خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 13؍نومبر 2009ء

اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ کے ولی وہی ہیں جو آپ ﷺ کی اُمّت میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر عمل بجا لاتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو اس وجہ سے خداتعالیٰ کا قرب پاتے ہیں اور ان کے ہر خوف اور غم کو خداتعالیٰ دور فرما دیتا ہے۔
فی زمانہ خداتعالیٰ کی خاطر جمع ہو کرآپس میں محبت کرنے والی جماعت بننا اور ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو کر ہر خوف سے امن میں آنا صرف مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا طرہ امتیاز ہے اور ہونا چاہئے۔
خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو باہمی محبت، پیار اورنظام جماعت کا احترام اور اطاعت، اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 13؍نومبر 2009ء بمطابق13؍نبوت 1388 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءاللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ۔ لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ۔ لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ۔ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(سورۃ یونس: 63تا65)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ سنو کہ یقیناً اللہ کے دوست ہی ہیں جن کو کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور وہ تقویٰ پرعمل پیرا تھے، ان کے لئے دنیا کی زندگی میں خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی۔ اللہ کے کلمات میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
جیسا کہ ان آیات کے مضمون سے ظاہر ہے ان میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کی حالت اور صفات کا ذکر فرمایا ہے یعنی

لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ

ان پر کوئی خوف طاری نہیں ہوتا۔ دو سرا یہ کہ

وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ

نہ وہ غمگین رہتے ہیں۔ پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ اٰمَنُوْا ایمان لانے والے اور اسے کامل کرنے والے ہیں۔ پھر یہ کہ یَتَّقُوْن تقویٰ میں بڑھنے والے ہیں اور پھر یہ کہ جو اللہ تعا لیٰ کے ولی ہو جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا ولی ہو جاتا ہے۔ ان کو اس دنیا میں بھی خدا کی طرف سے بشارت ہے اور آخرت میں بھی بشارت ہے۔ پس یہ انعامات کا ایک سلسلہ ہے جس سے خداتعالیٰ اپنے ولیوں، دوستوں، حقیقی مومنوں کو نوازتا ہے۔ یعنی ایک حقیقی مومن کو خداتعالیٰ کے تعلق کی وجہ سے، خداتعالیٰ کے اس کے ساتھ جاری سلوک کی وجہ سے یہ تسلی ہوتی ہے کہ انہیں پریشانیوں اور ابتلاؤں کی وجہ سے کوئی حقیقی نقصان نہیں پہنچے گا۔ خطرات پیدا ہو سکتے ہیں، امتحانوں میں سے گزرنا پڑ سکتا ہے، لیکن ایک حقیقی مومن کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ اگر اس دنیا میں کسی قسم کا دنیاوی نقصان ہو بھی گیا تو خداتعالیٰ اپنے فضل سے اسے پورا فرمائے گا اور اگر کسی قسم کا جانی نقصان ہوتا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اگلے جہان میں اپنے وعدے کے مطابق انعامات سے نوازے گا، ایسے انعامات سے کہ تصور سے بھی باہر ہیں۔ لیکن پہلی شرط اللہ تعالیٰ نے یہ لگائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کا حق ادا کرنا ہو گا۔ دنیاوی دوستوں کی خاطر تو ہم بعض اوقات بڑی بڑی قربانیاں دے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا دوست کہلانے اور بننے کے لئے، اس کا کامل طور پر حق ادا کرنے کے لئے ہر وقت نہ صرف تیار رہنا ہو گا بلکہ ایک محبت کے جذبے سے اس کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے عمل بھی کرنا ہو گا۔ اور جب یہ بات ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کے ولی خوف سے باہر ہوں گے۔ خداتعالیٰ کا خوف یعنی یہ خوف کہ کہیں خداتعالیٰ کی دوستی ختم نہ ہو جائے اس کے ولیوں کو ہر قسم کے دنیاوی خوفوں سے محفوظ رکھے گی۔ امام راغب لکھتے ہیں کہ اَلْخَوْفُ مِنَ اللّٰہ۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ گناہوں سے بچنا اور اطاعت کو اختیار کرنا۔ کامل بندگی اور عبادت کی طرف توجہ دینا۔ پس اولیاء اللہ کا مقام یونہی نہیں مل جاتا۔
اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ(السجدۃ:17) اور ان کے پہلو ان کے بستروں سے الگ ہو جاتے ہیں۔ یعنی رات کو نوافل ادا کرنے کے لئے وہ اپنے بستروں کو چھوڑ دیتے ہیں اور وہ اپنے ربّ کو خوف اور طمع کی حالت میں پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کا خوف اس لئے دُور فرمائے گا کہ اُنہیں صرف اور صرف خداتعالیٰ کا خوف ہوتا ہے۔ ہر قسم کے دنیاوی خوفوں کی ان کے نزدیک کوڑی کی بھی اہمیت نہیں ہوتی۔ اور پھر یہی نہیں کہ ان کو کسی قسم کا آئندہ کا خوف نہیں رہے گا کیونکہ ان کا مقصد دنیا نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی رضا ہو گی بلکہ مزید تسلی دی کہ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ وہ گزشتہ باتوں پر غمگین نہیں ہو ں گے۔ یعنی جب خداتعالیٰ کسی کو اس کی غلطیاں کوتاہیاں معاف کرتے ہوئے اپنا ولی بنا لیتا ہے تو اس کی گزشتہ غلطیوں کے اثرات اور صدمات سے بھی اس کو محفوظ رکھتا ہے۔ پس یہ
اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ جب ایک مرتبہ دوست بناتا ہے تو بندہ اگر اس کی دوستی کا حق اداکرنے والا بنا رہے تو خداتعالیٰ جہاں آئندہ کے فضلوں کی ضمانت دیتا ہے وہاں گزشتہ گناہوں کی تختی دھونے کی بھی ضمانت دیتا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت ایسی عظیم ضمانت دینے کا اختیار نہیں رکھتی بلکہ طاقت بھی نہیں رکھتی۔ پس کیا ہی پیارا ہے ہمارا خدا جو سب طاقتوں کا مالک ہے اور اس سے تعلق پیدا کرکے انسان ہر قسم کے خوفوں اور غموں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ مگر افسوس کہ دنیا کا ایک بڑا حصہ خداتعالیٰ کا در چھوڑ کر دوسروں کے در پہ پڑا ہوا ہے اور نہ صرف اس کا در چھوڑ کر دوسرے کے دَر پہ پڑا ہوا ہے بلکہ بغاوت پہ تُلا ہوا ہے۔ خداتعالیٰ کے خلاف کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کے متعلق بحثیں چل پڑی ہیں کہ خداتعالیٰ ہے بھی کہ نہیں ؟ اور خداتعالیٰ کے کسی قسم کے حق ادا کرنے اور اس کی عبادت بجا لانے کی طرف توجہ نہیں ہے۔ ایک بہت بڑی دنیا اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی اور نتیجۃً آگ کے گڑھے کی طرف تیزی سے انسان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ بہت زیادہ توجہ اور استغفار کی ضرورت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْن

کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’خدا تعالیٰ نے ان کو اپنا ولی کہا ہے حالانکہ وہ بے نیاز ہے۔ اس کو کسی کی حاجت نہیں ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے دوست کہا ہے حالانکہ اس کو تو کسی دوست کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’اس لئے استغناء ایک شرط کے ساتھ ہے وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ(بنی اسرائیل:112) یہ بالکل سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ تھُڑ کر کسی کو ولی نہیں بناتا۔ بلکہ محض اپنے فضل اور عنایت سے اپنا مقرب بنا لیتا ہے۔ اس کو کسی کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس ولایت اور قرب کا فائدہ بھی اسی کو پہنچتا ہے‘‘ یعنی انسان کو پہنچتا ہے۔ ’’… یاد رکھو اللہ تعالیٰ کا اجتباء اور اصطفاء فطرتی جو ہر سے ہوتا ہے‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ جب کسی کو پسند کرتاہے، چھانٹتا ہے اور برگزیدگی عطا فرماتاہے تو وہ انسان کے اندر اس کا اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کا جو تعلق ہوتاہے اس کو دیکھتے ہوئے عطا کرتاہے۔ فرمایا کہ ‘’ممکن ہے گزشتہ زندگی میں وہ کوئی صغائر یا کبائر رکھتا ہو‘‘۔ ایک انسان اپنی پہلی زندگی میں چھوٹے اور بڑے گناہ کرنے والا ہو’’لیکن جب اللہ تعالیٰ سے اس کا سچا تعلق ہو جاوے تو وہ کل خطائیں بخش دیتا ہے‘‘۔ ایک گناہگار انسان بھی جو اپنی پہلی زندگی میں بہت گناہ کرنے والا ہے بڑے بڑے گناہ بھی کرتا ہے چھوٹے گناہ بھی کرتا ہے لیکن جب اس کا خداتعالیٰ سے ایک تعلق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پھر اس کی پہلی خطائیں بخش دیتا ہے۔ ’’اور پھر اس کو کبھی شرمندہ نہیں کرتا۔ نہ اس دنیا میں اور نہ آخرت میں۔ یہ کس قدر احسان اللہ تعالیٰ کا ہے کہ جب وہ ایک دفعہ درگزر کرتا اور عفو فرماتا ہے۔ پھر اس کا کبھی ذکر ہی نہیں کرتا۔ اس کی پردہ پوشی فرماتا ہے۔ پھر باوجود ایسے احسانوں اور فضلوں کے بھی اگر وہ’‘یعنی انسان’’منافقانہ زندگی بسر کرے تو پھر سخت بدقسمتی اورشامت ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 595تا 596مطبوعہ ربوہ)
فرمایا:’’برکات اور فیوض الٰہی کے حصول کے واسطے دل کی صفائی کی بھی بہت بڑی ضرورت ہے۔ جب تک دل صاف نہ ہو کچھ نہیں۔ چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ دل پر نظر ڈالے تو اس کے کسی حصہ یا کسی گوشہ میں کوئی شعبہ نفاق کا نہ ہو۔ جب یہ حالت ہو تو پھر الٰہی نظر کے ساتھ تجلیات آتی ہیں ‘‘۔ کسی بھی قسم کی منافقانہ زندگی نہ ہو۔ انسان کے دل میں منافقانہ بات نہ ہو۔ ’’اور معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے ایسا وفادار اور صادق ہونا چاہئے جیسے ابراہیم علیہ السلامنے اپنا صدق دکھایا۔ یا جس طرح پر آنحضرت ﷺ نے نمونہ دکھایا۔ جب انسان اس نمونہ پر قدم مارتا ہے تووہ بابرکت آدمی ہو جاتا ہے۔ پھر دنیا کی زندگی میں کوئی ذلّت نہیں اٹھاتا اور نہ تنگی رزق کی مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے۔ بلکہ اس پر خداتعالیٰ کے فضل و احسان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ اس کو لعنتی زندگی سے ہلاک نہیں کرتا بلکہ اس کا خاتمہ بالخیر کرتا ہے۔ مختصر یہ کہ جو خداتعالیٰ سے سچا اور کامل تعلق رکھتا ہو تو خداتعالیٰ اس کی ساری مرادیں پوری کر دیتا ہے۔ اسے نامراد نہیں رکھتا‘‘۔
(الحکم جلد 8نمبر 8مورخہ 10؍مارچ 1904ء صفحہ5)
پھر ان آیات میں سے جو دوسری آیت ہے اس میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ(یونس:64)

یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور تقویٰ پر چلنے والے ہیں، یہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے اولیاء کی یہ خصوصیت اور صفت ہے کہ وہ ایمان میں بڑھتے چلے جانے والے ہوتے ہیں۔ تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ بھی قائم کرنے والے ہوتے ہیں۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو لایا جائے گا۔ وہ خدا کے سامنے پیش ہوں گے۔ ان کو تین قسموں میں تقسیم کیا جائے گا۔ اولیاء کی بھی آگے قسمیں ہیں۔ پہلے ایک قسم کا آدمی لایا جائے گا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے اس گروپ میں سے ایک نمائندہ بلایا)۔ اس سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ اے میرے بندے! تُو نے نیک اعمال کس وجہ سے کئے تھے؟ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے ربّ آپ نے جنت پیدا کی اور اس کے درخت اور پھل پیدا کئے اور نہریں پیدا کیں اور اس کی حوریں اور اس کی نعمتیں اور جو کچھ بھی آپ نے اپنی اطاعت کرنے والوں کے لئے تیار کیا ہے سب کچھ بنایا۔ پس مَیں نے ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے شب بیداری کی۔ راتوں کو اٹھا۔ نفل ادا کئے اور دن کو روزے رکھے۔ اس پر خداتعالیٰ اسے فرمائے گا کہ اے میرے بندے! تُو نے صرف جنت کی خاطر اعمال کئے۔ سو یہ جنت ہے اس میں داخل ہو جاؤ۔ اور یہ میرا فضل ہی ہے کہ مَیں نے تجھے آگ سے آزاد کر دیا اور یہ بھی فضل ہے کہ مَیں تجھے جنت میں داخل کروں گا۔ پس وہ اور اس کے ساتھی جنت میں داخل ہو جائیں گے۔
پھر دو سری قسم کے آدمیوں میں سے ایک آدمی لایا جائے گا۔ اس سے بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ اے میرے بندے! تُو نے نیک اعمال کس لئے کئے تھے؟ وہ جواب دے گا کہ اے میرے ربّ! تُو نے دوزخ پیدا کی اور اس کی بیڑیاں اور اس کی شعلہ زن آگ اور اس کی گرم ہوائیں اور گرم پانی اور جو کچھ بھی تُو نے اپنے نافرمانوں اور دشمنوں کے لئے تیار کیا ہے، پیدا کیا۔ پس مَیں نے ان چیزوں سے ڈرتے ہوئے رات کو اٹھ کر نفل پڑھے اور دن کو روزے رکھے۔ اس پر خداتعالیٰ فرمائے گا کہ اے میرے بندے! تُونے یہ کام صرف میری آگ سے ڈرتے ہوئے کئے تھے۔ پس مَیں نے تجھے آگ سے آزاد کیا اور اپنے فضل سے تجھے اپنی جنت میں داخل کروں گا۔ پس وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت داخل ہوجائے گا۔
اس کے بعد تیسری قسم کے لوگوں میں سے ایک آدمی لایا جائے گا۔ اس سے بھی خداتعالیٰ پوچھے گا کہ اے میرے بندے! تو نے نیک کام کس وجہ سے کئے تھے؟ وہ کہے گا۔ اے میر ے ربّ !تیری محبت کی وجہ سے اور تیرے ملنے کے شوق میں۔ تیری عزت کی قسم! مَیں راتوں کو جاگا اور مَیں نے دن کو روزے رکھے صرف تیرے شوق اور تیری محبت میں۔ پس مبارک اور بہت بلند خدا اس سے فرمائے گا کہ اے میرے بندے! تُو نے یہ تمام کام میری محبت اور میری ملاقات کے شوق کی وجہ سے کئے تھے۔ سو اپنا بدلہ لے اور اللہ جلّ جلالہٗ اس شخص کے لئے خاص تجلی فرمائے گا اور سارے پردوں کو اپنے چہرے سے دُور کر دے گا اور اس کے سامنے آجائے گا اور کہے گا اے میرے بندے… لے مَیں یہ موجود ہوں۔ میری طرف دیکھ۔ پھر فرمائے گا مَیں نے اپنے فضل سے تجھے اپنی آگ سے آزاد کیا اور جنت کو تیرے لئے جائز کرتا ہوں اور فرشتوں کو تیرے پاس بھیجوں گا اور مَیں خود تجھے سلام کہوں گا۔ پس وہ اپنے ساتھیوں سمیت جنت میں داخل ہو جائے گا۔ (تفسیر فتح البیان۔ سورۃ یونس زیر آیت وما ظن الذین…)
اب تینوں قسموں کے مختلف گروپوں میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے خیال کے مطابق عمل کئے اور تینوں کو اللہ تعالیٰ نے ولیوں میں شمار کیا۔ یہ تفصیلی حدیث ابن کثیر کی ہے جس کو حضرت مصلح مو عودؓ نے تفسیر کبیر میں بھی نوٹ کیا ہے۔ (تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ جلد سوم صفحہ 101-100۔ زیر تفسیر سورۃ یونس آیت 64)
جیسا کہ مَیں نے کہا اس حدیث میں اولیاء کی مختلف قسمیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ایک جنت کا شوق رکھنے والے اور اس جنت کے حاصل کرنے کے لئے عمل کرنے والے۔ دوسرے جہنم کا خوف رکھنے والے اور اس جہنم سے بچنے کے لئے عمل کرنے والے اور نیک عمل کرنے والے ہیں۔ اور تیسرے خداتعالیٰ کی محبت میں فنا لوگ۔ اور تینوں کو جب اللہ تعالیٰ جنت میں داخل ہونے کی اجازت دیتا ہے تو فرماتا ہے یہ تمہارے عمل بھی نہیں بلکہ مَیں اپنے فضل سے تمہیں یہ سب کچھ دے رہا ہوں۔ پس دیکھیں کہ ہر گروہ میں ایک ایک شخص آگے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کو حاصل کرکے جنت میں اپنے ساتھیوں سمیت داخل ہو جاتا ہے۔
