب کے بقیہ حصے کے لیے جو عناوین درج کیے ہیں ان میں غزوۂ ذات الرقاع کو غزوۂ خیبر کے بعد سات ہجری کا غزوہ قرار دیا ہے۔ (ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 838) اس غزوہ کا ایک سبب یہ تھاکہ نجد کے علاقے میں بعض لوگ وقتاً فوقتاً چوری اور ڈاکہ زنی کی وارداتیں کر کے مسافروں کو پریشان کرتے تھے۔ یہ لوگ کسی ایک جگہ نہیں ٹھہرتے تھے۔ اس لیے ان پر قابو پاناخاصا مشکل کام تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خلاف مؤثر کارروائی کا فیصلہ کیا۔ (ماخوذ از سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد8 صفحہ468دار السلام) اس غزوہ کا دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک آدمی تجارت کا سامان لے کر مدینہ آیا۔ مدینہ کے لوگوں نے اس سے سامان خریدا تو وہ ان مسلمانوں سے کہنے لگا کہ بنو اَنْمَار اور بنو ثَعْلَبہ تمہارے لیے ایک لشکر جمع کر چکے ہیں لیکن تم ان سے غافل ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو مدینہ پر نگران مقرر کیا اور سفر کی تیاری کی۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت ابوذَرْ غِفَاریؓ کو نائب مقرر کیا۔ ابن سعد اور ابن ہشام کہتے ہیں کہ حضرت عثمان بن عفانؓ کو نگران مقرر کیا۔ (شرح زرقانی جلد2 صفحہ527-528دار الکتب العلمیۃ بیروت) بہرحال پھر آپؐ سفر پر روانہ ہوئے۔ غزوہ کے حالات اور واقعات کے بارے میں مزید یوں ذکر ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے چار سو آدمیوں کے ساتھ یا بعض روایات کے مطابق سات سو یا آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور وادی شُقْرَہ میں پہنچے۔ وادی شُقرہ مدینہ سے دو دن کی مسافت پر ہے۔ اس میں ایک دن قیام کیا اور اِدھر اُدھر دستے روانہ کیے۔ رات تک تمام دستے واپس لوٹ آئے اور انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے کسی کو نہیں دیکھا اور انہوں نے قدموں کے نشانات بھی مٹا دیےہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ نخل میں آ گئے۔ نخل مدینہ سے تقریباً باسٹھ میل کے فاصلے پر ہے۔ جب ان قبائل کے ٹھکانوں تک پہنچے تو وہاں عورتوں کے علاوہ کسی کو نہ پایا۔ عورتوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعض مؤرخین نے عورتوں کو گرفتار کرنے کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ گرفتاری کوئی نہیں ہوئی اور بدو لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھاگ گئے۔ وہ پہاڑوں کی چوٹیوں سے سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ (سبل الھدیٰ جلد5صفحہ175دار الکتب العلمیۃ بیروت) مرد دوڑ گئے، عورتیں وہاں رہ گئیں۔ بعض کے نزدیک گرفتار ہوئے۔ بعض کے نزدیک زیادہ اغلب خیال یہی ہے کہ عورتوں کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ کیونکہ یہ خطرہ تھا کہ دشمن کی طرف سے حملہ ہو سکتا ہے اس دوران نماز کا وقت ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوٰة خوف ادا فرمائی۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع حدیث نمبر 4127) یعنی ایسی نماز جس میں کچھ لوگ شامل ہوئے۔ آدھے لوگ پہلی ایک رکعت میں شامل ہوئے آدھے نصف نماز میں شامل ہوئے پھر پیچھے ہٹ گئے اور پھردوسرا گروپ آ گیا وہ شامل ہوا اور انہوں نے آپؐ کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس کا ذکر قرآن کریم میں بھی سورة النساء میں ملتا ہے کہ ایسی خوف کی حالت جب ہو تو اس میں کس طرح نماز پڑھنی ہے تا کہ دشمن حملہ نہ کرے۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5صفحہ175 دارالکتب العلمیۃ بیروت) شارح بخاری یعنی بخاری کی شرح لکھنے والے علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں کہ نماز خوف کے بارے میں اختلاف ہے کہ پہلی مرتبہ کس سال اس کے بارے میں حکم نازل ہوا۔ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ پہلی مرتبہ غزوہ ذات الرقاع میں یہ نماز ادا کی گئی تاہم کس سال یہ حکم نازل ہوا اس کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے۔ کسی نے چار ہجری ،کسی نے پانچ، کسی نے چھ اور کسی نے سات ہجری بیان کیا ہے۔ ایک قول کے مطابق نماز خوف غزوۂ بدر الموعدسے قبل پہلی مرتبہ ادا کی گئی جو شوال چار ہجری میں ہوا تھا۔ (عمدۃ القاری جلد6صفحہ 376مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت) اس موقع پر ایک شخص کا صحابہؓ پر حملہ کرنے کے واقعہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات ایک جگہ پر قیام فرمایا۔ اس وقت تیز ہوا چل رہی تھی۔ آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ کون ہے جو آج رات ہمارے لیے پہرہ دے گا۔ اس پر حضرت عَبَّاد بن بِشر ؓ اور حضرت عَمَّار بن یاسرؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم آپؐ کے لیے پہرہ دیں گے۔ اس کے بعد وہ دونوں گھاٹی کی چوٹی پر بیٹھ گئے۔ حضرت عباد بن بشرؓ نے حضرت عمار بن یاسرؓ سے کہا کہ ابتدائی رات مَیں پہرہ دے لوں گا اور ان کو کہا کہ تم سو جاؤ اور آخری رات میں تم پہرہ دے دینا تا کہ میں سو جاؤں۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر تو سو گئے اور حضرت عباد بن بشرؓ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ بہرحال یہ بیان ہوا ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے تو رات کو دشمن کے ایک شخص نے ان کو دیکھ لیا۔ درے پر حضرت عباد بن بشرؓ کا سایہ دیکھا کہ نماز پڑھ رہے تھے۔ ہل جل ہو رہی تھی تو اس نے بہرحال سوچا کہ مسلمانوں کا کوئی شخص ہے وہ پہرہ دے رہا ہے۔ یہی سوچا ہو گا اس نے۔ اس نے تیر چلایا کہ یہ ہمارا دشمن ہے۔ حضرت عباد بن بشرؓ کے جسم میں تیر لگا۔ حضرت عباد بن بشرؓ نماز پڑھ رہے تھے۔ اس میں مصروف تھے۔ انہوں نے تیر نکال کے پھینک دیا۔ نماز نہیں توڑی بلکہ نماز پڑھتے رہے۔ تیر نکالا پھینک دیا۔ نماز جاری رکھی۔ پھر اس نے دوسرا تیر مارا۔ وہ بھی انہیں لگا۔ انہوں نے اس کو بھی نکال کے پھینک دیا۔ پھر جب اس نے تیسرا تیر مارا تو حضرت عباد بن بشرؓ کا کافی خون بہ نکلا۔ انہوں نے نماز مکمل کی اور حضرت عمار بن یاسرؓ کو جگایا۔ جب اس شخص نے دوسرے شخص کو دیکھا تو وہ بھاگ گیا۔ حضرت عمار بن یاسرؓ نے حضرت عباد بن بشرؓ کو زخمی حالت میں دیکھا تو پوچھا کہ پہلے کیوں نہیں جگایا تو کہنے لگے کہ مَیں نماز میں سورة الکہف کی تلاوت کر رہا تھا اور میرا دل نہیں چاہا کہ میں اس کی تلاوت کو منقطع کر دوں۔ (سیرۃ الحلبیۃ جلد 2 صفحہ 368-369دار الکتب العلمیۃ بیروت) یہ ایک عجیب تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ تھا اور اخلاص تھا، وفا تھی۔ عبادت کا شوق تھا ان لوگوں میں کہ زخم کی کوئی پروا نہیں کی۔ (سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ180دار الکتب العلمیۃ بیروت) بہرحال پندرہ دن کی اس مہم کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف واپس روانہ ہوئے اور آپ نے جُعَالْ بن سُراقہ کو مدینہ کی طرف بھیجا تا کہ وہ مدینہ والوں کو مسلمانوں کی سلامتی کی خوشخبری دیں۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ370دار الکتب العلمیۃ بیروت) حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صِرَارْ مقام پر اترے جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے تو اونٹ ذبح کرنے کا حکم دیا اور وہاں سارا دن قیام فرمایا مسلمان بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی یعنی شام کا وقت ہوا تو مدینہ میں داخل ہوئے اور ہم بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔ (سبل الھدیٰ والرشاد جلد5صفحہ180دار الکتب العلمیۃ بیروت) اس غزوہ میں بعض معجزات بھی ظاہر ہوئے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے کہ یہ معجزات کا غزوہ بھی کہلاتا ہے۔ ایک تو مشہور واقعہ دشمن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار سونتنے کا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع حدیث 4135) اس شخص کا نام غَوْرَثْ بن حَارِث بیان کیا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اس کا نام غَوْرَکْ تھا۔ بعض نے غُوَیْرَثْ بھی کہا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع حدیث 4136) اس شخص کے بارے میں یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور یہ بھی کہ اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ البتہ اس نے آپؐ سے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ کبھی آپؐ کے مقابلے پر نہیں آئے گا۔ (السیرۃ الحلبیہ جلد2 صفحہ369دارالکتب العلمیۃ بیروت) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر تلوار سونتنے والا ایک اَور واقعہ بھی روایات میں ملتا ہے جس میں دُعْثُور نامی شخص کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کا ذکر ہے۔ بعض علماء نے ان دونوں واقعات کو ایک ہی واقعہ بیان کیا ہے اور بعض کے نزدیک یہ دونوں واقعات دو الگ الگ مواقع کے ہیں۔ (ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ369دارالکتب العلمیۃ بیروت) دُعْثُور کے حملہ کرنے کا واقعہ تین ہجری میں غزوہ ذِی اَمریا غزوۂ بنی غطفان سے واپسی پر پیش آیا جو یوں ہے کہ مشرکوں نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ تنہا لیٹے ہوئے دیکھا تو وہ اپنے سردار دُعْثُور کے پاس آئے۔ یہ شخص ان میں سب سے زیادہ بہادر تھا۔ مشرکوں نے اسے کہا کہ اس وقت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالکل تنہا لیٹے ہوئے ہیں۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ ان سے نمٹ لو۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ خود دُعْثُور نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں تنہا لیٹے ہوئے دیکھا تو اس نے کہا کہ اگر اس وقت بھی میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل نہ کروں تو اللہ خود مجھے ہلاک کر دے۔ بہرحال یہ کہہ کر وہ دُعْثُور تلوار سونتتے ہوئے چلا اور بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے پہنچ کر رکا۔ پھر اچانک اس نے آپؐ کو مخاطب کر کے کہا۔ آج یا یہ کہا کہ اب اس وقت آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے فرمایا: اللہ مجھے تم سے بچائے گا۔ اس پر وہ زمین پر گر گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس کی تلوار اٹھا لی اور اسے فرمایا اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟ اس پر دُعْثُورنے کہا، لَا۔ کوئی بھی نہیں۔ مجھے تو اب کوئی نہیں بچا سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ کہنے لگا کہ اللہ کی قَسم! آئندہ میں کبھی آپ کے خلاف لوگوں کی جتھہ بندی نہیں کروں گا۔ یہ اس نے عہد کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلوار اسی کو عنایت فرما دی اور ایک روایت میں ہے کہ دُعْثُور آپ کی طرف متوجہ ہو کر عرض کرنے لگا۔ اللہ کی قَسم! آپؐ احسان کرنے کے معاملے میں مجھ سے بہتر ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا۔ أَنَا أَحَقُّ بِذٰلِكَ مِنْكَ۔ میں تم سے اس بات کا زیادہ حق دار ہوں کہ احسان کروں اور دُعْثُور اپنی قوم کی طرف لوٹ آیا لیکن اس کا حال ہی بدلا ہوا تھا۔ وہ اپنی قوم کو تبلیغ کر رہا تھا۔ دُعْثُور نے واقعہ بیان کیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ کس طرح میں گر گیا۔وہ گرنے کے واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے۔ کہتا ہے کہ میں نے وہاں ایک دراز قد آدمی کو دیکھا۔ جب میں وہاں تلوار سونت کر کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت دراز قد آدمی وہاں آیا ہے اس نے مجھے دھکا دیا تو میں پیٹھ کے بل گر گیا۔ تب میں نے جان لیا کہ یہ کوئی انسان نہیں ہے یہ تو کوئی فرشتہ ہے۔ چنانچہ میں نے اسی وقت اقرار کر لیا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ کہتا ہے کہ اللہ کی قسم! میں ان کے خلاف کبھی کوئی جنبش نہیں کروں گا۔ اس کے بعد وہ اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دینے لگا۔ ایک جگہ یہ واقعہ اس طرح بھی لکھا ہے۔ (ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ290، 369دار الکتب العلمیۃ بیروت) وہیں ایک پرندے کا واقعہ بھی ہوا۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ صحابہ میں سے ایک شخص پرندے کا بچہ لے کر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اس پرندے کی ماں یا باپ یا ماں باپ دونوں تھے یا ان میں سے ایک نے اپنے آپ کو اس صحابی کے سامنے گرا دیا جس نے اس کے بچے کو پکڑا تھا۔ پرندے کے بچے کو پکڑا ہوا تھا تو پرندہ آیا، ماں یا باپ میں سے بڑا پرندہ جو تھا اور ان کے سامنے گر گیا۔ وہ گر گیا تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اس سے تعجب کر رہے تھے۔ بڑے حیران تھے کہ یہ کیا ہوا ہے کہ پرندہ آکے خود بیٹھ گیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم اس پرندے پر تعجب کرتے ہو کہ کیوں یہ اپنی جان اپنے بچے کی خاطر پیش کررہا ہے۔ تم نے اس کے بچے کو پکڑ لیا ہے اور اس نے اپنا آپ اپنے بچے کو چھڑانے کے لیے پیش کر دیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کی قَسم! تمہارا رب اس پرندے سے بھی زیادہ تم پر رحم کرتا ہے۔ (امتاع الاسماع جلد5صفحہ275دار الکتب العلمیۃ بیروت) جس طرح یہ اپنے بچے پر رحم کے لیے آیا ہے اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ رحم کرتا ہے۔ جنونی بچے کی شفا کا ایک واقعہ ان معجزات میں بیان ہوا ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ ذات الرقاع میں نکلے تو راستے میں ایک دیہاتی عورت اپنے بیٹے کے ساتھ آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! یہ میرا بیٹا ہے اور اس پر شیطان غالب آ چکا ہے۔ یعنی جنون کا حملہ ہوتا ہے اس کو۔ جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ آپ نے اس کا منہ کھولا اور اس میں لعاب ڈالا اور فرمایا اے اللہ کے دشمن! دُور ہو جا۔ میں اللہ کا رسول ہوں۔ یہ دعا کی آپ نے۔ یہی کلمات تین دفعہ کہے۔ پھر فرمایا اس بچے کو لے جاؤ اس کو پھر یہ تکلیف کبھی نہیں ہو گی۔ (امتاع الاسماع جلد5صفحہ260دار الکتب العلمیۃ بیروت) تین انڈوں میں برکت کے واقعہ کا ایک ذکر ہے۔ یہ شتر مرغ کے انڈے تھے۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ غزوۂ ذات الرقاع میں عُلْبَہ بن زید حارثی تین انڈے لائے جو کہ شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ میں پڑے تھے۔ آپؐ نے فرمایا اے جابر! ان کو لے لو اور ان انڈوں کو پکاؤ۔ میں نے ان کو پکایا اور ان کو ایک پیالے میں لے کر آیا۔ پھر میں نے روٹی تلاش کی لیکن نہ ملی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ روٹی کے بغیر ان کو کھانے لگے یہاں تک کہ وہ سیر ہوگئے۔ پیٹ بھر گیا اور پیالے میں انڈے ویسے ہی تھے جیسے شروع میں تھے۔ پھر بہت سے صحابہ کرام ؓنے اس میں سے کھایا اور پھر ہم آگے روانہ ہو گئے۔ (امتاع الاسماع جلد7صفحہ 321دار الکتب العلمیۃ بیروت) اس موقع پر ایک اونٹ کے قصہ کا بھی ذکر ملتا ہے جس نے اپنے مالک کی شکایت کی تھی۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ ہم غزوۂ ذات الرقاع سے واپس لوٹے یہاں تک کہ ہم حَرَّہ میں پہنچے تو ایک اونٹ تیزی سے آیا اور اس نے بلبلانا شروع کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا تم جانتے ہو کہ اس اونٹ نے کیا کہا ہے؟ یہ اونٹ اپنے آقا کے خلاف مجھے شکایت کر رہا تھا۔ اس کا آقا کئی سالوں سے اس سے اپنا کام لے رہا ہے اور اب وہ اس کو ذبح کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اے جابر! اس کے مالک کے پاس جاؤ اور اس کو میرے پاس لاؤ۔ حضرت جابر کہتے ہیں مَیں نے عرض کیا کہ میں تو اس کو نہیں پہچانتا کہ مالک کون ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اونٹ اس مالک پر تیری راہنمائی کرے گا۔ اس اونٹ کو چھوڑ دو یہ مالک کے پاس پہنچ جائے گا۔ پس وہ اونٹ ان کو لے کر چلا گیا یہاں تک کہ اس کے مالک تک پہنچا دیا۔ کہتے ہیں میں اس کو آپ کے پاس لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سےاونٹ کے بارے میں گفتگو فرمائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ اونٹ میرے ہاتھ بیچ دو۔ اس نے وہ اونٹ آپؐ کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ آپؐ نے اسے جنگل میں چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ (معجم الأوسط جلد9صفحہ54دارالکتب العلمیۃ بیروت) اس موقع پر حضرت جابرؓ کا اونٹ گم ہونے کا واقعہ بھی ملتا ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ اندھیری رات میں میرا اونٹ گم ہو گیا۔ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ نے پوچھا کیا ہوا ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرا اونٹ گم ہو گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا:تیرا اونٹ فلاں جگہ ہے جا اور اس کو پکڑ لے۔ میں اس طرف گیا لیکن مجھے اونٹ نہ ملا۔ میں واپس آیا۔ میں نے دوبارہ اسی طرح کہا۔ آپ نے دوبارہ مجھے اسی طرح فرمایا۔ کہتے ہیں میں دوبارہ گیا لیکن مجھے اونٹ نہ ملا تو میں واپس آ گیا۔ اس پر آپؐ نے شفقت فرماتے ہوئے کہا چلو۔ میرے ساتھ چلو۔ آپؐ میرے ساتھ چلے یہاں تک کہ ہم اونٹ کے پاس گئے اور آپ نے اونٹ مجھے پکڑا دیا۔ (سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 177 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت) ان کے سست اونٹ کا ایک واقعہ بھی ملتا ہے۔ اسی غزوہ کی بابت حضرت جابر بن عبداللہؓ نے بیان کیا ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ میرا اونٹ سست ہو گیا اور تھک گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا جابر! میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا یہ میرا ونٹ سست ہو گیا ہے اور وہ تھک گیا ہے اور میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ آپؐ اپنی سواری سے اترے۔ پھر فرمایا کیا تمہارے پاس پانی ہے۔ میں نے جواب دیا جی ہاں۔ پھر میں پانی کا ایک پیالہ لایا۔ آپ نے اس میں پھونک ماری اور اس اونٹنی کے سر اور کمر پر چھڑک دیا اور اس کی پیٹھ پر بھی چھڑک دیا۔ پھر فرمایا مجھے عصا دو، ایک سوٹی دو۔ میں نے اپنا عصا دیا یا اس طرح کہا کہ میں نے درخت سے چھڑی کاٹ کے آپ کو دی۔ بہرحال آپؐ نے اس سےکچھ ضربیں اس اونٹ کو لگائیں اور اپنی چھڑی سے اسے کھینچنے لگے۔ پھر فرمایا سوار ہو جاؤ۔ میں سوار ہو گیا۔ اس اونٹ پہ چڑھ گیا۔ میں نے اونٹ کو دیکھا کہ وہ اتنا تیز ہوگیا کہ اب میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نکلنے سے روکنے لگا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ چلنے لگا تو حضور مجھ سے باتیں کرنے لگے اور پوچھا کہ کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ تو میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا بیوہ سے۔ فرمایا نوجوان کنواری سے کیوں شادی نہیں کی؟ تم نوجوان ہو تم اس سے کھیلتے وہ تم سے کھیلتی۔ مَیں نے عرض کیا کہ میری بہنیں ہیں۔ جابر کے والد جنگِ احد میں شہید ہو گئے تھے۔ ان کی سات بیٹیاں تھیں جو جابر کی بہنیں تھیں۔ کہتے ہیں مَیں نے کہا بہنیں ہیں میری اور میں نے سوچا کہ میں کسی ایسی عورت سے شادی کروں جو ان کی دلجوئی کرے اور ان کی کنگھی چوٹی کرے، ان کی پرورش کرے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم گھر پہنچنے والے ہو جب پہنچو تو عقل مندی سے، احتیاط سے کام لینا۔ یہ نصیحت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اپنا یہ اونٹ بیچتے ہو۔ میں نے کہا جی ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھ سے ایک اوقیہ چاندی پر خرید لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے مدینہ پہنچے اور میں اگلی صبح پہنچا۔ ہم مسجد میں آئے تو مَیں نے آپؐ کو مسجد کے دروازے پر پایا۔ آپؐ نے فرمایا اب پہنچے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ فرمایا اپنا اونٹ چھوڑ دو اور مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھو چنانچہ میں اندر گیا اور نماز پڑھی۔ پھر آپؐ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا اسے ایک اوقیہ چاندی تول کر دے دو۔ وہی اونٹ کی قیمت جو رستے میں طے ہوئی تھی۔ حضرت بلالؓ نے تول کر مجھے دے دی اور کچھ زیادہ بھی دی۔ پھرمیں واپس چلا تو آپؐ نے فرمایا جابر کو میرے پاس بلاؤ۔ جابر کہتے ہیں کہ میں نے دل میں کہا کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا اونٹ واپس کر دیں گے اور مجھے اس واپسی سے بڑھ کر اور کوئی بات ناپسند نہ تھی۔ آپؐ نے فرمایا اپنا اونٹ بھی لے لو اور اس کی قیمت بھی اپنے پاس رکھو۔ یعنی حضرت جابر کی توقع کے برعکس۔ ان کا خیال تھا کہ اونٹ واپس کر کے شاید قیمت نہ واپس کرنی پڑے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیمت بھی رکھو اور اونٹ بھی رکھو۔ آپؐ نے اونٹ کی قیمت واپس نہیں لی۔ (صحیح بخاری کتاب البیوع باب شراء الدواب والحمر حدیث2097) معجزات میں تھوڑے سے پانی کے بہت زیادہ ہونے کے ایک واقعہ کا ذکر ہے۔ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ اسی غزوہ کے دوران ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! وضو کے لیے اعلان کر دو۔ میں نے کہا سنو! وضو کرو! وضو وضو! میں نے لوگوں میں یہ اعلان تو کر دیا۔ لیکن کہتے ہیں میں نے رسول اللہؐ سے یہ عرض کیا کہ اس وقت تو ہمارے پاس قافلے میں پانی کا قطرہ بھی نہیں پایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ فلاں بن فلاں انصاری کی طرف جاؤ اور دیکھو! کیا اس کی مشک میں کچھ ہے۔ کہتے ہیں کہ میں اس طرف گیا اور اس میں دیکھا تو اس کے مشکیزوں میں سے ایک کے منہ میں ایک قطرہ تھا یعنی بہت تھوڑا پانی تھا۔ اگر میں اسے انڈیلتا تو اس کی خشک جگہ اسے پی جاتی۔ اتنا تھا کہ وہ اس میں سے نکلنا ہی مشکل تھا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہؐ! اس مشک کے منہ میں میں نے صرف ایک قطرہ پانی پایا ہے۔ بہت تھوڑا ہے۔ اگر میں اسے انڈیلوں تو اس کا خشک حصہ اسے پی جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا اسے میرے پاس لاؤ۔ میں اسے آپؐ کے پاس لایا۔ آپؐ نے اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور کچھ کہنے لگے۔ دعا کی۔ مجھے نہیں پتہ کیا فرمایا۔ آپؐ اسے اپنے ہاتھ سے دباتے جاتے تھے۔ پھر آپؐ نے مجھے وہ دیا اور فرمایا اے جابر! ایک بڑا ٹب منگواؤ تو میں نے ٹب لا کے اسے آپؐ کے سامنے رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹب میں اس طرح ہاتھ اٹھایا اور اس طرح پھیلایا اور اپنی انگلیوں کو کشادہ کیا یعنی کہ ٹب میں یوں ہاتھ پھیلا دیےپھر اپنے ہاتھوں کو ٹب کی تہ تک رکھ دیا۔ پہلے اپنا ہاتھ سارا پھیلایا پھر نیچے تلے تک لے گئے اور فرمایا اے جابر! لو اور میرے ہاتھ پر انڈیلو اور بسم اللہ پڑھو۔ جو بھی قطرے ہیں پانی کے وہ میرے ہاتھ پر انڈیلتے جاؤ۔ میں نے اسے آپ کے ہاتھ پر انڈیلااور بسم اللہ پڑھ کر میں نے پانی کو دیکھا کہ آپ کی انگلیوں کے درمیان پانی چشمے کی طرح جوش مارنے لگا یہاں تک کہ وہ بھر گیا۔ آپ نے فرمایا اے جابر! ہر اس شخص کو پکارو جسے پانی کی ضرورت ہے۔ وہ کہتے ہیں لوگ آئے انہوں نے پانی پیا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کیاکوئی اَور ضرورت مند باقی ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لگن سے اپنا ہاتھ نکالا اور وہ ٹب بھرا ہو اتھا۔ (مسلم کتاب الزھد والرقائق باب حدیث جابر الطویل … حدیث 3013) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طرح کے معجزات کی بابت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگ ریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا۔ اِسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے۔وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى (الانفال: 18) یعنی جب تونے اس مٹھی کو پھینکا وہ تونے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا۔ یعنی درپردہ الٰہی طاقت کام کر گئی۔ انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا۔ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ65-66) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
(غزوات و سرایا صفحہ 388فریدیہ پبلشرز ساہیوال)
(سبل الھدیٰ جلد 5 صفحہ 149 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(لؤلؤالمکنون، جلد3 صفحہ477 للنشروالتوزیع)
تیسرا بنیادی اثر
(مسلم کتاب الجہاد والسیر باب رد المہاجرین الی الانصار…حدیث1771)
(سبل الھدیٰ جلد5صفحہ 151مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
غزوۂ ذاتُ الرِّقاع کا نام غزوۃ الْأَعَاجِیْب بھی رکھا گیا ہے کیونکہ اس غزوہ میں بہت سے عجیب و غریب واقعات یعنی معجزات بھی پیش آئے تھے۔ اس غزوہ کے نام ذات الرقاع کی ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اس علاقے میں ایک درخت یا پہاڑ تھا جس کا نام ذات الرقاع تھا۔ اس لیے اس غزوہ کا نام غزوہ ذات الرّقاع بھی پڑ گیا۔
(کتاب المغازی للواقدی جلد 1صفحہ 333دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح زرقانی جلد 2صفحہ525دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح الزرقانی علی موطا جلد1صفحہ542دار احیاء التراث العربی بیروت)
(الطبقات الکبریٰ جلد2صفحہ46۔47دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 5 صفحہ 175 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(ماخوذازسیرت انسائیکلو پیڈیا جلد8صفحہ474دار السلام)
حضرت جابرؓ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نخل (جو ایک جگہ ہے) سے ذات الرقاع گئے۔ وہاں غطفان کے لشکر سے سامنا ہوا مگر کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ البتہ آمنے سامنے رہتے ہوئے ایک دوسرے کے حملے کا خوف رہا اور یہ خدشہ رہا کہ دشمن کسی بھی لمحے اچانک حملہ کر سکتا ہے۔
