خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 02؍ مئی 2025ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
غزوۂ موتہ
کا ذکر ہو رہا تھا۔ اس کے بارے میں مزید تفصیل اس طرح ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رواحؓہ کو الوداع کہا تو حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے ایسی چیز کا حکم دیں جسے میں آپ کی طرف سے یاد کر لوں۔ آپؐ نے فرمایا۔ کل تم ایسے شہر پہنچو گے جہاں سجود کم ہوتے ہیں وہاں سجود کثرت سے کرنا۔
اب یہ بہت بڑی نصیحت ہے۔ آجکل کے اس زمانے میں ہم جن ملکوں میں رہ رہے ہیں یہاں بھی یہی حال ہے اللہ تعالیٰ کو لوگ بھلا بیٹھے ہیں۔
اس وقت میں، اس دور میں احمدیوں کو کثرت سے اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
پھر انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ!اَور وصیت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرو۔ یہ ہر اس معاملے میں جسے تم چاہو تمہارا مددگار ہو گا۔
ذکر الٰہی بہت ضروری چیز ہے۔ جب حضرت عبداللہ جانے لگے تو واپس آئے اور عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ! اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے۔ تو آپؐ نے فرمایا سوال کرتے جاؤ گے اے ابن رواحہ! اب بس کرو۔ جب تُو عاجز آ جائے اور اگر تُو نے دس آدمیوں سے برائی کی ہو تو ایک سے نیکی کرنے سے عاجز نہ آنا۔ یعنی اتنی برائیوں کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر اگر نیکی کرو گے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں ہو گا تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو بخشتا ہے اس کی رحمت بڑی وسیع ہے۔ حتی الوسع اس کوشش میں رہو کہ نیکی کرنی ہے اور برائی سے بچنا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر دفعہ دس برائیاں کرو اور اس کے بعد کہو کہ ایک نیکی کر لی۔ نہیں ۔بلکہ حقیقی توبہ کرنےو الا برائیاں کرنے کے بعد پھر برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور نیکی کرتا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کا فضل حاصل کرنےو الا بنے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ تُو ایک سے نیکی کرنے سے عاجز نہ آنا اس پر حضرت عبداللہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس کے بعد آپ سے کوئی سوال نہیں کروں گا۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6صفحہ 146، 147دار الکتب العلمیۃ بیروت)
لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امراء کو الوداع کہا۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ کو الوداع کہا گیا تووہ رونے لگے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ آپ کو کیا چیز رُلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم !مجھے نہ دنیا سے محبت ہے اور نہ ہی تم سے لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت پڑھتےہوئے سنا ہے جس میں آگ کا ذکر ہے کہ وَ اِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلٰى رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا (مریم : 72)۔ یعنی اور تم میں سے کوئی نہیں مگر وہ ضرور اس پر اترنے والا ہے۔ یہ تیرے رب پر ایک طے شدہ فیصلے کے طور پر فرض ہے۔ کہنے لگے کہ یہ حالات ہونے ہیں تو میں نہیں جانتا کہ وارد ہونے کے بعد میری واپسی کیسی ہو گی۔ اس پر مسلمانوں نے کہا کہ اللہ تمہارے ساتھ ہو اور وہ اسے تم لوگوں سے دور کرے یعنی برائیوں کو اور تم لوگ ہماری طرف صالح ہونے کی حالت میں آؤ۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6صفحہ145دار الکتب العلمیۃ بیروت)
الوداع کہنے والوں نے ساروں کو دعا دی۔ یہ خوف تھا ان میں ورنہ مومن کے لیے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ دوزخ میں نہیں جائے گا۔ یہاں مراد یہ ہے کہ مومن دوزخ کا حصہ اس دنیا میں کافروں کی تکالیف کی وجہ سے بھی پا لیتے ہیں اور مرنے کے بعد کی دوزخ ان سے بہت دور ہوتی ہے۔ صحابہؓ نے اس بات کو سمجھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دنیاوی تکلیف بھی اللہ تعالیٰ تم سے دور کرے اور تم ہماری طرف صالح ہونے کی حالت میں آؤ۔ اللہ تعالیٰ کا فضل تمہارے ساتھ ہو۔
لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نماز جمعہ کے بعد مدینہ سے گئے تھے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم میں موتہ کی طرف اصحاب کو بھیجا جس میں حضرت عبداللہ بن رواحہ بھی شامل تھے۔ جمعہ کا دن تھا۔ مہم میں شامل باقی اصحاب تو روانہ ہو گئے۔ عبداللہ بن رواحہ نے کہا کہ پیچھے رہ کر جمعہ کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کر کے میں ان سے جا ملوں گا۔ پھر جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے تو آپؐ نے انہیں دیکھ کر فرمایا۔ تجھے کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہونے سے روک دیا؟ انہوں نے عرض کیاکہ میری خواہش تھی کہ میں آپ کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کروں پھر ان سے جا ملوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین میں جو کچھ ہے اگر تم وہ سب خرچ کر ڈالو تو جو لوگ مہم پر روانہ ہو گئے ہیں تم ان کے فضل کو نہیں پا سکتے۔(سنن الترمذی ابواب الجمعۃ باب ما جاء فی السفر یوم الجمعۃ حدیث527)یعنی کہ جب میں نے مہم روانہ کردی تو تمہارا فرض تھا کہ یہ نہ کہتے کہ میں جمعہ پڑھ لوں بلکہ فوراً روانہ ہو جانا چاہیے تھا۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کا پہلی بار مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کرنے کا ذکر