آخری گروہ جوخدا تعالیٰ کی محبت میں فنا ہے یقیناً اس کے سردار آنحضرت ﷺ ہی ہوں گے۔ وفات کے وقت بھی آپؐ کے جو الفاظ ہم تک روایت میں پہنچے ہیں وہ یہی ہیں۔ رَفِیْقِ الْاَعْلٰی، رَفِیْقِ الْاَعْلٰی۔ اور آپ کی یہ سب باتیں، اور وفات کے وقت یہ الفاظ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت چاہئے تھی اور اس میں سب سے بلند ترین مقام آپؐ ہی کا تھا۔ پس اولیاء اللہ کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔ لیکن بنیادی بات ایمان اور تقویٰ میں ترقی ہے اور انبیاء اللہ تعالیٰ کے وہ اولیاء ہیں جن کا ایمان کامل ہوتا ہے اور تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہیں اور اس کی بھی اعلیٰ ترین مثال جیسا کہ مَیں نے کہا آنحضرت ﷺ کی ذات ہے۔
اولیاء اللہ کے بارہ میں احادیث میں مزید وضاحت بھی ملتی ہے کہ کون لوگ اللہ تعالیٰ کے ولی ہونے کے حقدار ہوتے ہیں اور کس طرح یہ مقام حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مسند احمد بن حنبل میں ایک حدیث ہے۔ حضرت عمرو بن الجموح بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بندہ اس وقت تک ایمان خالص کا حقدار نہیں ہو سکتا جب تک وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے محبت نہ کرے اوراللہ تعالیٰ ہی کے لئے کسی سے بغض نہ رکھے۔ جب تک وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے کسی سے محبت کرتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے کسی سے بغض رکھتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی دوستی کا حقدار ہو جاتا ہے۔ اور فرمایا اور میرے بندوں میں سے میرے اولیاء اور میری مخلوق میں سے میرے محبوب ترین وہ ہیں جو مجھے یاد رکھتے ہیں اور مَیں انہیں یادرکھتا ہوں۔ (مسند احمد بن حنبل۔ حدیث عمر و بن الجموح)
پس اس حدیث میں خالص ایمان کی یہ نشائی بتائی گئی ہے کہ ان کا ہر عمل حتیٰ کہ آپس کی محبت اور نفرت جو ہے وہ بھی خداتعالیٰ کی رضا کے لئے ہوتی ہے۔ ذاتی عناد اور ذاتی دشمنیاں نہیں ہوتیں۔ اگر انسان اپنا جائزہ لے تو خوف سے کانپ جاتا ہے کہ ایک طرف تو ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم خداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں۔ دوسری طرف بہت سارے ایسے ہیں جن کے دلوں میں ذاتی عناد اور ذاتی بغض بھرے ہوتے ہیں۔ کینے بھرے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ کسی کی غلطیاں دیکھتے ہیں تو معاف نہیں کرنا چاہتے۔ اور جب کسی کو اللہ تعالیٰ کی رضا اس وجہ سے مل جائے کہ ہر فعل اس کا اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کا دوست بن جاتا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث ہے۔ یہ بھی مسند احمد بن حنبل میں ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین باتوں کو پسند فرمایا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کیا ہے۔ اس نے تمہارے لئے پسند فرمایا کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے معاملات کا نگران بنایا ہے اس کی خیر خواہی چاہو۔ اور یہ کہ تم سب اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اور اس نے تمہارے لئے فضول گوئی اور کثرت کے ساتھ سوال کرنے اور مال کو ضائع کرنے کو ناپسند فرمایا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل۔ مسند ابی ہریرہؓ)
اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم ہر ایک پر واضح ہے۔ اس میں فرض عبادت بھی شامل ہے اور نفل عبادت بھی شامل ہے اور جو بھی عبادت سے بے توجہگی برتے گا، اس پر توجہ نہیں دے گا وہ اللہ تعالیٰ کا ولی تو کسی صورت میں کہلانے والا بن ہی نہیں سکتا بلکہ ایک عام مومن بھی نہیں ہے جو ایمان کی طرف ابتدائی قدم ہے۔