بیہقی نے حضرت جابر سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی۔ مشرکین نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا اور کہنے لگے آپ ان کو چھوڑ دو۔ اس کے بعد ایک نماز ہے جو ان کو اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ جبرئیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور دشمن کے منصوبے کی خبر دی۔ ایک نماز پہ انہوں نے چھوڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگلی نماز پہ حملہ کریں گے۔ بہرحال یہ ان کی روایت ہے سبل الھدیٰ میں کہ دشمن کے منصوبے کی خبر جبرئیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تو آپ نے عصر کے وقت صلوٰة خوف پڑھائی۔ ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ یہ پہلی صلوٰة خوف تھی جو آپ نے پڑھائی۔
(فتح الباری جلد 5صفحہ 348-349 قدیمی کتب خانہ )
(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ617-618دار الکتب العلمیۃ بیروت)
بعض روایات میں یہ بھی ذکر ہے کہ تیر حضرت عمار بن یاسرؓ کو لگا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد2صفحہ47دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت جابر بن عبداللہؓ نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف ایک غزوہ میں گئے۔ لوگوں کو دوپہر کا وقت بہت کانٹوں والی ایک وادی میں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا۔ اس وقت دوپہر ہو گئی تھی اور لوگ بھی درختوں کا سایہ تلاش کرتے ہوئے اِدھر اُدھر قیام کرنے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیکر کے درخت کے نیچے قیام فرما ہوئے۔ آپؐ نے اپنی تلوار لٹکا دی۔ حضرت جابرؓ کہتے تھے کہ ہم کچھ دیر سوئے۔ پھر دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بلا رہے ہیں۔ ہم آپؐ کے پاس آئے تو کیا دیکھا کہ آپؐ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے میری تلوار پکڑ لی اور میں سویا ہوا تھا۔ میں جاگا تو وہ اس کے ہاتھ میں سونتی ہوئی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ کون تمہیں مجھ سے بچائے گا؟ مَیں نے کہا اللہ! تو اس نے تلوار کو نیام میں داخل کر لیا اور وہ یہ ہے جو بیٹھا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس حملہ آور کو کوئی سزا نہیں دی۔
(صحیح بخاری کتاب الجھاد والسیر باب تفرق الناس عن الامام … حدیث 2913)
(السیرۃ الحلبیہ جلد 2صفحہ 369دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح زرقانی جلد 2 صفحہ 532 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(شرح الزرقانی جلد2 صفحہ530 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد4صفحہ176، جلد10صفحہ 257-258دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو شق القمر ہے اسی الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الٰہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا۔ اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی۔ کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزارہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کردیا’’ پیٹ بھر دیا ‘‘اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں’’ یعنی نمکین کنوئیں کے پانی میں ‘‘اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کردیا۔ اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کردیا۔ ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کیے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الٰہی مخلوط تھی۔‘‘