ملتا ہے۔ حضرت خالد بن ولید مشہور شہسوار تھے۔ وہ بھی اس لشکر کے ایک عام سپاہی تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس لشکر کو اکٹھا کیا تو حضرت خالد کو اسلام میں داخل ہوئے ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے۔
(غزوہ مؤتہ از علامہ محمد باشمیل صفحہ 273نفیس اکیڈمی کراچی)
جب مسلمان مدینہ سے کچھ دورپہنچے تو دشمن کو ان کی خبر ہو گئی اور وہ مقابلے کے لیے تیاری کرنے لگے۔ معلوم ہوتا ہے کہ منافقین مدینہ اور یہود نے مسلمانوں کے اکٹھا ہونے اور ان کے شام کی طرف مارچ کرنے کی خبر اڑا دی تھی تاکہ یہ جومقابلے پہ عیسائی تھے وہ اپنا بچاؤ کا سامان کر لیں۔
شرحبیل بن عمرو جزیرہ عرب سے ملحق شام کے جنوبی علاقوں پر رومیوں کا گورنر تھا۔ اسے مدینہ کے رومی جاسوسوں سے اس لشکر کے مارچ کرنے کی اطلاع ملی۔ اس نے رومیوں کو اطلاع دینے کے لیے آدمی بھیجا کہ مسلمان شام کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔ پھر وہ رومیوں کے دوست قبائل سے شام کے جنوب میں فوج اکٹھی کرنے لگا۔ پھر خود اس نے اسی وقت اپنے بھائی کو اپنے بعض آدمیوں کے ہمراہ ہراول دستے کے طور پر بھیجا کہ وہ اس کے لیے اسلامی فوج کی خبریں معلوم کریں۔
(غزوہ مؤتہ از علامہ باشمیل صفحہ 277-278 نفیس اکیڈمی کراچی)
یہ بھی لکھا ہے کہ دوسری طرف شرحبیل بن عمرو نے ایک لاکھ سے زائد افراد کا لشکر تیار کیا۔ جب مسلمان وادی القرٰ ی میں پہنچے تو شرحبیل نے اپنے بھائی سُدوس کو پچاس مشرکین کے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے مسلمانوں سے جنگ کی۔ سدوس کے ساتھیوں کو شکست ہوئی اور وہ خود بھی قتل ہو گیا۔ مسلمان بھی آگے بڑھے اور شام کے علاقہ مَعَان میں پہنچے۔ یہ جگہ موتہ سے پہلے واقع ہے۔ یہاں صحابہؓ کو دشمن کی کثرت اور ان کے جمع ہونے کا علم ہوا اور ان کو خبر ملی کہ ہرقل ایک لاکھ رومیوں کے ساتھ بلقاء کے علاقہ مآب میں آیا ہو اہے اور اس کے ساتھ مختلف قبائل سے ایک لاکھ عرب بھی مل گئے ہیں۔
علامہ زرقانی کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ یہ ایک لاکھ کا لشکر وہی ہو جسے شرحبیل نے اکٹھا کیا تھا۔ مسلمانوں نے دو راتیں مُعان میں قیام کیا اور وہ اس معاملے پہ غور و فکر کرتے رہے۔ بعض نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھ کر ساری خبر دے دیتے ہیں۔ آپؐ مزید لشکر بھیج کر ہماری مدد کریں یا کوئی اَور حکم فرمائیں گے جسے ہم کر گزریں گے۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے انہیں آگے بڑھنے کے لیے ہمت دی اور کہا اے میری قوم! اللہ کی قسم جس چیز کو تم اب ناپسند کر رہے ہو اسی کے حصول کے لیے تم نکلے تھے۔ تم شہادت کی آرزو لے کر نکلے ہو۔ ہم لوگوں سے تعداد یا قوت سے جہاد نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا جو جہاد ہوتا ہے وہ تعداد کی وجہ سے نہیں ہوتا یا طاقت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس دینِ حق کے ساتھ ان سے جہاد کرتے ہیں جس کے ساتھ رب تعالیٰ نے ہم کو عزت بخشی ہے۔ آگے بڑھو تمہیں دو بھلائیوں میں سے ایک نصیب ہو گی۔ غلبہ یا شہادت۔ یہ دونوں مقام برے نہیں ہیں۔ صحابہ کرام نے کہا بخدا! ابن رواحہ نے سچ کہا۔ صحابہ کرام آگے روانہ ہو گئے۔ جب تُخُوْمُ الْبَلْقَاء پہنچے تو انہیں ہرقل کے لشکر ملے جو اہل روم اور اہل عرب پر مشتمل تھے۔ یہ بستی بلقاء کی بستیوں میں سے ایک تھی جسے مشارف کہا جاتا تھا۔ دشمن قریب ہوا تو مسلمان اس بستی کی طرف ہٹ گئے جسے موتہ کہا جاتا تھا۔ وہاں ہی یہ معرکہ حق و باطل ظہور پذیر ہوا۔ مسلمانوں نے مشرکین کے لیے تیاری کی۔ حضرت ابوہریرہؓ اس جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب دشمن ہمارے قریب ہوا تو ہم نے اتنی کثیر تعداد اور اتنی عمدہ تیاری اسلحہ گھوڑے ریشم دیباج اور سونا نہ دیکھا تھا۔ یہاں تک کہ میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ مجھے حضرت ثابتؓ بن اقرم نے کہا: ابوہریرہ! تم کثیر لشکر دیکھ رہے ہو؟ سوال کیا۔ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا تم نے ہمارے ساتھ غزوۂ بدر میں شرکت نہیں کی۔ ہم کثرت کی وجہ سے غالب نہیں آئے تھے۔
ابن اسحاق نے لکھا ہے مسلمانوں نے مشرکین کے لیے تیاری کی اور لشکر کے دائیں اور بائیں حصے پر نگران متعین کیے گئے۔
حضرت زیدؓ کی شہادت