دوسری اہم بات اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ باتوں میں سے یہ بیان فرمائی کہ جسے تمہارے معاملات کا نگران بنایا جائے اس کی خیر خواہی چاہو۔ اور نگران کون بنائے جاتے ہیں ؟ نظام جماعت کی طرف سے مقرر کردہ ہر کارکن جو کسی بھی کام پر متعین کیا جاتا ہے وہ ایک حقیقی مومن کا نگران ہوتا ہے۔ پس اس کے ساتھ مکمل تعاون اور اس کی خیر خواہی چاہنا ایک حقیقی مومن کا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے خدا کا دوست بننا چاہتا ہے۔ یہ بات جہاں ایک عام مومن کو اطاعت کی طرف توجہ دلاتی ہے اور ہر قسم کے فساد سے بچنے کی طرف متوجہ کرتی ہے وہاں نگرانوں اور عہدیداروں کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے۔ ایک خوف کا مقام ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تمہاری خیرخواہی چاہ رہا ہے تو پھر تمہیں خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر کس قدر اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں اور نگرانی کا حق ادا کرنا ہے۔ خیر خواہی صرف یکطرفہ عمل نہیں ہے بلکہ جب انصاف کا اعلیٰ ترین معیار قائم ہو گا، نیتیں صاف ہوں گی، اللہ تعالیٰ کی رضا عہدیداروں کو بھی مطلوب ہو گی تو ماتحت بھی اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے عہدیدار کی خیر خواہی چاہے گا۔ بدظنیوں سے دُوری ہو گی اور محبت کی فضاپیدا ہو گی۔
پھر فرمایا اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ یہاں پھر عام مومن کو توجہ دلائی گئی ہے کہ نگران اور عہدیدار کی طرف سے خلاف مرضی باتیں ہو بھی جائیں تب بھی تمہاری طرف سے کوئی ایسا ردّ عمل ظاہر نہ ہو جو کسی قسم کے شر اور فتنے کا باعث بنے۔ اور عہدیداروں کو بھی اس میں ہدایت ہے کہ تمہارے جو ردّ عمل ہیں وہ بھی ایسے ہوں جن میں خداتعالیٰ کا خوف ظاہر ہوتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کی جو رسّی ہے یہ تو بنائی ہی اعمال صالحہ اور تقویٰ سے گئی ہے۔ اس میں اپنے کسی مفاد اور بدعمل کی وجہ سے کمزوری کا باعث نہ بنو کہ جس سے یا رسّی ٹوٹنے کا خطرہ ہو یا کسی شخص کا ہاتھ چھوٹ کر آگ کے گڑھے میں گرنے کا خطرہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے دوست تو خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے ساتھیوں کا ہاتھ پکڑ کر بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ ناپسندیدہ باتوں سے بچو کیونکہ یہ باتیں خداتعالیٰ سے دُور لے جاتی ہیں۔ ان میں فضول گوئی ہے۔ بیہودہ اور لغو باتیں ہیں۔ ایک دوسرے پر اعتراضات ہیں، کیونکہ جب یہ باتیں پیدا ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی رسّی پر گرفت ڈھیلی ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ پھر کثرت سوال اور مال کے ضیاع سے بھی منع فرمایا۔ ایک مومن میں قناعت ہونی چاہئے اور دین کی راہ میں مالی قربانی کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔
پھر ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے مقام کا ایک عجیب نقشہ کھینچا گیا ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جو نہ تو نبی ہیں اور نہ ہی شہید مگر انبیاء اور شہداء قیامت کے دن اللہ کے حضور ان کے مقام کی وجہ سے ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہمیں بتائیں گے کہ وہ کون ہیں ؟ آپؐ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی رحمت کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں نہ کہ رحمی رشتہ داری کی وجہ سے اور نہ ہی ان اموال کی وجہ سے جو وہ ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ اللہ کی قسم ان کے چہرے نور ہیں اور یقیناً وہ نور پر قائم ہیں اور جب لوگ خوف محسوس کریں گے انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اور جب لوگ غمگین ہوں گے انہیں کوئی غم نہ ہو گا۔ اور آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءاللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔

(سنن ابوداؤد کتاب البیوع)
پس یہ لوگ اللہ کے ولی بنتے ہیں جن کا اٹھنا بیٹھنا، اوڑھنا بچھونا خداتعالیٰ کی رضا ہو۔ اور جب خداتعالیٰ کی رضا کی خاطر تمام نیکیاں بجا لائیں گے تو پھر یقیناً ایسے لوگوں پر انبیاء رشک کرتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ان کے متبعین میں سے، ان کے ماننے والوں میں سے ایسے لوگ عطا فرمائے جو نیکیوں کے اعلیٰ معیار کو چھو رہے ہیں۔ انبیاء کی بعثت کا مقصد تو روحانی انقلاب پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پس جب ان کے متبعین اپنے اندر انقلاب برپا کر لیتے ہیں اور اللہ کے ولی ہونے کے اعلیٰ معیار حاصل کر چکے ہوتے ہیں تو یقیناً نبیوں کے لئے یہ رشک کرنے والی بات ہوتی ہے۔ ان کو ان کی نیکیوں کی وجہ سے رشک نہیں آرہا ہوتا بلکہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے ماننے والے وہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے حدیث پڑھی ہے اس سے بھی واضح ہے کہ اولیاء کا جو اعلیٰ ترین معیار ہے وہ انبیاء کو ملتا ہے اور اس میں سے بھی سب سے اعلیٰ معیار جو ہے وہ آنحضرت ﷺ کا ہے۔ پس اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کی بعثت کے بعد اللہ تعالیٰ کے ولی وہی ہیں جو آپ ﷺ کی اُمّت میں شامل ہو کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہر عمل بجا لاتے ہیں اور یہی لوگ ہیں جو اس وجہ سے خداتعالیٰ کا قرب پاتے ہیں اور ان کے ہر خوف اور غم کو خداتعالیٰ دور فرما دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اگر مطلوب ہو گی تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ہر حکم پر بھی نظر ہو گی۔ یہ بھی ایک حقیقی مومن کا کام ہے اور آخری زمانہ میں مسیح موعود کو ماننا بھی خداتعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے۔ اور جیسا کہ احادیث میں بیان ہوا ہے کہ تفرقہ نہ ڈالو۔ اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ یہ سب باتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ کسی ایک نے فرقہ بندی کو ختم کرنا ہے اور وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا جسے خداتعالیٰ نے خود بھیجا ہو۔ جو اللہ تعالیٰ کے ولی ہونے کا اعلیٰ معیار حاصل کر چکا ہو۔ پس فی زمانہ خداتعالیٰ کی خاطر جمع ہو کرآپس میں محبت کرنے والی جماعت بننا اور ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو کر ہر خوف سے امن میں آنا صرف مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا طرہ امتیاز ہے اور ہونا چاہئے۔
پس جہاں یہ غیر از جماعت مسلمانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے احمدیوں کے لئے بھی قابل توجہ ہے کہ اگرخداتعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو محبت، پیار اورنظام جماعت کا احترام اور اطاعت اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔
پھر اگلی آیت میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے خوشخبریاں ہیں اور نہ صرف اس دنیا کے انعامات ہیں بلکہ آخرت کے بھی انعامات ہیں۔ یقیناً ان انعامات کا ملنا ایک مومن کے لئے پیدائش کے مقصد کو حاصل کرنا ہے۔ اور عظیم الشان کامیابی ہے۔