کے بارے میں لکھا ہے۔ پھر لوگ باہم نبرد آزما ہو گئے انہوں نے سخت قتال کیا۔ حضرت زید بن حارثہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عَلَم کے ساتھ جہاد کیا یہاں تک کہ دشمن کےنیزوں کی وجہ سے جامِ شہادت نوش کر گئے۔ پھر حضرت جعفرؓ نے عَلَمِ اسلام تھاما اور جہاد کیا۔ جب قتال ان کی رکاوٹ بنا تو اپنے گھوڑے شقراءسے نیچے اتر آئے۔ اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر جہاد کیا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔
حضرت جعفرؓ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے راہ خدا میں اپنے گھوڑے کی کونچیں کاٹیں۔
قبیلہ بنو مُرَّة بن عوف میں سے ایک شخص نے غزوۂ موتہ میں شرکت کی تھی۔ انہوں نے کہا گویا کہ مَیں اب بھی حضرت جعفر کو دیکھ رہا ہوں جب وہ اپنے شقراءگھوڑے سے نیچے اترے، اس کی کونچیں کاٹیں پھر جہاد کیا یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔ اس وقت وہ یہ اشعار پڑھ رہے تھے۔
يَا حَبَّذَا الْجَنَّةُ وَاقْتِرَابُهَا طَيِّبَةً وَبَارِدًا شَرَابُهَا
وَالرُّوْمُ رُوْمٌ قَدْ دَنَا عَذَابُهَا كَافِرَةً بَعِيْدَةً أَنْسَابُهَا
عَلَيَّ إذْ لَاقَيْتُهَا ضِرَابُهَا
یعنی جنت اور اس کے قرب کے کیا کہنے۔ اس کا پانی کتنا پاکیزہ اور ٹھنڈا ہے۔ رومی رومی ہیں ان کا عذاب قریب آ گیا ہے۔ وہ کافر ہیں۔ اُن کا نسب بہت زیادہ دور ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ جب میں ان سے جنگ کروں تو انہیں ضرب لگاؤں۔ ایک روایت میں ہے۔ حضرت ابوعامر بیان کرتے ہیں کہ حضرت جعفر نے ہتھیار زیب بدن کیا پھر مشرکین پر حملہ کر دیا۔ جب انہیں خدشہ لاحق ہوا کہ وہ دشمن میں مل جائیں گے تو انہوں نے ہتھیار پھینک دیے۔ انہوں نے دشمن پر حملہ کیا اور نیزہ بازی کی حتی کہ شہید ہو گئے۔
ابن ہشام نے روایت کیا ہے کہ حضرت جعفر بن ابوطالبؓ نے اپنے دائیں ہاتھ میں جھنڈا تھاما۔ وہ ہاتھ کٹ گیا پھر بائیں ہاتھ میں جھنڈا تھام لیا۔ وہ بھی کٹ گیا۔ پھر اسے اپنی کہنیوں کے ساتھ سینے سے چمٹا لیا حتی کہ شہید ہو گئے۔ اس وقت ان کی عمر تینتیس سال تھی۔ ان بازوؤں کے عوض اللہ تعالیٰ نے انہیں دو پَر عطا کر دیے۔ وہ ان کے ساتھ جنت میں جہاں چاہتے اڑتے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک رومی نے ان پر ایک ضرب لگائی اور انہیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔
امام بخاری اور امام بیہقی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں اس غزوے میں شریک تھا۔ ہم نے حضرت جعفرؓ کو تلاش کیا۔ ہم نے انہیں شہداء میں پایا۔ ہم نے دیکھا کہ ان کے جسم پر ساٹھ سے زائد نیزوں اور تیروں کے زخم تھے۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں نے ان کے جسم پر نیزے اور تلوار کے پچاس زخم گنے۔ ان میں سے کوئی بھی زخم ان کی پیٹھ پر نہ تھا۔ سب سامنے تھے۔ جب حضرت جعفر شہید ہو گئے تو اسلام کا جھنڈا حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے تھام لیا تھا۔ لکھا ہے کہ وہ اپنے گھوڑے پر آگے بڑھے، پہلے بھی بیان ہو چکا ہےکہ حضرت عبداللہ بن رواحہ حضرت جعفر کے بعد کمانڈر بنے۔ ان کے نفس میں تردّد آیا، تھوڑا سا شک پیدا ہوا، خوف پیدا ہوا تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے۔ جن کا ترجمہ یہ ہے کہ اے نفس !میں نے قسم اٹھائی ہے کہ تو ضرور میدان جنگ میں اترے گا۔ خوشی سے اترے گا یا تجھے مجبور کیا جائے گا۔ اگر لوگ اکٹھے ہو جائیں اور کمانیں کَس لیں تو کیا ہے کہ میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تُو جنت کو پسند نہیں کر رہا۔ تجھے بڑا شک پڑ رہا ہے۔ پھر شعروں میں ہی انہوں نے کہا کہ طویل مدت سے تُو اس پر مطمئن تھا۔ تو ایک پرانے مشکیزے سے ٹپکنے والا ایک قطرہ ہے۔ بہرحال یہ پڑھنے کے بعد وہ اپنے گھوڑے سے نیچے اترے تو حضرت ابن عمر ایک ہڈی والا گوشت لے کر آئے اور انہوں نے کہا اس سے اپنی کمر مضبوط کر لیں۔ ذرا تھوڑی سی طاقت پید اہو جائے گوشت کھانے سے۔ بھنا ہوا تھا۔ ان ایام میں آپ کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے وہ ہڈی والا گوشت لیا، اس سے کچھ حصہ توڑا پھر لوگوں میں ایک جانب ٹکراؤ کی آواز سنی۔ آواز سنی کہ جنگ شروع ہو چکی ہے اور تلواریں چل رہی ہیں تو اپنے نفس سے انہوں نے کہا کہ تُو ابھی بھی دنیا میں ہے۔ گوشت کھانے میں لگا ہوا ہے۔ لوگ تلواروں سے لڑ رہے ہیں۔ تو انہوں نے فوراً اس ہڈی کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ اور اپنی تلوار تھامی۔ آگے بڑھے اور لڑائی شروع کر دی یہاں تک کہ شہید ہو گئے اور ان کے ہاتھ سے جھنڈا گر پڑا۔ مسلمان اور مشرکین باہم مل گئے۔ بعض افراد پسپا ہو گئے۔ اس پر حضرت قطبہ بن عامر پکار پکار کر کہنے لگے۔ اے قوم! پیٹھ پھیر کر قتال کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر قتال کرنا زیادہ بہتر ہے۔ انہوں نےجوش دلایا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت زید، جعفر اور عبداللہ رضی اللہ عنہم کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔
حضرت ابوعامرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن رواحہ شہید ہو گئے تو مسلمانوں کو بری طرح ہزیمت اٹھانا پڑی۔ یہ کہتے ہیں کہ مَیں نے دو افراد کو بھی اکٹھا نہ دیکھا۔ بالکل بکھر گئے تھے۔ ایک انصاری شخص نے جھنڈا اٹھا لیا۔ وہ دوڑ کر آیا، اس نے لوگوں کے آگے آ کے جھنڈا گاڑ دیا۔ پھر کہا اے لوگو! میری طرف آؤ۔ لوگ اس کے پاس جمع ہو گئے۔ جب جھنڈا آ گیا تو پھر مسلمان لوگ اکٹھے ہونے لگے۔ جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی تو وہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے پاس گئے۔ حضرت خالد نے اس انصاری سے کہا میں اسے تم سے نہیں لوں گا۔ تم اس کے زیادہ مستحق ہو۔ اس انصاری نے کہا کہ اللہ کی قسم! مَیں نے اسے تمہارے لیے پکڑا ہے۔ میں نے تو پکڑا ہی آپ کے لیے ہے۔ بہرحال حضرت خالد کی امارت ،مشرکین کو شکست اور اللہ تعالیٰ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح کا علم دینا اس بارے کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے۔
لکھا ہے کہ حضرت ابویُسر انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ بن رواحہ شہید ہو گئے تو میں نے اسلام کا جھنڈا حضرت ثابت بن اقرم کو دیا۔ حضرت ثابتؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ سے کہا: آپ فنونِ جنگ سے مجھ سے زیادہ آشنا ہیں۔ چنانچہ وہ جھنڈا حضرت خالد بن ولید کو دے دیا گیا۔ ابنِ اسحاق کہتے ہیںکہ جب حضرت خالد بن ولیدؓ نے جھنڈا تھاما تو انہوں نے لوگوں کا دفاع کیا، انہیں سمیٹ کر اکٹھا کیا پھر اپنے لشکر کو ایک طرف ہٹا لیا اور دشمن بھی ان سے پیچھے ہٹ گیا اور وہ لوگوں کو بچا کر واپس لے آئے۔ ابن اسحاق کے مطابق یہ دور ہٹنا ہی دراصل رومیوں سے بچنا تھا کیونکہ مسلمان اس وقت دو لاکھ سے زائد رومیوں میں مل چکے تھے یعنی کہ بالکل آپس میں گتھم گتھا تھے جبکہ مسلمانوں کی کل تعداد تین ہزار تھی۔ اس اعتبار سے اس سریہ کو فتح اور نصرت کہا گیا ہے کیونکہ دشمن نے مسلمانوں کو گھیر لیا تھا۔ وہ ان پر جمع ہو چکے تھے اور عموماً ایسے حالات میں سارے مسلمان شہید ہو سکتے تھے۔ احتمال بھی یہی تھا لیکن ایسا کہنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے خلاف تھا کہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا کر دے۔ مطلب یہی تھا کہ تم لوگ بچ تو جاؤ گے۔ فتح کے بھی کئی مختلف پہلو ہوتے ہیں۔ اکثر سیرت نگار لکھتے ہیں کہ حضرت خالد اور ان کے ساتھیوں نے دشمن کے ساتھ قتال کیا حتٰی کہ انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔
حضرت ابوعامر نے بیان کیا کہ جب حضرت خالدؓ نے جھنڈا تھام لیا تو دشمن پر حملہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کو بری طرح شکست دی۔ ایسی شکست میں نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ حتی کہ مسلمانوں نے انہیں اس طرح قتل کیا جیسے انہوں نے چاہا۔
یہ بھی روایت ہے اور حضرت خالد کی حکمت عملی کے بارے میں، جنگی حکمت عملی کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے، لکھا ہے کہ حضرت خالدؓ نے موتہ میں فوج کی دوبارہ تنظیم کی اور شہسواروں کا ایک دستہ منتخب کیا اور انہیں حکم دیا کہ وہ رازداری سے راتوں رات جنوب میں جزیرۂ عرب کی جانب اسلامی فوج کے پیچھے ایسی جگہ پڑاؤ کریں جہاں رومی نہ دیکھ سکیں۔ حضرت خالدؓ نے انہیں حکم دیا کہ متعدد دستوں میں تقسیم ہو کر اسلامی لشکر کے پیچھے سے موتہ کی طرف آئیں اور انتہائی بلند آواز سے تکبیرات بلند کریں اور اپنے گھوڑوں کو مٹی والی جگہوں پر دوڑائیں تا کہ بہت غبار اٹھے۔ ان باتوں سے حضرت خالد کا مقصد یہ تھا کہ دشمن یہ سمجھے کہ مسلمانوں کی مدد کے لیے مزید کمک آ گئی ہے۔ حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خالدؓ نے لشکر کو از سر نو منظم کرتے ہوئے لشکر کے اگلے حصے کو پیچھے اور پچھلے حصے کو آگے کر دیا اور اس طرح دائیں حصے کو بائیں اور بائیں حصے کو دائیں کر دیا۔ دشمن یہ دیکھ کر تعجب میں پڑ گیا۔ انہوں نے سمجھا کہ شاید مسلمانوں کو مدد مل گئی ہے۔ مختلف لوگ سامنے آ گئے ہیں تو وہ مرعوب ہو گئے اور انہیں شکست ہو گئی۔
حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زیدؓ اور حضرت جعفرؓ اور حضرت ابن رواحہؓ کے شہید ہونے کا لوگوں کو بتایااس سے پہلے کہ لوگوں کے پاس ان کی کوئی خبر آتی۔ آپؐ نے فرمایا: زیدؓ نے جھنڈا لیا اور وہ شہید ہو گئے۔ پھر جعفرؓ نے لیا وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر ابن رواحہؓ نے لیا وہ بھی شہید ہو گئے اور آپؐ کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں۔ فرمایا یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے لیا یہاں تک کہ اللہ نے ان کو فتح دے دی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔ حضرت ابوقتادہ ؓبیان کرتے ہیں کہ پھر
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک بلند فرمائی اور فرمایا: اے اللہ!
یہ تیری تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ تُو اس کی مدد فرما۔
اس روز سے حضرت خالد بن ولیدؓ کو سیف اللہ کہا جانے لگا، یعنی اللہ کی تلوار۔
ایک روایت کے مطابق یہ جنگ سات روز تک جاری رہی۔
(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 6صفحہ147تا 151دار الکتب العلمیۃ بیروت)
(فرہنگ سیرت از سید فضل الرحمٰن صاحب،صفحہ279)
(صحیح البخاری کتاب المغازی ، باب غزوۃ مؤتہ من ارض الشام،4260، 4262)
(فتح الباری ازابن حجر، جلد 9صفحہ 654 کتاب المغازی ،باب غزوۃ المؤتہ،زیرحدیث 4262)
( ماخوذ از غزوہ موتہ از باشمیل صفحہ 328نفیس اکیڈمی کراچی)
(شرح زرقانی جلد 3 صفحہ 343 دار الکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔ فرمایا کہ ’’یہ پہلا لشکر تھا جو اسلام کی طرف سے عیسائیت کے مقابلہ کے لیے نکلا۔ جب یہ لشکر شام کی سرحد پر پہنچا تواسے معلوم ہوا کہ قیصر بھی اِس طرف آیا ہوا ہے اور ایک لاکھ رومی سپاہی اس کے ساتھ ہیں اور ایک لاکھ کے قریب عرب کے عیسائی قبائل کے سپاہی بھی اس کے ساتھ ہیں۔ اس پر مسلمانوں نے چاہا کہ وہ راستہ میں ڈیرہ ڈال دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیں تاکہ اگر آپؐ نے کوئی اور مدد بھیجنی ہو تو بھیج دیں اور اگر کوئی حکم دینا ہو تو اس سے اطلاع دیں۔ جب یہ مشورہ ہو رہا تھا تو عبداللہ بن رواحہؓ جوش سے کھڑے ہوگئے اور کہا اےقوم! تم اپنے گھروں سے خدا کے راستہ میں شہید ہونے کے لیے نکلے تھے اور جس چیز کے لیے تم نکلے تھے اب اس سے گھبرا رہے ہو اور ‘‘، پھر انہوں نے کہا کہ ’’ہم لوگوں سے اپنی تعداد اور اپنی قوت اور اپنی کثرت کی وجہ سے تو لڑائیاں نہیں کرتے رہے۔ ہم تو اس دین کی مدد کے لیے دشمنوں سے لڑتے رہے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لیے نازل کیا ہے۔ اگر دشمن زیادہ ہے تو ہوا کرے۔ آخر دو نیکیوں میں سے ہم کو ایک ضرور ملے گی یا ہم غالب آ جائیں گے یا ہم خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گے۔ لوگوں نے ان کی یہ بات سن کے کہا ابن رواحہؓ بالکل سچ کہتے ہیں اور فوراً کوچ کا حکم دے دیا گیا۔ جب وہ آگے بڑھے تو رومی لشکر انہیں اپنی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو مسلمانوں نے موتہ کے مقام پر اپنی فوج کی صف بندی کر لی اور لڑائی شروع ہوگئی۔ تھوڑی ہی دیر میں زید بن حارثہؓ جو مسلمانوں کے کمانڈر تھے مار ے گئے۔ تب اسلامی فوج کا جھنڈا جعفر بن ابی طالبؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی‘‘تھے انہوں ’’نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فوج کی کمان سنبھال لی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ دشمن کی فوج کا ریلا بڑھتا چلا جاتا ہے اور مسلمان اپنی تعداد کی قلت کی وجہ سے ان کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتے تو آپ جوش سے گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ جس کے معنی یہ تھے کہ کم سے کم میں تو اِس میدان سے بھاگنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں موت کو پسند کروں گا مگر بھاگنے کو پسند نہیں کروں گا۔ یہ ایک عربی رواج تھا۔ وہ گھوڑے کی ٹانگیں اِس لیے کاٹ دیتے تھے تاکہ وہ بغیر سوار کے اِدھر ادھر بھاگ کر لشکر میں تباہی نہ مچائے ‘‘گھوڑا بھی تباہی نہ مچائے۔ اس لیے صرف اترتے نہیں تھے ان کی ٹانگیں بھی کاٹ دیتے تھے۔ ’’تھوڑی دیر کی لڑائی میں آپ کا دایاں بازو کاٹا گیا۔ تب آپ نے بائیں ہاتھ سے جھنڈا پکڑ لیا۔ پھر آپ کا بایاں ہاتھ بھی کاٹا گیا تو آپ نے دونوں ہاتھ کے ٹنڈوں سے جھنڈے کو اپنے سینہ سے لگا لیا اور میدان میں کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے۔ تب عبداللہ بن رواحہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت جھنڈے کو پکڑ لیا اور وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے مارے گئے۔ اس وقت مسلمانوں کے لیے کوئی موقع نہ تھا کہ وہ مشورہ کر کے کسی کو اپنا سردار مقرر کرتے اور قریب تھا کہ دشمن کے لشکر کی کثرت کی وجہ سے مسلمان میدان چھوڑ جاتے کہ خالد بن ولید نے ایک دوست کی تحریک پر جھنڈا پکڑ لیا اور شام تک دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔
دوسرے دن پھر خالد اپنے تھکے ہوئے اور زخم خوردہ لشکر کو لے کر دشمن کے مقابلہ کے لیے نکلے اور انہوں نے یہ ہوشیاری کی کہ لشکر کے اگلے حصہ کو پیچھے کر دیا اور پچھلے حصہ کو آگے کر دیا اور دائیں کو بائیں اور بائیں کو دائیں اور اس طرح نعرے لگائے کہ دشمن سمجھا کہ مسلمانوں کو اَور مدد پہنچ گئی ہے۔ اس پر دشمن پیچھے ہٹ گیا اور خالدؓ اسلامی لشکر کو بچا کر واپس لے آئے۔‘‘دشمن خود ہی پیچھے چلا گیا۔ مسلمانوں نے پیچھا نہیں کیا۔ بہرحال یہ بھی نہیں کہ ان سے ڈرے بلکہ دشمن خود ہی ہٹ کے پیچھے چلا گیا تھا۔
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر اسی دن وحی کے ذریعہ سے دے دی اور آپ نے اعلان کر کے سب مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا۔ جب آپ ممبر پر چڑھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اے لوگو !میں تم کو اس جنگ میں جانے والے لشکر کے متعلق خبر دیتا ہوں۔ وہ لشکر یہاں سے جا کر دشمن کے مقابل کھڑا ہوا اور لڑائی شروع ہونے پر پہلے زیدؓ مارے گئے۔ پس تم لوگ زیدؓ کے لیے دعا کرو۔‘‘ آپؐ نے فرمایا۔ ’’پھر جھنڈا جعفرؓ نے لے لیا اور دشمن پر حملہ کیا یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے پس تم ان کے لیے بھی دعا کرو۔ پھر جھنڈا عبداللہ بن رواحہؓ نے لیا اور خوب دلیری سے لشکر کو لڑایا مگر آخر وہ بھی شہید ہو گئے پس تم ان کے لیے بھی دعا کرو۔ پھر جھنڈا خالد بن ولیدؓ نے لیا۔ اس کو میں نے کمانڈر مقرر نہیں کیا تھا مگر اس نے خود ہی اپنے آپ کو کمانڈر مقرر کر لیا لیکن وہ خدا تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔‘‘
تفصیل اس کی لکھی ہے کہ دوست کی تحریک پرکس طرح یہ ہوا ۔لکھا ہے۔ ’’پس وہ خدا تعالیٰ کی مدد سے اسلامی لشکر کو بحفاظت واپس لے آئے۔ آپ کی اِس تقریر کی وجہ سے خالدؓ کا نام مسلمانوں میں سیف اللہ یعنی خدا کی تلوار مشہور ہو گیا۔ چونکہ خالد آخر میں ایمان لائے تھے۔ اس لیے بعض صحابہ ان کو مذاقاً یا کسی جھگڑے کے موقع پر اس کا طعنہ دے دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی ایسی ہی بات پر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ سے ان کی تکرار ہو گئی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالد کی شکایت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خالد! تم اِس شخص کو جو کہ بدر کے وقت سے اسلام کی خدمت کر رہا ہے کیوں دکھ دیتے ہو؟ اگر تم احد کے برابر بھی سونا خرچ کرو تو اِس کے برابر خدا تعالیٰ سے انعام حاصل نہیں کر سکتے۔ اِس پر خالدؓ نے کہا یارسول اللہ! یہ مجھے طعنہ دیتے ہیں تو پھر میں بھی جواب دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم لوگ خالدکو تکلیف نہ دیا کرو۔‘‘خالد کی بھی دلداری کی آپؐ نے۔ ’’یہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو خدا تعالیٰ نے کفار کی ہلاکت کے لیے کھینچی ہے۔ یہ پیشگوئی چندسالوں بعد حرف بحرف پوری ہوئی۔ جب خالد اپنے لشکر کو واپس لائے تو مدینہ کے صحابہؓ جو ساتھ نہ گئے تھے انہوں نے اس کے لشکر کو بھگوڑے کہنا شروع کیا۔ مطلب یہ تھا کہ تم کو وہیں لڑ کر مرجانا چاہیے تھا۔ واپس نہیں آنا چاہیے تھامگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بھگوڑے نہیں۔ بار بارلَوٹ کر دشمن پر حملہ کرنے والے سپاہی ہیں۔ اِس طرح آپ نے ان آئندہ جنگوں کی پیشگوئی فرمائی جو مسلمانوں کو شام کے ساتھ پیش آنے والی تھیں۔‘‘(دیباچہ تفسیر القرآن، انوارالعلوم جلد 20صفحہ334تا336)اور پھر خالد بن ولید نے اپنے جوہر بھی دکھائے۔
جھنڈے کے ادب و احترام کا ذکر
کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا کہ
’’قوموں میں جھنڈے کا بڑا ادب اور احترام کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ دشمن سے اس کا جھنڈا چھیننے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں کی جاتی ہیں اور بعض دفعہ اپنا جھنڈا بچانے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں کی جاتی ہیں اور یہ شرک نہیں ہوتا
بلکہ جیسے باپ کے سامنے اس کے بیٹے کا اوپر بیٹھنا سب لوگ ناجائز سمجھتے ہیں اس لیے کہ اس طرح تمثیلی زبان میں باپ کی ہتک ہوتی ہے۔ اسی طرح تمثیلی زبان میں چونکہ قوم کا جھنڈا چھینے جانے کے معنے اس کی عزت و آبروکے خاک میں مل جانے کے ہیں اس لیے قومیں اپنی جانیں قربان کر دیتی ہیں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتیں کہ ان کا جھنڈا دشمن کے قبضہ میں چلا جائے‘‘ اس لیے لوائے احمدیت، خدام الاحمدیہ وغیرہ نے بھی اپنے جھنڈوں کی حفاظت کے لیے قاعدہ بنایا ہے کہ حفاظت کے لیے خدام مقرر ہوں۔ بہرحال آپ لکھتے ہیں کہ ’’…جب کسی قوم کے افراد کے دلوں میں اس کے جھنڈے کی عظمت قائم کر دی جاتی ہے تو وہ انہیں اس بات کے لیے تیار کر دیتی ہے کہ اگر اپنے جھنڈے کی حفاظت کے لیے انہیں اپنی جانیں بھی قربان کرنی پڑیں تو بلا دریغ جانیں قربان کر دیں کیونکہ اس وقت تھوڑی سی لکڑی اور کپڑے کا سوال نہیں ہوتا بلکہ قوم کی عزت کا سوال ہوتا ہے جو تمثیلی زبان میں ایک جھنڈے کی صورت میں ان کے سامنے موجود ہوتا ہے۔‘‘ آپؓ نے لکھا ہے کہ’’مَیں نے کئی دفعہ پہلے بھی بیان کیا ہے کہ ہمیں صحابہؓ میں بھی اس قسم کی مثال نظر آتی ہے۔ ایک جنگ میں ایک مسلمان افسر کے پاس اسلامی جھنڈا تھا وہ لوگ شاندار جھنڈے نہیں بنایا کرتے تھے بلکہ ایک معمولی سی لکڑی پر کالا کپڑا باندھ لیتے تھے مگر چاہے وہ کالا کپڑا ہوتا، چاہے اس جھنڈے کی معمولی لکڑی ہوتی، اس وقت سوال قوم کی عزت کا ہوا کرتا تھا۔ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ جھنڈا قیمتی ہے یا معمولی بلکہ وہاں صرف اس بات کو ملحوظ رکھا جاتا تھا کہ قوم کی عزت اس بات میں ہے کہ اس جھنڈے کی حفاظت کی جائے۔ بہرحال اس لڑائی میں عیسائیوں نے جن کے خلاف جنگ ہو رہی تھی خاص طور پر اس جگہ حملہ کیا جہاں مسلمانوں کا جھنڈا تھا۔ حضرت جعفرؓ کے پاس یہ جھنڈا تھا اور یہ جنگ جنگِ موتہ تھی۔ انہوں نے جب حملہ کیا تو حضرت جعفرؓ کا ایک ہاتھ کٹ گیا، انہوں نے جھٹ اس جھنڈے کو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا۔ جب دشمن نے دیکھا کہ جھنڈا پھر بھی نیچا نہیں ہوا تو اس نے دوبارہ حملہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا وہ دوسرا ہاتھ بھی کٹ گیا جس میں انہوں نے جھنڈا تھاما ہوا تھا۔ انہوں نے فوراً جھنڈے کو دونوں لاتوں سے پکڑ لیا‘‘یہ بھی روایت میں آتا ہے۔’’چونکہ لاتوں سے زیادہ دیر تک جھنڈا پکڑا نہیں جا سکتا تھا اس لیے انہوں نے زور سے آواز دی کہ کوئی مسلمان آگے آئے اور اس جھنڈے کو پکڑے اور انہوں نے کہا مسلمانو! دیکھنا اسلام کا جھنڈا نیچا نہ ہو۔ اب تھا وہ کپڑے کا یا معمولی لکڑی کا جھنڈا مگر اس کا نام انہوں نے اسلام کا جھنڈا رکھا کہ گو ہے تو وہ لکڑی کا، ہے تو وہ معمولی سے کپڑے کا مگر بہرحال اسلام کا جھنڈا ہے اس لیے اس کی حفاظت ضروری ہے۔ چنانچہ ایک اور افسر نے آگے بڑھ کر اس جھنڈے کو پکڑ لیا۔ میرا خیال ہے‘‘اپنا خیال ظاہر کر رہے ہیں ’’کہ غالباً وہ حضرت خالد بن ولید تھے‘‘ خالد بن ولید نہیں تھے ایک دوسرے صحابی نے پکڑا تھا جیسا کہ بیان ہوا ہے اور پھر وہ خالد بن ولید کو دیا گیا تھا۔
’’تو دیکھو ایک کپڑے کی چیز ہے معمولی لکڑی کی چیز ہے اور اسلام کے نزدیک اس کپڑے یا لکڑی کو کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں مگر جس حد تک قومی اعزاز کا سوال ہے، اسلام اس سے منع نہیں کرتا۔ خالد بن ولید نے جنہوں نے وہ جھنڈا پکڑا کہا کہ یہ اسلام کا جھنڈا ہے۔ دیکھنا یہ گرنے نہ پائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی اس بات کو ناپسند نہیں کیا بلکہ بعض دفعہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی چیزوں کی عظمت قائم کرنے کے لیے فرما دیا کرتے تھے کہ یہ جھنڈا کون شخص لے گا۔ چنانچہ بعض لڑائیوں میں آپ نے فرمایا کہ میں جھنڈا اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اس کی عزت کو قائم کرے گا اور صحابہؓ ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر اس جھنڈے کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1942ء، خطبات محمود جلد 23 صفحہ 471تا473)
بہرحال یہ بیان ابھی جاری رہے گا۔
میں کہتا رہتا ہوں کہ
دنیا کے عمومی حالات کے لیے دعائیں جاری رکھیں، خاص طور پر آج کل پاکستان اور ہندوستان کے جو حالات ہیں اس کے لیے دعا کریں۔اللہ تعالیٰ ظلم کا خاتمہ کرے۔ مظلوموں کی حفاظت فرمائے۔ حکومتوں کو عقل دے کہ جنگوں کی طرف بڑھنے کی بجائے صلح اور صفائی سے معاملات طے کریں۔ بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنے والے ہوں
اور اللہ تعالیٰ بین الاقوامی تنظیموں کو بھی جہاں آجکل انصاف تو مشکل سے ملتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان تنظیموں کو بھی توفیق دے اور دونوں طرف کے ہمدردوں اور دوستوں کو بھی توفیق دے کہ ان ملکوں کے آپس میں معاملات حل کروا سکیں۔
پاکستان کی طرف سے تو بہرحال یہ کہا جا رہا ہے اور اکثر ان کے وزیروں کے بیان آتے رہتے ہیں کہ کشمیر میں دہشت گردی کا جو واقعہ ہو اہے اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر تمہیں شک ہے تو یو این کے اداروں کے ذریعہ سے اس کی تحقیق کرواؤ جو ہونی چاہیے بجائے اس کے کہ ہم لڑیں۔
ہندوستان کی حکومت کو بھی اس پر مثبت رویہ دکھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ دونوں طرف کو عقل دے۔ جنگ ہوتی ہے تو دونوں طرف نقصان ہوتا ہے اور پھر صرف سپاہی نہیں بلکہ عوام اور مظلوم بھی بلاوجہ مارے جاتے ہیں۔ یہی ہم آجکل کی جنگوں میں دیکھ رہے ہیں۔ ہر جگہ یہی ہو رہا ہے بہرحال دنیا کے سب مظلوموں کے لیے دعا کریں۔ بظاہر تو دنیا تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی اسے تباہی سے بچائے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب یہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے اور ہمیں بھی دعاؤں کی توفیق دے۔
اب میں جمعہ کی نماز کے بعد
ایک شہید کا جنازہ
پڑھاؤں گا۔
محمد آصف صاحب ابن رفیق احمد صاحب
آف بھلیرضلع قصور کو معاندین احمدیت نے 24؍ اپریل کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ۔بوقت شہادت مرحوم کی عمر انیس سال تھی۔ نوجوان لڑکے تھے۔
تفصیلات کے مطابق وقوعہ کے روز رات تقریباً پونے گیارہ بجے محمد آصف صاحب اپنے ایک احمدی ہمسائے اسنان احمد صاحب کے ہمراہ موٹر سائیکل پر گاؤں سے باہر ایک دکان سے بعض گھریلو ضروریات کی اشیاء خریدنے گئے۔ گاؤں کے دکانداروں نے بائیکاٹ کر رکھا تھا اس لیے خرید و فروخت کے لیے باہر جانا پڑتا تھا۔ گھر سے تقریباً سو میٹر کے فاصلے پر راستے میں معاندین پہلے سے تاک میں موجود تھے۔ انہوں نے ان دونوں پر فائرنگ کر دی۔ محمد آصف صاحب کے دائیں کندھے پر کمر کی طرف گولی لگی جو آر پار ہو گئی جبکہ دوسرے خادم اسنان احمد صاحب کو بائیں ٹانگ میں گولی لگی۔ حملہ آور وقوعے کے بعد بھی خوف و ہراس پھیلانے کے لیے فائرنگ کرتے رہے۔ ہمارے ان دونوں خدام نے باوجود زخمی ہونے کے ہمت اور حوصلے سے کام لیا اور وہاں سے موٹر سائیکل پر ہی نکل آئے اور کچھ فاصلہ پر آ کر گر گئے۔ موٹر سائیکل اپنا چلاتے رہے۔ پولیس موقع پر تاخیر سے پہنچی۔ اس دوران حملہ آوروں کی طرف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے ان دونوں کو فوری طور پر ہسپتال نہ لے جایا جا سکا۔ پولیس کے پہنچنے پر آصف صاحب کو ہسپتال لے جایا گیا تاہم اس دوران خون زیادہ بہنے کی وجہ سے محمد آصف صاحب ہسپتال پہنچتے ہی شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ۔
وقوعے کا مقدمہ متعلقہ پولیس اسٹیشن پھول نگر ضلع قصور میں درج ہوا ہے۔ اب ان کے مقدمے درج ہونے کے بعد حالات ایسے ہی رہتے ہیں ۔کرتے کچھ نہیں یہ۔ لیکن دیکھیں اب کیا کرتے ہیں۔ تین افراد کی گرفتاری عمل میں آئی ہے جبکہ اسنان احمد صاحب جن کے پاؤں میں گولی لگی تھی وہ ابتدائی طبی امداد کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر ہیں۔
بھلیرضلع قصور میں گذشتہ تین سال سے شدید مخالفت کا ماحول ہے۔ متعدد مرتبہ احباب جماعت کے خلاف بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمات درج کروائے گئے۔ کئی مرتبہ احمدی احباب کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ احمدیہ قبرستان میں احمدی مرحومین کی قبروں سے کلمہ طیبہ اور دیگر آیات مٹائی گئیں۔ گاؤں میں مکمل بائیکاٹ کی کیفیت ہے۔ دکانوں سے سودا سلف خریدنے کی پابندی کے علاوہ گاؤں کے مشترکہ واٹر فلٹریشن پلانٹ سے پانی لینے کی اجازت نہیں ہے۔ بچوں کو تعلیمی ادارہ جات میں آتے جاتے تنگ کیا جاتا ہے۔ یہ تو وہاں حالات ہیں۔
شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے پڑدادا مکرم محمد دین صاحب کے ذریعہ سے ہوا جنہوں نے 1934ء میں خلافت ثانیہ کے بابرکت دور میں قادیان جا کر جلسہ سالانہ کے موقع پر بیعت کی تھی۔ شہید مرحوم کے دادا کا نام محمد یعقوب صاحب تھا۔
شہید مرحوم اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ کم گو اور وسیع حوصلے کے مالک تھے۔ ہر کسی سے محبت اور ہمدردی کا تعلق تھا۔ پنجگانہ نمازوں کے پابند تھے۔ جماعتی خدمت میں پیش پیش رہتے۔ جماعتی انتظام کے تحت ہونے والے ورزشی مقابلہ جات میں شمولیت کا بہت شوق تھا۔ حال ہی میں ضلع میں ہونے والے مقابلے میں انہوں نے پہلی پوزیشن بھی حاصل کی تھی۔ شہید مرحوم اپنی والدہ کی مکمل دیکھ بھال کرتے جو دل کی مریضہ ہیں۔ والدہ محترمہ نے بیان کیا کہ مرحوم نہایت اطاعت گزار بچہ تھا کبھی میری نافرمانی نہیں کی۔ رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کے ساتھ ہمدردی اور پیار کرنے والے تھے۔
ان کی ہمشیرہ زاہدہ رفیق کہتی ہیں کہ میرا بھائی ہر ایک کا خیال رکھتا۔ بہت پیار کرنے والا اور ہمدرد بھائی تھا۔ شہادت کا اس کو بھی شوق تھا جو اللہ تعالیٰ نے پورا کر دیا۔ شہادت سے تین دن قبل انہوں نے خواب دیکھی کہ بھائی کو گولی لگی ہے۔ اگلے روز فون کر کے خیریت دریافت کی۔ شہادت والے دن بھی خیریت معلوم کی لیکن کہتے تھے میں مصروف ہوں تو مختصر سی بات ہوئی۔ پھر کہتی ہیںبھائی نے کہا کہ رات کو بات کریں گے مگر پوری طرح بات نہیں ہو سکی اور وہ اسی دن شہید ہوا اور اللہ کے حضور حاضر ہو گیا۔ پھر ان کی بہن کہتی ہیں کہ بھائی کی بابت خواب کی وجہ سے میں بہت پریشان تھی۔دعا کے لیے مجھے خط بھی لکھ رہی تھیں۔ کہتی ہیں میں آپ کو خط لکھ رہی تھی۔ اور جب میں اس فقرے پہ پہنچی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے گولی لگی ہے تو اسی وقت کہتی ہیں مجھے اطلاع ملی کہ بھائی کو تو شہادت کا رتبہ مل گیا ہے۔
بوقت شہادت شہید مرحوم خدام الاحمدیہ ضلع قصور کی مجلس عاملہ میں شامل تھے۔ ناظم تحریک جدید تھے۔ مقامی جماعت میں نائب قائد خدام الاحمدیہ اور ناظم اطفال کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔
پسماندگان میں والدین کے علاوہ دو ہمشیرگان یادگار چھوڑی ہیں۔
نثار احمد صاحب صدر جماعت بھلیرکہتے ہیں کہ شہید مرحوم اعلیٰ خوبیوں کے مالک، بڑے خوش اخلاق شخصیت کے مالک انسان تھے۔ خاکسار نے ان کو باکردار، خاموش طبع، خلافت سے محبت اور اطاعت کرنے والا خادم سلسلہ پایا۔ نمازوں اور چندوں میں باقاعدہ، وقار عمل ،خدمت خلق ،حفاظتی ڈیوٹی گویا ہر شعبہ میں مثالی کام کرنے والے اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ والدین کی خدمت کرنے والا اور ان کا ہر طرح خیال رکھنے والا تھا۔
طارق احمد صاحب معلم ہیں کہتے ہیں کہ شہید مرحوم اعلیٰ خوبیوں کے مالک تھے۔ ان کے گھر ٹیلی ویژن نہیں تھا مگر میرا خطبہ جو جمعہ کا ہے وہ بڑی باقاعدگی سے اپنے فون پہ سنا کرتے تھے یا پھر میرے پاس مشن ہاؤس میں،میرے گھر میں خطبہ سننے کے لیے آجاتے تھے۔ اور کہتے ہیں جب بھی کسی جماعتی کام کے لیے بلایا جاتا تو فوراً حاضر ہوجاتے۔ ہر کام بڑی ذمہ داری سے کرنے والے تھے۔ جماعتی مہمانوں کی بڑے شوق سے خدمت کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ لواحقین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔
پاکستان میں ان دہشت گردی کرنے والوں اور جماعت کی مخالفت کرنے والوں کی جرأت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ان کی پکڑ کے سامان فرمائے۔