یہ خوشخبریاں کس طرح ملتی ہیں ؟ ان کا کیا مطلب ہے؟ اس بارے میں بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ

لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (یونس:65)۔

بشریٰ سے مراد رویاء صالحہ ہے جسے مومن اپنے متعلق خود دیکھتا ہے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا شخص دیکھتا ہے۔
(مؤطا امام مالک۔ باب ما جاء فی الرؤیا)
اوراسی طرح ایک روایت میں ہے کہ جب یہ عرض کیا گیا کہ ہمیں آخرت کی بشریٰ کے بارے میں تو علم ہے کہ جنت ہے۔ اس دنیا کی بشریٰ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا رؤیا صالحہ ہے جو بندہ دیکھتا ہے یا اس کی خاطر دوسروں کو دکھائی جاتی ہیں۔ ان رؤیاء صالحہ میں انعامات کی خوشخبریاں دی جاتی ہیں۔ پس یہ رؤیا جو ہیں یہ بے مقصد نہیں ہوتیں۔ کبھی خوف کو امن میں بدلنے کے بارہ میں ہوتی ہیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو پورا فرماتا ہے اور مومنین کی زندگی کو جو خوف میں ہوتی ہے امن میں بدل دیتا ہے۔ کبھی انعامات کے نزول کے بارہ میں ہوتی ہیں اور ایک مومن ہر لمحہ اپنی زندگی میں اور جماعتی زندگی میں یہ دیکھتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ انعامات کی بارش برسا رہا ہوتا ہے۔ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ پہلے کئی مومنوں کو بتابھی چکا ہوتا ہے کہ اس طرح ہو گا اور (ویسے ہی)ہوتا ہے۔ پس یہ بھی انعامات ہیں۔ ان کے بارہ میں اللہ تعالیٰ مبشر خوابیں دکھا کر اطلاع دے رہا ہوتا ہے۔ اورپھر بہت ساری مبشر خوابیں ہوتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نواز رہا ہے اور اس کی تائید مومنین کے ساتھ ہے۔ پس جب مومنین کی جماعت کا ہر عمل اور فعل خداتعالیٰ کی خاطر ہو جاتا ہے۔ جب وہ ایک جماعت بن جاتے ہیں اور خداتعالیٰ کے دوست بننے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں آپس کے اس تعلق کی وجہ سے جو خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوتا ہے بشارتیں بھی ملتی ہیں۔ آج ہمیں یہ محبت جماعت اور خلافت کے اس مضبوط رشتہ سے اور خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر نظر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ ایمان میں مضبوطی کی خاطر رؤیا صالحہ مومنین کو دکھاتا رہتا ہے۔ پس جب تک یہ مضبوط رشتہ پروان چڑھتا رہے گا اور قائم رہے گا مومنین اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبریوں سے حصہ پاتے رہیں گے اور ایک مومن کے لئے اللہ تعالیٰ کی بشارتیں عظیم الشان کامیابی کا اعلان کرتی رہیں گی تاکہ ایمان میں ترقی ہوتی رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’یعنی ایماندار لوگ دنیوی زندگی اور آخرت میں بھی تبشیر کے نشان پاتے رہیں گے۔ جن کے ذریعہ سے وہ دنیاا ور آخرت میں معرفت اور محبت کے میدانوں میں ناپیدا کنار ترقیاں کرتے جائیں گے۔ یہ خدا کی باتیں ہیں جو کبھی نہیں ٹلیں گی۔ اور تبشیر کے نشانوں کو پا لینا یہی فوز عظیم ہے۔ یعنی یہی ایک امر ہے جو محبت اور معرفت کے منتہی مقام تک پہنچا دیتاہے‘‘۔ (یعنی محبت اور معرفت کے انتہائی مقام تک لے جاتا ہے۔ )
(تفسیرحضرت مسیح موعودعلیہ السلام جلد سوم صفحہ 678۔ زیر سورۃ یونس آیت 65)
اللہ کرے کہ اس نکتہ کو ہم سمجھنے والے ہوں اور اپنے ایمانوں اور تقویٰ کو اُس معیار تک لے جائیں جہاں خداتعالیٰ کی معرفت اور محبت میں قدم آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں۔ اس کی رضا کی جنتوں کو حاصل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر خوف کو امن میں بدلتا رہے اور ہمارے گناہوں اور لغزشوں کو اپنی رحمت کی چادر میں ڈھانپتے ہوئے ہمارے غموں کو ہمیشہ دُور فرماتا رہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں